سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

امام حسین علیہ السلام کی یاد کیوں باقی ہے؟

تحریر: آغا زمانی

تاریخِ انسانیت میں کچھ ایسی ہستیاں گزری ہیں، جنہوں نے حق اور سچائی کے لیے اپنی پوری زندگی، اپنا مال، اپنی جان، اپنی عزت و شہرت، اپنی ناموس اور اپنی ہر چیز قربان کر دی۔ دنیا کی ہر قوم اپنے ان محسنوں کو یاد رکھنا اور یاد منانا اپنا فرض سمجھتی ہے، ان کے نام کو بلند کرتی ہے، ان کی سالگرہ یا برسی مناتی ہے۔ مگر اگر ایک لمحے کے لیے ہم رک کر سوچیں تو ایک حیرت انگیز حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے: کیا کسی ایک شخصیت کو بھی تاریخِ بشر میں وہ مقام، وہ احترام اور وہ عزت ملی، جو فرزندِ رسول اللہ دلبندِ فاطمۃ الزھراء سیدالشھداء امام حسین علیہ السلام کو ملی۔۔۔؟ آپؑ کی یاد دنیا کے ہر گوشے میں رونق افروز ہے۔ ہر سال کروڑوں دل سوگوار ہوتے ہیں، آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں، سینے پیٹے جاتے ہیں اور زمانہ بلاتفریقِ مذہب و مسلک کربلا کو یاد کرتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات خود شیعہ حضرات کے ذہنوں میں بھی یہ سوال آتا ہے کہ: "ہم سب ائمہ طاہرین علیہم السلام کو مانتے ہیں۔ سب نے دین کی خاطر قربانیاں پیش کیں ہیں۔ لیکن فقط امام حسین علیہ السلام کی یاد ہی کو کیوں اتنی آفاقی شکل میں وسعت اور اہتمام کے ساتھ منایا اور دھرایا جاتا ہے۔۔۔؟ آخر ایسا کیا ہوا کربلا میں؟”

حسینؑ مظلوم کی کربلا ہی فقط کیوں اتنی دلکش ہے۔۔۔؟
یہ سوال کوئی نیا نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہی سوال بعض افراد نے خود اہلِ بیت علیہم السلام سے بھی کیا اور بار بار کیا۔ جواب میں ائمہ اطہار علیہم السلام نے اس راز کو سمجھانے کے لیے مختلف انداز اپنائے، جن میں سے ایک صورت میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ: جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں موجود تھے تو سب کی نگاہیں انہی پر تھیں۔ وہ مرکزِ ہدایت، مرکزِ محبت اور مرکزِ عظمت تھے۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی شان بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ تھی۔ سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا مقام بھی آپ کی بیٹی ہونے کی وجہ سے بلند تھا۔ امام حسن و حسین علیہم السلام کو بھی یہ فخر حاصل تھا کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے قرار پائے تھے۔ لیکن جیسے ہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے، وہ مرکزیت بٹ گئی۔ جو عزت، جو احترام، جو مقام پہلے صرف رسول کو حاصل تھا، وہ اب کئی افراد میں تقسیم ہوگیا۔ کچھ کو خلافت ملی، کچھ کو سماجی اثر و رسوخ، اور کچھ کو عوامی حمایت۔

مگر کربلا میں جو قربانی ہوئی، وہ رسولِ اکرم(ص) کے بعد بھی ایک ایسا لمحہ بن گیا، جس نے سب کو دوبارہ یاد دلا دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اصل میراث کیا تھی۔ توحید، اطاعت و عبادت، عدل، حق، صداقت، شرافت، کرامت، خدمتِ انسان، قربانی اور مظلوم کی حمایت۔ اسی لیے امام حسین علیہ السلام کی یاد تاریخ کا زندہ ضمیر اور بشریت میں فطرت کے تقاضوں کا احیاء ہے۔ حسینؑ اور حسینؑ  کی کربلا ایک اجتماعی شعور ہے، جو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ ایک مسلسل صدائے حق ہے، جو ہر دور میں انسان کو جھنجھوڑتی ہے کہ: "مظلوم کو نظر انداز کرنا اور ظلم کے خلاف خاموشی ایک بدترین جرم اور گناہ ہے۔” اسی لیے امام حسین علیہ السلام صرف ایک روحانی شخصیت نہیں، بلکہ امامِ دین ہیں، اسلام کا مجسمہ اور پیکر ہیں، حسینؑ درحقیقت ایک زندہ، جاری و ساری، فاتح اور ابدی تحریک ہیں۔ اسی واسطے ان کی یاد، ان کا غم، ان کی عظمت، انکی روحانیت، انکے ایمان، انکی شجاعت، انکی نصرتِ دینِ خدا، انکی مزاحمت و استقامت اور انکے جذبہِ توحید پر گفتگو باقی ہے اور باقی رہے گی۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے، تو وہ نور جو سب کو ایک سمت میں دیکھنے پر مجبور کرتا تھا، وہ چہرہ جو مرکز وحدت تھا، وہ اب موجود نہ تھا۔ اب جو رسول سے جس قدر قریب تھا، لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے۔ مولا علیؑ، حضرت فاطمہؑ، امام حسن و حسین علیہم السلام، اور چند ایک باوفا اصحابِ رسول، سب کی نظروں کا مرکز بن گئے۔ ابتدائی دنوں میں صحابۂ کرام کی اہمیت بھی اسی نسبتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی وجہ سے تھی۔ ان کی زندگی میں بھی اور ان کے بعد بھی لوگ انہی ہستیوں کو دین کی روشنی سمجھ کر دیکھتے رہے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، صحابہ بھی ایک ایک کرکے رخصت ہوتے گئے۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ کئی مقامات پر خود صحابہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوئے۔

جنگ جمل میں امت دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک طرف امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اصحاب تھے، دوسری طرف طلحہ، زبیر اور دیگر صحابہ۔ صفین میں بھی یہی صورتحال دیکھی گئی، مگر اس بار حضرت امام علی علیہ السلام کا لشکر اس لیے مضبوط تھا کہ ان کے ساتھ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے بڑے اصحاب موجود تھے، جبکہ امیرِ شام کے پاس چند ہی صحابہ تھے، جن کی وہ حیثیت نہیں تھی، جو حیثیت اسلام میں رسول اللہ کے بھائی علی (ع) کی تھی۔ وقت گزرتا رہا اور ایک ایک کرکے وہ ہستیاں جنہیں رسولِ اکرم (ص) سے نسبت حاصل تھی، دنیا سے رخصت ہوتی گئیں۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا پہلے ہی دنیا سے جا چکی تھیں۔ پھر مولا علی علیہ السلام کی شہادت نے ایک اور سنگین اور جان فرسا صدمہ دیا۔

اب نگاہیں صرف دو ہستیوں پر مرکوز ہوگئیں: امام حسن اور امام حسین علیہما السلام اور آخرکار جب امام حسن علیہ السلام بھی شہید کر دیئے گئے، تو اب باقی رہ جانے والا واحد چراغ، واحد رہنماء، واحد نشانی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدس سے، صرف ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی ذاتِ قدسیہ تھی۔ اس وقت پوری امت گویا ایک صحرا میں کھڑی تھی، جہاں صرف ایک مینار باقی بچا تھا۔ ایک ایسا مینار جو ظلم کے خلاف، حق کی حمایت کے لیے اور دینِ مصطفیٰ (ص) کی حفاظت کے لیے تن تنہا کھڑا تھا۔ لہٰذا جب امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا، تو یہ قیام محض ایک سیاسی فیصلہ نہ تھا۔ یہ قیام اس امانت کی حفاظت تھا، جو رسولِ اکرم (ص) چھوڑ کر گئے تھے۔ اب نہ صرف امامؑ کی ذات، بلکہ رسولؐ کی سچائی، علیؑ کی عدالت، فاطمہؑ کی طہارت، حسنؑ کی کی صلابت و بصیرت، سب حسینؑ کی ذات میں سمٹ آئے تھے۔
اسی لیے کربلا صرف ایک واقعہ نہیں، ایک تسلسل ہے۔ ایک ایسا سلسلہ جس کی ابتدا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی اور جسے سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں بچایا اور سجایا۔ بنابریں اگر کائنات کی تمام آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں، اگر دنیا کے ہر خطے میں عزاداری ہوتی ہے، اگر ہر دل امام حسین علیہ السلام کے نام سے دھڑکتا ہے۔ تو وہ صرف غم نہیں، وہ یاد ہے۔ قیادت کی، قربانی کی اور حق کی۔ امام حسین علیہ السلام باقی ہیں، کیونکہ وہ سب کی آخری امید تھے اور ان کی یاد باقی ہے، کیونکہ انہوں نے خود کو سب کے لیے قربان کر دیا۔ امام حسین علیہ السلام عظمتِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے واحد نمائندہ بن کر باقی رہ گئے تھے۔ اب کوئی ایسا شخص نہیں بچا تھا، جو علم، معرفت، ایمان، عقیدہ توحید، روحانیت، عبادت، اعلیٰ نسب، تقویٰ، قربانی، فہمِ دین اور نسبتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کا ہم پلہ کہلا سکے۔
پہلے جناب امیرالمومنین علی علیہ السلام کے مقابلے میں کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ بھی صحابی رسول ہیں۔ اگرچہ وہ یہ مانتے تھے کہ حضرت علیؑ علم و تقویٰ میں سب سے افضل ہیں اور رسولؐ خدا نے علیؑ کو اپنا بھائی بتایا اور اپنے اہل بیتؑ میں انکو شامل کیا، مگر پھر بھی ٹیڑھے دل بحث کی گنجائش پیدا کر لیتے تھے۔ پھر جب امام حسن علیہ السلام کے مقابلے میں امیرِ شام آیا، تو اس نے کہا: "اگر حسن نواسۂ رسول ہیں، تو میں بھی صحابیِ رسول ہوں اور قریشی ہوں۔” گویا اب بھی کوئی بہانہ موجود تھا۔ لیکن جب بات امام حسین علیہ السلام پر آ  کر رکی تو تاریخ رک گئی۔ اب کوئی شخصیت، کوئی صحابی، کوئی خلیفہ، کوئی قریشی۔ حسین علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات نہیں کرسکا۔ جو چند صحابہ باقی رہ گئے تھے، وہ بھی حسین علیہ السلام کے سامنے سراپا ادب و تعظیم بنے کھڑے تھے۔
مثلاً: عبداللہ بن زبیر۔ جو خود یزید کے خلاف خلافت کا دعویٰ رکھتے تھے، مگر امام حسین علیہ السلام کی موجودگی میں وہ خاموش ہوگئے۔ وہ جانتے تھے کہ جب حسین علیہ السلام موجود ہیں، تو خلافت کا اصل حقدار صرف وہی ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے امامؑ سے عرض کی:”اگر آپ مکہ میں مجھے اپنی طرف سے نمائندہ بنا دیں تو میں آپ کی نمائندگی پر فخر کروں گا۔” عبداللہ بن عمر۔ جو اپنے حلقہ درس میں حسین علیہ السلام کا ذکر کرتے اور ان کے حلقوم چومنے کو باعثِ نجات سمجھتے تھے۔ زید بن ارقم۔ وہ صحابی جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو امت مسلمہ کے لیے ذلت، رسوائی اور بدبختی کا دن سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ عمر بن سعد، وہ بدبخت جسے یزید نے امام حسین علیہ السلام کے مقابلے پر کھڑا کیا، وہ بھی جانتا تھا کہ وہ کس عظمت کے سامنے کھڑا ہے۔ اس نے خود کہا کہ: "میں حسین کے جسم میں علی کی روح کو دیکھ رہا ہوں۔”
پھر خود امام حسین علیہ السلام نے بھی کربلا کے میدان میں اپنے خطاب میں اس سچائی کا اعلان کیا کہ: "کیا آج مشرق و مغرب میں کوئی ایسا ہے، جو دعویٰ کرے کہ وہ نواسۂ رسولؐ ہے، وہ فرزندِ رسولؐ ہے۔۔۔۔؟” کوئی نہیں بولا۔۔ نہ کوئی اٹھا، نہ کوئی دعویٰ کرسکا۔ کیونکہ یہ سچ، صرف حسین (ع) کا تھا۔ یہ مقام صرف حسین(ع) کا تھا۔ یہ قربانی، صرف حسین (ع) کے حصے میں آئی تھی۔ کربلا صرف جنگ کا نام نہیں، یہ وہ مقام ہے، جہاں سچ اور جھوٹ آمنے سامنے کھڑے تھے اور سچ اتنا بلند تھا کہ دشمن بھی اس کا انکار نہ کرسکا۔ جب امام حسین علیہ السلام نے میدانِ کربلا میں شمر جیسے سنگ دل دشمن سے سوال کیا: "کیا تم جانتے ہو میں کون ہوں؟” شمر نے جواب دیا: "آپ فرزندِ رسولؐ ہیں، بی بی فاطمہؑ کے لختِ جگر ہیں۔” امامؑ نے پھر پوچھا: "تو پھر مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟” جواب میں شمر نے جھکے بغیر، بے شرمی سے کہا: "یزید سے انعام و اکرام حاصل کرنے کے لیے۔”
ذرا سوچئے۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں حق کا اعتراف بھی موجود ہے اور اس کے خلاف کھڑے ہونے کی خباثت بھی۔ یہ صرف شمر نہیں، یزید خود بھی امام حسین (ع) کی فضیلت کا انکار نہیں کرسکا تھا۔ جب حسین(ع) کا سرِ اقدس اس کے سامنے لایا گیا، تو اس نے غرور سے کہا: "حسینؑ یہ سمجھتے تھے کہ وہ رسولؐ اور فاطمہؑ سے نسبت کی وجہ سے ہم سے افضل ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ وہ ہم سے افضل تھے۔” یہ اعتراف تاریخ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ گویا دوست ہوں یا دشمن، سب امام حسین علیہ السلام کے مقام و منزلت سے واقف تھے۔ سب جانتے تھے کہ حسین(ع)، امت کا آخری مینارِ عظمت ہیں. وہ شخصیت جنہیں دیکھ کر لوگ رسول خدا (ص) کی یاد میں کھو جاتے تھے۔ لیکن۔۔۔۔۔ جس طرح حسین (ع) کی شخصیت بے مثال تھی، اسی طرح ان پر ڈھائے جانے والے مظالم بھی بے مثال تھے۔
ہر امام، ہر ولی، ہر جانشین، جب اپنی شہادت کے قریب پہنچتا، تو ایک جملہ ضرور کہتا: "حسین (ع) پر گزرنے والی مصیبت جیسی کسی کی مصیبت نہیں۔” کیوں۔۔۔۔؟ کیونکہ جس حسین (ع) کا مقام خود یزید بھی تسلیم کر رہا ہو، جسے رسولِ اکرمؐ  کی آنکھوں کا نور کہا گیا ہو، جس کی ماں زہراءؑ، باپ علیؑ، نانا رسولؐ خدا اور بھائی حسنؑ ہوں۔ اسے پیاسا شہید کیا جائے۔؟ اس کے بچوں کو تپتی ریت پر تڑپایا جائے۔؟ اس کی بہنوں کو قیدی بنا کر بازاروں میں پھرایا جائے۔؟ یہ صرف مظلومیت نہیں۔ یہ تاریخِ انسانیت کا سب سے بڑا زخم ہے اور یہی سبب ہے کہ آج صدیوں بعد بھی، اگر کوئی بچہ "یاحسینؑ” کہہ کر روتا ہے۔ اگر کسی ماں کا دل تڑپتا ہے۔ اگر کوئی ضمیر جاگتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام فقط شہید اور مظلوم نہیں، وہ حسین (ع) دراصل انسانیت کے معراج، سچائی کی بقاء اور دینِ خدا کی زندگی کا دوسرا نام ہے۔ امام سجاد، امام باقر، امام صادق علیہم السلام سمیت ہر معصوم(ع) نے فرمایا: "امام حسین علیہ السلام پر جو مصیبت آئی، ویسی مصیبت کائنات میں کسی پر نہ آئی۔” لیکن یہ مصیبت، صرف رونے کے لیے نہیں تھی، سوچنے اور بدلنے کے لیے تھی۔ کربلا ہمیں اپنے خونی آ نگن میں دو جیتی جاگتی مثالیں دکھاتی ہے:
عمر بن سعد:
وہ شخص جس کے سامنے حق اور باطل دونوں واضح تھے۔ وہ جانتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کون ہیں، ان کا دین میں مقام کیا ہے اور یہ بھی بخوبی جانتا تھا کہ یزید کیا ہے اور یزید کا فسق و فجور اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مقام کہاں ہے۔ مگر جب اقتدار اور مال و دولت کی خواہش سامنے آئی، تو اس نے ضمیر کا سودا بڑی آسانی سے کر ڈالا۔ وہ جانتا تھا کہ آخرت برباد ہو جائے گی، مگر دنیا کے سستے عہدے اور پست شہرت کے لیے وہ کربلا میں قتلِ اہلِ حق کا سب سے ناپاک جرم کر بیٹھا۔ اس مجرم اور دنیا پرست شخص کی مثال ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خالی علم، جان پہچان اور عقیدت بھی انسان کو نجات نہیں دے سکتی، جب تک یقین، ایقان، ایمان اور خواہشات نفسانی پر کنٹرول اور اطاعت نہ ہو۔ جب تک وہ اپنے ذاتی اغراض و مفادات کی دیوار کو گرا نہ دے۔
جناب حر:
ایک اور کربلا کا چہرہ۔ ابتدا میں لشکرِ یزید کا سپہ سالار مگر دل میں کہیں حق کی چنگاری باقی تھی، ضمیر میں ابھی حق کی تڑپ کہیں اوجھل تھی۔ جب امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "اے حر، تیرا نام ہی حر ہے، تو آج بھی آزاد ہوسکتا ہے” تو حر نے دنیا کی تمام آسائشیں، عزت، فوج، مقام، سب چھوڑ دیا۔ اس نے آخرت کے لیے دنیا کو قربان کر دیا اور اس قربانی کے بدلے جنت کی ہمیشہ رہنے والی کامیابی کو پا لیا۔ اسی لیے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "حر، تو واقعی آزاد انسان اور حر ہے اور دنیا و آخرت میں حر ہے۔” امام حسین علیہ السلام کو ماننے کے دعوے کافی نہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ: صرف امام حسین علیہ السلام کے فضائل کو جان لینا کافی نہیں۔ کیونکہ عمر بن سعد بھی جانتا تھا۔ صرف امام مظلوم سے محبت کا دعویٰ کرنا کافی نہیں۔ کیونکہ بہت سے تماشائی ان سے محبت رکھتے تھے، مگر ولیِ خدا کی نصرت اور اطاعت نہ کرسکے۔ کیا ہم نے وہ دیواریں گرائی ہیں، جو ہمیں امام حسین علیہ السلام سے جدا رکھتی ہیں۔۔۔۔۔؟
یہ دیواریں مال و دولت کی ہوس، اقتدار کی بھوک، شہرت کی پیاس، دنیا کی غلامی اور منیت و انا کے بت ہیں، جن کا اپنی ذات میں جائزہ لینے اور انکا قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ سب باقی ہیں، ہم نام حسینؑ تو لے سکتے ہیں، لیکن قافلہ حسینؑ سے ہمیشہ دور رہیں گے۔ کربلا کی مقتل اور نینوا کے جان فرسا مصائب صرف تاریخ کے نوحے نہیں ہیں، بلکہ وہ شفاف آئینے ہیں، جن میں ہم خود کو پہچان سکتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ: ہم حر کے راستے پر ہیں؟ یا کہیں عمر بن سعد جیسے کی خاموش اطاعت کے سائے میں پل رہے ہیں۔۔۔۔؟ کربلا کا پیغام یہی ہے: اگر حسینی بننا ہے تو قربانی دینی ہوگی، قربانی صرف اشکوں کی نہیں بلکہ نفسانی خواہشات کی قربانی اصل مقصود ہے، ولیِ وقت کی صدا پر ھل من ناصر پر لبیک کہہ کر دین کو جس متاع کی ضرورت ہو، اس متاع کو راہ خدا میں بذل کرنا اصل قربانی اور نصرت ہے۔ کربلا کا غم فقط رونے کے لیے نہیں، جاگنے اور جگانے کے لیے ہے۔ یہ تحریک صرف ماضی کی یاد نہیں، دراصل تو مستقبل کی تعمیر ہے۔
حسین (ع) صرف شہید اور مظلوم نہیں، ہدایت کے چراغ اور ہر ظالم کے راستے کی رکاوٹ بھی ہیں۔ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کا نام اس لیے زندہ ہے کہ یہ محض ایک واقعہ یا شہادت کا تذکرہ نہیں بلکہ حق و باطل کے درمیان واضح ترین حد بندی کا نام ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں صرف اپنا خون نہیں دیا بلکہ ہر زمانے کے انسان کو یہ شعور عطا کیا کہ باطل چاہے کتنا ہی طاقتور ہو، اگر ایک انسان بھی سچائی پر ڈٹ جائے تو وہ پوری تاریخ کی کایہ پلٹ سکتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے سکھایا کہ حق اور توحید کے سچے اصولوں پر قربان ہو جانا گمراہی کے زندہ رہنے سے بہتر ہے اور یہی وہ پیغام ہے، جو کربلا کو ایک دن کا ماتم نہیں بلکہ قیامت تک کی تحریک بنا دیتا ہے۔ ایک ایسا نور جو ہر دور کے ظلمت زدہ ضمیروں کو روشنی دیتا رہے گا۔
کہتے ہیں کربلا کے ذرّے فضا میں اڑ کر
ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button