خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:132)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 21 جنوری 2022ء بمطابق 17 جمادی الثانی 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ہماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں وٹس ایپ کریں۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت 20 جمادی الثانی کو ہوئی۔
گزشتہ ایام فاطمہؑ کے دوران سیدہ کی زندگی کے بارے میں مختلف معلومات بھیجی جا چکی ہیں ان کی طرف بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی اعتبار سے انسان کی شخصیت و عظمت دو طریقہ سے بنتی ہے ایک نسب کے ذریعہ، دوسرے ذاتی کمالات و فضائل کے ذریعہ انسان درجہ کمال تک پہنچتا ہے ۔
حسب و نسب کی عظمت و فضیلت:
نسبی شخصیت، عظمت اور فضیلت کو اسلام نے تسلیم کیا ہے کہ اس میں مختلف عوامل و اسباب مؤثر ہوتے ہیں: موروثی سبب، جائز طریقہ سے غذا کا استعمال، ماحول کی تاثیر، ہمسر یعنی زوجہ و شوہر کی تاثیر اور نیک و صالح اولاد وغیره انسانت کی شخصیت سازی میں اہم نقش اور کردار ادا کرتے ہیں ۔ حضرت زہرا سلام الله علیھا کو موروثی قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو خاتم الانبیاء حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم جیسے خلق عظیم کے مالک آپ ؑکے والد ماجد ہیں۔
آپ ؑکی والده ماجده حضرت خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیھا جیسی عظیم خاتون ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام اس بزرگ ہستی کا مرہون منّت ہے، ایسی ماں جنہوں نے شعب ابی طالب میں بائیکاٹ کئے گئے محصور مسلمانوں کے تین سال تک اخراجات کی ذمہ داری سنبھالی اور اپنے تمام مال و دولت کو اس راه میں خرچ کیا، وه ماں جنہوں نے کئی سال تک مکہ میں کمر شکن مصیبتوں اور سختیوں کو برداشت کیا، اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے شانہ بہ شانہ ره کر اسلام کی مدد کی، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی ہمراہی کی بناپر آپ کے جسم مبارک پر پتھر مارے گئے، بے احترامی کی گئی، برا بھلا کہا گیا اور جیسے جیسے یہ اتفاقات اور مشکلیں بڑھتی رہیں آپؑ کے صبر و استقامت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔
قانون غذا کی تاثیر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مؤرخین نے لکھا ہے: جب پروردگار عالم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیھا کی خلقت کا ارادہ کیا، تو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا کہ چالیس شب و روز غار حرا میں دینی عبادت میں مصروف رہیں۔(بحار الانوار، ج 6، بيت الاحزان محدث قمي (ره)، ص ۵)
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھابھی اپنے گھر میں ره کر عبادتِ خدا میں مشغول رہیں اور لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔
ماحول کی تاثیر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو حضرت زہرا سلام الله علیھا نے فداکار، عفو درگزر اور ثابت قدم رہنے والی ماں کے دامن اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم جیسے والد ماجد کی آغوش میں تربیت و پرورش پائی ،اس کے علاوه آپ کی زندگی بڑے پُرآشوب حالات، سختیوں اور مصائب میں گھری ہوئی تھی ۔ حضرت صدیقہ سلام الله علیھا نے شعب ابی طالب ؑمیں ان حوادث و مصائب میں بھی زندگی بسر کی ہے جن کے بارے میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں معاویہ کے لئے بیان کیا ہے:
"تم لوگوں نے ہمیں تین سال تک آفتاب کی دھوپ میں محصور و مقیّد رکھا تھا، اس طرح کہ ہمارے بچے بھوک اور پیاس کی وجہ سے انتقال کرگئے ہمارے بزرگ درخت کے پوست پر زندگی بسر کررہے تھے، بچوں اور عورتوں کے آه و نالہ اور فریاد کی آوازیں بلند تھیں۔۔۔” واضح و روشن ہے کہ جس بچی کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہو، خاص طور سے اگر اس کی تربیت کرنے والے
رسول اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم ہوں تو اس میں پائیداری، ثابت قدمی، استقامت، صبر و حوصلہ اور وسعت صدر بطور اتم و کامل موجود ہوگا ۔
حضرت فاطمہ سلام الله علیھا شوہر اور اولاد صالح کے اعتبار سے بھی بڑی عظیم اور مافوق شخصیت کی مالک ہیں، آپ ؑکے شوہر حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن کریم کی کئی آیتیں نازل ہوئی ہیں ۔
( نور الابصار میں، ص 73)
آپ کی اولاد میں امام حسنؑ،امام حسینؑ،سیدہ زینب ؑو ام کلثوم علیھم السلام ہیں کہ اگر یہ ذوات مقدّسہ نہ ہوتیں تو اسلام مٹ جاتا اور امام حسین علیہ السلام کے فرمان کے مطابق "و علیٰ الاسلام السلام” اسلام کا فاتحہ پڑھ لیا جاتا ۔

ذاتی فضائل و کمالات:
حضرت زہرا ؑکو ذاتی فضائل و کمالات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس خاتون کی عظمت کے بارے میں کیا بیان جاسکتا ہے جس کے متعلّق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
"إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ”
بیشک خدا نے تمہیں چن لیا ہے اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دے دیا ہے ۔(مناقب ابن شھر آشوب ج3)
اگر جناب فاطمہ زہرا ؑ کے فضائل کے لئے سورہ کوثر کے علاوہ قرآن میں کچھ بھی نازل نہ ہوتا تو وہی ان کی فضیلت کے لئے کافی تھا کہ کہا جائے، خدا کے نزدیک تمام عالمین کی عورتوں سے افضل اور برتر ہیں ۔
” إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ” (اے پیغمبرﷺ) بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے، لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں، یقینا آپ کا دشمن بے اولاد رہے گا ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیھا اس عظیم خاتون کا نام ہے جو اصول و قوانین اسلامی سے آگاه نیز اخلاقی اصول آداب سے آشنا تھیں، آپ قرآنی آیتوں اور ان کی تلاوت کی حلاوت کے ساتھ ساتھ، ان میں غور و فکر اور تفکّر و تدبّر سے مانوس تھیں، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم کی سیرت اور نورانی کلام کے ذریعہ پسندیده اخلاق و اطوار سے آگہی رکھتی تھیں اور بچپن ہی سے تمام خواتین و انسانیت کے لئے اسوہ حسنہ اور کامل نمونہ تھیں، اصل اسلامی اخلاق و آداب کی اقدار کے متعلق کثیر معلومات اور معارفِ دین کے متعلّق مختلف اعتبار سے بہت عمیق و گہری نظر کی حامل تھیں ۔

کردار سیدہ میں توحید کے جلوے
اگر حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے کردار پر نظر ڈالی جائے تو اس میں سوائے خدا کے جلووں کے اور کچھ بھی نظر نہیں آتا، جیسا کہ ایک دفعہ حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) سے فرمایا: فاطمہ(سلام اللہ علیھا)، جبرئیؑل کہ رہے ہیں: خدا نے آپؑ کو سلام کہلوایا ہے اور فرمایا: فاطمؑہ، سے کہہ دو کہ جو بھی حاجت ہے وہ طلب کریں، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) نے تھوڑی دیر فکر کی اور فرمایا:
لا حاجَۃَ لِی غَیرُ النَّظَرِ اِلی وَجهِهِ الکَرِیمِ
میری حاجت اس کے سواء کچھ بھی نہیں ہے کہ میں ہمیشہ خدا کے جمال کو دیکھتی رہو۔(ترجمہ ج۴۳، بحارالانوار)
یہ کلام اسی زبان سے نکل سکتا ہے جس نے حقیقی اور واقعی کمال کو حاصل کر لیا ہو اور مناجات کی لذت کو محسوس کیا ہو اور جس نے اپنے آپ کو خدا کی محبت میں فانی کردیا ہو اسی لئے تو جب حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیھا ) محراب میں کھڑی ہوجاتی تھیں:
زَهَرَ نُورُها لِلمَلائِکَةِ السَّمَاء
ملائکہ کے لئے آپؑ کی نماز کا نور پھیل جاتا تھا۔
(بحار الانوار، ج۲۸، ص۳۸)
آپؑ کی ذات وہ ہے جس نے دنیا کی پستیوں کی طرف کبھی بھی رجحان پیدا نہیں کیا اور سختی اور تنگدستی نے بھی آپؑ کے ایمان کو کمزور نہیں کیا اسی لئے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے آپ کے بارے میں فرمایا:
إنَّ ابْنَتِی فَاطِمَةَ مَلَأَ اللهُ قلب ها وَ جوارح ها إِیِمَاناً وَ یَقِینا(بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۹)
میری بیٹی فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کا تمام وجود ایمان اور یقین سے بھرا ہوا ہے۔
حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) ہمشیہ اپنے چاہنے والوں کو اپنی طرح خدا کا اطاعت گذار اور مطیع بنانے کی کوشش کیا کرتی تھیں، ایک دفعہ آپ کے ایک چاہنے والے نے اپنی بیوی کو آپ کی خدمت میں بھیجا تاکہ یہ جانے کہ اس کا شمار آپ کے شیعوں میں سے ہوتا ہے یا نہیں؟
حضرت زہراء(سلام الله علیها) نے فرمایا:
اِن کُنتَ تَعمَلُ بِما أمَرناکَ وَ تَنتَهی عَما زَجَرناکَ عَنهُ فَأنتَ مِن شیعَتِنا وَ اِلّا فَلا
ہم نے جس چیز کا حکم دیا ہے اگر تم اس پر عمل کرتے ہو اور ہم نے جس چیز سے تم کو منع کیا ہے اگر تم اس کو انجام نہیں دیتے، تو ہمارے شیعہ ہو۔
جب اس کے شوہر نے یہ سنا تو بہت زیادہ پریشان ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں ہمیشہ جہنم میں ہی رہوں گا، اس کی بیوی پریشان ہوگئی اور حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) سے بتایا، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) نے فرمایا: اپنے شوہر سے کہہ دو، اس طرح نہیں ہے، ہمارے شیعہ جنت کے بہترین لوگوں میں سے ہوں گے، ہمارے چاہنے والوں کے چاہنے والے اور ہمارے دشمنوں سے دشمنی رکھنے والے سب جنت میں رہیں گے! ہاں جو دل اور زبان سے ہم اہل بیت(علیھم السلام) سے محبت کرتا ہے لیکن ہماری اتباع نہیں کرتا ہمارا حقیقی شیعہ نہیں ہوسکتا، اگرچہ یہ گروہ بھی گناہوں کی بخشش کے بعد جنت میں داخل ہوجائے گا اور ہم اس کواپنی محبت کی خاطر جہنم کی آگ سے نجات دےکر اپنی بارگاہ میں جگہ دیں گے۔(بحار الانوار ، ج۶۵، ص۱۵۵)
گھریلوں اور ازدواجی اخلاقیات:
زندگی ایک ایسا مرکز ہے جس میں بہت زیاده نشیب و فراز پائے جاتے ہیں، اس میں خوشیاں اور دکھ درد بھی دیکھے جاتے ہیں ۔ عورت و مرد کی بصیرت، باریک بین نگاہیں اور دونوں کے اغراض و مقاصد سختیوں کو آسان اور ناہمواریوں کو ہموار بنا دیتے ہیں، اس طرح کہ ان دونوں میں سے ہر ایک حادثوں کا استقبال کرتے ہیں اور بھرپور سعی و کوشش کے ذریعہ زندگی میں اطمینان و سکون، صدق و صفا، صمیمیت اور مہربانی قائم رکھتے ہیں ۔لوگوں کے ساتھ انبیاء ؑ کے منطقی، دلسوزی اور مہربانی کے تعلّقات، رسولوں و رہنماؤں کے حُسن خُلق اور احسان کے کیمیائی نقش و کردار کو فکری تہذیب و ثقافت کی تجلّی یعنی "انبیاء ؑ کے اخلاق کے آئینہ” میں بیان کیا گیا ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیھا اس میدان میں ایک کامل اسوہ و نمونہ ہیں وه بچپن سے مشکلوں و سختیوں میں رہی ہیں، شعب ابی طالب میں تین سال کی سختیاں برداشت کیں۔اور جب شوہر کے گھر میں قدم رکھتی ہیں تو سختیوں سے نمٹنے کے ایک نئے معرکہ کا آغاز ہوتا ہے اس وقت آپ کی "شوہرداری اور گھریلو زندگی کے اخلاقیات” کھل کر سامنے آتے ہیں ۔
ایک دن امام علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیھا سے کھانا طلب کیا تاکہ ابھی بھوک کو برطرف کرسکیں، جناب فاطمہ سلام الله علیھا نے جواب دیا: میں اس خدا کی قسم کھاتی ہوں کہ جس نے میرے والد کو نبوّت اور آپ کو امامت کے لئے منتخب کیا ہے، دو دن سے گھر میں وافی مقدار میں غذا نہیں ہے اور جو کچھ غذا تھی وه آپ ؑاور اپنے بیٹے حسن ؑ و حسین ؑکو دے دیا اور میں نے تھوڑی سی غذا سے بھی استفاده نہیں کیا ہے۔ امام علیہ السلام نے بڑی حسرت سے فرمایا: اے فاطمہؑ آخر مجھ سے کیوں نہیں بتایا کہ میں غذا فراہم کرنے کے لئے جاتا؟ جناب فاطمہ سلام الله علیھا نے عرض کیا:
اے ابوالحسن (ع)! میں اپنے پروردگار سے شرم و حیا کرتی ہوں کہ جس چیز پر آپ کی توانائی نہیں هے میں اس چیز کی درخواست کروں۔ (مناقب ابن شهر آشوب، ج2، ص26)

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button