محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی شخصیت مولائے کائنات ؑکی نگاہ میں

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اﷲ علیہا ) کی آفاقی شخصیت کو پہچاننا اور ان کی شخصیت کا عرفان تمام خواتین کے لیے اور خصوصا مسلمان عورتوں کے لیے دینی تعلیمات کے حصول، تاریخ اسلام کے نشیب و فراز کی معرفت اور اسلام کی تمام تر خوبیوں کو حاصل کرنے کی راہ میں بہت معاون ہے ۔ آج تک دنیا کے مفکرین خصوصاً مسلمان دانشورں نے کوشش کی ہے کہ حضرت فاطمہ زہرؑا کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالیں تاکہ مسلمان ان کے مناقب و مراتب سے آشنا ہوسکیں لیکن ان کی یہ تمام کوششیں معصومین کے نورانی بیانات و کلام کے بغیر نا ممکن ہیں ۔ کیوں کہ معصومؑین کی احادیث سے چشم پوشی کرتے ہوئے کو ئی بھی مسلم مفکر یا مورخ حضرت فاطمہ زہؑرا کی بلند پایہ شخصیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا اسی لیے ان کی ساری کوششیں ناکام اور بے فائدہ ہیں ۔
درج ذیل تحریر میں ہم آپ کے شوہر نامدار امام علی ابن ابی طالب علیھما السلام کے کلام کی روشنی میں آپ کے چند مناقب کو سپرد قرطاس کریں گے۔تا کہ صحیح معنوں میں حضرت فاطمہ زہرا کی بلند پایہ شخصیت کا عرفان حاصل کیا جاسکے۔
مولائے کائناتؑ خود اطاعتِ الہٰی کےاس بلند ترین مقام پر فائز ہیں ۔ جہاں اطاعتِ الہٰی میں بلند ترین پرواز کرنے والے بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتےاور نہ ہی مولا علیؑ کی عبادت کی کے مقام کو درک کر سکتے ہیں وہ علیؑ جو راتوں میں عبادتِ الہٰی میں رہتے ہیں تو دن میں روزہ رکھتے ہیں ،جن کا ہر لمحہ عبادت و اطاعتِ خدا میں گزرتا ہے اور جن کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے اس علیؑ سے جب سید الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پوچھتے ہیں کہ
"کیف وجدت اھلک؟”
” یاعلیؑ آپ نے فاطمہؑ کو کیسا پایا؟”
تو مولائے کائناتؑ عرض کرتے ہیں:
"نعم العون علی طاعۃ اللہ”
"فاطمہؑ اطاعتِ الہٰی میں بہترین معاون ہیں”۔
(تفسیر نور الثقلین، جلد4، ص57)
جنابِ فاطمہؑ ان ہستیوں میں سے ہیں جن پر مولائے کائناتؑ بھی فخر کرتے ہیں ۔
ایک اور مقام پر جب معاویہ نے مولا علیؑ کو خط لکھا تو اس کے خط کے جواب میں مولؑا نے ایک طویل خط لکھا جس میں یہ جملے بھی تھے:
"۔۔۔ومنا خیر نساء العالمین ومنکم حمالۃ الحطب۔۔۔”
"اے معاویہ! ہم میں عالمین کی عورتوں میں سے سب سے بہترین(فاطمہؑ) ہیں اور تم میں جہنم کا ایندھن اٹھانے والی” ۔
(نہج البلاغہ، مکتوب 28)
اس کے علاوہ مولائے کائناتؑ جب جنابِ سیدہؑ کے حق کیلئے اٹھے اور جنابِ سیدہؑ کی طہارت پر استدلال کرتے ہوئے آپؑ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا:
"یا ابا بکر اتقرا کتاب اللہ؟
قال: نعم
قال: فاخبرنی عن قول اللہ عز وجل "انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا” فیمن نزلت، فینا ام فی غیرنا؟
قال: بل فیکم،
قال: فلو ان شاھدین شھدا علی فاطمۃ بفاحشۃ ماکنت صانعاً؟
قال: کنت اقیم علیھا الحد، کما اقیم علی سائر المسلمین،
قال: کنت اذاً عند اللہ من الکافرین،
قال: ولم؟
قال: لانک رددت شھادۃ اللہ لھا بالطھارۃ، وقبلت شھادۃالناس علیھا۔۔۔”
"اے ابو بکر! کیا تم نے اللہ کی کتاب پڑھی ہے؟
انھوں نے جواب دیا: جی ہاں پڑھی ہے،
مولا علیؑ نے فرمایا: کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان "انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا” کس کی شان میں نازل ہوئی؟ ہماری شان میں یا کسی اور کی شان میں؟
حضرت ابو بکر نے کہا: آپؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
مولا علیؑ نے فرمایا: اگر حضرت فاطمہؑ بنت محمدؐ کی عصمت وطھارت کے خلاف کسی کام پر گواہ قائم ہوجائیں تو تم کیا کرو گے؟
حضرت ابو بکر نے کہا: میں ان پر اسی طرح حد جاری کروں گا جس طرح باقی مسلمانوں پر حد جاری کرتا ہوں۔
مولا علیؑ نے فرمایا: اس صورت میں تو اللہ کے نزدیک دینِ اسلام سے باہر نکل جائے گا۔
حضرت ابو بکر نے کہا: وہ کس طرح؟
مولا علیؑ نے فرمایا: اللہ نے ان کی طہارت کی گواہی دی ہے اور تو اللہ کی شہادت کو رد کر دیا، اور اس پر لوگوں کی شہادت کو قبول کیا، اس صورت میں تو دینِ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔”
(تفسیر کنز الدقائق وبحر الغرائب، جلد 10، ص205)
اور جب جنابِ سیدہؑ کا وقتِ شہادت قریب آیا تو آپؑ نے مولا علیؑ سے عرض کی:
"یابن عم، ماعھدتنی کاذبۃولا خائنۃ ولا خالفتک منذ عاشرتنی”
"اے میرے چچازاد! آپؑ نے کبھی بھی مجھے جھوٹا یا خیانتکار نہیں پایا اور جب سے ہماری شادی ہوئی میں نے کبھی بھی آپؑ کے حکم کی مخالفت نہیں کی”
اس وقت امام علیؑ نے فرمایا:
"معاذاللہ، انت اعلم باللہ وابر واتقیٰ واکرم واشد خوفاً من اللہ (من) ان اوبخک بمخالفتی، قد عز علی مفارقتک وفقدک”
"خدا کی پناہ، فاطمہؑ آپ اللہ کی معرفت میں بے مثال ہیں آپؑ نیکوکاری، تقویٰ اور کرامت بہت بلند ہیں اور آپ خوفِ خدا میں اس سے کہیں بلند ہے کہ میری مخالفت کریں۔ یقیناً آپ کی جدائی و فراق میرے لیے بہت گراں ہے۔
(عوالم العلوم والمعارف والاحوال من الآیات والاخبار والاقوال، جلد11، ص1081)
حضرت فاطمہ زہرا (س) کا علم ۔
امام باقؑر نے فرمایا : ایک دن حضرت علؑی آپ کی خدمت میں تشریف لائے اس حالت میں کہ آپ بہت زیادہ غم و اندوہ میں تھے حضرت فاطمہ زہرا (س ) نے غمگین و مغموم ہونے کا سبب دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا آج رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سے ایسا سوال کہ اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا حضرت فاطمہ زہرا (س) نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سوال کے متعلق معلوم کیا . امیرالمومنؑین نے فرمایا : پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا عورت کا کیا مطلب ہے ؟ میں نے کہا یعنی چھپائی جانے والی چیزیں ۔
پھر پوچھا : وہ کون سا موقع ہے جب ایک عورت اپنے پروردگار سے زیادہ قریب ہوتی ہے میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) نے فرمایا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جائیے اور کہئے کہ ایک عورت اپنے پروردگار سے اس وقت زیادہ قریب ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر میں رہتی ہے ۔ حضرت علؑی محضر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرف یاب ہوئے اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے جواب کو بیان فرمایا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اے علؑی ! تم کو یہ جواب کس نے بتا یا ؟ حضرت عؑلی نے جو کچھ بھی ان کے اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے درمیان گفتگو ہوئی تھی بیان فرمایا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علؑی کی بات کو سننے کے بعد فرمایا : بالکل صحیح جواب ہے اور واقعی طور پر ففاطمہ زہرا (س) میرا ٹکڑا ہے
) (مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص٣٠٣ ،حدیث٤٣٠ ، ٤١٦
اس طرح ایک اور واقع جو امام علی بن حسین علیھما السلام سے منقول ہے۔
امام زین العابدین ؑفرماتے ہیں : ایک نا بینا شخص نے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے آپؑ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی آپ نے اپنے آپ کو اس کی نگاہوں سے پوشیدہ کرلیا ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہیں تشریف فرما تھے اور اس ماجرے کو دیکھ رہے تھے فرمایا : فاطمہ زہرا (س) تم نے کیوں اپنے آپ کواس سے چھپا لیا جب کہ وہ تم کو نہیں دیکھ رہا ہے ؟
حضرت فاطمہ زہرا (س) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھیک ہے وہ مجھے نہیں دیکھ رہا ہے لیکن میں تو اسے دیکھ رہی ہوں اور میری خوشبواس کے مشام تک پہنچ رہی ہے ۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؑ کی تعریف کی اور فرمایا گواہی دیتا ہوں کہ تم میرے وجود کا ایک ٹکڑا ہو
امیرالمومنین سے بھی اسی سیاق و مضمون کی خبر نقل ہوئی ہے
الدر النظیم فی مناقب الائمة الھامیم؛ ص٤٥٧،
مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص٣٠٣ ۔٣٠٤، حدیث٤٢٩، ٤١٦
ایک روایت میں ہے کہ امیر الموؑمنین حضرت فاطمہ زہرا (س) سے سوال کیا کہ بہترین عورتیں کون ہیں ؟ حضرت فاطمہ زہرا (س )نے جواب میں فرمایا : وہ عورتیں جو مردوں کو نہ دیکھیں اور مرد بھی انہیں نہ دیکھیں
مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج١، ص١٠٣، حدیث٤٣٠
حضرت زہرا (س)بہترین فرمانبردار بیوی کا ایک نمونہ
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : حضرت زہرا (س) نے حضرت علؑی سے عہد کیا کہ وہ گھر کے اندر کا سارا کام (مثلاً آٹا گوندھنا ،روٹی بنانااور جھاڑو دینا) خود انجام دیں گی ۔اسی طرح حضرت علی نے بھی گھر کے باہر کے امور کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ( مثلاً لکڑیاں لانا اور نان و نفقہ کا انتظام کرنا وغیرہ)۔
ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے حضرت زہرا (س ) سے پو چھا : کیا گھر میں کھانے کی کوئی چیز ہے ؟
آپ نے فرمایا : نہیں !اس کی قسم جس نے آپ کے حق کو عظمت بخشی ،تین دن ہو گئے کہ اس گھر میں کچھ بھی کھانے کے لئے نہیں ہے تا کہ میں آپ کی خدمت کر سکوں ۔
حضرت علؑی نے فرمایا : آپ نے مجھے اس سے آگاہ کیوں نہیں کیا !؟ آپ نے فرمایا : رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا تھا کہ میں آپ سے کچھ طلب کروں ۔انہوں نے فرمایا تھا کہ علؑی سے کسی چیز کا مطالبہ نہ کرنا ۔اگر وہ خود تمہیں کچھ دیں تو قبول کر لینا ورنہ کسی چیز کی درخواست مت کرنا ۔
تفسیر العیاشی؛ تحقیق: بنیاد بعثت، ج١، ص٣٠٣۔ ٣٠٤، حدیث٤٢ ٦٨١

حضرت زہرا اور گھر کے کاموں میں زحمت اٹھانا
ابن اعید کہتے ہیں : حضرت علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا : کیا میں تمہیں اپنے اور فاطمہ زہرا (س) دختر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ گھر کی ایک اہم رکن تھیں، جنہوں نے گھر کی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا کے متعلق کچھ بتاؤں ؟
پھر آپ فرماتے ہیں : حضرت فاطمہ زہرا (س) اتنا زیادہ چکی چلاتی تھیں کہ آپ کے ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے تھے ،اس قدر مشک میں پانی لایا کرتی تھیں کہ آپ کی گردن پر اس کے نشان پڑ گئے تھے ،اتنا زیادہ گھر میں جھاڑو دیا کرتی تھیں کہ آپ کے کپڑوں کا رنگ متغیر ہو گیا تھا اور اس قدر چولہے میں آگ جلاتی تھیں کہ اس (دھوئیں) کے سبب آپ بیمار ہو گئی تھیں ۔
علل الشرایع، ج٢، ص٦٥، حدیث١،
حضرت زہرا(س)کی قناعت پسندی ۔
آپ نے اپنے شوہر نامدار حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا : میں اپنے متعلق پروردگار عالم سے شرم کرتی ہوں کہ کسی ایسی چیز کا آپ سے سوال کروں جسے آپ پورا نہ کر پا ئیں ۔)
حق الحقاق و ازھاق الباطل، ج١٠، ص٣٢٣،
ینابیع المودة، تحقیق: علاء الدین اعلیٰ، ج٢، ص٢٣٦

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button