خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:149)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 13 مئی 2022ء بمطابق 11 شوال المکرم1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
نمازِجمعہ ہرچیزسے پہلے ایک عظیم اجتماعی عبادت ہے اورعبادت کی عمومی تاثیر کہ جورُوح وجان کو لطیف بنایا ، دل کوگناہ کی آ لودگیوں سے پاک کرنا اور دل سے معصیّت کے رنگ کواتارنا ہے وہ ،اس میں موجود ہے .خاک طورپر یہ بات کہ اس میں دوخطبے ہوتے ہیں ،جوانواع واقسام کے مواعظ، پند ونصائح اور تقوٰی وپرہیز گاری کاحکم دینے پر مشتمِل ہوتے ہیں ۔لیکن اجتماعی اور سیاسی لحاظ سے یہ ایک عظیم ہفتہ وار کانفرنس ہے ، جوحج کی سالانہ کانفرنس کے بعد عظیم ترین اسلامی کانفرنس ہے۔
اِسلام تین عظیم اجتماعوں کواہمیّت دیتا ہے :
١:روزانہ کے اجتماعات جونماز جماعت میں حاصلِ ہوتے ہیں ۔
٢:ہفتہ واراجتماع جونمازجمعہ کے اعمال سے حاصلِ ہوتاہے ۔
٣:حج کااجتماع جوخانۂ خدا کے پاس ہرسال ایک مرتبہ انجام پاتاہے ۔
ان سب میں سے نماز جُمعہ کااثر بہُت ہی اہم ہے ، خاص طورپر یہ بات کہ نماز جمعہ کے خطبہ میں خطیب کا ایک موضوع اہم سیاسی اجتماعی اوراقتصادی مسائل کے بارے میں ہوتاہے .اس طرح سے اس عظیم اور پُر شکوہ اِجتماعی سے ذیل کے برکات حاصِل ہوسکتے ہیں :
١:لوگوں کومعارفِ اِسلامی اوراہم اجتماعی وسیاسی حالات وواقعات سے آگاہ کرنا ۔
ب:مُسلمانوں کی صفوں میں ایسی ہم آہنگی اور زیادہ سے زیادہ نظم اتّحاد پیدا کرناجو دشمنوں کووحشت میں ڈال دے اورانہیں لرزہ براندام کردے ۔
ج:مسلم عوام میں دینی رُوح اور نشا ط معنوی کی تجدید۔
د:عام مشکلات کے حل کے لیے باہمی تعا وُن حاصل کرنا ۔
اسی وجہ سے دشمنانِ اسلام ہمیشہ ایک ایسی جامع الشرائط نمازِ جُمعہ سے خود فزدہ رہتے تھے ، جس میں خصوصیّت کے ساتھ احکام اِسلامی کی رعایت کی جاتی ہو۔
قرآن مجید تمام مسلمانوں کومُخاطب کرتے ہُوئے فرماتاہے :
یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا ِذا نُودِیَ لِلصَّلاةِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا ِلی ذِکْرِ اللَّہِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ ذلِکُمْ خَیْر لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت ترک کر دو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو.
نُودی نِداکے مادہ سے پکارنے کے معنی میں ہے ،اوریہاں اس سے مُراد اذان ہے ،کیونکہ اسلام میں نماز کے لیے اذان کے علاوہ اورکوئی ندانہیں ہے جیساکہ سورۂ مائدہ کی آ یت ٥٨ میں آ یاہے : وَ اِذا نادَیْتُمْ اِلَی الصَّلاةِ اتَّخَذُوہا ہُزُواً وَ لَعِباً ذلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْم لا یَعْقِلُونَ جب تم لوگوں کونماز کے لیی پکارتے ہو (اوراذان کہتے ہو)تووہ اس کا مذاق اڑاتے اوراسے کھیل تماشاسمجھتے ہیں .اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک بے عقل قوم ہیں ۔
اِس طرح سے جس وقت نماجمعہ کی اذان کی آواز بلندہوتی ہے تولوگوں کافرض ہے کہ وہ کارو بار کوچھوڑ کرنماز کی طرف دوڑ کرآ ئیں جواہم ترین ذکرِخداہے ۔ذلِکُمْ خَیْر لَکُمْ ِ کاجملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس موقع پر کارو بار کوچھوڑ کرنمازجمعہ کوقائم کرنامُسلمانوں کے لیے بہت ہی نفع کی بات ہے ،بشرطیکہ وہ اس بارے میں ٹھیک طورپر غوروفکر کریں ، ورنہ خداتو سب سے بے نیاز اور سب پر مہر بان ہے ۔
قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ بعض اِسلامی روایات میں روزانہ کی نماز کے بارے میں یہ آیا ہے :اذا اقیمت الصلوٰة فلا تأ توھا وانتم تسعون وأتوھاو انتم تمشون وعلیکم السکینة۔
جب نماز (یومیہ)کھڑی ہوجائے تونمازمیں شرکت کے لیے دوڑو نہیں اور آرام کے ساتھ قدم اٹھائو ۔
لیکن نمازِ جمعہ کے بارے میں اوپر والی آ یت یہ کہتی ہے : فاسعوا(دوڑکرآئو)یہ نماز جمعہ کی حد سے زیادہ اہمیت کی دلیل ہے ۔
ذکر اللہ سے مُراد پہلے تونماز ہی ہے . لیکن ہم جانتے ہیں کہ نمازِ کے خطبات بھی کہ جن میں خدا ہی کاذکرہوتاہے حقیقت میں نماز جمعہ کاایک حصّہ ہیں،اِس ب بناء پر ان خطبوں میں شرکت کے لیے بھی دوڑ کرآنا چاہیئے ۔ذکر خدا کی طرف دوڑ پڑو۔ ذکر اللہ سے مراد نماز ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں نماز جمعہ کے لیے دوڑنا واجب ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ پورے اہتمام کے ساتھ نماز میں حاضر ہو۔ تساہل کے ساتھ، کاہل اور بوجھل ہو کر نہیں، نماز کے لیے سکون وقار کے ساتھ جانے کا حکم ہے، دوڑنے کا نہیں۔
بعد والی آ یت میں مزید کہتاہے : جب نماز ختم ہو جائے توپھر تم آزاد ہو ،زمین میں چلوپھرو اور خدا کافضل تلاش کرو اور خدا کوبہت بہت یاد کرو تاکہ تم نجات پائو (فَاذا قُضِیَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِی الْأَرْضِ وَ ابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّہِ وَ اذْکُرُوا اللَّہَ کَثیراً لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون) ۔
اسلام میں پہلی نماز جمعہ:
بعض اسلامی روایات میں آ یا ہے کہ مدینہ کے مسلمانوں نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی ہجرت سے پہلے باہم مل کربات کی اورکہا کہ یہودی ہفتہ مین ایک دن (بروزہفتہ)اجتماع کرتے ہیں اور عیسائی بھی اجتماعی کے لیے (اتو ارکا)ایک دن رکھتے ہیں .لہٰذا ہم بھی ایک دن مُقررّکرلیتے ہیں تاکہ اس میں جمع ہوکرذکر خدا کریں اوراس کا شکر بجا لائیں .انہوں نے ہفتہ سے پہلے کادن کہ جسے اُس زمانہ میں یوم العرربہکہتے تھے ،اِس مقصد کے لیے منتخب کیااور ( بزرگانِ مدینہ میں سے ایک شخص)اسعدبن زرارہ کے پاس گئے .اس نے ان کے ساتھ مل کر جماعت کی صُورت میں نماز اداکی اورانہیں وعظ ونصیحت کی . پس وہی دن روزِ جمعہ کے نام سے موسوم ہوگیا کیونکہ وہ مُسلمانوں کے اجتماع کادن تھا ۔
اسعدکے حکم پر ایک گوسفند ذبح کیاگیا اور سب نے دوپہراور شام کاکھانا اسی گوسفندسے کھایا ،کیونکہ اس وقت مُسلمانوں کوتعداد بہت تھوڑ ی تھی ۔
یہ پہلاجمعہ تھا جو اسلام میں پڑھاگیا
لیکن وہ پہلا جمعہ جوحضرت رسُول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اپنے اصحاب کے ساتھ دپڑھا وہ اس وقت پڑھاگیا جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی . جب آپ مدینہ میں وارد ہوئے تو اس دن پیر کا دن ب ارہ ربیع الاوّل اور ظہر کاوقت تھا ،حضرت چار دن تک قبامیں رہے اور مسجد قباکی بُنیادرکھّی،پھر جُمعہ کے دن مدینہ کی طرف روانہ ہُوئے ( قبا اور مدینہ کے درمیان فاصلہ بُہت ہی کم ہے اور مو جودہ وقت میں قبا مدینہ کاایک داخلی مُحلّہ ہے )اور نمازِ جُمعہ کے وقت آپ محلّہ بنی سالم میں پہنچے ،وہاں نمازِ جمعہ ادا فر مائی اور یہ اسلام میں پہلاجمعہ تھاجو حضرت رسُول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے ادا کیا،جمعہ کی اس نمازمیںآپ نے خطبہ بھی پڑھا ،جومدینہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کاپہلا خطبہ تھا (مجمع البیان ،جلد١٠،صفحہ ٢٨٦)
جمعہ کے دن کی اہمیت:
نماز جمعہ کی اہمیت سے پہلے ہم جمعہ کے دن کی اہمیت پر چند احادیث بیان کرتے ہیں:
رسولُ الله (ﷺ) : يَومُ الجُمُعةِ سَيّدُ الأيّامِ، و أعظَمُ عِند الله عزّ وجلّ مِن يَومِ الأضْحى ويَومِ الفِطْرِ ،ِ . (بحارالانوار : ۸۹ / ۲۶۷ / ۵)
:جمعہ کا دن سیدالایام(باقی دنوں کا سردار) ہے اور خدا کے نزدیک قربان اور فطر کے دنوں سے بھی اس کی عظمت زیادہ ہے۔
الإمامُ الباقرُ ع : الخَيرُ والشَرُّ يُضاعَفُ يَومَ الجُمُعةِ . (بحارالانوار : ۸۹ / ۲۸۳ / ۲۸)
امام محمد باقر علیہ السلام:جمعہ کے دن نیکیاں اور برائیاں دگنی ہو جاتی ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام الصَّدَقةُ يَومَ الجُمُعةِ تُضاعَفُ ، لفَضْلِ يَومِ الجُمُعةِ على غَيرهِ من الأيّام. (ثواب الأعمال : ۲۲۰ / ۱)
امام جعفر صادق ع:جمعہ کے دن صدقہ (کا ثواب دوسرے ایام کی نسبت)کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ جمعہ کو ان ایام کی فضیلت کی وجہ سے۔
رسولُ الله (ص) : يا عليُّ ، على النّاسِ كُلَّ سَبعةِ أيّامٍ الغُسلُ ، فاغْتَسِلْ في كُلِّ جُمُعةٍ ولَو أنّكَ تَشْتري الماءَ بِقُوتِ يَومِكَ وتَطْويهِ ، فإنَّهُ ليسَ شَيءٌ مِن التَّطَوُّعِ أعْظَمَ مِنهُ .(بحارالانوار : ۸۱ / ۱۲۹ / ۱۸)
رسول اکرم (ص) :یا علی ع !لوگوں پر ہفتے میں (کم از کم ایک بار) غسل کرنا ضروری ہے لہٰذا ہر جمعہ کے دن غسل کیا کرو خواہ اس کے لئے تمہیں ایک دن کی خوراک کے بدلے پانی خریدنا پڑے اور بھوکا رہنا پڑے فرمانبرداری میں اس سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں ہے۔
الإمامُ الصّادقُ ع : على الإمامِ أنْ يُخرِجَ الَمحْبوسينَ في الدَّينِ يَومَ الجُمُعةِ إلى الجُمُعةِ ، ويَومَ العِيدِ إلى العِيدِ ، فيُرسِلَ مَعهُم ، فإذا قَضَوُا الصَّلاةَ والعِيدَ رَدّهُم إلى السِّجنِ .(الفقيه : ۳ / ۳۱ / ۳۲۶۵)انظر: عنوان ۹ ۔الأسير
امام جعفر صادق ع:امام کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ قرضہ کے قیدیوں کو جمعہ کے دن اور عید کے دن باہر نکالے اور کسی کو ان کے ساتھ بھیجے تاکہ وہ نماز جمعہ اور عید ادا کر سکیں جب نماز ادا کر چکیں تو انہیں دوبارہ زندان میں لے آیا جائے۔
نماز جمعہ کی اہمیت
سب سے پہلے تواس عظیم اسلامی فریضہ کی اہمیّت کی بہترین دلیل اسی سورہ جمعہ کی آیات ہیں جوتمام مُسلمانوں اوراہل ایمان کویہ حکم دیتی ہیں کہ جمعہ کی اذان سُنتے ہی اس کی طرف ددوڑ پڑیں ،ہرقسم کے کاروباراور رُکاوٹ ڈالنے والے کام چھوڑ دیں . یہاں تک کہ اگرکسِی سال لوگ غذائی اشیاء کی کمی میں گرفتار ہوں اور کوئی ایسا قافلہ آ جائے جوان کی ضرورت کی چیزیں ساتھ لے کر آ یاہوتووہ اس کی طرف نہ جائیں اور نمازِ جُمعہ کے اعمال کوجاری رکھیں۔
اسلامی روایات میں بھی اس سلسلہ میں بہت سی تاکید یں وارد ہُوئی ہیں، ان میں سے ایک خطبہ ہے کہ جسے موافق ومُخالف سب نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)گرامی سے نقل کیاہے اِس میں آ یاہے :
ان اللہ تعالیٰ فرض علیکم الجمعة فمن ترکھا فی حیاتی اوبعد موتی استخفافاًبھا او جحوداً لھافلا جمع اللہ شملہ ، ولابارک لہ فی امرہ الا ولا سلوٰة لہ ، الا ولا زکوٰة لہ ،الاولاحج لہ الاولا صوم لہ،الا ولابرلہ حتی یتوب ۔
خُدا نے نمازِ جمعہ تم پر واجب کی ہے .اگر کوئی شخص اسے میری زندگی میں یامیری وفات کے بعداستخفاف یاانکار کے طورپر ترک کرے توخُدااُسے پریشان حال کردے گااوراس کے کسِی کام میں برکت نہیں دے گا ،جان لوکہ اُس کی نماز قبول نہیں ہے ،اس کی زکوٰة قبول نہیں ہے اورجان لوکہ اُس کے نیک اعمال قبُول نہیں ہے جب تک کہ اپنے اس عمل سے توبہ نہ کرے (وسائل الشیعہ جلد٥،صفحہ ٤حدیث ٨)
ایک اورحدیث میں امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے :
صلوٰةالجمعة فریضة ،والا جتماع الیھا فریضة مع الامام ، فان ترک رجل من غیر علة ثلاث جمع فقد ترک ثلاث فرائض ، ولا ید ع ثلاث فرائض من غیر علة الامنافق :
نمازِجمعہ ایک فریضہ ہے اوراس کااجتماع امام (معصُوم)کے ساتھ واجب ہے .جب کوئی شخص تین جمعے بغیر کسِی عُذر کے ترک کردے تو اس نے تین فریضے ترکت کیے ہیں . اور تین فرائض بغیر کسِی علّت کے ترک نہیں کرتا مگر منافق (روح المعانی ،جلد٢٨،صحہ ٨٨)
ایک حدیث میں حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے منقول ہے :
مَن أتَى الجُمُعَةَ إيمانا واحتِسابا استَأنَفَ العَمَلَ
جوشخص ازرُوئے ایمان خُدا کے لیے نماز جمعہ میں شرکت کرے تواس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اوروہ اپنے عمل کاسلسلہ نئے سر ے سے شر وع کرے گا (وسائل شیعہ ،جلد٥،صفحہ ١٠)
اس سلسلے میں روایات بُہت زیادہ ہیں، اوران سب کابیان کرناباعثِ طوالت ہوگا ،ہم یہاں ایک اورحدیث نقل کرکے اس بحث کوختم کرتے ہیں ۔
ایک شخص حضرت رسُول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی خدمت میں آیا اورعرض کیا:یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! میںکئی مرتبہ حج کے لیے تیّار ہوا ہوں لیکن مجھے توفیق حاصِل نہ ہُوئی .اس پر آ پ نے فر مایا:علیک بالجمعة ،الجُمُعَةُ حَجُّ المَساكِينِ .
تو نماز جمعہ پڑھا کرکیونکہ مساکین کاحج یہی ہے ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حج کے عظیم اِسلامی اجتماع کے بُہت سے برکات نمازِ جمعہ کے اِجتماع میں موجُود ہوتے ہیں۔
البتّہ یہ بات مدّ نظر رہے کہ شدیدمذ مّتیں نمازِ جمعہ کے ترک کرنے کے بارے میں آ ئی ہیں ، جن میں جُمعہ کے ترک کرنے والوں کومنافقین کے زمرہ میں شمار کیاگیاہے .یہ اس صُورت میں ہے کہ جب نماز جمعہ واجب عینی ہو ، یعنی امام معصُوم کے حضُور اوران کے مبسُوط الید ہونے کازمانہ ہو ، لیکن چونکہ زمانۂ غیبت میں یہ واجب تیخیری ہے ( نماز جُمعہ اور نماظہر کے درمیان اختیار ہے )اور بطور استخفاف و انکار بھی ترک نہ ہو توپھر وہ ان مذ مّتوں کامشمول نہیں ہوگا .اگرچہ نمازِ جمعہ کی عظمت اوراس کی حد سے زیادہ اہمیّت اس حالت میں بھی محفُوظ ہے۔
نمازِ جمعہ (ضر وری شرائط کی موجودگی میں) بالغ اورصحیح وسالم پرواجب ہے جونماز میں شرکت کی طاقت رکھتے ہیں،مسافروں اور بُوڑھے لوگوں پر واجب نہیں ہے ،اگرچہ مُسافر کے لیے نمازِ جمعہ میں حاضر ہوناجائز ہے ،اسی طرح سے عورتیں بھی نمازِ جمعہ میں شرکت کرسکتی ہیں اگرچہ ان پرواجب نہیں ہے ۔
وہ کم سے کم تعداد پانچ مرد ہے جِس نمازجُمعہ منعقد ہوسکتی ہے ،نمازجمعہ دورکعت ہے اوروہ نماز ظہر کی جگہ لے لیتی ہے نیز دوخطبے جونمازِ جمعہ سے پہلے پڑھے جاتے ہیں وہ حقیقت میں دو رکعتوں کی جگہ محسُوس ہوتے ہیں ۔
نماز جمعہ صبح کی نمازکی طرح ہے اور مستحب ہے کہ اس میں حمد وسورہ کوبلند آواز میں پڑھاجائے ،اِس کے علاوہ مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ جمعہ اوردوسری رکعت میں سورة منافقین کی قرأت کی جائے ۔
نمازِ جمعہ میں دوقنوت مستحب ہیں .ایک رکعت اوّل میں رکُوع سے پہلے اوردُوسرادوسری رکعت میں رکُوع کے بعد ہے ۔
دوخطبوں کاپڑھنا نمازِ جمعہ سے پہلے واجب ہے ،جیساکہ خطیب کاکھڑے ہوکرخطبہ دینابھی واجب ہے جوشخص خطبہ دیتاہے حتمی طور پر نمازِ جمعہ کاامام وہی ہوناچاہیئے ۔
خطیب کواپنی آ واز اتنی بلند کرناچاہیے کہ لوگ اس کی آواز کوسُن لیں، تاکہ خطبہ کامضمون سب کے کانوں تک پہنچ جائے ۔
خطبہ کے دوران میں سا معین کوخاموش رہنا اورخطیب کی باتوں پر کان دھرنا چاہیئے ،نیز خطیب کے رُو بُرو بیٹھنا چاہیے ۔
خطیب کومردِ فصیح وبلیغ ،اوضاع واحوال مسلمین سے آگاہ ،اسلامی معاشرے کے مصالح سے باخبر ،شجاع ،صریح اللہجہ اوراظہار حق میں قاطع ہوناچاہیے .اِس کے اعمال و رفتار اس کے کلام کی تاثیر ونفوذ کاسبب ہونے چاہئیں اوراس کی زندگی لوگوں کوخدا کی یاد دلانے والی ہونی چاہیے ۔
مُناسب ہے کہ وہ پاکیز ہ ترین لباس پہنے ہُوئے ہو ، اپنے بدن کوخوشبو لگائے ،وقار اور سکینہ کے ساتھ قدم اُٹھا ئے اور جب ممبر پرجائے لوگوں کوسلام کرے پھراُن کے سامنے کھڑا ہوجائے ،اورشمشیر یاکمان یاعصا پرٹیک لگائے ،پہلے وہ منبر پربیٹھ جائے ،یہاں تک کہ اذان مکمّل ہوجائے ،اذان ختم ہونے کے بعداُٹھے اور خطبہ شروع کرے ۔
خطبہ کامضمُون پہلے خدا کی حمد اورپیغمبر پردُرود ہے ّ( احتیاط اس میں ہے کہ یہ حصّہ عربی زبان میں ہولیکن باقی حصّہ سُننے والوں کی زبان میں پڑھا جائے) پھر لوگوں کوخوفِ خُدا اور تقوٰی کی وصیّت ونصیحت کرے ، قرآن مجید کی کوئی مختصر سی سُورہ پڑھے اوراس امر کی دونوں خطبوں میں رعایت کرے ،دُو سرے خطبہ میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود کے بعد آ ئمہ مسلمین کے لیے دُعا کرے اور مومنین ومومنات کے لیے استغفا ر کرے ۔
مُناسب ہے کہ خُطبہ کے ضمن میں ایسے اہم مسائل پیش کرے جومُسلمانوں کے دین اور دنیا کے ساتھ مربُوط ہیں .
ایک حدیث میں امام علی بن موسیٰ رضاعلیہ ا لسلام سے آ وارد ہوا ہے :
انما جعلت الخطبة یوم الجمعة لان الجمعة مشھد عام ،فاراد ان یکون للا میر سبب الی موعظتھم وتر غیبھم فی الطاعة،و تر ھیبھم من المعصیة و تو قیفھم علی ما اراد من مصلحة دینھم و دنیاھم ویخبرھم بما ورد علیھم من الافاق من الا ھوال التی لھم فیھا المضرة والمنفعة … وانما جعلت خطبتین لیکون واحدة للثناء علی اللہ والتمجید والتقد یس اللہ عزوجل والاخرٰی للحوائج والا عذار والا نذار والدعاء ولما یرید ان یعلمھم من امرہ ونھیہ مافیہ الصلاح والفساد۔
جُمعہ کے دن خطبہ اِس لیے شُروع کیاگیاہے کہ نمازِ جمعہ ایک عمومی اجتما ع ہے ،خداچاہتاہے کہ مُسلمانوں کے امیر کویہ موقع فراہم کرے کہ وہ لوگوں کوعظ ونصیحت کرے ،اطاعت کی ترغیب دے معصیت الہٰی سے ڈرائے اور انہیں اس چیز سے آگاہ کرے کہ جس میں ان کے دین ودنیا کی مصلحت او ربہزی ہے .نیز وہ اخبارو واقعات جومختلف علاقوں سے اس تک پُہنچے ہیں جولوگوں کے لیے ان کے سُود وزیاں میں مُوثّر ہیں، انہیں ان کی اطلاع دے … او ردوخطبے اِس لیے قرار دیئے گئے ہیں تاکہ ایک میں خُدا کی حمد وثنا اورتمہید وتقدیس کرے اوردُوسرے میںاحتیاجات،ضرورتیں ،تنبیہیں اور دعائیں قرار دے اوران کے سامنے اوامر نواہی ،اورایسےاحکام کااعلان کرے،جواسلامی مُعاشر ے کی اصلاح اور فساد کے ساتھ مربُوط ہیں (وسائل الشیعہ،جلد٥،صفحہ ٣٩ )

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button