سیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

اپنے اصحاب کی تربیت میں امام علیؑ کا طریقہ کار

مقالہ نگار:
محمد بشیر ذاکری
الکوثر اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد

چکیدہ
شخصیت ساز ہونا ایک بلند مرتبہ ہے کہ جو ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ بہترین معلم و استاد وہ ہے کہ جو علوم ومعارف اس کے پاس ہیں انہیں بہترین طریقے سے شاگردوں تک پہنچائے اور ان کی تربیت کریں، مناسب مواقع پر بااثر طریقے سے شاگردوں کی تربیت کرنا ایک قابل ترین استاد ہی کی خصوصیت ہے ، امام علیؑ جو کہ باب العلم ہے اپنے اصحاب کی تربیت میں کیا کیا طریقے اپنائے ہیں اس حوالے سے یہ مقالہ لکھا گیا ہے۔

مقدمہ

الحمد لاھلہ والصلاۃ والسلام علیٰ اھلھا
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس وقت کچھ بھی نہیں جانتا ہے جیسے قرآن میں ہے: وَ اللّٰہُ اَخۡرَجَکُمۡ مِّنۡۢ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا۔
اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔
پھر اسے سیکھایا اور اس کی تربیت کیں جیسے اللہ تعالی فرماتے ہیں: عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ۔
اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔
یہ سیکھنے کا سلسلہ ماں کی گود سے شروع ہوکر قبر تک جاری رہتا ہے۔ اس سلسلہ میں انسان دو افراد سے ذیادہ متاثر ہوتا ہے اور ان کی تربیت سے پروان چڑھتا ہے، ان سے اس کی شخصیت بنتی ہے۔ ان میں سے ایک اس کی ماں ہے اور دوسرا استاد۔ ماں کا دائرہ تربیت محدود ہے وہ ہے گود سے لے کر معاشرہ تک پہنچانا جبکہ استاد کی دائرہ تربیت بہت وسیع ہے وہ ہے تا دم مرگ تک۔ یہی معلم و استاد ہی انسان کی شخصیت سنوارتی ہے لہذا استاد کا مرتبہ کوئی معمولی نہیں ہے، جتنا استاد بلند پایہ کا ہوگا شاگر کو بھی وہیں بلکہ اس سے آگے لے جانے کی کوشش کرے گا۔ معلم و استاد اس شخصیت کا نام ہے جو انسان کو اللہ کی معرفت اور مقام انسان سمجھاتے ہیں۔ جو بندے کو خدا تک پہنچاتے ہیں۔اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انّما بعثت معلماً۔ مجھے معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔اسی سے اہمیت معلم و استاد سمجھ میں آتا ہے کہ یہ کتنا بلند مرتبہ ہے۔ اب ہم اس معلم و استاد کے طریقے تربیت و تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں جس کی اپنی تربیت اللّٰہ کے آخری رسول معلم انسانیت نے کی ہے۔ جب رسول اعظم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم جیسے بلند مرتبہ استاد کی تربیت جسے حاصل ہو اس نے اپنے اصحاب و انصار، شاگردوں کی کس انداز میں تربیت کی ہوگی۔ اور کن کن مواقع پر کیا کیا طریقے اپنا کر اپنے اصحاب و انصار کی تربیت کی ہوگی؟آپؑ کی وہ طریقے وہ حکمات آج تک اور قیامت تک کے لیے نمونہ عمل بنے۔
اس مقالے کو لکھنے کے دوران محسن ملت مفسر قرآن استاد بزرگوار علامہ شیخ محسن علی نجفی اعلی اللہ مقامہ کی اس اچانک سانحہ ارتحال نے پوری ملت تشیع کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہوا اسی کی زیر اثر حقیر کے لیے بھی کچھ لکھنے کی سکت نہ ہوئی پھر بھی اس ذھنی پراکندگی کے باوجود کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے امید ہے قارئین کے لیے مفید ثابت ہو اور مولا امیر المومنین اس ناچیز نظرانہ کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے۔
اس مختصر مقالے میں ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاکرد رسول اللہ ﷺ، باب مدینہ علم، امیر المومنین، امام علی علیہ السلام کا اپنے اصحاب کی تربیت میں کیا کیا طریقے اپنائے ہیں اختصار کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔
تربیت اصحاب کی طریقے
امام علیؑ  نے درج ذیل طریقوں سے اپنے اصحاب کی تربیت کیں:
1۔ دوران مصاحبت تعلیم دینا
عالم اور دانا شخصیت سے ملنا اور مصافحہ کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ وہ عالم و دانا شخص اس ملنے والے کو کوئی نہ کوئی گوہر علم دے دیا جاتاہے۔ اسی وجہ سے رسول خدا ؐنے فرمایا ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیؑ سے پوچھا ہم کن لوگوں کے ساتھ بیٹھیں۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
مَنْ يُذَكِّرُكُمُ اللّٰهَ رُؤْيَتُهُ وَ يَزِيدُ فِي عِلْمِكُمْ مَنْطِقُهُ۔ جن کی صورت سے ذکر خدا یاد آئے جن کی گفتگو سے تمہارا علم زیادہ ہو۔
لہذا چونکہ اس صحبت و مجلس عالم و دانا میں بیٹھنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے غلطیوں کی اصلاح ہوتی ہے گمراہ کو راہ راست ملتی ہے اسی طریقے کو اپناتے ہوئے امیر المومنینؑ نے کئی موقعوں پر اپنے اصحاب و دیگر لوگوں کی اصلاح و تربیت فرمائی ہے۔ جیسے بطور مثال کہ امیر المومنین علیہ السلام جب اہل بصرہ سے جنگ کیلئے نکلے۔ عبداللہ بن عباس کہتا ہے کہ میں مقامِ ذی قار میں حضرتؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپؑ اپنا جوتا ٹانک رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ: اے ابنِ عباس! اس جوتے کی کیا قیمت ہو گی؟ میں نے کہا کہ: اب تو اس کی کچھ بھی قیمت نہ ہو گی، تو آپؑ نے فرمایا کہ:وَ اللّٰهِ! لَهِیَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اِمْرَتِکُمْ، اِلَّاۤ اَنْ اُقِيْمَ حَقًّا، اَوْ اَدْفَعَ بَاطِلًا. اگر میرے پیش نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا نہ ہوتا تو تم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے۔
اسی طرح کسی اور موقع پر فرمایا :وَ اَللّٰهِ إِنَّ دُنْيَاكُمْ عِنْدِي أَهْوَنُ مِنْ عُرَاقِ خِنْزِيرٍ فِي يَدِ مَجْذُومٍ. خدا کی قسم! تمہاری یہ دنیا میرے نزدیک سور کی ان انتڑیوں سے بھی زیادہ ذلیل ہے جو کسی کوڑھی کے ہاتھ میں ہوں۔پس اس تھوڑی سی ملاقات کے دوران مولا نے اپنے خاص صحابی کی تربیت کی اور دنیوی حکومت کی اہمیت اگر حق کی قیام کے لیے نہ ہو تو کس حد تک بے ارزش ہے اور اگر حق کی قیام مقصود ہو تو جدو جہد کرنا چاہیے اسے سمجھایا۔
2۔ سوالات و جوابات کی صورت میں تربیت
سیکھنے اور سیکھانے کا ایک بہترین طریقہ سوالات و جوابات کی صورت بھی ہے۔ دنیا میں یہ طریقہ بہت رائج ہے جیسے شاگرد استاد سے، بیٹا باب سے، نہ جاننے والے جاننے والوں سے سوال کرتا ہے جس کے نتیجے میں جواب کی صورت میں اس کی لاعلمی دور ہو جاتی ہے۔ یا علم میں اضافہ ہوتا ہے قرآن میں بھی خدا نے اس طریقہ کو بہت اہمیت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے جیسے:فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔ اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی اس آیت کی ذیل میں لکھتے ہیں:یہاں آیت اگرچہ گزشتہ انبیاء کا حال جاننے والوں سے پوچھنے کے بارے میں ہے لیکن آیت کا عموم ہر نہ جاننے والے کے لیے جاننے والوں کی طرف رجوع کرنا واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔
اسی طرح اس سوال و جواب کی اہمیت کی پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا:
لا ینغبی للعالم ان یسکت علی علمہ ولا ینبغی للجاہل ان یسکت علی جھلہ و قد قال اللّٰہ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ فینبغی للمؤمن ان یعرف عملہ علی ھدی ام علی ضلال۔ عالم کو اپنے علم اور جاہل کو اپنی جہالت پر سکوت اختیار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔ لہٰذا مؤمن کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل کے بارے میں جان لے کہ ہدایت پر ہے یا ضلالت پر۔
مقصد سوال کرنا سیکھنے اور اصلاح ہونے کے لئے بہترین ذریعہ ہونے کی پیش نظر امیر المومنین علیؑ نے کئی مرتبہ اپنے اصحاب سے فرمایا:
سَلُونِي قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِي۔ مجھ سے پوچھ لو اس سے پہلے کہ میں تمہارے درمیان نہ رہوں۔لہذا امامؑ  نے اپنے اصحاب کی تربیت میں اس طریقہ کا بہت ذیادہ استعمال کیا ہے۔ اس کا ایک نمونہ جس میں امام علی ؑنے ذعلب یمنی نامی شخص کےسوالات کی جواب میں اسے خدا کی بندگی کرنے کا طریقہ سیکھایا اور اس کی تربیت کی وہ یہ ہے:ذعلب یمنی نے آپؑ سے سوال کیا کہ: هَلْ رَاَیْتَ رَبَّكَ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ؟یا امیر المومنینؑ! کیا آپؑ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ آپؑ نے فرمایا: اَفَاَعْبُدُ مَا لَاۤ اَرٰی؟ فَقَالَ: وَ كَیْفَ تَرَاهُ؟ فَقَالَ: کیا میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جسے میں نے دیکھا تک نہیں؟ اس نے کہا کہ آپؑ کیونکر دیکھتے ہیں؟تو آپؑ نے ارشاد فرمایا کہ:لَا تَرَاهُ الْعُیُوْنُ بِمُشَاهَدَةِ الْعِیَانِ، وَ لٰكِنْ تُدْرِكُهُ الْقُلُوْبُ بِحَقَآئِقِ الْاِیْمَانِ، قَرِیْبٌ مِّنَ الْاَشْیَآءِ غَیْرُ مُلَامِسٍ، بَعِیْدٌ مِّنْهَا غَیْرُ مُبَایِنٍ، مُتَكَلِّمٌۢ لَا بِرَوِیَّةٍ، مُرِیْدٌۢ لَا بِهِمَّةٍ، صَانِعٌ لَّا بِجَارِحَةٍ.
آنکھیں اسے کھلم کھلا نہیں دیکھتیں، بلکہ دل ایمانی حقیقتوں سے اسے پہچانتے ہیں۔ وہ ہر چیز سے قریب ہے،لیکن جسمانی اتصال کے طور پر نہیں، وہ ہر شے سے دور ہے، مگر الگ نہیں، وہ غور و فکر کئے بغیر کلام کرنے والا اور بغیر آمادگی کے قصد و ارادہ کرنے والا اور بغیر اعضاء (کی مدد) کے بنانے والا ہے۔لَطِیْفٌ لَّا یُوْصَفُ بِالْخَفَآءِ، كَبِیْرٌ لَّا یُوْصَفُ بِالْجَفَآءِ، بَصِیْرٌ لَّا یُوْصَفُ بِالْحَاسَّةِ، رَحِیْمٌ لَّا یُوْصَفُ بِالرِّقَّةِ. تَعْنُو الْوُجُوْهُ لِعَظَمَتِهٖ، وَ تَجِبُ الْقُلُوْبُ مِنْ مَّخَافَتِهٖ.وہ لطیف ہے لیکن پوشیدگی سے اسے متصف نہیں کیا جا سکتا، وہ بزرگ و برترہے مگر تند خوئی و بدخلقی کی صفت اس میں نہیں، وہ دیکھنے والا ہے مگر حواس سے اسے موصوف نہیں کیا جا سکتا، وہ رحم کرنے والا ہے مگر اس صفت کو نرم دلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، چہرے اس کی عظمت کے آگے ذلیل و خوار اور دل اس کے خوف سے لرزاں و ہراساں ہیں۔ اس صحابی کی سوال کے جواب میں مولا نے بہترین طریقے سے اسے خدا کے حوالے سے تصور اور خدا کی صفات اور بندگی سمجھا کر اس کی تربیت کی۔
3۔ امانت داری کے ذریعے تربیت کرنا
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ امام علی علیہ السلام ہر لحظہ اور ہر آن لوگوں کی اصلاح اور ان کی تربیت کرنے کا فکر مند ہوتا تھا اور ہر لمحہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنے اصحاب اور پیروکارں کی تربیت فرماتے اور انہیں راہ راست کی طرف رہنمائی کرتے۔ انہیں طرق تربیت میں سے ایک طریقہ امام ؑ کا بیت المال کو اپنے پاس لوگوں کی طرف سے امانت سمجھنا اور اس کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اصحاب کی تربیت کرنا بھی ہے۔ بطور مثال جیسا کہ یہ واقعہ مشھور ہے کہ مولا علی ؑکا بھائی عقیل بن ابی طالب جو سخت فقر و فاقے کا شکار تھا امامؑ کی دور حکومت میں بیت المال سے کچھ زیادہ دینے کا مطالبہ کیا جیسا کہ اس کے بارے میں خود امام علی ؑاپنے خطبے میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَاللّٰهِ! لَقَدْ رَاَیْتُ عَقِیْلًا وَّ قَدْ اَمْلَقَ حَتَّی اسْتَمَاحَنِیْ مِنْۢ بُرِّكُمْ صَاعًابخدا! میں نے (اپنے بھائی )عقیل کو سخت فقر و فاقہ کی حالت میں دیکھا، یہاں تک کہ وہ تمہارے (حصہ کے) گیہوں میں ایک صاع مجھ سے مانگتے تھے۔ فَاَحْمَیْتُ لَهٗ حَدِیْدَةً، ثُمَّ اَدْنَیْتُهَا مِنْ جِسْمِهٖ لِیَعْتَبِرَ بِهَا،مگر میں نے یہ کیا کہ ایک لوہے کے ٹکڑے کو تپایا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ عبرت حاصل کریں۔
اور آگے فرمایا اے عقیل! رونے والیاں تم پر روئیں کیا تم اس لوہے کے ٹکڑے سے چیخ اٹھے ہو جسے ایک انسان نے ہنسی مذاق میں (بغیر جلانے کی نیت کے) تپایا ہے اور تم مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو کہ جسے خدائے قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا ہے۔ تم تو اذیت سے چیخو اور میں جہنم کے شعلوں سے نہ چلاؤں۔ اسی طرح کسی اور مقام پر اس طرح آیا ہے کہ جب عقیل نے بیت المال سے کچھ دینے کا مطالبہ کیا تو مولا ؑنے عقیل سے پوچھا:
مَا تَقُولُ فِيمَنْ خَانَ هَؤُلاَءِ أَجْمَعِينَ قَالَ بِئْسَ اَلرَّجُلُ ذَاكَ قَالَ فَأَنْتَ تَأْمُرُنِي أَنْ أَخُونَ هَؤُلاَءِ وَ أُعْطِيَكَ.
اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جو ان تمام لوگوں سے خیانت کریں؟ تو عقیل نے کہا اس شخص سے بتر کوئی نہیں۔امامؑ نے فرمایا تو تم مجھے ان سب سے خیانت کر کے تجھے دینے کا کہہ رہے ہو ۔
4۔ بیت المال کی برابر تقسیم بندی اور تربیت
امام علیؑ کے طریقہ تربیت میں سے ایک بیت المال کی تقسیم بندی کے وقت دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت امام ؑ ہر کسی کو برابر کے حساب سے دیتا ہے کالے گورے، امیر و غریب، خاندان اور قبیلہ والے اور غیر خاندانی وغیرہ کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا۔ اب اگر کوئی شخص اپنے آپ کسی بھی حوالے سے ذیادہ کا حقدار سمجھ کر آپ ؑسے ذیادہ مال کا مطالبہ کرتا ہے تب امام علیہ السلام اسے دوٹوک جواب دیتا ہے اور انہیں راہ راست دیکھا دیتا ہے۔ جیسے طلحہ و زبیر جن کا شمار سابقین اسلام اور پیغمبرِ اکرم ؐ کے قریبی اصحاب میں سے ہوتے تھے۔ وہ دونوں امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور گلہ شکوہ کرتے ہوئے کہنے لگے: لِأَنَّكَ جَعَلْتَ حَقَّنَا فِي اَلْقَسْمِ كَحَقِّ غَيْرِنَاآپؑ نے بیت المال کی تقسیم میں ہمیں دوسروں کے برابر قرار دیا ہے
وَ سَوَّيْتَ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ مَنْ لاَ يُمَاثِلُنَا فِيمَا أَفَاءَ اَللَّهُ بِأَسْيَافِنَا وَ رِمَاحِنَاہمیں ان لوگوں کے برابر سجمھا ہے جو کسی بھی لحاظ سے ہم جیسے نہیں دین کے خاطر تیر و تلوار چلانے میں۔گویا انہوں نے یوں کہا کہ یہ کونسا طریقہ ہے؟ آخر آپ فرق کے قائل کیوں نہیں ہیں ؟
امیر المومنینؑ نے جواب میں فرمایا:وَ أَنَّ ذَلِكَ لَمْ أَحْكُمْ فِيهِ بَادِئَ بَدْءٍ۔اس طریقہ کار کا بنیاد گزار میں تو نہیں ہوں،
وَ قَدْ وَجَدْتُ أَنَا وَ أَنْتُمَا رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ يَحْكُمُ بِذَلِكَ۔ میں اور تم دونوں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح کیا کرتے تھے۔یعنی میں نے کوئی نیا کام نہیں کیا ہے بلکہ میں تو حضور ؐ کی سی روش پر عمل پیرا ہوں۔یہاں پر مولا علیؑ نے تقسیم بندی بیت المال کے ذریعے طلحہ و زبیر کی تربیت کی اور انہیں برابری و مساوات سمجھا دیا۔

5۔ دوران جنگ تربیت کرنا
ایک مہربان استاد کی کوشش ہوتی ہے کہ جو فن وہ جانتا ہے اسے اپنی شاگرد کو سیکھائے اور اسے بھی اسی فن کا ماہر بنائیں۔ جنگ و جدال میں مرد میدان ہونا بھی ایک بہترین فن ہے۔ اسلام میں بھی ایک اہم حصہ جہاد کا ہے جسے دشمنان اسلام کے ساتھ لڑی جاتی ہے۔ جس ریاست کی فوج کمزور ہو اس ریاست کا استحکام مشکل ہوتا ہے اسی طرح ریاست اسلامی کی استحکام کے لیے بھی مجاہدین اسلام کا ہر لحاظ سے مظبوط اور بہادر ہونا ضروری ہے۔ امیر المومنین ؑ جو اولین مجاہدہے جس نے رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں دشمنان اسلام سےکئی جنگیں لڑی اور فتح حاصل کر کے اسلام اور مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔ جب آپ ؑ جنگ خندق میں عمر بن عبدود کی مقابل جارہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے آپؑ کی شان میں فرمایا ہے۔
بَرَزَ اَلْإِسْلاَمُ كُلُّهُ إِلَى اَلْكُفْرِ كُلِّهِ۔ کل ایمان کل کفر کے مقابل جا رہے ہیں۔آپؑ کی شجاعت کی نوید جبرئیلؑ یوں سناتے ہوئے نازل ہوگئی:
لاَ سَيْفَ إِلاَّ ذُو اَلْفَقَارِ وَ لاَ فَتَى إِلاَّ عَلِيٌّ۔ کوئی تلوار نہیں ذرلفقار کے سوا اور کوئی جوان نہیں علی ؑکے سوا۔اب اسی مجاہد، شہسوار، مرد میدان نے دوران جنگ اپنے اصحاب کی تربیت کی اور طریقہ حرب سیکھایا تاکہ یہ لوگ مضبوط مجاہدین بنے اور ریاست اسلامی مستحکم کریں۔ بطور مثال جیسے صفین کے دنوں میں اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے:مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِیْنَ! اسْتَشْعِرُوا الْخَشْیَةَ….اے گروہِ مسلمین! خوفِ خدا کو اپنا شعار بناؤ، اطمینان و وقار کی چادر اوڑھ لو اور اپنے دانتوں کو بھینچ لو۔ اس سے تلواریں سروں سے اُچٹ جایا کرتی ہیں۔وَ اَكْمِلُوا اللَّاْمَةَ، وَ قَلْقِلُوْا السُّیُوْفَ فِیْۤ اَغْمَادِهَا قَبْلَ سَلِّهَا. وَ الْحَظُوا الْخَزْرَ….
زرّہ کی تکمیل کرو (یعنی اس کے ساتھ خود، جوشن بھی پہن لو) اور تلواروں کو کھینچنے سے پہلے نیاموں میں اچھی طرح ہلا جلا لو اور دشمن کو ترچھی نظروں سے دیکھتے رہو اور دائیں بائیں (دونوں طرف) نیزوں کے وار کرو اور دشمن کو تلواروں کی باڑ پر رکھ لو اور تلواروں کے ساتھ ساتھ قدموں کو آگے بڑھاؤ اور یقین رکھو کہ تم اللہ کے رُو بُرو اور رسول ﷺ کے چچا زاد بھائی کے ساتھ ہو۔ یہ پورا خطبہ بہت ہی خوبصورت جملوں پر مشتمل ہے ہر مسلمان کے لئے مجاہدین پڑھنے والی ہے۔ مقالے کی اختصار کے خاطر ذکر نہیں کرسکتا۔مقصد یہ کہ امام ؑ نے جنگ کے دوران بہترین طریقے سے اپنے اصحاب کی تربیت کیں اور انہیں جہاد فی سبیل اللّٰہ کے لیے آمادہ کرائیں۔
6۔ قاضی کے ہاں مجرم کی تربیت
دنیا نے شاید ایسا کوئی استاد دیکھی ہو جس کا ہر آن ہم و غم لوگوں کی اصلاح و تربیت ہو۔ ایسا استاد جو ایسے موقع کے انتظار میں رہتا ہو کہ اس سے کسی کی اصلاح ہو جائے اور وہ راہ راست پر آئے۔ وہ شفیق و مہربان مربی علی علیہ السّلام کے علاؤہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ جو ہمیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ انہیں طرق تربیت میں سے ایک جس کے ذریعے اس مہربان مربی نے کسی کی تربیت کی وہ قضاوت وفیصلے کے وقت ہے۔ کبھی خود قاضی بن کر کسی مجرم کی تربیت و اصلاح فرماتے کبھی اپنا مقدمہ دوسرے قاضی کے پاس لڑتے لڑتے کسی کی اصلاح فرماتے۔ سابقہ ادوار میں اسی طرح موجودہ دور میں بھی عدالتی نظام اور فیصلے امیر و غریب، خاندانی و غیر خاندانی، رنگ و نسل، مسلک و مذہب وغیرہ کے حساب سے مختلف ہوتا ہے خصوصاً آج کے دور میں امیروں کے اپنے پسند کے مطابق فیصلے ملتے ہیں جبکہ غریبوں کو کوٹ کٹیری کا چکر کاٹتے رہنا پڑتا ہے بعض کا ایک نسل گزر جاتے لیکن فیصلہ نہیں ملتا اور اگر مقابل میں کوئی اثارسوخ والا ہو تو اپنا حق ہوتے ہوئے بھی خلاف فیصلہ ملتی ہے۔ بعض کی زندگی ہی انصاف کے تلاش میں در بدر پھیرتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ لیکن وہ واحد دور حکومت تھی جس میں کسی پر ظلم نہیں ہوا اور ہر کسی کو انصاف ملی۔ وہ امام علیؑ کی چار سالہ حکومت کا دور ہے۔ اس دور میں حق تلفی ہونے والے کو قاضی کے پاس جانے سے کوئی عار محسوس نہیں ہوتا تھا کیونکہ اسے انصاف ملنے کا یقین ہوتا تھا۔اس حاکم عادل، مربی و استاد کی نظر عام عوام سے لیکر قاضی تک ہر ایک پر ہوتی تھی اور ہر کسی سے غلطی کی صورت میں اصلاح فرماتے تھے۔ کئی مجرموں کا اصلاح فرماکر اپنے چاہنے والوں میں سے بنا دیا۔ اس کی بہت ساری مثالیں ہیں ان میں سے ایک یہ واقعہ مشہور ہے جسے بہت سے مصنفین نے اپنی کتابوں میں نقل کئے ہیں انہیں میں سے ایک عظیم شخصیت علامہ مفتی جعفر حسین ہے اس نے اپنی کتاب سیرت امیر المومنین میں نقل کیا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ امیر المومنینؑ صفین سے پلٹتے ہوئے ایک زرہ کھو بیٹھے۔چند دنوں بعد ایک نصرانی کو وہی زرہ پہنے ہوئے دیکھا تو اس سے کہا کہ تم نے یہ زرہ کہاں سے لی ہے؟ یہ زرہ تو میری ہے۔ اس نے اسے اپنی ملکیت ظاہر کیا۔ قاضی شریح جسے قضاوت کے لیے منتخب کیا ہوا تھا حضرت نے اس کی عدالت میں دعویٰ دائر کردیا۔ قاضی کے دریافت کرنے پر اس نصرانی نے کہا کہ یہ زرہ میری ہے اور میرا قبضہ دلیل ملکیت ہے۔ قاضی شریح نے حضرت سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ ؑ کے پاس کیا ثبوت ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا:إِنَّ هَذَا دِرْعِي لَمْ أَبِعْ وَ لَمْ أَهَبْ۔یہ زرہ میری ہے نہ میں نے اسے بیچا ہے اور نہ ہبہ کیا ہے۔ میرے پاس اور کوئی ثبوت نہیں ہے۔ قاضی شریح نے دیکھا کہ ایک طرف یہ احتمال بھی نہیں ہے کہ غلط دعویٰ کیا ہوگا اور دوسری طرف شرعی قانون کا تقاضا یہ ہے کہ قبضہ کو دلیل ملکیت سمجھا جائے جب تک اس کے خلاف ثبوت مہیا نہیں ہوتا۔ فیصلہ حضرت کے خلاف جاتا تھا۔ قاضی کو آپ ؑ کے خلاف فیصلہ دینے میں تردد ہوا۔ امام ؑ نے اسے متردد دیکھا تو فرمایا تم وہی فیصلہ کرو جو منصب قضا کا تقاضا ہے، چنانچہ فیصلہ امام ؑ کے خلاف ہوا اور وہ زرہ نصرانی کو مل گئی۔اب جب اس حد تک خود حاکم وقت کی انصاف پسندی اور زرہ خود کا ہوتے ہوئے قانون کی کی پاسداری دیکھی تو یہ نصرانی مقدمہ جیتنے کے باوجود اپنی شکست کا احساس ہوا ۔ جب عدالت سے باہر نکلا تو امام ؑ سے دیمے لہجے میں معزرت کرتے ہوئے کہا:أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ اَلدِّرْعُ وَ اَللَّهِ دِرْعُكَ يَا أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِينَ۔واللہ یہ زرہ آپؑ کی ہے۔ ( میں نے صفین کے راستے سے اٹھایا تھا، اب یہ زرہ حاضر ہے میں آپؑ کی بلند نفسی، عالی ظرفی اور عدل پسندی کو دیکھ کر) میں اسلام قبول کرتا ہوں۔
امام علیؑ  کو زرہ کی کیا ضرورت تھی جو اس طرح عدالت جاکے حاصل کرتے، اس کے علاوہ جب مولاؑ خود باب علم تھا اور آپؑ کو تو یہ پہلے سے پتہ تھا کہ میرے پاس اس زرہ کے مالک ہونے پر ثبوت نہیں ہے اس کے باوجود کیوں اس نصرانی کو لے کر قاضی کے ہاں گئے؟ اس کے علاوہ اس نصرانی سے ڈارک یہ کیوں نہیں فرمایا کہ تم نے چوری کی ہے؟ وجہ یہی تھا کہ اس نصرانی کی اصطلاح کرنا اور اسے راہ راست پر لانا جو کہ کامیاب ہوا۔ یہی اس معلم و مربی کی پوری زندگی کا مقصد ہے کہ لوگوں کی اصلاح کریں اور ان کی تربیت کریں۔ مفتی جعفر حسین اس واقعہ کی ذیل میں لکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام کو زرہ واپس ملنے پر کیا خوش ہوتے البتہ اس نصرانی کے اسلام لانے پر خوش ہوئے اور وہ زرہ اسے ہبہ کردی اور اس کے ساتھ ایک گھوڑا بھی مرحمت فرمایا۔ اس نصرانی شخص کے بارے میں جو امام ؑ کی اصلاح سے مسلمان ہوا تھا علامہ ابو اسحاق ابرھیم بن محمد ثقفی اپنی کتاب الغارات میں لکھتا ہے:و أخبرنى من رآه يقاتل مع عليّ – عليه السّلام – الخوارج في النّهروان۔ مجھے خبر دیا گیا کہ یہ تازہ مسلمان علیؑ کے رکاب میں خوارج سے جنگ میں شریک ہوا۔یعنی امامؑ  کی اس طریقہ تربیت سے وہ شخص نہ صرف مسلمان ہوا بلکہ امام ؑ کے محب اور جانثاروں میں سے ہوگیا۔ مجرم کو محب بنانے کا سلیقہ علیؑ کے علاؤہ اور کوئی نہیں جانتا۔
7۔خطبات کی صورت میں تربیت کرنا
تعلیم و تربیت کا ایک طریقہ جو کہ آج کل بھی بہت مشہور ہے وہ ہے خطبات و تقاریر کی صورت میں اپنے مطالب کو سامعین تک پہنچانا ہے۔ امام علی علیہ السلام کا اپنے حکیمانہ کلمات کو اپنے اصحاب و انصار تک پہنچانے اور ان کی تربیت کرنے میں یہ طریقہ بہت زیادہ استعمال کیا گیا ہے امام علیہ السلام لوگوں کے سامنے یا مسجد کی ممبر پر تشریف فرما کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے انہیں خطبات و تقاریر کو علامہ سید رضی اعلی اللہ مقامہ نے نہج البلاغہ میں نقل کیے ہیں ان کی تعداد تقریباً 238 تک بنتے ہیں۔ انہیں خطبات جن کے ذریعے مولا نے ہزاروں کی تعداد میں موجود لوگوں کی تربیت فرمائی اور انہیں راہ راست دیکھایا، ہر ایک خطبہ فصاحت و بلاغت اور حکومتوں میں لاثانی ہے کیوں نہ ان خطبات کو سن کر سامنے والے پر اثر کریں بلکہ یہ خطبات تو قیامت تک آنے والے لوگوں کی اصلاح و تربیت کے لیے کافی ہیں کاش لوگ علی علیہ السلام کے ان متین کلمات کی طرف رجوع کرتے۔ میں ایک دو جملے انہیں خطبات سے بطور نمونہ نقل کرتا ہوں جو انہیں سامعین کے علاؤہ قیادت تک کے لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے جیسےزہد و تقویٰ کی اہمیت کے حوالے سے آپ علیہ السلام خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:اُوْصِیْكُمْ عِبَادَ اللّٰهِ بِتَقْوَی اللّٰهِ الَّتِیْ هِیَ الزَّادُ وَ بِهَا الْمَعَادُ، زَادٌ مُّبَلِّغٌ وَّ مَعَادٌ مُّنْجِحٌ۔ اے اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اس لئے کہ یہی تقویٰ زاد راہ ہے اور اسی کو لے کر پلٹنا ہے۔ یہ زاد (منزل تک) پہنچانے والا اور یہ پلٹنا کامیاب پلٹنا ہے۔ اسی طرح کسی اور خطبہ میں تقویٰ کی فضیلت یوں بیان فرمایا:
وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَی الْجَنَّةِ زُمَرًا ؕ ﴾، قَدْ اُمِنَ الْعَذَابُ، وَ انْقَطَعَ الْعِتَابُ، وَ زُحْزِحُوْا عَنِ النَّارِ، وَ اطْمَاَنَّتْ بِهِمُ الدَّارُ، وَ رَضُوا الْمَثْوٰی وَ الْقَرَارَ۔.اور جو لوگ اللہ کا خوف کھاتے تھے انہیں جوق در جوق جنت کی طرف بڑھایا جائے گا‘‘ ۔ وہ عذاب سے محفوظ، عتاب و سرزنش سے علیحدہ اور آگ سے بری ہوں گے، گھر ان کا پر سکون اور وہ اپنی منزل و جائے قرار سے خوش ہوں گے۔ اسی طرح اور بھی بہت سی متین کلمات ہیں جن کے ذریعے مولا نے لوگوں کو تقوی کی اہمیت اور فضیلت بیان فرمایا کر لوگوں کی اصلاح و تربیت کیں۔ کہنے کا مقصد یہ کہ مولاؑ نے اپنی خطبات کی صورت میں اصحاب و انصار کی تربیت کیں اور انہیں راہ راست دیکھایا۔
خلاصہ
اس عظیم مربی و استاد کی زندگی پر ہم نظر کریں تو ہمیں یہی نمایاں نظر آتی ہے کہ ان کا ہم و غم اپنے اصحاب و انصار کی تربیت اور اصلاح کرنا، انہیں راہ راست پر لانا، انہیں فکری بلندی دینا ہی ہیں اس لیے اس تربیت کی راہ میں جو بھی طریقے اپنانا پڑے اپنایا ہے جیسے کبھی دوران مصاحبت ، کبھی دوران جنگ، کبھی سوالات وجوابات کی صورت میں، کبھی بیت المال کی تقسیم بندی کرتے ہوئے،کبھی میدان قضاوت میں، کبھی خطبات کی صورت میں، کبھی مکتوبات کے ذریعہ اپنے اصحاب کی بہترین انداز میں تربیت کیں ہیں۔ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ اس طرح اپنے شاگردوں کی تربیت سوائے علی علیہ السلام کے کسی نے انجام نہیں دیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس معلم و مربی، کی نقش قدم پر چلنے اور علمی راہوں کو طے کرتے ہوئے خود سیکھ کر دوسروں کو سیکھانے کی توفیق عطا فرمائیں۔

حوالہ جات

سورہ نحل: ۷۸ 1
سورۃ العلق:۵ 2
ملاصدر، محمد بن ابراھیم ،شرح أصول الكافي ،ج2 ص95،ناشرمؤسسہ مطالعات وتحقیات فرہنگی 3
کلینی، محمدبن یعقوب،اصول کافی، کتاب فضل علم، باب مجالسہ علماء 4
مجلسی ، محمدباقر،بحار الأنوار ، ج‏32، ص 76،طبع – بيروت 5
نباطی عاملی، علی بن محمد (متوفی ٨٧٧) الصراط المستقيم إلی مستحقی التقديم ج ۱، ص ۱۶۳ ،ناشر مکتبہ المرتضویہ (تہران ، ایران) 6
سورہ النحل، آیت 43 7
الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 4، صفحہ 423 8
جلال الدین سیوطی ،عبد الرحمٰن بن ابی بکر،تفسیرالدرالمنثور، ج4، ص222، طبع -بیروت 9
طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج ج ۱، ص ۲۶۱،ناشر المرتضی مشھد ایران 10
سید رضی،مترجم مفتی جعفرحسین، نہج البلاغہ،خطبہ نمبر ١٧٧، 11
سید رضی،مترجم مفتی جعفرحسین، نہج البلاغہ،خطبہ نمبر221 12
ابن شہر آشوب،محمدعلی، المناقب ج ۲، ص ۱۰۹، ناشر علامہ ،قم -ایران 13
مجلسی ، محمدباقر،بحار الأنوار ، ج‏32، ص 21،طبع – بيروت 14
ابن طاؤوس، علی بن موسیٰ،إقبال الأعمال ج ۱، ص ۴۶۷، ناشر دار الکتب الاسلامیہ تہران 15
ابن طاؤوس، علی بن موسیٰ،الطرائف في معرفة مذاهب الطوائف ج ۲، ص ۴۱۳، ناشر مطبعۃ الخیام قم ایران 16
سید رضی،مترجم مفتی جعفرحسین، نہج البلاغہ،خطبہ نمبر64 17
مفتی جعفر حسین، سیرت امیر المومنین ،ج 1، ص 499 18
ثقفی ابرھیم بن محمد، الغارات ج ۱، ص ۱۲۴، ناشر انجمن آثار ملی تہران 19
سید رضی،مترجم مفتی جعفرحسین، نہج البلاغہ،خطبہ نمبر112 20
سید رضی،مترجم مفتی جعفرحسین، نہج البلاغہ،خطبہ نمبر118 21

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button