خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:269)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 27 ستمبر 2024ء بمطابق 22ربیع الاول 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: امر بالمعروف و نہی عن المنکر
جو لوگ ہمارے سابقہ خطابات نہیں سن سکے ان کے لیے مختصرا عرض کرتے ہیں کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان ؑ کی وہ دس حکمتیں اور نصیحتیں بیان کی ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔
پہلی حکمت میں شرک سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِذۡ قَالَ لُقۡمَٰنُ لِابۡنِهِۦ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَٰبُنَيَّ لَا تُشۡرِكۡ بِاللّٰهِۖ إِنَّ الشِّرۡكَ لَظُلۡمٌ عَظِيم
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
دوسری حکمت میں اللہ تعالیٰ کے حساب و کتاب سے ڈرایا کہ اس میں ذرہ بھر کمی بیشی نہ ہوگی:
يا بُنَيَّ إِنَّها إِنْ تَكُ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ في‏ صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّماواتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللّٰهُ إِنَّ اللّٰهَ لَطيفٌ خَبيرٌ (سورہ لقمان آیۃ: 16)
اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تو اللہ اسے یقینا نکال لائے گا یقینا اللہ بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔
تیسری حکمت میں نماز کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو تیسری نصیحت کرتے ہو‏‏‏ئے فرمارہے ہیں:
يا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ ؛
اے بیٹے نماز کو قا‏‏‏ئم کرو
حضرت لقمان کی چوتھی اور پانچویں حکمت:
حضرت لقمان کی چوتھی اور پانچویں حکمت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ہے جیسا کہ وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہو‏‏‏ئے فرماتے ہیں :
وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَر
اے بیٹے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو۔
یہ حکمت بہت ہی اہم اور ضروری ہے اس کی وضاحت کرنے کے لئے درجہ ذیل مطالب کو بیان کریں گے ۔
معروف اور منکر کا معنی اورمثالیں:
معروف: معروف ہر نیک کام کو کہا جاتا ہے۔
پس ہر وہ کام جس کا شریعت نے حکم دیا ہے اور اسے واجب یا مستحب قرار دیا ہےو ہ معروف ہے۔
قرآن مجید اور روایات میں اس کے لئے ہزاروں مصداق ذکر ہو ‏‏‏‏‏‏ئے ہیں جیسے ایمان ۔تلاوت قرآن۔تفکر ۔ توکل ۔ اور خدا پر اعتماد۔ صبر و تحمل ۔ پرہیز گاری ۔ خدا اور اس کے رسول کی پیروی ۔ نیک کاموں کی طرف جلدی کرنا ۔ انفاق اور عفو و درگزر ۔ احسان و نیکی ۔ توبہ ۔ جہاد ۔ شہادت ۔ عدالت ۔ شکر خدا ۔ دعا ۔ استقامت ۔ برد باری ۔ خوش اخلاقی ۔ قرآن مجید کی تعلیم ۔ حق بات کرنا اور مشکلات کو تحمل کرنا ۔ نماز ۔ روزہ ۔ حج ۔ صدقہ ۔ سچا‏‏‏ئی ۔ امانت داری ۔ وعدہ کی وفا کرنا ۔عفت ۔ شجاعت ۔ سخاوت اور عمل صالح ۔ دین کی مدد کرنا ۔ دعا و مناجات اور خدا کی رضا پر خوشنود ہونا اور حق کو آشکار کرنا اور قرآن مجید میں تدبر و تفکر کرنا اور موت اور قیامت کو یاد کرنا وغیرہ وغیر ہ ۔۔۔
منکَر: منکَر(کاف پر زبر) کا معنی برا کام ہے پس ہر وہ کام جسے شریعت نے برا قرار دیا ہے یا ناپسند فرمایا ہے وہ منکر ہے جسے ہم حرام یا مکروہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
منکر کے مصادیق بہت ہی زیادہ ہیں جیسا کہ کفر ۔قتل نفس ۔ جہالت اور نادانی ۔ نااہل لوگوں سے دوستی کرنا ۔ گناہوں کو تکرار کرنا ۔ ظلم وستم ۔ اور کافروں کی اطاعت کرنا ۔ مؤمنین کے ساتھ لڑا‏‏‏ئی جھکڑا کرنا ۔ ظلم پر راضی ہونا اور حق بات کو چھپانا ۔ جھوٹ ۔ خیانت ۔ غیبت ۔ تہمت ۔ باطل راستے پر خرچ کرنا ۔ فتنہ ۔ بدعت ۔ حسد ۔ تکبر ۔ لالچ اور طمع ۔ قطع رحم اور والدین کے ساتھ بے احترامی کرنا ۔ قرآن میں تدبر نہ کرنا اور پیغمبر اسلام و اہل بیت اطہار کی مخالفت کرنا وغیرہ۔۔۔۔
پس امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی اصطلاحی تعریف کے بارے میں اسلامی مآخذ میں جو مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں، مجموعی طور پر ان تعریفوں سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ امر بالمعروف، ہر اُس کام کے حکم دینے کے معنی میں ہے جسے عقل اور شریعت اچھا کام سمجھے، اور نہی عن المنکر، ہر اُس کام کے روکنے اور منع کرنے کے معنی میں ہے جسے عقل یا شریعت برا کام سمجھے۔
دوسرے لفظوں میں امر بالمعروف اچھے کاموں کا حکم دینے کے معنی میں ہے اور نہی عن المنکر برے کاموں سے روکنے کے معنی میں ہے۔

قرآن و حدیث میں:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کوتاہی کرنا اجتماعی انتشار اور سماجی نابودی کا باعث ہے امربالمعروف سے بے توجہی کا نقصان عام اور ہمہ گیرہے اور اگر امربالمعروف کی ضرورت سے لاپرواہی کی جائے تو دین کے احکام بھلا دئے جائیں گے جہل و نادانی دنیا پر چھا جائے گی اور سماج پر گمراہی کا قبضہ ہو جائے گا اور سماجی فتنہ و فساد پھیل جائیگا ۔قرآن میں ارشاد فرمایا:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔
كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِۗ وَلَوۡ ءَامَنَ أَهۡلُ ٱلۡكِتَٰبِ لَكَانَ خَيۡرٗا لَّهُمۚ مِّنۡهُمُ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ وَأَكۡثَرُهُمُ ٱلۡفَٰسِقُونَ
۔تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو خود ان کے لیے بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگ ایمان والے ہیں لیکن ان کی اکثریت فاسق ہے۔
بہترین امت ہونے کا دار و مدار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وظیفے کی انجام دہی پر موقوف ہے۔ اس آیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو امت مسلمہ کی بہتری کی وجہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس میں ساری امت شامل نہیں ہے بلکہ امت کا وہ گروہ مقصود ہے، جو اس ذمہ داری پر عمل کرتا ہے۔
ان دو عظیم فرائض سے اسلام کاانسان ساز اور حیات آفرین نظام حیات اور دستور زندگی عملاً نافذ رہتا ہے اور نفاذ اسلام کا ذریعہ یہی دو عظیم فرائض ہیں۔ لہٰذا ان دونوں کا ذکر، ایمان سے پہلے کیا گیاہے۔
اس آیت کے اہم نکات:
۱۔ ہر اس اچھی بات کا دوسروں تک پہنچانا واجب ہے جو آپ کے علم میں ہے۔
۲۔ ارتکاب گناہ سے روکنا ضروری ہے۔ طاقتور کے لیے طاقت کے ذریعے اور کمزور کے لیے زبانی طور پر واجب ہے اور روکنا غیر مؤثر ہو تو قلبی کراہت ضروری ہے۔
۳۔ اصلاح معاشرہ اور امر بالمعروف کرنے والے ہی بہترین امت ہونے کے حقدار ہیں۔
۴۔ خیر امت کے منصب پر فائز رہنے کی شرط ایمان اور امر بالمعروف ہے۔
۵۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر انفرادی، اجتماعی اور ریاستی فریضہ ہے۔(الکوثر فی تفسیر القرآن)
سورہ آل عمران آیت 114 میں فرمایا:
یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ
وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے، نیک کاموں کا حکم دیتے، برائیوں سے روکتے اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی صالح لوگوں میں سے ہیں۔
سورہ اعراف آیۃ 157 میں رسول خدا کی خاصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ: وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے۔۔۔
اچھی اور نیک باتوں کی دعوت دینا اور بری باتوں سے روکنا، اسلامی تعلیمات کو ہمیشہ زندہ اور فعال رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے اور ساتھ امت اسلامیہ کی تربیت اور اخلاقی و اجتماعی قدروں کا شعور بیدار کرنے کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا نظام ایک انسان ساز نظام ہے۔ یہ نظام اسلامی تعلیمات کا ایک خاصہ ہے۔ اگرچہ دیگر ادیان میں بھی اس دستور کا ذکر ہے لیکن اسلامی نظام میں اس کا جو مقام اور اہمیت ہے وہ کسی اور دین و مذہب میں نہیں ہے۔ حتیٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے مطابق اس عمل کے سیاسی اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ اگر کوئی قوم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عمل ترک کر دے اور نتیجتاً برے حکمران اس پر مسلط ہو جائیں اور وہ ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے دعا کرے تو اللہ اس کی دعا قبول نہیں کرے گا۔(الکوثر فی تفسیر القرآن)
اگرچہ امر بالمعروف و نہی عن النکر مومن کی علامت ہے لیکن معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو اس کے الٹ کام کرتے ہیں یعنی برائی کی دعوت دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں۔ قرآن کے مطابق ایسے کام منافق کرتے ہیں:
اَلۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتُ بَعۡضُہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ  یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمُنۡکَرِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَقۡبِضُوۡنَ اَیۡدِیَہُمۡ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمۡ  اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔(سورۃ توبہ آیۃ 67)
منافق مرد اور عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں، وہ برے کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ روکے رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا ہے، بے شک منافقین ہی فاسق ہیں۔
اس آیت میں دو اہم نکات قابل توجہ ہیں:
۱۔ ہر زمانے میں برے کاموں کی ترغیب دینا، راہ خدا میں کچھ بھی خرچ نہ کرنا اور اللہ کو بھلا دینا نفاق(منافقت) کی علامات ہیں۔
۲۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور راہ خدا میں انفاق، ذکر خدا ہے۔
اس آیت میں منافق مرد و عورت کا کردار بتایا جبکہ آگے چل کر آیۃ 71 میں مومن مرد وعورت کا کردار یوں بتایا:
وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیۡعُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ سَیَرۡحَمُہُمُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿سورۃ توبہ آیۃ ۷۱﴾
۷۱۔ اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے ۔
اس آیت میں یہ پیغام ہے کہ مومن مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ ایمان کی ولایت و دوستی کا حق یوں ادا کرتے ہیں کہ : کسی نیکی کو دیکھ لیا تو خود بھی اس پر عمل کیا اور ساتھ یہ خواہش بھی دل میں جاگزین ہوگئی کہ میرا ہم عقیدہ برادر ایمانی بھی اس پر عمل کرے۔ اسی طرح برائی سے خود بھی دور رہے اور اپنے مؤمن بھائی کو بھی دور رکھنے کی کوشش کی۔
پس حقیقی مومن وہ ہیں جو نیکی اور برائی میں تمیز رکھتے ہیں یعنی ان کا فرق جانتے ہیں اور لوگوں میں نیکیاں عام کرنے اور ان کو برائیوں سے پاک رکھنے میں ایک فعال کردار ادا کرتے ہیں۔
سورۃ حج آیۃ 41 میں خالص ایمان رکھنے والے لوگوں کی صفات بیا ن کرتے ہوئے فرمایا:
اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے کا قیام تین ارکان پر مشتمل ہے:
الف: سب سے پہلا قدم وہ اقامہ نماز کے لیے اٹھاتے اور نمازی معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ چنانچہ جب مدینہ میں اسلامی معاشرہ قائم ہونے لگا سب سے پہلے نماز قائم کرنے کے لیے مسجد کی بنیاد رکھی اور فاسد معاشرے کی پہلی علامت یہ ہے کہ وہ نماز کو اہمیت نہیں دیتا جن کے بارے خدا فرماتا ہے:
فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ ۔۔۔۔ (۱۹ مریم: ۵۹)
پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا۔۔۔۔
ب: وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ: اس معاشرے کا دوسرا رکن اقتصادی ہو گا کہ ادائے زکوٰۃ کے ساتھ جہاد سے لے کر غریب پروری تک کے مسائل حل کرتے ہیں۔
ج: وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ: تیسرا رکن اصلاحی تحریک ہو گی۔ تعمیری باتوں کو رواج دینا اور تخریبی حرکتوں کا راستہ روکنا ہو گا۔
احادیث کی نظر میں:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
مَنْ أَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَى عَنِ الْمُنْكَرِ فَهُوَ خَلِيفَةُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ وَ خَلِيفَةُ رَسُولِه‏
جو شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے وہ روئے زمین پر خدا اور اس کے رسول کا جانشین ہے ۔( مستدرک الوسائل :ج۱۲ص۱۷۹ )
یہاں جانشین اس لیے کہا گیا کہ چونکہ وہ بندہ الٰہی مشن پر کام کر رہا ہے۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:الأمرُ بِالمَعروفِ أفضَلُ أعمالِ الخَلقِ
امر بالمعروف مخلوقات کے اعمال میں سب سے زیادہ افضل عمل ہے۔( مستدرک الوسائل :ج۱۲ص۱۸۵)
امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے : وَيْلٌ‏ لِقَوْمٍ‏ لَا يَدِينُونَ‏ اللَّهَ بِالْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ
افسوس ہے ایسی قوم پر جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی دین کا روش اور شعار قرار نہیں دیتے اور اس پر اعتقاد رکھنے میں خدا کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ (وسائل الشیعه، ج‏11، ص‏392)
امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے: فَإِنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَهُ لَمْ‏ يَلْعَنِ‏ الْقَرْنَ‏ الْمَاضِيَ‏ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ إِلَّا لِتَرْكِهِمُ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكر(نہج البلاغه، خطبه‏192)
خداوند متعال نے گزشتہ لوگوں کو اپنی رحمت سے دور نہیں کیا مگر یہ کہ انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کیا۔ کسی اور مقام پر امام نے فرمایا :
وَ إِنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ لَخُلُقَانِ‏ مِنْ‏ خُلُقِ‏ اللَّهِ‏ سُبْحَانَهُ وَ إِنَّهُمَا لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ وَ لَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ۔۔۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خدا وند متعال کی صفات میں سے ہیں یہ نہ ہی انسان کی موت کو نزدیک کرتیں ہیں اور نہ ہی ان سے رزق میں کمی آتی ہے۔(خطبہ 156)
کسی اور عبارت میں فرماتے ہیں کہ لوگوں کا ایک گروہ اپنے ہاتھ ( عمل ) زبان اور دل سے منکرات کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں انہوں نے اپنے اندر تمام خصلتوں کو جمع کیا ہوا ہے۔
اور ایک گروہ ایسا ہیں جو صرف اپنی زبان اور دل سے نہی عن المنکر کرتے ہیں انہوں نے دو نیک خصلتوں کو اپنایا ہے اور ایک کو چھوڑ دیا ہے ۔ اور ایک گروہ ایسا ہے جو صرف اپنے دل سے مقابلہ کرتے ہیں اور عمل اور زبان کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور صرف ایک ہی خصلت کو اپنایا ہے ۔ اور ایک ایسا گروہ بھی ہے کہ جنہوں نے ان تین خصلتوں میں سے کسی سے بھی تمسک نہیں کیا ہے اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا ہے: فَذَلِكَ مَيِّتُ‏ الْأَحْيَاء ، یہ لوگ حقیقت میں زندہ لوگوں کے درمیان مردہ شمار ہوتے ہیں پھر فرمایا:
وَ مَا أَعْمَالُ‏ الْبِرِّ كُلُّهَا وَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ عِنْدَ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّي‏;
خدا کی راہ میں میں انجام پانے والی تمام نیکیاں اور اچھا‏‏‏ئیاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلے میں ایک قطرہ کی مانند ہیں جو سمندر کے مقابل میں ہوتا ہے۔(نہج البلاغہ حکمت 374)
ان دو فریضہ الہی کے آثارکے بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
بهَا تُقَامُ‏ الْفَرَائِضُ‏ وَ تَأْمَنُ الْمَذَاهِبُ وَ تَحِلُّ الْمَكَاسِبُ وَ تُرَدُّ الْمَظَالِمُ وَ تُعْمَرُ الْأَرْضُ وَ يُنْتَصَفُ مِنَ الْأَعْدَاءِ وَ يَسْتَقِيمُ الْأَمْرُ 
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے سے تمام فرا‏‏‏ئض اور واجبات انجام پاتے ہیں اور راستوں میں امن و امان بر قرار رہتا ہے اور لوگوں کی تجارت حلال ہو جاتی ہے اور ہر قسم کا ظلم و ستم ختم ہو جاتا ہے زمین آباد ہو جاتی ہے دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور تمام امور اسی سے انجام پاتے ہیں۔(وسائل الشیعه، ج‏11، ص‏395)
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button