خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:274)

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:274)
(بتاریخ: جمعۃ المبارک 8 نومبر 2024ء
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: نیکی
وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ؕ اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یَاۡتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۴۸﴾
اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے، پس تم لوگ نیکیوں کی طرف سبقت کرو،تم جہاں کہیں بھی ہوں گے اللہ (ایک دن) تم سب کو حاضر کرے گا، یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا کَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿۲۱﴾
ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جتنی ہے اور ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے اسے وہ جسے چاہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اپنے رب کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ سورہ آل عمران آیت ۱۳۳ میں فرمایا:
وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ۔۔۔۔
اور اپنے رب کی بخشش طرف جانے میں سبقت لو۔
ان دونوں آیتوں کو ملانے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے سرعت سے کام لو یعنی مسابقت میں مسارعت کرو۔
مغفرت کا عمل خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ سبقت لے جانا مغفرت کے اسباب کی طرف، ممکن ہے لہٰذا اس آیت میں حکم یہ ہے کہ اعمال صالحہ کی طرف سبقت لے جاؤ۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کے بعد عمل صالح کا ذکر کیوں نہیں ہے۔
نیکیاں برائیوں کو دو ر کر دیتی ہیں:
اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِکَ ذِکۡرٰی لِلذّٰکِرِیۡنَ﴿۱۱۴﴾ۚ
نیکیاں بیشک برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، نصیحت ماننے والوں کے لیے یہ ایک نصیحت ہے۔
نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ نیکیاں بجا لانے سے گناہ دھل جاتے ہیں۔ اس طرح نیکی کے دو اثرات ہوتے ہیں : ایک تو یہ کہ نیکی کا ثواب ملتا ہے اور دوسرا یہ کہ گناہ دھل جاتے ہیں۔
واضح رہے انسان اگر راہ راست پر ہو اور گناہ سرزد ہو تو اس سے آزاد ہونے کے درج ذیل ذرائع ہیں :
i۔ اللہ غفور و رحیم ہے۔ وہ گناہوں کو خود معاف فرماتا ہے۔
ii۔ توبہ کے ذریعے بھی انسان گناہ سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔
iii۔ نیکیوں کے بجا لانے سے گناہ دھل جاتے ہیں اور یہ سب نہ ہو اور گناہوں کے بوجھ کے ساتھ وارد قیامت ہو جائے اور راہ راست پر ہو تو
iv۔ شفاعت معصومین ؑکے ذریعے گناہوں سے نجات مل سکتی ہے۔
اس آیت کے ذیل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
صلوۃ المؤمن باللیل تذھب ما عمل من ذنب النھار ۔ (الکافی ۳: ۲۱۱)
مؤمن کی رات کی نماز (نمازِ شب) دن کے گناہوں کو دور کر دیتی ہے۔
نیکی پر تعاون کی تاکید:
قرآن میں نیکی کے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی جبکہ برائی کے معاملات میں تعاون سے گریز کرنے کی تاکید کی گئی ہے:
وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿۲﴾
اور (یاد رکھو) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ کا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔
نیکی اور تقویٰ جہاں ایک انفرادی عمل ہے، وہاں یہ دونوں ایک اجتماعی عمل بھی ہے کہ خود نیکی اور تقویٰ پر عمل کرے اور اس کام میں دوسروں کی مدد کرے۔ دوسروں کو نیکی کی ترغیب دے اور نیک کاموں کی رہنمائی کرے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی رکاوٹ یا غلط فہمی ہے تو اسے دور کرے۔ اس آیت میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس میں اجتماعی نیکی اور اجتماعی تقویٰ کا حکم ہے، جو انفرادی نیکی اور انفرادی تقویٰ سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح انفرادی گناہ کے ارتکاب سے اجتماعی گناہ کا ارتکاب کہیں زیادہ قابل نفرت ہے۔ لہٰذا گناہ اور زیادتی میں مدد دینے سے منع فرمایا۔ ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے تعاون علی البر و التقویٰ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کے اہم ترین اصلاحی دستور ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ایک اعلیٰ انسانی مثالی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے اور مسلمانوں میں جو فکری، اخلاقی، اقتصادی اور سیاسی انحطاط آیا ہے، وہ اس اسلامی انسان ساز دستور پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔
نیکی کے بارے میں احادیث:
امام علی علیہ السلام :
فِعلُ المَعروفِ ، وإغاثةُ المَلهوفِ ، وإقراءُ الضُّيوفِ ، آلَهُ السِّيادَةِ . (غرر الحكم : ۶۵۸۵)
نیکی کا کام ، مظلوم کی داد رسی اور مہمان کی ضیافت، سرداری کے اسباب ہیں۔
امام علی علیہ السلام : المَعروفُ ذَخيرَةُ الأبَدِ . (غرر الحكم : ۹۸۰)
نیکی ابدی ذخیرہ ہے۔
امام حسین علیہ السلام: اعلَموا أنَّ المَعروفَ مُكِسبٌ حَمدا ، ومُعقِبُ أجرٍ ، فلَو رَأيتُمُ المَعروفَ رَجُلاً لَرَأيتُموهُ حَسَنا جَميلاً يَسُرُّ النّاظِرينَ ويَفوقُ العالَمينَ ، ولَو رَأيتُمُ اللُّؤمَ رَأيتُموهُ سَمِجا قَبيحا مُشَوَّها تَنفِرُ مِنهُ القُلوبُ وتُغَضُّ دُونَهُ الأبصارُ . (مستدرك الوسائل : ۱۲ / ۳۴۳ / ۱۴۲۴۲)
جان لو کہ نیکی تعریف و توصیف کا ذریعہ ہے اور اجر کو اپنے پیچھے لیے ہوتی ہے، اگر تم نیکی کو انسان کی شکل میں دیکھو تو وہ حسین و جمیل صورت میں نظر آئے جسے دیکھنے والے خوش ہوجائیں، عالمین پر اسے فوقیت حاصل ہے اور اگر برائی کو انسانی شکل میں دیکھو تو اسے قبیح، بد شکل و بھیانک صورت میں دیکھو گے جس سے دلوں کو نفرت ہو اور آنکھیں دیکھنا گوارا نہ کریں۔
امام جعفرصادق علیہ السلام:أوَّلُ مَن يَدخُلُ الجَنَّةَ أهلُ المَعروفِ (الدعوات : ۱۰۸ / ۲۴۰)
بہشت میں سب سے پہلے نیکی کرنے والے لوگ ہی داخل ہوں گے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام:أهلُ المَعروفِ في الدّنيا هُم أهلُ المَعروفِ في الآخِرَةِ ؛ لأِ نَّهُم في الآخِرَةِ تَرجَحُ لَهُمُ الحَسَناتُ ، فيَجودونَ بِها عَلى أهلِ المَعاصي (أمالي الطوسيّ : ۳۰۴ / ۶۱۰)
دنیا میں نیکی کرنے والے آخرت میں بھی نیکی کمائیں گے، کیونکہ آخرت میں ان کا پلڑا بھاری ہوگا اور وہاں پر بھی گناہگاروں پر سخاوت کرتے ہوئے انہیں اپنی نیکیوں کی بخشش کریں گے۔
امام محمد تقی علیہ السلام: أهلُ المَعـروفِ إلَى اصطِناعِه أحوَجُ مِن أهلِ الحاجةِ إلَيهِ ؛ لأِنَّ لَهُم أجرَهُ وفَخرَهُ وذِكرَهُ ، فمَهما اصطَنَعَ الرَّجُلُ مِن مَعروفٍ فإنَّما يَبدأ فيهِ بِنَفسِهِ ، فلا يَطلُبَنَّ شُكرَ ما صَنَعَ إلى نَفسِهِ مِن غَيرِهِ .(كشف الغمّه : ۳ / ۱۳۷)
نیکی کرنے والوں کو دوسروں کی نسبت خود نیکی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ نیکیوں کا اجر، اعزاز اور نیک نامی خود انہیں ہی عطا ہوتی ہے۔ لہٰذا انسان جو بھی نیکی کرتا ہے پہلے اپنے ساتھ کرتا ہے۔ لہٰذا جو نیکی وہ اپنے ساتھ کرتا ہے اس کا شکریہ بھی دوسروں سے حاصل کرنے کی بجائے خود سے حاصل کرے۔
نیک و بد دونوں سے نیکی کرنے کی ترغیب
نیکی کرنے میں یہ تخصیص نہیں کہ جس سے نیکی کر رہے ہیں وہ خود بھی نیک ہو بلکہ برے کے ساتھ بھی نیکی کرنے کی تاکید کی گئی ہے:
رسولُ الله : رَأسُ العَقلِ بَعدَ الدِّينِ التَّوَدُّدُ إلَى النّاسِ ، واصطِناعُ الخَيرِ إلى كُلِّ بَرٍّ وفاجِرٍ (بحارالانوار : ۷۴ / ۴۰۱ / ۴۴)
دین کے بعد بہت بڑی عقلمندی لوگوں کے ساتھ محبت سے پیش آنااور ہر اچھے برے کے ساتھ نیکی کرنا ہے۔
نیک کاموں میں مختلف ہاتھوں کا عمل دخل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اصطَنِعِ الخَيرَ إلى مَن هُوَ أهلُهُ ، وإلى مَن هُوَ غَيرُ أهلِهِ ، فإن لَم تُصِبْ مَن هُوَ أهلُهُ فأنتَ أهلُهُ . (عيون أخبار الرِّضا عليه السلام : ۲ / ۳۵ / ۷۶)
اہل و نا اہل دونوں کے ساتھ نیکی کرو کیونکہ اگر تمہاری نیکی ایسے شخص کے ساتھ ہوگی جو اہل نہیں ہے، تو تم تو اس کے اہل ہو۔(یعنی تمہاری طرف سے نیکی تو ہوگئی اور ثواب بھی درج ہوگیا جس کے تم اہل ہو)
رسولُ الله ؐ: مَن تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ عَلى رَجُلٍ مِسكينٍ كانَ لَهُ مِثلُ أجرِهِ ، ولَو تَداوَلَها أربَعونَ ألفَ إنسانٍ ع مّ وَصَلَت إلى مِسكينٍ كانَ لَهُم أجرا كامِلاً (ثواب الأعمال : ۳۴۲ / ۱)
جو شخص کسی کی طرف سے کسی مسکین کو صدقہ دے اُسے اس کے مطابق اجر ملے گاخواہ چالیس ہزار انسانوں کے ہاتھوں سے گھوم کر مسکین کو ملے تاہم ان سب کو پورا پورا اجر ملے گا۔
امام جعفرصادق علیہ السلام: لَو جَرَى المَعروفُ عَلى ع مانينَ كَفّا لاَُجِروا كُلُّهُم فيهِ ، مِن غَيرِ أن يُنقَصَ صاحِبُهُ مِن أجرِهِ شَيئا (الكافي : ۴ / ۱۸ / ۲)
اگر کوئی نیکی اسی(۸۰) ہاتھوں میں گھومتی رہے پھر بھی سب کو اس کا اجر ملے گا اور نیکی کرنے والے کے اجر سے بھی کچھ کم نہیں ہوگا۔
نیکی کرکےاسے بھلا دینا:
اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی کرکے اسے بھول جانا چاہیے کیونکہ اگر یاد رکھے گا تو ہوسکتا ہے اس پر غرور و تکبر کا شکار ہو جائے یا ہوسکتا ہے جس کے ساتھ نیکی کی ہے اس پر احسان جتلائے اور ان دونوں صورتوں میں نیکی کا ثواب ضائع ہوجائے گا لہذا بہتر یہ ہے کہ انسان نیکی کرکے بھول جائے کیونکہ اس کے نامہ اعمال میں درج ہوجاتی ہے۔
امام علی علیہ السلام:أحْيِ مَعروفَكَ بِإماتَتِهِ (غرر الحكم : ۲۲۸۲)
نیکی کو مار کر (بھلا کر کے)اُسے زندہ کر ۔
یعنی جو نیکی انجام دینے کے بعد بھلا دی جائے وہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہوجاتی ہے اور قیامت کے دن اس کا اجر ملے گا۔
ایک اور مقام پہ فرمایا: إذا صُنِعَ إلَيكَ مَعروفٌ فَاذكُرْ ، إذا صَنَعتَ مَعروفا فَانْسَهُ (غرر الحكم۴۰۰۱)
جب تمہارے ساتھ کوئی نیکی کی جائے تو اُسے بیان کرو (یاد رکھو) اور جب تم کسی کے ساتھ نیکی کرو تو اُسے بھول جاؤ۔
اسی طرح فرمایا : مِلاكُ المَعروفِ تَركُ المَنِّ بهِ .
نیکی کا معیار یہ ہے کہ احسان جتانا تر ک کیا جائے۔
نیکی کو پایہ تکمیل تک پہنچانا
بعض لوگ نیکی کا کام شروع تو کرتے ہیں لیکن اسے مکمل نہٰں کرتے جبکہ روایت میں اس کی تاکید کی گئی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :استِتمامُ المَعروفِ أفضَلُ مِنِ ابتِدائهِ (غرر الحكم : ۹۷۲۴)
نیکی کا پایہ تکمیل تک پہنچانا اس کے آغاز سے بہتر ہوتا ہے۔
امام علی ؑ:مَن لَم يُرَبِّ مَعروفَهُ فقَد ضَيَّعَهُ (غرر الحكم : ۹۱۱۵)
جس نے نیکی کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا اس نے گویا نیکی کی ہی نہیں۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت ہے: الصَّنيعَهُ لا تَتِمُّ صَنيعَةً عِندَ المُؤمِنِ لِصاحِبِها إلاّ بِثلاثةِ أشياءَ : تَصغيرِها ، وسَترِها ، وتَعجيلِها ، فمَن صَغَّرَ الصَّنيعَةَ عِندَ المُؤمِنِ فقَد عَظَّمَ أخاهُ ، ومَن عَظَّمَ الصَّنيعَهَ عِندَهُ فقَد صَغَّرَ أخاهُ ، ومَن كَتَمَ ما أولاهُ مِن صَنيعِهِ فقَد كَرَّمَ فِعالَهُ ، ومَن عَجَّلَ ما وَعَدَ فقَد هَنِئَ العَطِيَّةَ (تحف العقول : ۴۰۳)
مومن کے نزدیک نیکی اس وقت تک پایہ تکمیل نہیں پہنچ سکتی جب تک اس میں تین چیزیں نہ ہوں:
۱۔اسے چھوٹا سمجھا جائے۔ ۲۔اسے چھپایا جائے۔ ۳۔اسے جلد انجام دیا جائے۔
پس جو شخص، مومن کے پاس اپنی نیکی کو چھوٹا سمجھے گا (چھوٹا اس اعتبار سے سمجھے کہ اس پر غرور نہ کرے کہ میں نے بہت بڑی نیکی کی ہے)وہ اپنے مومن بھائی کو بڑا سمجھے گا اور جو نیکی کو بڑا سمجھے گا وہ اپنے بھائی کو چھوٹا سمجھے گا، جو نیکی کو چھپائے گا وہ اپنے اعمال کو شرافت بخشے گا اور جو وعدہ وفائی میں جلدی کرے گا، وہ اپنی بخشش کو خوشگوار بنادے گا۔

نیکی کو ہرگز حقیر نہ جانو
پچھلی بیان کردہ روایت میں کہا گیا ہے کہ نیکی کو چھوٹا سمجھو ۔ وہ اس اعتبار سے ہے کہ انسان نیکی کو اس طرح بڑا نہ سمجھے کہ اس پر غرور و تکبر کرتا پھرے کہ میں نے تو بہت بڑی نیکی کر دی ہے کیونکہ اگر ایسا کرے گا تو نیکی کا اجر ضائع ہوجائے گا۔
جبکہ یہاں نیکی کو چھوٹا سمجھنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ انسان اسے چھوٹا سمجھ کر ترک نہ کر دے کہ یہ تو چھوٹی سی نیکی ہے اور اسے ترک کر بیٹھے۔ کیونکہ کوئی نیکی چھوٹی نیہں ہوتی بلکہ انسان کے خلوص کے اعتبار سے چھوٹی سی نیکی پر بھی بہت بڑا اجر ملنے کی امید رکھی جا سکتی ہے کیونکہ اجر دینے والے کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں۔
رسولُ الله ﷺ: لا تُحَقِّرَنَّ شَيئا مِنَ المَعروفِ ، ولَو أن تَلقى أخاكَ ووَجهُكَ مَبسوطٌ إلَيهِ
کسی نیکی کو ہرگز حقیر نہ جانو خواہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات ہی کیوں نہ کرو۔
امام علی ؑ: لا تَستَصغِر شَيئا مِنَ المَعروفِ قَدَرتَ عَلَى اصطِناعِه إيثارا لِما هُوَ أكثَرُ مِنهُ ؛ فإنَّ اليَسيرَ في حالِ الحاجةِ إلَيهِ أنفَعُ لأِهلِهِ مِن ذلكَ الكَثيرِ في حالِ الغَناءِ عَنهُ ، واعمَلْ لِكُلِّ يَومٍ بِما فيهِ تَرشُدُ (الجعفريّات : ۲۳۳)
امام علی علیہ السلام:نیکی کوئی بھی ہو اسے چھوٹا نہ جانواس لیے کہ جس کے ساتھ نیکی کی جارہی ہے اسے اس کی زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ ضرورت کے وقت چھوٹی سی چیز بھی بہت زیادہ مفید ہوتی ہے، اس زیادہ اور بڑی نیکی سے جب اس کی ضرورت نہیں ہوتی، نیز ہر روز ایسا کام کرو جس میں تمہاری بھلائی ہو۔

نیکی کی قبولیت کی علامت
امام علی ؑ:خَيرُ المَعروفِ ما اُصيبَ بهِ الأبرارُ .(غرر الحكم : ۴۹۸۳)
بہترین نیکی وہ ہے جو نیک لوگوں کے ساتھ کی جائے۔
نیکی کا ثواب
رسولُ الله ﷺ: مَن قادَ ضَريرا أربَعينَ خُطوَةً عَلى أرضٍ سَهلَةٍ ، لا يَفي بِقَدرِ إبرَةٍ مِن جَميعِهِ طِلاعُ الأرضِ ذَهَبا ، فإن كانَ فيما قادَهُ مَهلَكَةٌ جَوَّزَهُ عَنها وَجَدَ ذلكَ في ميزانِ حَسَناتِهِ يَومَ القِيامَةِ أوسَعَ مِنَ الدّنيا مِائةَ ألفِ مَرَّةٍ .(بحارالانوار : ۷۵ / ۱۵ / ۸)
جو شخص کسی نابینا کی ہموار زمین پر چالیس قدم تک دستگیری کرے (یعنی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے راستہ دکھائے گا) تو اس کے لیے یہ تمام زمین سونا ہوجائے گی اور سوئی کے برابر کوئی جگہ خالی نہیں ہوگی اور اس کے ثواب کی بھی کوئی برابری نہیں کرسکتا، نیز اگر اس دستگیری کے دوران اس نابینا کو ہلاکت سے بچایاجائے تو اسے وہ قیامت کے دن اپنی نیکیوں کےمیزان میں موجود پائے گا، جو دنیا سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ:
دَخَلَ عَبدٌ الجَنَّةَ بِغُصنٍ مِن شَوكٍ كانَ عَلى طَريقِ المُسلِمينَ فأماطَهُ عَنهُ . (الخصال : ۳۲ / ۱۱۱)
ایک بندہ خاردار ٹہنی کو مسلمانوں کے راستے سے ہٹانے کی وجہ سے بہشت میں جا پہنچا۔
(جبکہ ہم مسلمانوں کی حالت تو یہ ہے کہ اپنی گلی میں گندگی پھینک کر یا نالیاں ٹھیک نہ کرکے ہر وقت لوگوں کے ساتھ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں جوکہ بہت بڑا گناہ ہے)
رسول اللہ ص :مَن بَنى عَلى ظَهرِ الطَّريقِ ما يَأوي عابِرَ سَبيلٍ بَعَثَهُ اللهُ يَومَ القِيامَةِ عَلى نَجيبٍ مِن دُرٍّ ، ووَجهُه يُضيءُ لأِهلِ الجَنّةِ نورا (ثواب الأعمال : ۳۴۳ / ۱)
جو شخص راستے کے کنارے کوئی ایسی چیز بنائے جس میں راہ گزر پناہ لے سکیں تو اللہ اسے قیامت کے دن موتیوں کی سواریوں پر مبعوث فرمائے گا اور اس کا چہرہ تمام اہلِ بہشت میں چمک رہا ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ: مَن رَدَّ عَن قَومٍ مِنَ المُسلِمينَ عادِيةَ ماءٍ أو نارٍ وَجَبَت لَهُ الجَنَّهُ(الكافي : ۵ / ۵۵ / ۳)
جو شخص مسلمانوں سے پانی یا آگ کی مصیبت کو دور کرے اس پر جنت واجب ہوجاتی ہے۔
امام جعفر صادق ؑ:رَأيتُ المَعـروفَ كَاسمِهِ ، ولَيسَ شَيءٌ أفضَلَ مِنَ المَعروفِ إلاّ ع وابُهُ (مكارم الأخلاق : ۱ / ۲۹۴ / ۹۱۵)
میں نے نیکی کو اسمِ بامسمٰی پایا ہے، اس کے ثواب کے علاوہ کوئی چیز اس سے بالاتر نہیں۔
نیکی کرنا اور نیکی بچانا:
فقط نیکی کر لینا کافی نہیں بلکہ اسے قیامت تک اپنےساتھ بچا کر لے جانا بھی ضروری ہے تب ہی اس کا ثواب ملے گا۔ اس لیے قرآن نے کہا من جاء بالحسنۃ یعنی جو نیکی لے کر آئے گا۔۔۔جیسے یہ آیت:
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَاۚ-وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ (سورۃ الانعام آیۃ:160)
جو (اللہ کے پاس) ایک نیکی لے کر آئے گا اسے دس گنا (اجر) ملے گا اور جو برائی لے کر آئے گا اسے صرف اسی برائی جتنا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
پس جو اللہ کے پاس نیکی لے کر آئے۔ جب وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا تو نیکی اس کے پاس ہو گی۔ اس سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ نیکی بجا لانا کافی نہیں ہے، قیامت کے دن اللہ کے حضور نیکی لے کر حاضر ہو۔ چونکہ بعض اوقات ایک لغزش سے ساری نیکیاں اکارت جاتی ہیں۔
وَلِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيْهَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُواْ يَأْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِيعاً إِنَّ اللّٰهَ عَلیٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔(البقرۃ:149)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button