لایمسہ الا المطھرون کا درست مفہوم
قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔اس کتاب میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔اللہ کی یہ آخری کتاب تمام کتب سماویہ میں سب سے زیادہ افضل و اکرم ہے،اس کتاب عظیم کی تلاوت قلوب کو جلاء بخشتی ہے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ میں ہدایت کا راستہ دکھاتی ہے-قرآن و سنت کی روشنی میں،اس کتاب مبین کی تلاوت کے کئی ایک آداب علماء ذی شان نے بیان فرمائے ہیں۔اس کتاب سے حقیقی معنی میں استفادہ کرنے کے لئے ان آداب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔کلام اللہ کی تلاوت کے کچھ ظاہری آداب ہیں اور کچھ باطنی،ظاہری آداب کا تعلق قاری اور قرأت کے ظاہر سے ہے جیسے قبلہ رو بیٹھنا اور تلاوت سے قبل مسواک کرنا ۔جہاں تک باطنی آداب کا تعلق ہے تویاد رہے کہ ان پر ظاہر آداب کی بناء ہے۔اگر ظاہری طور پر بہت ہی زیادہ ادب و محبت کا اظہار کیا جائے لیکن باطن تعظیم اور محبت سے خالی ہوتو ظاہری ادب کوئی نفع نہیں دیتا ۔اللہ تعالیٰ کی نظر کیونکہ بندوں کے دلوں پر ہوتی ہے لہٰذا باطنی آداب کا لحاظ رکھنا بہت ہی ضروری ہے، جیسے نیت کا درست کرنا۔ پیش نظرتحریر کا مقصد ’’لَّا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ‘‘ کا درست مفہوم متعین کرتے ہوئے قرآن حکیم کو بغیر وضو ہاتھ لگانے کے شرعی حکم کو قرآن مجید کی روشنی میں بیان کر نا ہے۔اس موضوع پر سب سے زیادہ بحث ’’سورۃ الواقعہ:79‘‘ کی روشنی میں کی جاتی ہے اور بالخصوص سابقہ دو آیات مقدسات کی روشنی میں اس کے معنی کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔سب سے پہلے ہم ان آیات مقدسات پرمختصرًا بحث کریں گے۔
لَّا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ:
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الواقعہ میں ارشاد فرمایا :اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْن ٍ لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ ‘‘[1]
’’بے شک یہ قرآن ہے بڑی عزت والا۔ایک کتاب میں جو محفوظ ہے۔نہیں چھوئیں اس (قرآن کریم) کومگر وہی جو پاک ہوں۔
’’لَّا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ‘‘ میں دو احتمالا ت ہیں ۔اس میں ایک احتمال تو یہ ہے کہ " لَّا یَمَسُّہ"سے مراد کتاب مکنون یعنی لوح محفوظ ہے اور دوسرا یہ کہ اس سے مراد مصحف (قرآن کریم) ہے-کیونکہ یہ آیت مقدسہ ان دونوں توجیہات کی محتمل ہے اسی لئے اس ضمن میں کئی ایک مسائل میں علما ء کرام کا اختلاف ہے ۔یہ اختلافات درج ذیل ہیں:
1۔ لَّا یَمَسُّہٗ سے مراد لوح محفوظ ہے یا مصحف (قرآن کریم)
جو علماء اس سے مراد لوح محفوظ لیتے ہیں ان کے نزدیک ’’مُطَہَّرُوْنَ‘‘ سے مراد ملائکہ ہیں اور جن علماء نے اس سے مراد مصحف لیا ہے ان کے نزدیک ’’مُطَہَّرُوْنَ‘‘ میں چار اقوال ہیں۔ شیخ ابن جوزی فر ماتے ہیں:و من قال :ھو المصحف ففی المطھرین أربعۃ اقوال،
اور جن علماء نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد مصحف ہے توان کے نزدیک ’’مُطَہَّرُوْنَ‘‘ میں چار اقوال ہیں:
احدھا: انھم المطھرون من الاحداث ،قالہ الجمھور،فیکون ظاھر الکلام النفی و معناہ النھی پہلا:اس سے مراد حدث سے پاک افرادہیں۔یہ جمہور کا کہنا ہے،اس صورت میں ظاہر کلام نفی پر محمول ہو گا لیکن اس کا معنی نھی ہو گا۔
و الثانی:المطھرون من الشرک، قالہ ابن السائب دوسرا:اس سے مراد شرک سے پاک افراد ہیں-یہ ابن سائب نے کہا ہے۔
والثالث: المطھرون من الذنوب و الخطایا، قالہ الربیع بن انس تیسرا:اس سے مراد گناہوں اور خطاؤں سے پاک افراد ہیں ۔یہ ربیع بن انس کا قول ہے۔
و الرابع:أن معنی الکلام لا یجد طعمہ و نفعہ الا من امن بہ ،حکاہ الفراء‘‘[2]چوتھا:کلام کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حکیم کا ذائقہ چکھنے والے اور اس سے نفع حاصل کرنے والے وہی افراد ہیں جو اس پر ایمان لا تے ہیں۔یہ فراء کا قول ہے۔
2۔ اگر’’لَّا یَمَسُّہٗ "سے مراد مصحف ہے تو اس سے مراد نھی ہے یا نفی۔
اب ہم ان اختلافات کو مختصرا ًبیان کریں گے۔
’’سورۃ الواقعہ :79 "کے متعلق علماء کرام کے دو مؤقف ہیں :
اس سے مراد مصحف ہے۔
اس سے مراد کتاب مکنون یعنی لوح محفوظ ہ۔-
زمخشری لکھتے ہیں:و ھم المطھرون من جمیع الذنوب و ما سواھا ان جعلت الجملۃ صفۃ لکتاب مکنون و ھو اللوح ،و ان جعلتھا صفۃ للقراٰن فالمعنی لا ینبغی أن یمسہ الا من ھو علی الطھارۃ من الناس—و نحوہ قول رسول اللّٰہ (ﷺ) المسلم اخو المسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ أی لا ینبغی لہ أن یظلمہ أویسلمہ ‘‘[3]
اگر تم اس جملہ ’’لَّا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ‘‘کو کتاب مکنون جو لوح محفوظ ہے،کی صفت بنا ؤتو ’’مُطَہَّرُوْنَ‘‘ سے ہر قسم کی ظاہری اور باطنی نا پاکی سے پاک افراد مراد ہوں گے؛ اور اگر تم اس کو قرآن کی صفت بناؤ گے تو اس کا معنی یہ ہو گا کہ لو گوں میں سے کسی کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ قرآن کو چھوئے مگر اس کے لئے جو پاک ہو— اسی طرح نبی کریمؐ کی حدیث ہے کہ مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے-وہ اس پر ظلم نہ کرے اور اسے اس کے حوالے نہ کرے جو اس پر ظلم کرے،یعنی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی پر ظلم کرے یا اسے ظالم کے حوالے کرے‘‘-
اس اختلاف کو تقریباً تمام مفسرین نے اپنی تفاسیر میں بیان فر ما یا ہے۔
احناف کا موقف:
امام ابو بکر جصاص رازی فرماتے ہیں:و ھذا اولی لما روی عن النبی (ﷺ) فی اخبار متظاھرۃ أنہ کتب فی کتابہ لعمرو بن حزم و لا یمس القران الا طاھر فوجب أن یکون نھیہ ذلک بالایۃ اذ فیھا احتمال لہ[4]
’’اگر چہ یہ آیت خبر کی صورت میں ہے پھر بھی اس کا نھی پر محمول کرنا اولیٰ ہے کیونکہ نبی مکرمؐ سے مروی کئی ایک ظاہر اخبار میں مروی ہے کہ آپؐ نے عمرو بن حزم کے خط میں لکھا تھا کہ قرآن کو نہ چھوئے مگر پاک ،پس واجب ہوا کہ بغیر وضو کے قرآن کو چھونے کی ممانعت اس آیت سے ثابت ہے کیونکہ اس میں اس کا احتمال ہے‘‘-
شیخ ملا جیون فرماتے ہیں:و ان الضمیرالمنصوب راجع الی القرآن وان الطھارۃ ھو الطھارۃ عن الاحداث ای لا یمس ھذا القراٰن الا المطھرون من الاحداث [5]”اور بے شک ضمیر منصوب کا مرجع قرآن ہے اور طہارت سے مراد احداث سے پاک ہو نا ہے یعنی اس قرآن کو کوئی نہیں چھوئے سوائے ان افراد کے جو احداث سے پاک ہیں”-
حضرت علامہ محمود آلوسی بغدادیؒ فرماتے ہیں:وکون المراد بھم المطھرین من الأحداث مروی عن محمد الباقر علی ابائہ و علیہ السلام و عطاء و طاؤس وسالم[6]
’’حضرت امام محمد باقر، ان پر اور ان کے اباؤ اجداد پر سلام ہو- عطاء، طاؤس اور سالم سے مروی ہے کہ ’’مُطَہَّرُوْنَ ” سے مراد ناپاکیوں سے پاک ہونا ہے‘‘-
شوافع کا موقف:
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:لَّا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ: استدل بہ الشافعی علی منع مس المحدث المصحف ‘‘[7]
’’لَّا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ‘‘اس آیت مقدسہ سے امام شافعیؒ نے محدث کےلئے مصحف کو نہ چھونے پر استدلال کیا ہے‘‘-
آپ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:(لَّا یَمَسُّہٗ) خبر بمعنی النھی (اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ) الذین طھروا أنفسھم من الاحداث[8](لَّا یَمَسُّہ) یہ خبر نھی کے معنی میں ہے- (اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ) یعنی جنہوں نے اپنے آپ کو احداث سے پاک کر لیاہو‘‘-
حنابلہ کا موقف:
امام ابن قدامہ حنبلی فرماتے ہیں:حدث کی حالت میں قرآن کو نہ چھونے کی ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:نہیں چھوئیں اس (قرآن کریم)کومگر وہی جو پاک ہوں ‘‘-مذکورہ بالا تمام حوالہ جات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ احناف، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک ’’ لَّا یَمَسُّہ ” سے مراد قرآن کریم ہے اور انہوں نے اس آیت سے یہی استدلال کیا ہے کہ قرآن حکیم کو حدث کی حالت میں چھونا منع ہے-ان آئمہ کا یہ موقف احادیث اور کئی صحابہ کرام کے بیان پر مبنی ہے جس کی وضاحت ہم ان شاء اللہ عنقریب کریں گے۔
بعض علماء کا مختاریہ ہے کہ یہاں ’’لَّا یَمَسُّہ"سے مراد لوح محفوظ ہے۔
مالکیہ کا موقف:
امام مالکؒ فرماتے ہیں:و أحسن ما سمعت فی قولہ ’’لَّا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ‘‘ انھا بمنزلۃ الایۃ التی فی عبس و تولی فمن شاء ذکرہ، فی صحف مکرمۃ ،مرفوعۃ مطھرۃ، بأیدی سفرۃ، کرام بررۃ [9]اللہ تعالیٰ کے اس قول ’’لَّا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ‘‘ کے بارے میں سب سے زیادہ بہتر بات جو میں نے سنی ہے وہ یہ ہے کہ یہ اس آیت کہ قائم مقام ہے جو سورۃ عبس میں ہے-اللہ تعالیٰ نے فرمایا:پس جو چاہے اسے قبول (و ازبر )کر لے۔(یہ)معزز و مکرم اوراق میں (لکھی ہوئی )ہیں-جو نہایت بلند مرتبہ (اور) پاکیزہ ہیں- ایسے سفیروں (اور کاتبوں) کے ہاتھوں سے (آگے پہنچی) ہیں-جو بڑے صاحبان کرامت (اور) پیکران طاعت ہیں[10]
اس بارے میں امام قرطبی فرماتے ہیں :یرید أن المطھرین ھم الملائکۃ الذین وصفوا بالطھارۃ فی سورۃ عبس‘‘[11]
’’امام مالکؒ کی مراد یہ ہے کہ مطہرین سے مراد وہ ملائکہ ہیں جن کو موصوف کیا گیا ہے سورۃ عبس میں پاکی کی صفت کے ساتھ‘‘-
حضرت انس بن مالکؒ سے بھی یہی منقول ہے کہ یہاں ’’مُطَہَّرُوْنَ‘‘ سے مراد ملائکہ ہیں- شیخ ابن قیم فرماتے ہیں:عن انس بن مالک قال: الْمُطَہَّرُوْنَ: الملائکۃ و ھذا عند طائفۃ من أھل الحدیث فی حکم المرفوع[12]’’حضرت انس بن مالکؒ سے مروی ہے کہ ’’الْمُطَہَّرُوْنَ ‘‘سے مراد ملائکہ ہیں-علم حدیث کے علماء کے نزدیک یہ مرفوع کے حکم میں ہے‘‘-
یاد رہے کہ امام مالک کے نزدیک اگرچہ ’’مُطَہَّرُوْنَ‘‘ سے مراد فرشتے ہیں لیکن ان کا مؤقف احادیث طیبہ کی روشنی میں یہی ہے کہ حدث کی حالت میں قرآن حکیم کو چھونا جائز نہیں ہے-
امام ابن جریر طبری کابیان:’’امام ابن جریر طبریؒ نے اس بارے میں کئی ایک روایات نقل فرمائی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابن عباس، حضرت سعید بن جبیر، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت ابو العالیہ اور حضرت قتادہؒ کا موقف یہ تھا کہ یہاں ’’مُطَہَّرُوْنَ‘‘ سے مراد ملائکہ ہیں اور ’’لَّا یَمَسُّہٗ‘‘ سے مراد لوح محفوظ کا چھونا ہے‘‘-[13]
’’لَّا یَمَسُّہ”سے مراد نھی ہے یا نفی؟
بعض علماء کا موقف یہ ہے کہ ’’لَّا یَمَسُّہٗ المُطَہَّرُوْنَ‘‘ جملہ خبریہ ہے اور اس میں حرف’’ لا‘‘نفی کے لئے ہے کیونکہ ’’یمس‘‘مرفوع ہے اگر یہ لام، لام ناھیۃ ہوتا تو آیت اس طرح ہوتی ’’ لَا یَمَسَّہ‘‘ ،اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ایک قرأت جوحضرت ابن مسعودؒ سے مروی ہے اس میں ’’لَّا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ‘‘ منقول ہے-
لیکن اکثر علماء کرام کا موقف یہ ہے کہ یہاں نفی بمعنی نھی کے ہے۔
شیخ ملا جیون فرماتے ہیں:ولکن الاکثرین علی انہ نفی بمعنی النھی ‘‘[14]
’’لیکن اکثر علماء کے نزدیک یہاں نفی بمعنی نھی ہے‘‘-
امام ابوبکررازی فرماتے ہیں:و ان حمل علی النھی و ان کان فی صورۃ الخبر کان عموما فینا و ھذا اولی لما روی عن النبی (ﷺ) فی اخبار متظاھرۃ أنہ کتب فی کتابہ لعمرو بن حزم ولا یمس القران الا طاھر فوجب أن یکون نھیہ ذلک بالایۃ اذ فیھا احتمال لہ[15]
’’اگر چہ یہ آیت خبر کی صورت میں ہے پھر بھی اگر اس کو نھی پر محمول کیا جائے تو یہ ہمارے نزدیک عموم ہو گا-یہ کرنا اولیٰ ہے کیونکہ نبی مکرمؐ سے مروی کئی ایک ظاہراخبار میں ہے کہ آپؐ نے عمرو بن حزم کے خط میں لکھا تھا کہ قرآن کو نہ چھوئے مگر پاک، پس واجب ہوا کہ بغیر وضو کے قرآن کو چھونے کی ممانعت اس آیت سے ثابت ہے کیونکہ اس میں اس کا احتمال ہے۔
حضرت جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:لَّا یَمَسُّہٗ خبر بمعنی النھی [16]
’’لَّا یَمَسُّہٗ” یہ خبر نھی کے معنی میں ہے‘‘-
شیخ ابن جو زی فرماتے ہیں:
احدھا: انھم المطھرون من الاحداث، قالہ الجمھور، فیکون ظاھر الکلام النفی و معناہ النھی‘‘[17]
’’پہلا: اس سے مراد حدث سے پاک افرادہیں-یہ جمہور کا کہنا ہے،اس صورت میں ظاہر کلام نفی پر محمول ہو گا لیکن اس کا معنی نھی ہو گا‘-
علامہ محمود آلوسی بغدادی فرماتے ہیں:
و أما صفۃ اخری لقرآن -و المراد بالمطھرون المطھرون عن الحدث الأصغر و الحدث الاکبر بحمل الطھارۃ علی الشرعیۃ، و المعنی لا ینبغی أن یمس القراٰن الا من ھو علی طھارۃ من الناس،فالنفی ھنا نظیر ما فی قولہ تعالیٰ: الزانی لا ینکح الا زانیۃ (۲۴:۳)و قولہ علیہ السلام المسلم اخو المسلم لا یظلمہ، الحدیث، و ھو بمعنی النھی بل أبلغ من النھی الصریح‘‘[18]
’’یا تو یہ دوسری صفت ہے قرآن کی،اس صورت میں طہارت کو شرعی پاکی پر محمول کرتے ہوئے ’’مطھرون‘‘ سے مراد حدث اصغر اور حدث اکبر سے پاک افرادہوں گےاور اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کیلئے قرآن کو چھونا جائز نہیں ہے سوائے اس کے جولوگوں میں سے پاک ہو- پس یہاں نفی اللہ تعالیٰ کے ارشاد: اور نبی کریمؐ کی حدیث، مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے۔وہ اس پر ظلم نہ کرے اور اسے اس کے حوالے نہ کرے جو اس پر ظلم کرے،کی نظیر ہے۔اور یہ نفی نھی کے معنی میں ہے،بلکہ نھی صریح سے زیادہ بلیغ ہے۔
علامہ حقی بروسوی فرماتے ہیں:
أو للقراٰن فالمراد المطھرون من ا لأحداث مطلقافیکون نفیا بمعنی النھی ‘‘[19]
’’یا ’’لَّا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ‘‘ صفت ہے قرآن کی، اس صورت میں اس سے مراد تمام احداث سے مطلقاً پاک ہونا ہو گا- پس نفی بمعنی نھی ہو گی‘‘-
علماء کرام کے مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ’’ لا نافیہ‘‘، ’’لاناھیۃ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے-اس سے ان حضرات کا اشکال بھی رفع ہو جاتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر اس جملہ کو قرآن کریم کی صفت بنا یا جائے توقرآن حکیم کی آیت مقدسہ ’’لَّا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ‘‘ کا ابطال لازم آئے گا کیونکہ ان کے مطابق یہ ایک خبر ہے جس کا مطلب یہ ہے اس قرآن کو نہیں چھوتے مگر وہ جو پاک ہوں-حالانکہ اس دنیا میں اس کتاب عظیم کو مشرک،کافر ،گناہ گاراور بے وضو بھی چھوتے ہیں-پس ہمارے نزدیک اس آیت مقدسہ کا ترجمہ اس طرح کر نا زیادہ مناسب ہو گا:
’’نہیں چھوئیں اس (قرآن کریم ) کومگر وہی جو پاک ہوں ‘‘-
حوالہ جات
[1] الواقعہ:77-79
[2] زاد المسیر فی علم التفسیر، ج:8، ص:152
[3] الکشاف ،ج:4، ص:469
[4] احکام القراٰن،ج:5، ص:300
[5] التفسیرات الاحمدیہ :ص:683
[6] روح المعانی، ج:14، ص:236
[7] الاکلیل فی استنباط التنزیل، ص:204
[8] تفسیر الجلالین،ص:713
[9] المؤطا ،ص:185
[10] عبس:12-16
[11] الجامع لأحکام القراٰن، ج:17، ص:225
[12] التبیان فی أقسام القراٰن، ص:205
[13] جامع البیان، ج:11، ص: 118-119
[14] التفسیرات الاحمدیہ،ص:683
[15] احکام القراٰن، ج:5، ص:300
[16] تفسیر الجلالین:ص:۷۱۳
[17] زاد المسیر فی علم التفسیر، ج:8، ص:152
[18] روح المعانی، ج:14، ص:235
[19] روح البیان،ج:9، ص:337
https://www.mirrat.com/article/71/1022