محافلمناقب و فضائل

حارث ہمدانی کی شخصیت

مولانا جعفر علی ( متعلم حوزہ علمیہ قم )
حارث ہمدانی کا پورا نام ابو زہیر حارث بن عبداللہ بن کعب الاعور ہمدانی ہے۔ آپ کا شمار امیر المومنین حضرت علیؑ بن ابی طالب ؑکے اصحاب خاص میں ہوتا ہے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب خالد کو اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں یمن کی طرف بھیجا اور کئی دن تبلیغ کرنے کے بعد بھی کسی کو مسلمان بنانے میں ناکام رہا تو آپؐ نے خالد کو معزول کرکے امیر المؤمنین علیہ السلام کو یمن کی طرف دین اسلام کی تبلیغ کے لئے بھیجا۔ جب آپؑ نے صبح کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لوگوں تک پہنچایا تو آپؑ کی تبلیغ کے نتیجہ میں ایک ہی دن کے اندر ہمدان کا مکمل قبیلہ مسلمان ہوگیا اور یمن کے بہت سارے قبیلے پے در پے دین اسلام قبول کرنے لگے جب قبیلہ بنی ہمدان کے اسلام قبول کرنے کی خبر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ سجدے میں گر پڑے اور فرمایا :سلام ہو ہمدان قبیلے پر ، سلام ہو ہمدان قبیلے پر
ہمدان قبیلہ اس وقت سے امام علی علیہ السلام کے گرویدہ ہوگئے تھے۔یمن کے مسلمانوں نے مختلف مواقع پر امیر المومنین علیہ السلام کاساتھ دیا، اسی لئے امیرالمومنین علیہ السلام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت نقل کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا : جس نے بھی اہل یمن سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے اہل یمن سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔
خاص طور پر ہمدان قبیلے کے لوگوں نے آپ کے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔ جناب حار ث کا تعلق بھی اسی قبیلہ سےتھا جس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے سجدہ میں جا کر دو بار سلام بھیجا ،البتہ حارث کی تاریخ اور ولادت کی جگہ کے بارے میں دقیق معلومات کسی کتاب میں نہیں ملتیں، ظاہرا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں حارث ہمدانی دنیا میں نہیں آئے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرنے کی توفیق نہیں ملی اور علماء نے آپ کو تابعین میں شمار کیا ہے ۔
جب امیرالمومنین علیہ السلام کو ظاہری خلافت ملی تو متعدد وجوہات کی بنا ء پر انہوں نے شہر کوفہ کو اپنی حکومت کے دار الخلافہ کے طور پر متعین کیا تو حارث ہمدانی کے ہمدان قبیلہ کا ایک بڑا حصہ یمن چھوڑ کر کو فہ آگیا۔ اگر چہ کوفہ شہر کی بنیاد خلیفہ ثانی (عمر)کی خلافت کے دوران فوجی چھاونی کے طو پر سعد بن ابی وقاص کی سربراہی میں رکھی گئی تھی، لیکن تاریخ اسلام میں کوفہ ابتدا ء سے ہی شیعیان علیؑ کے شہر کے عنوان سے جانا جاتا رہا ہے۔ اسی لئے بعض منابع میں حارث کو بھی حارث کوفی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بعض علما ء کے مطابق جنگ صفین یا کسی دوسری جنگ میں حارث پر دشمن کی طرف سے حملہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک آنکھ سے محروم ہوگیاتھا ، اس لئے اسے حارث الاعور، یعنی کانا کہا جاتاتھا۔ حارث ہمدانی امیر المومنین علیہ السلام کا اتنا وفادار اور محبت کرنے والا صحابی تھا کہ بعض دشمنوں نے علیؑ سے بہت زیادہ محبت کرنے کے جرم میں ان کو جھوٹا اور غالی کہا۔ انہوں نےجنگ صفین میں ایک کمانڈر کی حیثیت سے شرکت کی۔ جنگ سے پہلے امام ؑنے اسےبلا کر حکم دیا کہ نخلیہ کے مقام پر فوج کو اکھٹا کرے اور صفین کی جنگ کے لئے تیاری کرے۔ حارث نے امام علیہ السلام کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کوفہ کے مختلف مقامات سے امام ؑکے ماننے والوں کو جمع کیا۔ جنگ کے لئے جانے سے پہلے امام ؑکے اصحاب میں سے کچھ نے کھڑے ہو کر تقریر یں کی اور لوگوں کو امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ وفاداری کی نصیحت کی، ان میں سے ایک حارث بھی تھا جس نے لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر خطاب کیا ۔ جب مدائن پہنچے تو امیر المومنین علیہ السلام نے دوبارہ حارث کو حکم دیاکہ لوگوں پر حجت تمام کریں اور اعلان کرے کہ جو آپ کا ساتھ دینا چاہتے ہیں وہ ان کے ساتھ ملحق ہوجائیں۔ حارث نے لوگوں کے درمیان اعلان کیا کہ جو بھی راہ خدا میں جہاد کرنا چاہتا ہے وہ عصر کی نماز کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کی فوج میں شامل ہوجائے۔ جنگ صفین میں حارث کی بہادری اور وفاداری دیکھ کر امیر المومنین علیہ السلام نے یہ شعر پڑھا
وَ لَوْأَنَ‏يَوْماًكُنْتُ‏بَوَّابَ‏جَنَّةٍ لَقُلْتُ لِهَمْدَانَ ادْخُلُوا بِسَلَام‏
(یعنی اگر قیامت کے دن میں جنت کا دروازہ بن جاوں تو میں ہمدان قبیلے سے کہوں گا کہ سلامتی کے ساتھ سب جنت میں داخل ہوجاو !)
امیرالمومنین علیہ السلام کی خلافت ظاہری سے پہلے خلیفہ سوم کے زمانے میں حارث ہمدانی نے اپنی سیاسی فعالیت شروع کی ہوئی تھی اور متعدد مقامات پر عثمان اور ان کے کارندوں کے سیاسی امور میں مداخلت کرتا رہا اور زبانی اعتراض کرتا تھا، خاص طور پر والی کوفہ سعد بن ابی وقاص کے لئے، مالک اشتر اور حارث ہمدانی نے عرصہ زندگی تنگ کر کے رکھا ہوا تھا اوراس کےخلاف علم بغاوت بلندکیا اورکوفہ سے مدینہ جا کر اورعثمان سےسعدکی معزولی کا مطالبہ کیا۔ انہیں اعتراضات کی وجہ سے عثمان نے سعد کو کوفہ سے معزول کر کے شام کی طرف روانہ کیا ۔اس کے علاوہ حارث ہمدانی کی سیاسی فعالیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتاہے کہ وہ عثمان کے قتل کے دوران مدینہ میں ہی حاضر تھا اور اس ساری روداد کا عینی شاہد تھا اور عثمان کے قتل کے بعد امیر المومنین علیہ السلام کی سب سے پہلے بیعت کرنے والوں میں ان کا شمار ہوتاہے ۔
امیرالمومنین علیہ کی شہادت کے بعد امام حسن علیہ السلام کے ساتھ وفاداری کرنے والوں میں حارث کا نام بھی ملتاہے، جبکہ امام حسن علیہ السلام کا ساتھ بڑے بڑوں نے ساتھ چھوڑ دیا تھا ۔
حار ث ہمدانی کی امام سے محبت
حارث ہمدانی امیرالمومنین علیہ السلام سے بہت محبت اور عقیدت رکھتا تھا۔ اسی لیے ان کو صاحب رائۃ علی کہاجاتا تھا ایک دن حارث ہمدانی امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے او رامام سے عرض کرتا ہے : مولا کیا آ ج آپ میرے گھر تشریف لا ئیں گے اور ہمارے گھر کو شرف و عزت عنایت فرمائیں گے ؟
امیرالمومنین علیہ السلام نے ایک شرط رکھی اور فرمایا: میں تیرے گھر ایک شرط پر ا ٓوں گا حارث بے تابی کے ساتھ اپنے دل میں سوچتا ہے کہ معلوم نہیں امام کس شرط کے ساتھ ہمارے گھر کو زینت بخشیں گے ؟ اتنے میں امام فرماتے ہیں : میں اس شرط پر تمہارے گھر آوں گا کہ تم گھر پر جو چیز ہے وہی مجھے کھلاو گے اور زیادہ تکلف نہیں کرو گے۔ حارث نہ چاہتے ہوئے امام کی شرط کو قبول کر لیتا ہے اور جب گھر پہنچتا ہے تو روٹی کے ٹکڑے کے علاہ گھر پر کچھ نہیں ہوتا۔ حارث اسی روٹی کے ٹکڑے کو امام کی خدمت میں پیش کرتاہے۔ امام بھی خوشی کے ساتھ اسی سوکھی روٹی کے ٹکڑے کو تناول فرماتے ہیں۔ حارث شرمندہ ہو کے دوبارہ امام سے کہتاہے کہ مولا میرے پاس کچھ درہم ہیں اور میں اس سے کوئی چیز خرید کے آپ کی خدمت میں پیش کرناچاہتاہوں۔امام فرماتےہیں : جو کچھ تمہارے گھر پہ ہے یہی میرے لئے کافی ہے۔
ایک دن حارث بغیر کسی کام سے امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ امام اس سے آنے کی وجہ پوچھتےہیں اور اس کا جواب سن کر امام قیامت تک آنے والوں کے لئے وہ نوید سناتے ہیں کہ یقیناحارث اس وقت بہت خوش ہوا ہوگا، کیونکہ اس حدیث کو پڑھ کے آج ہم بہت خوش ہوتے ہیں اور اپنی قسمت پہ فخر کرتے ہیں اس حدیث کی اہمیت کے پیش نظر متن حدیث کو ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں :
عَنِ الْحَارِثِ الْهَمْدَانِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ (عَلَيْهِ السَّلَامَ) فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ قَالَ: فَقُلْتُ: حُبِّي لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ.فَقَالَ: يَا حَارِثُ‏ أَ تُحِبُّنِي‏ فَقُلْتُ‏: نَعَمْ‏ وَ اللَّهِ، يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ: أَمَا لَوْ بَلَغَتْ نَفْسُكَ الْحُلْقُومَ رَأَيْتَنِي حَيْثُ تُحِبُّ، وَ لَوْ رَأَيْتَنِي وَ أَنَا أَذُودُ الرِّجَالَ عَنِ الْحَوْضِ ذَوْدَ غَرِيبَةِ الْإِبِلِ لَرَأَيْتَنِي حَيْثُ تُحِبُّ، وَ لَوْ رَأَيْتَنِي وَ أَنَا مَارٌّ عَلَى الصِّرَاطِ بِلِوَاءِ الْحَمْدِ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) لَرَأَيْتَنِي حَيْثُ تُحِبُّ .
حارث کہتاہے کہ میں امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام نے مجھ سے پوچھا اے حارث کس وجہ سے تم میرے پاس آئے ہو ؟ تو میں نے جواب میں عرض کیا : اے میرے مولا آپ کی محبت مجھے آپ کے پاس لے آئی ہے۔ اس وقت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: اے حارث کیا واقعا تم مجھ سے محبت کرتے ہو ؟حارث نے عرض کی : اے امیرالمومنین ؑخدا کی قسم میرے دل میں آپ کی محبت موجیں مارتی ہے ۔ پھر آ پ نے فرمایا : اے حارث جب تمہاری جان کنی کا عالم ہو گا اور تمہاری جان تمہارے حلق تک پہنچ چکی ہوگی اس وقت تم مجھے ویسے پاو گے جیسے تم مجھ سے محبت کرتے ہواور جب میں حوض کوثر سے لوگوں کوایسے دور بھگا رہا ہو گا جیسے اونٹوں کو کنویں کے گھاٹ سے دور کیا جاتاہے تو اس وقت تم مجھے دیکھو گے اور میری محبت تجھے وہا ں کام آئے گی اور جب میں پل صراط سے لواء الحمد کا پر چم تھامے رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سے گذر رہا ہو ں گا تو تم مجھے وہاں دیکھوگے اور میری محبت تمہارے کام آئے گی۔
اس حدیث سے جس طرح شیعیان علی علیہ السلام کے مقام اور منزلت کا اندازہ ہوتا ہے اسی طرح حارث ہمدانی کے مقام اور امیر المومنین علیہ السلام کے ان پر اعتماد کا بھی اندازہ ہوجاتاہے۔امیر المومنین ؑ اپنے اصحاب میں سے صرف مخصوص افرا د کو اپنے اسرار بیان فرماتے تھے جو اصحاب سر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہی اصحاب میں سے ایک حارث ہمدانی تھے ۔
اصبغ بن نباتہ کہتاہے کہ ایک دفعہ حارث ہمدانی شیعوں کے ایک گروہ کے ساتھ امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوتاہے اور بیمار ہونے کی وجہ سے ان کی کمر خمیدہ تھی ۔ امیرالمومنینؑ شیعوں کے تمام افراد میں سے باقی لوگوں کو چھوڑکر حارث کی طرف بڑ ھتے ہیں یہاں تک کہ اسی روایت میں آیا ہے کہ وکانت لہ منہ منزلۃ (یعنی امیر المومنین ؑ کے نزدیک حارث کا بڑا مقام تھا )اور ان سے احوال پر سی کرتے ہیں۔ حارث جواب میں عر ض کرتاہےکہ مولا، زمانے نے مجھ سے میری صحت و سلامتی چھین لی اور آپ کے اصحاب کی آ پ کے ساتھ دشمنی نے میرے دل کو مزید جلا دیا۔ آپؑ نے فرمایا : ان کی دشمنی کس وجہ سے ہے؟ حارث جواب میں کہتاہے آپ اور آپ سے پہلے جو تین افراد گذرے ہیں ان کے بارے میں بعض، افراط سے کام لیتے ہیں اور غلو کا شکار ہوتے ہیں جبکہ دوسرے بعض نے میانہ روی کا راستہ اپنایا ہے جبکہ بعض ایسے حیران و سرگردان ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں آرہی ہے کہ آگے نکل جائیں یا پیچھے ہٹ جائیں؟ پھر آپ نے فرمایا :اے میرے ہمدانی بھائی میرے پیروکاروں کے لئے میانہ روی اور درمیانی راستہ بہترین راستہ ہے جو آگے نکل گئے ہیں وہ واپس انہی سےملیں گے اور جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ بھی انہی سے جاملیں گے۔ حارث اور امامؑ کے درمیان ایک لمبی گفتگو چلتی ہے اور آخرمیں امامؑ حارث کو بشارت دیتے ہو ئے فرماتے ہیں :اے حارث میں تمھیں بشارت دیتا ہوں کہ تم موت کے وقت ،پل صراط پر ، حوض کوثر پر اور مقاسمہ کے وقت مجھے پہچان لو گے اور میری محبت تجھے فائدہ دے گی۔ حارث پوچھتاہے مولا یہ مقاسمہ کیا چیز ہے ؟
امام نے فرمایا : مقاسمہ آتش جہنم کی درست اور صحیح تقسیم کا نام ہے، میں جہنم کی آگ سے کہوں گا اے آتش جہنم یہ شخص میرا دوست دار ہے اس کو چھوڑ دو اور فلاں شخص میرا دشمن ہے اس کو اپنے گرفت میں لے لو ۔
اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے حارث کے ہاتھوں کو پکڑ کر فرمایا :ا ے حارث میں نے تیرے ہاتھوں کو اس طرح سے تھا ما ہے جس طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے ہاتھوں کو تھاماتھا۔ جب قریش والوں نے میرے بارے میں حسد اور منافقت کے بارے میں آپؑ کے سامنے شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے ہاتھوں کو پکڑ کے فرمایا: اے علیؑ جب قیامت برپاہوگی تو میں عرش الہی کے سایہ میں اللہ تعا لی کی رسی اور اس کی عصمت کو تھاموں گا اور آپؑ میرے ساتھ میرے دامن کو تھامے ہونگے اور آپ کے پاک اولاد اور ذریت آپ کے دامن کو تھامے ہونگی اور آپ ؑکے شیعیان بھی آپ کے دامن تھامے ہونگے۔ اس وقت آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالی اپنے نبی کے ساتھ کیساسلوک کرے گا ا ور اللہ کے نبی اپنے اوصیاء کے ساتھ کیا سلوک کریں گے ،اے حارث اس لمبی گفتگو کو مختصر کرکے بیان کیاہے اور اس کے بعد اماؑم نے ایک جملے کو تین بار دہرایااوروہ جملہ یہ تھا اے حارث ہاں تم اسی کے ساتھ محشور ہوگے جس سے تم محبت کرتے ہو اورجو تم نے اس دنیا میں کمایا ہے وہی تجھے ملے گا امام ؑسے یہ سننا تھا کہ حارث اپنی جگہ سے بلند ہوتاہے اور کہتاہے جب ایسا ہے تو مجھے کوئی پر واہ نہیں کہ موت مجھ پرآ پڑے یا میں موت پر جاپڑوں۔
اس حدیث کو امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں سید حمیری نے اشعار کے قالب میں بیان کیا ہےجس کوشیخ مفید نے اپنی کتاب الامالی میں بیان کیا ہے یہاں اختصار کے خاطر ذکر نہیں کرونگا۔
حارث کا علم
حارث ہمدانی اپنے زمانے میں ایک بہت بڑا عالم ،فقیہ اور مرجع تھا۔ ان کے علم کا اقرار دوستوں کے ساتھ دشمنوں نے بھی کیا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اہل سنت علماء نے اپنی رجال کے کتاب میں حارث ہمدانی کا نام شیعوں کے رجالی افراد میں سے سب سے پہلے لیاہے۔ البتہ بعض اہل سنت علماءنے ان کی طرف غلو ،جھوٹا اور دیگر ناروا قسم کی نسبت دی ہے جیسے شعبی نے ان کو غالی اور غلط عقیدہ رکھنے والے سے توصیف کی ہے ، لیکن ظاہرا شعبی اور ان جیسے دیگراہل سنت علماء کا حارث کو برا بھلا کہنے کی وجہ، حارث کا علیؑ اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ساتھ تعلق اور محبت کی وجہ سے ہے؛ کیونکہ حارث امیر المومنین علیہ السلام کو خلفائے ثلاثہ پر مقدم اور ان سےافضل سمجھتے تھے۔ اس لئے وہ لوگ حارث کو غالی اور دیگر بری چیزو ں کی نسبت دے کر بدنام کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ حارث ہمدانی امیر المومنین ؑ کے ان اصحاب میں سےتھا جو علم دوست تھا۔ ہر وقت علم کی تلاش میں رہتا تھا اسی لئے شیعہ علما ء کے علاوہ اہل سنت اورعلماے عامہ نے بھی انہیں فقیہ ، عالم اورعادل جیسے القابات سے نوازا ا ور سنن اربعہ میں حارث سے احادیث نقل کی ہے۔ یہاں تک کہ نسائی بہت سخت گیر ہونے کے باوجود ان کے احادیث سے استدلال کیا ہے اور ان کو مورد اعتماد قرار دیا ہے ۔ ان کی علم دوستی کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں آپ نے امیرالمومنین علیہ السلام کے گہر بار کلمات کو قرطاس کے سپرد کرکے باقاعدہ کتاب بنائی اور آج بھی علمی حلقوں میں کتاب حارث ہمدانی معروف اور مشہور ہے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام کے گہر بار کلمات ہم تک پہنچے ہیں تو اس میں حارث ہمدانی کا بھی بنیادی کرادار ہے۔
کہا جاتاہے کہ حارث علم فرائض یعنی ارث اور میراث کے بارے میں بہت مہارت رکھتےتھے اور ارث کے مختلف شقوں کو بہت ہی آسان انداز میں حل کرتےتھے
عظیم عالم ،فقیہ اور معمار جناب شیخ بہائی کا نسب بھی حارث ہمدانی تک پہنچتاہے
حارث ہمدانی عبداللہ ابن زبیر کے دور حکومت میں ۶۵ ھ کو فہ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔
سلام و درود ہو اس مرد مجاہد پر

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button