خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:136)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 18 فروری 2022ء بمطابق 16 رجب المرجب 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
موضوع: مکارم اخلاق/ شہادت سیدہ زینب سلام الله علیھا
آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ہماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں وٹس ایپ کریں۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
انسانی زندگی میں اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ انسان کو روزانہ مختلف امور کے لیے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے جس میں انسان جتنا آداب و اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب و کامران نظر آتا ہے۔معاشرے میں انسان کی شناخت میں اس کے اخلاق کا اہم کردار ہوتا ہے، جس کا اخلاق جتنا زیادہ بہتر ہوگا اس کے دوست زیادہ ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے جنتے رہبر و رہنما بھیجے وہ سب اعلیٰ اخلاق کا مجسم نمونہ تھے۔انسان کو اس کے اخلاق و کردار سے عظیم مقام حاصل ہوتا ہے اورانسان اچھے اخلاق کے زریعے لوگوں کے دلوں میں گھر کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی ﷺ کو لوگوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا وہیں ان کے اعلی اخلاق کے بارے میں فرمایا:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ﴿۴﴾
اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔
یہ آپ کا عظیم اخلاق ہے کہ آپ کی شان میں انتہائی نامناسب جسارت ہوتی ہے، ان تمام اہانتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کے پاس خلق عظیم ہے۔ اچھا اخلاق، اعلیٰ نفسیات کا مالک ہونے کی علامت ہے اور فکر و عقل میں اعلیٰ توازن رکھنے والا ہی اعلیٰ نفسیات کا مالک ہوتا ہے۔ خلق عظیم کا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عقل عظیم کا مالک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:
اِنَّمَا بُعْثِتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ
(مستدرک الوسائل ۱۱: ۱۷) میں اخلاق حمیدہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔
روایات میں اخلاقی صفات اپنانے اور اپنا اخلاق بہتر بنانے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
حتی کہ اچھے اخلاق کو کامل ایمان کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:؎
إِنَّ أَكْمَلَ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَاناً أَحْسَنُهُمْ‏ خُلُقاً (الكافي ج‏2، ص: 99) ‏
لوگوں میں سے سب سے کامل ایمان شخص وہ ہے جو ان میں سے سب سے زیادہ بااخلاق ہو۔
اسی طرح اچھے اخلاق کو تمام نیکیوں میں سے ایک بہترین نیکی شمار کیا گیا ہے:
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے روایت ہے:
إِنْ أَحْسَنَ الْحَسَنِ الْخُلُقُ‏ الْحَسَنُ۔(الخصال، ج‏1، ص: 29)
بے شک بہترین نیکی بہترین اخلاق ہے۔
حسن اخلاق سے جہاں انسان کی نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور آخرت میں اجر عظیم ملتا ہے وہیں دنیا میں بھی حسن اخلاق کے بہت زیادہ فوائد ہیں جو انسان روزمرہ معاملات میں حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے لوگوں میں اس کی عزت بڑھ جاتی ہے اور اس کے دوست زیادہ بنتے ہیں۔ وہ اپنے کاروبار اور دیگر معاملات میں لوگوں کا اعتماد حاصل کر لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حسن اخلاق سے عمر میں بھی اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
الْبِرُّ وَ حُسْنُ الْخُلُقِ يَعْمُرَانِ‏ الدِّيَارَ وَ يَزِيدَانِ فِي الْأَعْمَار۔(الكافي :ج‏2، ص: 100)
نیکی اور حسن اخلاق شہروں کو آباد کرتے ہیں اور عمر میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ :حُسنُ الخُلقِ نِصْفُ الدِّينِ . (الخصال : ۳۰ / ۱۰۶ )حسن خلق نصف دین ہے۔
مکارم اخلاق کی وضاحت کلام معصومین میں:
امام جعفرصادق علیہ السلام مکارم اخلاق کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
إنّ اللهَ تباركَ وتعالى خَصَّ رسولَ الله (ص) بمَكارِمِ الأخْلاقِ ، فامْتَحِنوا أنفسَكُم ؛ فإن كانتْ فِيكُم فاحْمَدوا اللهَ عز و جل وارغَبوا إلَيهِ في الزّيادَةِ مِنها ۔ فذكَرَها عَشرَةً : اليَقينُ ، والقَناعَةُ ، والصَّبرُ ، والشُّكرُ ، والحِلْمُ ، وحُسنُ الخُلقِ ، والسَّخاءُ ، والغَيرَةُ ، والشَّجاعَةُ ، والمُروءَةُ ۔ (أمالي الصدوق : ۱۸۴ / ۸ )
اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پیغمبر (ص) کو مکارم اخلاق (بزرگ اور کریمانہ اخلاق)سے مخصوص فرمایا ہے۔لہٰذا تم اپنی ذات کا امتحان کرو(کہ آیا تم میں بھی یہ صفات پائی جاتی ہیں یا نہیں؟) اگر تمہارے اندر یہ صفات پائی جاتی ہیں تو پھر خدا وندتعالیٰ کی حمد بجالائو،اور ان میں اضافہ کی سرتوڑ کوشش کرو۔ پھر حضرت ع نے مکارم اخلاق کی تعداد بیان کرتے ہوئے دس چیزوں کا ذکر فرمایا:کہ وہ یقین، قناعت، صبر،شکر،حلم،حسن اخلاق،سخاوت ،غیرت، شجاعت اور مُروّت ہیں۔
جب امام جعفرصادق علیہ السلام سے مکارم اخلاق کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا:
: العَفْوُ عَمّنْ ظَلَمَكَ ، وصِلَةُ مَن قَطعَكَ ، و إعْطاءُ مَن حَرمَكَ ، وقَولُ الحقِّ ولَو على نَفْسِكَ .(معاني الأخبار : ۱۹۱ / ۱)
’’جوتم پر ظلم کرے اسے معاف کردو،جوتمہارے ساتھ قطع رحمی کرے تم اس سے صلہ رحمی کرو،جوتمہیں اپنی عطاسے محروم کردے اسے عطاکرو اورحق بات کرو خواہ وہ تمہارے نقصان ہی میں کیوں نہ ہو
اچھے اخلاق کےفوائد:
رسول اللہ ﷺ :إنّ العَبدَ لَيَبلُغُ بحُسنِ خُلقِهِ عَظيمَ دَرَجاتِ الآخِرَةِ وشَرَفِ المَنازِل ، و إنَّهُ لَضَعيفُ العِبادَةِ. (المحجّه البيضاء : ۵ / ۹۳ )
بندہ عبادت میں کمزور ہونے کے باوجود اپنے اچھے اخلاق کے ذریعہ آخرت کے عظیم درجات اور منازل کے شرف کوپالیتاہے۔
رسول اللہ ﷺ :إنّ صاحِبَ الخُلقِ الحَسنِ لَهُ مِثلُ أجْرِ الصّائمِ القائم .(الكافي : ۲ / ۱۰۰ / ۵)
اخلاقِ حسنہ کے مالک کو روزے دار نمازی کااجرملتاہے۔
رسول اللہ ﷺ :إنّ أحَبّكُم إلَيَّ وأقرَبَكُم مِنّي يَومَ القِيامَةِ مَجلِسا أحْسَنُكُم خُلقا ، وأشَدُّكُم تَواضُعا. (بحارالانوار : ۷۱ / ۳۸۵ / ۲۶)
تم میں میراسب سے زیادہ محبوب اور بروز قیامت منزل کے لحاظ سے مجھ سے زیادہ نزدیک وہ شخص ہوگا جس کے اخلاق سب سے اچھے اور تواضع زیادہ ہوگی۔
رسول اللہ ﷺ :أكمَلُ المؤمنينَ إيماناً أحْسَنُهُم خُلقاً. (أمالي الطوسي : ۱۴۰ / ۲۲۷ )
مومنین میں سے ان لوگوں کا ایمان زیادہ کامل ہے جن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں۔
بہترین اخلاق:
الإمامُ الباقرُ ع وقد سُئلَ عن أفضَلِ الأخْلاقِ: الصّبرُ والسّماحَةُ . (بحارالانوار : ۳۶ / ۳۵۸ / ۲۲۸ )
امام محمد باقر ع سے افضل ترین اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ع نے فرمایا:’’صبراور درگزر کرنا‘‘
امام علی ع:أشْرَفُ الخَلائقِ التّواضُعُ والحِلْمُ ولِينُ الجانِبِ . (غرر الحكم :۳۲۲۳ )
شریف ترین اخلاق،تواضع،بردباری اور انکساری ہیں۔
بد اخلاقی کی مذمت:
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا:
إنّ فُلانَةَ تَصومُ النّهارَ وتَقُومُ اللَّیلَ، وَھِیَ سَیِّئَۃُ الْخُلْقِ تُؤْذِیْ جِیْرَانَھَا بِلِسَانِھَا: لا خَيرَ فيها ، هِي مِن أهْلِ النّارِ. (بحارالانوار : ۷۱ / ۳۹۴ / ۶۳)
’’فلاں عورت دن کو روزہ رکھتی ہے اور رات کو نماز پڑھتی ہے، لیکن بداخلاق ہے اور پنے ہمسایوں کو زبان سے ستاتی رہتی ہے‘‘ حضور ؐ نے فرمایا:’’اس میں کوئی اچھائی نہیں ،وہ جہنمی ہے‘‘
رسول اللہ ﷺ :إنّ العَبدَ لَيَبلُغُ من سُوءِ خُلقِهِ أسْفَلَ دَرَكِ جَهنَّم . (المحجّه البيضاء : ۵ / ۳۹)
بندہ بداخلاقی کی بدولت جہنم کے نچلے طبقے تک جاپہنچے گا۔
امام علی ع:مَن ساءَ خُلقُهُ ضاقَ رِزْقُهُ . (غرر الحكم : ۸۰۲۳)
بد اخلاق آدمی کی روزی تنگ ہوجاتی ہے۔
سبق آموز واقعہ:
امام علی علیہ السلام کا حقیقی شیعہ وہ ہے جو آپ کےبتائے ہوئےفرامین پر عمل کرے، اور آپ کے کردار کو اپنی روزمرہ عملی زندگی میں پر ممکن اپنانے کی کوشش کرے۔جس طرح جناب مالک اشتر جو امام علی علیہ السلام کے جلیل والقدر صحابی اور آپ کے لشکر کے سردار تھے۔وہ ہر معاملہ میں امام علیہ السلام کی اطاعت اور پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جیسا کہ روایت ہے کہ ایک دن کوفہ کے بازار سے گزر رہے تھے، ایک بازاری جو جناب مالک اشتر کو جانتا نہیں تھا اس نےآپ کے سر پر کچھ پھینکا اور آپ پر ہنسنے لگا ، جناب مالک اشتر بغیر کچھ کہے ہوئے وہاں سے گزرگئے۔
ایک مرد نے اس بازاری سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کونہیں پہچانتے؟
اس نے کہا: نہیں
اس نے کہا: وہ مالک اشتر ہیں، امیر المؤمنین علیہ السلام کے لشکر کے سردار۔
بازاری نے جب یہ سنا تو ڈرتے ڈرتے مالک اشتر کے پیچھے دوڑا، تا کہ جناب مالک اشتر سے معافی طلب کرے۔ اس نے دیکھا کہ آپ مسجد میں جاکر نماز پڑھ رہے ہیں، بازاری ، آپ کی نماز ختم ہونے کے بعد، آپ کے قریب آیا اور بڑی فروتنی کے ساتھ آپ سے معافی مانگنے لگا۔ تب جناب مالک اشتر نےکہا: ’’ خدا کی قسم میں مسجد میں اسی لئے آیا تا کہ تیرے لئےدعاکروں تا کہ خدا تجھے بخش دے اور تیری اصلاح فرمائے۔
یہ امام علی علیہ السلام کی پیروی اور اطاعت کا ایک نمونہ ہے جو مالک اشتر نے اپنے عمل سے سب کو دکھا کر بتایا کہ علی علیہ السلام کا حقیقی شیعہ اور چاہنے والا کیساہو تا ہے، اور اس کا معاشرے میں کیسا کردار ہونا چاہیے۔ (بحارالانوار، ج 41، ص 48)
تاریخی مناسبت:شہادت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا
روایت کے مطابق 15 رجب المرجب سیدہ زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا کی شہادت کا دن ہے لہذا اس مناسبت سے ہم آپ کا ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
وراثت اور خاندان کی تاثیر انسان کی رفتار و گفتار میں ناقابل تردید ہے۔ آج یہ چیز واضح طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ بعض اچھی اور بری صفات نسل در نسل انسان کے اندر منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ خاندان جن میں پیغمبروں اور آئمہ معصومین(علیہم السلام) کا وجود رہا ہے, عام طور پر وہ پاک اور برائیوں سے دور ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں وراثت کے ساتھ ساتھ تربیت بھی بیان ہوئی ہے یعنی بہت ساری صفات تربیت کے ذریعہ انسان اپنے وجود میں پیدا کرسکتاہے۔ حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) کی زندگی میں یہ دونوں عوامل( وارثت اور تربیت) اعلی ترین منزل پر موجود تھے۔حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) خانۂ وحی میں معصوم ماں باپ سے دنیا میں آئیں اور نبوت کی آغوش اور امامت و ولایت کے گہوارے میں نشو نما پائی۔ اور ایسی ماں کا دودھ پیا جو کائنات میں بے مثل و بے نظیر ہے۔ تو ایسی بیٹی جس نے ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی ہو جس نے ایسی فضا میں پرورش پائی ہو اس کی شرافت و کرامت اور عفت و حیا کا کیا مقام ہو گا؟
شیخ جعفر نقدی کے بقول جناب زینب (سلام اللہ علیہا) نے پنجتن آل عبا کے زیر سایہ تربیت حاصل کی ہے: فَالخمسة اَصْحابُ الْعَباءِ هُمُ الَّذينَ قامُوا بِتربيتِها وَتثْقيفِها وتهذيبِها وَكَفاكَ بِهِمْ مُؤَدِّبينَ وَمُعَلِّمينَ) عوالم العلوم و المعارف ج۱۱،ص۹۴۹( پنجتن آل عبا نے زینب کو تربیت و تہذیب عطا کی اور یہی کافی ہے کہ وہ (آل عبا) ان کی تربیت کرنے والے اورانہیں تعلیم دینے والے ہیں.
حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) ابتدائے جوانی میں کیسی رہی ہیں، تمام تاریخی منابع ان لمحات کی تعریف کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لئے کہ اس دور میں انہوں نے چار دیواری کے اندر زندگی گزاری ہے۔
تاریخ نے آپ کو نہیں دیکھا اس لئے کہ حیا اس بیچ مانع تھی اور حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) یہ نصیحت کر چکی تھیں: خَيْرٌ للنِّساءِ اَنْ لا يَرَيْنَ الرِّجالَ وَلا يَراهُنَّ الرِّجالُ) بحار الانوار ، علامه مجلسى‏، ج۴۳، ص۵۴) عورتوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور مرد انہیں نہ دیکھیں۔
لیکن جب اسلام کی حفاظت کی نوبت آئی تو یہی حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) جو حیاء اور عصمت کے حصار میں رہا کرتی تھی انھوں نے اپنی حیاء کو اللہ کے دین پر قربان کردیا، کیونکہ جناب زینب(سلام اللہ علیہا) نے امام حسین(علیہ السلام) سے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا یہ قول سن رکھا تھا: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ شَاءَ أَنْ‏ يَرَاهُنَ‏ سَبَايَا[بحار الانوارج۴۵، ص۱۱۵] اللہ ان عورتوں کو اسیر دیکھنا چاہتا ہے»۔
جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کو جب اسیر کر کے دار الخلافہ لے جایا گیا، ابن زیاد نے پوچھا: یہ عورت کون ہے؟ کسی نے اس کا جواب نہ دیا۔ تین بار اس نے سوال تکرار کیا۔ یہاں تک کہ ابن زیاد ملعون نے جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا: کيْفَ رَاَيْتِ صُنْعَ اللّه‏ِ بِاَخيكِ وَاَهْلِ بَيْتِكِ؛ تم نے کیسا دیکھا جو اللہ نے تمہارے بھائی اور اہلبیت کے ساتھ کیا؟ جناب زینب نے مکمل آرام و سکون اور کمال تامل کے ساتھ ایک مختصر اور نہایت خوبصورت جواب دیتے ہوئے فرمایا: ما رَأيْتُ اِلاّ جَميلاً؛ میں نے خوبصورتی اور زیبائی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔( اللهوف على قتلى الطفوف ص۱۵)
سیدہ زینب ؑ کی عظیم عبادت:
مؤمن واقعی وہ ہے جو زندگی کی مشکلات میں کبھی بھی پریشان نہیں ہوتا اور خدا کی بارگاہ میں ان کی شکایت اور اعتراض کرنے کے بجای صبر اور استقامت کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتا ہے اور ان حالات میں اپنے اور خدا کے رشتہ کو اور مستحکم کرتا ہے اس صورت میں اس کو سکون اور آرام میسر ہوتا ہے جس کے بارے میں خداوند متعال قرآن مجید میں اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «الَّذينَ آمَنُوا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ[سورۂ رعد، آیت:۲۸] یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کو یاد خدا سے اطمینان حاصل ہوتا ہے اور آگاہ ہوجاؤ کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے». ایمان کی اس بلندی پر بہت کم افراد پہونچتے ہیں جن کا ارتباط خدا سے انتنا مضبوط ہوتا ہے کہ وہ اپنی پریشانیوں میں خدا کے ذکر کے ذریعہ اپنے آپ کو سکون پہنچاتے ہیں، حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) ان باایمان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی تمام تر پریشانیوں کے باوجود خدا سے توسل اور ارتباط کو نہیں چھوڑا بلکہ ان مصیبتوں کے عالم میں بھی اپنی عبادتوں کے ذریعہ خدا سے ارتباط کو اور زیادہ مضبوط کیا مثال کے طور پر:
حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) نے کربلاء کے ان دردناک مصائب میں بھی اپنی عبادتوں کو ترک نہیں کیا اور خدا سے ارتباط کو قائم رکھا یہاں تک کے ان حالات میں بھی اپنی نماز شب کے ذریعہ خدا کو یاد کیا جس کے بارے میں فاطمہ بنت الحسین(علیہما سلام) فرماتی ہیں: «وَ اَمَّا عَمَّتِی زِینَب فَاِنَّهَا لَم تَزَل قَائِمَةٌ فِی تِلکَ اللَّیلَة اَی عَاشِرَة مِنَ المُحَرَّمِ فِی مِحرابِها تَستغیث اِلَی رَبِّهَا؛ میرے پھوپی زینب (سلام الله علیها) شب عاشورا تمام رات اپنی محراب میں کھڑی ہوکر عبادت میں مصروف تھیں اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں استغاثہ کررہی تھیں۔ (عوالم العلوم ج۱۱،ص ۹۵۴)
حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی عبادت کی عظمت کو روشن کرنے کے لئے امام حسین(علیہ السلام) کا اپنی بہن سے یہ کہنا کہ يا اُخْتاه! لا تَنْسِني في نافلةِ اللَّيْل اے بہن زینب مجھے اپنے رات کی نمازوں میں نہ بھولنا کافی ہے کہ ہم امام(علیہ السلام) کے اس جملہ سے جناب زینب کی عظمت اور معرفت کو سمجھیں۔(عوالم العلوم ج۱۱،ص ۹۵۴)
امام سجاد(علیہ السلام) آپ کی عبادت کی عظمت کو بتاتے ہوئے فرمارہے ہیں: «اِنَّ عَمَّتي زَيْنَب کانَتْ تُؤَدّي صَلَواتِها مِنْ قِيام، اَلفَرائِضَ وَ النَّوافِلَ، عِنْدَ مَسيرِنا مِنَ الکُوفَةِ اِلَي الشّامِ، وَ في بَعْضِ المَنازِل تُصَلّي مِنْ جُلُوسٍ… لِشِدَّةِ الجُوعِ وَ الضَّعْفِ مُنْذُ ثَلاثِ لَيالٍ لاَنَّها کانَتْ تَقْسِمُ ما يُصيبُها مِنَ الطَّعامِ عَلَي الاَطْفالِ، لِاَنَّ القَوْمَ کانُوا يَدْفَعُونَ لِکُلِّ واحِدٍ مِنّارغيفاً واحِداً مِنَ الخُبْزِ فِي اليَوْمِ وَ اللَّيلَة ؛ یقنا میرے پھوپی زینب(سلام اللہ علیہا) کوفہ سے شام کے تمام راستوں میں نماز کھڑے ہوکر پڑھتی تھیں اور بعض مقامات پر بھوک اور کمزوری کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھتی تھیں۔۔۔(عوالم العلوم ج۱۱،ص ۹۵۴)
پس حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) کے ان مصائب اور پریشانیوں میں اس طرح کی عبادت سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم بھی اپنے آپ کو حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) کی اتباع کرتے ہوئے خدا سے عبادت کے ذریعہ خدا سے اپنے رشتہ کو مضبوط کریں تاکہ مشکلات اور پریشانیوں میں خدا سے شکایت کرنے کے بجائے اس سے رشتہ کو اور مضبوط کریں۔

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button