Uncategorized

رحمت خدا اور گنہگار انسان

انسان اگر اپنی زندگی میں جہل ونادانی یا غفلت ونسیان یا دوسرے اسباب کی بنا پر گناہ و معصیت میں ملوث ہوجائے تو انسان خدا کی بارگاہ میں توبہ اور گناہوں کی تلافی(جیسا کہ بیان ہوا ہے)؛کے ذریعہ اس کی بخشش ومغفرت اور رحمت کا حقدار ہوجاتا ہے، خصوصاً اگر اس کی توبہ اور استغفارشب جمعہ دعاء کمیل کے ذریعہ ہو، کیونکہ یہ شب؛ شب رحمت ہے ،یہ وہ رات ہے جس میں دعاء کمیل کے پڑھنے سے عفو بخشش اور رحمت خدا کی بارش ضرورہونے لگتی ہے:
قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ اسْرَفُوا عَلَی انْفُسِهِمْ لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ
( زمر ۵۳)
”اے پیغمبر آپ پیغام پوہنچا دیجئے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہر بان ہے“۔
قرآن مجید میں درج ذیل آیات کے علاوہ بہت سی آیات ہیں جن میں رحمت خدا او راس کی عفو وبخشش کو بیان کیا گیا ہے:
إنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ، وَاللهُ رَووفٌ بِالْعِبَادِ، وَاللهُ یَدْعُو إِلَی الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ ، انَّ اللهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ، وَاللهُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ یَّشَاء ، وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ،إ ِنَّ اللهَ کَانَ عَفُوًّا غَفُورًا،انَّ اللهَ کَانَ تَوَّابًا رَحِیمًا،وَهُوَ ارْحَمُ الرَّاحِمِینَ ،إنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَة
(بقرہ آیات نمبر۱۷۳، ۱۸۲، ۱۹۲، ۱۹۹،۲۰۷،۲۲۱،۲۳۵،۱۰۵ آل عمران ۳۰،مائدہ ۳۹،نساء ۴۳،۱۶،یوسف۶۴،نجم۳۲)
قارئین کرام ! اگر کوئی انسان ان آیات میں غور وفکر کرے تو پھر وہ خدا وندعالم کی طرف پلٹنے اور اس کی بارگاہ میں توبہ کو واجب قرار دے گااور اس کی رحمت سے مایوسی او رناامیدی کو حرام او رگناہ کبیرہ مانے گا۔
رحمت کے سلسلے میں احادیث
جناب ابوسعید خدری نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہے :
جب گناہگار مومنین کو دوزخ کی آگ میں لے جایا جائے گا تو وہ ان کو نہیں جلائے گی، اس وقت خداوندعالم اپنے فرشتوں کو خطاب فرمائے گا:
ان لوگوں کو میرے فضل وکرم اور رحمت کی بنا پر بہشت میں داخل کردو، چونکہ میرے لطف وکرم اور فضل واحسان کا دریا بے انتہا ہے۔
اہل بیت علیھم السلام سے روایت ہوئی ہے کہ جب روز قیامت آئے گا تو خداوندعالم مومنین کو ایک جگہ جمع کرکے فرمائے گا:
”تم پر جو میرے حقوق تھے میں ان کو معاف کرتا ہوں تم بھی ایک دوسرے کے حقوق کو معاف کردو تاکہ تم (سب) کو بہشت میں داخل کردیا جائے“۔
ایک روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ جب روز قیامت آئے گا ، اہل ایمان میں سے ایک بندہ کو حاضر کیا جائے گا اور اس سے خطاب ہوگا: اے میرے بندے ! تونے میری نعمتوں کو گناہ اور معصیت میں استعمال کیا، اور جیسے جیسے میں تجھ پر نعمتوں میں اضافہ کرتا گیا تو گناہوں میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ اس وقت اس بندہ کا سر شرم کی وجہ سے جھک جائے گا۔ بارگاہ رحمت سے ایک بار پھر خطاب ہوگا: اے میرے بندے اپنے سر کو اوپر اٹھالے، جس وقت تو گناہ کرتا تھا میں اسی وقت تیرے گناہوں کو معاف کرتا جاتا تھا۔
اسی طرح یہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں: جب روز محشر ایک بندہ کولایا جائے گا،تو گناہوں کی وجہ سے اس کا سر بہت زیادہ جھکا ہوگااور شرم کی وجہ سے رونے لگے گا، اس وقت بارگاہ رحمت سے خطاب ہوگا: جس وقت تو گناہ کرتا ہوا ہنستا تھا، میں نے اس وقت تجھے شرمندہ نہ کیا آج جب کہ تو میری بارگاہ میں شرم کی وجہ سے سر جھکائے ہوئے ہے اور گریہ وزاری کررہا ہے اور گناہ بھی نہیں کررہا ہے تو میں کس طرح تجھے عذاب دوں؟ اے میرے بندے میں نے تیرے گناہوں کو معاف کردیا اور تجھے جنت میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہوں۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ خدا کی سو رحمتیں ہیں، اور ان میں سے صرف ایک دنیا میں جلوہ فگن ہے جس کو اپنی تمام مخلوقات میں تقسیم کیا ہے، اور ۹۹ رحمت خداوندمنان کے خزانہ میں موجود ہے تاکہ روز قیامت اس ایک رحمت کو ۹۹ گنا کرکے اپنے بندوں پر نثار کرے گا۔
(محجة البیضاء ج۸ص ۳۸۴، باب فی سعة رحمة اللہ)
رئیس محدثین ، محدث کم نظیر حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمة معصومین علیھم السلام سے روایت کرتے ہیں کہ جب قیامت برپا ہوگی، خدا کی رحمت واسعہ اس قدر جلوہ نما ہوگی اور گناہگاروں کی فوج کی فوج معاف کردی جائے گی، یہاں تک کہ بارگاہ الٰہی کا مردود شیطان خدا کی عفوو بخشش کی امید کرنے لگے!!
ایک بہت اہم روایت میں وارد ہوا : جب کسی مومن بندہ کو قبر میں رکھا جائے اور قبر کو ڈھک دیا جائے، اور رشتہ دار اور احباء وہاں سے جدا ہوجائیں، اور وہ قبر میں تنہا رہ جائے، اس وقت خداوندعالم اپنی رحمت ومحبت کی بنا پرخطاب فرمائے گا:
اے میرے بندے! تو قبر کی تاریکی میں تنہا رہ گیا ہے ،اور جن کی خوشی کے لئے تو نے میری معصیت کی ہے اور ان کی رضا کی خاطر میری ناراضگی اختیار کی ہے، وہ لوگ تجھ سے جدا ہوگئے اور تجھے تنہا چھوڑگئے ہیں ، آج تجھے اپنی اس رحمت سے نوازوں گا جس سے مخلوقات تعجب کرنے لگے ، اس وقت فرشتوں کو خطاب ہوگا: اے فرشتو! میرا بندہ غریب وبے کس اور بے یار ومددگار ہے اور اپنے وطن سے دور ہوگیا ہے اور اس قبر میں میرا مہمان ہے، جاؤ اس کی مدد کرو، اور جنت کا دروازہ اس کی طرف کھول دو، اور عطروغذا اس کے پاس لے کر جاؤ ، اور اس کے بعد میرے اوپر چھوڑ دو تاکہ میں قیامت تک اس کا مونس وہمدم رہوں۔
(روایات باب رحمت خدا مفصل طور پر کتاب بحار الانوار ج۷ص ۲۸۶ باب ۱۴ما یظھر من رحمتہ تعالی فی القیامة، محجة البیضاء ج۸ ص ۳۸۳ باب فی سعة رحمة اللہ، اورکتاب تفسیر فاتحة الکتاب وتفاسیر قرآن میں نقل ہوئی ہیں)
رحمت کے بارے میں واقعات
ایک روایت میں منقول ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی، ایک بندہ کو حساب و کتاب کے لئے حاضر کیا جائے گا، اور اس کے نامہ اعمال جو گناہوں سے سیاہ ہوچکا ہے؛ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ بندہ اپنے نامہ اعمال کو لیتے وقت دنیا کی عادت کی طرح ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ کہے گا، اور جب رحمت خدا کے ذکر سے اس نامہ اعمال کو کھولے گا تو اس کو بالکل سفید پائے گا، جس میں کچھ بھی لکھا نہ ہوگا، یہ دیکھ کر کہے گا کہ اس میں تو کچھ بھی لکھا نہیں ہے میں کیسے پڑھوں، اس وقت فرشتے کہیں گے:
اس نامہ اعمال میں تیری برائیاں اور خطائیں لکھی ہوئی تھیں لیکن اس بسم اللہ کی برکت سے تمام ختم ہوگئیں ہیں اور خداوندمنان نے تجھے معاف کردیا ہے۔
(تفسیر فاتحۃ الکتاب، ص ۷۴)
جناب عیسیٰ علیہ السلام اور گناہگار
روایات میں بیان ہوا ہے کہ ایک روز جناب عیسیٰ علیہ السلام اپنے کچھ حواریوں کے ساتھ ایک راستہ سے گزر رہے تھے ناگہاں ایک بہت گناہگار شخص جو فسق وفجور سے معروف تھا راستہ میں ملا ، آتش حسرت اس کے سینے میں جلنے لگی، اور اس کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو بہنے لگے، اس نے اپنے اوپر ایک نظر کی ، افسوس کے ساتھ اس نے جگر سوز اور خون دل سے ایک آہ نکالی اور زبان حال سے کہا:
یارب کہ منم دست تھی چشم پر آشوب
جان خستہ ودل سوختہ وسینہ کباب
نامہ سیہ وعمر تبہ کار خراب
از روی کرم بہ فضل خویشم دریاب
”پالنے والے میرا ہاتھ خالی اور آنکھیں پُر آشوب ہیں،ذہن پراکندہ، دل جلا ہوا اور سینہ کباب ہے“۔
نامہ اعمال سیاہ ہے اور عمر برباد کار و کوشش بے ثمر ، لہٰذا اپنے فضل و کرم ہی سے میری مدد فرما“۔
اور اس نے یہ سوچا کہ میں نے عمر بھر کوئی کار خیر انجام نہیں دیا ہے لہٰذا میں کس طرح پاک افراد کے ساتھ چل پاؤں گا،لیکن چونکہ یہ خدا کے محبوب بندے ہیں اگر انہوں نے قبول کرلیا تو چند قدم ان کے ساتھ چلنے میں کوئی حرج (بھی) نہیں ہے، لہٰذا ان اصحاب کے ساتھ کتے کی شکل میں فریاد کرتا ہوا چلنے لگا۔
ایک حواری نے جب اس مشہور ومعروف بدکار کو اپنے پیچھے پیچھے آتا ہوا دیکھا تو کہا: یا روح اللہ! یہ مردہ دل اور نجس آدمی ہم لوگوں کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتا او راس ناپاک کے ساتھ چلنا کس مذھب میں جائز ہے؟ اس کو بھگادیجئے تاکہ یہ ہمارے پیچھے نہ آئے ایسا نہ ہو کہ اس کے گناہوں کا دھبہ ہمارے دامن پر بھی لگ جائے!!
اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کچھ سوچنے لگے کہ اس شخص سے کیا کہیں ، اور کس طرح اس شخص سے معذرت کریں(کہ ہمارے ساتھ نہ چلے) ناگاہ خداوندعالم کی طرف سے وحی نازل ہوئی: اے روح اللہ! اپنے اس خود پسند دوست سے فرمادیجئے کہ اپنی زندگی(کے اعمال کو دوبارہ شروع کرو) کیونکہ آج تک جو اس نے نیک کام کئے تھے وہ سب نامہ اعمال سے محو کردئے گئے کیونکہ اس نے میرے بندے کو حقارت کی نظر سے دیکھا ہے اور اس فاسق کو بشارت دیدو کہ میں نے اس کی شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے اس کے لئے اپنی توفیق کا راستہ کھول دیا ہے اور اس کی ہدایت کے اسباب مہیا کردئے ہیں۔
(تفسیر فاتحۃ الکتاب ص ۶۳)
ایک گناہگار جوان
مرحوم ملّا فتح اللہ کاشانی نے تفسیر ”منہج الصادقین“ میں اور آیت اللہ کلباسی نے کتاب ”انیس اللیل“ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے :
”مالک دینار“ کے زمانہ میں ایک گناہگار او رنافرمان شخص کی موت ہوگئی، عوام الناس نے اس کے گناہوں کی وجہ سے اس کی تجہیز وتکفین نہیں کی، بلکہ ایک گندی جگہ کوڑے کے ڈھیر میں ڈال دیا۔
مالک دینار نے رات میں خواب دیکھا کہ خدا وندعالم کا حکم ہے : ہمارے اس بندہ کو وہاں سے اٹھاؤ اور اس کو غسل وکفن کے بعد صالح افراد کے قبرستان میں دفن کرو، اس نے عرض کی : خدایا! وہ تو بدکاروں اور فاسقوں میں سے تھا، کس طرح اور کس چیز کی وجہ سے درگاہ احدیت میں مقرب بن گیا؟ تو جواب آیا: اس نے آخری موقع پر گریہ کناں آنکھوں سے یہ جملہ پڑھا:
”یَامَنْ لَہُ الدُّنْیَا وَالآخِرَةُ إِرْحَمْ مَنْ لَیْسَ لَہُ الدُّنْیَا وَالآخِرَةُ“
اے وہ جودنیا وآخرت کا مالک ہے، اس شخص کے او پر رحم کر جس کے پاس نہ دنیا ہے او رنہ آخرت۔
اے مالک! کون ایسا درد مند ہے جس کے درد کا ہم نے علاج نہ کیا ہو اور کون ایسا حاجت مند ہے جو ہماری بارگاہ میں روئے اور ہم اس کی حاجت پوری نہ کریں؟
(انیس اللیل ص ۴۵)
مستجاب دعا
ایک بڑے عابد و زاہد منصور بن عمارکے زمانہ میں ایک مالدار شخص نے محفل معصیت سجائی اور اس نے اپنے غلام کو چار درہم دئے تاکہ وہ بازار سے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لائے۔
لام راستہ میں چلا جارہا تھا کہ اس نے دیکھا منصور بن عمار کی نششت ہورہی ہے، سوچا کہ دیکھوں منصور بن عمار کیا کہہ رہے ہیں؟ تو اس نے سنا کہ عمار اپنے پاس بیٹھنے والوں سے کچھ طلب کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کون ہے جو مجھے چار درہم دے تاکہ میں اس کے لئے چار دعائیں کروں؟ غلام نے سوچا کہ ان معصیت کاروں کےلئے طعام وشراب خریدنے سے بہتر ہے کہ یہ چار درہم منصور بن عمار کو کو دیدوں تاکہ میرے حق میں چار دعائیں کردیں۔
یہ سوچ کر اس نے وہ چار درہم منصور کو دیتے ہوئے کھا: میرے حق میں چار دعائیں کردو، اس وقت منصور نے سوال کیا کہ تمہاری دعائیں کیا کیا ہیں بیان کرو، اس نے کہا: پہلی دعا یہ کرو کہ خدا مجھے غلامی کی زندگی سے آزاد کردے، دوسری دعا یہ ہے کہ میرے خواجہ (آقا) کو توبہ کی توفیق دے، اور تیسری دعا یہ کہ یہ چار درہم مجھے واپس مل جائیں، اور چوتھی دعا یہ کہ مجھے اور میرے خواجہ اور خواجہ کے اہل مجلس کو معاف کردے۔
چنانچہ منصور نے یہ چار دعائیں اس کے حق میں کیں اور وہ غلام خالی ہاتھ اپنے آقاکے پاس چلا گیا۔
اس کے آقا نے کہا: کہاں تھے؟ غلام نے کھا: میں نے چار درہم دے کر چار دعائیں خریدی ہیں، تو آقا نے سوال کیا وہ چار دعائیں کیا کیا ہیں؟ تو غلام نے کہا: پہلی دعا یہ میں آزاد ہوجاؤں، تو اس کے آقا نے کہا جاؤ تم راہ خدا میں آزاد ہو، اس نے کہا: دوسری دعا یہ تھی کہ میرے آقا کو توبہ کی توفیق ہو، اس وقت آقا نے کہا: میں توبہ کرتا ہوں، اس نے کہا: تیسری دعا یہ کہ ان چار درہم کے بدلے مجھے چار درہم مل جائیں، چنانچہ یہ سن کر اس کے آقا نے چار درہم عنایت کردئے ، اس نے کہا: چوتھی دعا یہ کہ خدا مجھے ،تجھے اور اہل محفل کو بخش دے ، یہ سن کر اس آقا نے کہا: جو کچھ میرے اختیار میں تھا میں نے اس کو انجام دیا، تیری ، میری اور اہل مجلس کی بخشش میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔چنانچہ اسی رات اس آقا نے خواب میں دیکھا کہ ہاتف غیبی خدا کی طرف سے آوازدے رہا ہے کہ اے میرے بندے! تو نے اپنے فقر وناداری کے باوجود اپنے وظیفہ پر عمل کیا،کیا ہم اپنے بے انتہا کرم کے باوجود اپنے وظیفہ پر عمل نہ کریں، ہم نے تجھے، تیرے غلام اور تمام اہل مجلس کو بخش دیا۔
خدائے کریم کی بارگاہ میں حاضری
ایک مرد حکیم ایک راستہ سے چلا جارہا تھا راستہ میں اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جوان کو اس کے گناہ وفساد کی وجہ سے اس علاقہ سے باہر نکال رہے ہیں، اور ایک عورت اس کے پیچھے پیچھے بہت زیادہ روتی پیٹتی ہوئی جارہی ہے، میں نے سوال کیا کہ یہ عورت کون ہے؟ تو لوگوں نے جواب دیا اس کی ماں ہے، میرے دل میں رحم آیا لہٰذا میں نے ان لوگوں سے اس کے بارے میں سفارش کی اور کہا کہ اس دفعہ اس کو معاف کردو، اور اگر اس نے دوبارہ یھی کام کیا تو پھر اس کو شہر بدر کردینا۔
وہ مرد حکیم کہتا ہے: ایک زمانہ کے بعد اس قریہ سے دوبارہ گزر ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک دروازہ کے پیچھے سے نالہ و فریاد کی آوازیں بلند ہیں، میں نے دل میں سوچا شاید اس جوان کو گناہوں کی وجہ سے شہر بدر کردیا گیا ہے اور اس کی ماں اس کی جدائی میں نالہ وفریاد کررہی ہے، میں آگے بڑھا اور دروازہ پر دستک دی ، ماں نے دروازہ کھولاتو میں نے اس جوان کے حالات دریافت کئے تو ماں بولی: وہ تو مرگیا ہے لیکن کس طرح مرا ہے، جس وقت اس کا آخری وقت تھا تو اس نے کہا: اے ماں! پڑوسیوں کو میرے مرنے کی خبر نہ کرنا، میں نے ان کو بہت تکلیف دی ہے، اور ان لوگوں نے بھی میرے گناہوں کی وجہ سے میری سرزنش کی ہے ، میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ لوگ میرے جنازے میں شریک ہوں، لہٰذا خود ہی میری تجہیز وتکفین کرنا ، اور ایک انگوٹھی نکال کر دی اور کہا کچھ دنوں پہلے میں نے اس کو خریدا ہے اور اس پر”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ لکھا ہوا ہے، اس کو بھی میرے ساتھ دفن کردینا او رقبر کے پاس خدا سے میری شفاعت کرنا تاکہ خدا میرے گناہوں کو بخش دے۔
چنانچہ میں نے اس کی وصیت پر عمل کیا اور جس وقت اس کی قبر کے پاس سے واپس آرہی تھی تو گویا مجھے ایک آواز سنائی دے:
”اے ماں! اطمینان سے چلی جاؤ، میں خدا وندکریم کے پاس پہنچ گیا ہوں“۔
(تفسیر روح البیان جلد اول ص ۳۳۷)
(اقتباس ااز:شرح دعا کمیل)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button