خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:122)

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:122)
موضوع: ناپ تول میں کمی بیشی قرآن و حدیث کی نظر میں
(بتاریخ: جمعۃ المبارک 12 نومبر 2021ء بمطابق 06 ربیع الثانی 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ہماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں وٹس ایپ کریں۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
گناہانِ کبیرہ میں سے ایک قبیح گناہ جس کے کبیرہ ہونیکی صراحت موجودہے۔ ناپ تول میں کمی کرنا ہے۔ اس کاحرام ہونا قرآن مجید ، احادیث اجماع ، اور عقل سے ثابت ہے۔ اعمش کی روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام اور فضل بن ِ شاذان کی روایت میں حضرت امام علی رضا علیہ السَّلام نے اسے بھی گناہان ِ کبیرہ کی فہرست میں شامل فرمایا ہے ۔ فرمایا ہے کہا بَخْسُ فَی الْمِکْیال وَالْمِیْزَانِ یعنی "ناپ تول میں کم کرنا (بھی گناہِ کبیرہ ہے)۔ بیچنے والے مقررہ مقدار سے کم چیز دے یا دین (قرض یا کوئی اور مالی ذمہ داری )ادا کرنے شخص مقرر ہ مقدار ظاہر کر کے کم مقدار دے۔ یہ سب حرام ہیں ۔
قرآن مجید میں شدید ترین بیان کے ساتھ ناپ تول میں کمی کرنے کا سخت عذاب مذکور ہواہے۔ قرآن مجید کاایک سورہ بنام سورہ مطففین پورا اسی موضوع سے مخصوص ہے۔
اس میں ارشاد ہے کہ:
وَیْلُ لِلْمُطَفِّیْنَ الَّذیْنَ اِذَااکْتاَلُوْا عَلٰی النَّاس لِیَسْتَوْفُوںَ وَاِذَکَا لُوْ هُمْ اَوَوَزَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنُ اَلَایَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّهُمُ مَبْعُوْثُوْنَ لِیُوْمٍ عَظِیْمٍ یُوْمَ یَقُوْمُ النّاسُ لِرَبّ اِلعالَمِیْنَ (سورئہ تطفیف ۸۳: آیات نمبر ا تا ۶)
ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا تولتے ہیں، اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم کر دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سوچتے کہ وہ اٹھائے جائیں گے،ایک بڑے دن کے لیے؟ اس دن تمام انسان رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
یہاں ان لوگوں کے لیے وَیۡلٌ اور ہلاکت کا کہا گیا ہے جو دوسروں سے لینا ہو تو پورا لیتے ہیں اور دوسروں کو دینا ہو تو کم کر کے دیتے۔
اس میں مقدار یا صفات میں کمی کرنا، سب شامل ہیں۔ چنانچہ دوسروں سے لینا ہو تو عمدہ لیتے ہیں اور دوسروں کو دنیا ہو تو گھٹیا مال دیتے ہیں یا دوسروں سے لینا ہو تو خالص لیتے ہیں اور دوسروں کو دینا ہو ملاوٹ کا مال دیتے ہیں۔ ہمارے زمانے کے محاورے کے مطابق، دوسروں سے لینا ہو تو نمبر ایک لیتے ہیں اور دوسروں کو دینا ہو تو نمبر دو دیتے ہیں۔
ان آیات میں ہر چیز سے پہلے کم تولنے والوں کو شدید عذاب کا مستحق ٹھہرا کر فرماتا ہے :” وائے ہے کم تولنے والوں پر “ ( ویل للمطففین )۔ یہ حقیقت میں خدا کی جانب سے ان ظالم ، ستمگر اور گندے لوگوں کے خلاف اعلان جنگ ہے جو بز دلوں کی طرح لوگوں کا حق پامال کرتے ہیں ۔” ویل “ یہاں شر، و غم اندوہ ، ہلاکت یا دردناک عذاب یا جہنم کی سخت جلانے والی وادی کے معنوں میں ہے عام طور پر یہ لفظ نفرین کرنے اور کسی چیز کی قباحت کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتاہے ، یا یہ کہ ایک مختصر سی تعبیر ہے جو بہت سے مفاہیم کو چاہتی ہے ۔
قابل توجہ یہ ہے کہ ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ خد انے لفظ ویل قرآن میں کسی شخص کے لئے استعمال نہیں کیا مگر یہ کہ اس کو کافر کہا ہے ( فویل للذین کفروا من مشھد یوم عظیم)
”وائے ہے کافروں پربڑے دن کے مشاہدہ سے “۱ ( مریم ۔ ۳۷)
اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ کم تولنے سے کفر کی بو آتی ہے ۔ اس کے بعدمطففین یعنی کم تولنے والوں کے کام کی تشریح کرتے ہوئے فرماتاہے :” وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے لئے تولتے ہیں تو اپنا حق مکمل طور پر وصول کرتے ہیں “ ( و الذین اذااکتالوا علی الناس یستوفون )لیکن جب وہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کے لئے تولیں تو کم تولتے ہیں ( و اذاکالوھم او وزنوھم یخسرون
قرآن مجید کی آیات میں کئی مرتبہ کم تولنے کی مذمت کی گئی ۔ کبھی حضرت شعیب کے واقعہ میں جہاں وہ قوم کو خطاب کرکے کہتے ہیں
اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُخۡسِرِیۡنَ﴿۱۸۱﴾ۚوَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ﴿۱۸۲﴾ۚوَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ﴿۱۸۳﴾ۚ
تم پیمانہ پورا بھرو اور نقصان پہنچانے والوں میں سے نہ ہونا۔ اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔( شعراء۔ ۱۸۱ تا ۱۸۳)۔
اس طرح وزن کرتے وقت اور چیز کو پیمانے سے ناپتے وقت تولنے کو اور انصاف کو نظر انداز کرنے کو فساد فی لارض بتا یا گیا ہے اور یہ کام اجتماعی مفاسد میں سے ایک ہے ۔سورہ رحمن کی آیت ۷/۸ میں وزن کرتے وقت انصاف سے کام لینے کو عالم ہستی کے نظام تخلیق میں عدالت کار فرما ہے ، اس کے برابربر قرار دیا گیاہے ، فرماتاہے :
وَ السَّمَآءَ رَفَعَہَا وَ وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ ۙ﴿۷﴾اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ﴿۸﴾وَ اَقِیۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَ لَا تُخۡسِرُوا الۡمِیۡزَانَ﴿۹﴾
اور اسی نے اس آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی۔ تاکہ تم ترازو (کے ساتھ تولنے) میں تجاوز نہ کرو۔ اور انصاف کے ساتھ وزن کو درست رکھو اور تول میں کمی نہ کرو۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ناپ تول میں عدل کی رعایت کا مسئلہ کم اہم نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اصل عدالت ہے اور سارے نظام ہستی پر حاکم نظم کلی ک ایک جز ہے ۔اسی بناپر عظیم آئمہ اسلام نے اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے ، یہاں تک کہ اصبغ بن نباتہ کی مشہور روایت میں آیاہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام سے سنا کہ آپ منبر پر فرمارہے تھے:
( یامعاشر التجار ! الفقہ ثم المتجر ) اے گروہ تجار پہلے فقہ کی تعلیم حاصل کرو اس کے بعد تجارت کرو “ ۔ اس بات کی امام نے تین بار تکرار کی اور اس کلام کے آخر میں فرمایا 🙁 التاجر و الفاجر فی النار الاَّ من اخذ الحق و اعطی الحق ) ” تجارت کرنے والافاجر ہے اور فاجر دوزخی ہے سوائے اس کے جو صرف اپنا حق لوگوں سے لے اور لوگوں کا حق ادا کرے “۔ (کافی ، جلد۵ ، باب آداب التجارة حدیث۱)

ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ جس وقت امیر المومنین علی علیہ السلام کوفہ میں تھے تو آپ ہر روز صبح کے وقت کوفے کے بازاروں میں آتے اور ایک ایک بازار میں گشت کرتے اور تازیانہ آپ کے کاندھے پر ہوتا ہر بازار کے وسط میں کھڑے ہو جاتے اور بلند آواز سے کہتے اے گروہ تجار ! خدا سے ڈرو ۔جس وقت حضرت علی علیہ السلام کی پکار کو سنتے جو کچھ تاجروں کے ہاتھوں میں ہوتا رکھ دیتے اور پورے خلوص کے ساتھ آ پ کی باتوں کو سنتے ۔ اس کے بعد آپ فرماتے :
قدموا الاستخارة وتبرکوا بالسھولة و اقتربوا من المبتاعین و تزینوا بالحلم و تناھوا عن الیمین وجانبوا الکذب وتجافوا عن الظلم و انصفوا المظلومین ولا تقربوا الربا و اوفوا الکیل و المیزان ولا تبخسوا الناس اشیاء ھم و لاتعثوا فی الارض مفسدین )
” خد اسے خیر طلب کرو اور لوگوں کے ساتھ معاملہ آسان کرکے بر کت چاہو اور خریداروں کے پاس جاوٴ ، حلم و برد باری کو اپنی زینت قرار دو، قسم کھانے سے پرہیز کرو ، جھوٹ بولنے سے اجتناب کرو ، ظلم سے بچو اور مظلوموں کا حق ظالموں سے لے کر دو ، سود کے قریب نہ جاوٴ، پیمانے اور وزن کے معاملہ میں پورے پورے انصاف سے کام لو ، لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو اور زمین میں باعث فسا د نہ بنا کرو ۔
اس طرح کہ آپ کوفہ کے بازاروں میں گردش کرتے ، اس کے بعد دار الامارة کی طرف پلٹ آتے اور لوگوں کی داد خواہی اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے بیٹھ جاتے ۔( کافی، باب آداب التجارة حدیث ۳)
اور پیغمبر اکرم سے روایت ہے :” جو گروہ کم تولے گا خدا اس کی زراعت اس سے چھین لے گا اور اسے قحط سالی میں مبتلا کردے گا ، جو کچھ اوپر کہا گیا اس سے معلوم ہو تاہے کہ بعض گزشتہ اقوام کی بربادی اور ان پرعذاب نازل ہونے کے عامل یہ ہے کہ وہ کم تولتے تھے ۔ ان کا یہ اقدام ان کی اقتصادی بدحالی اور نزولِ عذاب خدا کا سبب بنا۔
یہاں تک اسلامی روایت میں آداب تجارت کے سلسلہ میں آیاہے کہ مومنین کے لئے بہتر ہے کہ پیمانے بھر تے اور وزن کرتے وقت زیادہ دیں او ر لیتے وقت اپنا حق کچھ کم لیں ( ( ان لوگوں کے کام کے بالکل بر عکس جن کی طرف مندرجہ بالا آیات میں اشارہ ہو اہے کہ وہ اپنا حق تو پورا پورا وصول کرتے تھے لیکن دوسروں کا حق کم دیتے تھے )( وسائل الشیعہ ، جلد ۱۲ ، ابواب التجارة باب ۷ ، ص ۲۹۰ )
حضر ت شعیب علیہ السَّلام نے اپنی قوم کو جو ناپ تول میں کمی بیشی کے جرم میں بری طرح مبتلا تھی کچھ یوں ہدایات فرمائی تھی :
وَلا تَنْقُصُوااْلِکْیاَلَ اِنِیْ اَرٰ کُمْ بِخَیْرٍ وَّاِنّیْ اخَافُ عَلَیْکُمْ عَذاب یَوْمٍ مُّحِیْطٍ وَیاَ قُوْم اَوْفُوْ الْمِکْیَالَ وَالمِیْزَان باِلْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُوْالنّاس اَشَیاَءَ هُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ (سورئہ ہود ۱۱ ، آیت ۸۴ اور ۸۵)
تم پیمانہ پورا بھرو اور نقصان پہنچانے والوں میں سے نہ ہونا۔ اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔
ناپ تول میں کمی کرنے والا مومن نہیں
آیات قرآنی سے ا ستفادہ ہوتا ہے کہ کم ناپنے تولنے والا آخرت اور روزِ جزا پر ایمان نہیں رکھتا ۔ اگر وہ قیامت کا ایمان ویقین رکھتا ہوتا، بلکہ گمان بھی رکھتا ہوتا تو اسے احساس ہوتا کہ جتنا مال اُس نے بے ایمانی کر کے کم دیا ہے اس کا قیامت کے دن حساب ہوگا۔ اس مال کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اگریہ احساس ہوتا تو وہ کبھی ایسی خیانت نہ کرتا اگر ایمان ہو تو وہ یہ خیال رکھتا کہ اگرچہ وہ حقدار کو غافل کر کے اسے مطلوبہ مال سے کم لے سکتا ہے، مگر رب العالمین توحاضروناظرہے۔
کہتے ہیں کہ ایک بت پرست قصائی ہمیشہ لوگوں کو تول اور وزن سے کچھ زیادہ ہی دیتا تھا لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو اس نے اوپر کی طرف اشارہ کردیا۔ لوگوں نے اوپر ایک بت رکھادیکھا ۔ قصائی نے کہا ” میں اس کی خاطر زیادہ دے دیتاہوں! ” ایک اور بت پرست دوکاندار کا واقعہ ہے کہ جب بھی وہ وزن کرنا چاہتا تھاتو تولنے سے پہلے وہ اپنے بت کودیکھ لیا کرتا تھا تاکہ کم نہ تولے ۔ حضرت یوسف اور زلیخا ایک کمرے میں تنہا تھے تو زلیخانے کمرے میں رکھے ہوئے بت پراپنا مقنع ڈال دیا حضر ت یوسف علیہ السلام نے فرمایا : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ ”
اس نے کہا: "مجھے اس سے حیا آرہی ہے ! ” حضر ت یوسف علیہ السَّلام نے کہا: آپ ایک ایسے بت سے حیا کررہی ہیں جس میں کچھ شعور نہیں ہے اور جو انسان کے ہاتھوں کابناہواہے پس کیوں کر میں اس خدا ئے سمیع و بصیر سے حیا نہ کروں جوحاضر وناظر ہے ! ” یہ فرما کر وہ وہاں سے بھاگے اور گناہ میںآ لودہ نہ ہوئے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بت پر ست لوگوں کو تو بے شعور پتھر کے بتوں کے سامنے گناہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے لیکن افسوس ، مسلمانوں کو خدائے حاضر وناظر سے شرم نہیں آتی !
پانچ گناہ اور پانچ مصیبتیں
تفسیر منہج الصادقین میں یہ حدیث لکھی ہے کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کہ پانچ گناہوں کے نتیجے میں پانچ قسم کی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ۔ ہر گناہ کے نتیجے میں ایک خاص مصیبت ہوتی ہے ۔ آنحضرت فرماتے ہیں کہ :
مَانَقَضَ قَوْمُ العَهْدَ اِلَّا سَلَّطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ عَدُوَّهُمْ ” کسی قوم کے لوگ وعدہ ،خلافی اور عہد شکنی کرتے ہیں تو خدا ضرور ان پر ان کے دشمنو ں کومسلط کر دیتا ہے۔ ”
وَمَا حَکَمُوْا بِغَیْرِ مَا اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَّا فَشَافِیْهِمُ الْفَقْرُ
"لوگ جب خدا کے نازل کئے حکم کے برخلاف حکم دیتے ہیں تو ضرور ان میں غربت عام ہوجاتی ہے۔ ”
وَمَاظَهَرَتِ الْفَا حِشَةُ اِلَّا فَشَافِیْهِمُ الْمَوْتُ ۔
"فحاشی جب کھلے عام ہوجاتی ہے تو ضرور شرح الموت بڑھ جاتی ہے ۔”
وَلَاطَفَّفُوْا الْکَیْلُ اِلَّا مَنَعُوْا النَّبَاتِ وَاَخَذُوْ البِالسِّنیْنَ
"لوگ جب ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ضرور نباتات اور زراعت میں کمی ہوجاتی ہے اور رزق کی فراوانی رُک جاتی ہے۔ ”
وَلَا مَنَعُوْا لزّکوٰةَ اِلَّا حُبِسَ عَنْهُمْ الْقَطَرُ ۔
” اور لوگ جب زکوٰۃ نہیں دیتے تو بارش روک لی جاتی ہے ۔ ”
کاروبا رکرنے والوں کو امیر المومنین کی نصیحت
امیر المومنین حضر ت علی علیہ السَّلام جب حکومت کے کاموں سے فاغ ہوتے تھے تو بازار کوفہ میں جاکرفرماتے تھے:( یَاَیُّهاالناَسُ اتَّقُوْ االلّٰهَ وَاَوْفُوْاالْمِکْیاَلَ وَالْمِیْزَانَ بِالقَسْطِ وَلَاتَبْخَسُوْ النّاسُ اتّقُوْ اللّٰهَ وَاَوْفُوْالْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَاَتَبْخَسُوْ الناسَ اَشْیَاءَ وَلَا تَعْثَوْافِیْ الْاَرضِ مُفْسِدِیْنَ ) ۔
"اے لوگو! خدا سے ڈرو ۔ پورا پورا انصاف کے ساتھ ناپا تو لا کرو ۔ لوگوں کوان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فسادنہ پھیلاو ۔”
ایک دن حضرت علی نے بازار کوفہ میں ایک شخص کو دیکھیا جو زعفران بیچ رہا تھا وہ یہ چالاکی کرہا تھاکہا پنا ہاتھ تیل سے چکنا کر کے ترازو کے اس پلڑے پر لگاتا رہتا تھا جس میں زعفران رکھی جاتی تھی ،۔ حضرت علی علیہ السَّلام نے یہ دیکھا کہ اس کی ترازو درست نہیں ہے تو ترازو میں سے زعفران کو اٹھالیا۔ پھر فرمایا:۔
اَقِمِ الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ ثُمَّ ارْجَحْ بَعْدَ ذٰلِکَ مَاشِئْتَ
” پہلے ترازو کو برابر کر کے ٹھیک کر و، پھر اگر چاہو تو اس کے بعد کچھ زیاد ہ دے دیا کرو۔”
آگ کے پہاڑوں کے درمیانا
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں کہ : "جو شخص ناپنے تولنے میں خیانت کرے گا اس کو دوزخ کے نچلے طبقہ میں ڈال یدا جائے گا جہاں اس کی جگہ آگ کے دو پہارڑوں کے درمیان ہوگی۔ اس سے کہا جائے گا کہ ان پہاڑوں کا وزن کرو! وہ ہمیشہ اس عمل میں مشغول رہے گا۔
تفسیر منہج الصادقین میں یہ بھی لکھا ہے کہ مالک نامی ایک شخص کاہمسایہ جب بیمار ہوا تو وہ اس کی عیادت کے لئے گیا ۔ مالک کہتا ہے کہ: میں نے اس کو نزع کے عالم میں دیکھا ۔اس عالم میں وہ چلّارہا تھا کہ : آگ کے دو پہاڑ مجھ پر گرنے والے ہیں ! ” میں نے اس سے کہا : ” یہ تمہارا محض خیال ہے۔ ” اس نے کہا : ” نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ حق ہے ۔ اس لئے کہ میرے پاس دو قسم کے ترازو تھے ۔ ایک سے کم تول کر لوگوں کو دیتا تھااور ایک سے زیادہ تول کرخود کھ لیتا تھا۔یہ اسی کی سزاہے۔
کم گن کردینا بھی حرام ہے
جس طرح ناپ تول میں کمی کرنا حرام ہے اسی طرح کم گن کردیابھی حرام ہے۔ وہ چیز جو ناپ کر بیچی جاتی ہیں جیسے کپڑا اور زمین وغیر ہ اگر ایک سینٹی میڑ بھی اس میں کمی کی گئی تو یہ بھی گناہ اور حرام ہے۔ بالکل اِسی طرح وہ چیزیں جنہیں گن کربیچا جاتا ہے جیسے انڈا اور بعض پھل وغیرہ اگر اسے کم کر دیا گیا اور لینے والا نہ سمجھ سکا تو ایسا کرنے والے کو بھی ناپ تول میں کمی کرنے والا کہا جائے گا۔ ۔یہی شیخ انصاری نے کتاب ” مکاسب ِ محرمہ” میں لکھا ہے۔
کم بیچنے والا خریدار کا مقروض ہے
جتنے مال کی بییچنے والے نے کمی کی ہو اتنا مال اس کے ذمّے باقی رہتاہے۔ یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اتنا مال بھی خریدار کودے دے اور یہ واجب ہے۔ اور اگر خریدار مرچکا ہو۔ تو خریدار کے وارثوں کے دے دے اور اگر خریدار کو وہ پہچانتا نہ ہو تو (حاکم ِ شرع سے احتیا طًا اجازت لے کر اس مال کے اصل حقدار (خریدار ) کی جانب سے اتنا مال صدقہ دیدے۔
اگر یہ معلوم نہ ہو کہ مال میں کتنی کمی ہوئی ہے تو بیچنے والے کو چاہئے کہ خریدنے ولاے سے مصالحت کرلے اور اسے کچھ مال دے کر یاایسے ہی راضی کرلے۔ اگر خریدا ر فوت ہوچکا ہو تو اس کے وارثوں کو راضی کرلے ۔ اور اگر خریدار کاپتہ نہ ہو تو حاکم شرع کو راضی کر لے۔
دھوکہ بازی بھی کم فروشی ہے
کم بیچنے کی حقیقت یہ ہے کہ جتنے مال کا معاملہ ہوا ہے آدمی وہ پورا مال خریدار کونہ دے، بلکہ کم دے ۔اسی طرح دھوکہ بازی کرنابھی ہے جب آدمی کم دیتا ہے تو بھی خریدار کومعلوم نہیں ہوتاکہ اسے کم دیا گیا ہے ۔ جب آدمی کم دیتا ہے تو بھی خریدار کو معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کم دیا گیا ہے اسی طرح جب آدمی اچھی چیز کے ساتھ کچھ بُری چیز ملاکر دھوکے سے بیچ دیتا ہے تو بھی خریدارکو معلوم نہیں ہوتاکہ اس کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے دھوکہ بازی میں اگرچہ وزن برابر ہو، لیکن چونکہ دھوکہ کیا گیا ہے اس لئے حرام ہے ۔ مثلاً دوکاند ار نے ایک سو گندم بیچنے کا معاہدہ کیا ہے لیکن اس نے ۵ کلو مٹی ملا کر کل سو کلو تول دیا اسی طرح اس نے گویا ۹۵ کلو بیچا اور پانچ کلو گندم کم دیااس طرح اس دوکاندار نے ایک من دودھ میں پانچ سیر پانی ملا دیا تو یہ بھی دھوکہ بازی ہے۔ اسی طرح اگر دوکاندار نے ۱۰ کلو گھی دینے کی بجائے پونے دس کلو دیا اور گھی کی تہہ میں ایک پاو کے وزن کا پتھر ڈال دیا تو یہ بھی دھوکا بازی ہے۔
اسی طرح گوشت والے نے معمول سے زیادہ ہڈی شامل کردی تو یہ بھی دھوکہ بازی ہے۔ اسی طرح سبزی وغیر ہ میں وزن بڑھانے کے لئے کافی پانی ملا دینا بھی دھوکہ بازی ہے۔ ایسے تما م کام کم بیچنے کے زُمرے میں آتے ہیں ۔ اور گناہ کبیرہ ہیں ! اگرچہ دوکاندار نے برابرتولا ہو۔
ملاوٹ حرام ہے
اسی طرح بڑھیا مال کی جگہ گھٹیا مال دھوکے سے بیچ دینا حرام ہے ۔ پس اعلیٰ گندم کی جگہ درمیانی درجے کا گندم دے دینا یا اعلٰی گندم میں دوسرے قسم کاگندم بھی ملاکر دے دینا بھی دھوکہ بازی ہے۔ اسی طرح خالص گھی کی تہہ میں عام گھی ڈال کردے دینا بھی حرام ہے۔
شیخ انصاری ” مکاسب محرمہ ” میں فرماتے ہیں:
ملاوٹ کے حرام ہونے کے سلسلے میں جو روایت میں جو روایات موجو دہیں وہ متواتر ہیں ۔ مثلًا شیخ صدوق نے رسول سے روایت نقل کی ہے کہ :مَنْ غَشَّ مُسْلمًِا فِیْ بَیْعٍ اَوْ شَرَاءٍ فَلَیْسَ مِنّاَ وَیَحْشُرُ مَعَ الْیَهْوْدِ یَوْمَ الْقِیاِ مَةِ ، لِاَنَّه مَنْ غَشَّ النّاس َ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ یعنی ” جو شخص بیچنے یا خریدنے میں کسی مسلمان کو ملاوٹ کا مال دے گا وہ ہم میں سے نہیں ہوگا وہ قیامت کے دن یہودیوں کے ساتھ ہوگا۔ اس لئے کہ جو شخص لوگوں کوکم ملاجوٹکرکے مال دیتا ہو وہ مسلمان نہیں ہے۔!”
یہاں تک کہ آنحضرت نے فرمایا(اِلیٰ اَنْ قَالَ ) وَمَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنّاَ ” جوشخص ہمیں جوملاوٹ کر کے مال دے تووہ ہم میں سے نہیں ہوگا! "قالَهَا ثَلاَثًا آنحضرت نے یہ جملہ تین مر تبہ دہرایا ۔ پھر فرمایا :
وَمَنْ غَشَّ اَخَاه الْْمُسْلِمََ نَزَعَ اللّٰهُ بَرَکَةَ رِزْقِه وَاَفْسَدَمَعِیْشَتَه وَوَکَّلَه اِلیٰ نَفْسِه (کتاب ” عقاب الاعمال” )
"اور جوشخص اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ ملاوٹ کا معاملہ کرے گا خدا تعا لیٰ اس کے رزق سے برکت ہٹالے گا، اس کی معاشی حالت تباہ کردے تا، اور اس کو اس ے حال پرچھوڑدے گا!”
عبرتناک واقعہ:
آقائے عراقی کی کتاب ” دار السلام ” کے صفحہ ۳۰۹ پر یہ عبرتناک قصہ موجود ہے کہ :
مجھے ثقہ اور عادل شخص آقائے ملّا عبدالحسین خوانساری نے یہ واقعہ سنایا کہ کربلا کا ایک معتبر عطر فروش بیمار ہوگیا ۔ اس نے شہر کے تمام طبیبوں سے علاج کروا ڈالا مگر سب اس کے علاج سے عاجز ہوگئے ۔ اس نے پنا تمام مال اپنے علاج میں خرچ کردیامگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔
میں نے دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا کہ وہ چیز بھی بیچ دو اور خرچ چلاو ! یعنی وہ ایک ایک کر کے گھر کا سامان بیچنے پر بھی مجبو رہوگیا۔ وہ کہ رہا تھا : "سب بیچ دو” مجھے کچھ نہیں چاہیئے یا تو میں مرجاوں گا یا ٹھیک ہو جاوں گا ! ” میں نے اس سے کہا کہ : "آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ ” اس ایک سرد آہ لی اورکہا: ” ابتدا میں میرے پاس معقول سرمایہ نہیں تھا ۔ میرے پاس اتنا جو سرمایہ جمع ہوگیا تھا اس کاسبب ی تھا کہ کئی سا ل پہلے کربلامیں ایک خاص قسم کا بخار یا زکام وباکی شکل میں پھیل گیا تھا جس کا علاج طبیبوں نے لیموں کا خالص رس تجویز کیا تھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کربلا میں لیموں کا رس کم پڑنے لگا اور مہنگا ہونے لگا ۔ میں نے لیمو ں کے رس میں چھاجھ کی ملاوٹ شروع کردی اور مہنگی قیمت پراسے بیچا۔ پھر یہ حال ہواکہ کربلا کہ دیگر دوکانو ں میں لیموں کا رس ختم ہوگیا لیکن ملاوٹ کی وجہ سے میرے پاس باقی رہا۔ شہر کے دوکاندار اسلسلے میں لوگوں کو میرے پاس بھیجنے لگے پھر میں نے چھاچھ ہی میں رنگ اور کھٹائی ملا کر اسے لیموں کا رس ظاہر کیا اور بیچنے لگا ۔
ایسی ہی ملاوٹ ہی کے سبب سے میں کافی مالدار ہوگیا تھا اب یہ حال ہوگیا ہے کہ میرا تمام سرمایہ ختم ہوچکاہے ۔ اور گھر میں بیچنے کے قابل کوئی اور چیزبھی نہیں رہی ہے ۔ میں گھر کی تمام چیزیں بھی نکال رہا ہوں کہ سب حرام کی کمائی کاثر ہے۔ شاید حرام مال میرے پاس نہ رہے تو میں اس بیماری سے نجات پا جاوں!”
اس بات کو کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا کہ وہ شخص دنیاکوچ کر گیا ۔ اس کی گردن درحقیقت ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جن کے ساتھ اس نے ملاوٹ کا معاملہ کیا تھا۔
حضر ت امام محمّد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : ایک دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) مدینہ منورہ کے بازار سے گز رہے تھے۔ ایک گندم فروش سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا : تمہارا اچھا گندم ہے” پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے گندم کے اندر ہاتھ ڈالا تو اندر سے خراب قسم کا گندم نمودار ہوگیا ۔ یہ دیکھ کر آنحضر ت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا :مَااَرئٰکَ اِلَّا وَقَدْ جَمَعْتَ خِیَا نَةً وَّ غِشًّا۔ (کتاب "عقاب الاعمال ") یعنی : میں تو یہی دیکھ رہا ہوں کہ تم نے خیانت اورملاوٹ کا سامان کرلیا ہے!”
علّامہ حلّی یہ روایت بیان فرماتے ہیں کہ : ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق سے کہا: ” ایک شخص کے پاس دو قسم کا مال ہے، ایک مہنگا اور اچھا ، جبکہ دوسرا گھٹیا اور سستا۔ اگر وہ ان دونوں کو مخلوط کرلے اور ایک خاص قیمت مقرر کر کے بیچے تو کیسا ہے؟”
حضر ت نے فرمایا(فَقَالَ ) لَا یَصْلَحُ لَه اَنْ یَغِشَّ الْمُسْلِمِیْنَ حَتٰی یُبَیِّنَه (کتاب ” عقاب الاعمال” ) اُس کے لئے صحیح نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو ملاوٹ والا مال بیچے ۔ ہاں اگر وہ بتادے کہ اس میں ملاوٹ ہے ، تو صحیح ہے۔ ”
داود ابن ِسرجان نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا : "میرے پاس دو قسم کی مشک تھی ۔ایک گیلی اور دوسری خشک ، میں نے گیلی اور تازہ مُشک بیچ دی ہے لیکن لوگ سوکھی مُشک اسی قیمت پرنہیں خریدتے ہیں ۔ آیا جائز ہے کہ میں اس کو تر کروں تاکہ وہ بک جائے؟ امام نے فرمایا : "جائز نہیں ہے ہاں اگر تم خریدارکو بتادو کہ تم نے ترکیا ہے تو اور بات ہے۔”

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button