محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا آیات قرآنی کی روشنی میں

مقدمہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سردار انبیاء و رحمۃ للعالمین کی دختر ، سید الاوصیاء امام علی ؑ کی زوجہ اورامام حسن و امام حسین علیھما السلام کی مادر گرامی ہیں۔آپ اصحاب کسا اور پنجتن پاک میں سے ہیں اور معصومہ ہیں ۔زہرا،بتول، سیدۃ النساء، عذراء، محدثہ ، معظمہ اور ام ابیھا وغیرہ آپ کےمشہور القابات ہیں۔ حضرت فاطمہ(س) واحد خاتون اسلام ہیں جو نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ میں پیغمبر اکرمؐ کے ہمراہ تھیں اس کے علاوہ سورہ کوثر ، آیت تطہیر،آیت مودت، آیت اطعام اورحدیث بضعۃ آپؑ کی شان اور فضیلت میں وارد ہوئی ہیں۔روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرمؑ نے فاطمہ زہراؑ کو سیدۃ نساء العالمین کے طور پر متعارف کیا اور ان کی خوشی اور ناراضگی کو اللہ کی خوشنودی و ناراضگی قرار دیا ہے۔
آیت تطہیر:
"انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت لیطھرکم تطھیرا” ( احزاب :33)
"اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔”
یہاں اہل بیت سے مراد امام علی علیہ السلام جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور امام حسن وحسین علیھما السلام ہیں اس حدیث کو شیعہ اور اہل سنت دونوں نے نقل کیا ہے مثال کےطور ایک حدیث حرم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ام سلمہ ؒ بیان فرماتی ہیں۔
یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیھم السلام کو بلایا اور ان پر چادر ڈال دی پھر فرمایا:
اللھم ھولاء اھل بیتی
اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔
آپ ہی کی ایک روایت میں ہےکہ جناب ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔!
انک علی خیرانک من ازواج النبی۔
تم خیر پر ہو اور تم ازواج پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہو۔
اس کے علاوہ ابو سعید خدری کی رایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحت کےساتھ فرمایا:
ھذہ الایۃ فی خمسۃ فی و فی علی وحسن و حسین و فاطمہ۔
یہ آیت پنجتن کی شان میں ہے؛ یعنی میرے ، علی اور حسن و حسین و فاطمہ سلام اللہ علیھم کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القرآن ۔ سورہ احزا ب: ۳۳)
آیت مباہلہ:
“فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ “(آل عمران؛61)
"آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔”
شیعہ اور اہل سنت مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نجران کےنصاری کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے؛عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کو اقنوم ثلاثہ میں سے ایک مانتے ہوئے انکو معبود کے درجے تک لے جاتے تھے اورعیسیٰؑ کےبارے میں قرآن کریم کی توصیف سے متفق نہیں تھے جس میں انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی قرار دیا گیا تھا۔ جب پیغمبر اکرم کی گفتگو اور دلائل عیسائیوں پر مؤثر ثابت نہ ہوئے تو آپؐ نے ان کو مباہلے کی دعوت دی۔
محدثین، مفسرین،مورخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور(ص) نے مباہلے کے موقع پر حسنین ، فاطمہ اور علی علیھم السلام کو ساتھ لیا۔ چناچہ علامہ ابو بکر جصاص راقمطراز ہیں۔
سیرت نگاروں اور مورخین میں سے کسی نے بھی اس بات میں اختلاف نہیں کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن ، حسین ، فاطمہ اور علی علیھم السلام کا ہاتھ پکڑ کر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی۔
(الکوثر فی تفسیر القرآن ۔ آل عمران ۶۱)
آیت مودت:
"قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى” (سورہ شوریٰ ۲۳)
کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا صاحبان قرابت کی محبت کے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت مدینہ اور اسلامی معاشرے کی داغ بیل ڈالنے کے بعدانصار نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلامی نظام کے انتظام کے لیے کہا کہ ” اپنے نئے معاشرے کی تشکیل کے لئے اگر آپ کو مالی اور معاشی ضرورت ہے تو ہماری پوری دولت اور تمام وسائل آپ کے اختیار میں ہیں، جس طرح آپ خرچ کریں اور ہمارے اموال میں جس طرح بھی تصرف کریں، ہمارے لئے اعزاز و افتخار کا باعث ہوگا؛ تو فرشتہ وحی آیت مودت لے کر نازل ہوا۔
سعید بن جبیر سے روایت ہےکہ جب آیت مودت نازل ہوئی تو ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ۔! آپ کے وہ قریبی کون سے ہیں؟ کہ جن کی مودت ہم پر واجب ہے تو آپ (ص) نے ارشاد فرمایا اس سے مراد علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے ہیں۔
(تفسیر نمونہ۔ سورہ شوریٰ ۲۳)
سورہ کوثر:
"انا اعطینٰک الکوثر” ( کوثر:1)
بے شک ہم نےہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔
مفسرین نے لفظ کوثر کی تفسیر میں بہت سارے مطالب بیان کئے ہیں۔ اس سلسلے میں لفظ کوثر کے مصداق کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ شیعہ علماء "کوثر” کے مصداق کو حضرت فاطمہؑ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اس سورت میں ان اشخاص کا تذکرہ ہے جو پیغمبر اکرمؐ کو بے اولاد اور ابتر سمجھتے تھے۔ حالنکہ آنحضرت ؐ کی اولاد آپ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہؑ کی نسل سے آگے بڑی جنہوں نے امامت جیسے عظیم عہدے کو سنبھال کر دین اسلام کی آبیاری کی جس کی بنا پر آج اسلام کا یہ تنومند درخت پوری آب و تاب کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
(تفسیر نمونہ۔ سورہ کوثر)
آیت قربی
واٰت ذاالقربیٰ حقہ۔
اور قریب ترین رشتہ دار کو اس کا حق دیا کرو۔
"ذَا الْقُرْ‌بَىٰ” کے بارے میں مفسرین کے درمیان یہ سوال ایجاد ہوتے ہیں کہ آیا اس سے مراد ہر رشتہ دار ہیں یا صرف پیغمبر اکرمؐ کے رشتہ دار مراد ہیں؟ تفسیر نمونہ کے مطابق شیعہ ائمہ معصومین سے نقل شدہ احادیث کے مطابق "ذَا الْقُرْ‌بَىٰ” سے صرف اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں لیکن یہ احادیث آیت کے مصادیق کو صرف اہل بیت میں منحصر نہیں کرتیں بلکہ اہل بیت کو اس کا کامل مصداق قرار دیتی ہیں لہذا ہر شخص سے اپنے رشتہ داروں سے متعلق پوچھا جائے گا۔
شیعہ اور اہل سنت احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے لئے فدک بطور ہدیہ عطا فرمایا۔ حدیث میں ہے
جب آیت واٰت ذاالقربیٰ حقہ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ سلام اللہ علیھا کو بلایا اور انہیں فدک عنایت فرمایا۔
(الکوثر فی تفسیر القرآن۔ الاسراء ۲۶ )
آیت اطعام:
"وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا” (دھر،08، 09)
یہ آیت اس مشہور واقعہ کے بعد نازل ہوئی ۔جب امام حسن اور امام حسین علیھما السلام بیمار ہوئے تو گھر میں تما م افراد نے ان کی صحت یابی کےلیے تین دن روزہ رکھنے کی نذر مانی ۔ جب آپ دونوں تندرست ہوگئے تو سب گھر والوں نے روزہ رکھا اور افطار کے وقت دروازے پر سائل نے صدا دی اے اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔!کوئی ہے جوبھوکے کو کھانا کھلائے۔ انہوں اپنا مکمل کھانا سوالی کو عطا کردیا یہی واقعہ تین دن پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی شان یہ آیت نازل فرمایئ۔
بعض اہل سنت مفسرین کی نگاہ میں آیت اطعام اہل یت علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں اہل سنت کے 34 علماء کا نام لکھا ہے جنہوں نے متواتر طور پر تائید کی ہےکہ یہ آیات اہل بیتؑ کی شان اورامام علی، فاطمہ حسن اور حسین علیھم السلام کے فضائل بیان کرتی ہیں۔ شیعہ علماء کی نگاہ میں اس سورہ کی اٹھارہ آیات مکمل سورہ انسان اہل بیتؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے اور تفسیر یا حدیث کی کتابوں میں اس واقعہ سے مربوط روایت کو علیؑ، فاطمہ ؑ اور ان کے فرزندان کے افتخارات ااور اہم فضائل میں سے ایک قرار دیا ہے۔
(تفسیر نمونہ۔ سورہ انسان 9،۸)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button