سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا زہد و انفاق

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اللہ کی راہ میں زہد و پارسا اور انفاق فی سبیل اللہ میں ارفع و اعلیٰ مقام رکھتی تھیں۔ زہد و پارسائی کا مفہوم و مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز کو چھوڑ چھاڑ دینا اور اپنے دل کو اس دنیا کی ہر چیز سے الگ تھلگ کر لینا۔ یہ بات روشن ہے کہ جس قدر ایک انسان کی اخروی جہان سے دل بستگی اور عشق و علاقہ بیشتر سے بیشتر ہوتا ہے تو اس قدر اس دنیائے فانی اور اس کی عارضی لذات سے دل اُچاٹ ہونے لگتا ہے اور انسانی روح و جان میں سرائے آخرت کی محبت پختہ تر ہونے لگتی ہے اور فکر و افکار کی دنیا میں اس دنیا اور اس کے لوازمات سے حقارت اور دوری کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں جس قدر انسان خرد و آگاہی میں اور اللہ ایمان کے سلسلے میں مضبوط ہونے لگتا ہے اس قدر اس جہان فانی کی لذت اور اس سراب نُما زندگی کی اس نظروں میں کوئی قیمت وقعت باقی نہیں رہتی۔
اے قاری عزیز! کیا آپ نے بچوں کے کھیل کود میں کبھی غور کیا ہے۔ بچوں کو اس کھیل کود میں جو لذت کے سامان ملتے ہیں ان کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں کھانا بھول جاتا ہے، انہیں سونا بھول جاتا ہے ۔ اس دوران خوش بھی ہوتے ہیں۔ کھیل کود کے سامان پر لڑتے جھگڑتے بھی ہیں۔ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے ہیں۔ اس لاحاصل اور بے فائدہ کام میں افسردگی بھی اٹھاتے ہیں۔
جی ہاں! جب ان کی عقل پختہ ہوتی ہے اور ان کا شعور کامل اور بلند ہوتا ہے تو وہ ان بچگانہ کھیلوں سے فرار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ان شغل میلوں ٹھیلوں سے بلند و بالا خیال کرنے لگتے ہیں اور اس کام کو اپنی شخصیت کےلئے نا مناسب اور نقصان دہ اور اپنی عزت و وقار کے منافی قرار دیتے ہیں۔ ان میں یہ تبدیلی اس لئے آئی ہے کہ ان کے مدارک نے پختگی حاصل کر لی ہے۔ وہ اب اپنے بچپن کے دور سے عبور حاصل کر چکے ہیں۔ اب انہوں نے بندگی کی دہلیز پر قدم رکھ لئے ہیں۔
جی ہاں! اللہ کے برگزیدہ اور اس کے ولی اس طرح ہوتے ہیں وہ دنیا اور اس کی لذتوں، لوازمات اور ٹھاٹھ باٹھ کو چشم حقارت سے دیکھتے ہیں۔ ان کے قلوب دنیا کی محبت سے بہت دور رہتے ہیں۔ انہیں مادی جاہ و جبروت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ دنیا کو دنیا کے لئے نہیں چاہتے بلکہ وہ دنیا کو رُشدِ معنوی، سرمایہ رستگاری اور اخروی جہاں کی آبادکاری کےلئے چاہتے ہیں۔ انہیں اس دنیا سے پیار و محبت اس لئے ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مال و ثروت چاہتے ہیں، لیکن اس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے لئے آخرت میں جنتِ جاودانہ حاصل کریں۔ وہ مالِ دنیا سے بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ بے لباس لوگوں کو لباس عطا کرتے ہیں۔ درماندہ اور بے سہارا لوگوں کو تکالیف سے نجات دلاتے ہیں اور ستم زدہ لوگوں کو آزادی و حریت اور ان کے حقوق دلاتے ہیں۔ امیرالمؤمنین علیہ السّلام ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ صِدْقٍ لِمَنْ صَدَقَهَا، وَدَارُ عَافِيَةٍ لِمَنْ فَهِمَ عَنْهَا، وَدَارُ غِنىً لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا وَدَارُ مَوْعِظَةٍ لِمَنْ اتَّعَظَ بِهَا، مَسْجِدُ أَحِبَّاءِ اللهِ، وَمُصَلَّى مَلاَئِكَةِ اللهِ، وَمَهْبِطُ وَحْيِ اللهِ، وَمَتْجَرُ أَوْلِيَاءِ اللهِ، اكْتَسَبُوا فِيهَا الرَّحْمَةَ وَرَبِحُوا فِيهَا الْجَنَّةَ
”بلا شبہ دنیا اس شخص کےلئے جو باور کرے سچائی کا گھر ہے اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے اس کےلئے امن و عافیت کی منزل ہے اور اس سے زادِ راہ حاصل کرے۔ اس کےلئے دولت مندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل رکے اس کےلئے وعظ و نصیحت کا محل ہے۔ وہ دوستانِ خا کےلئے عبادت کی جگہ اللہ کے فرشتوں کےلئے نماز پڑھنے کا مقام، وحی الٰہی کے منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے۔ انہوں نے اس میں فضل و رحمت کا سودا اور اس میں رہتے ہوئے جنت کو فائدہ میں حاصل کیا۔“ (نہج البلاغہ، قصار/131)
اے قاری عزیز! اس بیان سے آپ پر یہ بات آسان ہوگئی ہے اور آپ حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے زُہد و پارسائی کی اساس کو آسانی کے ساتھ درک کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اس دنیا کو اچھی طرح سے پہچانا اور انہیں اخروی حیات کا حقیقی ادراک تھا۔ اب کوئی تعجب کی بات باقی نہیں رہ جاتی کہ آپؑ نے اپنی زندگی میں کم سے کم اس دنیا اور اس کی ضروریات سے استفادہ کیا۔ آپؑ نے اپنی زندگی میں مواسات اور ایثار کی فضیلت کو اپنایا۔ آپؑ کی نظر اس دنیا کی ثروت و زرق و برق کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کیونکہ آپؑ کائنات کے پارسا ترین انسان کی دختر تھیں۔ ان کی عقیدتی زندگی زُہد کے ساتھ مربوط تھی اور ان کی اجتماعی زندگی پوری کائنات کےلئے نمونۂ عمل ہے۔
آپؑ اپنے والدِ گرامی (جو کائنات کے سب سے بڑے زاہد انسان تھے) کی سیرت پر چلنے کے اعتبار سے تمام انسانون میں اولویت رکھتی تھی۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے ساتھ ازدواجی زندگی، پارسائی، سادگی اور معنوی شان و شوکت سے معمور تھی، کیونکہ آپؑ کے شوہر نامدارتمام انسانوں میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی زُہد و پارسائی کی اتباع کرنے کے اعتبار سے اولین حیثیت رکھتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ تاریخ اسلام نے حضرت علی علیہ السّلام سے بڑھ کر کوئی زاہد و پارسا انسان نہیں دیکھا۔ کیونکہ امام علی علیہ السّلام تو وہ تھے کہ جنہوں نے زَر و زیور، سونے اور چاندی سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا:
یَا صَفرَآءُ و بَیْضَآءُغُرِّیَا غَیرِیْ
”ہاں، اے سونا اور چاندی مجھ سے دور ہو جاؤ، میرے علاوہ کسی اور کو دھوکہ دو۔“
حضرت علی علیہ السّلام کی شخصیت تو وہ تھی کہ آپؑ نے جب ایک بے نوا اعرابی کےلئے حکم جاری فرمایا تھا کہ اسے ایک ہزار دے دیے جائیں تو اپؑ کے وکیل نے پوچھا تھا: سالارِ مَن! ایک ہزار چاندی یا سونا؟
آپؑ نے فرمایا تھا: اسے جو بھی دے دو میری نظر میں دونوں سنگ و خار ہیں۔ جس میں اس کا زیادہ فائدہ ہو وہی اسے دے دیجئے۔
ہم نے اپنی کتاب (علی من المھد الی اللحد) میں سے اس موضوع کے متعلق چند واقعات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زُہد کی مناسب سے یہاں نقل کیے ہیں۔ حالانکہ آپ نے اس کتاب کے گزشتہ صفحات میں آپؑ کے انفاق فی سبیل اللہ پر مشتمل احادیث پڑھی ہیں۔ ہم نے ان کا ذکر بابِ ازواج اور سورۂ ھل اَتیٰ کے نزول کے ضمن میں کیا ہے۔ ہم یہاں چند احادیث پیش کرتے ہیں جن میں نفس موضوع پیش کیا گیا ہے۔ کتاب ”بشارت المصطفیٰ“ میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے پیچھے نماز عصر پڑھی۔ جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو محراب میں بیٹھ گئے اور لوگ آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ اچانک ایک غریب، بوڑھا مسافر مسجد میں وارد ہوا۔ وہ پھٹے پرانے لباس میں ملبوس تھا۔ پیری و ناتوانی نے اسے کچھ اس طرح گھیر رکھا تھا کہ اس میں چلنے پھرنے کی طاقت نہ تھی۔
مہربان پیغمبر ؐنے اس کی طرف رخِ انور فرمایا اور اس کا حال پوچھا۔
اس نے کہا: میں سخت بھوکا ہوں، کھانا نہیں ہے کہ جسے کھاؤں اور اپنی بھوک مٹاؤں۔ لباس نہیں ہے کہ جسے پہنوں۔ ایک فقیر ہوں، میری حوائج پوری فرمایئے۔
پیغمبر گرامی ؐنے فرمایا: اے میرے دوست! اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ جس سے آپ کی مدد کروں۔ بہرحال جو شخص اچھائی و بھلائی کی طرف رہبری کرےوہ اچھائی کرنے والے کی مثل ہے۔ میں تجھے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے خانۂ اقدس کی طرف رہنمائی کرتا ہوں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ اُن سے محبت کرتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتے ہیں۔ اور ہمیشہ اللہ کی خوشنودی کے لئے اس کی ذات کو اپنے اوپر مقدم سمجھتی ہیں۔ ان کے دروازے پر جاؤ وہ ضرور تمہاری مدد کرے گی۔ حضرت زہرا کا گھر رسولؐ اللہ کے گھر کے ساتھ متصل تھا۔ آپ ؐنے حضرت بلال سے فرمایا کہ اس فقیر کو ان کی بیٹی کے گھر کے دروازے پر لے جاؤ۔ اور جب وہ اعرابی حضرت بلال کے ہمراہ سیدہ کے دروازے پر آیا تو اس نے بلند آواز سے کہا: اے اہل بیتؑ نبوت! اے منزل آمدورفت ملائکہ! اے جبریل امینؑ کے اترنے کی جگہ! میری مدد کیجئے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس سے پوچھا: تو کون ہے؟
اس نے جواب دیا:اے دخترِ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں ایک بوڑھا آدمی ہوں۔ دور دراز سے آیا ہوں ہو۔ بھوکا، بے لباس و بےنوا و بے کس ہوں ۔ اللہ تعالی(ج) آپ پر اپنا لطف و کرم نازل فرمائے۔ میری مدد کیجئے حالانکہ یہ عظیم گھر تین روز سے فاقے سے تھا۔ خود پیغمبر خداؐ، حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سبھی تین دن سے بھوکے تھے۔
حضرت فاطمہ زہرا نے گوسفند کا رنگین چمڑا اٹھایا اور سائل کو پیش کیا۔ اسی چمڑے پر آپ کے دونوں شہزادے حسنین شریفین علیہما السلام سویا کرتے تھے آپ نے اس سے فرمایا اسے لے جائیے مجھے خداوندمہربان پر اُمید ہے کہ وہ تجھے اس سے بہتر عطا فرمائے گا۔ اس بوڑھے نے کہا:اے دخترِپیغمبرؐ! میں نے آپ سے بھوک کی شکایت کی ہے آپ مجھےیہ چمڑا دے رہی ہیں۔ میں بھوکا آدمی اسے کیا کروں گا؟
اس دوران حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے گلے سے گلوبند اتارا (آپؑ کو یہ گلوبند حمزہ بن عبدالمطلب کی بیٹی نے ہدیہ کیا تھا) آپؑ نے اسے سائل کے حوالے کیا اور فرمایا اسے لے جا اور فروخت کر دے۔خداوند تعالیٰ(ج) آپ کو اس سے بہتر عطا فرمائے گا۔اس بوڑھے نے خوشی خوشی اس گلوبند کو لیا اور مسجد میں واپس آیا۔
پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی اپنے اصحاب کرام کے حلقہ میں موجود تھے ۔ اس آدمی نے کہا: یا رسول اللہؐ! آپ ؐکی بیٹی نے مجھے یہ گلوبند عنایت کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اسے فروخت کروں اور اسی کی قیمت سے اپنی حوائجِ پوری کروں اور انہوں نے میری محرومیت کے خاتمے کے لیے بھی دعا کی ہے۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روئے اور فرمایا اے بندہ خدا! خداوند تعالیٰ کیسے تیری زندگی کے مسائل حل نہ فرماتا حالانکہ حضرت فاطمہ بنت محمدؐسیدۃ نساء العالمین نے تجھے اپنا گلوبند دے دیا۔
حضرت عمار کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! مجھے اجازت فرمائیے کہ میں اسی گلوبند کو خرید لوں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں آپ ہی خرید لیں۔ اگر تمام جن و انس اس گلوبند کو تمہارے ساتھ خریدنے کے لیے تیار ہوجائیں تو خداوند عالم انہیں جہنم میں نہیں ڈالے گا۔
حضرت عمار کو جنگ خیبر سے کچھ مالِ غنیمت ملا تھا آپ نے اسے بیچ کر اس سے اپنی ضرورت پوری کی تھی اور اس مال میں آپ کے پاس کچھ باقی نہیں رہا تھا لیکن باوجود اس کے کہ ان کے پاس کچھ رقم اور سامان تھا۔ آپ نے اس بوڑھے سے کہا میں تجھے اس اس گلوبند کے عوض بیس دینار اور دوسو درہم اور یمنی چادر اور ایک سواری دیتا ہوں، جو تجھے اپنے اہل وعیال تک پہنچا دے گی۔ علاوہ ازیں تجھے گندم کی روٹی اور گوشت سے بھی سیراب کراتا ہوں۔ اب یہ گلوبند میرے حوالے کر دیجیے۔
اس بوڑھے نے ازراہ تعجب کہا کہ تم ایک سخی انسان ہو، میں حاضر ہوں۔
حضرت عمار اسے اپنے گھر لے گئے اسے کھانا کھلایا کیا اور جن چیزوں کا وعدہ کیا تھا وہ بھی اسے پیش کر دیں۔ وہ بوڑھا واپس آیا۔ پیغمبِر اسلامؐ نے اس سے پوچھا: کیا تمہیں لباس مل گیا ہے اور کھانا کھا لیا ہے؟
اس نے جواب دیا: جی ہاں! سب کچھ مل گیا ہے۔
پیغمبر اسلام ؐنے فرمایا: میری بیٹی کے حق میں دعا کرنا۔
اس نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا: خدایا! تو وہ خدا نہیں ہے کہ جس نے ہمیں پیدا کیا ہے؟ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ تو ہی ہمیں ہر طرف سے روزی رزق دینے والا ہے۔ اے اللہ! حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اتنا عطا فرما جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہو اور نہ کسی کان نے سنا ہو۔
حضرت عمار نے وہ گلوبند اس بوڑھے سے لیا اور اسے مُشک سے معطّر کیا اور یمنی چادر میں لپیٹا اور اپنے غلام ”سہم“ کے حوالے کیا۔ آپ نے یہ غلام اس مال غنیمت کی قیمت سے خریدا تھا جو آپ کو جنگ خیبر سے ملا تھا۔ جناب عمار نے اسے کہا یہ سامان رسول اللہ کی خدمت اقدس میں لے جاؤ اور تم بھی ان ہی کی ملکیت ہو۔ وہ غلام بارگاہ نبوتؐ میں پہنچا۔ وہ چادر یمنی جس میں گلوبند تھا حضور کے حوالے کیا اور حضرت عمار کا پیغام بھی دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ سب کچھ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس لے جاؤ اور ان کے حوالے کر دو۔ اب تم انہی کے غلام ہو۔
غلام بارگاہ مرکز عترت و طہارت میں پہنچا اور اس نے وہ گلوبند حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے حوالے کیا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام بھی دیا۔ حضرت سیدہ نساء العالمین نے وہ گلوبند لیا اور غلام کو اللہ کے راستے میں آزاد کر دیا۔ غلام ہنسنے لگا۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا: اس گلوبند کی برکت نے مجھے ہنسا دیا ہے۔ کیونکہ میں خود گواہ ہوں کہ اس نے ایک بھوکے کی بھوک ختم کی ہے۔ ایک بے لباس کو لباس پہنایا ہے۔ ایک حاجت مند کی حاجت روائی کی اور ایک غلام کو آزاد کیا اور پھر اپنے مالک کے پاس واپس آیا۔
یہ ہے میری داستان
علامہ مجلسیؒ نے ”تفسیرِفرات کوفی“ سے اور اس نے ابو سعید خُدری سے روایت کی ہے۔ ایک دن امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ آپؑ نے سیدہ کائنات حضرت زہراسلام اللہ علیہا سے پوچھا: کیا گھرمیں کوئی کھانے کا سامان ہے؟
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے عرض کیا: نہیں، جس خدا نے میرے والد کو اپنا رسولؐ بنایا اور آپؑ کو ان کا جانشین بنایا، گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے۔ دو دن سے میں خود بھوکی ہوں جو کچھ گھر میں ہوتا تھا وہ میں آپ کو اور اپنے دونوں شہزادوں کو کھلا دیتی تھی اور خود فاقے سے رہتی تھی۔
حضرت امیرؑ نے فرمایا: آپؑ نے مجھے تو نہیں بتایا کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے، ورنہ میں بازار جاتا اور گھر میں کھانے کا سامان لے آتا۔
حضرت زہراسلام اللہ علیہا نے عرض کیا: مجھے اپنے رب سے حیا آتی ہے کہ میں آپؑ کو وہ بات کیسے کہوں جس کی قدرت آپ کے پاس نہیں تھی۔
حضرت امیرعلیہ السلام اپنے ربِ رحیم کے رحم و کرم پر گھر سے باہر تشریف لائے اور چند دینار قرض لیے اور اپنے گھر کی غذائی ضروریات لینے کے لئے بازار کی طرف چل پڑے۔ اس دوران آپؑ کی نگاہ حضرت مقداد پر پڑی کہ جو سخت گرمی میں گھر سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ حرارتِ خورشید نے جن کے چہرے کے رنگ کو دگرگوں کر رکھا تھا اور سورج سے جلتی ہوئی زمین نے ان کے پاؤں کو جھلسا رکھا تھا۔
جنابِ امیرعلیہ السلام نے تعجب کے انداز میں ان سے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ اس وقت آپ گھر سے باہر ہیں؟ جناب مقداد نے جواب دیا: اے میرے امیرعلیہ السلام! آپؑ تشریف لے جائیے۔ میری درخواست ہے کہ آپؑ مجھ سے کسی قسم کی بات نہ پوچھیں۔حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا: یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ میں تجھے پریشان حال چھوڑ کر چلا جاؤں۔
حضرت مقداد نے عرض کیا: اے میرے سید و سالار! آپؑ کو خدا کا واسطہ تشریف لے جائیں مجھے اپنے حال پر رہنے دیں، میرا حال مت پوچھیں۔
حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: اے برادرِعزیز! آپ کےلئے ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ مجھے اپنی مشکل نہ بتائیں۔ اپنا حال بتا دیجیے شایدمیں آپ کےلئے کچھ کر سکوں۔
جناب مقداد نے عرض کیا: آپؑ کے مسلسل اصرار نے مجھے اپنی حقیقتِ حال کے اظہار پر مجبور کر دیا ہے۔ اس خدا کی قسم، جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسالت عطا فرمائی ہے ار آپؑ کو ان کا جانشین و خلیفہ مقرر کیاہے۔ افلاس و ناداری نے میرا یہ حال کر دیا ہے کہ میرے گھر میں افلاس نے اپنے سائے جما رکھے ہیں۔ میرے گھر میں کھانے کےلئے کچھ نہیں ہے۔ گھر کا ہر فرد بھوک سے تڑپ رہا ہے۔ ان کی حالت مجھ سے دیکھ نہیں جاتی۔
بیوی اور بچوں کے گریہ و زاری نے میرا بُراحال کر رکھا ہے۔ا س لئے گھر سے باہر نکل آیا ہوں۔ اب آپؑ کے سامنے حیران و پریشان گلی کوچوں میں سرگرداں ہوں۔
اے میرے امیرعلیہ السلام!یہ میری درد بھری داستان ہے۔
جب امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے جنابِ مقداد کا حال سنا تو آپؑ بے اختیار رونے لگے، حتی کہ آپؑ کی روشِ مقدس آنسوؤں سے بھیگ گئی۔ آپؑ نے روتے ہوئے فرمایا: اے مقداد! جس خدا کی تو نے قسم کھائی ہے میں بھی اسی کی قسم کھاتا ہوں۔ میرا حال بھی وہی ہے جو آپ کا ہے۔ میں بھی آپ کی طرح اس وقت سخت گرمی میں اپنے گھر سے باہر ہوں۔ یہ چند دینار قرض لیے ہیں، تاکہ گھر کےلئے غذائی سامان خرید سکوں، لیکن اب آپ کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی، اس لئے آپ کو اپنی ذات پر مقدم سمجھتا ہوں۔
آپؑ نے ایثار اور بے پناہ اخلاص کی بنا پر وہ دینار جنابِ مقداد کے حوالے کر دیے اور نماز پڑھنے کےلئے مسجد نبویؑ تشریف لے گئے۔ وہاں آپؑ نے نماز ظہر اور عصر پڑھی۔ بعد ازیں نمازِ مغرب پڑھی۔ جونہی نماز مغرب اختتام پذیر ہوئی۔ پیغمبر خدا اٹھے کہااپنے گھر کی طرف چلیں۔ جونہی آپؐ نے پہلی صف عبور فرمائی آپؐ کی نگاہِ مبارک حضرت امام علی علیہ السلام پر پڑی۔ آپؐ نے جناب امیر علیہ السلام کا پاؤں اپنے پاؤں سے دبایا۔ آپؐ کا ارداہ تھا کہ وہ ان کے ہمراہ چلیں۔ جب دونوں مسجد کے دروازے پر اکٹھےہوئے تو حضرت امیرعلیہ السلام نے آپؐ کو سلام کیا۔ رسول اللہؐ نے سلام کے جواب کے بعد فرمایا: علیؑ جان! کیا یہ ممکن ہے کہ آج شام میں آپ کا مہمان بنوں؟
جنابِ امیرعلیہ السلام نے خاموشی سے کام لیا، کیونکہ آپؑ اپنے گھر کے حالات سے خوب جانتے تھے۔ مہمان داری ان کےلئے مشکل تھی، لیکن آپؑ کےلئے یہ بھی ناممکن تھا کہ پیغمبر اعظمؐ کی فرمائش ہو کہ میں مہمان بننا چاہتا ہوں اور امامؑ اس کی نفی کریں، لیکن حال یہ تھا کہ امامؑ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں؟
حیرانی و پریشانی کے عالم میں حیا مانع تھی اسی لیے آپؑ نے سکوت اختیار فرمایا۔ آپؑ کو اس امر کی خبر نہ تھی کہ پیغمبرخداؐ ان کے اقتصادی حالات اور دینار و ایثار والی داستان سے آگاہ ہیں اور خداوند تعالی نے ان کی طرف پیغام بھیجا ہے کہ انہوں نے آج رات کا کھانا امام علی علیہ السلام کے خانۂ اقدس پر تناول فرمانا ہے۔
بہر حال! جب پیغمبر گرامیؐ نے امام علی کو مسلسل خاموش دیکھا تو آپؐ نے فرمایا: علیؐ جان! سکوت کو توڑیئے، جواب دیجیے، میں شام کو آپؐ کے گھر آ سکتا ہوں یا نہیں؟
ادھر امام علی علیہ السلام حیا کے سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اسی حالت میں بارگاہ نبوتؐ میں عرض کیا۔ جی ہاں! تشریف لے آئیے۔
پیغمبر گرامیؐ نے امام علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور اسی حالت میں دونوں گھر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے دیکھا کہ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا نماز میں مصروف ہیں۔ جب ان کی نماز ختم ہوئی اور وہ ابھی اپنی تعقیبات سے فارغ نہیں ہوئی تھیں کہ ان کے پیچھے ایک برتن رکھا ہوا ہے جوغذا سے بھرا ہوا تھا اور اس سے بخارات نکل رہے تھے۔ جونہی حضرت زہراسلام اللہ علیہا نے رسول اللہؐ کی آواز سنی تو اپنے تعقیبات ختم کیے اور فوراً رہبرِ توحید کو سلام کیا اور پیغمبر اکرمؐ نے ان کو سلام کا جواب دیا۔ حضرت زہراسلام اللہ علیہا آپؐ کی نگاہ میں محترم شخصیت تھیں۔ آپؐ نے اپنی بیٹی کے سرِ مبارک پر پدرانہ شفقت سے بھرپور ہاتھ پھیرا اور ان سے پوچھا: اے میری بیٹی! گزشتہ شب کیسے گزری؟
حضرت زہراسلام اللہ علیہا نے عرض کیا: خیریت کے ساتھ گزری۔ اس وقت حضرت سیدہ نساءالعالمین سلام اللہ علیہا نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی۔ پیغمبرگرامیؐ نے ان کے حق میں دعا فرمائی اور فرمایا: جائیں اور کھانا اٹھا لائیں۔ حضرت زہراسلام اللہ علیہا نے کھانا اٹھایا اور پیغمبر خدا کی خدمت میں پیش کیا۔
امام علی علیہ السلام نے پوچھا: آپؐ نےیہ کھانا کہاں سے لائی ہیں۔ میں نے ایسا کھانا جو اس قدر خوش رنگ ہو، اس قدر خوشبودار اور خوش ذائقہ ہو، زندگی بھر نہ دیکھا ہے اور نہ کھایا ہے۔
اس دوران پیغمبر اکرمؐ نے امامؑ کے شانے پر اپنا مبارک ہاتھ رکھا اور فرمایا: علیؑ جان! یہ آپؑ کے دینار و ایثار کا عوض ہے کہ جو آپؑ نے اللہ کی خوشنودی کےلئے خرچ کیا تھا۔ اللہ نے اس کا عوض آپؑ کو عطا کیا ہے۔
اِنَّاللہَ یَرزُقُ مَن یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
”اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔“
اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے۔
آپؐ نے فرمایا: خداوند مہربان کو یہ پسند ہی نہیں ہے کہ آپ دونوں کو اس دنیا سے رخصت ہوں اور آپ کو اجر و جزا نہ ملے۔
علیؑ جان! خدا وند تعالیٰ نے آپؑ پر وہ احسان و لطف کیا ہے جس طرح کا لطف حضرت زکریاؑ پر فرمایا تھا اور میری دختر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا پر وہی لطف و کرم کیا ہے جو حضرت مریم علیہا السلام پر کیا تھا۔ جب حضرت زکریاؑ حضرت مریمؑ کے پاس گئے تھے تو ان کے ہاں خدا وند تعالیٰ کی طرف سے رزق و روزی اور نعمات کو دیکھا تھا۔ پھر آپؐ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی:
فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوۡلٍ حَسَنٍ وَّ اَنۡۢبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا ۙ وَّ کَفَّلَہَا زَکَرِیَّا ۚؕ کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیۡہَا زَکَرِیَّا الۡمِحۡرَابَ ۙ وَجَدَ عِنۡدَہَا رِزۡقًا ۚ قَالَ یٰمَرۡیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ؕ قَالَتۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ
(سورہ آل عمران: آیۃ/37)
”چنانچہ اس کے رب نے اس کی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول فرمایا اور اس کی بہترین نشو و نما کا اہتمام کیا اور زکریاؑ اس کے حجرۂ عبادت میں جاتے تھے اس کے پاس طعام موجود پاتے۔ پوچھا: اے مریمؑ! یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ وہ کہتی ہے کہ اللہ کے پاس سے۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔“
کتاب ” فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا من المھد الی اللھد” سے اقتباس”
مؤلف: آیت اللہ سید محمد کاظم قزوینی ؒ
اردو ترجمہ : فاطمہ زھرا (س) طلوع سے غروب تک
مترجم : علامہ الطاف حسین بلوچ
ناشر: ادارہ منھاج الصالحین لاہور

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button