امام محمد تقی علیہ السلام کو کیوں شہید کیا گیا؟
مامون لوگوں کے دلوں میں امام علی رضا (علیہ السلام) سے بے پناہ محبت دیکھ کر برداشت نہیں کر سکا، اس لئے اس نے اس محبت کو مٹانے کے لئے امام علی رضا (علیہ السلام) کو شہید کر دیا لیکن مامون اس بات سے بے خبر تھا کہ فرزند رسول خدا صلی اللہ اور خلیفہ الہٰی کی محبت جس کے دل میں اتر جائےوہ جسموں کے مٹنے سے نہیں مٹتی۔
مامون اس بات کی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ شیعوں کے دلوں سے امام علی رضا (علیہ السلام) کی محبت کو نکال سکے اور نہ ہی اس کے لئے یہ ممکن تھا کہ آپ کو اجازت دے کہ اپنی ماتحت حکومت کے پایہ تخت سے دور جائیں،لہٰذا اس نے آپؑ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایالیکن امام علی رضا (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کے درجہ امامت پر فائز ہونے کی بناء پر اس کی مشکلوں میں کوئی کمی نہیں آئی، چونکہ عالم اسلام دیکھ رہا تھا کہ شیعوں کی امامت کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور امامت کی تمام ذمہ داریاں ایک کمسن شخص کی ہدایت میں انجام پا رہی ہیں، اور امام علی رضا (علیہ السلام) کی شہادت کے سلسلہ میں سب کی نگاہیں مامون کی جانب تھیں اور سب اسی کو قاتل جانتے تھے۔ اس طرح حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) مامون کے شر سے محفوظ رہے اور آپ(علیہ السلام) کوکوئی گزند نہ پہنچی۔
البتہ مامون اپنی بیٹی ام الفضل کے نکاح کے ذریعہ اپنے مقصد تک پہنچنے میں کامیاب رہا، اس لئے کہ اس طرح وہ امام (علیہ السلام) کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ مامون کے بعد والے حاکم نے بھی مامون کی پیروی کرتے ہوئے امام (علیہ السلام) کو تحتِ نظر رکھا اور امام (علیہ السلام) سے نجات حاصل کرنے کے فراق میں تھا۔ چونکہ آپ(علیہ السلام) بھی اپنے والد محترم کی طرح ستمگروں کو دھول چٹانے والے اور ھل من مبارز کا نعرہ بلند کرنے والے تھے۔ اس کی قدرت اور حکومت کے لئے سرسخت رقیب کی حیثیت سے شمار کیے جاتے تھے۔
حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی امامت اور ہدایت الہٰی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی لیاقت اور صلاحیت، ان ایام میں سب پر آشکار ہوچکی تھی، لیکن آپؑ کی سیاسی موقعیت اور معاشرہ میں آپ کا رسوخ اور آپؑ کی وسیع سرگرمیاں معتصم اور اس کے کارندوں کی نظروں سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں، اسی لئے عباسی خلیفہ نے آپ(علیہ السلام) کو بغداد طلب کرلیا۔
حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) محرم ۲۲۰ھ یعنی جس سال شہادت پائی اسی سال بغداد تشریف لائے۔معتصم ظاہری اعتبار سے حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) سے نہایت عزت و احترام سے پیش آیا۔ آپ(علیہ السلام) اور امّ الفضل کے لئے تحائف بھیجے،لیکن اندربغض و کینہ رکھے ہوئے تھا، اور فرصت تلاش کر رہاتھا تاکہ جو چال مامون نے امام علی رضا (علیہ السلام) کے لئے چلی تھی وہی امام جواد (علیہ السلام) کے لئے انجام دے۔ حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کا سماجی اثر و رسوخ لوگوں کے درمیان خاص طور پر بغداد اور عباسی حکومت کے پایہ تخت میں کافی پھیل چکا تھا، اور یہ اثر صرف عام لوگوں میں محدود نہیں تھا بلکہ بعض درباریوں کےدلوں میں رسوخ کرچکا تھا اورانہیں مسلمانوں کے حقیقی ہادی و رہبر اور حاکم کا شیدائی بنادیا تھا۔
معتصم نے پہلے کچھ درباریوں اور وزیروں کو طلب کیا اور ان سے کہا: ’’میرے سامنے محمد بن علی کے خلاف جھوٹی گواہی دو اور تحریری صورت میں رپورٹ پیش کرو کہ وہ حکومت کے خلاف خروج کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
اس نے اس سازش کے تحت حضرت امام محمدتقی (علیہ السلام) کو دربار میں طلب کیا اور کہا: ’’ تم چاہتے تھے میرے خلاف قیام کرو!؟‘‘ امام (علیہ السلام) نے فرمایا: ’’ خدا کی قسم جو چیز تو کہہ رہا ہے اس میں سے کچھ بھی انجام نہیں دیا ہے۔‘‘ معتصم نے کہا: ’’فلاں فلاں نے تمہارے خلاف گواہی دی ہے۔‘‘
پھر ان کو طلب کیا گیا اور انہوں نے کہا:’’ جی ہاں، ہم نے یہ خطوط آپ کے بعض غلاموں سے حاصل کئے ہیں‘‘۔ امام (علیہ السلام) جو مہمان خانہ میں تشریف فرما تھے انہوں اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا: ’’بارالٰہا! اگر یہ لوگ مجھ پر جھوٹا الزام لگارہے ہیں تو انہیں عذاب میں مبتلا کردے‘‘ ۔اچانک ہال کے در و دیوار ہلنے لگےاس طرح سے کہ ہر ایک اپنی جگہ سے اچھلتا اور زمین پر گر پڑتا۔ معتصم نے وحشت کے عالم میں امامؑ کی طرف رخ کیا اور کہا: ’’اے فرزند رسول خدا ! میں نے جو کہا اس پر شرمندہ ہوں! خدا سے دعا کردیجئے ہال کو اپنی جگہ ٹھہرادے‘‘۔ آپ(علیہ السلام) نے فرمایا:’’خدایا اسے روک دے تو جانتا ہے وہ تیرے اور میرے دشمن ہیں‘‘ امام کی دُعا سے حالات اپنے معمول پر آگئے۔
امام جواد (علیہ السلام) کی کامیابی اور معتصم کی رچی ہوئی سازش کی ذلت آمیز شکست نے عباسی حاکم کے دل میں فرزند رسول خداؐ کے بغض اور کینہ کو مزید بڑھا دیا اور آخری سازش کے عزم و ارادہ کو پکا کردیا۔
مؤلف: مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ