سیرتسیرت امام حسن مجتبیٰؑ

صلح امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے اسباب و علل کا جامع مطالعہ

آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری کی تقاریر سے اقتباس
حضرت امام حسن علیہ السلام کا امیر شام کے ساتھ صلح کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جو اس وقت سے لے کر اب تک زیر بحث چلا آرہا ہے۔ امام علیہ السلام کے دور امامت میں بعض اشخاص نے ” صلح امام حسن علیہ السلام پر اعتراض کیا دیگر ائمہ معصومین علیھم ‌السلام کے ادوار میں بھی کچھ لوگ اسی طرح کے اعتراضات کرتے رہے اور یہ مسئلہ آج تک زیر بحث چلا آرہا ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی؟ اس قسم کے افراد سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے حاکم وقت کے ساتھ مصالحت کرلی تھی اور امام حسین علیہ السلام نے یذید کے ہاتھ پر بیعت قبول نہ کی۔ اور ابن زیاد کو صاف جواب دے دیا کہ مجھ جیسا معصوم یزید جیسے فاسق وفاجر کی بعیت نہیں کرسکتا۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام چونکہ امام وقت تھے اور ان کےزمانئہ امامت میں ان سے بھتر شخص اور کوئی نہیں تھا۔ یزید تو یزید وہ دنیا کے کسی بڑے شخص کی بھی بیعت نہیں کر سکتے تھے کیو نکہ وہ امام وقت تھے۔
اعتراض کرنے والے حضرات اگر حقیقت حال کا مطالعہ کر لیتے تو وہ صلح امام حسن علیہ السلام پر کبھی بھی اعتراض نہ کرتے کیونکہ امام حسن علیہ ‌السلام کی صلح اور امام حسین علیہ‌السلام کے قیام میں بہت بڑا فرق ہے۔ حالات اور ماحول کا بہت فرق تھا بعض لوگ کھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام چونکہ ایک صلح پسندتھے اور امام حسین علیہ السلام جنگجو تھے اس لئے ایک جگہ پر صلح ہوئی اور دوسری جگہ پر جنگ اور قتل و کشتار جیسی صورت حال پیدا ہوگئی حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ ان تمام اعتراضات کا ہم ایک ایک کرکے جواب دیں گے اور اس ثبوت کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے یہ دونوں شھزادے حق پر تھے انھوں نے جو جو بھی اقدام کیا وہ بھی حق پر تھا۔
اگر امام حسن علیہ السلام”امام حسین علیہ السلام کی جگہ پر ہوتے یا امام حسین علیہ السلام امام حسن علیہ ‌السلام کی جگہ پر ہوتے تو ایک جیسی صورت حال پیدا ہوتی۔صلح حسن علیہ السلام کے وقت حالات اور طرح کے تھے اور کربلا میں زمانہ اور حالات کا رخ کچھ اور تھا۔ امام حسن علیہ السلام کے دور امامت میں اسلام کی بقاء اس خاموشی میں مضمر تھی اور کربلا میں اسلام جھاد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔
بقول مولانا ظفر علی خان – اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
میں بھی چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ کے اردگرد بحث کروں عام طور پر جو لوگ صلح حسن علیہ السلام اور قیام حسین علیہ السلام کے بارے میں بحث تمحیص کرتے ہیں ان کی گفتگو کا محور بھی یھی ہوتا ہے لیکن کچھ تجزیہ نگار اپنی پٹری سے اتر جاتے ہیں۔ وہ کھنا کچھ چاہتے ہیں کھہ کچھ اور دیتے ہیں۔ دراصل اسلام میں جھاد کا مسئلہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے اگر ان دونوں مسئلوں کو دیکھا جائے تو ان دونوں ہی میں فلسفہ جھاد عملی طور پر نمایاں نظر آئے گا۔ اسی جھاد کو مد نظر رکھتے ہوئے امام حسن علیہ السلام نے خاموشی اختیار کر لی تھی اور اسی جھاد کی خاطر امام حسین علیہ السلام نے میدان جنگ میں آکر صرف اپنا نہیں بلکہ اسلام و قرآن کا دفاع کیا۔ ہماری بحث کا محور بھی یھی بات رہے گی کہ امام حسن علیہ السلام نے حاکم وقت کے ساتھ صلح کی توکیوں کی اور امام حسین علیہ السلام میدان جھاد میں یزیدی فوجوں سے نبرد آزما ہوئے تو کیوں ہوئے؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم اور صلح
جب ہم غور وخوض کرتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ صلح صرف امام حسن علیہ السلام کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ پیغمبر اسلام کے دور رسالت سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم بعثت کے ابتدائی سالوں سے لے کر آخر مدت تک مکہ میں رہے لیکن جب آپ دوسرے سال میں مدینہ تشریف لائے تو آپ کا رویہ مشرکین کے ساتھ انتھائی نرم اور ملائم تھا۔ حالانکہ مشرکین نے حضور پاک کو اور دیگر مسلمانوں کو بہت زیادہ اذیتیں دی تھیں اور ان کا جینا حرام کردیا تھا۔ آخر مسلمانوں نے تنگ آکر حضور سے جنگ کی اجازت چاہی اور عرض کی سرکار آپ ہمیں صرف ایک مرتبہ جنگ کی اجازت مرحمت فرما دیں تو ہم ان کافروں، مشرکوں کو ایسا یاد گار سبق سکھائیں کہ یہ آئندہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے آپ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ دی اور ان کو امن وآشتی اور صبر وتحمل کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین کی۔
آپ نے فرمایا لڑنے جھگڑنے سے صورت حال مزید خراب ہوگی اس لئے بھتر یہ ہے کہ خاموش رہا جائے۔ اگر کسی کو اس حالت میں نہیں رھنا ہے تو وہ سرزمین حجاز سے حبشہ کی طرف ہجرت کرسکتا ہے۔ لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔
( اذن للذین یقاتلون بانهم ظلموا وان الله علی نصرهم لقدیر ) (۱۲)
"یعنی جن (مسلمانوں) سے (کفار) لڑا کرتے تھے چونکہ وہ (بہت) ستائے گئے اس وجہ سے انھیں بھی (جھادکی) اجازت دے دی گئی اور خدا تو ان لوگوں کی مدد پر یقیناً قادر (و توانا) ہے” اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اسلام جنگ کا دین ہے یا صلح کا؟ اگر صلح کا دین ہے تو ہمیشہ اسی پالیسی پر عمل کرنا چاہی ے۔ دین کا کام تو لوگوں کو نیک کام کی دعوت دینا ہے ۔ گویا دین ایک پیغام ہے پھنچ گیا تو ٹھیک نہ پھنچا تو کوئی بات نہیں ۔
اگر اسلام جنگ کا دین ہوتا تو پھر رسول خدا نے مکہ میں تیرہ ۱۳ سال تک جنگ کی اجازت کیوں نہیں دی یہاں تک کہ دفاع کی اجازت بھی نہ دی۔ دراصل بات یہ ہے کہ اسلام وقت اقر حالات کو دیکھتا ہے اگر صلح کا مقام ہو تو حکم دیتا ہے کہ جنگ نہ کرو اور جنگ اور دفاع کی نوبت آجائے تو پھر سکوت کو جائز قرار نہیں دیتا ۔ ہم رسول خدا کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم مکہ میں کچھ مقامات پر کفار و مشرکین کے ساتھ جنگیں کررہے ہیں اور بعض مقامات پر صلح کی قراردادوں پر دستخط کررہے ہیں جیسا کہ حدیبیہ کے مقام پر آپ مشرکین مکہ سے صلح کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ مشرک آپ کے سخت ترین دشمن تھے ۔ یہاں پر صحابہ کرام نے بھی صلح پر دستخط کیے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ مدینہ میں یھودیوں کےساتھ یہ عھد و پیمان کر رہے ہیں کہ ان کے ذاتی امور میں ان کو آزاد چھوڑا جائے گا۔ یہ فرمایئے اس کے متعلق آپ کیا کھیں گے؟
حضرت علی علیہ ‌السلام اور صلح
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین  علیہ السلام ایک جگہ پر لڑتے ہیں اور دوسری جگہ پر نہیں لڑتے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کی رحلت کے بعد خلافت کا مسئلہ پیدا ہوجانا اور خلاف دوسرے لے جاتے ہیں علی علیہ السلام اس مقام پر جنگ نہیں کرتے، تلوار اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے اور فرماتے ہیں کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں نہ لڑوں اور نہ ہی مجھے لڑائی میں حصہ لینا چاہی ے۔ دوسروں کی طرف سے جوں جوں سختی پریشانی بڑھتی جاتی ہے آپ اس قدر نرم ہوتے جارہے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ حضرت زھراء علیھا ‌السلام کو پوچھنا پڑتی ہے کہ
"ما لک یاابن ابی طالب اشتملت شملة الجنین و قعدت حجرة الطنین” (۱۳) اے ابو طالب کے بیٹے آپ کی حالت جنین کی طرح کیوں ہوگئی ہے کہ جو شکم مادر میں ہاتھ اور پاؤں کو سمیٹ لیتا ہے آپ اس شخص کی مانند ایک کمرہ میں گوشہ نشین ہو کر رہ گئے ہیں کہ جو لوگوں کے شرم کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکلتا؟ آپ وھی تو ہیں کہ آپ کے سامنے میدان جنگ میں بڑے بڑے پھلوانوں کے پتے پانی ہوجایا کرتے اور آپ کو دیکھ کر بڑے بڑے جری بھادر جرنیل بھاگ جاتے تھے۔ اب آپ کی حالت یہ ہے کہ یہ ٹڈی دل لوگ آپ پر غالب آگئے ہیں آخر کیوں”؟
حضرت فرماتے ہیں اے میرے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کی پیاری بیٹی!اس وقت میری ذمہ داری اس طرح کی تھی اور اب میرا فریضہ یہ ہے کہ میں چپ رہوں، خاموش رہوں، صبر وتحمل سے کام لوں۔ یہاں تک کہ پچیس سال اسی حالت میں گزرجاتے ہیں۔ ان پچیس ( ۲۵) سالوں کی مدت میں علی علیہ ‌السلام خاموش رہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ عثمان غنی قتل کردیئے جاتے ہیں۔ حالات بدل جاتے ہیں، لوگوں کا بہت بڑا ہجوم آپ کے در عصمت پر آتا ہے ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو علی علیہ السلام کو قتل عثمان میں ملوث کرنا چاہتے ہیں کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو کھتے ہیں مولا آپ مسند خلافت پر تشریف لے آیئے کچھ ایسے بھی ہیں جو آپ سے تقاضا کرتے ہیں کہ یا علیعليه‌السلام قاتلین عثمان کو پکڑ کر قرار واقعی سزادی جائے آخر وھی وقت آگیا جس کی نشاندھی آپ نے نھج البلاغہ میں کی ہے۔ آپ نے عثمان سے کھا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ کوئی شخص آپ کو قتل کرکے مسلمانوں کے درمیان عجیب صورت حال پیدا ہوگئی ایک طرف عثمان کے مخالفوں کا گروہ تھا دوسری طرف عثمان تھے”لیکن آپ نے ہمیشہ عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کیا۔
قارئین کرام ! آیتہ اللہ شھید مطھری (رح) اور علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی عبارتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اس لئے ہم مفتی صاحب قبلہ کی عبارت پیش کرتے ہیں وہ نھج البلاغہ کے صفحہ نمبر ۱۱۴ پر رقمطراز ہیں کہ جب حضرت عمر ابو لولوکے ہاتھ وں سے زخمی ہوئے اور دیکھا کہ اس کاری زخم سے جانبر ہونا مشکل ہے تو آپ نے انتخاب خلیفہ کیلئےایک مجلس شوری تشکیل دی جس میں علی ابن ابی طالب، عثمان ابن عفان ، عبدالرحمٰن ابن عوف، زبیر ابن عوام، سعد ابن ابی وقاص اور طلحہ ابن عبیداللہ کو نامزد کیا اور ان پر یہ پابندی عائد کردی کہ وہ انکے مرنےکے بعد تین دن کے اندر اندر اپنے میں سے ایک کو خلافت کے لئے منتخب کر لیں اور یہ تینوں دن امامت کے فرائض انجام دیں۔ ان ھدایت کے بعد ارکان شوری میں سے کچھ لوگوں نے ان سے کھا کہ آپ ہمارے متعلق جو خیالات رکھتے ہوں ان کا اظہار فرماتے جائیں تاکہ انکی روشنی میں قدم اٹھایا جائے۔ اس پر آپ نے فرداً فرداً ہر ایک کے متعلق اپنی زریں رائے کا اظہار فرمایا۔ چنانچہ سعد کے متعلق کھا کہ وہ درشت خو اور تند مزاج ہیں اور عبدالرحمن اس امت کے فرعون ہیں اور زبیر خوش ہوں تو مومن اور غصہ میں ہوں تو کافر اور طلحہ غرور و نخوت کا پتلا ہے اگر انھیں خلیفہ بنایا گیا تو خلافت کی انگوٹھی اپنی بیوی کے ہاتھ میں پھنا دیں گے اور عثمان کو اپنے قوم وقبیلہ کے علاوہ کوئی دوسرا نظر نہیں آتا رہے علی علیہ السلام تو وہ خلافت پر ریجھے ہوئے ہیں۔
اگر چہ میں جانتا ہوں کہ ایک وھی ایسے ہیں جو خلافت کو صحیح راہ پر چلائیں گے مگر اس کے اعتراف کے باوجود آپ نے مجلس شوری کی تشکیل ضروری سمجھی اور اس کے انتخاب ارکان اور طریق کار میں وہ تمام صورتیں پیدا کردیں کہ جس سے خلافت کا رخ ادھر ہی بڑھے جدھر آپ موڑنا چاہتے تھے۔ چنانچہ تھوڑی بہت سمجھ بوجھ سے کام لینے والا بآسانی اس نتیجے پر پھنچ سکتا ہے کہ اس میں عثمان کی کامیابی کے تمام اسباب فراہم تھے اس کے ارکان کو دیکھئے تو ان میں ایک عثمان کے بھنوئی عبدالرحمٰن بن عوف ہیں اور دوسرے سعد بن وقاص ہیں جو امیر المومنین علیہ ‌السلام سے کینہ وعناد رکھنے کے باوجود عبدالرحمٰن کے عزیز و ہم قبیلہ بھی ہیں ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی عثمان کے خلاف تصور نہیں کیا جاسکتا، تیسرے طلحہ بن عبید اللہ تھے طبری وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ طلحہ اس موقعہ پر مدینہ میں موجود نہ تھے لیکن ان کی عدم موجودگی عثمان کی کامیابی میں سدراہ نہ تھی بلکہ وہ موجود بھی ہوتے، جیسا کہ شوری کے موقعہ پر پھنچ گئے تھے اور انھیں امیر المومنین علیہ ‌السلام کا ہمنوا بھی سمجھ لیا جائے تب بھی عثمان کی کامیابی میں کوئی شبہ نہ تھا کیونکہ حضرت عمر کے ذھن رسانے طریقہ کار یہ تجویز کیا تھا "کہ اگر دو ایک پر اور دو ایک پر رضامند ہوں تو اس صورت میں عبداللہ بن عمر کو ثالث بناؤ جس فریق کے متعلق وہ حکم لگائے وہ فریق اپنے میں سے خلیفہ کا انتخاب کرے اور اگر وہ عبداللہ ابن عمر کے فیصلے پر رضا مند نہ ہوں تو تم اس فریق کا ساتھ دو جس میں عبدالرحمٰن بن عوف ہو اور دوسرے لوگ اگر اس سے اتفاق نہ کریں تو انھیں اس متفقہ فیصلے کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے قتل کردو ۔(۱۴)
اس مقام پر عبداللہ ابن عمر کے فیصلہ پر رضامندی کے کیا معنی جب کہ انھیں یہ ھدایت کر دی جاتی ہے کہ وہ اسی گروہ کا ساتھ دیں جس میں عبدالرحمٰن ہوں۔ چنانچہ عبداللہ کو حکم دیا کہ اے عبداللہ اگر قوم میں اختلاف ہو تو تم اکثریت کا ساتھ دینا اور اگر تین ایک طرف ہوں اور تین ایک طرف تو تم اس فریق کا ساتھ دینا جس میں عبدالرحمٰن ہوں۔ اس فھمائش سے اکثریت کی ہمنوائی سے بھی یھی مراد ہے کہ عبدالرحمٰن کا ساتھ دیا جائے کیونکہ دوسری طرف اکثریت ہوھی کیونکر سکتی تھی جب کہ ابو طلحہ انصاری کی زیر قیادت پچاس خونخوار تلواروں کو حزب مخالف کے سروں پر مسلط کر کے عبدالرحمٰن کے اشارہ چشم وآبرو پر جھکنے کیلئے مجبور کردیا گیا تھا۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ ‌السلام کی نظروں نے اس وقت بھانپ لیا تھا کہ خلافت عثمان کی ہوگی جیسا کہ آپ کے اس کلام سے ظاہر ہے جو ابن عباس سے مخاطب ہو کر فرمایا خلافت کا رخ ہم سے موڑ دیا گیا ہے۔ انھوں نے کھا کہ یہ کیسے معلوم ہوا فرمایا کہ میرے ساتھ عثمان کو بھی لگا دیا ہے اور یہ کھا ہے کہ اکثریت کا ساتھ دو اور اگر دو ایک پر اور دو ایک پر رضامند ہوں تو تم ان لوگوں کا ساتھ دو جن میں عبدالرحمٰن بن عوف ہو۔ چنانچہ سعد تو اپنے چچیرے بھائی عبدالرحمٰن کا ساتھ دے گا اور عبدالرحمٰن تو عثمان کا بھنوئی ہوتا ہی ہے۔
بھر حال حضرت عمر کی رحلت کے بعد یہ اجتماع ہوا اور دروازہ پر ابو طلحہ انصاری پچاس آدمیوں کے ساتھ شمشیر بکف آکھڑا ہوا۔ طلحہ نے کارروائی کی ابتداء کی اور سب کو گواہ بنا کر کھا کہ میں اپنا حق رائے دھندگی عثمان کو دیتا ہوں۔ اس پر زبیر کی رگ حمیت پھڑکی (کیونکہ ان کی والدہ حضرت کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب تھیں) اور انھوں نے اپنا حق رائے دھندگی عبد الرحمٰن کے حوالے کردیا۔ اب مجلس شوری کے ارکان صرف تین رہ گئے جن میں عبدالرحمٰن نے کھا کہ میں اس شرط پر اپنے حق سے دستبردار ہونے کیلئے تیار ہوں کہ آپ دونوں (علی ابن ابی طالب علی علیہالسلام اور عثمان ابن عفان) اپنے میں سے ایک کو منتخب کر لینے کا حق مجھے دینے دیں یا آپ میں سے کوئی دستبردار ہو کر یہ حق لے لے۔
یہ ایک ایسا جال تھا جس میں امیر المومنین علیہ‌السلام کو ہر طرف سے جکڑ لیا گیا تھا کہ یاتو اپنے حق میں دستبردار ہوجائیں یا عبدالرحمٰن کو اپنی من مانی کاروائی کرنے دیں۔ پھلی صورت آپ کیلئے ممکن ہی نہ تھی کہ حق سے دستبردار ہو کر عثمان یا عبد الرحمٰن کو منتخب کریں۔ اس لئے آپ اپنے حق پر جمے رہے اور عبدالرحمٰن نے اپنے کو اس سے یہ اختیار سنبھال لیا اور امیر المومنین علیہ ‌السلام سے مخاطب ہو کر کھا، میں اس شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں کہ آپ کتاب خدا، سنت رسول اور ابو بکر کی سیرت پر چلیں” آپ نے کھا نہیں میں اللہ کی کتاب، رسول کی سنت اور اپنے مسلک پر چلوں گا۔ تین مرتبہ دریافت کرنے کے بعد جب یھی جواب ملا تو عثمان سے مخاطب ہو کر کھا کیا آپ کو یہ شرائط منظور ہیں۔ ان کے لئے انکار کی کوئی وجہ نہ تھی انھوں نے ان شرائط کو مان لیا اور ان کی بیعت ہوگئی۔ بھرصورت امیر المومنین علیہ ‌السلام نے فتنہ و فساد کو روکنے اور حجت تمام کرنے کیلئے اس میں شرکت گوارا فرمائی تاکہ ان کے ذھنوں پر قفل پڑجائیں اور یہ نہ کھتے پھریں کہ ہم تو انھی کےحق میں رائے دیتے مگر خود انھوں نے شوری سے کنارہ کشی کرلی اور ہمیں موقع نہ دیا کہ ہم آپ کو منتخب کرتے ۔)
آیۃ اللہ شھید مطھری تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہاں پر ایسی سیاست اختیار کیوں کی؟ تو آپ نے فرمایا :
"والله لاسلمن ما سلمت امور المسلمین ولم یکن فیها جورالاعلی خاصة” (۱۵)
"خدا کی قسم جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم ونسق برقرار رہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم وجور کا نشانہ بنتی رہے گی میں خاموشی اختیار کرتا رہوں گا۔”
عثمان کی رحلت کے بعد لوگ آپ کے دردولت پر آکر بیعت کرتے ہیں۔ یہ معاویہ کا دور ہے۔ ماحول بدل جاتا ہے یہاں پر حضرت علی علیہ السلام ناکثین، قاسطین، مارقین، یعنی اصحاب جمل، اصحاب صفین، اصحاب نھروان سے جنگ کرتے ہیں۔ اور یہ جنگ طول پکڑ جاتی ہے۔ چنانچہ صفین کے بعد عمر وعاص اور معاویہ کی عیارانہ ومکارانہ پالیسی کام دکھا جاتی ہے۔ خوارج قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کرکے آواز بلند کرتے ہیں کہ اس جنگ میں قرآن مجید کے فیصلہ کے مطابق عمل کرنا چاہی ے۔ قرآن کو نوک نیزہ پر دیکھ کر کچھ لوگ کھتے ہیں کہ جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے حق پر ہیں۔ امیر المومنین علیہ ‌السلام کے لشکر میں کھلبلی مچ گئی۔ اب مولا علی علیہ‌السلام کو مصلحت کے مطابق خاموشی اختیار کرنا پڑی۔
آپ نے مجبور ہو کر حکم کو تسلیم کیا۔ آپ نے فرمایا حکم قرآن وسنت کے مطابق فیصلہ کریں۔ دراصل یہ ایک طرح کی منافقانہ چال تھی یہ لوگ مولا علی علیہ السلام کو وقتی طور پر خاموش کرنا چاہتے تھے۔ عمر وعاص اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا اس نے ابو موسی کو بھی دھوکہ دیا لیکن حقیقت بعد میں کھل کر سامنے آگئی کہ ان دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ کیا ان میں سے ایک شخص کھتا ہے کہ دو ھزار افراد پر مشتمل لشکر میری وجہ سے پیچھے ھٹا ہے کہ نوبت گالی گلوچ تک پھنچ گئی۔ دراصل یہ خود ساختہ حکمیت کا اعجاز تھا۔ اب اعتراض کرنے والے کھتے ہیں کہ اگر چہ مولانے خوارج کے ہاتھ وں مجبور ہو کر جنگ بندی کا اعلان کر دیا زیادہ سے زیادہ یھی ہوجاتا کہ آپ قتل ہو جاتے یا آپ کے بیٹوں میں سے ایک شھید ہو جاتا وہ یہ بھی کھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم ے جنگ میں پہل نہیں کی۔ زیادہ سے زیادہ وہ شھید ہوجاتے۔ آپ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کیوں کی؟ جس طرح کربلا میں امام حسین علیہ ‌السلام شھید ہوگئے” رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم بھی شھید ہوجاتے؟ پھر امیر المومنین نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد خاموشی اختیار کیوں کی؟زیادہ سے زیادہ آپ شھید ہو جاتے؟ آپ نے حکمیت کو کیوں تسلیم کیا؟ آپ کو چاہیے تھا کہ جان کی پروا کیے بغیر جنگ جاری رکھتے؟ مسئلہ امام حسن علیہ السلام کی صلح اور امام حسین علیہ ‌السلام کی جنگ پر ختم نہیں ہوتا بلکہ بات باقی آئمہ طاہر ین علیھم‌السلام تک بھی پہنچتی ہے۔ میں ان تمام سوالات، ابھامات کا ایک ایک جواب دوں گا۔ سب سے پہلے میں آپ کیلئے کتاب جھاد میں فقہ کے ایک باب کو بیان کرتا ہوں تاکہ آپ کو میری گفتگو کے دیگر نکات بخوبی سمجھ میں آسکیں ۔
فقہ جعفریہ میں جھاد کا تصور
بلا شبہ اسلام جھاد کا دین ہے اور یہ چند مقامات پر واجب ہے۔ ان میں سے ایک ابتدائی جھاد ہے یعنی یہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب مد مقابل غیر مسلمان ہوں۔ خاص طور پر اگر وہ مشرک ہوں۔ اگر کوئی مشرک مسلمانوں پر حملہ کرتا ہے تو اس کو منہ توڑ جواب دیا جائے ایسا جھاد بالغ، عاقل اور آزاد شخص پر واجب ہے ۔ اور مجاہد مرد ہونا ضروری ہے۔ عورتوں کیلئے جھاد میں حصہ لینا ضروری نہیں ہے ۔ اس قسم کے جھاد میں امام علیہ السلام یا ان کے نائب سے اجازت لینا ضروری ہے ۔ شیعہ فقہ کے نزدیک اس وقت ایک حاکم شرعی اپنی طرف سے جھاد ابتدائی کو اپنی طرف سے شروع نہیں کرسکتا۔ دوسرا مقام یہ ہے کہ جب مسلمانوں کو کافروں، مشرکوں کی طرف سے خطرہ یا وہ جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف دست درازی کرے یا ایک ملک کسی دوسرے اسلامی ملک کی زمین پر قبضہ کرنا چاہے یا قبضہ کر چکا ہو یا اس قسم کا کوئی ناجائز اقدام کرے تو اس صورت میں عورت مرد، چھوٹے بڑے، آزاد غلام پر جھاد میں شرکت کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اس جھاد میں امام علیہ السلام یا ان کے نائب سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے ۔ یہ تمام شیعہ فقھاء کا متفقہ طور پر فتوی ہے اس سلسلے میں شھید ثانی علیہ الرحمہ کی فقھی رائے پیش خدمت ہے جناب محقق کی فقہ پر ایک کتاب ہے ۔ اس کا نام ہے شرائع الاسلام، اس کتاب کو شیعہ علما ء میں بڑی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جناب شھید ثانی نے” مسالک الافھام ” کے نام سے اس کی شرح کی ہے، بہت ہی عمدہ شرح ہے۔ جناب شھید ثانی کا شمار شیعوں کے صف اول کے فقھاء میں سے ہوتا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی کافر یا مشرک یا کوئی بے دین شخص مسلمانوں پر حملہ کرتا ہے تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ سب مل کر جھاد میں بھر پور طریقے کے ساتھ حصہ لیں ۔
آپ اسرائیل کو لے لیجئے اس نے مسلمانوں کی سر زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور آئے روز فلسطینی مسلمانوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتا رھتا ہے۔ تو یہاں پر دنیا بھر کے تمام مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل کی ظالمانہ کاروائیوں کے خلاف عملی طور پر جھاد میں شریک ہوں” یہاں پر امام علیہ السلام کی اجازت کی شرط نہیں ہے ۔ اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک جو غیر اسلامی ملک کی حمایت کرسکتا ہے کرے۔ یہ سب کچھ جھاد کے زمرے میں آجاتا ہے۔ جناب شھید ثانی تحریر فرماتے ہیں کہ:
"ولا یختص بمن قصد ومن المسلمین بل یجب علی من علم بالحال النهوض اذا لم یعلم قدرة المقصودین علی المقاومة” (۱۶)
” یعنی یہ جھاد (ان لوگوں کے ساتھ خاص نہیں ہے کہ جن کی سر زمین، مال، جان اور ناموس غیر مسلموں کے قبضہ میں ہے بلکہ یہ ہر اس مسلمان پر واجب ہے کہ جس کو دوسرے مسلمان کی اس مشکل کے بارے میں علم ہو تو اس پر جھاد واجب ہے مگر شرط یہ ہے، اگر وہ لوگ خود طاقت ورہوں اور خود دفاع کرسکتے ہوں تو پھر یہ وجوب ساقط ہو جاتا ہے ۔ اگر اس کو یہ علم ہو کہ جن مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے ان کو دوسرے مسلمانوں کی مدد کی ضرورت ہے تو پھر ہر مسلمان پر واجب ولازم ہے کہ جس طرح بھی ہوسکے وہ اپنے مظلوم بھائیوں کی ہر طرح سے بھر پور مدد کرے ۔”
تیسری قسم جھاد خصوصی کی ہے اس کے احکام اور عمومی جھاد کے احکام میں فرق ہے۔ عمومی جھاد کے مسائل خاص نوعیت کے ہیں۔ اس جھاد میں اگر کوئی قتل ہو جائے تو وہ شھید ہے اور غسل نہیں ہے۔ جو شخص رسمی جھاد میں مارا جائے تو اس کو اسی لباس کے ساتھ غسل دیئے بغیر اس خون کے ساتھ دفن کیا جائے ؂
خون، شھیدان راز آب اولی تراست
ایں گنہ از صد ثواب اولی تر است
” شھید کا خون پاک ترین، خالص ترین پانی سے بھتر ہے یہ گناہ ھزار ثواب سے بھتر ہے”۔
اصطلاح میں تیسری قسم کو جھاد کھتے ہیں لیکن اس جھاد کے احکام جھاد کی مانند نہیں ہیں۔ اس کا ثواب جھاد کے اجر کی مانند ہے۔ اس میں حصہ لینے والا شھید ہے، وہ ایسے ہے کہ اگر ایک شخص سرزمین کفر میں ہو اگر وہاں کافروں کی لڑائی دوسرے کفار کے ساتھ ہو جائے مثلاًوہ فرانس میں ہے اور فرانس اور جرمنی میں جنگ چھڑ جاتی ہے، اب ایک مسلمان پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ اس پر لازم ہے کہ وہ خود کو ہر لحاظ سے بچانے کی کوشش کرے، اس کو وہاں کے لوگوں کی خاطر نہیں لڑنا چایئے، اگر وہ جانتا ہے کہ اگر وہ دوسرے ملک کی فوجوں کے ساتھ لڑائی میں شریک نہیں ہوتا تو اس کی جان کو خطرہ ہے اگر اسی خطرہ کے پیش نظر وہ میدان جنگ میں آکر لڑتا ہے تو شھید ہے۔ آپ اسے مجاہد کھہ سکتے ہیں، اگر چہ وہ شھیدوں جیسا حکم نہیں رکھتا۔ اس کو غسل دیا جائے گا کفن دینا پڑے گا۔
اب ایک اور صورت پیدا ہو جاتی ہے اس کے بارے میں فقھاء نے رائے دی ہے کہ اگر ایک شخص پر اس کا ایک دشمن حملہ کرتا ہے اس کی جان یا عزت کو خطرہ لاحق ہے اور اس کا یہ دشمن مسلمان ہے مثال کے طور پر ایک گھر میں سویا ہوا ہے کہ ایک چور یا ڈاکو گھس آتا ہے۔ (حاجی کلباسی نے کہا تھا کہ اگر نماز تھجد بھی پڑھتا ہو چور چور ہے، ڈاکو ڈاکو ہے اس کے نماز روزے اور مسلمان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے) تو یہاں پر اگر اس کو جان مال اور عزت کا خطرہ ہے، تو اس کو یہاں پر دفاع کرنا چاہی ے، حتی الامکان چوروں، ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنا چاہی ے وہ یہ نہ سوچے کہ اگر وہ مجھ پر حملہ کرے گا تو میں اس کا جواب دوں گا۔ بلکہ اس پر لازم ہے کہ ڈاکو کو جان سے مار دے۔ اس حالت میں اگر وہ مارا جاتا ہے تو وہ شھید کے حق میں ہے۔ یہ ایک لمبی بحث ہے فقہ کی کتب میں آپ اس کی تفصیل ملاحظ کرسکتے ہیں۔
سر کشوں سے جنگ
جھاد کے میں نے تین مقامات ذکر کیے ہیں، دو مقامات اور بھی ہیں، ایک کو سرکشوں کے ساتھ جنگ کرنے کو کھتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے ایک گروہ دوسرے گروہ کو قتل کرنا چاہتا ہے تو یہاں پر دوسرے تمام مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سب سے پھلے تو ان کے درمیان صلح کرائیں۔ ان کو ہر حال میں لڑنے جھگڑنے سے ھٹائیں اگر ایک گروہ ان مسلمانوں کی نہ مانے اور مسلسل جنگ پر آمادگی کا اظہار کرے تو ان پر لازم ہے کہ وہ مظلوم گروہ کی حمایت کریں اور سرکش گروہ کے ساتھ مقابلہ کریں چنانچہ ارشاد الہٰی ہے۔
” وان طائفتان من المومنین اقتتلو فاصلحوا بینهما فان بغت احدیهما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفتئی الی امر الله” (۱۷)
” اور اگر مومنین میں سے دو فرقے آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں میں صلح کرادو پھر اگر ان میں سے ایک (فریق) دوسرے پر زیادتی کرے تو جو فرقہ زیادتی کرے تم (بھی) اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع کرے”۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص ایک عادل امام کے خلاف بغاوت کرتا ہے چونکہ وہ امام علی السلام ہے اس لئے حق پر ہے، اور امام علی السلام کے خلاف آنے والا جو بھی ہوگا باطل پر ہوگا۔ اب دوسرے لوگوں پر واجب ہے کہ وہ امام کا ساتھ دیں اور دشمن امام علی السلام کے خلاف جنگ کریں۔ جھاد کا ایک اور مرحلہ یا مقام بھی ہے اگر چہ فقھا کا اس میں کچھ اختلاف ہے وہ ہے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کیلئے خونی انقلاب برپا کرنا۔
صلح اور فقہ جعفریہ
ایک مسئلہ جو کتاب جھاد میں سامنے آیا ہے وہ مسئلہ صلح ہے۔ فقھاء کی اصطلاح میں اس کو مھدیا مھادنہ کھا جاتا ہے مھادنہ یعنی مصالحت، ھدنہ یعنی صلح، صلح کا معنی یہ ہے کہ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ۔ آج کل کی اصطلاح میں ایک دوسرے کے ساتھ صلح وصفائی کے ساتھ رہنے کے عھد و پیمان کو صلح نامہ کھا جاتا ہے۔ جناب محقق شرائع الاسلام میں فرماتے ہیں کہ
"المهادنة وهی المعاقدة علی ترک الحرب مدة معینة”
” یعنی جنگ نہ کرنے اور امن وآشتی کے ساتھ رہنے پر عھد وپیمان باندھنے کو صلح کھا جاتا ہے لیکن اس کیلئے ایک مدت معین کی جائے” فقہ کی کتب میں لکھا ہے کہ اگر ایک شخص مشرک ہے کہ جس سے کرنا جائز ہے اس کے ساتھ بھی صلح کی جاسکتی ہے لیکن عھد و پیمان کی ایک مدت مقرر کی جائے۔ اس کے ساتھ چھ مہینوں، ایک سال، دس سال یا اس سے زیادہ کی مدت معین کرے۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر دس سال کا معاہدہ کیا تھا:
"وهی جائزة اذا تضمنت مصلحة للمسلمین”
جناب محقق کھتے ہیں اگر اس میں مسلمانوں کو فائدہ پہچنے تو صلح کرنا جائز ہے حرام نہیں ہے۔”
لیکن میں نے عرض کیا ہے کہ اگر ایسا موقعہ ہو کہ جھاں جنگ کرنا ضروری ہے جیسا کہ مسلمانوں کی سر زمین پر کفار نے حملہ کیا ہے یا مسلمانوں کی سر زمین پر قبضہ کردیا جاتا ہے، تو دوسرے مسلمانوں پر واجب ہے کہ ہر حالت میں اس عظیم سرزمین کو دشمن کے قبضہ سے چھڑانا چاہی ے۔ اب اگر مصلحت کے تحت وھی دشمن صلح نامہ لے آتا ہے تو آیا اس پر دستخط کرنا جائز ہے یا نھیں؟جناب محقق کا کہنا ہے کہ اگر مصلحت بھی ہو تو ایک مدت معین کرنی چاہی ے۔ اس کا مقصد یہ کہ یہ صلح ایک عارضی مدت کے لئے ہو رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمان کس صلح نامہ کو قبول کریں؟ جناب محقق کھتے ہیں:
"اما لقلتهم عن المقاومة”
"یعنی جب مسلمانوں میں جنگ کرنے کی طاقت نہ ہو تو انھیں چاہی ے کہ کچھ مدت کیلئے صبر کریں اور خود کو مسلح اور طاقتور بنائیں” اور
او لما یحصل به الا استظهار”
"یا وہ جنگ بندی ا س لئے کر رہے ہیں کہ وہ جنگ کی مزید تیاری کرلیں”۔
او لرجاء الدخول فی الاسلام مع التربص”
"یا صلح اس امید کے ساتھ کی جا رہی ہے کہ حزب مخالف اسلام قبول کرنا چاہتا ہو یہ اس وقت ہوگا جب مخالف کافر ہوں۔”
یعنی ہم ایک مدت کیلئے دشمن سے صلح کر رہے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران ہم روحانی و فکری لحاظ سے ان پر غلبہ حاصل کرلیں گے جیسا کہ صلح حدیبیہ میں تھا۔ اس کے بارے میں چند مطالب آگے چل کر بیان کروں گا۔
"ومتی ارتفعت ذلک وکان فی المسلمین قوة علی الخصم لم یجز”
جس وقت یہ شرائط ختم ہو جائیں تو صلح بر قرار رکھنا جائز نہیں ہے۔”
اب تھوڑی سی گفتگو کے بعد یہ بات واضح وروشن ہوگئی کہ اسلامی فقہ کے نزدیک صلح چند خاص شرائط کے تحت جائز ہے۔ اب یہ صلح خواہ ایک قرار داد کی صورت میں ہو یا فقط زبانی طور پر جنگ بندی کا معاہدہ کیا جائے۔ یہاں پر دو باتیں قابل ذکر ہیں ایک وقت میں ہم کھتے ہیں کہ صلح کا معنی یہ ہے کہ ایک قرار داد باندھی جائے یہ اس جگہ پر ہوگا جب دو مخالف گروہ صلح پر آمادگی کا اظہار کریں جیسا کہ ہمارے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے کھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے امام حسن علیہ السلام نے کھا ایک موقعہ پر ہم کھتے ہیں کہ صلح یعنی جنگ نہ کرنا اور امن وآشتی کی راہ کو تلاش کرنا۔ کھا گیا ہے کہ ایک وقت ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں جنگ کی طاقت نہیں ہے تو اس وقت جنگ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لیے ہم جنگ نہ کریں۔ صدر اسلام میں تو اسی طرح صورت حال پیش آئی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی، اگر وہ اس وقت لڑتے تو اپنا ہی نقصان کرتے۔ ممکن ہے جنگ بندی اس لئے کی گئی ہو کہ اس وقفے کے دوران خود کو مضبوط اور طاقتور کرنا چاہتے ہوں یا فکری لحاظ سے ان کی سوچ بدل کر ان کو مومن ومسلمان بنانا مقصود ہو۔ اب ہم آپ کے لئے صلح حدیبیہ کے بارے میں کچھ مطالب پیش کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ امام حسن علیہ السلام کا صلح کرنے کا انداز بالکل اپنے جد امجد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم جیسا تھا۔ آپ نے حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے یا ایک خاص وقت کے انتظار یا تیاری میں ھتھیار نہ اٹھائے بلکہ انتھائی حکمت ودانشمندی کے ساتھ دشمن کے ساتھ صلح کر لی۔
صلح حدیبیہ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے جب اپنے دور رسالت میں صلح کی تو آپ کے بعض صحابہ کرام نے نہ فقط تعجب کیا بلکہ سخت پریشان بھی ہوئے۔ لیکن ایک یا دو سال گزرنے کے بعد ان پر اس صلح کے ثمرات ونتائج ظاہر ہوئے تو پھر ماننے پر مجبور ہوگئے کہ سرکار رسلت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے جو بھی کیا ٹھیک کیا تھا۔ چھ ہجری ہے جنگ بدر کا ایسا خونی واقعہ رونما ہوا قریش مکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کے بارے میں اپنے دل میں سخت بغض وکینہ رکھتے تھے۔ اس کے بعد جنگ احد ہوئی جس طرح قریش حضور کے بارے میں سخت نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ مسلمان اس سے بڑھ کر قریش سے نفرت کرتے تھے گویا قریش کے نزدیک ان کے سخت ترین دشمن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم تھے اور مسلمانوں کے نزدیک ان کے سب سے بڑے دشمن قریش تھے۔ ادھر ماہ ذی الحجہ کا چاند نظر آگیا یہ ان کی اصطلاح میں ماہ حرام کھلاتا تھا ۔
ان کی جاہلانہ رسم کے مطابق یہ بات طے تھی کہ ماہ حرام میں وہ اسلحہ زمین پر رکھ دیتے اور مکمل طور پر جنگ سے ہاتھ اٹھا لیتے تھے۔ عربوں میں بہت زیادہ دشمنیاں تھیں، یھی وجہ ہے اس زمانے میں قتل وکشتار بھی اتنا زیادہ تھا لیکن ماہ حرام میں اس مھینہ کے احترام میں وہ خاموش ہوجاتے۔ بڑے سے بڑے دشمن کو بھی کچھ نہیں کھتے تھے، حضور رسالتمآب نے سوچا کہ کیوں نہ ان کی جاہلانہ رسم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مکہ تشریف لے جائیں اور وہاں سے عمرہ کر کے واپس تشریف لے آئیں۔ اس کے علاوہ آپ کا اور کوئی ارادہ نہ تھا اور تیاری کا اعلان فرمایا اور سات سو آدمی (ایک اور روایت کے مطابق چودہ سو آدمی جن میں آپ کے صحابہ کرام اور دیگر لوگ بھی شامل تھے۔ مکہ کی طرف رہسپار ہوئے۔ لیکن آپ جب مدینہ سے نکلے تو حالت احرام میں آگئے، چونکہ آپ کا حج قران تھا، اس لئے آپ کی قربانی کے جانور آپ کے آگے آگے چلے۔ قربانی کے جانوروں کے گلے میں جوتی لٹکا دی، زمانہ قدیم میں یہ رسم تھی کہ جو بھی کسی جانور کو اس حالت میں دیکھتا تو وہ خود بخود سمجھ جاتا تھا کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔ چنانچہ سات سو افراد کی مناسبت سے سات سو جانور خریدا گیا اور اسی خاص علامت کے ساتھ ان کو قافلے کے آگے اپنے ہمراہ لیا۔ تاکہ دیکھنے والے یہ بخوبی اندازہ لگا سکیں کہ یہ لوگ حج کرنے جارہے ہیں۔ جنگ کی غرض سے نہیں آئے ہیں یہ کام اور یہ پروگرام علانیہ تھا اس لئے قریش کو سب سے حضورصلی اللہ وعلیہ و آلہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی تو جب آپ مکہ کے قریب پھنچے تو زن ومرد چھوٹے بڑے غرضیکہ تمام قریش گھروں سے باہر نکل کر مکہ سے باہر آگئے اور انھوں نے کھا کہ خدا کی قسم! ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت ہر گز نہیں دیں گے۔
حالانکہ وہ ماہ حرام تھا اور کھا کہ ہم اس مہینے میں بھی جنگ کریں گے وہ عربوں کی اس پرانی اور مروجہ رسم کی خلاف ورزی کرنا چاہتے تھے، آپ قریش کے خیموں کے پاس تشریف لے گئے اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی اپنی سواریوں سے نیچے اترآئیں اور قریش سے کھا کہ تم بھی اپنے چند آدمی تیار کرو تاکہ یا ہمی تبادلہ خیال سے مسئلہ حل ہو سکے۔ چنانچہ قریش کے چند بزرگ آدمی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم یہاں کیوں اور کس مقصد کیلئے آئے ہیں؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے فرمایا میں حاجی ہوں اور حج ہی کی ادئیگی کیلئے آیا ہوں اس کے سوا میرا کوئی کام نہیں ہے۔ حج سے فراغت پاتے ہی فوراً واپس چلا جاؤں گا۔
ان میں سے جو بھی آتا ان کو دیکھ کر واپس چلا جاتا اگر چہ وہ مطمئن تھے پھر بھی انھوں نے بات نہ مانی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم اور آپ کے ہمراہیو ں نے یہ پکا ارادہ کر لیا کہ وہ ہر صورت میں مکہ میں داخل ہوں گے۔ ان کا پروگرام لڑائی کا نہ تھا۔ ھاں اگر ہم پر قریش نے حملہ کیا تو ان کا دندان شکن جواب دیں گے۔ سب سے پھلے تو بیعت الرضوان کی رسم ادا کی گئی۔ اصحاب نے از سر نو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کی بیعت کی، جس میں طے یہ پایا۔ اگر قریش کا نمائندہ صلح کا پیغام لے کر آیا تو ہم بھی صلح کریں گے، طرفین سے نمائندوں کی آمد و رفت شروع ہوئی۔ آپ نے اپنے نمائندوں سے کھا کہ جاکر قریش سے کہہ دو کہ:
"ویح قریش اکلتهم الحرب”
افسوس ہے قریش پر جنگ نے ان کو کھا لیا”
اب یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ مجھے یہ لوگ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مکہ میں جانے دیں گے تو اس سے بھی قریش کو فائدہ ہو گا۔ انھوں نے کھا ہمیں آپ کی کوئی شرط قابل قبول نہیں ہے ہم صرف اور صرف صلح کیلئے قرار داد پاس کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں قریش کی طرف سے سھیل بن عمرو نمائندگی کے فرائض ادا کر رہا تھا۔ صلح نامہ میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم امسال واپس چلے جائیں اور اگلے سال آئیں اور تین روز تک قیام کرسکتے ہیں۔ آپ عمرہ کرکے واپس چلے جائیں یہ صلح نامہ اگر چہ ظاہر میں مسلمانوں کے حق میں بھتر نہ تھا ان میں ایک شرط یہ تھی کہ اگر ایک قریشی دیگر مسلمانوں کے ساتھ مل جائے تو قریش کا حق حاصل ہوگا کہ وہ اس کو اپنے پاس لے آئیں۔ اگر ایک مسلمان قریش کے ساتھ مل جائے تو مسلمانوں کو حق حاصل نہ ہوگا کہ اس کو وہاں سے لے جائیں۔ آپ نے فرمایا ہماری بھی ایک شرط ہے کہ مسلمان مکہ میں آزادی کے ساتھ رہیں اور ان پر کسی قسم کی سختی نہ کی جائے۔ آپ نے ایک شرط کی خاطر ان کی تمام شرائط کو قبول کر لیا، اور اس ایک شرط کی خاطر قرار داد پر دستخط کر دیئے۔ اس سے کچھ مسلمان کو سخت تکلیف ہوئی۔ عرض کی یا رسول اللہ یہ ہماری بے عزتی ہے کہ ہم مکہ کے نزدیک آکر واپس لوٹ جائیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟ ہم تو واپس نہیں جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے فرمایا قرار داد تو یھی ہے اور اس پر طرفین کے دستخط بھی ہوچکے ہیں اب تو ہمیں عمل کرنا ہوگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے فرمایا یھیں پر قربانی کے جانوروں کو ذبح کردو اور میرے سر کے بالوں کو مونڈوا لیجئے۔
آپ جب سر کے بال منڈوا چکے تو دوسروں نے بھی ایسا ہی کیا، لیکن سخت پریشانی کے ساتھ ۔ اس طرح کا عمل اس بات کی علامت تھا کہ اب یہ سب حالت احرام سے نکل چکے ہیں۔ حضرت عمر سخت ناراض ہوئے اور حضرت ابو بکر سے کھا کہ جو کچھ ہوا ہے اچھا نہیں ہوا ۔ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں کیا یہ مشرک نہیں ہیں؟ یہ سب کچھ کیوں ہوا ہے؟ حضور پاک نے اس سے قبل خواب میں دیکھا تھا کہ مسلمان مکہ میں داخل ہو کر مکہ کو فتح کریں گے ۔ یہ دونوں بزرگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے خواب میں نہیں دیکھا تھا کہ ہم مسلمان مکہ میں داخل ہوئے ہیں؟ فرمایا ھاں ایسا ہی تھا عرض کی پس اس خواب کی تعبیر اس طرح کیوں ظاہر ہوئی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے فرمایا میں نے خواب میں یہ نہیں دیکھا کہ ہم امسال مکہ جائیں گے اور نہ ہی میں نے آپ سے اسی سال کی بات کی ہے میں نے خواب دیکھا ہے اور وہ خواب بھی سچا ہے کہ ہم مکہ ضرور جائیں گے ان دونوں بزرگوں نے عرض کی حضور یہ کوئی قرار داد تو نہ ہوئی کہ وہ لوگ ہمارے آدمی کو ساتھ لے جا سکتے ہیں اور ہم قریش میں سے کسی کو اپنے ساتھ نہیں ملا سکتے؟ آپ نے فرمایا اگر ایک شخص ہم میں سے وہاں جانا چاہتا ہے وہ مسلمان نہیں مرتد ہے ۔اس کی ہمیں قطعی طور پر ضرورت نہیں ہے جو مرتد ہوگیا وہ ہمارے کسی کام کا نہ رہا۔ اگر ان میں سے کوئی مسلمان ہوکر ہمارے پاس آجائے تو ہم اس سے کھیں کہ فی الحال تم مکہ جاؤ اور جس طرح بھی نبھ آئے گزار و اللہ تعالی ایک نہ ایک دن ضرور کوئی وسیلہ پیدا کرے گا۔ واقعتاً عجیب و غریب شرائط ہیں ۔ سھیل بن عمر کا ایک بیٹا مسلمان تھا اور وہ اسی لشکر اسلام میں تھا اس نے بھی اس قرارداد پر دستخط کیے اس کا دوسرا بیٹا قریش کے پاس تھا، وہ دوڑتا ہوا مسلمانوں کے پاس آیا۔ لیکن سھیل نے کھا کہ چونکہ اب ایگریمنٹ ہو چکا ہے اس لئے میں اس کو قریش کے پاس واپس بھیجتا ہوں اس نوجوان کا نام ابو جندل تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا تم واپس چلے جاؤ اللہ تعالی کوئی بھتر سبب بنائے گا۔ فکر نہ کرو یہ بیچارہ سخت پریشان ہوا اور چیختا چلاتا رہا، کہ مسلمان مجھے کافروں کے درمیان بے یار ومددگار چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ مسلمان بھی پریشان ہوئے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم آپ اجازت دیں کہ ہم اس ایک نوجوان کو واپس نہ جانے دیں۔ آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں اسے واپس جانے دو اب یہ نوجوان قرارداد کے مطابق آزادانہ طور پر زندگی بسر کرے گا ۔ ان تمام نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ مکہ میں رہ کر اسلام کی تبلیغ کریں۔ ایک سال کی کم مدت میں اتنے زیادہ مسلمان ہوئے کہ شاید اتنے بیس سالوں کی مدت میں نہ ہوتے۔ آہستہ آہستہ حالات بدلتے گئے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مکہ شھر مسلمانوں سے چھلک رہا تھا اور اس میں اسلام و قرآن کی باتیں ہو رہی تھیں، علم و عمل کے تزکرے ہورہے تھے۔ ایک بہت اچھا واقع ہے میں چاہوں گا کہ آپ کو بھی سناؤں۔ ابو بصیر نامی ایک شخص مسلمان تھا۔ یہ مکہ میں رہائش پزیر تھا۔ اور بہت ہی بھادر و شجاع تھا۔ یہ مکہ سے فرار ہو کر مدینہ آیا۔ قریش نے دو آدمیوں کو مدینہ بھیجا تاکہ قراردادوں کے مطابق اس کو مکہ لے آئیں، یہ دو شخص آئے اور کھا کہ ابو بصیر کو واپس لوٹا دیجئے۔ حضرت نے فرمایا واقعی ایسا ہی ہے۔
اس نوجوان نے جتنا بھی کھا کہ یارسول اللہ مجھے واپس نہ بھیجئے حضرت نے فرمایا کہ چونکہ ہم ان سے وعدہ کرچکے ہیں جھوٹ بولنا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ تم جاؤ انشاء اللہ حالات بہت جلد بھتر ہو جائیں گے۔ اس کو وہ اپنی حراست میں لے گئے۔ یہ غیر مسلح تھا اور وہ مسلح تھے۔ ذوالحلیفہ نامی جگہ پر پھنچ گئے، تقریباً یھیں سے یعنی مسجد شجرہ سے احرام باندھا جاتا ہے اور مدینہ یہاں سے سات کلو میٹر دور تھا۔ یہ لوگ ایک درخت کے نیچے آرام کرنے لگے۔ ایک شخص کے ہاتھ میں تلوار تھی، ابو بصیر نے اس سے کھا کہ یہ تلوار تو بہت خوبصورت ہے، ذرا مجھے دکھائیے تو سہی، اس نے اس سے تلوار لی اور ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔ اس مقتول کا دوسرا ساتھی دوڑ کر مدینہ آگیا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے فرمایا یہ کوئی نیا واقعہ ہوا ہے۔ اس نے عرض کی جی ھاں آپ کے آدمی نے ہمارے آدمی کو قتل کردیا ہے۔ کچھ لمحوں کے بعد ابو بصیر بھی وہاں پھنچ گیا عرض کی یا رسول اللہ آپ نے تو قرار داد پر عمل کر دیا۔ وہ قرار داد یہ تھی کہ اگر کوئی شخص قریش سے فرار ہو کر آجائے تو آپ اس کو ان کے حوالے کردیں میں تو خود آیا ہوں اس لئے آپ مجھے کچھ نہ کھیے آپ اسی وقت اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دریائے احمر کے کنارے پر آئے آپ نے وہاں پر ایک لکیر کھینچی اور اس کو مرکز قرار دیا جو مسلمان مکہ میں مشرکین کی طرف سے تکالیف برداشت کر رہے تھے ان کو پتہ چلا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کسی کو اجازت نہیں دے رہے تھے لیکن آپ نے ساحل دریا کو مرکز قرار دیا ہے، وہ ایک ایک کرکے اس جگہ پر پھنچے اور ستر ۷۰ کے لگ بھگ اکٹھے ہو گئے۔ اور ایک "طاقت” بن گئے۔
قریش اب آمد و رفت نہ رکھ سکتے تھے، انھوں نے خود ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک خط لکھا، جس میں کھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم ہم نے ان کو معاف کردیا ہے ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کو لکھیں کہ یہ لوگ مدینہ آجائیں اور ہمارے لئے رکاوٹیں کھڑی نہ کریں، ہم خود ہی اپنی قرارداد سے صرف نظر کرتے ہیں۔ اس قرارداد کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ لوگوں کے افکار ونظریات میں تبدیلی لائی جائے۔ چنانچہ یھی ہوا جو ہمارے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم چاہتے تھے۔ اس کے بعد مسلمان مکہ میں آزادانہ طور پر رہنے لگے، اور اس آزادی کی بدولت لوگ فوج در فوج دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے، مشرکین کی تمام تر پابندیاں ختم ہو کر آزادی میں بدل گئیں۔ یہ تھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کی مدبرانہ سیاست اور اس سے جو دورس نتائج بر آمد ہوئے۔ ان فوائد کو تو شمار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اب آتے ہیں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ‌السلام کی معصومانہ حکمت عملیوں کی طرف۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر امام حسن علیہ‌السلام امام حسین علیہ‌السلام کی جگہ پر ہوتے تو آپ کربلا میں ویسا ہی کرتے جیسا کہ امام حسین علیہ‌السلام نے کیا تھا۔ میں یہاں پر صرف ایک نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اگر کوئی سوال کرتا ہے کہ کیا اسلام صلح کا دین ہے یا جنگ کا دین؟تو ہم اس کو اس طرح جواب دیں گے کہ آیئے قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں دیکھتے ہیں قرآن مجید ہمیں جنگ کا حکم بھی دیتا ہے اور صلح کا بھی۔ ہمارے پاس بہت سی ایسی آیات موجود ہیں جو ہمیں کافروں ومشرکوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ کی نشاندھی کرتی ہیں۔ ارشاد الھٰی ہے:
( وقاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ) (۱۸)
"اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو”
دوسری آیات بھی اس طرح کی ہیں۔ صلح کے بارے میں قرآن مجید کھتا ہے:
( وان جنحوا للسلم ما جنح بها ) (۱۹)
اور اگر یہ کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤ”۔
ایک اور جگہ پر ارشاد خدا وندی ہے:
( والصلح خیر ) (۲۰)
"صلح تو (بھر حال) بھتر ہے۔”
آپ خود ہی اندازہ کر لیجئے کہ اسلام کس چیز کا مذھب ہے؟ اسلام نہ صرف صلح کو قبول کرتا ہے بلکہ اس کے لئے بھی وہ شرائط عائد کرتا ہے اور نہ بغیر کسی وجہ کے جنگ کو روا سمجھتا ہے ۔ وہ کھتا ہے صلح اور جنگ چند خاص شرائط کے ساتھ قیام پذیر ہوں گی ۔ مسلمان خواہ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کے دور کا ہو یا حضرت امیرعلیہ السلام کے زمانے کا یا حضرت امام حسن علیہ‌السلام ، امام حسین علیہ ‌السلام اور دیگر آئمہ طاہر ین علیھم السلام کے دور امامت سے تعلق رکھتا ہے وہ ہر جگہ پر ایک ھدف اور مقصد کے تحت زندگی گزراتا ہے ۔
اس کا ھدف اصلی اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بازیابی ہے۔ اس کو دیکھنا چاہی ے کہ یہ مقاصد صلح کے ساتھ حاصل ہوتے ہیں تو صلح کی زندگی گزاردے ۔ اگر کسی موقع پر اسلامی، دینی مقاصد کا تحفظ جنگ میں ہے تو اسلام کھتا ہے کہ کافروں، مشرکوں اور ظالموں کے خلاف ڈٹ جاؤ ۔ حقیقت میں یہ مسئلہ جنگ یا صلح کا نہیں ہے بلکہ بات حالات اور شرائط کی ہے جھاں جھاں اسلامی اہداف کا تحفظ ہو وہاں صلح یا جنگ کریں جیسی مناسبت ویسا اقدام ۔ بس ہر موقعہ پر اللہ تعالی کی خوشنودی اور رضا ملحوظ خاطر رہے یعنی یہ اسلام کا بنیادی فلسفہ ہے ۔
ایک سوال اور ایک جواب
سوال: آپ نے فقہ جعفریہ کی سند امام حسن علیہ السلام کے بارے میں بیان کی ہے درست نہیں ہے، کیونکہ شیعہ فقہ ائمہ طاہر ین علیھم السلام کی تعلیمات کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے ۔ اب آپ یہ نہیں کھہ سکتے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے شیعہ فقہ پر عمل کرتے ہوئے صلح کی ہے؟ جناب محقق اور دیگر علمائے شیعہ نے جو کچھ بھی کھا ہے یا بیان کیا ہے یہ سب کچھ ائمہ اطہارعلیہ السلام سے لیا ہے ۔ براہ کرم اس مسئلہ کی تشریح فرما دیجئے ۔
جواب:آپ نے بہت اچھا سوال کیا ہے آپ نے میری بات پر غور نہیں کیا میں نے کب کھا کہ امام حسن علیہ السلام نے شیعہ فقہ کی پیروی کرتے ہوئے حاکم وقت کے ساتھ صلح کی ہے ۔ میں نے تو فقہ کے بنیادی اصولوں کو سیرت امام علیہ السلام سے منطبق کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دراصل ہماری فقہ ائمہ طاہر ین علیھم السلام کے فرامین سے مرتب کی گئی۔ شریعت اسلامیہ کی تشریح اور وضاحت ان بزرگ ہستیوں نے جس طرح کی ہے اتنی اور کسی نے نہیں کی ۔ ہم نے فقہ کے ایک باب جھاد پر تبصرہ کیا تھا ۔ جناب محقق کی عالمانہ رائے اور نقطہ نظر کو اس لئے بیان کیا تاکہ واضح ہوجائے کہ صلح کے بارے میں شیعہ فقہ کیا کھتی ہے؟بالغرض اگر آج ہمیں یا کسی اسلامی حکمران کو اس قسم کا قدم اٹھانا پڑے اور وہ ہم سے رائے مانگے تو ہم بغیر کسی توقف کے بتاسکیں کہ ہماری فقہ کیا کھتی ہے؟اور ہمارے ائمہ طاہر ین علیھم السلام کی سیرت طیبہ ہمیں کیا درس دیتی ہے؟
یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان ہر وقت لوگوں سے لڑتا جھگڑتا رہے اور وہ اس کو جھاد کا نام دے ۔ بلکہ جھاد اور صلح کے اپنے اپنے تقاضے ہیں اور ان کو ہم نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے ۔ اوقات صبر و تحمل اور خاموشی کی روش اختیار کرنی پڑتی ہے ۔ کبھی کبھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جارح اور ظالم دشمن کے جواب میں مسلح ہو کر میدان جنگ میں اترنا پڑتا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم اور دیگر ائمہ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں اس نوع کی یکسانیت و یگرنگی ہے کہ انسان اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں کرسکتا ۔
سوال:کیا اہل سنت بھائیوں کا نقطہ نظر جھاد کے بارے میں شیعوں سے مختلف ہے اگر ہے تو کیا ہے؟
جواب:مجھے اس سلسلے میں اہل سنت بھائیوں کی کتب کا مطالعہ کرنا پڑے گا اس کے بعد کچھ اس پر روشنی ڈال سکوں گا لیکن جھاں تک مجھے معلوم ہے وہ یہ ہے کہ جھاد کے بارے میں شیعہ سنی کا کوئی اتنا بڑا فرق نہیں ہے ہم یہ کھتے ہیں کہ جھاد میں امام یا اس کے نائب سے اجازت لینا چاہی ے ان کے نزدیک یہ شرط وقید نہیں ہے ۔ اس مسئلہ میں ہم سب مسلمان متحد ہیں کہ اگر کافر یا مشرک ملک یا شخص ہمارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے یا کسی کافر سے کسی مسلمان کی عزت و مال کو خطرہ ہے تو ہم سب پر واجب ہے کہ ہم اس کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں ۔
صلح امام حسن علیہ السلام
ھماری بحث امام حسن علیہ السلام کے بارے میں چل رہی تھی گزشتہ نشستوں میں میں نے جنگ اور صلح پر اسلامی نقطہ نظر کو بیان کیا ہے اور میں نے وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ تاریخ اسلام سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ ہے امام وقت جو بھی قدم اٹھاتا ہے وہ عدل وانصاف کے عین تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے ۔ ہمارے ائمہ طاہر ین علیھم ‌السلام نے اپنے ہر کام، ہر فعل اور ہر عمل میں جو بھی کیا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کی رضا کیلئے کیا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے مختلف مقامات پر صلح کی، مختلف قراردادوں پر دستخط کیے، کبھی مشرکین کے ساتھ، تو کبھی اہل کتاب کے ساتھ کبھی آپ کو جنگوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ میں نے اپنی بات اور گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فقھی و عقلی دلائل بھی پیش کیے ہیں ۔ میرا عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ دین ایک کامل ترین مذھب اور نظریہ کا نام ہے ایسا نہیں ہے کہ اس کی ہم اپنی مرضی کے مطابق تاویل کرتے رہیں۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اس کے حیات بخش اصول پھلے بھی موجود تھے اور آج بھی ہیں اور قیامت تک اس کی حقانیت مسلم طور پر موجود رہے گی۔ اگر صلح کی بات آتی ہے تو اس کی کچھ شرائط ہیں اسی طرح جنگ کے بارے میں اس کے معین کردہ قوانین موجود ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مزاکرات کی میز پر بیٹھ کر دشمن کو بات منانا آسان ہوتا ہے اور اس میں جنگ وجدال کی نوبت نہیں آتی اور کبھی جو بات دشمن جنگ کے ذریعہ مانتا ہے وہ صلح سے پوری نہیں ہوتی ۔ میں نے گزشتہ محافل میں وضاحت کے ساتھ گفتگو کی ہے اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات کے جوابات بھی دیئے ہیں دراصل امام حسن علیہ السلام کے دور امامت میں فضا اتنی مکدر تھی کہ صلح کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا، گویا آپ صلح کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ لیکن امام حسین علیہ السلام کے دور میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ اب میں اس موضوع پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں اس کے بعد فیصلہ آپ کو خود ہی کرنا ہے کہ امام حسن علیہ السلام کو کیا کرنا چاہی ے اور امام حسین علیہ السلام کو کیا؟اور ایک نے صلح اور دوسرے نے جنگ کو کیوں چنا؟آیئے چلتے ہیں تفصیل کی طرف:
امام حسن علیہ‌السلام اور امام حسین علیہ ‌السلام کے ادوار میں فرق کتنا تھا؟
سب سے پہلا فرق تو یہ ہے کہ امام حسن علیہ السلام اس وقت مسند خلافت پر تشریف فرما ہوئے تو اس وقت معاویہ مضبوط ترین پوزیشن بنا چکا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے زندگی میں کس طرح کی صعوبتیں اور سختیاں برداشت کیں پھر آپ کو کس بیدردی اور مظلومیت کے ساتھ شھید کردیا گیا؟ اس عظیم اور مظلوم والد کی شھادت کے بعد امام حسن علیہ السلام مسند خلافت پر تشریف لائے، یہ حکومت اندرونی سطح پر بہت ہی کمزور ہو چکی تھی۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ امام علیہ‌السلام کی شھادت کے اٹھارہ روز بعد امام حسن علیہ السلام خلیفہ وقت مقرر ہوئے ۔ ان اٹہارہ دنوں کے اندر اندر معاویہ نے خود کو اچھا خاصا مضبوط ومستحکم کر لیا۔ اس نے جگہ جگہ اپنی فوجیں پھیلا دیں۔ پھر معاویہ عراق کو فتح کرنے کیلئے ایک کثیر تعداد کی فوج اپنے ہمراہ لے کر عازم سفر ہوتا ہے، اور ادھر امام حسن علیہ السلام بے پناہ مشکلات سے دو چار تھے۔ ایک باغی اور سرکش شخص آپ کے خلاف بغاوت کر چکا تھا۔ اب یہاں پر امام حسن علیہ السلام کا قتل ہو جانا مسند خلافت کیلئے بہت زیادہ نقصان دہ تھا۔ ابتدائی ابتدائی حالات تھے۔ اس کے بر عکس امام حسین علیہ السلام اس جگہ پر خاموش رہتے یا کسی خاص مصلحت کا انتظار کرتے تو دین محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نعوذ باللہ کب کا مٹ چکا ہوتا ادھر خاموشی عبادت، ادھر جھاد کرنا عبادت، ایک مقام پر سکوت جھاد تھا اور دوسرے مقام پر جھاد ہی جھاد تھا۔ امام حسن علیہ السلام نے ایسے ایسے حالات میں ظلم وفساد کا مقابلہ کیا کہ اگر کوئی اور ہوتا تو کب کا حکومت وقت کو تسلیم کر چکا ہوتا۔ امام حسن علیہ‌السلام نے مصلحت کے تحت صلح کر لی تھی، لیکن معاویہ کی حاکمیت، خلافت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ آپ نے کئی سالوں تک معاویہ کی شاطرانہ سیاست کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ آپ کو دھوکہ و فریب کے ساتھ شھید کر دیا گیا۔ آپ نے جرأت واستقامت کے ساتھ حالات کا انتھائی جرأتمندی اور پامردی کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ امام حسن علیہ‌السلام کی حکومت عملی اتنی بلند تھی کہ امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنے بھائی کی مدبرانہ سیاست کی تعریف کر کے اس سیاست کو آئیڈیل سیاست قرار دیا۔
اس لئے اعتراض کرنے والوں کو سمجھنا چاہی ے کہ امام حسن علیہ‌السلام اور امام حسین علیہ‌السلام کے حالات میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ آپ مسند خلافت پر خلیفۃ المسلمین کے طور پر تشریف فرما تھے اگر ان کو وھیں پر قتل کیا جاتا تو یہ خلیفۃ المسلمین کا مسند خلافت پر قتل تھا جو کہ بہت بڑا مسئلہ تھا، امام حسین علیہ السلام نے بھی مسند خلافت پر شھید ہونے سے اجتناب کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ‌السلام مکہ میں بھی شھید نہیں ہونا چاہتے تھے” کیونکہ اس سے مکہ کی بے حرمتی ہوتی۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اس وقت غیر معمولی طور پر کوشش کرتے ہیں کہ عثمان اپنے دور کے مخالفین کے مطالبات پورے کرتے ہوئے ان کےساتھ صلح کریں۔ آپ ہر صورت میں عثمان کی حفاظت و سلامتی کے خواہاں تھے، اور گاہے بہ گاہے ان کو مشورے بھی دیا کرتے تھے۔ نھج البلاغہ میں ہے کہ آپ عثمان کا دفاع کرتے ہیں۔ آپ کا ایک فرمان ہے:
"وخشیت ان اکون اثما” (۲۱)
"کہ میں نے عثمان کا اس قدر دفاع کیا کہ اب مجھے ڈرہے کہ کھیں گناہگار نہ ہو جاؤں۔”
سوچنے کی بات ہے آپ خلیفہ صاحب کی حمایت کیوں کرتے تھے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ مسند رسول کی حفاظت کرنا تھی۔ آپ کی شبانہ روزی کی کوشش کا مقصد عثمان کو تحفظ فراہم کرنا تھا، کیونکہ یہ مسلمان کیلئے باعث ننگ و عار تھی کہ خلیفۃ المسلمین مسند خلافت پر قتل ہو اس سے مسند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کی بے حرمتی ہو گی۔
اس عظیم مقصد کی تکمیل کیلئے مولا علی علیہ السلام کو بے تحاشا قربانیاں دینا پڑیں۔ دوسری طرف آپ عوامی رد عمل کو بھی نہیں روکنا چاہتے تھے، کیونکہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ حاکم وقت سے اپنی بات کھے اور اس کے سامنے اپنے مطالبات دھرائے۔ آپ لوگوں کو بھی حکومت کے خلاف اجتماع کرنے سے روکنا نہیں چاہتے تھے، اور آپ کی یہ کوشش تھی کہ عثمان کا قتل نہ ہو، کیونکہ آپ مسند رسول کے تحفظ و احترام کو زندگی کا سب سے اولین مقصد سمجھتے تھے۔ بالآخر وھی ہوا کہ جس کا آپ کو ایک عرصہ سے خدشہ تھا کہ عثمان قتل کر دیئے گئے۔ چنانچہ اگر امام حسن علیہ السلام انھی حالات میں معاویہ کے ساتھ مقابلہ کرتے تو ان کا حال بھی یھی ہوتا جیسا کہ تاریخ اسلام اس امر کی گواہ ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کو پتہ تھا کہ وہ شھید ہو جائیں گے۔ آپ تو صرف مسند خلافت کے احترام کی خاطر خاموش تھے۔ لیکن امام حسین علیہ السلام کی شھادت علم جھاد بلند کرنے والے عظیم مجاہد کی شھادت تھی کہ جنھوں نے ایسے ظالم فاسق وفاجر شخص کی حکومت کے خلاف آواز بلند کی کہ جو خود کو خلیفۃ المسلمین کہلواتا تھا۔ حالانکہ اس کا خلافت سے دور تک کا واسطہ نہ تھا، اس لئے تو میں نے کہا ہے کہ امام حسن علیہ‌السلام اور امام حسین علیہ‌السلام کے حالات و واقعات میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ایک مقام پر چپ رھنا عبادت تھا اور دوسری جگہ پر ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنا وقت کا اہم تقاضہ تھا ۔
دوسرا فرق یہ تھا کہ کوفہ کی سرزمین اپنی بے وفائی کے باعث حق اور حق پرستوں کیلئے تنگ ہوچکی تھی۔ اگر معاویہ وہاں پر آجاتا تو بڑی آسانی سے اس کو فتح کر لیتا، امام حسن علیہ السلام کے حامیوں کی اکثریت رخ موڑ چکی تھی، کوفہ منافقوں کا مرکز بن چکا تھا۔ کوفہ میں سب سے بڑا مسئلہ خوارج کا وجود میں آنا تھا۔ لوگ جاہلیت میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ حق کو پھچاننا مشکل ہو گیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس سوسائٹی کو نادانوں اور جاہلوں کی سوسائٹی سے تعبیر فرمایا نھج البلاغہ میں ہے کہ اس وقت کا معاشرہ تعلیم وتربیت سے عاری تھا۔ لوگ اسلام کو جانتے تک نہ تھے۔ اسلامی تعلیمات کو یکسر بھلا دیا گیا تھا۔ وہ لوگ مسلمان ہونے کا دعوی تو کرتے تھے لیکن دراصل وہ اسلام کی الف با سے بھی واقف نہ تھے۔
بہر حال کوفہ میں عجیب ماحول پیدا ہو چکا تھا۔ معاویہ کوفہ میں اپنی بنیادیں مستحکم کر چکا تھا اس نے پیسہ خرچ کر کے کوفیوں کو خرید لیا تھا۔ جگہ جگہ پر جاسوس پھیلے ہوئے تھے۔ حکومتی مشینری نے معاویہ کے حق میں اور امام حسن علیہ السلام کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا کر رکھا تھا۔ اگر اس وقت امام حسن علیہ‌السلام انقلاب برپا کرتے تو لوگوں کا ایک انبوہ معاویہ کے خلاف کھڑا ہو جاتا ۔ شاید تیس چالیس آدمیوں کا لشکر آمادۂ پیکار ہوتا۔ تاریخ میں یہاں تک ملتا ہے کہ امام حسن علیہ السلام ایک لاکھ تک افراد کو جمع کرسکتے تھے۔ آپ معاویہ کے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کا مقابلہ کر سکتے تھے لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام نے آٹھ مھینوں تک معاویہ سے مقابلہ کیا۔ اس وقت عراقی فوجیں خاص کر مضبوط تھیں۔ آٹھ مھینوں کی مسلسل جنگ میں معاویہ مکمل طور پر جنگ ہار چکا تھا، چند غداروں نے مولا مشکل کشا کے خلاف سازش کر کے قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کرکے میدان جنگ میں لے آئے۔
اگر امام حسن علیہ السلام جنگ کرتے تو شام و عراق کی دو مسلمان فوجوں کے ما بین جنگ طول پکڑ جاتی اور ھزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا، اس سے حاصل کیا ہوتا؟جھاں تک تاریخ بتاتی ہے وہ یہ ہے کہ معاویہ اپنی تمام تر چالاکیوں کی وجہ سے کامیاب ہو جاتا، اب آپ ہی اندازہ کریں کہ امام حسن علیہ السلام دو سالوں تک جنگ کرتے اور ھزاروں افراد قتل ہوتے اور نتیجہ مسند خلافت پر امام حسن علیہ السلام کی شھادت پر منتج ہوتا۔ امام حسن علیہ السلام کے پاس بھتر ( ۷۲) اشخاص موجود تھے۔ آپ نے ان کو بھی واپس بھیج دیا اور فرمایا تم سب یہاں سے چلے جاؤ۔ میں جانوں اور دشمن کی فوج جانے اور اگر میں اس حال میں شھید ہو جاؤں تو اس سے بھتر میرے لئے کیا اعزاز ہو گا۔
چنانچہ یہ وجوہات تھیں کہ جن کی وجہ سے امام حسن علیہ السلام کو صلح کرنا پڑی۔ ایک یہ کہ آپ نہ چاہتے تھے کہ دشمن آپ کو مسند رسول پر قتل کرکے اس عظیم مسند کی توھین کرے۔ دوسرا آپ یہ بھی پسند نہ کرتے تھے کہ مسلمانوں کا قتل عام ہو۔ آپ اس وقت معاویہ کی فوج کے ساتھ بھر پور مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، لیکن آپ نے امن و عامہ کی بحالی و برقراری اور مسند رسول کے تحفظ واحترام کی خاطر ہتھیار اٹھانے اور حملہ کرنے کے بجائے صلح و آشتی کو ترجیح دی۔ آپ نے اپنے قول و فعل کردار و گفتار کے ذریعہ ثابت کردیا کہ خاندان رسالت اسلامی و انسانی اقتدار کی کس طرح پاسداری کرتا ہے۔
صلح امام حسن علیہ‌السلام اور قیام امام حسین علیہ‌السلام کے محرکات
حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے حالات میں بہت زیادہ فرق تھا۔ امام حسین علیہ السلام کے عظیم انقلاب اور بے نظیر جھاد کے تین محرکات ہمارے سامنے آتے ہیں میں ان تینوں عوامل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں، جبکہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کے دور میں صورت حال کچھ اور طرح کی تھی۔
حسین علیہ‌السلام انقلاب کا پہلا محرک یہ تھا ظالم حکومت نے امام حسین علیہ السلام سے بیعت کرنے کا مطالبہ کیا کہ:
"خذ الحسین بالبیعة اخذا شدیدا لیس فیه رخصة”
کہ امام حسین علیہ السلام کو بیعت کیلئے گرفتار کر لے اور مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے یہاں تک کہ وہ بیعت کیے بغیر کھیں نہ جاسکیں۔”
وقت کے فاسق وفاجر شخص نے وقت کے سب سے بڑے امام اور معصوم ہستی سے بیعت کا تقاضا کیا جو کہ ناممکن تھا۔ امام عالی مقام نے جو جواب دیا وہ یہ تھا میں اور یزید کی بیعت یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ حق اور باطل کی پیروی یہ نا ممکن بات ہے۔ کہاں وہ بدترین شخص اور کھاں میں پروردہ عصمت! بھلا رات اور دن بھی ایک جگہ پر جمع ہوسکتے ہیں۔ یہ بہت مشکل بات ہے۔ لیکن امام حسن علیہ السلام سے معاویہ نے صلح کی پیشکش تو کی تھی۔ بیعت کا تقاضا نہ کیا تھا یہ نہیں کہا تھا کہ آپ میری خلافت کو تسلیم کر لیں۔ یہ بات تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں ہے کہ معاویہ نے امام علیہ السلام سے بیعت کرنے کا کہا ہو، یا امام علیہ‌السلام کے کسی صحابی یا کسی ماننے والے سے بیعت کا تقاضا کیا ہو ۔ دراصل ان کے درمیان بیعت کی بات بھی نہ تھی۔ یھی وجہ ہے کہ مسئلہ بیعت نے امام حسین علیہ السلام کو قیام کرنے اور علم جھاد بلند کرنے پر مجبور کیا۔ اور یہ مجبوری امام حسن علیہ لسلام کو درپیش نہ تھی اگر اس طرح کا مسئلہ ہوتا تو امام حسن علیہ السلام اسی طرح کرتے جس طرح ان کے عزیز ترین بھائی امام حسین علیہ السلام نے کیا تھا۔
قیام حسین علیہ‌السلام کی دوسری وجہ! دعوت کوفہ تھی، وہاں کے لوگوں نے بیس سال تک معاویہ کے مظالم برداشت کیے اور وہ بہت تھک چکے تھے۔ ان کو امام عادل کی آمد کا بے چینی سے انتظار تھا۔ کوفہ کی فضا کا رنگ یکسر بدل چکا تھا۔ ایک بہت بڑے انقلاب کی پیشین گوئی کی جا رہی تھی۔ کوفہ والوں نے امام حسین علیہ السلام کی طرف بیس ھزار خطوط ارسال کیے ان سب میں ان لوگوں کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ مولا آپ سرزمین کوفہ پر قدم رکھ کر ہماری آنکھوں کو ٹھنڈا کیجئے ۔ اب ہم سے آپ کا مزید انتظار نہیں کیا جاتا۔ لیکن امام حسین علیہ السلام جب تشریف لائے تو کوفہ والے بالکل انجان بن چکے تھے۔ تاریخ نقطہ نظر سے اگر امام عالی مقام اہالیان کوفہ کے خطوط کو اہمیت نہ دیتے تو تاریخ میں آپ پر اعتراض کیا جا سکتا تھا۔ دنیا والے کہہ سکتے تھے کہ کوفہ کی سرزمین انقلاب کیلئے بالکل تیار تھی لیکن امام حسین علیہ السلام تشریف نہ لائے۔ لیکن امام حسن علیہ السلام کو اس طرح کا مسئلہ در پیش نہ تھا ۔ اس وقت کا کوفہ اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ لوگوں کی سوچیں بکھری اور اذھان پریشان تھے۔ ایسا کوفہ کہ جو اختلافات کا مرکز بن چکا تھا ۔ وہ کوفہ کہ جس کی حضرت علی علیہ السلام نے آخر وقت میں مذمت کی تھی۔ آپ نے خدا سے دعا کی تھی کہ بار الہا! مجھے ان لوگوں کے درمیان سے اٹھا لیجئے اور ان پر ایسا حکمران مسلط فرما کہ جس کے یہ اہل ہیں۔ تاکہ ان کو میری حکومت کی قدر معلوم ہوسکے۔
میں جو عرض کرنے لگا ہوں وہ یہ ہے کہ کوفہ تیار ہے ۔ یہ امام حسین علیہ السلام سے اتمام حجت کے طور پر کہا گیا تھا، حالانکہ حقیقت میں وہ کسی صورت میں بھی انقلاب کیلئے سازگار نہ تھا۔ اب اگر امام عالی مقام لوگوں کے اس مطالبہ پر خاموش رہتے تو کھنے والے کہہ سکتے تھے کہ امام علیہ السلام نے مسلمانوں کی (نعوذباللہ) پروا نہیں کی، لیکن امام حسن علیہ السلام کا معاملہ اور تھا۔ آپ کے دور میں کوفہ کے لوگوں نے اپنی بے وفائی دکھادی تھی اور انھوں نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ وہ امام علیہ‌السلام کا ساتھ دینے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ کوفہ کی فضا اس قدر بدلی ہوئی تھی اور کوفی اس قدر بے وفا تھے کہ امام حسن علیہ السلام کوفیوں سے ملنا جلنا قطعی طور پر پسند نہ کرتے تھے۔ آپ گھر سے آتے جاتے وقت بہت زیادہ محتاط ہوتے یہاں تک کہ آپ اپنے لباس کے اندر زرہ پھن کر آتے تھے تاکہ خدا نخواستہ اگر کوئی شر پسند حملہ کرے تو آپ اپنا تحفظ کرسکیں۔ دوسری طرف آپ کو خوارج اور معاویہ سے سخت جانی خطرہ تھا۔ ایک مرتبہ آپ نماز پڑھنے میں مشغول تھے تو اچانک آپ پر کسی نے تیر پھینکنے شروع کر دئے چونکہ آپ نے لباس کے نیچے زرہ پھن رکھی تھی اس لئے اس ظالم کا حملہ کار آمد نہ ہوا۔ اور آپ بچ گئے چونکہ کوفہ والوں نے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ میں آنے کی دعوت دی تھی اس لئے آپ کی شرعی ذمہ داری تھی کہ احسن طریقے سے ان کے خطوط کا جواب دیں۔ اور امام حسن علیہ السلام کے دور امامت میں کوفہ کی سرزمین نفاق اگل رہی تھی چاروں طرف بغض و عناد کی چنگاریاں نکل رہی تھیں حالات یہ تھے کہ بکھرتے چلے جارہے تھے اس لئے آپ نے خاموشی اختیار کی۔
امام حسین علیہ السلام کے قیام کا تیسرا محرک امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کی اہم ذمہ داری نبھانا تھی۔ قطع نظر اس کے کہ حکومت وقت نے امام حسین علیہ السلام سے بیعت طلب کی، اور قطع اس کے کہ امام حسین علیہ السلام کو کوفہ میں آنے اور ان کی ھدایت کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اتمام حجت کے طور پر ان کو کوفیوں کے خطوط کا مثبت جواب دینا تھا دوسرے لفظوں میں اگر امام حسین علیہ السلام سے وہ بیعت طلب نہ کرتے تب بھی آپ کو قیام کرنا تھا اگر کوفہ آنے کی دعوت نہ دیتے تب بھی آپ کو یزیدی حکومت کے خلاف قیام کرنا تھا۔ یہ تھا امر بالمعروف اور نھی عن المنکر۔ اگر چہ معاویہ نے بیس سال تک حکومت کی اور اس نے اسلامی تعلیمات کے خلاف بے شمار اقدامات کیے وہ واقعتاً ایک ظالم حکمران تھا اس کی بدعنوانیاں اور زیادتیاں سب پر عیاں تھیں اس نے احکام شریعت میں کمی بیشی کی تھی بیت المال کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا، محترم اور قابل قدر انسانوں کا خون بھی بہایا ۔ غرضیکہ وہ سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ اس کے جو جی میں آیا کیا ان تمام گناہوں کے باوجود اس نے ایک ایسا بڑا جرم اور گناہ کبیرہ سے بڑھ کر گناہ کیا وہ یہ کہ اس نے اپنے ظالم، بے دین، فاسق و فاجر شرابی بیٹے کو مسند خلافت پر بٹھا دیا۔ ہم پر شرعی فرض عائد ہوتا ہے کہ اس پر اعتراضات کریں، اس سے پوچھیں کہ اس نے ایسے نااہل شخص کو عظیم منصب پر کیوں بٹھایا؟ حالانکہ امام حسین علیہ السلام جیسی جلیل القدر موجود شخصیت تھی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:
"من رای سلطانا جائزا مستحلا لحرام الله ناکثا عهده، مخالفا لسنة رسول الله یعمل فی عبادا لله بالاثم والعدوان” فلم یغیر علیه بفعل ولاقول، کان حقا علی الله ان یدخله مدخله الا وان هولاء قد لزموا اطاعة الشیطان” (۲۲)
"اگر کوئی شخص ایک ایسے ظالم حکمران کو دیکھے جو حلال خدا کو حرام کر دے اور اس سے کیے گئے وعدے کو توڑ دے سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کے خلاف عمل کرے، لوگوں میں گناہ کا مرتکب ہو تو لوگ اس کو قول و فعل کے ذریعہ منع نہ کریں تو خدا وندکریم اس کو ضرور ہی ایسا عذاب دے گا جس کا وہ حکمران مستحق ہوگا”۔
معاویہ کے دور حکومت میں ایسا ہی تھا۔ امام حسن علیہ السلام اس کے کاموں پر راضی نہ تھے اور اس کو مظالم اور گناہوں سے باز رہنے کی تلقین بھی کرتے تھے۔
معاویہ حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت میں یہ ڈھنڑورا پیٹتا رہا کہ میں عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتا ہوں لیکن اب وہ کھتا تھا کہ میں قرآن و سنت اور سیرت خلفاء پر سوفی صد عمل کروں گا۔ اپنا جانشین بھی مقرر نہیں کرتا۔ میری خلافت کے بعد یہ خلافت حضرت حسن بن علی علیہ السلام کو منتقل ہو جائے گی۔ گویا اس نے واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا خلافت امام حسن علیہ السلام کی ہے اور آپ ہی اس کے سزاوار ہیں۔ فی الحال آپ یہ ذمہ داری مجھے سونپ دیں میں ان شرائط کے تحت عمل کروں گا۔ اس نے ایک سفید کاغذ امام علیہ السلام کی خدمت میں روانہ کیا اور اس پر اپنے دستخط بھی کر دیئے اور کہا کہ امام حسن علیہ السلام جو بھی مناسب سمجھیں اپنی شرائط لکھ دیں، میں ان کو قبول کرتا ہوں۔ میں صرف حاکم وقت کے طور پر کام کرنا چاہتا ہوں اور میری کوشش ہوگی کہ اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کروں۔ دراصل یہ ایک طرح کی معاویہ کی شاطرانہ چال تھی۔ اب اگر فرض کریں کہ ایسا ایک عظیم امام علیہ السلام کے ساتھ کیوں ہوا ہے کہ معاویہ نے سفید کاغذ بھیج کر امام علیہ السلام سے دستخط لئے اور کچھ شرائط پیش کر کے یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ آپ ایک کنارے پہ چلے جائیں۔ آپ کو خلافت کی ضرورت ہی نہیں ہے آپ کی جگہ پر میں جو ہوں۔ رہی بات اسلامی قوانین کے نفاذ کی تو میں کرلوں گا۔ اب اگر آپ ہماری شرائط قبول نہیں کریں گے تو ایک خونی جنگ شروع ہو جائے گی۔
لھذا آپ چھوڑیں سب باتوں کو اور ایک گوشہ میں بیٹھ کر اللہ اللہ کریں۔ اگر امام حسن علیہ السلام اس مقام پر صبر وتحمل سے کام نہ لیتے تو ایک بہت بڑی جنگ چھڑ سکتی تھی یہ جنگ دو تین سالوں تک لڑی جاتی اور اس میں ھزاروں افراد لقمہ اجل ہوتے جانی ومالی نقصان کےساتھ ساتھ امام حسن علیہ‌السلام بھی شھید ہوجاتے تو آج تاریخ اسلام امام حسن علیہ السلام پر اعتراض کر سکتی تھی کہ آپ نے جنگ کی بجائے امن کو ترجیح کیوں نہیں دی؟ امام علیہ السلام نے اس میں صلح کو ترجیح دی۔ پیغمبر اسلام نے صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے بھی کئی موقعوں پر صلح کی تھی انسان کو کھیں تو صلح کرنی چاہی ے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ معاویہ صرف حکومت چاہتا تھا نہ وہ آپ سے یہ خواہش کرتا تھا کہ آپ علیہ‌السلام اس کو بطور خلیفہ تسلیم کریں اور وہ یہ نہ کھتا تھا کہ آپ اسے امیر المومنین علیہ‌السلام کا لقب دے کر پکاریں۔ وہ آپ سے بیعت کا مطالبہ کرتا ہے اگر آپ کھیں کہ آپ کی جان خطرے میں ہے تو وہ آپ کے بابا علی علیہ السلام کے شیعوں کو امن وامان کے بارے میں لکھ کر دینے کو تیار ہے صفین کی تمام ناراضگیاں ختم کرتا ہوں۔ آپ کی مالی پریشانی دور کرتا ہوں، حسب ضرورت رقم بھی دیتا ہوں تاکہ آپ کسی قسم کی اقتصادی مشکلات کا شکار نہ ہوں۔ آپ اور آپ کے شیعہ آرام سے زندگی بسر کریں۔
اگر امام حسن علیہ السلام ان شرائط کے ساتھ صلح نہ کرتے تو آج بھی تاریخ ان پر یہ اعتراضات کرسکتی تھی جب آپ نے معاویہ کی شرائط کو مان لیا تو تاریخ آج اس کی مذمت کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ کہ معاویہ ایک چالاک وعیار سیاستدان تھا وہ ان شرائط کی آڑ میں دنیاوی فوائد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ وہ حکومتی، سیاسی مفادات کے تحفظ کے سوا اور کچھ نہ چاہتا تھا۔ یھی وجہ ہے کہ جب وہ مکمل طور پر مسند حکومت پر بر اجمان ہوگیا تو وہ نہ فقط ان طے کردہ شرائط کو بھول گیا بلکہ وہ امام علیہ السلام کو طرح طرح کی اذیتیں دینے لگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ کوفہ میں آتا ہے تو لوگوں میں تقریر کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں اعلان کرتا ہے اے کوفہ والو! میں نے پہلے آپ سے جنگ اس لئے نہیں کی کہ نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، حج کریں اور زکوٰۃ دیں” ولکن لا تامرکم علیکم”بلکہ اس لئے جنگ کی کہ آپ پر حکومت کروں۔ پھر جب اس نے محسوس کیا کہ یہ میں نے کیا کہا تو پھر پینترا بدل لیا اور کہا اس قسم کے مسائل آپ خود حل کریں میں ان مسائل کے بارے میں کیا کیا کرتا پھروں۔ پہلے تو اس نے خود ہی یہ شرط لگا دی کہ میرے مرنے کے بعد خلافت امام حسن علیہ السلام کو ملے گی اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کو لیکن سات آٹھ سالوں کے بعد جب اس نے دیکھا کہ اس کی حکومت ختم ہونے والی ہے تو اس نے یزید کی خلافت کا مسئلہ شروع کردیا چونکہ حضرت علی علیہ السلام کے ماننے والے اس کی قرار داد کو جانتے تھے اس لئے انھوں نے اس کے اس پروگرام کی مخالفت کی۔
تو اس نے مومنین کےساتھ وھی کیا جو کہ ایک ظالم حکمران اپنی رعیت کے ساتھ کرتا ہے۔ واقعتاً معاویہ شروع ہی سے شاطر وعیار شخص تھا۔ فقھاء اسلام نے اس کو خلفاء کی فھرست سے اس لئے خارج کردیا کہ اس کے سیاہ اعمالناموں کو دیکھ کر تاریخ اسلام شرما اٹھتی ہے۔ وہ ان حکمرانوں سے بھی پست سوچ رکھتا تھا جو عام دنیا کی خاطر صرف اور صرف حکومت کرنے آتے ہیں۔ اس طرح کے بادشاہ اپنی حفاظت کرتے ہے اور اپنی ہی حکومت کی بقاء چاہتے ہے ان درباروں میں فقط خوشامدیوں کو نوازا جاتا ہے۔ معاویہ کی تاریخ کو پڑھا جائے تو اس کو کسی طرح کوئی بھی مسلمانوں کا خلیفہ کہنا پسند نہیں کرے گا۔ یھی وجہ ہے جب امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے حالات کا موازنہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان دونوں شھزادوں، آقا زادوں کے حالات کا آپ میں بہت زیادہ فرق ہے۔ پھر حالات بدلے، زمانہ بدلا، منبر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم پر وہ شخص بر اجمان ہوا جو اسلام تو اسلام انسانیت کا دشمن تھا۔ اس وقت امام حسین علیہ السلام نے جو موقف اختیار کیا قیامت تک آنے والے حق پرست اس جملے کو سلام عقیدت پیش کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
"من رای سلطانا جائزا مستحلا لحرام الله کان حق علی الله ان یدخله مدخله”
کہ اگر کوئی ظالم شخص کی حکومت کو دیکھے کہ وہ ایسے ایسے کام کررہا ہو اور ان کو دیکھ کر وہ چپ رہے تو اللہ تعالی کے نزدیک وہ گناہگار ہے۔”
اس وقت امام حسن علیہ السلام نے اسلام کی عظیم تر مصلحتوں اور حکمتوں کے مطابق عمل کرتے ہوئے مکر وفریب کے مقابلے میں امن وشرافت کی وہ داغ بیل ڈالی کہ انسانیت قیامت تک اس پر فخر کرتی رہے گی۔ دراصل امام حسن علیہ السلام کی صلح قیام حسینی کے لئے پیش خیمہ تھی۔ ضروری تھا کہ امام حسن علیہ السلام ایک عرصہ تک کے لئے خاموش ہو جائیں تاکہ اموی خاندان کی اصلیت اور حقیقت لوگوں پر آشکار ہو جائے اور اس کے بعد ایسا عالمگیر انقلاب آئے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ انسانی کے ماتھے کا جھومر بن جائے۔ معاویہ نے جب قرارداد کے اصولوں کی کہلے عام خلاف ورزی کی تو امام حسن علیہ السلام کے کچھ شیعہ آپ کی خدمت میں آئے اور عرض کی یا حضرت علیہ السلام ! اب وہ قرارداد خودبخود ختم ہوگئی ہے کیونکہ معاویہ نے اس کو خود ہی منسوخ کردیا ہے اور اس کے اصولوں کو پامال کردیا ہے لہذا آپ اٹھیے، قیام فرمایئے، فرمایا یہ انقلاب معاویہ کے بعد ہی آئے گا یعنی آپ لوگ صبر کریں۔ ایک مناسب وقت کا انتظار کریں، یہاں تک صورت حال واضح ہوجائے۔ وھی وقت وقت قیام ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن علیہ السلام معاویہ کے بعد تک زندہ رہ جاتے تو آپ وھی کرتے جو کہ امام حسین علیہ السلام نے کیا تھا۔ آپ ہر صورت میں علانیہ طور پر علم جھاد بلند کرتے ۔ متذکرہ بالا قیام حسینی کے تین محرکات کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ امام حسن علیہ السلام کا زمانہ امام حسین علیہ السلام کے دور سے یکسر مختلف تھا۔ ایک جگہ پر خاموشی مصلحت تھی، سکوت عبادت تھا اور دوسری جگہ پر کلمہ حق بلند کرنا، یزیدیت کے خلاف آواز بلند کرنا عبادت تھی۔ ایک امام سے بیعت طلب نہیں کی گئی اور دوسرے سے کی گئی دراصل بیعت کرنا بذات خود بہت بڑا مسئلہ ہے۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اگر امام حسین علیہ السلام کوفہ والوں کی درخواست مسترد کردیتے تو دامن عصمت پر اعتراض ہو سکتا تھا۔ لیکن امام عالی مقام کے انقلاب آفرین کردار نے ایسا انقلاب برپا کیا کہ بیس سال کے بعد کوفہ پھر اور کوفہ تھا۔ اس کوفے والے بنی امیہ سے سخت نفرت کرنے لگے، امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے اظہار عقیدت ہونے لگا، آج کے لوگ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر آنسو بہارہے تھے۔ درختوں نے پھل دینے شروع کیے ہیں۔ زمینیں سرسبز شاداب ہو چکی ہیں۔ مولا تشریف لے آیئے۔ یہاں کی فضا ساز گار ہے۔ اسی طرح کی دعوت اس بات کی مقتضی تھی کہ آپ کوفہ جائیں۔ جبکہ امام حسن علیہ السلام کے زمانے کا کوفہ کچھ اور طرح کا کوفہ تھا۔ امام حسن علیہ السلام کے خاموش اور پر حکمت انقلاب نے ایک نئی تاریخ مرتب کی اور ایک عالمگیر انقلاب کی کامیابی کا راستہ ہموار کیا۔ تیسرا محرک حکومت کی بد عملی تھی امام حسن علیہ السلام کے دور میں معاویہ اتنا کھل کر فسق و فجور نہ کرتا تھا کہ جتنا یزید نے کیا ۔ امام حسن علیہ السلام نے ایک وقت کا انتظار کیا۔ اور اسی وقت کی ذمہ داری آپ کے پیارے بھائی نے اپنے ہاتھ وں پر لی۔ اسلام کے مرجھائے ہوئے درخت اور کملائے ہوئے پھولوں میں وہ جان ڈالی کہ وہ درخت قیامت تک کے اجڑے ہوئے انسانوں اور لٹے ہوئے قافلوں کو غیرت و حیرت کے ساتھ جینے کا حوصلہ دیتا رہے گا۔
قرار داد میں کیا تھا؟
اب میں آپ کے سامنے وہ قرار داد کی عبارت پیش کرتا ہوں جو کہ معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کے ساتھ باندھی تھی:
۱) معاویہ کی حکومت واگزار کی جا رہی ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ قرآن و سنت اور سیرت خلفاء پر عمل کرے گا۔ میں یہاں پر ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا ایک اصول تھا کہ خلافت میرے ہاتھ میں ہو یا کسی اور کے ہاتھ میں باوجودیکہ خلافت میرا حق ہے میں قیام نہیں کروں گا، یہ لوگوں کا کام ہے، میں اس وقت قیام کروں گا جب خلافت غصب کی جا رہی ہوگی نھج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
"والله لا سلمن ما سلمت امور المسلمین ولم یکن فیها جورالاعلی خاصة”
امام حسن علیہ السلام کی قرارداد بھی یھی تھی کہ جب تک فقط مجھ پر ظلم کیا جارہا ہو، اور میرا حق غصب کیا گیا ہو تب تک میں خاموش رہوں گا لیکن جب کوئی غاصب حکمران مسلمانوں کے شرعی امور میں داخل اندازی کرنے لگ جائے تو پھر خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔”
۲) معاویہ کے مرنے کے بعد حکومت کرنے کا حق امام حسن علیہ السلام کو ہوگا اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام مسند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم کے وارث ہوں گے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صلح عارضی مدت کے لئے تھی۔ امام حسن علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ اب ہم جارہے ہیں تو جانے اور یہ خلافت جانے جب تک جی چاہے حکومت کرتا رہے پھر یہ صلح معاویہ کی زندگی تک تھی اس کے بعد وہ صلح خود بخود ختم ہوجائے گی اس لئے معاویہ کو حق نہیں پھنچتا کہ وہ سازشوں کے جال بچھاتا پھرے اور نہ ہی وہ کوئی دوسرا شخص بطور خلیفہ معین کرسکتا ہے۔
۳) معاویہ شام میں حضرت علی علیہ السلام پر کھلے عام طعن و تشنیع کرتا تھا اس صلح نامہ میں شرط عائد کی گئی کہ اس عمل بدکو روکا جائے۔
معاویہ نے نمازوں کے وقت جو علی علیہ السلام پر طعن و تشنیع کا سلسلہ شروع کر رکھا تھااس دن سے موقوف ہوگیا اب وہ علی علیہ السلام کو اچھے لفظوں کے ساتھ یاد کرتا تھا۔ اس قرار داد پر معاویہ نے دستخط کیے اور یہ سلسلہ رک گیا اس سے بیشتر وہ علی علیہ السلام کے خلاف جگہ جگہ پروپیگنڈا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ ہم ان کو برا بھلا (نعوذ باللہ) اس لئے کھتے ہیں کہ وہ اسلام سے خارج ہو چکے تھے۔ اب معاویہ پر اعتراض ہونے لگا کہ تو ایک شخص کو لعنت کا حقدار سمجھتا تھا اب تو اس کو اچھے لفظوں کے ساتھ یاد کر رہا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ کیا جارہا ہے وہ خواہشات نفسانی کی پیروی کے سوا کچھ نہیں ہے اس کے بعد پھر کیا ہوا؟ اس نے قرارداد کے اصولوں کو توڑ دیا، انسانی اقدار کو روند ڈالا اور پھر نوے ۹۰ سال تک یہ سلسلہ طول پکڑ گیا۔
۴) کوفہ کے بیت المال میں پانچ ملین درھم موجود تھے لھٰذا قرارداد کے مطابق اس کو سال میں دو ملین درھم امام حسن علیہ السلام کو بھیجنے چاہیں تھے یہ بات باقاعدہ قرارداد میں درج تھی تاکہ امام علیہ السلام اپنی اور اپنے ماننے والوں کی ضرورت پوری کرسکیں۔ ھدایا اور عطیات کے سلسلے میں بنی ھاشم کو بنی امیہ پر اہمیت دی جائے اور ایک ملین درھم امیر المومنین علیہ السلام سے تعلق رکھنے والے شھداء کے وارثان میں تقسیم کیا جائے۔ وہ شھدا جو جنگ جمل وصفین میں درجئہ شھادت پر فائز ہوئے تھے۔ شیراز کے آس پاس جتنا بھی علاقہ تھا وہ بنی ھاشم کے ساتھ خاص کر دیا گیا اور اس کی تمام آمدنی ان کو دی جائے گی۔
۵) لوگوں کے لئے امن وحفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ شام، عراق، یمن، حجاز، اور دیگر شھروں کے لوگوں کی حفاظت کی جائے کالے گورے کی تفریق نہیں ہونی چاہی ے۔ اور معاویہ کو چاہی ے کہ جنگ صفین کی تمام باتیں بھلادے۔ وہ لوگ جو صفین میں معاویہ کے خلاف لڑے تھے۔ معاویہ ان کی حفاظت وسلامتی کیلئے ضروری اقدامات کرے۔ عراقی عوام بھی پرانی سب باتیں بھلادیں۔ حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب جھاں کھیں بھی آباد ہیں ان کا خاص خیال رکھا جائے، اور شیعیان علی علیہ السلام کو کسی قسم کی تکلیف نہ پھنچائی جائے۔ علی علیہ السلام کے چاہنے والے اپنے مال، جان، ناموس اور اولاد کے سلسلے میں بے خوف رہیں۔ ان کی ہر لحاظ سے حفاظت کی جائے۔ حقدار کو حق دیا جائے اور اصحاب امام علی السلام کے پاس جو کچھ ہے ان سے نہ لیا جائے۔ اور امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اور خاندان رسالت کے کسی فرد کو تکلیف نہ پھنچے ۔ ان کا احترام کیا جائے آرٹیکل نمبر ۵ اور ۳ میں حضرت علی علیہ‌السلام کے خلاف کھلے عام مخالفت کرنے کے بارے میں تھا۔ اگر چہ معاویہ نے پہلی شرط میں بھی مان لیا تھا کہ وہ قرآن و سنت اور سیرت خلفاء کے مطابق عمل کرے گا لیکن پھر کیا وجہ تھی کہ وہ اس مسئلہ کو علیحدہ شرط کے طور پر لکھ رہا تھا؟اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا والوں پر ثابت کردے کہ مولا علی علیہ السلام کے خلاف ناسزا الفاظ کھنا جائز ہے؟ یہ بھی ایک طرح کی سازش تھی۔ یہ تھی قرارداد کی مجموعی عبارت ! معاویہ نے اپنے نمائندہ خصوصی عبداللہ بن عامر کو خالی کاغذ پر اپنے دستخط کر کے امام حسن علیہ السلام کے پاس بھیجا آپ جو بھی شرائط لکھیں گے میں ان کو قبول کروں گا اس کے بعد معاویہ نے خدا اور پیغمبر کی قسمیں کھائیں کہ وہ ایسا کرے گا اور ایسا نہ کرے گا اور اس نے زبانی طور پر اس طرح کی باتیں کیں اور پھر اس کاغذ پر دستخط کر دیئے۔ یہ بات بہر صورت تسلیم کرنا پڑے گی کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے زمانوں اور حالات میں بہت زیادہ فرق تھا۔
اگر امام حسین علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام کی جگہ پر ہوتے تو آپ بھی وھی کرتے جو کہ آپ کے بڑے بھائی جناب امام حسن علیہ السلام نے کیا تھا اسی طرح امام حسن علیہ السلام معاویہ کے بعد تک زندہ رہتے تو آپ امام حسین علیہ السلام کی مانند قیام کرتے ان دونوں شھزادوں کا طرز زندگی اور حکمت عملی ایک جیسی تھی کیونکہ وہ ایک شجر کے دو ثمر تھے۔
سوال اور جواب
سوال: اگر حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام کی جگہ پر ہوتے تو کیا آپ صلح کرتے یا نہ؟ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ میں معاویہ کی حکومت کو ایک دن کیلئے برداشت نہ کروں گا لیکن امام حسن علیہ السلام نے حکومت معاویہ کو کیوں تسلیم کیا؟
جواب: آپ کے اس سوال کا جواب صاف ظاہر ہے کہ اگر حضرت علی علیہ السلام اپنے صاجزادے، امام حسن علیہ السلام کی جگہ پر ہوتے تو بالکل ویسا کرتے جس طرح امام حسن علیہ السلام نے کیا تھا۔ اگر حضرت علی علیہ السلام کو مسند خلافت پر قتل کیے جانے کا خدشہ ہوتا یا ویسے حالات پیدا ہوتے جو کہ امام حسن علیہ السلام کو پیش آئے تھے تو آپ بھی انھی شرائط کے تحت صلح کر کے گوشہ نشینی اختیار کر لیتے لیکن حضرت علی علیہ السلام کا دور بہت مختلف دور تھا ۔ مولا علی علیہ السلام کو طرح طرح کی الجھنو اور مشکلات میں الجھایا گیا۔ فتنوں، شرانگیزیوں، سازشوں، شورشوں اور یورشوں نے مولا علی علیہ السلام کو یوں الجھائے رکھا کہ اگر آپ کی جگہ پر پتھر ہوتا تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتا، اگر لوہا ہوتا تو وہ بھی موم ہوجاتا۔ یہ صرف اور صرف علی علیہ السلام کا دل تھا کہ مصیبتوں کے طوفانوں اور پہاڑوں کا شجاعانہ مقابلہ کرتے رہے۔ جنگ صفین میں آپ فتح حاصل کر چکے تھے۔ اگر خوارج نیزوں پر قرآن بلند کر کے نہ آتے تو علی علیہ السلام بڑی آسانی سے جنگ جیت چکے ہوتے۔ باقی آپ کا یہ کھنا کہ مولا علی علیہ السلام مشکل کشاء، شیر خدا ایک دن بھی معاویہ کی حکومت کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے، لیکن امام حسن علیہ السلام نے حکومت کو تسلیم کر لیا تھا؟
آپ نے ان دونوں مسئلوں کو خلط ملط کردیا، حالانکہ یہ دونوں مسئلے الگ الگ ہیں۔ ان کے درمیان ویسے ہی فرق ہے جیسا کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے احوال میں فرق تھا۔جس طرح حضرت علی علیہ السلام نہیں چاہتے تھے کہ معاویہ آپ کا نائب بن کر مسند خلافت پر بیٹھے یا آپ علیہ السلام اس کو حاکم وقت مقرر کریں، اسی طرح امام حسن علیہ السلام نے بھی اس کو اپنا نائب اور جانشین نہیں بنایا تھا۔ صلح کا مقصد یہ ہے کہ آپ ایک کنارے پر چلے گئے تھے۔ آپ نے اس کی حکومت کو قطعی طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس قرارداد میں آپ کو ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملے گا کہ جس میں آپ نے معاویہ کو بطور خلیفہ تسلیم کیا ہو۔ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم ایک کونے میں جارہے ہیں اور تو جانے اور تیرا کام جانے۔آپ علیہ‌السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ تو جو کچھ کام انجام دے گا وہ ٹھیک ہے۔ پس حالات کا فرق ہوا تو طریقہ کار بھی بدل گیا۔ جس طرح مولا علی علیہ السلام نے حکومت کو مسترد کردیا تھا اسی طرح امام حسن علیہ السلام نے بھی اس کی حقانیت و خلافت کو قبول نہیں کیا تھا۔ موقع محل کو دیکھ کر جس طرح تلوار اٹھانا عبادت ہے اسی طرح امت اسلامیہ ک بھتری کیلئے خاموش ہو جانا بھی عبادت ہے۔
سوال:کیا حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو یہ وصیت کی تھی کہ آپ اس کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کریں؟
جواب:مجھے یاد نہیں آرہا کہ امام علیہ السلام نے اس قسم کی کوئی وصیت کی ہو لیکن جھاں تک تاریخ میں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام آخر دم تک معاویہ سے جنگ کرنے کے خواہاں تھے۔ آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اس چپقلش سے دو چار تھے۔ امام علی علیہ السلام کو جو چیز سب سے زیادہ پریشان کرتی تھی وہ معاویہ کی منافقانہ ڈپلومیسی تھی۔ حضرت اس کو سخت نا پسند کرتے تھے۔ آپ کی خواہش تھی کہ جب تک معاویہ ہلاک نہیں ہوجاتا اس سے جنگ جاری رکھنی چاہی ے۔آپ کی شھادت سے معاویہ سے جنگ کا سلسلہ ٹوٹ گیا اگر آپ کو شھید نہ کیا جاتا تو ایک اور جنگ پیش آسکتی تھی۔
حضرت علی علیہ السلام کا نھج البلاغہ میں ایک مشھور خطبہ ہے اس میں آپ لوگوں کو جھاد کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اس کے بعد جنگ صفین میں شھید ہونے والے اپنے باوفا صحابہ کو یاد کرتے ہیں۔ فرمایا:
"این اخوانی الذین رکبوا الطریق ومضوا علی الحق این عمار واین ابن التیهان واین ذو الشهادتین” (۲۳)
"کھاں گئے ہیں میرے بھائی، میرے ساتھی، وہ سیدھے راستے پر سوار ہوئے یقیناًوہ حق پر تھے عمار یاسر اور میرے دوست کھاں ہیں؟”
اس کے بعد آپ نے گریہ کیا۔ آپ کا یہ خطاب نماز جمعہ میں تھا۔ آپ نے لوگوں کو آگے بڑھنے اور جھاد کرنے کی ترغیب دلائی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ ابھی دوسرا جمعہ نہ آیا تھا کہ آپ کو ضربت لگی اور شھید ہوگئے۔ امام حسن علیہ السلام نے بھی شروع میں معاویہ سے جنگ کرنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن جب اپنے اصحاب کی بے پرواہی اور اندرونی اختلافات کو ملاحظہ فرمایا تو آپ نے جنگ کا ارادہ ترک کردیا۔ دوسرے لفظوں میں جب آپ نے یہ دیکھا کہ جنگ کرنے سے جگ ھنسائی ہوگی آپ نے بھتر سمجھا کہ اس حالت میں خاموش رہنے ہی میں عافیت ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے ایمانی لحاظ سے ایک طاقتور جماعت تیار کی جو کہ بڑی اور سخت سے سخت مشکل کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔ یہ کسی تاریخ نے نہیں لکھا کہ آپ کی جماعت کا کوئی ایک فرد بھی دشمن کی فوج میں شامل ہوا ہو بلکہ آخری دم تک استقامت کے یہ پہاڑ اپنی اپنی جگھوں اور اپنے ارادوں پر ڈٹے رہے۔ ان کے بچوں تک نے بھی خواہش نہیں کی وہ فوج یزید میں سے ہوتے؟لیکن امام علیہ السلام کی پاکیزہ کردار کی کشش تھی کہ دشمن کی فوج سے منحرف ہو کر بہت سے افراد لشکر امام میں شامل ہوئے۔ امام عالی مقام کے اصحاب میں سے کسی نے کسی مقام پر ایمان کی کمزوری اور بزدلی نہیں دکھائی۔ ضحاک بن عبداللہ مشرقی امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا کہ مولاعلیہ‌السلام میں ایک شرط پر آپ کے لشکر میں شامل ہونا چاہتا ہوں کہ میں جب تک آپ کے لشکر میں رہوں گا کہ میں اور میرا وجود آپ کیلئے مفید ہے۔ لیکن جب دیکھوں گا کہ میرا آپ کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پھنچ رہا تو میں آپ سے جدا ہو کر چلا جاؤں گا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا ٹھیک ہے آپ ہمارے پاس آجایئے چنانچہ یہ شخص لشکر امام میں شامل ہوگیا۔
عاشورہ کے آخری لمحات تک یہ شخص وھیں رہا اس کے بعد کھنے لگا مولا اب میں جانا چاہتا ہوں کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا آپ کو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہے آپ نے فرمایا ٹھیک ہے اگر تم جانا چاہتے ہو تو جاؤ اس کے پاس بہت اعلی قسم کا گھوڑا تھا یہ اس پر سوار ہوا اور اس کو ایڑی لگائی اور لشکر یزید کو چیرتا ہوا باہر نکل گیا۔ چند یزیدیوں نے صحاک کا تعاقب کیا وہ اس کو گرفتار کرنا چاہتے تھے لیکن ان سپاہیوں میں اس کا ایک واقف کار نکل آیا اس نے کہا اسے جانے دیجیئے کہ یہ جنگ نہیں کرنا چاہتا۔ انھوں نے اسے جانے دیا اس کے علاوہ کسی ایک شخص نے بھی لشکر امام میں سے اپنے ایمان کی کمزوری نہیں دیکھائی۔ لیکن امام حسن علیہ السلام کے اصحاب اگر بزدلی اور کمزوری نہ دکھاتے تو آپ کسی طرح بھی صلح نہ کرتے ایک تو آپ شھید ہوجاتے دوسرے رسوائی ہوتی اس لئے آپ نے مصالحت کی۔
یہ وہ فرق ہے کہ جو ایک کے قیام اور دوسرے کی مصالحت پر منتج ہوا۔ جس طرح حضرت علی علیہ السلام معاویہ سے جنگ کے خواباں تھے کی طرح امام حسن علیہ السلام بھی ان سے لڑنا چاہتے تھے لیکن جب کوفہ والوں کی بے وفائی اور بے پرواہی دیکھی تو آپ نے جنگ کا ارادہ بدل لیا یہاں تک کہ امام علیہ السلام کے لشکر میں بھی کمی واقع ہوگئی، تو آپ نے شھر سے باہر آکر فوجیوں سے فرمایا آپ نخیلہ مقام پر جائیں اور آپ نے خطبہ دیا اور لوگوں کو جھاد کی طرف دعوت دی تو سبھی خاموش رہے، اس مجمع میں صرف عدی بن حاتم اپنی جگہ سے اٹھا اور لوگوں کی ملامت کی اور کہا کہ میں خود جاتا ہوں چنانچہ وہ چل پڑا ایک ھزار آدمی بھی اس کے ساتھ چل پڑے اس کے بعد امام حسن علیہ السلام نخیلہ مقام پر تشریف لے گئے اور دس دنوں تک وھیں پر قیام فرمایا۔ صرف چار ھزار آدمی جمع ہوئے حضرت دوسری مرتبہ پھر تشریف لائے اور لوگوں کو دوبارہ جھاد کی طرف راغب کیا اس مرتبہ لوگوں کی جمعیت کچھ زیادہ اکٹھی ہوئی لیکن اس کے باوجود انھوں نے ایمان کی کمزوری اور بزدلی کا مظاہر کیا۔ رات ہوئی معاویہ کی طرف سے کچھ لوگ آئے ان کے سرداروں کو پیسے دئیے چنانچہ اسی رات کو وہ لوگ بھاگ کر چلے گئے، ٹولیاں ٹولیاں بنا کر جارہے تھے۔ اس افسوسناک صورت حال کو دیکھ کر حضرت نے مناسب سمجھا کہ ذلت کے بجائے عزت کے ساتھ خاموشی اختیار کی جائے۔
سوال: آپ نے یہ فرمایا کہ اگر امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو تاریخ ان پر اعتراض کرسکتی تھی۔ میرے خیال کے مطابق امام علیہ السلام اگر صلحنامہ پر دستخط نہ کرتے تو ان کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، کیونکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ معاویہ ایک چالاک وعیار شخص تھا۔ اس نے امام حسن علیہ السلام کی طرف ایک سفید کاغذ بھجوا کر ایک چال کھیلی تھی۔ معاویہ کو تو لوگ حضرت امیر علیہ السلام کے زمانہ سے جانتے تھے کہ یہ شخص صرف اور صرف اقتدار کا بھوکا ہے اور کرسی کے حصول کیلئے اس طرح کے حربے استعمال کرتا رھتا ہے؟
جواب: یہ درست ہے کہ معاویہ بہت ہی چالاک انسان تھا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے اسلامی شرائط کو قبول کیا ہے یا غیر اسلامی کو؟ ظاہر ہے اسلامی شرائط ہی امام علیہ السلام نے قبول فرمائی تھیں۔ دوسری بات یہ صلح نامہ ذاتی مقصد اور شخصی مفاد کیلئے نہیں تھا بلکہ اس میں تمام مسلمانوں کے فوائد مضمر تھے۔ تیسری بات امام حسن علیہ السلام کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھ ہر گز وفانہ کی۔ پھر اس وقت حکومتی مشینری شب وروز پروپیگنڈا کر رہی تھی کہ معاویہ تو امام علیہ السلام کی ہر بات مانتا ہے لیکن امام علیہ السلام نہیں مانتے ظاہر ہے اس وقت کا مورخ یھی لکھتا کہ نعوذ باللہ امام حسن علیہ السلام صلح جو انسان نہیں ہیں حالانکہ امن وسلامتی کا قیام ائمہ طاہر ین علیھم السلام کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ آپ نے یہ کہا کہ وہاں کے عوام حضرت امیر علیہ السلام کے زمانہ سے معاویہ کو پوری طرح سے جانتے اور پھچانتے تھے۔ کہ وہ اپنی ایک بات پر قائم نہیں رھتا کھتا کچھ ہے اور کرتا کچھ اور ہے دراصل معاملہ کچھ یوں تھا کہ لوگ معاویہ کو اچھا انسان تو نہیں سمجھتے تھے لیکن ان کے نزدیک وہ حکمران اچھا تھا۔ اس لئے بھی کوفہ والے قدر ے خاموش ہوگئے ۔ عوامی ردعمل یہ تھا کہ اگر وہ اچھا انسان نہیں ہے تو کیا اچھا حکمران تو ہے وہ کہا کرتے تھے کہ معاویہ نے خطہ شام کو کس طرح سنوارا ہے، اور وہاں کے لوگ کس طرح خوشحال ہیں؟ لوگوں نے معاویہ کو اس طرح پھچان رکھا تھا پھر اس کو حکمران ہونے کے باعث پورے ملک پر مکمل قدرت حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔ اس لئے سبھی خاموش تھے۔ اب ان حالات میں حق وصداقت، سچائی و راستبازی کے پیکر امام حسن علیہ السلام تن تنھا کیا کرتے؟
اس وقت لوگوں میں یہ بات عام تھی کہ معاویہ وقت کا بہت بڑا سیاستدان ہے۔ مورخین نے معاویہ کی اس مقام پر مذمت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر وہ کوفہ میں بھی حلم وبردباری اور اچھے کردار کا عملی مظاہر ہ کرتا تو وہ اسلامی و دینی نقطہ نظر سے بھی کامیاب ہوتا۔ معاویہ کے بارے میں مشھور تھا کہ وہ بردبارسیاستدان ہے۔ لوگ اس کو جاکر سر عام گالیاں دیتے اور برا بھلا کھتے تھے لیکن وہ ان کی تمام باتیں سنی ان سنی کر دیتا تھا، اور ھنستے مسکراتے ہوئے ان کو انعام واکرام سے نوازتا تھا۔ اس کے اس رویے کی وجہ سے لوگوں کی سوچ بدل جاتی اور اس کی اس بات پر لوگ بہت زیادہ خوش ہوگئے تھے کہ معاویہ دنیا دار حکمران ہے۔ امام حسن علیہ السلام اس لئے خاموش ہوگئے تھے کہ وہ لوگوں کے اذھان پیسوں سے خرید لیا کرتا تھا۔ لوگوں کو اس سےغرض نہ تھی کہ وہ نیک ہو، اچھا ہو، دیندار ہو۔ بلکہ وہ چاہتے تھے کہ جو حکومتی امور کو بآ احسن چلا سکے۔
معاویہ کے بارے میں مشھور تھا کہ وہ ایک جاہ طلب اقتدار کا بھوکا انسان تھا (جس طرح آج کے دور میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کو خریدا جاتا ہے اس وقت بھی معاویہ اعتراض کرنے والے کو پیسے دے کر خاموش کرا دیتا تھا بلکہ اس کے بڑے بڑے مخالف مالی و مادی لالچ کی وجہ سے اس کے ساتھی بن گئے) اب آپ ہی فرمایئے کہ امام حسن علیہ السلام صلح نامہ پر دستخط کر کے گوشہ تنھائی میں نہ بیٹھیں تو کیا کریں۔ واقعتاً حالات نے امام علیہ السلام کو بے بس اور مجبور کردیا تھا۔
سوال: کیا امام حسین علیہ السلام نے اس صلحنامہ پر دستخط کیے تھے؟ کیا آپ نے اپنے بھائی جان امام حسن علیہ السلام پر اعتراض نہیں کیا تھا یا روکا نہیں تھا کہ وہ بیعت نہ کریں؟
جواب: میں نے کھیں نہیں پڑھا کہ مولا امام حسین علیہ السلام نے بھی اس پر دستخط کیے ہوں دراصل آپ کی اجازت اور آپ کے دستخطوں کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ اس وقت کے امام اور دینی سر براہ امام حسن مجتبی علیہ السلام تھے۔ جب ایک سربراہ موجود ہوتا ہے تو دوسرے کے احکامات اور آراء کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ امام حسین علیہ السلام کا فیصلہ بھی وھی تھا جو امام حسن علیہ السلام کا تھا۔ صلح کے بعد ایک گروہ امام حسین علیہ السلام کے پاس آیا اور عرض کی مولا ہم اس صلح کو قبول نہیں کرتے۔ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں اور آپ قیام فرمایئے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا میرے پیارے بھائی جناب حسن علیہ السلام نے جو کچھ کیا ہے صحیح کیا ہے میں تو ان کے فرامین پر عمل کرنے کا پابند ہوں۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کی سوچ ایک تھی۔ امام حسن کی ذات گرامی امام حسین علیہ السلام کیلئے ایک معتبر حوالہ اور حرف آخر کے طور پر حیثیت رکھتی تھی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ معاویہ کے مذاکرات اور صلحنامہ کے وقت امام حسین علیہ السلام نے مشورہ دینے کی بھی کوشش نہیں کی کیونکہ امام حسین علیہ السلام بخوبی جانتے تھے کہ اس وقت کے محمد، صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم علی،علیہ السلام حسن علیہ السلام ہی ہیں۔ جو کھیں گے سچ کھیں گے اور جو کریں گے ٹھیک کریں گے۔ کیونکہ وہ وقت کے امام اور وقت کے سب سے بڑے دانائے راز ہیں اور امام کبھی خطاء نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی سوچ الہٰی ہوتی ہے۔ امام علیہ السلام کو اللہ تعالی کی طرف سے رھنمائی ہوتی ہے۔ غلطی کا شائبہ تک نہ ہوتا۔ (میرے نزدیک امام حسن علیہ السلام کے مدبرانہ اقدام پر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم اور علی مرتضی علیہ السلام نے انھیں داد تحسین دی ہوگی اور جناب فاطمۃ الزھراءعلیھا‌السلام نے دعائیں دی ہونگی۔ امام حسین علیہ‌السلام نے آگے بڑھ کر اپنے جلیل القدر بھائی کو گلے لگایا ہوگا۔ جناب جبرائیل امین علیہ‌السلام نے اس منظر کو دیکھ کر ملائکہ کو نوید مسرت دی ہوگی کہ آج کا محمد (ص)، آج کا علی علیہ السلام کس احسن طریقہ سے دین الہٰی کی تبلیغ کے فرائض انجام دے رہا ہے؟ ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ مولا‌! آپ نے ان کربناک لمحوں میں جس حسن تدبر کا مظاہر ہ کیا ہے اس پر آپ کو پوری انسانیت خراج تحسین پیش کرتی ہے۔)
کتاب ” سیرت آل محمد علیھم السلام” سے اقتباس
SOURCE: alhassanain.org

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button