خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:134)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 04 فروری 2022ء بمطابق رجب المرجب 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ہماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں وٹس ایپ کریں۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
رَجَب یا رَجَب المُرَجَّب قمری اور اسلامی سال کے ساتویں مہینے کو کہا جاتا ہے۔ رجب، ذوالقعدة، ذی الحجہ اور محرم کو اشہر الحرم یعنی حرمت والے مہینے بھی کہا جاتا ہے اور روایات کی رو سے ان مہینوں میں جنگ اور خون ریزی حرام ہے۔ احادیث میں رجب کے مہینے میں حج، عمرہ اور روزہرکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ روایات میں رجب کے مہینے کو خداوندِ متعال کا مہینہ قرار دیا گیا ہے جبکہ شعبان المعظّم کو رسولِ خداﷺ کا مہینہ اور رمضان المبارک کو آنحضرتؐ کی اُمت کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔اس مہینے کی پہلی شب جمعہ کو لیلة الرغائب کہا جاتا ہے جس کے حوالے سے روایات میں مختلف اعمال اور آداب ذکر ہوئے ہیں۔ اس مہنیے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ جو ایام بیض کے نام سے معروف ہیں، میں اعتکاف جیسی عظیم سنت اور عبادت بھی انجام دی جاتی ہیں جو اسلامی عبادتوں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔نیز ماہ رجب کے حوالے سے ایک مخصوص دعا "یامن ارجوہ لکل خیر۔۔۔”بھی منقول ہے جو ا س مہینے ہر واجب نماز کے بعد پڑھنےکی تاکید کی جاتی ہے۔
اس مہینے میں واقع ہونے والے واقعیات میں سب سے اہم واقعہ پیغمبر اسلام ﷺکی بعثت ہے جو اس مہینے کی ستائسویں تاریخ کو پیش آیا۔ اس کے علاوہ امام باقر علیہ السلام ، امام محمد تقی علیہ السلام اور امام علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے ساتھ ساتھ امام ہادی علیہ السلام اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت بھی اس مہنیے کے اہم واقعات میں شامل ہیں۔
یکم رجب المرجب ۵۷ ھ کو پانچواں آفتاب، آسمانِ امامت کے اُفق پر همیشہ کے لئے روشن و منوّر هوا، ان کی پوری زندگی علوم و معارف سے سرچشمہ تھی اسی وجہ سے انھیں باقر العلوم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، چونکہ آپ علوم کی مشکلوں کو حل کرتے، معرفت کی پیچیده گتھیوں کو سلجھاتے تھے اور ظلم و جور و جہالت کی تاریکیوں اور گھٹاٹوپ اندھیرے میں پوشیده اسلامی اقدار کو دورباره حیاتِ نو عطا کرتے اور انھیں آشکار کرتے تھے ۔ آپ کی ولادت باسعادت اس زمانے میں ہوئی جب امتِ اسلام میں ظالم و جابرحکمرانوں کی حکومت تھی اور طرح طرح کے دینی افکار پائے جاتے تھے آپ کی ولادت معرفت کا پیغام لائی اور خالص اسلام کو حیات نو عطا کی ۔امام محمد باقر علیہ السلام کا نسب ماں باپ دونوں کی طرف سے نبوّت کے پاک و پاکیزه شجره طیّبہ سے ملتا هے، آپ علوی خاندان میں سب سے پہلے مولود ہیں جن کا سلسلہ نسب امامت کے دو سمندر یعنی حسن بن علی علیہ السلام اور حسین بن علی علیہ السلام سےملتا ہے۔آپ کے والد علی بن الحسین، زین العابدین علیہ السلام اور مادر گرامی ام عبدالله، فاطمہ، امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی بیٹی تھیں۔امام محمدباقر علیہ السلام کی مادرِگرامی صداقت و پاکیزگی کا ایک ایسی نمونہ تھیں جس کی وجہ سے آپ کو صدّیقہ کے لقب سے نواز گیا ۔
آپ کا سب زیاده مشهور لقب باقر یا باقر العلوم(علوم کو شگافتہ کرنے والا)تھا جس کا تذکره اکثر تاریخی منابع میں وضاحت کے ساتھ آیا ہے۔حضرت کے اس لقب سے ملقّب ہونے کی وجہ تسمیہ کے بارے میں چار وجوہات بیان ہوئی ہیں:
1. آپ علمی مشکلات کو شگافتہ کرتے اور اس کی پیچیده گتھیوں کو سلجھاتے تھے ۔
2. حضرت کے علوم و معارف کی کثرت کی وجہ سے آپ کو باقر کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔
3. زیاده سجده کرنے کی وجہ سے آپ کی پیشانی کشاده ہوگئی تھی۔
4. کلی قوانین کے متن سے احکام الٰہی کا استنباط کرتے تھے ۔(اعیان ¬الشیعة، ج۱، ص۶۵۰)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام بھیجنا:
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت امام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری زندگی کے اختتام پرامام محمد باقرعلیہ السلام کی ولادت سے تقریبا ۴۶/ سال قبل جابر بن عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے امام محمد باقرعلیہ السلام کو سلام کہلایا تھا، امام علیہ السلام کا یہ شرف ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے (مطالب السؤل ص ۲۷۲)
مورخین کا بیان ہے کہ سرورکائنات ایک دن اپنی آغوش مبارک میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو لئے ہوئے پیارکر رہے تھے۔ اسی دوران آپ کے صحابی خاص جابربن عبداللہ انصاری حاضرہوئے حضرت نے جابرکو دیکھ کر فرمایا ،اے جابر!میرے اس فرزند کی نسل سے ایک بچہ پیدا ہو گا جوعلم وحکمت سے بھرپور ہو گا،اے جابرتم اس کا زمانہ پاؤ گے،اوراس وقت تک زندہ رہو گے جب تک وہ سطح ارض پرنہ آ جائے ۔
اے جابر! دیکھو، جب تم اس سے ملنا تو اسے میرا سلام کہہ دینا، جابر نے اس خبراوراس پیشین گوئی کو کمال مسرت کے ساتھ سنا،اور اسی وقت سے اس بہجت آفرین ساعت کا انتظار کرنا شروع کردیا،یہاں تک کہ چشم انتظار پتھرا گئیں اورآنکھوں کا نورجاتا رہا۔
جب تک آپ بینا تھے ہرمجلس ومحفل میں تلاش کرتے رہے اورجب نورنظرجاتا رہا توزبان سے پکارنا شروع کردیا،آپ کی زبان پرجب ہر وقت امام محمد باقرعلیہ السلام کا نام رہنے لگا تولوگ یہ کہنے لگے کہ جابرکا دماغ ضعف و بڑھاپےکی وجہ سے ناکارہ ہو گیا ہے لیکن بہرحال وہ وقت آ ہی گیا کہ آپ پیغام احمدی اورسلام محمدی پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ راوی کا بیان ہے کہ ہم جناب جابرکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں امام زین العابدین علیہ السلام تشریف لائے، آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند امام محمد باقرعلیہ السلام بھی تھے، امام علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند سے فرمایا کہ چچا جابربن عبداللہ انصاری کے سر کا بوسہ دو ،انہوں نے فورا تعمیل ارشاد کیا،جابر نے ان کو اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا کہ ابن رسول اللہ آپ کو آپ کے جد نامدارحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام فرمایا ہے۔
حضرت نے کہا! اے جابر ان پراورآپ پرمیری طرف سے بھی سلام ہو،اس کے بعد جابربن عبداللہ انصاری نے آپ سے شفاعت کے لیے ضمانت کی درخواست کی، آپ نے اسے منظورفرمایا اورکہا کہ میں تمہارے جنت میں جانے کا ضامن ہوں(صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ، وسیلہ النجات ص ۳۳۸ ،مطالب السؤل ، ۳۷۳ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱ ، نورالابصارص ۱۴۳ ،رجال کشی ص ۲۷ ،تاریخ طبری جلد ۳ ،ص ۹۶ ،مجالس المومنین ص ۱۱۷ )
علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”ان بقائک بعد رویتہ یسیر“ کہ اے جابر! میرا پیغام پہنچانے کے بعد بہت تھوڑا زندہ رہو گے ،چنانچہ ایسا ہی ہوا(مطالب السؤل ص ۲۷۳)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی حیثیت
کسی معصوم کی علمی حیثیت پر روشنی ڈالنا بہت دشوار ہے، کیونکہ معصوم اور امام زمانہ کوعلم لدنی ہوتا ہے، وہ خدا کی بارگاہ سے علمی صلاحیتوں سے بھرپورمتولد ہوتا ہے، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام چونکہ امام زمانہ اورمعصوم ازلی تھے اس لیے آپ کے علمی کمالات، علمی کارنامے اورآپ کی علمی حیثیت کی وضاحت ناممکن ہے۔ تاہم میں ان واقعات میں سے مستثنی ازخروارے، لکھتا ہوں جن پرعلماء عبورحاصل کرسکے ہیں۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود ارشاد ہے کہ” علمنامنطق الطیر و اوتینا من کل شئی “ ہمیں پرندوں تک کی زبان سکھا دی گئی ہے اور ہمیں ہرچیز کا علم عطا کیا گیا ہے (مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱) ۔
روضة الصفاء میں ہے کہ بخدا ۔ خداکی قسم! ہم زمین اورآسمان میں خداوند عالم کے خازن علم ہیں اورہم یہ شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اورحسد کرتے ہیں، لسان الواعظین میں ہے کہ ابومریم عبدالغفار کا کہنا ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہو کرعرض پرداز ہوا کہ :
۱ ۔ مولا کونسا اسلام بہترہےفرمایا جس سے اپنے برادرمومن کوتکلیف نہ پہنچے،
۲۔ کونسا خلق بہترہے؟ فرمایا ! صبراورمعاف کردینا
۳ ۔ کون سا مومن کامل ہے؟ فرمایا! جس کے اخلاق بہترہوں
۴ ۔ کون سا جہاد بہترہے ؟ فرمایا ! جس میں اپنا خون بہہ جائے
۵ ۔ کونسی نماز بہترہے ؟ فرمایا! جس کا قنوت طویل ہو،
۶ ۔ کون سا صدقہ بہترہے؟ فرمایا! جس سے نافرمانی سے نجات ملے،
۷ ۔ بادشاہان دنیا کے پاس جانے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا! میں اچھا نہیں سمجھتا، پوچھا کیوں؟
فرمایا کہ اس لیے کہ بادشاہوں کے پاس کی آمدورفت سے تین باتیں پیدا ہوتی ہیں :
۱ ۔ محبت دنیا ۲ ۔ فراموشی موت ۳ ۔ قلت رضائے خدا۔
پوچھا پھرمیں نہ جاؤں ،فرمایا میں طلب دنیا سے منع نہیں کرتا، البتہ طلب معاصی(گناہ) سے روکتا ہوں ۔
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اوراس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم وزہد اورشرف میں ساری دنیا سے فوقیت لے گئے ہیں۔ آپ سے علم القرآن، علم الآثار،علم السنن اورہرقسم کے علوم ، حکم،آداب وغیرہ کے مظاہرہ میں کوئی نہیں ہوا،بڑے بڑے صحابہ اورنمایاں تابعین،اورعظیم القدرفقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے۔ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابر بن عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے سلام کہلایا تھا اوراس کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ یہ میرا فرزند”باقرالعلوم“ ہوگا ،علم کی گتھیوں کو سلجھائے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی(اعلام الوری ص ۱۵۷ ،علامہ شیخ مفید)
تربیت اولاد کا انداز:
امام علیہ السلام نے قرآن کی آیات کو مدّنظر رکھتے ہوئے لوگوں کی تربیت کی، آپ کے ایک صحابی محمد ابن مسلم نقل کرتے ہیں: میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا، اسی وقت امام علیہ السلام) کے فرزند امام صادق علیہ السلام داخل ہوئے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ کھیلتے تھے، امام باقرعلیہ السلام نے بڑی خوشی کے ساتھ آپ کا استقبال کیا اور آپ کو اپنے سینہ سے لگایا اور فرمایا: آپ کے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں، اس لکڑی سے بیکار کاموں کو انجام نہ دینا، پھر آپ میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے محمد میرے بعد یہ تمھارا امام ہوگا، میرے بعد اس کی اتباع کرنا، اس کے علم سے استفادہ کرنا، خدا کی قسم یہ وہی صادق ہے جس کی تعریف میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: اس کے شیعہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہونگے۔(بحارالانوار ج۴۷، ص۱۵، ح۱۲)
امام باقرعلیہ السلام کے اس کردار سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب محفل میں آپ کا فرزند داخل ہوجائے تو اس کا احترام کرو اور پیار و محبت کے ساتھ اس کے ساتھ پیش آؤ، کیونکہ اس کے ذریعہ وہ خوش ہونگے، اور ہمیں چاہئے کہ ہم بچوں کو ہمیشہ خوش رکھنےکی کوشش کریں۔
بچوں کی تربیت میں محبت اور احترام میں زیادتی نہیں کرنا چاہئے، نہ ان کو پوری طریقہ سے آزاد چھوڑ دینا چاہئے کہ جو ان کے دل میں آئے اس کو انجام دیں اور نہ اتنا قید کرنا چاہئے کہ وہ خود سے کسی بھی فیصلہ کو نہ کرسکیں، والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت میں اعتدال کے ساتھ برخورد کریں۔
امام باقر(علیہ السلام) تربیت اور محبت کو اعتدال کے ساتھ لیکر چلتے تھے اور کبھی بھی اس میں کمی یا زیادتی نہیں کرتے تھے، جس کے بارے میں خود امام(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: « شَرَّ الْآبَاءِ مَنْ دَعَاهُ الْبِرُّ إلَى الْإِفْرَاطِ: بدترین والدین وہ ہیں جو اپنی اولاد کے ساتھ نیکی کرنے میں زیادتی کرتے ہیں۔(تاریخ یعقوبی ج۲، ص۳۲۱)
اگر اولاد کے درمیان فرق ہوں، مثلا ایک بہت زیادہ زیرک اور ہوشیار ہوں لیکن دوسرا اس طرح نہ ہو، تب بھی ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرنا چاہئے، جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) اپنے والد بزرگوار سے نقل فرماتے ہیں: خدا کی قسم، میں اپنی بعض اولاد سے محبت کا اظھار بغیر رغبت کے کرتا ہوں، حالانکہ میری یہ محبت کا مستحق میرا دوسرا فرزند ہے، میں اس طرح اس لئے کرتا ہوں، تاکہ ان کے شر سے میرا دوسرا فرزند محفوظ رہے، اور وہ لوگ اس طرح کا کردار پیش نہ کریں جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔(تفسير نورالثقلين، ج۲، ص۴۰۸)
حضرت یوسف(علیہ السلام) کے بھائیوں نے حسد کی بناء پر اس طرح کا کردار پیش کیا، یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو اس طرح کی حسد میں گرفتار ہونے سے محفوظ رکھیں، کیونکہ حسد ان کی پوری زندگی کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔
نیکی کے دروازوں کی پہچان کرانا:
ایک دن امام باقر(علیہ السلام) نے سلیمان ابن خالد سے پوچھا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمھیں نیکی کے دروازوں کا پتا بتلاؤ؟ سلیمان نے عرض کی: میری جان آپ پر قربان ہوجائے بتلائیے۔ اس کے بعد امام(علیہ السلام) نے فرمایا: «الصَّوْمُ‏ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ وَ الصَّدَقَةُ تَذْهَبُ بِالْخَطِئَةِ وَ قِيَامُ الرَّجُلِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ بِذِكْرِ اللَّه‏؛ روزہ جہنم کے لئے ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو ختم کردیتا ہے اور آدھی رات میں کسی شخص کا اللہ کی یاد میں قیام کرنا»، اس کے بعد امام(علیہ السلام) نے اس آیت کی تلاوت کی: «تَتَجافى‏ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِع‏ (سورۂ سجده، آیت:۱۶) ان کے پہلو بستر سے الگ رہتے ہیں»(الکافی،ج۲،ص۲۴)
امام باقر علیہ السلام کا مومنین کے اجتماعی حقوق کا احترام کرنا:
زراره کہتے امام باقر علیہ السلام قریش کے ایک آدمی کی تشییع جنازه میں حاضر ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا، تشییع جنازه کرنے والوں کے درمیان عطاء نامی شخص بھی موجود تھا، اسی دوران مصیبت زدہ افراد میں سے ایک عورت نے نالہ و فریاد کی آواز بلند کی، عطاء نے اس داغ دیده عورت سے کہا: یا تم خاموش ہوجاؤ، یا میں واپس چلا جاؤں! اور اس تشییع جنازه میں شریک نہیں رہوں گا، لیکن وه عورت خاموش نہیں ہوئی، وہ گریہ و زاری کرتی رہی اور عطاء بھی تشییع جنازه کو ادہورا چھوڑ کر واپس چلاگیا۔
میں نے عطاء کے اس واقعہ کو امام علیہ السلام کی خدمت میں بیان کیا (اور حضرت کے ردِّ عمل کا منتظر تھا لیکن) امام علیہ السلام نے فرمایا:
"راستہ چلتے رہو، ہم اسی طرح جنازه کی تشییع کرتے رہیں گے، اس لئے کہ اگر ہم ایک عورت کے بے موقع چیخنے اور گریہ و زاری کی وجہ کسی حق کو چھوڑ دیں (اور ایک صاحبِ ایمان کے متعلق اجتماعی وظیفہ پر عمل نہ کریں) تو ہم نے ایک مردِ مسلمان کے حق کو نظر انداز کردیا ہے” ۔
زراره کا بیان ہے: تشییع کے بعد جنازه کو زمین پر رکھا اور اس پر نماز پڑھی گئی، دفن کے مراسم انجام دیئے جار ہے تھے اس دوران مصیبت زدہ شخص نے آکر امام باقر علیہ السلام کا شکریہ ادا کیا اور حضرت علیہ السلام سے عرض کیا: آپ اس سے زیاده راستہ چلنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں، آپ نے ہم پر لطف و کرم کیا اور تشییع جنازه میں شرکت فرمائی، میں شکرگزار وں اب آپ تشریف لے جائیں!
زارره کہتے ہیں: میں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: اس وقت صاحبِ عزا نے آپ کو واپس ہونے کی اجازت دے دی، بہتر ہے ہم واپس ہوجائیں، اس لئے کہ میں آپ کی خدمت بابرکت سے استفاده کرنا چاہتا ہوں اور کچھ سوالوں کے جواب آپ سے دریافت کرنے ہیں، امام علیہ السلام نے فرمایا:
"تم اپنا کام کرتے رہو، میں صاحبِ عزا کی اجازت سے نہیں آیا ہوں کہ اس کی اجازت سے واپس ہو جاؤں، مردِ مؤمن کی تشییع کا اجر و ثواب ہے جس کی وجہ سے میں آیا ہوں، انسان جب تک تشییع جنازه میں شریک رہے گا، مؤمن کا احترام کرے گا، وہ پروردگار عالم سے اس کا اجر و ثواب حاصل کرتا رہے گا”۔(بحار الانوار، ج46، ص301۔)
امام باقر علیہ السلام کی نظرمیں نیک عمل کی اہمیت:
بعض اوقات انسان نیک اعمال بجاتا ہے، لیکن اس کی لا پرواہی کی و جہ سے اس کے وہ نیک اعمال ضایع اور برباد ہوجاتے ہیں، ہوسکتا ہے اس لاپرواہی کی وجہ یہ ہو کہ انسان ان نیک اعمال کو چھوٹا اور حقیر سمجھتا ہے، اسی لئے ان اہمیت نہیں دیتا، جیسا کہ حضرت عبدالعظیم حسنی، امام محمد باقر(علیہ السلام) سے اس کی اہمیت کے بارے میں اس حدیث کو نقل کرتے ہیں کہ امام محمد باقر(علیہ السلام) نے جناب محمد ابن مسلم سے فرمایا:يا مُحَمَّدَ بنَ مُسلِمٍ لا تَستَصغِرَنَّ حَسَنَةً أن تَعمَلَها؛ فإنَّكَ تَراها حَيثُ يَسُرُّكَ، اے محمد ابن مسلم، نیک عمل بجالانے کو ہرگز حقیر نہ سمجھو، کیونکہ تم اسے ایسے موقع [قیامت] میں دیکھوگے جب وہ تمہیں خوش کرے گا۔
(وسائل الشیعہ، ج:۱۵، ص:۳۱۲)
جابر بن عبداللہ انصاری کو شان اہلبیت ؑ بتانا
جناب جابر ایک بزرگ شخصیت تھے جن کا دل محبت اہل بیت علیہم السلام سے سر شار تھا، انہوں نے زندگی کے سرد و گرم حالات کو بہت نزدیک سے دیکھا تھا ، بیماری کی حالت میں اپنی زندگی کے آخری دن گذار رہے تھے، امام محمد باقر علیہ السلام اپنے اسلامی اور انسانی وظیفہ کے تحت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے مخلص صحابی کی عیادت کے لئے گئے اور آپ کی احوال پرسی کی، جابر ابن عبداللہ انصاری نے چند جملات اپنی زبان پر جاری کئے جو آپ کےمقام صبر کو واضح اور روشن کر رہے تھے آپ نے فرمایا : «انَا فِى حَال الفَقرُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الغِنى ، وَ المَرَضُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الصِّحَةِ ، وَ المَوتُ أَحَبُّ‏ إِلَیَّ مِنَ الحَیَاة» میں غربت اور فقر کی زندگی کو امیری اور توانگری، ییماری کو تندرستی،اور موت کو زندگی پر برتر قرار دیتا ہوں، امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : «اَمّا نَحنُ اَهلُ الَبیت فَما یَرِدُ عَلَینَا مِنَ اللهِ مِنَ الفَقرِ وَ الغِنَى وَ المَرَضِ وَ الصِّحَةِ وَ اَلمَوتِ و اَلحَیَاةِ فَهو أَحَبُّ‏ اِلَینَا»،مگر ہم اہل بیت اس طرح ہیں کہ اگر خداوندعالم ہم کو فقیر رکھے تو ہم فقر پر راضی ہوتے ہیں، اور اگر ثروت مند قرار دے تو ہم اس پر راضی ہوتے ہیں، اور اگرمریض رکھےتو بیماری کو پسند کرتے ہیں اور صحت مند اور تندرست رکھے تو اس پر راضی ہوتے ہیں اور اگر خدا نے ہمیں زندگی دی تو ہم اس پر اور اگر موت دی تو ہم اس پر راضی ہوتے ہیں۔ (کلینی، محمد بن یعقوب ج8 ص253)
اس حدیث کی وضاحت میں جو امام باقر علیہ السلام کی خدا پر ہر حالت میں راضی ہونے پر دلالت کر رہی ہے، آپ ہی کے مکتب سے علم حاصل کرنے والے ایک با عمل عالم دین استاد اخلاق مرحوم میرزا جواد آقا ملکی تبریزی نے امام علیہ اسلام کی اس حدیث سے اخذ کرتے ہوئے فرمایا: اگر اپنے ارادہ کو ہمیشہ حق کی راہ پر گام زن رکھوں تو کبھی بھی خدا کے ارادہ کی مخالفت نہیں ہوگی، اس مقام کو مقام رضا کہتے .ہیں، اور یہ چیز امام علیہ السام کی حقیقی معرفت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے اگر بندہ خدا کی عظیم عنایت کو پہچانے تو یہ ممکن ہے۔

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button