اخلاقیاتدعا و مناجاتمکتوب

"شرح مناجات شعبانیہ” علامہ انور علی نجفی دامت برکاتہ

آٹھواں درس
بسم اللہ الرحمن الرحیم
” إِلهِي أَنا عَبْدٌ أَتَنَصَّلُ إِلَيْكَ مِمَّا كُنْتُ أُواجِهُكَ بِهِ مِنْ قِلَّةِ اسْتِحيائِي مِنْ نَظَرِكَ وَأَطْلُبُ العَفْوَ مِنْكَ إِذِ العَفْوُ نَعْتٌ لِكَرَمِكَ، إِلهِي لَمْ يَكُنْ لِي حَوْلٌ فَأَنْتَقِل بِهِ عَنْ مَعْصِيَتِكَ إِلّا فِي وَقْتٍ أَيْقَظْتَنِي لِمَحَبَّتِكَ وَكَما أَرَدْتَ أَنْ أَكُونَ كُنْتُ فَشَكَرْتُكَ بإدْخالِي فِي كَرَمِكَ وَلِتَطْهِيرِ قَلْبِي مِنْ أَوْساخِ الغَفْلَةِ عَنْكَ.”
مناجات شعبانیہ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوٰۃ و السلام کی زبان پر جاری ہونے والے وہ کلمات ہیں جو صرف مولا الموحدین علی ابن ابی طالب ؑ ہی ادا کر سکتے ہیں صرف آپ ہی ان مناجات کو اپنی زبان مبارک پر جاری کر سکتے ہیں تاریخ اور کتب احادیث گواہ ہیں کہ اس قسم کی دعا صرف اور صرف لسان امیر المؤمنین سے جاری ہوئی ہے اور اس کے بعد امام علی کی اولاد میں سے ائمہ طاہرین علیھم السلام نے اس قسم کے مناجات کی ہیں ۔وہ ہستی جس کے کان میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے زیادہ نجوی کیا اور پھر جب اصحاب نے اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا یہ نجوی میں علی کی کان میں نہیں کر رہا بلکہ خدا علی کی کان میں نجوی کررہاہے وہی علی جب بارگاہ خداوندی میں نجوی کرتا ہے تو مناجات شعبانیہ کی صورت میں زندہ و پائندہ ہو جاتا ہے۔
بعض لوگوں نے سوال کیا تھا کہ کیا یہ دعا مفاتیح الجنان میں بھی ہے ؟
جی یہ دعا مفاتیح الجنان اور دعا کی دیگر کتابوں میں بھی ہے آن لائن بھی موجودہے اس کو آپ مفاتیح سے پڑھنا چاہتے ہیں تو شعبان کے اعمال میں مناجات شعبانیہ ملے گی جسےآپ پڑھ سکتے ہیں ۔مناجات کو اپنے ساتھ کھول کر رکھیے گا یہاں پر بھی بہت کم جملے پڑھتے ہیں ان کو سمجھیے گا اس کے بعد پھر پڑھیے گا اور پھر لطف لیجئے گا اصل لطف آپ کو کلام امیر المؤمنینؑ سے ہی آئے گا اور یہ وہ توحید ہے جس کے گرد کسی اور کی بیان کردہ توحید نہیں پہنچ سکتی یہ توحید کا وہ عظیم شاہکار ہے جس تک کسی کے عقل اور تخیل کی رسائی نہیں۔ اس میں علی ابن ابی طالب ؑ آپ کو معرفت الٰہی اور قرب الٰہی کی طرف لے کے جا رہے ہیں امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
إِلهِي أَنا عَبْدٌ
اے اللہ ا میرے معبود ! میں ابھی نہ ہی اس الٰہی کو بیان کر سکا نہ ہی سمجھ سکا اور نہ ہی اس کی لطافت آپ تک پہنچا سکا ہوں اورنہ اپنی جان اور دل میں اتار سکا ہوں۔
"أَتَنَصَّلُ إِلَيْكَ مِمَّا كُنْتُ أُواجِهُكَ”
میں پشیمان ہوں، میں توبہ کر رہا ہو، میں واپس آ رہا ہوں، میں شرمندہ ہوں، میں جس طرح تجھ سے معاملہ کرتا رہا ہوں تیرے محضرمیں گناہ کرتا رہا ہوں یہ میری بے شرمی ہے اور بے حیائی ہے کہ تجھ جیسا دیکھنے والا دیکھتا رہا اور میں نے اتنی حقیر سی عبادت اس کے لئے پیش کی اور تجھ جیسا ناظر اور گواہ دیکھتا رہا میں گناہ کرتا رہا ۔
وَأَطْلُبُ العَفْوَ مِنْك
میں تجھ سے معافی کا طلب گار ہوں اس لئے کہ
إِذِ العَفْوُ نَعْتٌ لِكَرَمِكَ
عفو تری کرم کی صفات میں سے ایک نہایت خوبصورت صفت ہے ِ یہاں پر ایک صفت حیاء ہے جس کو امیر المؤمنین بتانا چاہ رہے ہیں یہ حیا مجھ میں کم ہے تو میں اب پلٹ آیا ہوں اب میں نے بے حیائی اور بے شرمی سے توبہ کر لی ہے میں پلٹ کر تیرے پاس آیا ہوں اور اپنی اس گستاخی پر شرمندہ ہوں اس حیا کی لطیف صفت کو ہمارے اندر بیدار کرنا چاہ رہا ہوں یہ حیا وہ شجرہ طیبہ ہے جس کی شاخوں میں سے ہر شاخ پر ایک صفت اگتی ہے اور صفات اخلاقیہ میں سے بہت سی صفات اسی صفت سے نشونماپاتی ہیں اس شجریہ طیبہ سے انسان بہت کچھ لے سکتا ہے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث طیبہ پیش کر رہا ہوں :
"أما الحياء فيتشعب منه اللين، والرأفة، والمراقبة لله في السر والعلانية، والسلامة، واجتناب الشر، والبشاشة، والسماحة، والظفر، وحسن الثناء على المرء في الناس، فهذا ما أصاب العاقل بالحياء، فطوبى لمن قبل نصيحة الله وخاف فضيحته ” (ميزان الحكمة – محمد الريشهري – ج ١ – الصفحة ٧١٧)
ماہ شعبان میں گروہ در گروہ جب بہت زیادہ سہولتیں مل رہی ہیں۔تو بہت سی چیزیں حیا سے حاصل ہوتی ہیں ۔ رحمت کے بہت سے پیکجز آپ کو مل جاتےہیں اس مہینے میں سب بڑی سہولت مناجات شعبانیہ کی ہے وہ معرفت ہمیں حاصل ہو رہی ہے جسے ہم تصور نہیں کر سکتے اگر حیاء ہو تو آپ کا قول نرم ہو جائے گا آپ کی شخصیت میں وہ جو سختی ہے وہ ختم ہو جائے گی اور نرم خو ہو جاو گے آپ کی شخصیت میں عطوفت آجائے گی اگر حیا ء ہو تو آپ خدا سے حیا کرینگے جب خدا سے حیاء ہوگا تو آپ میں مراقبت آجائے گی اور آپ کی شخصیت میں مراقبت آنے کا مطلب یہ ہے نہ ہی اعلانیہ نہ چھپ کر نہ آشکار طور پر آپ خدا کی مخالفت کرینگے اس کے فوائد اس قدر ہیں کہ اگر ایک ایک کو کھول کر بیان کرنا شروع کردوں تو ہمارے پاس وقت نہیں رہے گا۔ اسی ایک صفت حیاء کی وجہ سے آپ شر ورسے محفوظ رہیں گے آپ سالم رہیں گے اور رذایل اخلاقی سے بھی محفوظ رہیں گے چہرہ آٌپ کا ہشاش بشاش رہے گا آپ میں انرجی آئے گی آپ میں لطف اور کیف اور سرور آجائے گا زندگی گزانے میں مزا آئےگا ۔اگر حیا ء ہوتو کامیابی مل جائے گی لوگوں کی زبان پر آپ کی تعریفیں جاری ہوں گی یہ تمام صفات عاقل حیاء سے پیدا کرتا ہے اگر اس کی شخصیت میں حیاء ہو تو اس شخص کے لیے طوبی ہے طوبی وہ درخت ہے جہاں سے جنت کے تمام نعمات ملیں گی حدیث میں ہے کہ ،
"الحیاء مفتاح کل الخیر "
چھوٹے سے جملے میں سب کچھ بیان کر دیا تمام خیر کی چابی تمام خیر کاذریعہ حیا ء ہے اور ایک چیزجس کو ہم سمجھ سکیں اور محسوس کر سکیں کہ حیاء کیاکرتا ہے ؟ کاش اس کو میں سمجھا سکوں !
یہ صفات جو ہم اللہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں یہ خدا میں ہماری طرح نہیں ہوتیں جیسے خدا عالم ہے خدا غضب کرتا ہے خدا رحمت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ خدا میں کوئی تغیر آ رہا ہوتا ہے خدا میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے ہم یہ سارے دعائیں کیوں کر رہے ہوتے ہیں کہ خدایا رحم فرما اور خدا رحم کر خدا تو ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ایسا نہیں ہوتا وہ رحم کر رہا ہو آپ کے کہنے کی وجہ سے نہ کرے یا نہ کر رہا ہو اور آپ کی دعا کی وجہ سے کر دے ایسا نہیں ہےبلکہ ہمیشہ اس کی طرف سے رحمت نازل ہو رہی ہوتی ہے وہاں سے فیوضا ت بے کراں ہمیشہ سیل رو اں کی طرح عبا د کی طرف آ رہی ہوتی ہیں وہاں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے تبدیلی ہم میں آتی ہے جب ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ رحم کر یعنی ہم اپنے آپ کو کہہ رہا ہوتا ہے کہ اپنے حال پر رحم کر اور رحمت الٰہی کو حاصل کر یہاں خدا حیاء کرتا ہے اس کا مطلب اس طرح حیا کرنا نہیں جیسے ہم حیاء کرتے ہیں ۔
"و اطلب العفو منک "
اور میں تجھ سے عفو کا طلب گار ہوں اس لئے کہ عفو جو ہے وہ تیری صفات میں سے ایک صفت ہے تیری کرم کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔
يا من في عفوه يطمع الخاطئون
ہم جیسے گناہ گار ہم جیسے خطا کار ہم جیسے لغزش اور خطا کرنے والے انسان تیرے عفو اور تیری بخشش کے طلبگار ہیں۔
"الهی لم یکن لی حول "
انتہائی خوبصورت جملہ ہے ہر جملہ نہایت خوبصورت ہے اور جی چاہتا ہے کہ ہر جملے پہ ایک ایک گھنٹہ انسان گفتگو کرے اور سوچتا رہے۔اس کے لئے سارا سارادن بھی اگر سوچتار ہے تو وہ بھی کم لگتا ہے جتنی دفعہ آ پ ان جملات پر غور وفکر کریں گےاتنے ہی معارف کے خزانے ملتے جائیں گے۔
میرے پاس کوئی بھی طاقت نہیں ہے ۔
تیری معصیت سے بچنے کے لئے ایک طاقت چاہیے، قوۃ چاہیے، صبر چاہیے حوصلہ چاہیے جو مجھ میں نہیں ہے میں نہ شیطان سے بھاگ سکتا ہوں نہ یہ حوا و حوس اور نہ ہی دنیا طلبی اور دنیاوی لذتوں کا مقابلہ کر سکتا ہوں میں معصیت سے نہیں رک سکتا میرے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں ہے کہ میں معصیت سے رک سکوں ایک طاقت ہے جو مجھے معصیت سے روکتی ہے ۔ وہ کیا ہے؟ یہ جملہ:
إِلّا فِي وَقْتٍ أَيْقَظْتَنِي لِمَحَبَّتِكَ
میں اس وقت معصیت سے رک سکتا ہوں شیطان میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ساری دنیا سے میں ٹکر لے سکتا ہو ں جب میرے دل میں تیری محبت آ جائے کتناخوبصورت کلام ہے ۔
وَكَما أَرَدْتَ أَنْ أَكُونَ كُنْتُ فَشَكَرْتُكَ بإدْخالِي فِي كَرَمِكَ
میں اپنے تئیں کچھ بھی نہیں کر سکتا اور نہ مقابلہ کر سکتاہوں میں بہت ضعیف ہوں لیکں میں طاقتور ترین فرد بن سکتا ہوں اگر تیری نظر کرم مجھ پر آجائے اور میرے دل میں تیری محبت جاگ جائے اور میں محبوب بندوں میں سے ہو جاو ں پھر تیری معصیت ترک کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں ہوگی۔
فَشَكَرْتُكَ بإدْخالِي فِي كَرَمِكَ
اگر میں معصیت نہیں کرتا تو بھی ترے کرم سے ہے تیرا شکر ہے کہ تو نے اپنے کرم میں مجھے داخل کیا ۔
وَلِتَطْهِيرِ قَلْبِي
میرے دل کو طاہر کر دیا میں ہاتھ اب بار بار دھو رہا ہوں تاکہ میں وائرس سے بچ سکوں تیرے ذکر سے اپنا دل پاک کرتا ہوں اور غفلت سے باہر آتا ہوں امیر المؤمنین نے یہاں غفلت کو میل کچیل کہا ہے اگر ہم تھوڑی دقت کر لیں کہ یہاں کیا فرما رہے ہیں۔ امیر المومنین ؑ ہمیں یہ سمجھانا چا ہ رہے ہیں کہ اگر تم نے کچھ حاصل کرنا ہے تو اللہ کی معصیت سے دور رہے بغیر کچھ حاصل نہیں کرسکتے ۔سب سے پہلے اللہ کی معصیت سے اپنے آپ کو بچانا ہے اور اس کے بعد اطاعت الہی میں جانا ہے اس کے بعد آپ دنیا کی کامیابی حاصل کر نے کے لیے جائیں ۔ ہماری طرح نہ ہو کہ ہم دنیا حاصل کرتے رہے اپنے آپ کو بھول گئے اپنے اطراف خوبصورت کرتے رہے اور اپنے اندر جو غفلت آ رہی تھی اور جو میل کچیل روحانی طور پر ہمارے روح اور جسم کو متاثر کر رہی تھی ان سے ہم غافل رہے ۔ ابھی آپ کو پاک کرنے کے لیے امیر المؤمنین ؑ آپ کی تطہیر کا انتطام کر رہے ہیں اس تطہیر کا انتظام میں کیا کر سکتا ہوں میں تو کچھ بھی نہیں کر سکتا میں وہی کر سکتا ہوں جو مجھے خدا توفیق دے۔ توفیق الہی کے بغیر اللہ کی محبت میرے دل میں نہیں آسکتی ۔
جہاں آفریں گر نمی یاری کند کجا بندے پرہیز گاری کند
ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے
وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔ (سورہ نور: 21)
اگر اللہ کا فضل نہ ہو اور اس کی رحمت نہ ہو تم میں سے کوئی بھی پاک نہیں ہو سکتا تم میں سے کوئی طاہر نہیں ہو سکتا جسے چاہے وہ پاک کر دیتا ہے وہ خوب سننے والا ہے وہ خوب جاننے والا ہے۔
وہ خوب جانتا ہے تیری بات کو بھی تیری مناجات کو بھی تیری حالت کو بھی خوب جانتا ہے اور پھر یہ پاک کر دیتا ہے اگر مناجات شعبانیہ کو سمجھ کر خدا کی بارگاہ میں آئیں اور توفیق الہی حاصل کرنے کے لیے جو سب سے اہم چیز ہے وہ یہ ہے کہ آپ اپنا دل اللہ کے حوالے کر دیں اپنے دل میں اللہ کی محبت کو بیدار کر دیں اور محب خدا قلب مؤمن میں شعلہ ور ہو تو پھر یہ شعلے تمام گناہوں کو جلا دیتےہیں عشق خدا میں انسان کو جلا کر اس میں سے انسان نکل آتا ہےپھر اپنے آپ سے نہیں اپنے معشوق سے پیار ہو جاتا ہے۔
امام زین العابدین ؑ ارشاد فرما تے ہیں میں نے عرض کیا تھا کہ امیر المؤمنین ؑاس قسم کی مناجات کر سکتے ہیں یا اولاد علی ؑمیں سے زین العابدین علیہ السلام جیسی ہستیاں اس قسم کی مناجات کر سکتے ہیں۔
سيدي أنت أنقذت أولياءك من حيرة الشكوك، وأوصلت إلى نفوسهم حبرة الملوك (بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج ٩١ – الصفحة ١٧٢)
تو نے اپنے دوستوں کو اپنے اولیاء کواپنے قریبی بندوں کوحیرت اور شکوک سے نکالا، یقین کی کیفیت تو نے عطا کی اور ان کےدلوں میں محبت ڈال کر مستحکم کیا۔ کیسے بیان کروں کیسے سمجھاؤں ؟ نہ اردو میں اتنی طاقت ہے کہ ان الفاظ کو آپ تک پہنچا سکے اور نہ مجھ میں اتنی فصاحت ہیں کہ میں ا مام زین العابدینؑ اور امیر المؤمنینؑ کے کلام کو آپ تک منتقل کر سکوں۔ تمام تر اعتراف قصور اور تقصیر کے ساتھ یہ میری انتہائی عاجزانہ کوشش ہے ۔
امام جعفر صادقؑ فرما رہے ہیں: "حب الله اذا اضاء على سر عبد اخلاه عن كل شاغل وكل ذكر سوى الله عنده ظلمة والمحب اخلص سراً لله واصدقهم قولاً واوفاهم عهداً وازكاهم عملاً ، واصفاهم ذكراً واعبدهم نفساً تتباهى الملائكة عند مناجاته وتفتخر برؤيته ، وبه يعمر الله تعالى بلاده ، وبكرامته يكرم عباده ، يعطيهم اذا سألوا بحقه ويدفع عنهم البلايا ، برحمته فلوا علم الخلق ما محله عند الله ومنزلته لديه ما تقربوا الى الله الا بتراب قدميه .”
اگر اللہ کی محبت کسی کے دل میں آجائے تو باقی تمام مشاغل سے اسے نکال دیتی ہے اس کا ذہن کہیں اور مشغول نہیں رہتا ہے اللہ کے علاوہ باقی تمام ذکر ظلم ہے یہ جو ذکر دنیا ہے جس نے کسی سے وفا نہیں کی،۔ سب سے وعدہ کرتی ہے اس کے باوجودیہ اتنا پیار کئے جانے کے قابل نہیں ہے یہ معشوق بننے کے لائق نہیں ہے پھر اتنا کیوں دنیا سے پیار ہے، کیوں دنیا کا ذکر بہت زیادہ ہوتا ہے اور جتنا غیر اللہ کا ذکر ہوتا ہے اتنی ظلمت بڑھتی ہے ۔ اگر اس حدیث کے جملے کو سمجھ لیں توتمام تاریکیا ں ختم ہو جائے، امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں : "محب وہ ہے جو خالص ترین میں سے ہو گا قول میں سچا ہو وفا و عہد جو خدا سے کیے ہیں اسلام میں داخل ہوا ہے ربوبیت کا عہد ہوا ہے امام سے عہد کیا ہے اطاعت کا عہد کیا ہے ان تمام عہود کو ،اپنے وعدوں کو اگر نبھائے تو وہ محب ہے ”
رسول خدا ؐفرما تے ہیں : ” اللھم الرزقنی حبک و حب من احبک و حب من یقربی الی حبک وجعل حبک احب الی من الماء البارد ”
اس دل میں اگر حب الہی آئے گی تب ہی معصیت سے جدا ہو سکتا ہوں، مجھے اللہ کی محبت اپنے دل میں بسانی ہےتیری محبت چاہیے اور جو تجھے چاہیے ان اولیاء کی محبت چاہیے خدا کی محبت چاہیے لیکن خدا کی محبت کرنے لیے مجھے اولیاء اللہ سے محبت چاہیے اولیاء سے محبت کے لئے مجھے ان لوگوں سے محبت کرنی ہے جو میرے دل میں اولیاء اللہ کی محبت ڈالتے ہیں ان کے بغیر میں نہیں کر سکتا مجھے پیاس لگتی ہے پانی کی چاہت ہوتی ہے جس طرح میں پانی پینا چاہتا ہوں اور ہر روز چاہتا ہوں اور پی پی کےنہیں تھکتاپھر بھی ہر دفعہ مجھے پانی کی طلب ہوتی ہے اسی طرح اپنی محبت میرے دل میں ڈال کہ میرے دل سے تیری محبت تھوڑی سی کم ہو تو تڑپ جاؤں تیری تلاش میں نکلوں تیری محبت کو اپنے دل میں بساؤں ور انتہائی لطیف نکتہ یہ ہے کہ خدا سے ہمیں محبت کی دعا کیسے کرنی چاہیے محبت الٰہی کا درخت ہمارے سینے میں کاشت ہو جائے اور یہ ہمیشہ پھلتا پھولتا رہے جیسے ہی اس کے پتے گرے اس کے نئے پتےاس پر آجائیں اور انہیں محبت الہی کے ذریعے ہم اعلی مقام تک پہنچ سکیں کہ اس کے بعد پھر اسے گناہ سے روکنے کے لئے ہمیں کسی اور کی ضرورت نہ رہے۔
امام علی علیہ السلام فرما تے ہیں : بندگان خدا تین قسم کے ہیں :
ایک گروہ وہ ہیں جو خوف خدا کی وجہ سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں یہ غلا موں کی عبادت ہے اور ایک گروہ ثواب کے حصول کے لئے اللہ کی عباوت کرتے ہیں یہ تجارت کی عبادت ہے اور ایک قوم جو اللہ کی محبت میں اللہ کی عبادت کرتی ہے ، ، یہ خدا کے آزاد بندوں کی عبادت ہے۔
اگر محبت آل محمد ؑ کسی کے قلب میں بہنا شروع ہو جائے تو باقی تشنگان کے لئے کوثر بن جائے گی اور وہ آکر آپ سے محبت الہی پئ لیں گے۔جوآپ سے محبت کرے گا وہ عین خدا سے محبت کرے گا۔رسالت مآب ارشاد فرماتےہیں:
"أحبّ الله عبدا من أمتي ، قذف في قلوب أصفيائه ، وأرواح ملائكته ، وسكّان عرشه محبته”
اگر تم خدا سے محبت کرو تو تمام اصفیا ء تمام ارواح ملائکہ تمام سکان عرش خدا تم سے محبت کریں گے۔ فلذالک محب حقا لہ ثم طوبی لہ عند اللہ شفاعۃ یوم القیامہ” یہ شخص نہ فقط دنیا میں بانٹ رہا ہوگا ،اور لوگوں کی ہدایت کر رہا ہوگا بلکہ قیامت میں بھی شفیع ہوگا لوگوں کی شفاعت کرے گا اللہ کی محبت اگر تیرے دل میں ہےتو اما م علی ؑ فرماتے ہیں: اے موسی میرا ذکر ذاکرین کے لئے ، اور میری زیارت زائرین کے لئے ہے ۔، اور میری جنت اطاعت گزاروں کے لئے ہے ، ان کے لئے جو مجھ سے محبت کرتے ہیں ،میں خود ہوں۔پھر جنت کیا ارزش رکھتی ہے ۔ آج ان ایام میں ان حالات میں جہاں بشریت پریشان ہے وہاں اگر خدا سے محبت کی جائے” الحب افضل من الخوف” امیر المومنیؑن ارشاد فرمارہے ہیں؛ خوف سے زیادہ محبت افضل ہے۔ ہم ان چیزوں کو نہیں سمجھتے ہم اپنے بچوں کو خوف دلاتے ہیں اور خدا ہمیں کیا تعلیم دیتا ہے محبت کا۔
(ہم نے سورہ فاتحہ پر پچھلے سال ماہ محرم میں جو عشرہ جو پڑھا ہے اس میں بہت سارے مطالب موجود ہیں جو وہاں بیان ہو چکے ہیں ان کو یہاں تکرار نہیں کر تے۔)
اللہ اپنا تعارف رحمٰن و رحیم سے کراتا ہے۔ اللہ اپنا تعارف حب سے کراتاہے اور ہم بچوں کوخدا کےخوف سے ڈراتے ہیں ۔بچوں کو شروع سے یہ بتاتے ہیں کہ یہ نہ کرو اللہ ناراض ہو جائے گا ،اللہ سے ڈرو،اللہ سے ڈرو بھی محبت میں ہے ۔اللہ کا خوف بھی محبت میں ہے ۔”الحب افضل من الخوف”
بچوں کو خدا سے خوف نہ دلاو بلکہ بچوں کے دلوں میں اللہ کی محبت ڈالو ۔مناجات میں ارشاد ہو رہا ہے ۔تو نے مجھے اپنے کرم میں داخل کیا اور میرے دل کی تطہیر کر دی ، میں شکر ادا کر رہاہوں کیا میں فقط شکر ادا کر رہا ہوں؟ نہیں، میں فقط تیرا شکر ادا نہیں کر رہا تھا پوری کائنات اور اس عالم میں موجود تمام ذرات تیرا شکر اور تیری تسبیح و تیری حمد کر رہے تھے ، صرف میں نہیں کر رہا تھا۔تو نے مجھے اس کاروان میں شامل کر دیا میں انسان کی بات کر رہا ہوں ۔
اس کائنا ت کو دیکھیں اور اس کی وسعت کو دیکھیں جہاں تھوڑا بہت جانتا ہے اس میں انسان نہ ہونے کے برابر ہے تمام کہکشانوں کی نسبت انسان ایک ذر ہ کے برابر بھی نہیں ۔ اور باقی کہکشاوں میں کتنی آبادی ہے؟ ان تمام کی تعداد میں انسان کی تعداد کیا ہے اس کو اپنے اوپر غرور ہےیہ کچھ بھی نہیں ہے اگر یہ شکر کرے گا تو یہ اس عالم کے ساتھ اس سفر کی طرف بڑھے گا ،جس عالم میں سب خدا کی طرف حرکت میں ہے سب ذکر خدا میں ہے ۔
گر ترا از غيب چشمی باز شد با تو ذرات جهان همراز شد
تیری آنکھیں بند ہے تو غیب کو نہیں دیکھ سکتا کاش اگر دیکھ سکتا”
تم کیونکہ نا محرم ہو تم اس سفر میں خدا کی طرف جا رہےہو ذوق اور شوق سے شکر کرتے ہوئے، تسبیح کرتے ہوئے ،سجدے کرتے ہوئے اللہ کی طرف،جا ر ہےہو تو تم نا محرم ہو۔اس لئے اس کو درک نہیں کرسکتے لیکن اگر تم درک کر لو ” لئن شکرتم لازیدنکم” اگر تم شکر کرو تو میں زیادہ دوں گا۔بحر بیکراں کو تمہارے سامنے رکھ دوں گا،پھر کیا ہوگا؟ تم تصور نہیں کر سکتے ،تم سوچ ہی نہیں سکتے، تم بیان ہی نہیں کر سکتے ۔ سارے جہاں کے ہر ذرے پر تیرا کرم ہےکہ تو نے اس میں مجھے بھی شامل کیا ہے،
لتطھیری قلبی من اوصافی خصلاتی عنک
اس غفلت کی پلیدی سے مجھے صاف کر دیا ،مجھے پاک کر دیا اگر غفلت ایک لمحہ کے لئے بھی ہو اقبال کیا کہتے ہیں
گر بقدریک نفس را فی شدید از صد فرسنگاز منزل شدی’
ایک لمحہ کے لئےبھی اگر رہ جاؤ تو پھر کاروان گیا پھر وہ کاروان تمہیں ملنے والا نہیں ہے غفلت کی اصلا ًجازت نہیں ہے؛
واذکر ربک فی نفسک”ہمیشہ ذکر خدا کرو غفلت میں تم نہیں رہ سکتے ۔
تذرعا و خیفا من دون الجھر من القول بالغدو الاصالٗ
صبح و شام ذکر خدا کرتے رہو ” ولا تکن من الغافلین ” ممکن نہیں ہے تم غافلین میں سے ہو جاوغافلین میں سے نہ ہونے کے لئے صبح و شام زبان سے ذکربھی کرنا ہے اور عمل سے بھی ذکر کرنا ہےذکر قلبی کی منزل تک پہنچناہے جب ذکر قلبی یعنی میرا دل ہمہ وقت خدا کی طرف متوجہ ہو جائے :
” اقترب للناس حسابھم ‘
نہیں تو پھر حساب کا وقت آجائے گا” و ھم فی غفلۃ معرضون ” اور یہ غفلت میں پڑے ہونگے انہیں پتا بھی نہیں چلے گا وہ وقت آجائے گا کہ اس وقت تمام لمحات ختم ہو جائیں گے۔
نوٹ:( مناجات شعبانیہ کی تشریح و توضیح پر مشتمل یہ دروس علامہ انور علی نجفی نے ان ایام میں آن لائن دئیے تھے جب دنیا کرونا وائرس کی مشکل سے ہر طرف سے دو چار تھی۔ اس وجہ سے درمیان میں بعض اوقات کچھ جملے انہی ایام کی مناسبت سے بیان ہوئے ہیں۔)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button