خطبات جمعہرسالاتمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:210)

بتاریخ: جمعۃ المبارک21 جولائی 2023ء بمطابق 02 محرم الحرام 1445ھ

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: مقصد قیام امام حسینؑ اور ہماری ذمہ داریاں
نئے اسلامی سال کی آمد ہے اور غم حسینؑ کا آغاز ہے۔آج 2 محرم الحرام ہے جس دن مشہور روایات کے مطابق امام حسین ؑ کا قافلہ سرزمین کربلا پر وارد ہوتا ہے ۔محرم الحرام کی آمد ہمیں چودہ سو سال قبل میدان کربلا میں بپا ہونے والے اس عظیم واقعے کی یاد دلاتی ہے جس میں ۷۲ جانثار‘ حق پرست ‘ دیندار‘ وفا شعار اور متقی اصحاب کے ساتھ حضرت امام حسین علیہ السلام نے جام شہادت نوش کرکے رہتی دنیا تک حق اور باطل میں حد فاصل قائم کرنے کے لئے دائمی اور ابدی کسوٹی فراہم کردی اور ثابت کر دیا کہ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے صحرائے کربلا تک کا سفر اپنی ذات اور مفاد کے لئے نہیں خدا کے دین اور الہی نظام کو بندگان خدا پر نافذ کرانے کے لئے ہے۔ ظالم کو اس کے ظلم سے باز رکھنے اور مظلوم کو اس کے حق کی فراہمی کے لئے ہے۔ اسلام کی شکل بگاڑنے کی مذموم کوشش نا کام بنا کر عالم انسانیت کے سامنے حقیقی اور نبوی اسلام کا تعارف کرانے کے لئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معرکہ کو صرف چند نوجوانوں‘ بوڑھوں‘ بچوں اور خواتین کی معیت میں سر کرلیا جسے بڑی معرکتہ الآراجنگوں میں نہیں جیتا جاسکتا تھا۔ امام عالی مقام کی جنگ یزید سے نہیں بلکہ یزیدیت سے تھی اس لئے آج بھی جب کہیں یزیدیت کی شکل میں کوئی فتنہ اٹھانے لگتا ہے تو حسینیت کی شکل میں اس کی سرکوبی کے لئے طاقتیں سامنے آتی ہیں۔ ماہِ محرم میں نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کی شہادت کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے جو غم کی تقریبیں منعقدکی جاتی ہیں وہ عزاداری کے واضح ترین مصداق ہیں ۔
مظلوم کے غم میں شریک ہونا، ا نسانی فطرت کا تقاضہ اور ستم دیدہ سے ہمدردی وحمایت کا اظہا رہے .یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے عقل و فطرت دونوں ہی بے چون وچرا تسلیم کرتے ہیں۔
ایام محرم میں جہاں غم حسین ؑ کی مجالس بپا کرنا ضروری ہے وہیں کربلا سے متعلق اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی اور ا ن کا ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ کربلا اور قیام امام حسین ؑ سے متعلق ہم اپنی ذمہ داریاں تب ہی سمجھ سکتے ہیں جب ہم صحیح معنوں میں مقصد حسین ؑ کو سمجھ سکیں۔ اس لیے ہم پہلے اس بات پر گفتگو کرتے ہیں کہ قیام امام حسین ؑ کے اہداف و مقاصد کیا تھے اور پھر ان کی روشنی میں آج ہمارے اوپر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
قیام امام حسین علیہ السلام کے اہداف:
جب عزاداری بامقصد ہوگی تو وہ ایسی عزاداری ہوگی جس میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف و مقاصد کو مدنظر رکھا جائے گا اور انہیں زندہ اور دائمی رکھنے کی کوشش کی جائے گی تو ایسی عزاداری بامقصد ہونے کے ساتھ ساتھ مقبول اور موثر بھی ہوگی۔ امام علیہ السلام کے مقاصد خود ان کے فرامین و خطبات میں واضح ہیں:
امت کی اصلاح
أَنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي ص أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَ أَبِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام.
میں طغیانی و سرکشی، عداوت، فساد کرنے اور ظلم کرنے کے لیے مدینہ سے نہیں نکلا، میں فقط اور فقط اپنے نانا کی امت کی اصلاح کرنے کے لیے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور میں اپنے نانا اور اپنے والد علی ابن ابی طالب(علیہ السلام) کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔(بحارالانوار، ج:44 ص:329)
پس معلوم یہ هوا ھے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام امت اسلام کی اصلاح، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام کی سیرت بتانے کے لئے مدینہ سے روانہ هوئے ، لہٰذا ھمیں بھی امت اسلامیہ کی اصلاح کے لئے قدم بڑھانا چاہئے، معاشرہ میں پھیلی هوئی برائیوں کو ختم کرنا چاہئے، اور امر بالمعروف اور نھی عن المنکر جیسے اھم فریضہ پر عمل کرنا چاہئے، نیز سیرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور سیرت علی علیہ السلام پر عمل کرتے هوئے اس کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہئے، اور جب ھماری مجالسوں میں ان باتوں پر توجہ دی جائے گی تو یقینا عزاداری کے مقاصد پورے هوتے جائیں گے ھمارا معاشرہ نمونہ عمل قرار پائے گا، اور معنوی ثواب سے بہرہ مند هوگا، لیکن اگر ھم نے معاشرہ میں پھیلتی هوئی برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی، اور لوگوں کو نیکیوں کا حکم نہ دیا تو مقصد حسینی پورا نہ هوگا، ھم برائیوں میں مبتلا رھیں اور خود کو امام حسین علیہ السلام کا ماننے والا قرار دیں، ھمارے معاشرے میں برائیاں بڑھتی جارھی هوں۔

سنت رسول کا احیاء:
بصرہ کے بزرگان کو امام حسین علیہ السلام کے لکھے گئے خط میں امام کے قیام کا مقصد واضح ہے:
إِنِّي أَدْعُوكُمْ إِلَى اَللَّهِ وَ إِلَى نَبِيِّهِ فَإِنَّ اَلسُّنَّةَ قَدْ أُمِيتَتْ فَإِنْ تُجِيبُوا دَعْوَتِي وَ تُطِيعُوا أَمْرِي أَهْدِكُمْ سَبِيلَ اَلرَّشٰادِ (تاريخ الطبري ج3، ص 280)
میں آپ سب کو قرآن کریم اور رسول خدا(ص) کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں کیونکہ بے شک سنت بالکل ختم اور مر چکی ہے اور بدعت زندہ ہو چکی ہے اور اگر تم لوگ میری بات کو سنو اور میری اطاعت کرو تو میں تم کو صراط مستقیم کی طرف لے جاؤں گا۔
مقتدر طبقے کی نااہلی:
امام حسین علیہ السلام نے لشکرِ حر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا؛
ألا إَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ قَدْ لَزِمُوا طَاعَةَ الشَّيْطَانِ وَ تَركوا  طَاعَةِ الرَّحْمَنِ وَ أَظْهَرُوا الْفَسَادَ وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَ اسْتَأْثَرُوا بِالْفَيْ‏ءِ وَ أَحَلُّوا حَرَامَ اللَّهِ وَ حَرَّمُوا حَلَالَهُ و أنا أحَقُّ مَنْ غَيَّر(الكامل في التاريخ، ج 4، ص 48)
آگاہ ہو جاؤ کہ اس قوم نے شیطان کی پیروی شروع کر دی ہے اور خداوند کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہے، واضح طور پر فتنہ اور فساد کرتے ہیں، احکام اور حدود الہی پر عمل نہیں کرتے،فئ کہ تمام امت کا حق ہے اس کو انھوں نے اپنے لیے مختص کر لیا ہے، خداوند کے حرام کو حلال اور خداوند کے حلال کو حرام کر دیا ہے، میں اس تمام صورت حال کو بدلنے کے لیے دوسروں کی نسبت زیادہ حق رکھتاہوں۔
نصرت دین خدا:
اسی طرح جب کربلا کے راستے میں فرزدق سے ملاقات کی تو آپ نے بدعتوں،حاکم شام کے برے کاموں اور خدا کے دین کی نصرت کی طرف اشارہ فرمایا:
یا فرزدق ان ھؤلاء قوم لزموا طاعة الشیطان و ترکوا طاعة الرحمان و اظھروا الفساد فی الارض وابطلوا الحدود و شربوا الخمور و استاثروا فی اموال الفقراء والمساکین و انا اولی من قام بنصرة دین اللہ و اعزاز شرعہ و الجھاد فی سبیلہ لتکون کلمة اللہ ھی العلیا ۔
ائے فرزدق! یہ وہ گروہ ہے جس نے شیطان کی پیروی کو قبول کرلیا ہے اور خدائے رحمان کی اطاعت کو ترک کردیا ہے، زمین میں کھلم کھلا فساد کرتے ہیں اور حدود الہی کو نابود کررہے ہیں، شراب پیتے ہیں، فقیروں اور بے چاروں کے اموال کو اپنی ملکیت قرار دے لیا ہے اور میں دین خداکی مدد اور اس کے قوانین کی سربلندی کے لئے اپنے آپ کو سب سے زیادہ مستحق سمجھتا ہوں تاکہ خدا کا دین کامیاب ہوجائے (تاريخ طبرى، ج 4، ص 305 و بحارالانوار، ج 44، ص 381)
حق کی سربلندی
امام حسین علیہ السلام کے نزدیک ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کی بجائے حق کی خاطر قیام کرکے موت کو گلے لگانا سعادت ہے:
وَ إِنِّي لَا أَرَى الْمَوْتَ إِلَّا سَعَادَةً وَ الْحَيَاةَ مَعَ الظَّالِمِينَ إِلَّا بَرَماً.بے شک میں موت کو سعادت و خوش بختی سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو اپنے لیے ہلاکت اور عار سمجھتا ہوں۔(بحارالأنوار ج : 44 ص : 192) سید الشہداء علیہ السلام کا دائمی پیغام ہے کہ اگر ساری دنیا بھی مخالف ہو جائے پھر بھی حق کی پاسداری اور ظالم سے بیزاری ترک نہیں کرنی چاہیے،
محمد بن حنفیہ سے فرمایا: يَا أَخِي وَ اَللَّهِ لَوْ لَمْ يَكُنْ مَلْجَأٌ وَ لاَ مَأْوًى لَمَا بَايَعْتُ يَزِيدَ اے بھائی اگر ساری زمین میں میرے لیے کوئی بھی پناہ گاہ نہ ہو تب بھی میں یزید کی بیعت نہیں کروں گا ۔(بحار الانوارج ۴۴ ص۳۲۹)
ظالم کے خلاف قیام:
اسی طرح جب امام حسین ؑ نے دین کو خطرے میں دیکھا تو لوگوں کو نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث یاد دلاتے ہوئے فرمایا:
مَنْ رَأَى سُلْطَاناً جَائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرَمِ اَللَّهِ؛ نَاكِثاً لِعَهْدِ اَللَّهِ؛ مُخَالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اَللَّهِ؛ يَعْمَلُ فِي عِبَادِ اَللَّهِ بِالْإِثْمِ وَ اَلْعُدْوَانِ فَلَمْ يُغَيَّرْ عَلَيْهِ بِفِعْلٍ وَ لاَ قَوْلٍ، كَانَ حَقّاً عَلَى اَللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ مُدْخَلَهُ
جو شخص کسی ایسے جابر بادشاہ کو دیکھے جو اللہ کے حرام کردہ کو حلال کر رہا ہو اور عھد خدا کو توڑ رہا ہو، سنتِ رسولﷺ کی مخالفت کر رہا ہو،بندگان خدا کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کر رہا ہو اور وہ شخص اس کے خلاف اقدام نہ کرے تو اللہ اسے بھی اسی ظالم کے انجام سے دوچار کرے گا۔(الارشاد ج ۲ ص ۲۳۴)
امام حسین علیہ السلام ان کلمات کے ذریعہ اپنے قیام کے ہدف کو بیان کرتے ہیں اور باطل سے جنگ اور دین خدا کو باقی رکھنے کے لئے اپنی شہادت کی آمادگی کا بھی اعلان کرتے ہیں۔اس بنیاد پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام حسین کے اہم اہداف میں سے ایک ہدف دین خدا کو زندہ کرنا،بدعتوں اور بنی امیہ کے فساد سے جنگ کرنا اور اسلام کو منافقین اور دشمنان خدا سے نجات دلانا تھا اور اس راستے میں آپ کو بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی اگرچہ آپ اورآپ کے تمام صحابی شہید ہوگئے لیکن سوئے ہوئے مسلمانوں کے افکار کو ہلاکر رکھ دیا اور ظالم حکومتوں کو لرزا دیا جس کے نتیجے میں اسلام زندہ کو کردیا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے انقلاب کو مضمحل اور کمزور ہونے سے بچالیا اور مسلمانوں کو حیرت و گمراہی سے نجات دلادی ۔
مشہور ومعروف زیارت اربعین میں ملتا ہے : وَ بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِيكَ لِيَسْتَنْقِذَ عِبَادَكَ مِنَ اَلْجَهَالَةِ وَ حَيْرَةِ اَلضَّلاَلَةِ اس(حسین)نے اپنے پاک خون کو تیری راہ میں نثار کردیا تاکہ تیرے بندوں کو جہالت کی گمراہی اور حیرت سے نجات مل جائے ۔
نامِ رسول و دینِ رسول کی بقاء:
اسی طرح ایک روایت میں امام صادق سے ملتا ہے : امام حسین کی شہادت کے بعد جس وقت ابراھیم بن طلحة بن عبیداللہ نے امام سجاد سے خطاب کرتے ہوئے کہا :
يَا عَلِيَّ بْنَ اَلْحُسَيْنِ ، مَنْ غَلَبَ. ؟ ۔ ائے علی بن الحسین ! (اس جنگ میں) کون کامیاب ہوا؟۔
امام نے فرمایا: إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْلَمَ مَنْ غَلَبَ، وَ دَخَلَ وَقْتُ اَلصَّلاَةِ، فَأَذِّنْ ثُمَّ أَقِمْ
اگر یہ جاننا چاہتے ہو کہ کون کامیاب ہوا ہے تو جب نماز کا وقت آجائے تو اذان واقامت کہنا (اور اس وقت دیکھنا کہ کون باقی رہا اور کون فنا ہو گیا) ۔۔۔( الأمالي (للطوسی)  ,  جلد۱  ,  صفحه۶۷۷)
چوتھے امام کہنا چاہتے ہیں کہ یزیدکی حکومت کا مقصد رسول اللہ کے نام کو مٹانا تھا رسول کے دین کو مٹانا تھا۔ لیکن امام حسین نے اپنی شہادت دے کر اس کو اس کام سے روکا اذان اور اقامت کے وقت نام محمد جو کہ اس کے مکتب کے باقی ہونے کی علامت ہے لیا جاتا ہے اور جتنا وقت گذرتا جائے گا یہ حقیقت آشکار ہوتی جائے گی کہ یزید فنا ہوگیا اور امام حسینؑ دین کو بچانے میں کامیاب رہے اس لیے اس جنگ میں حقیقی جیت امام حسینؑ کی ہوئی ہے۔کیونکہ امام خود شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے اور دین کو بچانے میں بھی کامیاب رہے۔
قیام کے ضروری ہونے پر عقلی دلیل
اگر امام حسینؑ مکہ یا مدینہ میں رہ جاتے تو قتل ہو جاتے اور کسی کو پتا بھی نہ چلتا کہ امام کا اصل قاتل کون ہے لیکن اگر امام میدان میں قیام کریں تو دو نیکیوں میں سے ایک نیکی (احدی الحسنین) حضرت کے انتظار میں تھی۔ یا اسلامی حکومت کا قیام اور نااہل یزید کی نااہل حکومت کا خاتمہ یا شہادت اور دشمنان دین کا بے نقاب ہونا۔
اس دلیل کا ماحصل یہ ہے کہ اگر لوگ امامؑ کی حمایت کرتے اور یزید کی حکومت ختم ہو جاتی تو یہ اسلام کے مفاد میں ہوتا اور کامیابی حاصل ہو جاتی یہ ایک خدائی نعمت تھی جس سے دین کا بول بالا ہوتا اور ہر طرف اسلام دوبارہ سے صحیح معنوں میں نافذ ہوجاتا۔ اور اگر لوگ امامؑ کی مدد نہیں کرتے تو حضرت شہید ہو جاتے تو ایک طرف آپ دین خدا پر جان قربان کرکے شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوجاتے اور دوسری طرف یزید کی حکومت ذلیل و رسوا ہو جاتی اور امام کے خون سے اسلام زندہ ہو جاتا۔ اور اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ یعنی صحرائے کربلا میں امامؑ کی مظلومانہ شہادت اور اتنی بڑی تعداد میں سپاہ یزید کا آپ کے خلاف اعلان جنگ سبب بنا کہ بنی امیہ کے مظالم کے خلاف ہر جگہ آواز اٹھے اور وہ رسوا ہوں اور سب کو پتا چلے کہ دین رسول کے ساتھ مخلص کون ہیں اور دین رسول کے سچے وارث کون ہیں۔اور شجر اسلام ہمیشہ کے لئے سرسبز و شاداب ہو جائے۔اگر امام اس موقع پر شہادت پیش نہ کرتے تو لوگ یزید کی ناجائز حکومت اور اس کے غیر اسلامی کاموں کو اسلام کا ہی حصہ سمجھ لیتے اور یوں اسلام اور اسلامی کی حقیقی تعلیمات مٹ جاتیں۔اسی لیے یہ قول درست ہے کہ الاسلام محمدی الوجود حسینیی البقاء کہ اسلام کا وجود محمدی اور اس کی بقاء حسینی ہے۔
مجالس وعزاداری کے اہداف و مقاصد
قیام امام سے متعلق ہم اپنی گفتگو سے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہماری مجالس و عزاداری کے مقاصد مندرجہ ذیل ہونے جاہیں:
1۔ اسلام کی عظیم ہستیوں محمد و آل محمد علیھم السلام کا مقام پہچنوانا اور معرفت کرانا کہ جن کی تمام زندگی اسلامی معاشرے کیلئے نمونہ عمل ہے۔
2۔ اہل بیت علیھم السلام سے عشق اور محبت میں اضافہ
3۔ طلب کمال اور فضیلت
4۔ دین کی طرف دعوت اور حقائق سے آگاہی اور لوگوں کو اصلاح کی طرف بلانا اور فساد و انحراف سے روکنا
5۔ لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے قیام اور اس کے مقاصد سے آگاہ کرنا
6۔ مجالس عزا کے ضمن میں بھوکوں اور ناداروں کو کھانا کھلانا (جو کہ قرآن و اسلام کے مؤکد دستورات میں سے ہے)
7۔ اہلبیت علیھم السلام کے مصائب کو یاد کرنا جس سے اپنی سختیاں اور مصائب آسان ہوجاتی ہیں۔
8۔ رسول خدا ﷺ ،حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور تمام ائمہ علیہم السلام سے عشق، محبت و وابستگی و اطاعت کا اظہار
9۔ واقعہ عاشورا فراموش نہ ہونے دینا، کیونکہ اگر یہ عزاداری نہ ہوتی تو آنے والی نسلیں حقیقت سے بے خبر رہتیں
10۔ ظالموں کےظلم و ستم کو افشا کرنا
11۔ انسانی اور خدائی فضائل میں رشد اور شہادت کیلئے روح کی پرورش کرنا
12۔ اسلام اور حقیقی اسلامی تعلیمات کو زندہ رکھنا کیونکہ اس عزاداری سے اسلام بھی زندہ رہاہے۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button