خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:294)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 21 مارچ 2025 بمطابق 20 رمضان المبارک 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع:فضائل شب قدر /سیرت امیر المومنینؑ
ماہ رمضان کی عظمت اور اس کی راتوں کی فضیلت کا ذکر قرآن مجید اور احادیث معصومین علیہم السلام میں بارہا آیا ہے۔ ان راتوں میں سب سے زیادہ اہمیت شب قدر کو حاصل ہے، جو ماہ رمضان کی 19، 21 اور 23 تاریخ کی راتوں سے منسوب کی جاتی ہے۔ اس کی فضیلت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
شب قدر کی فضیلت قرآن مجید سے:
اللہ تعالیٰ نے سورۃ القدر میں ارشاد فرمایا:
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ،وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ،لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ،تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ ،سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ (سورۃ القدر: 1-5)
ترجمہ: "بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ رات طلوع فجر تک سلامتی کی رات ہے۔”
اس سورۃ سے واضح ہوتا ہے کہ شب قدر ایک ایسی رات ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا، اور یہ ہزار مہینوں یعنی 83 سال سے زیادہ کی عبادت سے افضل ہے۔ اس رات فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور یہ رات صبح صادق تک سلامتی ہی سلامتی کی حامل ہوتی ہے۔ پس مومن کو چاہیے کہ اس بافضیلت رات کو جاگ کر اللہ کی عبادت میں گزارے تاکہ زیادہ سے زیادہ اللہ کی رضا اور اس کا مقرر کردہ ثواب حاصل کرسکے۔
احادیث اہل بیت میں شب قدر کی اہمیت:
امام صادق علیہ السلام سے روایت:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ هِيَ لَيْلَةُ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ عَلَيْهَا السَّلَامُ، فَمَنْ عَرَفَ فَاطِمَةَ حَقَّ مَعْرِفَتِهَا فَقَدْ عَرَفَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ
ترجمہ: "شب قدر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی رات ہے۔ جو شخص حضرت فاطمہ کو حقیقی معرفت کے ساتھ جان لے، اس نے شب قدر کو پا لیا۔” (تفسیر فرات کوفی)
یہ حدیث شب قدر کی عظمت کو حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی شخصیت سے جوڑتی ہے، جو اہل بیت کے نزدیک اس رات کی گہری معنویت کو ظاہر کرتی ہے۔
امام باقر علیہ السلام سے روایت:
مَنْ أَحْيَى لَيْلَةَ الْقَدْرِ غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ وَإِنْ كَانَ كَثِيرًا (وسائل الشیعہ، جلد 10، ص 348)
"جو شخص شب قدر کو جاگ کر (عبادت میں) گزارے تو اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، چاہے وہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔”
امام رضا علیہ السلام سے روایت:
مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، وَكَانَ مِنَ الْفَائِزِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
"جو شخص شب قدر میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرے، اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، اور وہ قیامت کے دن کامیاب ہونے والوں میں سے ہوگا۔” (بحار الانوار، جلد 94، ص 12)
یقینا ایسی کوئی رات شب قدر کے علاوہ پورے سال میں نہیں ہے جس کا اتنا زیادہ ثواب بیان ہوا ہو۔
امام صادق علیہ السلام سے روایت:
إِنَّ لَيْلَةَ الْقَدْرِ هِيَ سَيِّدَةُ اللَّيَالِي، فِيهَا يُقَدَّرُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ، وَتَنْزِلُ الْمَلَائِكَةُ بِمَا قُضِيَ مِنَ الْأَقْدَارِ
"بے شک شب قدر تمام راتوں کی سردار ہے، اس میں ہر حکیمانہ امر کا فیصلہ کیا جاتا ہے، اور فرشتے اس رات میں تقدیر کے فیصلوں کے ساتھ نازل ہوتے ہیں۔” (وسائل الشیعہ، جلد 10، ص 352)
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ شب قدر کو پورے سال کی تقدیر لکھی جاتی ہے یہی بات سورہ دخان (آیت 4) میں بھی بیان ہوئی ہے: فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ اس رات میں ہر حکیمانہ امر کی تفصیل وضع کی جاتی ہے۔
امام علی علیہ السلام سے روایت:
طَلَبُوا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَإِنَّهَا لَيْلَةٌ تُغْفَرُ فِيهَا الذُّنُوبُ وَتُقْبَلُ فِيهَا الدُّعَاءُ
"شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو، کیونکہ یہ وہ رات ہے جس میں گناہ معاف ہوتے ہیں اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔” (بحار الانوار، جلد 94، ص 9)
امام باقر علیہ السلام سے روایت:
مَنْ أَحْيَى لَيْلَةَ الْقَدْرِ كَتَبَ اللّٰهُ لَهُ أَجْرَ مَنْ عَبَدَ اللَّهَ أَلْفَ شَهْرٍ، وَكَانَ فِي حِفْظِ اللَّهِ وَأَمَانِهِ
"جو شخص شب قدر کو زندہ رکھے (عبادت میں گزارے)، اللہ اس کے لیے ہزار مہینوں کی عبادت کا اجر لکھتا ہے، اور وہ اللہ کے حفظ و امان میں ہوتا ہے۔” (وسائل الشیعہ، جلد 10، ص 349)
یہ حدیث سورۃ القدر کی آیت لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ کی عملی تفسیر پیش کرتی ہے اور اس رات کی عبادت کے عظیم ثواب کو بیان کرتی ہے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ، فَمَنْ لَمْ يُغْفَرْ لَهُ فِيهَا فَقَدْ حُرِمَ خَيْرًا كَثِيرًا(بحار الانوار، جلد 94، ص 15)
"شب قدر مغفرت اور رحمت کی رات ہے۔ اس میں جس شخص کی مغفرت نہ ہوئی، وہ بہت بڑی خیر سے محروم ہو گیا۔”
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ شب قدر نہ صرف عبادت اور مغفرت کی رات ہے بلکہ یہ تقدیر کے فیصلوں اور فرشتوں کے نزول کا وقت بھی ہے۔ اہل بیت علیہم السلام نے اس رات کی عظمت کو بارہا بیان کیا اور اسے اللہ سے قربت حاصل کرنے کا بہترین موقع قرار دیا۔ مکتب اہل تشیع کے مطابق، ان راتوں (19، 21، اور 23 رمضان) میں عبادت، دعا، اور استغفار کے ذریعے اس عظیم رحمت سے فیض یاب ہونا چاہیے۔اعمال شب قدر کے لیے مفاتیح الجنان سے رجوع کریں۔

تاریخی مناسبت: ایام امیر المومنین علیہ السلام
ماہ رمضان کے تین دن یعنی 19،20 اور 21 ماہ رمضان کو ایام امیر المومنینؑ کہا جاتا ہے کیونکہ 19 رمضان میں آپ کو مسجد کوفہ میں سجدے کی حالت میں تلوار سے ضرب لگائی گئی جبکہ 21 رمضان کو آپ شہادت پا گئے۔ انہی ایام کی مناسبت سے یہاں مولا علی ؑ کا ذکر کریں گے تاکہ ان کی سیرت سے اپنے لیے روشنی حاصل کر سکیں۔
1۔ امیر المومنین کا خطاب ملنا:
آپ کے مشہور القاب میں سے ایک لقب امیر المو منین ہے، یہ لقب آپ کو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے عطا کیا ہے، روایت میں ہے کہ ابو نعیم نے انس سے روایت کی کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا :
يَا أَنَسُ اسْكُبْ‏ لِي‏ وَضُوءً وَ مَاءً فَتَوَضَّأَ وَ صَلَّى ثُمَّ انْصَرَفَ
میرے وضو کرنے کے لئے پانی لاؤ، پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا
فَقَالَ يَا أَنَسُ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ عَلَيَّ الْيَوْمَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ سَيِّدُ الْمُسْلِمِينَ وَ خَاتَمُ الْوَصِيِّينَ وَ إِمَامُ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ
”اے انس اس دروازے سے جو بھی سب سے پہلے داخل ہوگا وہ امیر المو منین ہے، مسلمانوں کا سردار ہے، قیامت کے دن روشن ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے“،
قَالَ فَقُلْتُ اَللَّهُمَّ اِجْعَلْهُ رَجُلاً مِنَ اَلْأَنْصَارِ وَ لَمْ أُبْدِهَا لَهُ
انس کہتا ہے میں نے دعا کی کہ وہ شخص ا نصار میں سے ہو۔
فَجَاءَ عَلِيٌّ حَتَّى ضَرَبَ الْبَابَ فَقَالَ مَنْ هَذَا يَا أَنَسُ
اتنے میں حضرت علی(علیہ السلام) تشریف لائے تو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا؟
قُلْتُ هَذَا عَلِيٌّ قَالَ افْتَحْ لَهُ فَدَخَلَ. میں نے کہا علیؑ ہیں تو فرمایا دروازہ کھول دو۔
فَدَخَلَ فَقَامَ إِلَيْهِ حَتَّى اِعْتَنَقَهُ فَجَعَلَ يَمْسَحُ عَرَقَ وَجْهِهِ فَيَمْسَحُ وَجْهَهُ
آپ ﷺنے آگے بڑھ کر علی(علیہ السلام) سے معانقہ کیا(یعنی گلے لگایا)، پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایا
قَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا رَسُولَ اَللَّهِ لَقَدْ صَنَعْتَ بِيَ اَلْيَوْمَ مَا لَمْ تَصْنَعْهُ بِي قَطُّ
اس وقت علی(علیہ السلام) نے فرمایا: ”میرے ماں باپ آپ پر قربان یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا،
قَالَ وَ مَا يَمْنَعُنِي أَوْ قَالَ وَ لِمَ لاَ أَفْعَلُ وَ أَنْتَ تُؤَدِّي دَيْنِي وَ تُسْمِعُهُمْ صَوْتِي وَ تُبَيِّنُ لَهُمُ اَلَّذِي اِخْتَلَفُوا فِيهِ بَعْدِي .
آنحضرت نے فرمایا:”میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرا قرض ادا کرنے والے، میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میں صحیح راہنمائی کرنے والے ہو“۔[الیقین، ج1، ص430]۔
اسی طرح بہت سی روایات میں ملتا ہے کہ حضور نبی کریم نے دیگر اصحاب کو حکم دیا کہ وہ جناب علی ؑ کو امیر المومنین کہہ کر سلام کیا کریں۔
2. اِمام علی علیہ السلام کا مقامِ قربِ رسول ﷺ
امام علی علیہ السلام رسول خداﷺ کے چچا زاد بھائی، داماد، اور آپ کے حقیقی وصی تھے۔ نبیِ کریم ﷺے فرمایا:
"أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي”
"اے علی! تم میری نسبت ایسی حیثیت رکھتے ہو جیسی ہارون کی موسیٰ کے ساتھ تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ "(بحار الانوار، جلد 37، صفحہ 254)
اسی طرح واقعہ غدیر خم میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:
"مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ”
"جس کا میں مولا ہوں، اس کا یہ علی مولا ہے۔”(کتاب الغدیر، جلد 1، صفحہ 10)
یہ اعلان اِمام عَلِیْ عَلَیْہِ السَّلَام کی ولایت اور اِمامت کا واضح ثبوت ہے۔
3. علم و حکمت کا دروازہ
امام علی علیہ السلام کو نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے علم کا دروازہ قرار دیا۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:
"أَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا”
"میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔”
آپ کا علم اتنا وسیع تھا کہ اِمام جعفر صادق عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:
"عِلْمُ النَّاسِ كُلُّهُ مُسْتَمَدٌّ مِنْ عَلِيٍّ”
"لوگوں کا سارا علم علی سے ماخوذ ہے۔”(بصائر الدرجات، صفحہ 45)
4. عدل و انصاف کا واقعہ
اِمام عَلِیْ عَلَیْہِ السَّلَام عدل کے پیکر تھے۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ خلافت کے دور میں آپ کی زرہ گم ہو گئی، اور ایک نصرانی (یا یہودی)نے اسے اپنا قرار دیا۔ معاملہ قاضی کے سامنے پیش ہوا، اور قاضی نے گواہوں کے نہ ہونے کی بنا پر فیصلہ نصرانی کے حق میں دیا۔ اِمام عَلِیْ عَلَیْہِ السَّلَام نے فیصلہ قبول کیا اور فرمایا:
"الْحَقُّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ”
"حق اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔”(مناقب آل ابی طالب، جلد 2، صفحہ 45)
اس واقعے سے نصرانی اتنا متاثر ہوا کہ اس نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ یہ اِمام کے عدل اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
5۔عفو و درگزر: قاتل کے ساتھ حسن سلوک
جب اِمام عَلِیْ عَلَیْہِ السَّلَام کو ابن ملجم نے زہر آلود تلوار سے زخمی کیا، تو آپ نے اپنے آخری لمحات میں وصیت کی کہ اسے شربت پلایا جائے اور اچھا کھانا کھلایا جائے۔ آپ نے فرمایا:
 أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ۔دیکھو! میرےقتل کے بدلے صرف میرے قاتل ہی قتل کیاجائے۔
اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ،
دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس کےسر پر ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا،
وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ،
اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا،
فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ (صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ: ”اِیَّاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔
کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
یہ ہے وہ امام عدل کہ جس نے اپنے قاتل کے ساتھ بھی عدل کا معاملہ کیا۔
چونکہ ماہ رمضان ہے تو روزے سے متعلق امام علی ؑ کی تعلیمات بھی اپنی گفتگو کا حصہ بناتے ہیں۔روزے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے امیر المؤمنین علیؑ  کا فرمان یوں منقول ہے:
فَرَضَ اللّٰہ … الصِّيَامَ ابْتِلَاءً لِإِخْلَاصِ الْخَلْق‏.
خداوند نے روزے کو اپنی مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ (نہج البلاغہ حکمت 252)
اسی طرح ایک مقام پہ یوں ارشاد ہے:
الصِّيامُ اجتِنابُ الَمحارِمِ كما يَمتَنِعُ الرجُلُ مِن الطَّعامِ والشَّرابِ. (بحارالانوار: ۹۶ / ۲۹۴ / ۲۱)
روزہ ہر قسم کے حرام سے اجتناب کا نام ہے، جس طرح انسان کھانے پینے سے اجتناب کرتا ہے۔
وصیتِ امیر المومنین علیہ السلام:
ایام امیر المومنین میں ضروری ہے کہ ہم اپنے مولا و آقا کی آخری وصیت کا مطالعہ کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ روایت میں ہے کہ جب حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو ابن ملجم ملعون ضربت لگا چکا تو آپ علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو ایک وصیت فرمائی اگرچہ ظاہری طور پر یہ وصیت آپ علیہ السلام نے اپنے دونوں بیٹوں کو کی ہے لیکن اس وصیت پہ عمل کرنا تمام شیعان امیر المومنین علیہ السلام پہ واجب ہے۔ اس وصیت میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:
اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ۔
میں تم دونوں کو خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔
وَاِنْ لَا تَبْغِیَاالدُّنْیَا وَاِنْ بَغَتْکُمَا۔
اور دیکھو دنیا کی طرف مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری طرف مائل کیوں نہ ہو۔
وَلَا تَأَسَفًا عَلیٰ شَیْ ءٍ مِنْھَا زُوِیَ عَنْکُمَا۔
اور دنیا کی جس چیز سے تم کو روک لیاجائے اس پر افسوس نہ کرنا۔
وَقُوْلَا بِالْحَقِّ۔
اور جو بھی کہنا حق کہنا۔
وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ۔
اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا۔
وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا۔ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔
اُوْصِیْکُمَا وَجَمِیْعَ وَلَدِیْ وَاَھْلِیْ وَمَنْ بَلَغَہُ کِتَابِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَنَظْمِ اَمْرِکُمْ۔
میں تم دونوں کو اوربقیہ اپنی تمام اولادوں اور، اپنے تمام اهل وعیال کواور ان تمام افراد کو کہ جن تک یہ میرانوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا۔
وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ۔ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ یَقُوْلُ:صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ۔
اورباہمی تعلقات کو استوار رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے هوےسنا ہے کہ:آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْاَیْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ وَلَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ۔
خدارا خدارایتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا که کہیں ان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہاری موجود گی میں وہ ضائع نہ ہو جائیں
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّھُمْ وَصِیَّۃُ نَبِیِّکُمْ، مَازَالَ یُوْصِیْ بِھِمْ، حَتَّی ظََنَنَّا أَنَّہُ سَیُوَرِّثُھُمْ۔
خدارا خدا را . اپنے ہمسایوں کا خیال رکہنا کہ ان کے بارے میں تمہارے نبی نے وصیت کی اور اتنی شدیدتاکید فرمائی ہےکہ یہ گمان ہونے لگا تها کہ کہیں آپ ؐاُنھیں بھی میراث پانے والوں میں سے قرار نہ دے دیں
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ۔
خدارا خدارا قرآن کا خیال رکھنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الصَّلوٰةِ، فَاِنَّھَاعَمُودُ دِیْنِکُمْ۔
خدارا خدارا نماز کی ادائیگی میں پابند رهنا اس لئے کہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْہُ مَابَقِیْتُمْ۔
خدارا خدارا اپنے رب کے گھر کا خیال رکھنا، جب تک کہ تم زندہ ہو اسے خالی نہ چھوڑنا۔
فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا۔کیونکہ اگر اسے خالی چھوڑ دیا توپھر عذاب سےمہلت نہ ملے گی۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ۔
خدارا خدارا راہِ خدا میں اپنی جان. مال.اور زبان کے ذریعے جہاد سے دریغ نہ کرنا
وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ۔
تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرنا اورخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔
لَا تَتْْرُکُواالْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔
دیکھو!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تب بھی وہ قبول نہ ہوگی۔
یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔
اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔
أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ۔دیکھو! میرےقتل کے بدلے صرف میرے قاتل ہی قتل کیاجائے۔
اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ، وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ (صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ: ”اِیَّاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔
دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس کےسر پر ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
(نہج البلاغہ مکتوب (47) وصیت ترجمہ مرحوم مفتی جعفر حسین)

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button