خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:301)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 02 مئی 2025 بمطابق 04 ذیقعد 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع:توحید
توحید، یعنی اللہ کی وحدانیت، اسلامی عقیدے کا بنیادی ستون ہے۔ یہ نہ صرف اللہ کی ذات، صفات، اور افعال میں یکتائی پر ایمان رکھنے کا نام ہے، بلکہ ایک طرزِ فکر اور عمل ہے جو ہماری زندگی کو اللہ کی رضا کے تابع کرتا ہے۔ محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توحید کے پیغام کو نہ صرف اپنی تعلیمات بلکہ عقلی دلائل اور عملی نمونوں سے پھیلایا۔ خصوصاً امام جعفر صادق علیہ السلام نے دہریوں اور غیر موحدین کو اللہ کے وجود اور وحدانیت کے دلائل دیے۔ آئیے، ہم قرآن، نہج البلاغہ، اہل بیت علیہم السلام کی احادیث، اور ان کی سیرت کی روشنی میں توحید کی عظمت کو سمجھیں۔
توحید کی قرآنی بنیاد
قرآن مجید توحید کا عظیم پیغام لے کر آیا۔ اللہ تعالیٰ سورہ اخلاص میں فرماتے ہیں:
قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ ، اللّٰهُ الصَّمَدُ ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ۔ (القرآن الکریم، سورہ الاخلاص)
ترجمہ:کہو: وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔
تفسیر الکوثر:
علامہ شیخ محسن علی نجفی اعلی اللہ مقامہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
مختلف مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوا کہ اپنے رب کی تعریف کریں آپ کا رب کون ہے؟ جواب میں یہ سورۃ نازل ہوئی۔ یہ سوال مکہ کے مشرکین نے کیا، مدینہ کے اہل کتاب نے کیا۔ ان میں سے ایک سوال کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ باقی مواقع پر سوال کے جواب میں یہ سورت پڑھ کر سنا دی جاتی۔
اس سورت کا مضمون توحید ہے۔ اس میں توحید باری کے سلسلے میں تمام جوانب کا بیان ہے:
الف: اللہ وہ یکتا ذات ہے جس میں دوہرے کا تصور نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کو لفظ اَحَدٌ سے بیان فرمایا۔
ب: اللہ کی ذات وہ یکتا موجود ہے جس کے ہاتھ میں کل کائنات کی تدبیر اور نظام ہے۔ اسی لیے کسی مطلب کی برآوری کے لیے صرف اور صرف اسی کی طرف وجوع کیا جاتا ہے۔ اگر کسی ذات کو وسیلہ بنایا جاتا ہے تو اس ما ذون وسیلہ کے ذریعے رجوع اللہ ہی کی طرف کرنا ہے۔ اس مطلب کو اَللّٰہُ الصَّمَدُ سے بیان کیا گیا ہے جس کے معنی مرجع و مأ وائے کل کے ہیں۔ یعنی کل کائنات اللہ کی محتاج ہے اور اللہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔
ج: اللہ اس سے پاک و منزہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ تمام کائنات کے ساتھ اللہ کی نسبت عبد و معبود، خالق و مخلوق کی ہے۔ اولاد کی نسبت دینا شان الٰہی میں انتہائی گستاخی ہے۔ یہ گستاخی کتنی بڑی گستاخی ہے اس کا اندازہ سورہ مریم کی آیات ۹۰۔ ۹۱سے ہوتا ہے جن میں فرمایا:
تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا ﴿﴾ اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا ﴿﴾
قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمن کے لیے فرزند (کی موجودگی) کا الزام لگایا ہے۔
اس مطلب کو لَمۡ یَلِدۡ سے واضح فرمایا۔
د: اللہ تعالیٰ قدیم ہے لہٰذا یہ تصور ممکن نہیں ہے کہ کوئی یہ بچگانہ سوال اٹھائے: ہر چیز کو اللہ نے پیدا کیا۔ اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ چونکہ اللہ کی ذات بذات خود موجود ہے۔ اس کا وجود کسی اور سے نہیں ہے۔ اس مطلب کو وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ سے بیان فرمایا۔
ھ: اللہ کی ذات وہ یکتا ذات ہے جس کا کوئی ہمسر نہیں ہو سکتا۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہو سکتا۔ اس مطلب کو وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ سے بیان فرمایا۔

حضرت علیؑ  کی سورہ توحید سے محبت:
اس سورۃ المبارکہ کی فضیلت میں یہ بات اہم ہے کہ اس کی کثرت سے تلاوت کرنا اللہ کے ساتھ عشق و محبت کی علامت ہے اور اس شخص کو اللہ کی محبت کی سعادت حاصل ہوتی ہے جو اس سورۃ کی کثرت سے تلاوت کرتا ہے۔
چنانچہ کتاب التوحید میں مذکور ہے: عمرو بن حصین نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک مہم پر سردار بنا کر بھیجا۔ جب واپس ہوئے تو لوگوں سے پوچھا گیا تو لوگوں نے کہا: سب بخیر ہے۔ صرف یہ کہ علی (علیہ السلام) نے ہمیں ہر نماز قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ کے ساتھ پڑھائی۔ اس پر علی (علیہ السلام) سے پوچھا تو علی (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا: لحبی لقل ھو اللّٰہ۔ قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ سے مجھے محبت ہے اس لیے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ما احببتھا حتی احببک اللّٰہ۔
جب تک اللہ نے آپ سے محبت نہیں کی آپ نے اس قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ سے محبت نہیں کی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ نماز کی دونوں رکعتوں میں الحمد کے بعد باقی کوئی سورت دونوں رکعتوں میں پڑھنا مکروہ ہے لیکن سورہ توحید دونوں رکعتوں میں پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔
اسی طرح ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پنجگانہ نمازوں میں سے کسی ایک نماز میں بھی سورہ توحید نہ پڑھنا مکروہ ہے۔(توضیح المسائل)
اسی طرح، سورہ بقرہ کی آیہ الکرسی میں ارشاد ہے:
لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ( سورہ البقرہ (2:255)
ترجمہ:کوئی معبود نہیں سوائے اس کے، وہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔ اسے نہ سستی گھیرتی ہے نہ نیند۔ اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔
یہ آیات توحید کی بنیاد کو واضح کرتی ہیں اور ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ ہم اپنے ایمان کو اللہ کی وحدانیت پر مضبوط کریں۔
نہج البلاغہ میں توحید کی تشریح
امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں توحید کی گہری تشریحات پیش کی ہیں۔ خطبہ نمبر 1 میں اللہ کی تعریف میں فرماتے ہیں:
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَا یَبْلُغُ مِدْحَتَهُ الْقَآئِلُوْنَ، تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے، جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں،
وَ لَا یُحْصِیْ نَعْمَآئَهُ الْعَادُّوْنَ جس کی نعمتوں کو گننے والے گن نہیں سکتے،
وَ لَا یُؤَدِّیْ حَقَّهٗ الْمُجْتَهِدُوْنَ، نہ کوشش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں،
الَّذِیْ لَا یُدْرِكُهٗ بُعْدُ الْهِمَمِ، نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں،
وَ لَا یَنَالُهٗ غَوْصُ الْفِطَنِ، نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہنچ سکتی ہیں۔
الَّذِیْ لَیْسَ لِصِفَتِهٖ حَدٌّ مَّحْدُوْدٌ، وَ لَا نَعْتٌ مَّوْجُوْدٌ، وَ لَا وَقْتٌ مَّعْدُوْدٌ،وَ لَاۤ اَجَلٌ مَّمْدُوْدٌ.
اس کے کمالِ ذات کی کوئی حد معین نہیں، نہ اس کیلئے توصیفی الفاظ ہیں، نہ اس (کی ابتدا) کیلئے کوئی وقت ہے جسے شمار میں لایا جا سکے، نہ اس کی کوئی مدت ہے جو کہیں پر ختم ہو جائے۔
فَطَرَ الْخَلَاۗئِقَ بِقُدْرَتِهٖ، اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا،
وَ نَشَرَ الرِّیَاحَ بِرَحْمَتِهٖ، اپنی رحمت سے ہواؤں کو چلایا
وَ وَتَّدَ بِالصُّخُوْرِ مَیَدَانَ اَرْضِهٖ. اور تھرتھراتی ہوئی زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑیں۔

پھر آگے آپ نے اللہ کی معرفت و شناخت کو دین کی ابتداء قرار دیا کیونکہ اس کے بغیر باقی دین بے فائدہ ہے۔
اَوَّلُ الدِّیْنِ مَعْرِفَتُهٗ، وَ كَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدِیْقُ بِهٖ، وَ كَمَالُ التَّصْدِیْقِ بِهٖ تَوْحِیْدُهٗ، وَ كَمَالُ تَوْحِیْدِهِ الْاِخْلَاصُ لَهٗ، وَ كَمَالُ الْاِخْلَاصِ لَهٗ نَفْیُ الصِّفَاتِ عَنْهُ، لِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَةٍ اَنَّها غَیْرُ الْمَوْصُوْفِ، وَ شَهَادَةِ كُلِّ مَوْصُوْفٍ اَنَّهٗ غَیْرُ الصِّفَةِ..( نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 1)
ترجمہ: ” دین کی ابتدا اس کی معرفت ہے، کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے، کمالِ تصدیق توحید ہے، کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے اور کمالِ تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے، کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے۔”
یہ خطبہ ہمیں سکھاتا ہے کہ توحید اللہ کی معرفت کا کمال ہے، اور اس کا تقاضہ ہے کہ ہم اللہ کو ہر قسم کی مخلوقاتی صفات سے پاک مانیں۔
خطبہ نمبر 180 میں امام فرماتے ہیں:
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ مَصَآئِرُ الْخَلْقِ، وَ عَوَاقِبُ الْاَمْرِ، نَحْمَدُهٗ عَلٰی عَظِیْمِ اِحْسَانِهٖ، وَ نَیِّرِ بُرْهَانِهٖ، وَ نَوَامِیْ فَضْلِهٖ وَ امْتِنَانِهٖ، حَمْدًا یَّكُوْنُ لِحَقِّهٖ قَضَآءً، وَ لِشُكْرِهٖۤ اَدَآءً، وَ اِلٰی ثَوَابِهٖ مُقَرِّبًا، وَ لِحُسْنِ مَزِیْدِهٖ مُوْجِبًا.
"تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس کی طرف تمام مخلوق کی بازگشت اور ہر چیز کی انتہا ہے۔ ہم اس کے عظیم احسان، روشن و واضح برہان اور اس کے لطف و کرم کی افزائش پر اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ ایسی حمد کہ جس سے اس کا حق پورا ہو اور شکر ادا ہو اور اس کے ثواب کے قریب لے جانے والی اور اس کی بخششوں کو بڑھانے والی ہو۔”
اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں توحید
آئمہ اہلبیتؑ نے ہممیشہ لوگوں کو توحید کی تلقین کی۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:
مَا مِنْ شَيْءٍ أَعْظَمَ ثَوَاباً مِنْ شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللّٰهُ، إِنَّ اَللّٰهَ عَزَّ وَ جَلَّ لاَ يُشْبِهُهُ شَيْءٌ وَ لاَ يَشْرَكُهُ فِي اَلْأُمُورِ أَحَدٌ.
لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللّٰهُ کی گواہی سے زیادہ کوئی چیز ثواب میں بڑھ کر نہیں ہے کیونکہ اللہ کی کوئی شبیہ نہیں ہے اور اس کے امور میں کوئی شریک نہیں ہے۔(اور یہی بات لاالہ الا اللّٰہ کے اقرار میں شامل ہے)
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جیسا کہ کوئی بھی چیز خداوند متعال کی مثل وہمسر نہیں، اس ذات قدوس کے امرمیں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ کوئی عمل اس حقیقت کی گواہی کا مثل و ہمسر نہیں جو کلمہ طیبہ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللّٰهُ کا مضمون ہے اورعمل کے ساتھ شایان شان جزاکے ثواب میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں۔
زبان سے لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللّٰهُ کی گواہی، دنیا میں جان ومال کی حفاظت کا سبب ہے اور دل سے اس کی گواہی آتش جہنم کے عذاب سے نجات کا باعث ہے اور اس کی جزا جنت ہے۔ یہ کلمہ طیبّہ رحمت رحمانیہ ورحیمیہ کا مظہر ہے۔
اہل بیت علیہم السلام کی زندگی سے توحید کے متعلق واقعات
اہل بیت علیہم السلام نے اپنی زندگی میں توحید کو عملی طور پر پیش کیا۔ چند اہم واقعات یہ ہیں:
1۔ امام علی علیہ السلام کا جنگ خیبر میں توحید کا اعلان:جنگ خیبر میں جب امام علی علیہ السلام نے خیبر کے قلعے کا دروازہ اکھاڑا، تو یہ ان کے توحید پر کامل ایمان کا مظہر تھا۔ روایت کے مطابق، جب ان سے اس کی طاقت کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا:
مَا اقْتَلَعْتُهُ بِقُوَّةٍ جَسَدِيَّةٍ، بَلْ بِقُوَّةٍ إِلَهِيَّةٍ.( بحار الانوار، جلد 21، صفحہ 30)
ترجمہ:”میں نے اسے جسمانی طاقت سے نہیں، بلکہ الہی قوت سے اکھاڑا۔”یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ امام علی علیہ السلام اپنی ہر کامیابی کو اللہ کی وحدانیت سے منسوب کرتے تھے۔
2۔ امام حسین علیہ السلام کا کربلا میں توحید کا درس:کربلا کے میدان میں، امام حسین علیہ السلام نے اپنی قربانی سے توحید کی عظمت کو ظاہر کیا۔ عاشور کے دن، زخمی حالت میں بھی وہ اللہ کی حمد کر رہے تھے اور فرمایا:
إِلَهِي رِضًا بِقَضَائِكَ، تَسْلِيمًا لِأَمْرِكَ، لَا مَعْبُودَ سِوَاكَ.(مقتل الحسین، مقرم، صفحہ 345)
ترجمہ:”اے میرے معبود! میں تیری رضا پر راضی ہوں، تیرے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔”یہ کلمات توحید پر ان کی استقامت کو ظاہر کرتے ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کے دہریوں کو دیے گئے دلائل
امام جعفر صادق علیہ السلام نے دہریوں (atheists) اور غیر موحدین کو توحید کے عقلی دلائل دیے۔ یہاں چند اہم واقعات پیش کیے جاتے ہیں:
دہریہ کے ساتھ مکالمہ اور کائنات کی ہم آہنگی:
ایک دہریہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ اللہ کے وجود کا کیا ثبوت ہے۔ امام نے فرمایا:
انْظُرْ إِلَى هَذِهِ الْكَائِنَاتِ، كَيْفَ تَسِيرُ بِنِظَامٍ دَقِيقٍ؟ أَفَتَظُنُّ أَنَّ هَذَا النِّظَامَ وُجِدَ بِلَا صَانِعٍ؟ إِنَّ الْبَيْتَ لَا يُبْنَى بِلَا بَانٍ، فَكَيْفَ تَكُونُ هَذِهِ الْكَائِنَاتُ الْعَظِيمَةُ بِلَا خَالِقٍ؟( اصول کافی، جلد 1، کتاب التوحید)
ترجمہ:”ان مخلوقات کو دیکھو، یہ کس طرح ایک دقیق نظام کے ساتھ چل رہی ہیں؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ نظام بغیر کسی بنانے والے کے وجود میں آیا؟ ایک گھر بغیر بنانے والے کے نہیں بنتا، تو یہ عظیم کائنات بغیر خالق کے کیسے ہو سکتی ہے؟”اس دلیل نے دہریہ کو خاموش کر دیا، کیونکہ کائنات کی ہم آہنگی اللہ کی وحدانیت کی واضح دلیل ہے۔
انسانی جسم کی ساخت پر دلیل:
ایک اور موقع پر، ایک دہریہ نے امام سے اللہ کے وجود پر بحث کی۔ امام نے فرمایا:
أَلَا تَرَى جَسَدَكَ كَيْفَ خُلِقَ بِدَقَّةٍ؟ عَيْنَانِ لِلرُّؤْيَةِ، وَأُذُنَانِ لِلسَّمْعِ، وَقَلْبٌ يَنْبِضُ بِلَا تَوَقُّفٍ. أَفَتَقُولُ إِنَّ هَذَا كُلَّهُ وُجِدَ بِالصُّدْفَةِ؟ إِنَّ الصُّدْفَةَ لَا تُوجِدُ نِظَامًا.(بحار الانوار، جلد 3، صفحہ 152)
ترجمہ:”کیا تم اپنے جسم کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس دقت سے بنایا گیا؟ دو آنکھیں دیکھنے کے لیے، دو کان سننے کے لیے، اور ایک دل جو بغیر رکے دھڑکتا ہے۔ کیا تم کہتے ہو کہ یہ سب اتفاق سے وجود میں آیا؟ اتفاق کبھی نظام پیدا نہیں کرتا۔”یہ عقلی دلیل دہریہ کے لیے ناقابل رد تھی، اور اس نے اللہ کے وجود کو تسلیم کیا۔
دہریہ کو انڈے کی مثال سے دلیل:
ایک دہریہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اللہ کے وجود پر سوال کیا۔ امام نے ایک انڈا منگوایا اور فرمایا:
انْظُرْ إِلَى هَذَا الْبَيْضَةِ، قِشْرَةٌ رَقِيقَةٌ تَحْمِي مَا بَدَاخِلِهَا، وَفِيهَا سَائِلٌ يَتَكَوَّنُ مِنْهُ طَائِرٌ كَامِلٌ. مَنْ صَنَعَ هَذَا النِّظَامَ؟ أَتَقُولُ إِنَّهُ وُجِدَ بِلَا صَانِعٍ؟ (التوحید، شیخ صدوق)
ترجمہ:”اس انڈے کو دیکھو، ایک پتلا خول اس کے اندر کی چیز کو محفوظ رکھتا ہے، اور اس میں ایک سیال ہے جس سے ایک مکمل پرندہ بنتا ہے۔ اس نظام کو کس نے بنایا؟ کیا تم کہتے ہو کہ یہ بغیر بنانے والے کے وجود میں آیا؟”دہریہ اس دلیل کے سامنے خاموش ہو گیا، کیونکہ ایک سادہ انڈے کی ساخت بھی اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے۔
توحید کا عملی پہلو
توحید صرف نظری عقیدہ نہیں، بلکہ اس کا اثر کردار پر پڑتا ہے۔ امام علی علیہ السلام نے مکتوب نمبر 31 میں امام حسن علیہ السلام کو فرمایا:
وَاعْلَمْ يَا بُنَيَّ أَنَّهُ لَوْ كَانَ لِرَبِّكَ شَرِيكٌ لَأَتَتْكَ رُسُلُهُ، وَلَرَأَيْتَ آثَارَ مُلْكِهِ وَسُلْطَانِهِ، وَلَعَرَفْتَ أَفْعَالَهُ وَصِفَاتِهِ، وَلَكِنَّهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا شَرِيكَ لَهُ.( نہج البلاغہ، مکتوب نمبر 31 )
ترجمہ:”جان لو، اے میرے بیٹے! اگر تیرے رب کا کوئی شریک ہوتا، تو اس کے رسول تیرے پاس آتے، اور تو اس کے مُلک اور سلطنت کے آثار دیکھتا، اور اس کے افعال اور صفات کو جانتا، لیکن وہ ایک اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔”

اختتامی کلمات
مومنین کرام! توحید اللہ کی وحدانیت پر ایمان، اس کی رضا کے لیے اخلاص، اور کائنات کے نظام میں اس کی قدرت کے آثار کو دیکھنے کا نام ہے۔ قرآن نے اسے واضح کیا،امام علی ؑ نے نہج البلاغہ میں جگہ جگہ توحید کا ذکر کیا، اہل بیت علیہم السلام نے اپنی تعلیمات اور سیرت سے اسے زندہ کیا، اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے دہریوں کو عقلی دلائل سے اس کی سچائی منوائی۔ پس ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے ایمان اور توحید کو مضبوط کریں اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے تابع کریں۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button