متفرق مقالات

معرکہ کربلا اور آزادیِ انسانیت

پہلی قسط: تمہید

تحریر:سجاد حسین مفتی
تم میں سے جو بھی واپس جانا چاہے وہ آزاد ہے چلا جائے۔( امام حسین علیہ السلام: ارشاد مفید:243)
اگر تمھارا کوئی دین نہیں ہے اور قیامت کا بھی تمھیں کوئی خوف نہیں ہے تو کم از کم اس دنیا میں آزاد انسانوں کی طرح زندگی بسر کرو۔( امام حسین علیہ السلام: مقتل خوارزمی ج2ص33)
پہلی قسط: تمہید
انسان اپنی جان ، مال ، ناموس ، خاندان ، دین و ملت ، وطن ، مقام و منصب اور مفادات کے تحفط کے لیے بہت کچھ کر گزرتا ہے۔ اس راہ میں وہ دوسروں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کرتا ہے۔ وہ کبھی ذات پا ت اور کبھی رشتہ داری کے جذبات ، قومی مذہبی لسانی اور علاقائی تعصبات ، دوستی کے تقاضوں اور انسانی حیثیت و مروت کا حوالہ دے کر دوسروں کے جذبات کو ابھار کر انہیں اپنے حق میں استعمال کرتا ہے، تو کبھی مفادات اور مقام و منصب کا لالچ دے کر مکرو فریب اور ڈرا دھمکا کر لوگوں سے سوچنے سمجھنے اور انتخاب کی آزادی چھین کر اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔معرکہ کربلا میں ایک طرف یزید ی فوج ہے۔ یزید کو اس وقت کی عظیم اسلامی سلطنت کے تمام وسائل کے علاوہ رومی سلطنت کی فکری و سیاسی معاونت بھی حاصل ہے ۔
دوسری طرف حسین ؑابن علیؑ ہیں جن کے پاس الہٰی اقدار کے تحت تربیت یافتہ چند ساتھی ہیں جو وسائل اور عسکری طاقت کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں۔ کہاں (۷۲)کی فوج اور کہاں ایک لاکھ بیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوج ۔حسینؑ آزادی کے علمبر دار ہیں۔حسینؑ کا مشن یہ ہے کہ انسانی دل و دماغ، فکرو جذبات اور جسم وروح ہر قسم کی قید و بند سے آزاد ہو کر اللہ کی بندگی کریں ۔ اس لیے حسین ؑ طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلاکر اپنے ساتھیوں کو بے بس نہیں کرتے ۔وہ امن کے خاطر کسی کو شش سے دریغ نہیں کرتے۔ حسین ؑ نے کسی کو لالچ نہیں دیااور نہ ہی کسی کو خوف دلا کر ساتھ رکھا ۔ بلکہ سب کو آزاد چھوڑ دیاتا کہ اگر وہ چاہیں تو چلے جائیں اور چاہیں تو حق اور آزادی کی حمایت پر ڈٹ جائیں ۔ یزید بھی رسو ل ؐ خدا کا جانشین اور اسلامی ریاست کا آئینی حکمران ہونے کا دعویدار ہے ۔اس حوالے سے قرآن و سنت کے احکامات اور اسلامی ریاست کے اتفاق و اتحاد اور سالمیت کا تحفظ اپنا فرض قر ار دیتا ہے۔ چونکہ قرآن اور سنت رسولؐ انسانیت کو آزادی کی دعوت دیتے ہیں لہٰذ ا یہ دیکھنا ہو گا کہ معرکہ کربلا میں کس نے شجر آزادی کی آبیاری کی اور کس نے اس کی جڑیں کاٹ ڈالیں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button