خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:230)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک08 دسمبر 2023ء بمطابق 24 جمادی الاول 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: خطبہ فدک میں توحیدی معارف
خطبہ فدک سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا وہ مشہور خطبہ ہے جو آپ نے فدک غصب ہونے کے بعد مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا تھا۔ یہ خطبہ بہت سے اہم دینی معارف پر مشتمل ہے۔ سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے اس خطبے میں توحید، رسالت، امامت، قیامت، فلسفہ احکام، احکام ارث، تعارف قران، تعارف اہل بیت اور عربوں کی تاریخ کے علاوہ مختلف اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ہر مومن کو بطور خاص اس خطبہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایام فاطمیہ کی مناسبت سے اس جمعہ ہم سیدہ کے اس عظیم خطبہ سے توحید کی چند اہم تعلیمات بیان کریں گے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ سیدہ کائنات نے ہمیں کیسی بہترین توحید سے روشناس کرایا ہے۔
حمد الٰہی کی تربیت:
حمد یعنی اللہ تعالیٰ کی تعریف۔حمد الٰہی کی تربیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت اطہار علیھم السلام میں سے ہر ایک کی زندگی میں عملی طور پر جس چیز  کی سب سے پہلے تربیت دی گئی ہے وہ حمد الٰہی ہے۔ یہ ہستیاں اپنے قول و فعل میں ذات الٰہی کو سب سے مقدم رکھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کا آغاز ہمیشہ حمد الٰہی سے ہوتا ہے۔ سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے عظیم خطبے میں بھی سب سے پہلے اسی چیز کی تربیت موجود ہے۔ چنانچہ سیدہ سلام اللہ علیھا اپنے کلام کے آغاز میں فرماتی ہیں
” اَلْحَمْدُلِلّهِ عَلی ما أنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ”
آپؑ نے فرمایا: ثنائے کامل ہے اللہ کے لیے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں۔ اور اس کا شکر ہے اس سمجھ پر جو اس نے (اچھائی اور برائی کی تمیز کے لیے) عنایت کی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ نے اپنی حمد خود کی ہے، نیز دیگر حمد کرنے والے انبیاء، ملائکہ، مومنین ہیں، بلکہ ہر چیز حمد کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتی ہے جیسے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ
ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو موجودات ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ثناء میں تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔
حمد اور مدح میں فرق:
حمد وہ ثناء ہے جو اچھے اور خوبصورت عمل کی وجہ سے کی جاتی ہے اور عمل کرنے والے نے اپنے اختیار سے وہ عمل کیا ہو، مگر مدح، اِس ثناء (اچھا کام اور بااختیار) کو بھی شامل ہوتی ہے اور غیراختیاری عمل کو بھی۔ ساری حمد، اللہ کے لئے اس وجہ سے ہے کیونکہ اللہ کا ہر فعل اچھا اور حسن ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "ذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ‏ "یہی اللہ تمہارا رب ہے جو ہر چیز کا خالق ہے۔”
لہذا جو مخلوق بھی شیء اور چیز کہلاتی ہے وہ اللہ کی مخلوق ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا ہے: "الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْ‏ءٍ خَلَقَهُ " جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا۔پس یہ آیات دلیل ہیں کہ اللہ کا ہر عمل اچھا اور خوبصورت ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ لائق حمد اس لیے بھی ہے کہ یہ سب افعال اس کے اپنے اختیار سے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے:
"هُوَ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ” "وہی اللہ ہے جو یکتا ، غالب ہے”نیز فرمایا:
"وَ عَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ‏”
"سب چہرے اس حی اور قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے۔”
ان دو آیات سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے کسی چیز کو کسی کے جبر اور قہر سے خلق نہیں کیا، بلکہ جو کچھ خلق کیا ہے اپنے علم اور اختیار سے خلق کیا ہے، لہذا ہر مخلوق اللہ کا اختیاری فعل ہے اور وہ بھی جمیل اور حسن فعل۔ بنابریں فعل اور کام کے لحاظ سے ساری حمد اللہ کے لئے ہے۔
شکر پروردگار کی تعلیم:
سیدہ کے خطبے میں حمد الٰہی کے ساتھ ساتھ شکر الٰہی کی بھی تعلیم موجود ہے چنانچہ حمد پروردگار کے بعد آپ کا دوسرا جملہ شکر پرودرگار سے متعلق ہے۔ آپ نے فرمایا:
” اَلْحَمْدُلِلّهِ عَلی ما أنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ”… "
آپؑ نے فرمایا: ثنائے کامل ہے اللہ کے لیے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں۔ اور اس کا شکر ہے اس سمجھ پر جو اس نے (اچھائی اور برائی کی تمیز کے لیے) عنایت کی ہے۔”
شکر کرنا خود انسان کے لئے فائدہ مند ہے اور شکر کرنا یا ناشکری کرنا، اللہ تعالی کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچاتا، کیونکہ پروردگار، انسان کے اعمال سے غنی اور بے نیاز ہے اور وہ ذاتِ اقدس اس سے بالاتر ہے کہ انسان کی ناشکری سے اسے کوئی نقصان پہنچ سکے، لہذا نعمت پر شکر کرنا نعمتوں کے بڑھنے کا باعث بنتا ہے اور ناشکری کرنا عذاب کا باعث ہے۔

اگر ہم شکر سے متعلق روایات دیکھیں تو کثیر احادیث میں مختلف جہات سے شکر کی تاکید کی گئی ہے اور اس دنیوی و اخروی فوائد زیر بحث لائے گئے ہیں۔بطور نمونہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا یہ فرمان مبارک:
"شُكرُ النِّعمَةِ اجتِنابُ المَحارِمِ ، و تَمامُ الشُّكرِ قولُ الرجُلِ: الحَمدُ للّهِ رَبِّ العالَمِينَ”
"نعمت کا شکر، حرام سے دوری کرنا ہے اور مکمل شکر انسان کا یہ کہنا ہے: الحَمدُ للّهِ رَبِّ العالَمِينَ”
اسی طرح حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے منقول ہے:
"شُكرُ العالِمِ على عِلمِهِ: عَمَلُهُ بهِ، و بَذلُهُ لِمُستَحِقِّهِ”،( غرر الحكم و درر الکلم، ح:5667)
"عالم کا اپنے علم پر شکر کرنا اس علم پر عمل کرنا اور اس کو اس کے حقدار کو دینا ہے”
جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے موسی (علیہ السلام) کو وحی فرمائی: اے موسی میرا اس طرح شکر کر جیسے میرے شکر کا حق ہے تو حضرت موسیؑ نے عرض کیا: اے میرا پروردگار میں کیسے اس طرح شکر کرسکتا ہوں جیسے تیرے شکر کا حق ہے حالانکہ تیرا جو شکر کرتا ہوں وہ خود ایسی نعمت ہے جو تو نے عطا فرمائی ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا:
"يا موسى شَكَرتَني حَقَّ شُكري حينَ عَلِمتَ أنَّ ذلكَ مِنّي”
اے موسی! جب تم جان لو کہ اس شکر کی توفیق بھی میں نے تمہیں دی ہے تو تُو نے میرا ویسا شکر کیا ہے جیسا میرے شکر کا حق ہے۔

پیشگی نعمتیں عطاء کرنے والا رب:
سیدہ نے اللہ کی ثناء یعنی تعریف کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا احساس دلایا ہے کہ ہمارا رب کتنا کریم ہے اور اس کی کرم نوازی کی ایک جھلک یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو جن بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے وہ کسی چیز کے بدلہ میں یا انسان کے حقدار ہونے کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی پیشگی عطا ہیں گویا یہ نعمتیں خدا کا ہدیہ ہیں،
سیدہ فرماتی ہیں: :” وَ الثَّناءُ بِما قَدَّمَ مِنْ عُمُومِ نِعَمٍ اِبْتَدَاَها "،
” اور اس کی ثنا و توصیف ہے ان نعمتوں پرجو اس نےپیشگی عطاکی ہیں "۔
جیسا کہ ایک دعا میں یہ جملہ آتا ہے ہے:
"يَا مُبْتَدِئاً بِالنِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقَاقِهَا”،
"اے نعمتوں کی ابتداء کرنے والے، نعمتوں کے استحقاق سے پہلے”۔ (بحار الانوار،، ج51، ص305) البتہ ہوسکتا ہے کہ "قَبْلَ اسْتِحْقَاقِهَا” کا اور مطلب بھی ہو جو یہ ہے کہ مخلوقات اپنے اختیار سے اعمال بجالانے کے ذریعے بدلہ (اجر) کی مستحق ہوجائیں، لیکن اللہ تعالی اس سے پہلے کہ کوئی شخص اختیاری طور پر عمل انجام دے کر کسی نعمت کا مستحق ہوجائے، ابتدائی طور پر اپنے بندوں کو نعمت عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس پیشگی عطاءکی ان گنت مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ہماری زمین اور ہماری فضاء میں موجود بے شمار نعمتیں انسان کے اس زمین پر آنے سے پہلے مہیا کر دی گئیں ہیں۔اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پروردگار اس کی پیدائش سے پہلے اس کی ماں کے سینہ میں اس کا رزق خلق کردیتا ہے۔

اعضاء و حواس اللہ کے ادراک سے عاجز:
اگرچہ اللہ نے توحید کے قلبی اور عقلی ادراک کو کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کی وجہ سے واضح قرار دیا ہے، لیکن اس کے باجود اللہ تعالیٰ کو دیکھنے سے انسان کی آنکھ اور اس کی حقیقی توصیف سے انسان کی زبان اور اس کی کیفیت و حقیقت کو سمجھنے سے عقلیں عاجز ہیں۔اس بابت سیدہ نے اپنے خطبے میں فرمایا:
"اَلْمُمْتَنَعُ مِنَ الأبْصارِ رُؤْيَتُهُ وَ مِنَ الْألْسُنِ صِفَتُهُ وَ مِنَ الأوْهامِ كِيْفِيتَّهُ”، نہ وہ نگاہوں کی(محدودیت)میں آسکتا ہےاورنہ ہی زبان سے اس کا وصف بیان ہو سکتا ہےاور وہم و خیال اس کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ آنکھیں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ جسم نہیں ہے، اور زبانیں اس کی حقیقی توصیف نہیں کرسکتیں، اس لیے کہ وہ لامحدود ہے اور محدود چیزوں سے لامحدود کے کمالات و صفات کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔قرآن مجید میں ارشاد الٰہی ہے:
"لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ”،
"نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں جبکہ وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ نہایت باریک بین بڑا باخبر ہے”۔ (الانعام:103 )
یہی مطلب حضرت امام زین العابدین ؑ صحیفہ سجادیہ کی پہلی دعا کے ابتدائی فقروں میں بیان فرماتے ہیں:
"الَّذي قَصُرَت عَن رُؤيَتِهِ أَبصارُ النّاظِرينَ ، وعَجَزَت عَن نَعتِهِ أَوهامُ الواصِفينَ”،”وہ خدا جس کے دیکھنے سے دیکھنے والوں کی آنکھیں عاجز اور جس کی توصیف و ثنا سے وصف بیان کرنے والوں کی عقلیں قاصر ہیں”۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی انتہاء ہے کہ جس کے وجود پر کائنات میں ان گنت نشانیاں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی بھی اس کی ذات کی کنہ حقیقت کے ادراک سے عاجز ہے۔
وسعتِ علم ِ الٰہی:
اللہ تعالیٰ نہ صرف ماضی، حال اور مستقبل کے حادثات کو جانتا ہے، بلکہ ماضی، حال اور مستقبل برابر طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جب آج کا دن آتا ہے تو کل ماضی یا کل مستقبل، اللہ کے سامنے حاضر نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم، حصولی نہیں ہے کہ کہا جائے کہ وہ جانتا ہے کہ کل کیا واقعات رونما ہوئے تھے، بلکہ کائنات کا سابقہ اور حال حاضر اور آئندہ، سب کچھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہے۔سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا نے علم الٰہی کی وسعت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
"عِلْماً مِنَ اللّهِ تَعالی بِمَا یَلی الامُور وَ اِحاطَةً بِحَوادِثِ الدُّهُورِ وَ مَعْرِفَةً ‏بِمَوقِعِ الامورِ”، "اللہ کو(اس وقت بھی)آنے والے امور پر آگہی تھی اور آیندہ رونما ہونے والے ہر واقعہ پر احاطہ تھااورتمام مقدرات کی جائے وقوع کی شناخت تھی۔” ان فقروں میں اللہ تعالیٰ کے متعلق تین چیزیں بیان ہوئی ہیں:علم، احاطہ، پہچان۔یعنی خدا کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ہر چیز کی شناخت سے آگاہ ہے۔سب کچھ اس کے سامنے ایک ہی طرح حاضر ہے حتی کہ اس کے سامنے صبح و شام کا بھی کوئی فرق نہیں۔ جو کچھ ہوچکا، جو کچھ ہورہا اور جو مستقبل میں ہوگا وہ سب احاطہ علم الٰہی میں ہے۔
اللہ تعالیٰ عدم سے وجود دینے والا خالق:
چنانچہ سیدہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں اس بات کو ایک مختصر جملے میں خوبصورتی سے سموتے ہوئے فرمایا: اِبْتَدَعَ الْأشْيٰاءَ لا مِنْ شَی‏ءٍ كانَ قَبْلَها، ”
ہر چیز کو لا شی ٔ سے وجود میں لایا اور کسی نمونے کے بغیر ان کو ایجاد کیا”۔
پس اللہ تعالیٰ ہی وہ واحد ذات ہے جو چیزوں کو بغیر کسی سابقہ مواد یا مثال کے خلق کرنے کی قدرت رکھتی ہے اور ذات احدیت کے علاوہ کسی میں ایسی قدرت نہیں۔
کسی چیز کو بنانے میں تین چیزیں ہوتی ہیں:
مادہ(یعنی مواد یا میٹیریل)، صورت(ذہن میں اس کا خاکہ)، شکل۔
انسان جب کسی چیز کو بناتا ہے تو مادہ اور صورت پہلے سے موجود ہوتی ہے اور انسان صرف شکل کو تبدیل کرتا ہے، انسان کی ایجادات اور ٹیکنالوجی اسی حد تک ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کتم عدم سے مادّہ، صورت اور شکل کو یکبارگی اور فورا بناتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے چیزوں کو ایجاد کیا جبکہ ان کی ایجاد کے لئے کسی سابقہ مادہ (میٹریل) کی ضرورت نہیں تھی، بنابریں چیزوں کی ایجاد کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے، ان کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کا ارادہ چاہیے۔علامہ شیخ محسن علی نجفی خطبہ فدک کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” عدم سے وجود دینے کو خلق ابداعی کہتے ہیں اس معنی میں صرف اللہ تعالیٰ خالق ہے جبکہ اجزائے موجودہ کو ترکیب دینے کو بھی تخلیق کہا جاتا ہے، اس سے غیر اللہ بھی متصف ہو سکتا ہے۔ ”

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button