فطرتُ اللہ کے ایک اعلیٰ مظہر کا تعارف

تحقیق، تحریر و تبیین: ڈاکٹر سید عمید کاظمی
آج ہم رب العالمین سبحانہ و تعالیٰ کی توفیق، عنایت اور امداد سے انسانی حقیقت کے سب سے بڑے مَظہر اور انسان کے وجود میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے وجود کی سب سے بڑی نشانی یعنی فِطرتِ الہٰیہ کے بارے میں ایک نہایت لطیف اور انتہائی باریک امر کی ایک حد تک ضروری تفصیل بیان کرنا چاہتے ہیں۔
انسانی وجود اور بشر کی ذات میں فطرت درحقیقت خالقِ جہان و انسان کی سب سے بڑی آیت ہے۔ فطرتِ شریفہ، انسان کی واقعیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک کا نسخہِ کامل اور آیتِ عیاں ہے جو خالقِ کائنات نے انسان کی ذات میں بطور امانت اور بعنوانِ ودیعت رکھ دی ہے اور پھر اس کو انسان کی ذات کی پوری عمارت کی بنیاد بھی قرار دیا اور انسان کو اپنی خلافتِ عظمیٰ سپرد کرنے کا معیار اور میزان بھی فطرتُ اللہ کو ہی بنایا۔ اگر انسان کی ذات فاقدِ فطرت ہوتی تو پھر انسان میں خلیفۃ اللہ بننے کی رمق اور سکت بھی نہ ہوتی۔
انسان کے وجود میں فطرت، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وجودِ مطلق کا ایک روشن باب، مُبین نسخہ اور مستقیم راستہ ہے۔
رب العالمین جل شانُہ کی ذات سے بلاواسطہ تعلق و ارتباط کا واحد راستہ انسان کی ذات میں یہی فطرتِ اولیہ و جبلتِ قدسیہ ہے البتہ اگر حضرت انسان اس کو اپنی اَوَّلِی پیدائشی حالت اور ابتدائی تخلیقی کیفیتِ میں باقی اور قائم رکھنے میں کامیاب رہے تو یہ عظیم مقصد اور تخلیقِ انسان کا مقصدی امر حاصل ہوجاتاہے یعنی اگر فطرت سالم و ثابت رہ جائے تو صحراء کا بدو اور اَعرابی، فطرت سے بُریدہ تعلیم یافتہ متمدن شہری سے افضل بھی ہے بہتر بھی اور ہدایت یافتہ بھی۔
اور فطرت بُریدہ انسان یا فطرت سے کٹا ہوا دو پاوں والا سیدھے قد و قامت کا یہ موجود، پھر انسان نہیں رھتا بلکہ یا بے روح پتھروں اور جمادات کی سطح پر جاکھڑا ہوتا ہے یا چہار پا حیوان بن جاتا ہے اور اگر فطرت کو محجوب رکھنے میں حد سے بڑھ جائے تو ایک بشری شیطانی مجسمہ بن جاتا ہے۔
انسانی فطرتوں کو سالم و ثابت رکھنا، فطرتوں کو حالتِ اولیہ و کیفیتِ صحیحہ سے جوڑ کر رکھنا، محجوب واقعہ ہونے والی فطرتوں سے پردے اور حجابِ مادی ہٹانا، بُریدہ فطرتوں کو دوبارہ انسان کی روحوں سے متصل کرنا، فطرتوں کے روحی نظام کو زندہ رکھنا اور احیاء کرنا ہی تو جملہ انبیائے الہٰی اور مرسلین عظام کی اصل ذمہ داری اور منصبی فرض ہے۔
فطرت اور خالق مطلق، فطرت اور آسمانِ غیب، فطرت اور ہدایت، فطرت اور دین، فطرت اور نور، فطرت اور ھادیانِ برحق، فطرت اور جنت، فطرت اور تقویٰ، فطرت اور اسلامی حکومت کا قیام، فطرت اور عقل، فطرت اور علوم، فطرت اور دل کی حیات، فطرت اور معاشرے کا معنوی و روحانی ارتقاء، فطرت اور حق، فطرت اور خلافت، فطرت اور نبوت، فطرت اور ولایت، فطرت اور فرد و معاشرے کی فلاح و صلاح نیز فطرت اور جسم و روح کا آپس میں بلاواسطہ اور براہِ راست اندرونی رابطہ ہے۔ فطرت ماند و مدہم ہوتو یہ سب کچھ ماند و مدہم اور فطرت محجوب ہوگئی تو یہ سب کچھ محجوب ہوجاتاہے اور اسی عمل کو فطرت کی بُریدگی سے اور ایسے انسانِ محجوب کو انسانِ فطرت بُریدہ سے تعبیر کیا جاتاہے۔
مندرجہ بالا تمام حقائق و امور کی جانب براہ راست اور سیدھی سیدھی کھلنے والی شاہراہ کا نام فطرتُ اللہ ہے اور فطرتُ اللہ ذاتِ انسان اور وجودِ بشر میں پروردگارِ عالمین کے ربوبی حکم سے مقرر و متعین ہے۔
ہم اس مختصر تحریر میں انسانی وجود میں قائم فطرتُ اللہ کے فقط ایک رکن کا جامع تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل کرینگےاور اسی مطلبِ قویم کی اساس پر انسان شناسی اور خود سازی کا صحیح مفہوم معین و مقرر کرینگے۔
مختلف مظاہرِ قدرت اور متنوع موجودات خلقت کو جاننے، پہنچاننے، ان کے اسباب کے اندر غور و فکر کرنے، انکی تخلیق کے مقاصد اور فوائد و ثمرات کا علم حاصل کرنے نیز انکی حقیقت کا کھوج لگانے کی فطری جستجو کو ہم علمِ فلسفہ میں حِسِّ کُنجکاوی کا نام دیتے ہیں یہ کشش اور جذبہ دراصل انسانی روح اور نفس کے اندر ایک خالص فطری خصلت ہوتی ہے جو حصولِ علم، انسانی تحقیقات و تفکرات، مطالعات، تجربات، مشاھدات، مُکتَشَفات اور اختراعات کا سبب اور سرچشمہ بنتی ہے۔
اور اسی حِسِّ باطنی، فطری کشش اور شدید روحی اشتیاق کی وجہ سے ہی بشر کی دنیا میں علمِ فلسفہ، علمِ عرفان، علمِ کلام، علمِ فقہ، علم تفسیر، علوم و فنونِ ادب، علوم اخلاقیات، علمِ منطق، علمِ حروف، علمِ اعداد، علمِ اوفاق، علمِ ہندسہ، علمِ ریاضیات، علمِ موسیقی، علمِ لغات، علمِ لسانیات، علمِ ذراعت، علمِ شناخت شناسی، علمِ کیمیاء و کیمسٹری، علمِ طبیعیات و فزکس، میڈیکل سائنس، میرین سائنس، انجینئرنگ، سائیکالوجی، سوشیالوجی، با ئیولوجی، زمین شناسی، سمندر شناسی، حیوان شناسی، معرفتِ جمادات، علمِ نباتات، فلکیات، علمِ خدا شناسی، علمِ خود شناسی، علمُ النفسِ فلسفی، علمِ مبداء شاسی، علمِ معادشناسی، اور جہان شناسی جیسے علوم نے جنم لیا ہے۔
جمیع بشری علوم نیز تمام نو ظہور سائنسز، مہارتیں، آرٹس کے فنون، فنونِ لطیفہ، ہنرہائے متنوع، کاری گریاں، سائنس کے تمام مختلف شعبہ جات، صنعت گری، تمام معاشی و اقتصادی علوم، سیاسی علوم، ٹیکنالوجی اور تمام مادی، روحانی اور معنوی بشری علوم و معارف دراصل انسان کی روحِ ملکوتی کے اندر موجود حِسںِ کُنجکاوی اور قوۃِ جستجو گری کا ولیدہ اور مظہر ہیں اور یہ عظیم کرشماتی اور معجذاتی حِسِّ کُنجکاوی خود فطرت کا ہی ایک جزوی سا لیکن بنیادی شعبہ، روشن مصداق اور رکنِ اعلیٰ ہے۔
اس وضاحت کی روشنی میں ایک امر بہت واضح ہے کہ قوۃِ جستجو گری اور استعدادِ حقیقت شناسی سے انسانی فطرت کا دائرہ کار بہت زیادہ وسیع تر ہے کیونکہ قوۃِ جستجو گری، فطرت کے ارکان و اصول میں سے فقط ایک رکنِ اعلیٰ اور مصداقِ والا تو ہے لیکن فطرتِ الہٰیہ کے باقی ارکان و اصول کا علیحدہ سے جدا جدا علمی فلسفی تعارف اور تفصیل اپنی تحقیقات و تحاریر میں ترتیب کے ساتھ پیش کرتا رہوں گا۔ اس مقام پر اس نکتہِ عرشیہ و مطلبِ رشیقہ کا جاننا سب کیلئے بے انتہا ضروری ہے کہ سارے انسانی روحی نظام اور کُل جسمی مجموعے یعنی انسان کی کُل مُرَکَّب و مزدوج حقیقت کا سنگِ بنیاد فقط فطرت ہے، فطرت دراصل قوتِ عقل، قوتِ شہویہ، قوتِ غضبیہ، تمام انسانی روحانی اور مادی استعدادوں اور اہلیتوں کی اُم اور مادر ہے۔
روحِ نوری اور جسمِ مادی کی کُل کی کُل مُرَکَّب عمارت فطرتِ الہٰیہ پر استوار ہے۔
اور ہر انسان کیلئے اپنی انہی فطری استعدادوں اور قدرتی روحی قوتوں کو اپنی مطلوبہ حدود اور مقررہ مقاصد تک پہنچانا، سب صلاحیتوں کو اپنی صحیح سمتوں پر رکھ کر اجاگر کرنا، متناسب و سازگار حد تک لے جانا اور زندگی میں انہی صلاحیتوں کو مقررہ نصاب تک پروان چڑھا کر صحیح مقاصد کیلئے بروئے کار لانا ہی درحقیقت انسان کیلئے کمال اور ارتقاء ہے۔
اور انسانی وجود میں خودِ فطرت، فطرت کے ارکان، فطرت کے تشکیلی عناصر، فطرت پر استوار دوسرے روحی اوصاف اور جسمی امور نیز فطری استعدادات کے علم و دانش کا نام ہی خود شناسی اور انسان شناسی ہے اور انہی فطری استعدادات کو جاننے اور پہچاننے کے بعد فطرت کے ارکان اور فطری اوصاف کو شگوفا کرنا، پروان چڑھانا، فطری استعدادات کو تراشنا، سنوارنا اور انہی فطری قوتوں و استعدادوں کے پورے نظام کو تکمیل کیلئے تعلیماتِ قرآن، دستوراتِ احادیثِ محمد و آل محمد علیھم السلام، اسلامی علمِ اخلاقیات و علمِ آداب نیز عقل، عرفان، علم و فلسفہ کی بتائی ہوئی راہوں کے مطابق استفادہ کرنا خود سازی ہے۔
اس تحقیق اور تحریر میں ہم نے بہت ظریف، لطیف اور باریک فلسفی و عرفانی طریقے سے فطرت کی اصل حیثیت، اہمیت، ضرورت اور عظمت کو ثابت کیا۔ انسانی وجود میں اور انسانی روحانی کمال کے حصول میں فطرت کے کردار کی وضاحت کی نیز فطرت کی حقیقت کو تشکیل دینے والے ایک بنیادی امر ایک واضح رکن اور اعلیٰ مصداق یعنی حِسِّ حقیقت جوئی اور قوتِ جستجو گری کے مفہوم، کرشموں اور اثرات کو تشریح و تبیین کیا اور ان تمام تشریحات و وضاحتوں کے اوپر رکھ کر خود شناسی اور خود سازی کے صحیح اور قابلِ عمل تصور کو پیش کیا۔ آئندہ اسی سلسلے کی دوسری تحاریر و تحقیقات میں فطرت کی ذات کو تشکیل دینے والے مزید دیگر ذاتی عناصر اور ارکان کی تفصیل و تشریح اور صحیح تصور کی وضاحت پیش کروں گا۔
بحول و قوتِ پروردگارِ عالم اس سلسلے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی پوری کوشش و سعی کرتا رہوں گا۔