عیدِ قربان۔۔۔۔دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
عید قربان درحقیقت اپنے حیوانی نفس کو تقویٰ کی تلوار سے ذبح کرنے اور ظالموں کے خلاف قیام کرنے کا دن ہے۔ جانور کا ذبح کرنا تو اس بات کا اعلان ہے کہ انسان کسی بھی فعل کی نیّت کرتے ہوئے اپنے باطن کے حیوانی رجحانات، خواہشات اور دنیوی لذات پر چھری پھیر دے۔ جب ہم کسی جانور کو ذبح کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم یہ بھی محسوس کریں کہ ہم نے اپنے اندر کے جانور کی گردن پر بھی چھری پھیری ہے یا نہیں؟ اور ہمیں انسانوں کی شکل میں دندناتے پھرتے جانوروں سے نفرت ہے یا نہیں۔؟ کیا قربانی کرتے وقت ہم اپنے اندر کے اس حیوان کو مار دیتے ہیں، جو ہمیں خود غرضی، لالچ، حسد اور ظلم پر اکساتا ہے۔؟ اگر ہم اپنے اندر کے اس حیوان کو مار دیتے ہیں تو پھر ہماری قربانی بھی حقیقی ہے اور پھر ہم عیدِ قربان کے روز مبارک باد کے مستحق بھی ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے محبوب بیٹے کو خدا کی رضا کے لیے قربان کرنے کا عزم کیا، تو یہ صرف ایک باپ کی بیٹے سے جدائی نہ تھی، بلکہ یہ اپنے "محبوب ترین” کو خدا کے سامنے پیش کرنے کا مقام تھا۔ ایسا ہی کربلا کے میدان میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور یہی حقیقی قربانی ہے، یعنی اپنی عزیز ترین شے کو خلوصِ نیّت سے خدا کی بارگاہ میں قربان کرنا۔ یوں سمجھئےکہ کوئی بھی عمل تب قربانی کہلا سکتا ہے کہ جب وہ "ذمہ داری کے احساس اور نیت کے خلوص” پر مبنی ہو۔ جب عمل ایسا ہوگا تو تب ہی انسان کے اندر تبدیلی، تطہیر اور تقرب الیٰ اللہ کا سبب بنے گا اور تب ہی وہ عمل قربانی کہلائے گا۔
خدا کے ہاں کسی انسان یا جانور کا خون بہانا کوئی معنا نہیں رکھتا۔ خود قرآن مجید کے الفاظ ہیں:
"لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ”(سورہ حج،37)
"اللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے۔ اسی طرح اس نے یہ جانور تمہارے قابو میں دیدئیے، تاکہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دیدو”۔
اگر تقویٰ ہے تو خدا کے ہاں کسی انسان یا جانور کے گوشت و خون کا بھی مقام ہے، ورنہ کچھ بھی نہیں۔ حضرت ہابیل ؑ سے میدانِ منیٰ تک اور میدانِ منیٰ سے لے کر کربلا تک قربانی اور تقویٰ کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ قربانی انسان پر اجتماعی ذمہ داریاں عائد کرتی ہے۔ اسی لئے قربانی کے گوشت کی تقسیم، حج کی اجتماعی عبادت اور شہدائے کربلا کی مجالس، جلوس اور کانفرنسز، قربانی کی اجتماعی نوعیت کی دلیل ہیں۔
قربانی کرنے والے پر لازم ہے کہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرے: ایک حصہ خود کھائے؛ ایک حصہ عزیزوں یا دوستوں کو بطور ہدیہ دے اور تیسرا حصہ محتاجوں اور فقیروں میں بطور صدقہ تقسیم کرے۔ یہ تقسیم محض اخلاقی سفارش نہیں، بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک تیسرا حصہ یعنی فقیروں کو دینا واجب ہے، جبکہ پہلا اور دوسرا حصہ مستحب قرار دیا گیا ہے۔ اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قربانی کا عمل عبادت کے ساتھ ساتھ سماجی تعاون اور انسان دوستی کا عملی مظہر ہے۔قربانی صرف کسی شخص کی انفرادی نجات نہیں، بلکہ اجتماعی فلاح و خیر کا بھی ذریعہ ہونی چاہیے۔ پس قربانی کا ظاہری عمل اپنے ہمراہ تقویٰ اور اجتماعی ذمہ داریوں کو لئے ہوئے ہے۔
حضرت ہابیل ؑ اور حضرت ابراہیمؑ نے جو کچھ ان کے لیے عزیز ترین تھا، وہ خدا کی راہ میں قربان کر دیا، حج کے موقع پر حاجی جو کچھ محبوب رکھتا ہے (دنیاوی لباس، عادات، حتیٰ کہ خوشبو) احرام میں داخل ہو کر ان سب سے ستبردار ہو جاتا ہے اور امام حسینؑ نے اپنے وجود، اپنے اہل بیت، اپنے اصحاب حتیٰ کہ شیر خوار بچے تک کو محبوبِ حقیقی کے لیے نثار کر دیا۔ قربانی کے اس تسلسل میں صرف ایک ہی پیغام ہے کہ اے خدا! جو کچھ میرا ہے، وہ تیرا ہے اور جو تو چاہے، وہ میں تیری خاطر دینے کو تیار ہوں! عید قربان، حج اور روز عاشورہ کے واقعات ایک زنجیر کی مانند ایک دوسرے سے جڑے ہیں، انہیں ایک دوسرے سے جوڑ کر ہی ہم قربانی کے اصل مفہوم کو سمجھ سکتے ہیں۔ جیسے ابراہیمؑ لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے اپنے اسماعیلؑ کو قربان گاہ لے جا کر امتحان میں کامیاب ہوئے، ویسے ہی حسینؑ بھی لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے اپنے علی اصغر ؑ کو قربان گاہ میں لے گئے۔
حضرت ابراہیم کی تاریخ کو امام حسین ؑ نے تحریک میں تبدیل کر دیا۔ اگر حسین ؑ کربلا میں قربانی نہ دیتے تو دنیا دنبے کی قربانی کو تو یاد رکھتی، عید مناتی اور گوشت کھاتی، لیکن حضرت ابراہیم ؑو اسماعیلؑ اور حضرت ہاجرہؑ کے خلوص و استقامت کو بھول جاتی۔ حسینؑ خلیل اللہ بن کر اپنے ہاتھوں پر اسماعیلؑ ذبیح اللہ کی مثل علی اصغرؑ کو اٹھا کر مقتل میں آئے، تاکہ زینب ؑ سُنّت ہاجرہ کا احیا کرے۔
حضرت امام حسینؑ نے قربانی کو محض ایک عبادت سے بلند کرکے ظالموں کے خلاف اعلانِ حق اور ظلم کے مقابلے میں قیام میں تبدیل کر دیا۔ چنانچہ آج یہی قربانی فلسطین کی گلیوں، کشمیر کی وادیوں اور دنیا کے ہر مظلوم خطے میں تکرار ہو رہی ہے۔ جہاں مائیں اپنے "علی اصغر” دفن کر رہی ہیں اور بہنیں "زینب” بن کر استقامت کا چراغ اٹھائے ہوئے ہیں۔
لبیک اللھم لبیک کہنا صرف زبان سے نہیں، بلکہ اس وقت مکمل ہوتا ہے، جب انسان کا جسم، ہر رشتہ، ہر خواب اور ہر احساس فنا فی اللہ ہو جائے۔ کشمیر کے خاموش جنازے اور فلسطین کے خون میں لت پت وضو کرتی بچیاں، یہ سب اس قربانی کی موجودہ شکلیں ہیں، جو ابراہیمؑ اور حسین ؑ نے دی تھی۔ فلسطین اور کشمیر یہ مقامات جغرافیائی خطے نہیں، بلکہ شعور کی وہ سرحدیں ہیں، جہاں کا باشندہ اپنے وجود، شناخت، آزادی اور ایمان کے لیے روزانہ قربانی دے رہا ہے۔ یہ تمام قربانیاں دراصل ایک ہی فکری زنجیر کی کڑیاں ہیں اور یہ کڑیاں ابراہیمی جذبے سے شروع ہو کر حسینی عزم سے گزرتی ہوئی آج کے مظلوم مگر ہر باشعور انسان تک پہنچتی ہیں۔ یہاں قربانی کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ قربانی وہی معتبر ہے، جو شعوری بیداری، اخلاقی ذمہ داری اور نیّت کے اخلاص کے ساتھ دی جائے۔
بقول اقبالؒ
یہ حکمتِ ملکوتی، یہ علمِ لاہُوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سُرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار
شریکِ شورشِ پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خِرد نے کہہ بھی دیا "لا اِلہ” تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری
فروغِ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں