شخصیات

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی شخصیت

آیت اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی
خلاصہ
اگر ایک مسلمان فرق نہیں شیعہ ہو یا سنی اس مطلب کی طرف توجہ دیں تو بہت سارے شبہات اسے حل ہو جاتا ہے ، اور بہت سارے سوالات کے جواب اسی میں پوشیدہ ہے وہ مطلب یہ ہے کہ فاطمہ س کون ہے ؟ اگر ہم انہیں صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی ہونے سے محدود کرے اور ایک عام انسان کے عنوان سے پہچانیں تو اس کے اپنے نتائج ہے لیکن اگر ہم اس بارے میں کچھ غور و حوض کرے کہ خدا وندمتعالی کے نزدیک آپ کی کیا مقام و منزلت ہے ، اور اسی لحاظ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک آپ کی کیا مقام منزلت تھی ؟ اگر یہ معلوم ہو جائے تو اس وقت بہت سارے اعتقادی او رتاریخی مسائل حل ہو جائیں گے۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی حقیقت اورآپ کو زہراء نام رکھنے کی وجہ
پہلا مطلب جس کے بارے میں توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اگر ایک مسلمان فرق نہیں شیعہ ہو یا سنی اس مطلب کی طرف توجہ دیں تو بہت سارے شبہات اسے حل ہو جاتا ہے ، اور بہت سارے سوالات کے جواب اسی میں پوشیدہ ہے وہ مطلب یہ ہے کہ فاطمہ (س )کون ہے ؟ اگر ہم انہیں صرف پیغمبر اکرم ؐ کی بیٹی ہونے سے محدود کرے اور ایک عام انسان کے عنوان سے پہچانیں تو اس کے اپنے نتائج ہے لیکن اگر ہم اس بارے میں کچھ غور و حوض کرے کہ خدا وندمتعالی کے نزدیک آپ کی کیا مقام و منزلت ہے ، اور اسی لحاظ سے پیغمبر اکرم ؐکے نزدیک آپ کی کیا مقام منزلت تھی ؟ اگر یہ معلوم ہو جائے تو اس وقت بہت سارے اعتقادی او رتاریخی مسائل حل ہو جائیں گے ،احادیث کی کتابوں میں جابر سے ایک روایت نقل ہے کہ جابر اسے امام صادق ؑ سے نقل کرتا ہے
قال الصدوق حدثنا أبـى حدثنا محمد بن معقل القرمسينـى ، عن محمد بن زيد الجزرى ، عن إبراهيم بن إسحاق النهاوندى ، عن عبد الله بن حماد ، عن عمرو بن شمر، عن جابر، عن أبي عبدالله علیہ السلام قال: «قلت له لِمَ سمّيتَ فاطمة الزهراء زهراء؟ فقال لأنّ الله عزوجل خلقها من نور عظمته فلما أشرقَتْ أضاءَت السماوات والأرض بنورها وغشيت أبصار الملائكة و خرّت الملائكة ساجدين و قالوا: إلهنا وسيدنا ما لهذا النور فأوحي الله إليهم هذا نور من نورى أسكنته فـى سمائى خلقته من عظمتـى أخرجه من صلب نبي من أنبيائى أفضله علي جميع الأنبياء وأخرج من ذلك النور أئمة يقومون بأمري يهدون إلى حقى واْجعَلهم خلفائى فـى أرضى بعد انقضاء وحيى.[1]
امام جعفر صادق ؑ سے عرض کرتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (س ) کو کیوں زہراء کہا گیا ہے ؟ یہ بھی واضح ہو کہ روایات میں نقل ہے کہ خدا کے نزدیک حضرت زہرا (س )کے نو(٩) اسماء ہیں ،کہ یہ خود اپنی جگہ ایک بہت ہی مہم مطلب ہے ؛ لیکن ابھی سوال یہ ہے کہ ان ناموں میں سے ایک نام زہرا ء کیوں ہے ؟
حضرت نے جواب میں فرمایا : لان اللہ عزوجل خلقہا من نور عظمتہ…” خداوند متعالی نے حضرت فاطمہ زہراء (س )کواپنی نورکی عظمت سے خلق فرمایاہے ،پیغمبر اکرم ؐ اور امیرالمومنین ؑ کے بارے میں بھی ہے کہ ان کی خلقت خداوند متعالی کی نور سے ہے ، اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ (س )کی خلقت پہلے سے ہی عام انسان کی خلقت سے مختلف ہے ، تمام انسان خدا کے مخلوق ہیں ،لیکن خدا کے نور سے خلق نہیں ہوا ہے کیونکہ اگر بشر خدا کے نور سے خلق ہوتا تو کوئی بھی انسان گناہ انجام نہیں دیتا اور خدا کی نافرمانی نہیں کرتا ،حضرت فاطمہ (س ) خدا کے نور سے خلق ہواہے اور وہ بھی خدا کے نور کی عظمت سے ، یعنی خدا وند متعالی کی یہ عظمت جو دوسرے تمام جہات سے مہم ہے اس سے خلق ہوا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ یہ ایک عظیم مخلوق اور بزرگ مخلوق ہے،چونکہ خدا کے نور کی عظمت سے خلق ہوا ہے۔
”فلمّا اشرقت اضائت السماوات والارض بنورہا ‘‘آسمانیں اورزمین حضرت فاطمہ (س )کی نور سے روشن ہوا ہے ، ا س کے بعد روایت میں ہے کہ خداوند متعالی نے فرشتوں سے فرمایا : ”ہذا نور من نوری و اسکنتہ فی سمائی خلقتہ من عظمتی” یہ حضرت فاطمہ (س )کی آفرینش کو بیان کررہا ہے کہ کیسے ان کو خلق فرمایا اور کہاں سے خلق کیا ، معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہرا (س ) کی خلقت دوسرے انسانوں کی خلقت سے جد اہے ، حضرت زہرا (س ) کے علاوہ کسی کے بارے میں یہ نہیں ہے کہ وہ خدا کی نور کی عظمت سے خلق ہوا ہو ، دنیا کی خواتین میں کچھ قابل احترام خواتین ہیں جیسے حضرت مریم بن عمران ،آسیہ … یہ حضرات دوسری خواتین سے کامل ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں یہ خصوصیت نہیں ہے کہ خدا کی نور کی عظمت سے خلق ہوئی ہوں۔
پیغمبر اکرم ؐ کا حضرت زہرا کی نسبت احترام
سفینة البحار میں ایک روایت نقل ہے جسے ابوبکر نے نقل کیا ہے:
قال «أنَّ فاطمة دخلَتْ يوماً علي أبيها فأستقبلها وقَبّل يديها ثم لما ودّعتْ وَمَشتْ شيعها النبـى و قبّل يدَيها أيضاً، فقلتُ: يا رسول الله ما رأيتُ مثل هذا فـى أحدٍ من النساء و لا يناسب لمثلك فقال: ما فعلتُه إلّا بأمر ربـى تعالى».[2]
ایک دن حضرت زہرا (س ) پیغمبر اکرم ؐ کی خدمت میں تشریف لائیں ”فاستقبلہا” پیغمبر اکرم ؐ نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا ” و قبّل یدیہا” اور ان کی دونوں ہاتھوں کا بوسہ لیا ”ثم لمّا ودّعت و مشت” جب آپ واپس جانا چاہ رہی تھی تو ”شیعاہا النبی”پیغمبر اکرم ؐ چند قدم آپ کے ہمراہ گئے ”و قبل یدیہا ” اور ہاتھوں کا بوسہ لے کر آپ کو خدا حافظی کی ، ابوبکر پیغمبر اکرم ؐپر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے ” فقلت یا رسول اللہ ما رایت مثل ہذا فی احد من النسائ”یا رسول اللہ آپ حضرت زہراء (س ) کے ساتھ جس تواضع کے ساتھ پیش آرہے ہیں اس طرح گھر کے کسی دوسری خاتون کے ساتھ پیش آتے ہوئے نہیں دیکھا’یعنی آنحضرت ؐپر اعتراض کیا کہ آپ کیوں فاطمہ(س )کے ساتھ اتنے تواضع سے پیش آتے ہیں ؟ شاید اس کا مقصد یہ تھا کہ اس کی بیٹی کے ساتھ کوئی ایسا تواضع نہیں کرتا ‘اس کے بعد پیغمبر اکرم ؐکو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے:”ولا یناسب لمثلک ”آپ کے لئے مناسب نہیں کہ کسی دوسرے کے لئے ایسا کرے ، اس وقت پیغمبر اکرم ؐنے ایک اہم جملہ ارشاد فرمایا :”فقال ما فعلتہ الا بامر ربی” میں نے خدا کے حکم کے بغیرکوئی کام انجام نہیں دیا ہے.
ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ؐحضرت زہراء(س ) کی جو عزت و احترام کی وہ صرف عاطفی لحاظ سے نہیں تھا کہ کسی باپ نے اپنے بیٹی کا عزت واحترام کیا ہو،یا ایک مطہرہ و طاہرہ خاتون ہونے کی وجہ سے کیا ہو ، بلکہ مطلب اس سے کہیں بلند و بالا ہے کہ خدا کے حکم سے یہ کام انجام پایا ہے ، پیغمبر اکرم ؐاشرف مخلوقات ہیں آپ سب کے سامنے اعلانیہ طور پر خدا کے نور کی عظمت سے خلق ہونے والی کی عزت اور تکریم کرنا چاہتے ہیں۔
لہذا یہ حدیث ہمیں بھی حضرت زہرا (س )کی شخصیت کے بارے میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے ہمیں اپنے مطالعات اور دوروس میں فاطمہ شناسی کے بارے میں بحث و گفتگو کرنا چاہیئے ،حضرت زہرا (س )کے بارے میں بہت ساری روایات نقل ہیں ان ایام میں منابر سے آپ کی عظمت اور خدا نے آپ پر جو خاص توجہ کی ہے اسے لوگوں تک پہنچانا چاہیئے
غصب فدک
حضرت زہراء(س ) کی شخصیت اور عظمت کے بعد جس موضوع کے بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ان میں سے ایک فدک کے غصب کرنے کا وہ تاریخی مسئلہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعد لوگوں نے فدک کو حضرت زہرا (س ) سے چھین لیا ، کہ آنحضرت (ص) کے زمان حیات میں تین سال فدک حضرت زہرا کی اختیار میں تھی اور آپ نے وہاں پر کچھ مزدور کودیکھ بال کرنے کے لئے رکھا ہوا تھا اور آپ کی ہاتھ میں تھی ‘ اس کے بعد ایک حدیث جعل ہوئی کہ اس وقت تک یہ حدیث پیغمبر اکرم(ص) کے صحابوں میں سے کسی نے سنا ہی نہیں تھا اس حدیث میں کہاگیا:” نحن معاشر الانبیاء وما ترکناہ فہو صدقة[3]”ہم پیغمبران الہی اپنے بعد ارث نہیں چھوڑتے ، جو کچھ ہے وہ سب صدقہ ہے ، اس حدیث کو جعل کر کے فدک کو حضرت زہرا ء(س ) سے غصب کر لیا ، تاریخی اور حدیثی گفتگو میں اس حدیث پر بہت ساری اشکالات وارد ہیں۔
یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جو صریحاً قرآن کریم کے مخالف ہے ،میں ابھی ان کو یہاں پر بیان نہیں کروں گا ‘لیکن میں ابھی یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پیغمبر اکرم(ص) کی بیٹی جو آنحضرت کے نزدیک اس قدر محترم و مکرم تھی کہ جسے خود حضرت ابوبکر نے بھی دیکھا تھا اور اس روایت کو نقل کرنے والا وہ خود ہے کہ اس احترام اور تکریم کو پیغمبر اکرم (ص) خدا کے حکم سے انجام دے رہے تھے ،ہمارا سوال یہ ہے کہ جب حضرت فاطمہ(س ) نے فرمایا : یہ فدک میرا ہے اور پیغمبر اکرم نے مجھے بخش دی ہے ، تو اس وقت کے حاکم نے کیوں ان سے گواہ طلب کیا ؟یہاں پر بہت سارے اعتراضات ہے ، حضرت فاطمہ(س ) جو خدا کے نور کی عظمت سے خلق ہوئی ہے اور پیغمبر اکرم ؐ کےمورد احترام ہیں اور صدیقین میں سے ہیں اور سچائی میں سب کے زبان زد عام ہے ، کیوں ان کی بات کو قبول نہیں کیا ؟کیوں ان سے گواہ طلب کی؟ کیوں پیغمبر اکرم(ص) کی بیویوں سے جو آخر عمر تک حجروں میں رہیں، نہیں کہا کہ یہ ہمارا ہے ،کیوں ان پر اعتراض نہیں کی کہ یہاں سے نکل جائیں پیغمبر اکرم (ص)سے تمہیں کوئی ارث نہیں ملی گی۔
یہاں پر اس مسئلہ کو بھی بیان کروں کہ شیعہ اور سنی فقہ میں واضح ہے کہ مالی مسائل میں اگر ایک گواہ کے ساتھ قسم بھی کھا لیں تو وہ دعوا ثابت ہوتا ہے ،یہاں پر امیر المومنین ؑنے گواہی دی ، حضرات حسنین ؑنے گواہی دی لیکن اسے قبول نہیں کیا ؛امیر المومنین ؑکے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کے صحابیوں نے یہ سنا ہوا تھا کہ ”اقضاکم علی” [4]قضاوت میں امیر المومنین ؑ سے بہتر کوئی نہیں ہے ، امیر المومنین ؑنے حاکم سے فرمایا : اگر کوئی مال کسی مسلمان کے پاس ہو اور میں یہ دعوا کروں کہ یہ مال میرا ہے ،اس وقت تم کیا مجھ سے گواہی طلب کرو گے یا اس شخص سے جس کے پاس وہ مال ہے ؟ عرض ہوا : میں آپ سے گواہ طلب کروں گا ،فرمایا: ابھی فدک تین سال سے فاطمہ (س ) کے اختیار میں ہے اور حضرت زہرا(س ) کے کچھ افراد وہاں پر کام کررہے ہیں تو ابھی جو شخص یہ کہتا ہے یہ ان کا نہیں ہے اسے گواہ لانا چاہیئے ،البتہ آخر میں ثابت ہو گیا کہ فدک حضرت زہرا (س ) کا ہے اور اسے لکھ بھی لیا لیکن دوسرے نے آکر اسے چھین کر پھاڑ ڈالا ۔
حضرت فاطمہ (س ) کی شہادت
پیغمبر اکرم(ص) کے زمانہ میں آپ کے اصحاب نے حضرت زہرا(س ) کو نہیں پہچانا ،ہمیں چاہیئے کہ ان کو پہچانیں ،ان مصائب اورمشکلات کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے آپ کو نہیں پہچانے تھے ، اگر انہیں پہچانے ہوئے ہوتے تو کبھی بھی ایسا نہیں کرتے کہ جس کا انتہا حضرت صدیقہ طاہرہ (س )کی شہادت پر ختم ہو جاتے ۔
آپ کی شہادت ایک مسلم تاریخی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ،اگر اہل سنت کی تاریخی کتابوں میں دیکھیں تو وہاں بھی متعدد بار حضرت کی شہادت کا واقعہ بیان اور نقل ہے ۔
لیکن اگر کوئی شخص انصاف کو دفن کرے اور صرف لجاجت سے کام لے تو اس صورت میں اس واقعہ کا انکار ممکن ہے ،ہمارے آئمہ طاہرین : سے وارد روایات میں نقل ہے «إنّ فاطمةَ صديقةٌ شهيدةٌ و أنّ بنات الأنبياء لا يطْمِثْنَ»[5] کہ آئمہ طاہرین کلمہ صدیقہ پر بھی خاص توجہ تھا اور کلمہ شہیدہ پر بھی ، اسی طرح حضرت زہرا(س ) کی عظمت اورشان کے بارے میں پیغمبر اکرم ص سے بھی بہت سارے مطالب نقل ہے کہ اہل سنت اور ہماری کتابیں ان مطالب سے پر ہیں۔
عایشہ کہتی ہے : «أنّ فاطمةَ كانَتْ إذا دخلتْ علي رسول الله(ص) قام لها من مجلسه وقبّل رأسها وأجلسها مجلسه، وإذا جاء إليها لَقَيتَه و قَبَّلَ كُلَّ واحدٍ منهما صاحبه و جلساً معاً».[(ص)]عایشہ کہتی ہے : میں نے دیکھا کہ جب فاطمہ(س ) آتی تھی تو پیغمبر اکرم آپ کے استقبال کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے «و قبّل رأسها و أجلسها مجلسه» انہیں اپنی جگہ پر جگہ دیتے ،انہوں نے دیکھا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے کیسے پیش آتے ۔
بعض روایات میں ہے کہ «خرج النبي(ص) و هو آخذٌ بيد فاطمة3 فقال : مَن عرف هذه فقد عرفها، و مَن لَم يعرفها فهى فاطمة بنت محمد، و هـى بضعة منـّى و هـى قلبـى و روحى التـى بين جنبـى ، فمن آذاها فقد آذانـى ، ومن آذانـى فقد آذي الله».[7]
ایک دن پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت زہرا(س ) کی ہاتھوں کو پکڑے ہوئے گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا: : مَن عرف هذه فقد عرفها، و مَن لَم يعرفها فهى فاطمة بنت محمد”فرمایا: جو بھی فاطمہ(س ) کو پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہی ہے لیکن جو نہیں پہچانتاوہ پہچان لیں کہ یہ فاطمہ (س ) میری بیٹی ہے ”و ہی یبضعة من” میرے جسم کا ٹکڑا ہے «و هي قلبي و روحي التي بين جنبي» میرا قلب ہے ، میری جان ہے ، فمن آذاها فقد آذانـى ، ومن آذانـى فقد آذي الله»جس نے بھی اسے رنجش کیا اس نے مجھے رنجش کی ہے اور جو بھی مجھے اذیت کرے اس نے خدا کو اذیت کی ہے ” کیوں پیغمبر اکرم ان مطالب کو بیان کرنے میں اصرار کرتے تھے ؟۔بعض روایات میں ہے کہ بعض مواقع پر آنحضرت(ص) جب حضرت فاطمہ(س ) کو دیکھتے تو ان کے مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہوتا تھا ،عرض ہوا :یا رسول اللہ یہ کیا وجہ ہے کہ جب آپ فاطمہ(س ) کو دیکھتے ہیں تو آپ کے آنکھوں سے آنسو جاری ہوتا ہے ؟ فرماتے تھے:ان مظالم کی یاد میں جو میرے بعد میری بیٹی پر ڈالا جائے گا ، اس حق کے یاد میں آنسو جاری ہے جو میرے بعد غصب ہو گا ،اس ہجوم کی یاد میں جو میرے بعد اس کے گھر کی طرف جائے گی ، ان سب کو پہلے فرما چکے تھے ، اسی لیے مکرراً فرمایا کرتے تھے :”من آذاہا فقد آذانی ” لیکن لوگوں نے اسے کیسے بھلا دیا اور آخر کار کہاں ختم ہوا؟
[1] علل الشرايع: ج1 ص 180.
[2]. مجمع النورين: ص27.
[3] صحيح بخاری: ج5 ، ص25 و ج8، ص3 کتاب الفرائض و صحيح مسلم: ج5 ، ص155.
[4] تاريخ دمشق: ج51 ، ص300 و شرح نهج البلاغه: ج7، ص219 و فتح الباری: ج10، ص590 و تفسير قرطبی: ج 15، ص 162 و بحار الانوار:ج40، ص150 و مناقب آل ابی طالب: ج1، ص312.
[5] . الکافی: ج1، ص458.
[6] . بحار الأنوار: ج43، ص 40.
[7] صحيح بخاري، ج 4، ص 219؛ بحار الأنوار: ج43، ص 54 .

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button