سلائیڈرمناقب امام حسین عمناقب و فضائل

واقعہ کربلا سے قبل امام حسین علیہ السلام کی شخصیت و فعالیت

آیت اللہ سید علی خامنہ ای
اِن بزرگ ہستیوں کے درمیان بھی بہت سی عظیم شخصیات پائی جاتی ہیں کہ جن میں سے ایک شخصیت حضرت امام حسین علیہ السلام کی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ کہنا چاہیے کہ ہم خاکی ، حقیر اور ناقابل انسان بلکہ تمام عوالم وجود ، بزرگان و اولیائ کی ارواح اور تمام ملائکہ مقربین اور اِن عوالم میں موجود تمام چیزوں کیلئے جو ہمارے لیے واضح و آشکار نہیں ہیں، امام حسین علیہ السلام کا نورِ مبارک، آفتاب کی مانند تابناک و درخشاں ہے۔ اگر انسان اِس نورِ آفتاب کے زیر سایہ زندگی بسر کرے تو اُس کا یہ قدم بہت سود مند ہوگا۔
توجہ کیجئے کہ امام حسین علیہ السلام نہ صرف یہ کہ فرزند پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے بلکہ علی ابن ابی طالب و فاطمہ زہرا علیھما السلام کے بھی نور چشم تھے اور یہ وہ چیزیں ہیں کہ جو ایک انسان کو عظمت عطا کرتی ہیں۔ سید الشہدا عظیم خاندان نبوت، دامن ولایت و عصمت اور جنتی اور معنوی فضاو ماحول کے تربیت یافتہ تھے لیکن اُنہوں نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ جب حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو آپ کی عمر مبارک آٹھ ، نو برس کی تھی اور جب امیر المومنین علیہ السلام نے جام شہادت نوش کیا تو آپ سینتیس یا اڑتیس سال کے نوجوان تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ خلافت میں کہ جو امتحان و آزمایش اور محنت و جدوجہد کا زمانہ تھا، آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ اپنی صلاحیتوں اور استعداد کو پروان چڑھانے میں بھرپور محنت کی اور ایک مضبوط و مستحکم اور درخشاں و تابناک شخصیت کی حیثیت سے اُبھرے۔
اگر ایک انسان کا حوصلہ اور ہمت ہمارے جیسے انسانوں کی مانند ہو تو وہ کہے گا کہ بس اتنی ہمت و حوصلہ کافی ہے، بس اتنا ہی اچھا ہے اور خدا کی عبادت اور دین کی خدمت کیلئے ہمت و حوصلے کی اتنی مقدار ہمارے لیے کافی ہو گی لیکن یہ حسینی ہمت و حوصلہ نہیں ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے برادر بزگوار کے زمانہ امامت میں کہ آپؑ ماموم اور امام حسن علیہ السلام ،امام تھے، اپنی پوری طاقت و توانائی کو اُن کیلئے وقف کردیا تاکہ اسلامی تحریک کو آگے بڑھایا جاسکے ؛ یہ دراصل اپنے برادر بزرگوار کے شانہ بشانہ وظائف کی انجام دہی ، پیشرفت اور اپنے امامِ زمانہ کی مطلق اطاعت ہے اور یہ سب ایک انسان کیلئے عظمت و فضیلت کا باعث ہے۔ آپ امام حسین علیہ السلام کی زندگی میں ایک ایک لمحے پر غور کیجئے۔ شہادت امام حسن علیہ السلام کے وقت اور اُس کے بعد جو ناگوار حالات پیش آئے ، آپ نے اُن سب کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اور تمام مشکلات کو برداشت کیا۔ امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ تقریباً دس سال اور چند ماہ زندہ رہے؛ لہٰذا آپ توجہ کیجئے کہ امام حسین علیہ السلام نے واقعہ کربلا سے دس سال قبل کیا کام انجام دیئے۔
دین میں ہونے والی تحریفات سے مقابلہ
امام حسین علیہ السلام کی عبادت اورتضرّع وزاری، توسُّل ، حرم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کا اعتکاف اور آپ کی معنوی ریاضت اور سیر و سلوک؛ سب امام حسین علیہ السلام کی حیات مبارک کا ایک رُخ ہے۔ آپ کی زندگی کا دوسرا رُخ علم اور تعلیمات اسلامی کے فروغ میں آپ کی خدمات اور تحریفات سے مقابلہ کیے جانے سے عبارت ہے۔ اُس زمانے میں ہونے والی تحریف دین درحقیقت اسلام کیلئے ایک بہت بڑی آفت و بلا تھی کہ جس نے برائیوں کے سیلاب کی مانند پورے اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اسلامی سلطنت کے شہروں، ممالک اور مسلمان قوموں کے درمیان اِس بات کی تاکید کی جاتی تھی کہ اسلام کی سب سے عظیم ترین شخصیت پر لعن اور سبّ و شتم کریں۔ اگر کسی پر الزام ہوتا کہ یہ امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت و امامت کا طرفدار اور حمایتی ہے تو اُس کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی۔
’’اَلقَتلُ بِالظَنَّةِ وَالآَخذُ بِالتُّهمَةِ ‘‘
(صرف اِس گمان و خیال کی بنا پر کہ یہ امیرالمو منین کا حمایتی ہے ، قتل کردیا جاتا اور صرف الزام کی وجہ سے اُس کا مال و دولت لوٹ لیا جاتا اور بیت المال سے اُس کاوظیفہ بند کردیا جاتا)۔
اِن دشوار حالات میں امام حسین علیہ السلام ایک مضبوط چٹان کی مانند جمے رہے اور آپ نے تیز اور برندہ تلوار کی مانند دین پر پڑے ہوئے تحریفات کے تمام پردوں کو چاک کردیا، (میدان منی میں) آپ کا وہ مشہور و معروف خطبہ اور علما سے آپ کے ارشادات یہ سب تاریخ میںمحفوظ ہیں اور اِس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام اِس سلسلے میں کتنی بڑی تحریک کے روح رواں تھے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر
آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی وسیع پیمانے پر انجام دیا اور یہ امر و نہی، معاویہ کے نام آپ کے خط کی صورت میں تاریخ کے اوراق کی ایک ناقابل انکار حقیقت اور قابل دید حصّہ ہیں۔ اتفاق کی بات تو یہ ہے کہ اِ س خط کو کہ جہاں تک میرے ذہن میں ہے، اہل سنت مورخین نے نقل کیا ہے، یعنی میں نے نہیں دیکھا کہ شیعہ مورخین نے اُسے نقل کیا ہویا اگر نقل بھی کیا ہے تو سنی مورخین سے نقل کیا ہے۔ آپ کا وہ عظیم الشّان خط اور آپ کا مجاہدانہ اور دلیرانہ انداز سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دینا دراصل یزید کے سلطنت پر قابض ہونے سے لے کر مدینے سے کربلا کیلئے آپ کی روانگی تک کے عرصے پر مشتمل ہے۔ اِس دوران آپ کے تمام اقدامات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھے۔ آپؑ خود فرماتے ہیں کہ
’’اُرِیدُ اَن آمُرَ باِلمَعرُوفِ و اَنهٰی عَنِ المُنکَرِ ‘‘
’’میں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
کتاب’’امام حسین علیہ السلام دلربائے قلوب‘‘ سے اقتباس

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button