امام علی علیہ السلام کی شہادت اور وصیت

رسول اسلام نے امام علیؑ کو شھادت کی خبردی
محمد بن علی ابن بابویہ معروف بہ شیخ صدوق علیہ الرحمۃ کتاب عیون اخبار الرضا ج(۱) ص ۲۹۷ پر تحریر فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام فرماتے ہیں کہ جس دن پیغمبر اسلام نے ماہ مبارک رمضان کے سلسلہ میں اپنا مشہور و معروف خطبہ ارشاد فرمایا میں نے اٹھ کر انحضرت سے دریافت کیا کہ اس ماہ میں سب سے بہترین عمل کیا ہے تو حضرت نے فرمایا کہ گناہوں سے دور رہنا، اس کے بعد پیغمر اسلام کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور مجھے بتایا کہ تم اس ماہ میں شھید کیئے جاؤگے۔
حضرت علی علیہ السلام تقریبا ۳۰ سال پہلے پیغمبر اسلام کی زبانی سن چکے تھے کہ وہ ماہ مبارک رمضان میں شھید کیئے جائیں گے۔
سن ۴۰ ہجری کے رمضان المبارک کو امام کی باتوں سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ انہیں علم ہے کہ وہ اس مہینہ میں شھید کئے جائیں گے، حضرت نے فرمایا کہ میں امسال تمہارے ساتھ نہ ہوں گا۔ جب کسی نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ افطار کے وقت اتنی کم غذا کیوں تناول فرماتے ہیں تو حضرت نے فرمایا کہ چاہتا ہوں کہ خالی پیٹ خدا سے ملاقات کروں۔
شیخ مفید کتاب الارشاد ص ۸ پر تحریر فرماتے ہیں سن ۴۰ ہجری کی ۱۹ ویں رمضان المبارک کو حضرت بلکل نہیں سوئے اور بار بار فرماتے رہے کہ خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں بولتا اور نہ مجھ سے کبھی جھوٹ بولا گیا، وعدہ کی رات آج کی رات ہے۔
امام کے قاتلین:
جنگ صفین میں شکست اور ابوموسی اشعری کو عمر عاص کے ہاتھوں دھوکہ کھانے کے بعد جنگ نہروان اور پھر خوارج وجود میں آئے، خوارج کی تین بڑے افراد کہ جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کی تکفیر کی اور خونخواہی کی غرض سے تین حکمرانوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان میں سے بَرک بن عبداللہ معاویہ کے قتل کے لئے شام روانہ ہوا، عمر بن بکر نے عمرو بن عاص کو مدینہ میں قتل کرنے کی ذمہ داری لی اور تیسرا عبدالرحمن بن ملجم مرادی، امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے قتل کے لئے کوفہ پہنچا۔
مورخین تحریر کرتے ہیں کہ ابن ملجم کی ایک خارجی کے مکان میں قطامہ شِجنہ بن عدی سے ملاقات ہوئی کہ جس کے بھائی اور باپ جنگ نہروان میں مارے گئے تھے، قطامہ بہت ہی حسین اور جمیل عورت تھی، ابن ملجم نے اس سے محبت کا اظہار کیا اور شادی کی خواہش ظاہر کی، قطامہ نے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے کہا کہ میں شادی کے لئے راضی ہوں مگر میرا مہر تین ہزار درہم، ایک غلام اور علی ابن ابی طالب کا قتل ہے۔
ابن ملجم نے امتحانا قطامہ سے کہا کہ پہلی دو شرطیں قبول ہیں مگر مجھے علی کے قتل سےمعاف کردے۔
قطامہ نے جواب دیا کہ تیسری شرط یعنی علی کے قتل کی شرط سب سے اہم ہے اگر تم اپنی مراد چاہتے ہو تو اس کام کو ضرور انجام دو۔ تو ابن ملجم نے جواب میں کہا کہ میں کوفہ نہیں آیا مگر اسی غرض سے، قطامہ کے مطالبہ نے ابن ملجم کے ارادہ کو مزید پختہ کردیا تھا۔
آخر وہ رات آہی گئی کہ جس کی رسول اسلام نے پیش گوئی کی تھی،نماز صبح کے سجدے میں امام علیہ السلام کے سر پر اس ملعون نے وار کیا۔ ابن ملجم کی تلوار کا زخم بڑا گہرا تھا، امام گھر لائے گئے حکیم نے علاج کرنے کی کوشش تو کی مگر زہر نے اپنا اثر دیکھا دیااور چہرے کا رنگ زرد پڑنے لگا تو جراح نے مولا سے کہا کہ آپ وصیتیں فرمادیجئے۔
امام علی کی وصیت
اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ وَاِنْ لَا تَبْغِیَاالدُّنْیَا وَاِنْ بَغَتْکُمَا وَلَا تَأَسَفًا عَلیٰ شَیْ ءٍ مِنْھَا زُوِیَ عَنْکُمَا وَقُوْلَا بِالْحَقِّ وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا اُوْصِیْکُمَا وَجَمِیْعَ وَلَدِیْ وَاَھْلِیْ وَمَنْ بَلَغَہُ کِتَابِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَنَظْمِ اَمْرِکُمْ وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ۔ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ یَقُوْلُ:صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْاَیْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ وَلَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّھُمْ وَصِیَّۃُ نَبِیِّکُمْ، مَازَالَ یُوْصِیْ بِھِمْ، حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُوَرِّثُھُمْ وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الصَّلوٰۃِ، فَاِنَّھَاعَمُودُ دِیْنِکُمْ وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْہُ مَابَقِیْتُمْ فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ لَا تَتْرُکُواالْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔
یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ، وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ (صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ: ”اِیَاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔
میں تم دونوں کو خدا سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور دنیا کی طرف مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری طرف مائل ہو اور دنیا کی جو چیز تم سے روک لی جائے اس پر افسوس نہ کرنا اور جو بھی کہنا حق کے لئے کہنا اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا اور ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا میں تم دونوں کو، اپنی دوسری اولادوں کو، اپنے کنبے کے افرادکواور جن لوگوں تک میرایہ نوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا اورباہمی تعلقات کو سلجھائے رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ:آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔
دیکھو! یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہناان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہارے ہوتے ہوئے وہ برباد نہ ہوں۔دیکھو! اپنے ہمسایوں کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، کیونکہ ان کے بارے میں تمہارے نبیؐ نے برابر ہدایت کی ہے آپ ؐان کے بارے میں اس قدر تاکید فرماتے تھے کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ آپ ؐاُنھیں بھی ورثہ دلائیں گے اور قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہےاور اپنے رب کے گھر کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، جیتے جی اسے خالی نہ چھوڑنا کیونکہ اگریہ خالی چھوڑ دیا گیا توپھر (عذاب سے) مہلت نہ پاؤ گے۔
اپنے اموال، جان اور زبان سے راہِ خدا میں جہاد کے سلسلے میں خدا سے ڈرتے رہنا تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرناخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔
دیکھو!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تو وہ قبول نہ ہوگی۔
اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔دیکھو! میرے بدلے میں صرف میرا قاتل ہی قتل کیاجائے۔
دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
https://ur.rasanews.ir/ur/news