خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:266)
(بتاریخ: جمعۃ المبارک 6 ستمبر 2024ء بمطابق ربیع الاول 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: نماز دین کا ستون
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ماہ ربیع الاول ہمارے سمانے ہے۔ عربی زبان میں موسم بہار کو ربیع کہتے ہیں۔ اس مہینے کا نام ربیع الاول اس لیے رکھا گیا کیونکہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا۔ یہ مہینہ فیوضات و برکات کے اعتبار سے افضل ہے کہ باعث تخلیق کائنات رحمۃ اللعالمین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت باسعادت اسی مہینے میں ہوئی۔
اس مہینے کی دیگر اہم مناسبات:
• 1 ربیع الاول یکم ہجری رسول خدا ﷺ کی مکہ سے مدینہ ہجرت
• 8 ربیع الاول 260 ھ حضرت امام حسن عسکری ؑ کی شہادت
• 9 ربیع الاول عید زہراؑ، امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی امامت کا آغاز
• 10 ربیع الاول سن 15 قبل بعثت رسول خدا ﷺ کا ام المو منین سیدہ خدیجۃ الکبریٰؑ سے نکاح
• 17 ربیع الاول ایک عام الفیل رسول خدا ﷺ ولادت باسعادت
• 17 ربیع الاول 83 ھ حضرت امام جعفر صادق ؑ کی ولادت باسعادت
ہم ان شاء اللہ 8 اور 9 ربیع الاول کی مناسبت کے حوالے سے اگلے جمعے کے خطبے میں گفتگو کریں گے۔ آج کے خطاب میں ہم حضرت لقمان کی حکمتوں والے موضوع کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں آج ہم ان کی قرآن میں بیان کی گئی تیسری حکمت و نصیحت پر گفتگو کریں گے۔
جو لوگ ہمارے سابقہ خطابات نہیں سن سکے ان کے لیے مختصرا عرض کرتے ہیں کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان ؑ کی وہ دس حکمتیں اور نصیحتیں بیان کی ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔
پہلی حکمت میں شرک سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِذۡ قَالَ لُقۡمَٰنُ لِابۡنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَٰبُنَيَّ لَا تُشۡرِكۡ بِاللّٰهِۖ إِنَّ الشِّرۡكَ لَظُلۡمٌ عَظِيم
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
دوسری حکمت میں اللہ تعالیٰ کے حساب و کتاب سے ڈرایا کہ اس میں ذرہ بھر کمی بیشی نہ ہوگی:
يا بُنَيَّ إِنَّها إِنْ تَكُ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ في صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّماواتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللّٰهُ إِنَّ اللَّهَ لَطيفٌ خَبيرٌ (سورہ لقمان آیۃ: 16)
اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تو اللہ اسے یقینا نکال لائے گا یقینا اللہ بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔
حضرت لقمانؑ کی تیسری حکمت و نصیحت:
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو تیسری نصیحت کرتے ہوئے فرمارہے ہیں:
يا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ ؛
اے بیٹے نماز کو قائم کرو
حضرت لقمان نے پہلے دو بنیادی عقیدوں کے متعلق نصیحت کی یعنی شرک سے بچ کر توحید پر قائم رہنا اور دوسرا اللہ کے حساب کتاب سے ڈرنا یعنی قیامت کی فکر کرنا۔ اب ان بنیادی عقیدوں کے بعد تیسری چیز وہ بتائی جس کا تعلق فروع دین اور عملی زندگی سے ہے اور وہ ہے نماز قائم کرنا۔نماز قائم کرکے انسان در حقیقت اپنے توحید اور قیامت پر اپنے ایمان کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اس وحدہ لا شریک کو حق مانتا ہے کہ جس کے سامنے سجدہ کر رہا ہے اور اس قیامت پر بھی ایمان رکھتا ہے جس میں اس عمل کی جزاء پائے گا۔
نماز پڑھنے اور قائم کرنے میں فرق:
قائم عربی زبان کا لفظ ہے جو قیام سے نکلا ہے جس میں استقلال کا معنی پایا جاتا ہے۔جیسے ایک شخص کھڑا ہوا ہو تو اسے قائم کہتے ہیں اور جب تک وہ اسی حالت میں رہے گا وہ قائم کہلائے گا لیکن جب بیٹھ جائے گا تو پھر وہ قائم نہیں رہے گا ۔ پس نماز قائم کرنے کا کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ نماز کی مستقل طور پر پابندی کی جائے اور اس پر قائم رہا جائے۔پس جو بندہ کبھی نماز پڑھتا ہے کبھی نہیں پڑھتا تو وہ نماز قائم نہیں کر رہا لیکن جو پابندی سے نماز پڑھتا ہو اور اسے ایک عادت کی بجائے ایک اہم عبادت و بندگی کے طور پر ادا کرتا ہو تو وہ نماز قائم کر رہا ہے۔
نیز نماز پڑھنے اور قائم کرنے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ چونکہ قرآن حکیم میں صرف نماز پڑھنے کا حکم نہیں ہے بلکہ بالتاکید نماز قائم کرنے پر اصرار ہے کیونکہ اگر صرف نماز پڑھنے کا حکم ہوتا تو زندگی میں ایک آدھ بار نماز کا ادا کر لینا ہی کافی ہوتا جبکہ قرآن حکیم میں متعدد حکمتوں کی بناء پر نماز قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے مثلاً
اولاً : نماز قائم کرنے کے حکم میں دوام اور ہمیشگی کا پہلو چھپا ہوا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ نماز اس طرح ادا کی جائے کہ اسے ترک کرنے کا تصور بھی باقی نہ رہے۔ قرآن حکیم اسے محافظت علی الصلوٰۃ سے تعبیر کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ
نمازوں کی محافظت کرو خصوصا درمیانی نماز کی اور اللہ کے حضور خضوع کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔(البقرة، 2 : 238)
نماز کی مداومت اور محافظت سے مراد یہ ہے کہ نماز اس طرح پوری زندگی کا مستقل وظیفہ اور شعار بن جائے جس طرح شبانہ روز مصروفیات میں آرام نہ کرنے اور کھانا نہ کھانے کا تصور محال ہے اس طرح ترکِ نماز کا تصور بھی خارج از امکان ہو جائے۔
ثانیاً : نماز قائم کرنے کے حکم کا معنی یہ بھی ہے کہ نماز کو تمام تر ظاہری اور باطنی آداب ملحوظ رکھتے ہوئے ادا کیا جائے کیونکہ صرف ظاہری آداب سے نماز ادا تو ہو جائے گی لیکن باطنی آداب(نیت میں خلوص، عدم ریا وغیرہ) کی عدم موجودگی سے نماز کے مطلوبہ اثرات انسانی زندگی پر مرتب نہیں ہو پائیں گے۔
ثالثاً : نماز قائم کرنے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ پورے معاشرے میں نظام نماز برپا ہو جائے ۔
نماز کی اہمیت:
نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ دین اسلام میں مختلف تعبیروں کے ساتھ اس کا معنی بیان ہوا ہے ۔
کبھی نماز کو دین کا ستون قرار دیا ہے جیسا کہ حدیث ہے:
الصَّلَاةُ عَمُودُ الدِّين نماز دین کا ستون ہے۔
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
يا بُنَيَ أَقِمِ الصَّلاةَ فَإِنَّمَا مَثَلُهَا فِي دِينِ اللّٰهِ كَمَثَلِ عُمُدِ فُسْطَاط؛
اے بیٹے نماز کو قائم کرو چونکہ دین اسلام میں نماز خیمے کےستون کی مانند ہے اس خیمے کا ستون جب تک استوار اور مضبوط رہے گا تب تک خیمہ سالم رہے گا لیکن اگر اس خیمے کا ستون ٹوٹ جائے تو پھر خیمہ گر جائے گا اور اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔( بحارالانوار، ج 82، ص 227)
اسی طرح سے کبھی اس نماز کو بہترین عمل قرار دیا ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ:
مَا أَعْلَمُ شَيْئاً بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ أَفْضَلَ مِنْ هذِهِ الصَّلَاةِ؛
میں نے خدا کی شناخت اور اس کی معرفت کے بعد نماز سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں دیکھا ہے۔ (فروع كافى، ج 3، ص 264)
اسی طرح سے کبھی اس نماز کو اسلام کا چہرہ قرار دیا ہے جیسا کہ پیغمبر کا فرمان ہے:
لْيَكُنْ أَكْثَرُ هَمِّكَ الصَّلَاةَ فَإِنَّهَا رَأْسُ الْإِسْلَامِ.
آپ کی تمام ہمت اور اہتمام اس نماز کی طرف ہونی چاہیے کیونکہ نماز دین اسلام کا سر ہے۔ (بحار، ج 77، ص 70)
اور روایات اسلامی میں معصومین کی زبان سے دوسری تعبیر ات بھی بیان ہوئیں ہیں جیسا کہ فرمایا :
• الصَّلاةُ مِعراجُ المومن نماز مومن کی معراج ہے۔
• الصَّلاةُ تَستَنزِلُ الرَّحمَةَ نماز کے ذریعے رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔
• الصَّلاةُ قُربانُ كُلِّ تَقِيٍّ نماز خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لئے وسیلہ ہے۔
• أحَبُّ الأعمالِ إلى الله عز و جل الصَّلاةُ اللہ کو سب سے پیارا عمل نماز ہے
• وهي آخِرُ وَصايا الأنبياءِ نماز انبیاء ؑ کی آخری وصیت ہے۔
• نماز خیر العمل یعنی ایک بہترین عمل ہے۔اسی لیے اذان میں پکارا جاتا ہے: حی علیٰ خیر العمل
• قُرَّةَ عَينِي في الصَّلاةِ نماز پیغمبر اسلام کے آنکھوں کا نور ہے ۔
• ووَجهُ دِينِكُمُ الصَّلاةُ نماز، دین کا چہرہ ہے۔
• نماز انسان کی تمام آلودگیوں کو پاک کرنے کے لیے ایک پاک پانی کی نہر کی طرح ہے۔
• الصلاۃ کفارۃ الذنوب نماز گناہوں کا کفارہ ہے۔
• فَرَضَ اللّٰهُ الصَّلاةَ تَنزِيها مِن الكِبرِ نماز انسان کو تکبر سے بچاتی ہے۔
• انسان کے تمام اعمال کی قبولیت اسی نماز پر موقوف ہے۔
• إنّ أوَّلَ ما يُحاسَبُ بهِ العَبدُ الصَّلاةُ ، فإن قُبِلَت قُبِلَ ما سِواها
بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر نماز قبول ہوگی تو دوسرے اعمال بھی قابلِ قبول ہوں گے۔
خلاصہ کلام یہ کہ نماز بااہمیت ترین حکم ہے جو خدا وند عالم نے انسان کو عطا کیا ہے اور یہ بلند ترین اطاعت الہی ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
إِنَ طَاعَةَ اللَّهِ خِدْمَتُهُ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ شَيْءٌ مِنْ خِدْمَتِهِ تَعْدِلُ الصَّلَاة ؛
اطاعت الہی کا مطللب زمین پر خدا کی خدمت کرنا اور کوئی بھی خدمت نماز کے برابر نہیں ہوسکتی( بحار، ج 82، ص 219)
پیغمبر اسلام کی اس نورانی زندگی اور سیرت میں ملتا ہے کہ ہجرت کے نویں سال طائفہ (طی ) قبیلہ طائف کی نمائندگی میں پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور مذاکرہ کے بعد وہ اس شرط پر تسلیم ہونے کو قبول کیا کہ ان سے نماز کا حکم ہٹادیا جائے لیکن پیغمبر اسلام نے بہت ہی سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ :
لَا خَيْرَ فِي دِين لَا صَلَاة معه؛ ایسا دین کہ جس میں نماز نہ ہو اس میں خیر و برکت نہیں ہے۔( سيره حلبى، ج 3، ص 243) اور یہی بات نماز کی عظمت اور پیغمبر اسلام کی نگاہ میں نماز کی اہمیت کو بیان کرتی ہے کہ آپ نے ان لوگوں کا دین قبول نہیں کیا جو نماز کے بغیر مسلمان بننا چاہتے تھے۔
فلسفہ نماز:
جب ہم قرآن مجید اور روایات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اس نماز سے مربوط آیات اور روایات کو دیکھتے ہیں کہ جن میں اس نماز کے اسرار اور اس کے فلسفہ کی طرف اشارہ ہوا ہے اسی سے سمجھ میں آتا ہے کہ نماز اسی فلسفہ اور انہی رازوں کیوجہ سے کامل ہوئی ہے جیسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں کہ فرمایا:
أَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهى عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ أَكْبَرُ ..؛
اور نماز قائم کریں، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔(عنكبوت، آيه 45)
کسی اور آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ: و أَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ لِذِكري ؛
اور میری یاد کے لیے نماز قائم کریں۔
بنا بر این نماز کا اصل راز انسان کا اپنے روح سے خدا وند عالم کو یاد کرنا ہے اور یہی خدا کی یاد انسان کا خدا سے رابطہ کرنے کا باعث بنتی ہے اور انسان کی اصلاح اور کمال تک پہنچنے کا سبب بنتا ہے۔ ایسی نماز انسان کو برائیوں سے روکتی ہے اور تمام پریشانیوں کو دور کرکے انسان کو آرام اور سکون کا سبب بنتی ہے اور حقیقت میں خدا کی یاد انسان کی خود سازی کا باعث بنتی ہے ۔
نماز جو کہ خدا کی یاد کرنے کا باعث ہے وہ انسان کی زندگی میں برے آثار کو پاک کرتی ہے اور اس کے خسارے میں ہونے کے بدلے میں خوشبخت اور بینا بنادیتی ہے ۔
انسان کے اندر موجود غرائز میں میں سے ایک غریزہ حرص اور لالچ ہے جو تمام گناہوں اور فسادوں کی جڑ ہیں لیکن نماز میں ایسی خاصیت ہے کہ انسان کے اندر موجود وہ بری صفت حرص اور بے تابی اور لالچ کو نابود کرتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہو رہا ہے کہ:
إِنَّ الۡإِنسَٰنَ خُلِقَ هَلُوعًا إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعٗا وَإِذَا مَسَّهُ الۡخَيۡرُ مَنُوعًا إِلَّا الۡمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمۡ عَلَىٰ صَلَاتِهِمۡ دَآئِمُونَ وَالَّذِينَ فِيٓ أَمۡوَٰلِهِمۡ حَقّ مَّعۡلُوم
انسان ھلوع اور حریص خلق ہوا ہے انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے۔جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے ، اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے ، سوائے نمازگزاروں کے ، جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں،اور جن کے اموال میں معین حق ہے۔ (سورۃ المعارج 16-24)
محمد بن سنان کہتے ہیں میں نے امام رضا علیہ السلام سے نماز کے فلسفہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے نماز کے فلسفہ اور اس کے آثار کے بارے میں فرمایا : نماز پڑھنے کا فلسفہ یہ ہے کہ نمازی:
1۔ خدا کی ربوبیت کا اقرار کرے ۔
2۔ خدا کی ذات میں کسی کو شریک قرار نہ دے ۔
3۔ خدا کی بارگاہ میں اس کے سامنے تواضع اور انکساری کے ساتھ کھڑا ہونا ۔
4۔ اپنے گناہوں کا اقرار کرے اور بخشش کا تقاضا کرے ۔
5۔ اور ہر دن خدا کی تعظیم کے لئے اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ دے ۔
6۔ ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اس طریقے سے کہ تمہارے اندر سے غرور مستی اور غفلت وغیرہ ختم ہو جائے ۔
7۔ ہمیشہ خدا کو یاد کرنا چونکہ نماز خدا کو نہ بھولنے کا باعث بنتی ہے یہی یاد خدا ہے کہ جو انسان کو غرور اور تکبر سے روک دیتی ہے اور تمام گناہوں اور ہر قسم کے فساد سے روک دیتی ہے۔ (وسائل الشيعه، ج 3، ص 4)
انہی آثار کی طرف توجہ دیتے ہوئے پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:
الصَّلَاةُ حِصْنٌ مِنْ سَطَوَاتِ الشَّيْطَان؛
نماز شیطان کے حملوں کے مقابل میں ایک مضبوط قلعہ ہے ۔
نماز کی قبولیت:
تمام عبادات میں سے اہم ترین مسائل کہ جن کی طرف زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہیں جیسا کہ نماز ہے جس میں اہم ترین مسئلہ اس کا قبول ہونا ہے اور نماز کا قبول ہونا اس کی کامل ترین شرائط میں سے شمار ہوتا ہے اور نماز کا قبول ہونا بھی اس کے اثر پر موقوف ہے جو انسان کی پاکسازی میں دخالت رکھتی ہے جیسا کہ قرآن مجید کا فرمان ہے :
إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقين؛ اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔(المائدۃ 57)
یعنی گناہ آلود اعمال کبھی بھی قبول نہیں ہوتے ہیں ۔
امام صادق علیہ السلام اپنے کسی کلام میں فرماتے ہیں انسان کی زندگی کبھی پچاس سال سے بھی گزر جاتی ہے لیکن خدا وند عالم اس کی ایک نماز کو بھی قبول نہیں کرتا ہے پس اس سے بڑھ کر اور سخت چیز کیا ہو گی؟ پھر اس کے بعد فرمایا: إِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَا يَقْبَلُ إِلَّا الْحَسَنَ فَكَيْفَ يَقْبَلُ مَا يُسْتَخَفُّ بِه؛ اعمال نیک اور شائستہ کے علاوہ کوئی عمل قبول نہیں پس حقیر اور ہلکا سمجھ کر انجام دیا جانے والا عمل کیسے قبول ہوگا۔ (فروع كافى، ج 3، ص 269)
ممکن ہے یہاں پر یہ سوال پیدا ہو جائے کہ ہم کہاں سے جان لیں کہ ہماری نماز یں قبول ہوئیں ہیں یا نہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان اپنی پاکسازی میں اس نماز کی تاثیر کی طرف متوجہ رہے جس انداز اور مقدار کے مطابق اس پر اثر ہوا ہے اسی اندازے کے مطابق اس کی نماز قبول ہوئی ہے۔ اسی لئے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اگر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں اس کی نما ز قبول ہوئی ہے یانہیں؟ تو اس کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا اس کی نمازیں ان برے کام انجام دینے سے اور گناہوں سے روک رہی ہیں یا نہیں؟ اگر اس کو روکا ہے تو پھر اس کی نماریں قبول ہوئیں ہیں۔( مجمع البيان، ج 8، ص 285)
نماز کو حقیر نہ سمجھو:
امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی جناب ابو بصیر کہتے ہیں:
دَخَلْتُ عَلَى حَمِيدَةَ أُعَزِّيهَا بِأَبِي عَبْدِ اللّٰهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَبَكَتْ ثُمَّ قَالَتْ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ لَوْ شَهِدْتَهُ حِينَ حَضَرَهُ اَلْمَوْتُ وَ قَدْ قَبَضَ إِحْدَى عَيْنَيْهِ ثُمَّ قَالَ اِدْعُوا لِي قَرَابَتِي وَ مَنْ يَطُفْ بِي فَلَمَّا اِجْتَمَعُوا حَوْلَهُ قال:
ابوبصیر کہتے ہیں میں حضرت امام جعفر صادق کی تعزیت کے لیے جناب حمیدہ خاتون(س) کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ رودیں اور فرمایا: -اے ابوبصیر! کاش تم اس وقت ہوتے جب ابو محمدؑ (امام جعفر صادقؑ ) کی وفات ہورہی تھی اور دیکھتے کہ ان کی ایک آنکھ بند ہوچکی تھی، اس وقت انہوں نے فرمایا: میرے قریبیوں اور ہمدردوں کو بلاؤ! چنانچہ جب سب لوگ آپ کے گرد جمع ہوگئے تو فرمایا: ‘-
إنَّ شَفاعَتَنا لَن تَنالَ مُستَخِفّا بالصَّلاةِ
نماز کو حقیر سمجھنے والے کو ہماری شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔(مستدرك الوسائل : ۳ / ۲۵ / ۲۹۲۳)
حضرت لقمان حکیم جن کی حکیمانہ نصیحتتیں ہم بیان کر رہے ہیں انہوں نے اپنے بیٹے کو نماز جماعت ادا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
قال لقمانُ ع لابنِهِ وهُو يَعِظُهُ: صَلِّ في جَماعَةٍ ولو عَلَى رَأسِ زُجٍّ (المحاسن : ۲ / ۱۲۶ / ۱۳۴۸)
حضرت لقمان ع نے اپنے بیٹے سے فرمایا: نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھا کرو، خواہ نیزے کی نوک پر ہی پڑھنا پڑے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں نماز قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭٭٭٭٭
تمت بالخیر