Uncategorizedاخلاق حسنہاخلاقیات

رازداری

(حصہ دوم)

آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
کرامت اور روحانی قدرت کو چھپانا
ہمارے بزرگ اورصالح افرادنے بھی اہلبیت اطہار علیھم السلام کی پیروی کرتے ہوئے عام طور پر ایسی زندگی گذاری کہ جب تک وہ زندہ رہے کسی کو ان کے اسرار کا علم نہ ہو سکا حتی کے ان سے مانوس بہت سے افراد بھی ان کے راز سے آگاہ نہ ہوئے۔
اگرچہ کچھ موارد میں ایسے افراد ظاہراً عام اور معمولی اشخاص تھے لیکن حقیقت میں ا ن پر اہلبیت اطہار علیھم السلام کی خاص عنایات کی وجہ سے ان کا دل خاندان وحی علیھم السلام کے تابناک انوار سے منور تھا اور ان ہستیوں کے فیض و کرم سے حاصل ہونے والی قدرت کو خلق خدا کی خدمت میں صرف کرتے اور کسی بھی لمحے اپنی ذمہ داری سے کوتاہی نہ کرتے لیکن اس کے باوجود کبھی بھی اپنے ان اسرار کو فاش نہ کرتے ۔ لیکن کبھی قریبی دوستوں کی وجہ سے ان کی شخصیت آشکار ہو جاتی اور ان کی رحلت کے بعد ان کے وہ اسرار روشن ہو جاتے جنہیں وہ اپنے ساتھ زیر خاک لے گئے ۔
جی ہاں!شیعہ تاریخ میں بعض علماء یا بلند معنوی مقام رکھنے والے عام افرادکا اہلبیت اطہار علیھم السلام سے ارتباط تھا اور وہ ان ہستیوں کے دستورات اور احکامات کے تابع تھے اور اسی کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے فخر محسوس کرتے۔
اگرچہ عام طور پر وہ اپنی ذمہ داریاں مخفی رکھتے بلکہ وہ بات کا بھی خیال رکھتیکہ کہیں شریر افراد اس سے سوء استفادہ نہ کریں لیکن کبھی ان کی کرامت سے آگاہ ہو جانے والے افراد کے ذریعے ظاہر ہو جاتی اور وہ اسے دوسروں کے لئے فاش کر دیتے۔
مرحوم شیخ انصاری کی ایک کرامت
بطور نمونہ ہم عظیم فقیہ مرحوم شیخ انصاری سے صادر ہونے والی ایک کرامت بیان کرتے ہیں ۔ آپ سے یہ کرامت جلیل القدر عالم دین مرحوم شیخ عبدالرحیم دزفولی نے دیکھی اور اسے دوسروں کے لئے بیان کیا۔وہ کہتے ہیں:میری دو ایسی حاجتیں تھیں جن سے کوئی بھی آگاہ نہیں تھا۔میں ان کے پورا ہونے کی دعا کیا کرتا تھا اور میں حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام،سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کو شفیع قرار دیتا یہاں تک کہ میں زیارات مخصوصہ کے لئے ایک بار نجف سے کربلا گیا اور میں نے ان ہستیوں کے حرم میں اپنی وہ دونوں حاجتیں بیان کیں لیکن مجھے اپنے توسل میں کوئی اثر دکھائی نہ دیا ۔
ایک دن میں نے دیکھا کہ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے حرم میں لوگوں کی کثیر تعداد ہے۔میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ آج یہاں لوگوں کا اتنا ہجوم کیوں ہے؟اس نے کہا: ایک بیابان میں رہنے والے عرب کے بیٹے کومدتوں سے فالج تھا وہ اسے شفاء کی غرض سے حرم مطہر میں لائے ۔ حضرت عباس علیہ السلام نے اس پر لطف و کرم کیا اور اسے شفاء مل گئی ۔اب لوگ اس کے کپڑے پھاڑ کر تبرک کے طور پر لے جا رہے ہیں۔اس واقعے سے میری حالت تبدیل ہو گئی اور میں نے سرد آہ کھینچ کر آنحضرت کی ضریح کے قریب ہوا اور میں نے عرض کیا:یا ابالفضل العباس علیہ السلام!میری دو شرعی حاجتیں ہیں جنہیں میں متعدد بار حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام،سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اورآپ کی بارگاہ میں عرض کر چکا ہوں۔
لیکن آپ نے اس کیطرف توجہ نہیں کی اوریہ ایک بیابانی بچہ یوں ہی آپ سے متوسل ہوا آپ نے اس کی حاجت روا فر مادی۔ اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ کی نظر میں میری چالیس سال تک زیارت،مجاورت اور تحصیل علم میں مشغول رہنا اس بچے کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتا۔اس لئے اب میں اس شہر میں نہیں رہوں گااور ایران ہجرت کر جاؤں گا۔
میں یہ باتیں کہہ کر حرم سے باہر آ گیا اور سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے حرم میں اس طرح سے ایک مختصر سا سلام کیا جیسے کوئی اپنے آقا سے ناراض ہو اور پھر میں اپنے گھر آگیا۔میں نے اپنا سامان باندھا اورنجف کی طرف اس ارادے سے روانہ ہو گیا کہ وہاں سے اپنے بال بچوں کو لے کر ایران چلا جاؤں گا۔
جب میں نجف اشرف پہنچا تو میں صحن کے راستے گھر کی طرف روانہ ہوا میں نے صحن میں شخ انصاری کے خادم ملّا رحمت اللہ کو دیکھا ۔میں نے ان سے ہاتھ ملایا اور گلے ملا۔انہوں نے کہا: آپ کو شیخ بلا رہے تھے۔میں نے کہا:شیخ کو کیسے پتا چلا ؟! میں تو ابھی یہاں آیا ہوں؟انہوں نے کہا:مجھے نہیں معلوم البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ انہوں نے مجھ سے فرمایا:صحن میں جاؤ، شیخ عبدالرحیم کربلا سے آ رہے ہیں انہیں میرے پاس لے آؤ۔میں نے خود سے کہا:نجف کے زائرین عام طور پر ایک دن زیارت مخصوصہ کے لئے کربلا رہتے ہیں اور اس سے اگلے دن واپس آتے ہیں اور اکثر صحن کے راستے ہی داخل ہوتے ہیں شاید اسی لئے انہوں نے ملّا رحمت اللہ سے کہا مجھے صحن میں دیکھو ۔ہم دونوں شیخ کے گھرکی طرف روانہ ہوئے ۔ جب ہم گھر کے بیرونی حصے میں داخل ہوئے تو وہاں کوئی نہیں تھا اس لئے ملاّ نے اندرونی دروازہ کھٹکھٹایا۔شیخ نے آواز دی:کون ہے؟ملّا نے عرض کیا:میں شیخ عبدالرحیم کو لایا ہوں۔
شیخ تشریف لائے اور ملاّسے فرمایا:تم جاؤ۔جب وہ چلے گئے تو انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا:آپ کی دو حاجتیں ہیں اور انہوں نے وہ دونوں حاجتیں بھی بتا دیں ۔
میں نے عرض کیا:جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔
شیخ نے فرمایا:فلاں حاجت میں پوری کر دیتا ہوں اور دوسری کا تم خود استخارہ کرلو۔اگر استخارہ بہترآئے تو میں اس کے مقدمات فراہم کر دوں گااور پھر اسے خود ہی انجام دو۔
میں نے جاکراستخارہ کیا۔استخارہ بہتر آگیا جس کا نتیجہ میں نے آکر شیخ کی خدمت میں عرض کیا تو انہوں نے قبول کر لیا اور اس کے مقدمات فراہم کر دیئے۔
(بحار الانوارج۹۵ ص۳۰۶)
یہ شیخ کی کرامات کا ایک نمونہ ہے جو جلیل القدر عالم مرحوم شیخ عبدالرحیم کے ذریعے فاش ہوا ۔ اسی طرح شیخ انصاری اور شیعہ تاریخ کی بزرگ علمی ومعنوی شخصیات سے دیکھے گئے واقعات بہت زیادہ ہیں کہ جن سے ہم مجموعاًیہ نتیجہ لیتے ہیں:
اولیائے خدا رازوں کو چھپانے اور پنی ظرفیت و قابلیت سے نہ صرف امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے فرمان پر ذمہ داری انجام دیتے ہیں بلکہ خاندان ولایت علیھم السلام کے بیکراں لطف سے تما م اہلبیت اطہار علیھم السلام سے مرتبط ہو کر ان کے احکامات کو انجام دیتے اور انہیں مخفی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اغیار سے منہ موڑ کر اپنے دل کی گہرائیوں سے خدا تک وصل کاراستہ بناتے ہیں کیونکہ ”فصل” وصل کا مقدمہ ہے اور” وصل ”فصل کانتیجہ ہے۔اس بناء پر صاحبان اسرار کا آئمہ اطہار علیھم السلام سے اتصال ایک ایسا مسئلہ ہے جو حقیقت و واقعیت رکھتا ہے ۔اگرچہ انہوں نے اسے مخفی رکھنے کی بہت کوشش کی اور اس کا انکار بھی کرتے رہے۔ بزرگ شیعہ علماء سے روایت ہونے والے بہت سے واقعات ان کی رازداری پر دلالت کرتے ہیں
ہم نے مرحوم شیخ انصاری کا جو واقعہ بیان کیا ،وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کبھی اولیائے خدا میں سے بعض کو کوئی کام انجام دینے کی ذمہ داری سونپتے ہیں اور اس کے راز و اسرار دوسروں کے ذریعے فاش ہوئے ہیں۔اب ہم شیخ انصاری کی کرامات کا جو دوسرا نمونہ بیان کر رہے ہیں ،وہ بھی اس حقیقت کی دلیل ہے۔
مرحوم شیخ انصاری کربلا کی زیارت سے مشرف ہونے والے اپنے ایک سفر میں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے حرم مطہر میں تھے کہ اہل سماوات(کوفہ اور بصرہ کے درمیان فرات کے کنارے ایک علاقہ کا نام )میں سے ایک شخص آپ کی خدمت میں پہنچااور آپ کو سلام کیا ،آپ کی دست بوسی کی اور عرض کیا:
بِاللّٰهِ عَلَیْکَ اَنْتَ الشَّیْخ مُرْتَضٰی
یعنی خدا کی قسم تم شیخ مرتضیٰ ہو؟
شیخ نے فرمایا:جی ہاں۔
اس نے عرض کیا:میں اہل سماوات ہوں میری ایک بہن ہے جس کا گھر میرے گھر سے تین فرسنخ کے فاصلے پر ہے۔ایک دن میں اس سے ملنے کے لئے گیا ۔جب میں واپس آ رہا تھا تو میں نے راستے میں ایک بہت بڑا شیر دیکھا جس کی وجہ سے میرا گھوڑا آگے نہیں بڑھ رہا تھااس سے نجات کے لئے میرے ذہن میں بزرگان دین سے توسل کے علاوہ کوئی اور ترکیب نہ آئی۔لہذا میں ابو بکر سے متوسل ہوا اور میں نے یا صدیق کہا۔لیکن مجھے اس کا کوئی اثر دکھائی نہ دیا۔پھر میں نے دوسرے خلیفہ کا دامن تھاما اور یا فاروق کہا۔لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا پھر میں عثمان سے متوسل ہوا اور میں نے یا ذالنور کہہ کر پکارا لیکن کوئی جواب نہ ملا۔پھر میں علی بن ابی طالب علیہ السلام سے متوسل ہوا اور میں نے کہا:
یا اخا الرسول و زوج البتول،یا ابا السبطین ادرکنی ولا تهلکنی
اچانک ایک نقاب پوش سوار حاضر ہوا ۔جب شیر نے سوار کو دیکھا تو اس نے خود کو ان کے گھوڑے سے مس کیا اور بیابان کی طرف چلا گیا۔پھر وہ سوار روانہ ہو گیا میں بھی ان کے پیچھے چلا ان کا گھوڑا آرام سے چل رہا تھا اور میرا گھوڑا دوڑنے کے باوجود اس تک نہیں پہنچ پا رہا تھاہم اسی طرح سے جا رہے تھے کہ انہوں نے مجھ سے فرمایا:اب شیر تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔انہوں نے مجھے میرے راستہ کی طرف رہنمائی کی اور فرمایا:فی امان اللہ۔اب تم جاؤ۔
میں نے ان سے کہا:میں آپ پر قربان آپ اپنا تعارف تو کروا دیں تا کہ مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ آپ کون ہیں جنہوں نے مجھے ہلاکت سے نجات دلائی؟
فرمایا:میں وہی ہوں جسے تم نے پکارا تھا ۔میں اخو الرسول و زوج البتول و ابو السبطین علی بن ابی طالب علیھم السلام ہوں۔
میں نے عرض کیا:میں آپ پر قربان!آپ میری راہ راست کی طرف ہدایت فرمائیں۔
فرمایا:اپنا عقیدہ صحیح کرو۔
میں نے عرض کیا:صحیح اعتقادات کیا ہیں؟
آپ نے فرمایا:جاؤ !جا کر شیخ مرتضیٰ سے سیکھ لو۔
میں نے عرض کیا:میں انہیں نہیں پہچانتا تو آپ نے فرمایا:وہ نجف میں رہتے ہیں اور مجھے کچھ خصوصیات بتائیں جواب میں آپ میں دیکھ رہا ہوں ۔
میں نے عرض کیا:جب میں نجف جاؤں تو ان مل سکوں گا؟
فرمایا:نجف جاؤ گے تو ان سے نہیں مل پاؤ گے کیونکہ وہ حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آئے ہیں۔لیکن تم ان سے کربلا میں مل سکتے ہو ۔انہوں نے مجھ سے یہ بات ہی کہی اور میری نظروں سے اوجھل ہو گے۔
میں سماوات گیا اور وہاں سے نجف کے لئے روانہ ہوا لیکن وہاں آپ کو نہیں دیکھا اور آج کربلا میں داخل ہوا ہوں اور ابھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اب آپ میرے لئے شیعوں کے عقائد بیان فرمائیں۔
شیخ نے فرمایا:شیعوں کا اصل عقیدہ یہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام کو رسول اللہ (ص) کا بلا فصل خلیفہ مانواور اسی طرح آپ کے بعد آپ کے فرزندحضرت امام حسن علیہ السلام اور پھر آپ کے دوسرے فرزند حضرت امام حسین علیہ السلام (جن کا یہ حرم مطہر اور ضریح ہے) اور اسی طرح بارہویں امام تک جو کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں۔جو کہ پردۂ غیب میں ہیں یہ سب امام ہیں اور جو شخص ان عقائد کا اعتراف کرے وہ شیعہ ہے ۔اعمال میں بھی تمہاری ذمہ داری یہی ہے کہ نماز ،روزہ ، حج وغیرہ انجام دو۔
میں نے عرض کیا:مجھے شیعوں میں سے کسی کے سپر د کریں جو مجھے احکامات کی تعلیم دے ۔مرحوم شیخ نے مجھے ایک بزرگ کے سپرد کر دیا اور انہیں تاکید فرمائی کہ مجھے تقیہ کے منافی احکام نہ بتائیں۔
(زندگانی و شخصیت شیخ انصاری:۹۶)
نگھبان سرت گشتہ است اسرار اگر سَر بایدت رو سِرّ نگھدار
زبان دربستہ بھتر،سرّ نھفتہ نماند سَر چو شد اسرار گفتہ
کرامات اور اسرار کو چھپانا نہ صرف ان کی مخالفین سے حفاظت کا ذریعہ ہے بلکہ اس کا دوسرا اہم راز دوسرے اہم ترین اسرار و رموذ تک رسائی کے لئے اپنی ظرفیت میں اضافہ کرنا ہے۔رازداری کی اسی اہمیت کی وجہ سے اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام نے اس کی تاکید کی ہے اور اسے انسان کے لئے دنیا و آخرت کی خیر جمع کرنے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔
امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
جُمِعَ خَیْرُ الدُّنْیٰا وَ الْآخِرَةِ فِیْ کِتْمٰانِ السِّرِّ وَ مُصٰادَقَةِ الْاَخْوٰانِ وَجُمِعَ الشَّرُّ فِ الْاِذٰاعَةِ وَمُؤٰخٰاةِ الْاَشْرٰارِ
(سفینۃ البحارج۲ص۴۶۹)
دنیا و آخرت کی خوبیاں راز چھپانے اوربھائیوں کے ساتھ سچائی میں جمع کر دی گئی ہیں اور تمام برائیاں راز کو فاش کرنے اور اشرار سے ہمنشینی و برادری میں ہیں۔
ہمارے بزرگوں نے اسرار کو مخفی رکھنے اور رازوں کو چھپانے سے نہ صرف خود کواغیار سے محفوظ رکھا بلکہ وہ اسے عظیم اسرار و موذ کو درک کرنے کے لئے اپنی ظرفیت میں اضافہ کا باعث سمجھتے ہیں اور انہوں نے اپنی کرامات کوچھپا کر اپنی روحانی قوّتوں میں اضافہ کیا۔
راز فاش کرنے کے نقصانات
اسرار کو فاش کرنا اور رازوں کو نہ چھپا سکنا انسان کی ظرفیت کے کم ہونے کی دلیل ہے۔اہلبیت اطہار علیھم السلام کے اسرار و معارف کے انوار کے دریا میں غوطہ زن ہونے والے ان اسرار و رموز کو فاش کرنے سے گریز کرتے تھے۔ان کی رازداری ان کی ظرفیت و قابلیت کی دلیل اور معنوی مسائل میں ان کی ترقی و پیشرفت کا وسیلہ ہے۔جو راز چھپانے کی طاقت نہیں رکھتے ،یہ ان کی استعداد و ظرفیت کے کم ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ کچھ موارد میں ان کے افشاء کرنے کا اصلی سبب اصل حقائق میں شک کرنا ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
مُذِیْعُ السِّرِّ شٰاکّ
(بحار الانوار:۸۸۷۵،اصول کافی ح۳۷۱۲)
راز کو فاش کرنے والا شک میں مبتلا ہوتاہے۔
جو راز کو فاش کرتا ہے ،اگر راز کو فاش کرتے وقت اسے شک و تردید نہ ہو تو اس کے بعد وہ اس بارے میں شک میں گرفتار ہو جاتاہے ۔ کیونکہ جب دوسروں سے راز بیان کرتے ہیں تو پہلے دوسروں کو اصل مسائل کے بارے میں شک ہوتا ہے اور پھر خود بھی ان کا انکار کر کے اپنے مرتبہ سے گر جاتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے:
اِفْشٰاءُ السِّرِّ سُقُوْط
(بحار الانوارج۷۹ص۲۲۹،تحف العقول ص۳۱۵)
راز کو فاش کرنا سقوط (پستی)ہے۔
ان انمول فرامین سے استفادہ کرتے ہوئے جو خود کو صاحب ”حال” سمجھتے ہیں اور معتقد ہیں کہ وہ ایک مقام و مرتبے تک پہنچ گئے ہیں ،انہیں اس بات کا خیال رکھناچاہئے کہ نہ کہے جانے والے مسائل کو کہنے سے نہ صرف کچھ افراد ان حقائق کا انکار کر دیں گے بلکہ اس سے آپ اپنے زوال کے اسباب بھی مہیا کردیں گے۔
چھوٹا سا برتن تھوڑے سے پانی ہی سے لبریز ہو جاتا ہے لیکن دریا نہروں اور ندیوں کے پانی کو اپنے اندر سمو لیتا ہے لیکن پھر بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔کامیابی کے متلاشی اور بلند معنوی درجات تک پہنچنے کی جستجو کرنے والوں کو دریا دل ہونا چاہئے اور رازوں کو چھپانے سے اپنی ظرفیت کو وسعت دیں ۔اس روش کے ذریعے سنت الٰہی کی پیروی کریں ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حقیقت کو یوں بیان فرماتےہیں:
…..اَلسُّنَّةُ مِنَ اللّٰهِ جَلَّ وَ عَزَّ ،فَهُوَ أَنْ یَکُوْنَ کَتُوْماً لِلْاَسْرٰارِ
(بحار الانوارج۷۸ص۲۹۱،تحف العقول۳۱۵)
مومن میں خدا کی جو سنت ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ وہ رازوں کو چھپانے والا ہو۔
اس بناء پر مقام معرفت اور حقائق تک پہنچنے والا بایمان شخص انہیں ایک خزانے کی طرح دوسروں سے چھپائے ۔انسان کسی خزانے کے بارے میں راز کو فاش کرکے کس طرح اسے دوسروں کی دسترس سے محفوظ رکھ سکتاہے۔
اس بیان کی روشنی میں خدا کے حقیقی بندے وہ ہیں جو اغیار کے ہاتھ اپنی کوئی کمزوری نہ لگنے دیں ۔اولیائے خدا نے خاموشی اور راز کو چھپانے سے خود کو زینت بخشی نہ کہ انہوں نے خود کو بدنام کیا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
حلیتهم طول السکوت و کتمان السر
طولانی خاموشی اور راز چھپانا ان کی زینت ہے۔
کم گوی و مگوی ھر چہ دانی لب دوختہ دار تا توانی
بس سرّ کہ فتادۂ زبان است با یک نقطہ زبان زیان است
آن قدر رواست گفتن آن کاید ضرر از نگفتن آن
نادان بہ سر زبان نھد دل در قلب بود زبان عاقل
اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام نے متعدد روایات میں اپنے محبوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ لوگوں سے اسرار اور ایسی باتیں ضرور چھپائیں جنہیں برداشت کرنے کی ان میں طاقت نہ ہو اور ان ہستیوں نے ان کی اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمیشہ اسرار کی حفاظت کرنے کی کوشش کرو اور اپنا راز اپنے دل میں دفن کر دو۔
نتیجہ بحث
راز و اسرار کو چھپانا بلند معنوی درجات تک پہنچنے کی بنیادی شرائط میں سے ہے۔اسی لئے شیعہ تاریخ کے بزرگوں نے اس مسئلہ کی طرف مکمل توجہ کی کیونکہ رازداری نہ صرف انسان کو مخالفین کے شرّ سے بچاتی ہے بلکہ کائنات اور ملک و ملکوت کی خلقت کے عظیم اسرار سیکھنے کے لئے اس کی پرورش بھی کرتی ہے۔
اس رو سے اسرار کی حفاظت کرنا نہ صرف اسے اغیار کے ہاتھوں لگنے سے بچاتی ہے بلکہ باطنی ظرفیت میں اضافے کے لئے بھی یہ بہت اہم ہے۔خود پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے راز فاش کر دینے کانتیجہ انسان کا بلند معنوی مراحل سے زوال و سقوط ہے اور ایسے مسائل کی حقیقت کے بارے میں انسان خود کو اور دوسروں کو شک و شبہ میں مبتلا کر دیتا ہے!
راز کو خیالات اور خرافات سے تشخیص دینا بہت اہم مسائل میں سے ہے کہ جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے۔جس طرح رازداری اہم ہے اسی طرح ذہن کو خیالات اور خرافات سے پاک کرنا بھی بنیادی کردار کا حامل ہے۔
چون کہ ترا دوست کند راز دار
طرح مکن گوہر اسرار یار
آب صفت ہر چہ شنیدی بشوی
آینہ سان ھر چہ کہ بینی مگوی
(اقتباس از کامیابی کے اسرار جلد۲)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button