مشی اربعین حسینی اعلیٰ اخلاقی صفات کا مظہر

مولاناصابر حسین سراج نجفی
اربعین امام حسینؑ کے موقع پر عراق کے مختلف علاقوں خصوصاً نجفِ اشرف سے کربلا تک پیدل جانا، جسے "مشی اربعین” کہا جاتا ہے، اب ایک عالمی ایونٹ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ دنیا بھر سے زائرین عراق پہنچ کر اس اربعین واک میں شامل ہوتے ہیں۔ اس وقت ہم بھی اربعین واک 2025 میں شریک ہیں اور موصولہ خبروں کے مطابق اس سال کربلا پہنچنے والے زائرین کی تعداد ڈھائی کروڑ تک بتائی جا رہی ہے۔
تاہم ضروری ہے کہ ہم اس اربعین مشی کو محض ایک واک نہیں بلکہ ایک تربیتی و معنوی پہلو سے بھی دیکھیں۔ تربیتی زاویے سے یہ اربعین مشی انسانی اعلیٰ اخلاقی صفات کا عظیم مظہر نظر آتا ہے۔
ذیل میں چند نمایاں صفات کا ذکر کیا جا رہا ہے:
1۔ایمان و اخلاص
اربعین مشی اخلاص اور ایمان کا عظیم مظہر ہے۔ یہاں ہر شخص امامِ عالی مقامؑ اور ان کی تعلیمات پر کامل ایمان رکھتے ہوئے حاضر ہوتا ہے۔ زائرین کسی تعریف، شاباش یا داد و تحسین کے متمنی نہیں ہوتے۔ کوئی کچھ کہے یا نہ کہے، وہ اس راہ میں نکل پڑتے ہیں اور دل و جان سے خرچ بھی کرتے ہیں۔
2۔مساوات و برابری
مشی اربعین میں مساوات کا شاندار منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ امیر ہو یا غریب، عراقی ہو یا ایرانی، پاکستانی ہو یا ہندوستانی ہر ایک اسی راستے پر پیدل چلتا ہے۔ مواکب میں سب کا طعام و قیام یکساں ہوتا ہے، کسی کو کوئی خاص ترجیح نہیں دی جاتی۔ یہ مساوات کا عملی اور اعلیٰ نمونہ ہے۔
3۔اتحاد و یکجہتی
اس مشی میں شریک ہر فرد کا سارا علاقائی، لسانی، قبائلی اور ملکی تشخص مٹ کر ایک ہی پہچان رہ جاتی ہے وہ ہے "زائر امام حسینؑ”۔ اسی نسبت سے ہر جگہ سب کو پکارا جاتا ہے: یا زائر، "فضلوا یا زائر” (تشریف لائیں اے زائر)۔ ہر کوئی اسی نظر سے ایک دوسرے کو دیکھتا اور خدمت کرتا ہے۔
4۔ ایثار و قربانی
یہاں ایثار و قربانی کے بے شمار مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ عراقی مومنین اپنی جمع پونجی لے کر اس راہ میں آ جاتے ہیں، اپنی راحت و آرام کو چھوڑ کر زائرین کی خدمت کرتے ہیں۔ جہاں کسی کو ضرورت محسوس ہو، اپنی ضرورت چھوڑ کر اس کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔
5۔خدمتِ خلق
خدمتِ خلق کی جس قدر تاکید روایات میں ملتی ہے، اس کے عملی نمونے مشی اربعین میں واضح ہیں۔ کوئی زائرین کے مساج کے لیے موجود ہے، کوئی جوتے مرمت یا دھونے کے لیے تیار، اور کوئی دیگر ضروریات بلا معاوضہ فراہم کرتا ہے۔ خدمت کا جذبہ اس قدر غالب ہوتا ہے کہ اصل توجہ یہ نہیں ہوتی کہ کیا چیز پیش کی جا رہی ہے بلکہ یہ کہ کسی نہ کسی طرح خدمت ہو جائے۔
6۔ انفاق و مہمان نوازی
یہاں کے مومنین، خصوصاً عراقی عوام، انفاق اور مہمان نوازی میں بے مثال ہیں۔ وہ اپنے گھروں کے دروازے زائرین کے لیے کھول دیتے ہیں، ظاہراً اجنبی لیکن زائر حسین ع کے تشخص کے ساتھ ہر کسی کو مہمان بنا کر عزت و محبت سے بٹھاتے ہیں۔ مواکب میں ہر طرح کے انواع و اقسام کے کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی جاتی ہیں۔ خدام میں علماء سے لے کر قبائلی سردار، بچے، خواتین اور بزرگ سب شریک ہوتے ہیں۔
7۔ سخاوت و کرم
سخاوت کا مطلب صرف زیادہ مال خرچ کرنا نہیں بلکہ جو کچھ میسر ہو، اسے راہِ خدا میں پیش کرنا ہے۔ یہی جذبہ مشی اربعین میں نمایاں ہے۔ کوئی ٹشو پیپر کے دو ڈبے یا چند بوتل پانی لے کر کھڑا ہے تو کوئی روزانہ لاکھوں روپے خرچ کر رہا ہے۔ سب اپنی وسعت کے مطابق خدمت کر رہے ہیں۔
یہ صرف چند صفات کا ذکر ہے، ورنہ ہر اعلیٰ اخلاقی صفت کا کوئی نہ کوئی پہلو اس راہِ عشق میں نظر آتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مشی اربعین حسینی، انسانی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور صفات کا عظیم مظہر ہے۔
السلام علیک یا ابا عبد اللّٰه