خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:213)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک11اگست2023ء بمطابق 23محرم الحرام 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: سیرت و کردار امام زین العابدین علیہ السلام
25 محرم الحرام امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کا دن قریب ہے۔اس مناسبت سے آج ہم امام علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کے مختلف پہلوؤں پر بات کریں گے۔امام زین العابدین علیہ السلام روحانیت و معنویت کا کامل نمونہ ہیں۔ ان کی زیارت گویا حقیقتِ اسلام کی زیارت ہے۔ آپٴ کی نمازیں‘ روح کی پرواز ہوتی تھی اور آپٴ پورے خضوع و خشوع کے ساتھ بارگاہِ پروردگار میں کھڑے ہوتے تھے۔ آپٴ محبت کے پیغام بر تھے۔ جب کبھی کوئی ایسا غریب و بے کس نظر آتا جو دوسروں کی توجہ سے محروم ہوتا تو اس کی دلجوئی کرتے اور اسے اپنے گھر لے جاتے۔
ایک دن آپٴ نے چند لوگوں کو دیکھا جو جذام کے مرض میں مبتلا تھے اور لوگ انہیں دھتکار رہے تھے، آپٴ انہیں اپنے گھر لے گئے اور ان کا خیال رکھا۔ امامٴ کا شریعت کدہ غریبوں، یتیموں اور بے کسوں کے لئے پناہ گاہ تھا۔ (سیری در سیرہ ائمہ اطہار، شہید مطہری)
امام علیہ السلام کے القاب:
آپ کے القاب اچھا ئیوں کی حکایت کرتے ہیں،آپ اچھے صفات ،مکارم اخلاق ،عظیم طاعت اور اللہ کی عبادت جیسے اچھے اوصاف سے متصف تھے، آپ کے بعض القاب یہ ہیں :
1۔زین العابدین
یہ لقب آپ کو آپ کے جد رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیا تھاکثرت عبادت کی وجہ سے آپ کو اس لقب سے نوازا گیا ،آپ اس لقب سے معروف ہوئے اور اتنے مشہور ہوئے کہ یہ آپ کا اسم مبارک ہو گیا ،آپ کے علاوہ یہ لقب کسی اور کا نہیں تھا اور حق بات یہ ہے کہ آپ ہر عابد کے لئے زینت اور ہر اللہ کے مطیع کے لئے مایۂ فخر تھے ۔
روایت ہے کہ قیامت کے دن ایک آواز آئے گی” این زین العابدین” عبادت کرنے والوں کی زینت کہاں ہے؟
اس وقت ہم دیکھیں گے کہ میرے فرزند علی بن الحسین بڑے وقار و اطمینان کے ساتھ لوگوں کے درمیان ظاہر ہوں گے اور اپنے مقام کی جانب بڑھیں گے ۔
2۔سید العا بدین یا سید الساجدین
آپ کے مشہور و معروف القاب میں سے ایک ”سید العا بدین ” ہے ،چونکہ آپ انقیاد اور اطاعت کے مظہر تھے ، آپ کے جدامیر المومنین کے علاوہ کسی نے بھی آپ کے مثل عبادت نہیں کی ہے ۔
3۔ذو الثفنات
آپ کو یہ لقب اس لئے دیا گیا کہ آپ کے اعضاء سجدہ پراونٹ کے گھٹوں (2)کی طرح گھٹے پڑجاتے تھے ۔ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :”میرے پدر بزرگوار کے اعضاء سجدہ پر ابھرے ہوئے نشانات تھے ،جو ایک سال میں دو مرتبہ کا ٹے جاتے تھے اور ہر مرتبہ میں پانچ گھٹّے کاٹے جاتے تھے ، اسی لئے آپ کو ذواالثفنات کے لقب سے یاد کیا گیا ”۔( حارالانوار، جلد 46،صفحہ 6)۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ نے تمام گھٹوں کو ایک تھیلی میں جمع کر رکھا تھا اور آپ نے اُن کو اپنے ساتھ دفن کرنے کی وصیت فرما ئی تھی ۔
لقب سجادؑ :
ساجد کہتے ہیں سجدہ کرنے والے کو اسی سے سجاد مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا مطلب بہت زیادہ سجدہ کرنے والا۔ چنانچہ یہ لقب آپ کو بہت زیادہ سجدے کرنے کی وجہ سے دیا گیا۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کے بہت زیادہ سجدوں کو یوں بیان فرمایاہے :
”بیشک علی بن الحسین جب بھی خودپرخدا کی کسی نعمت کا تذکرہ فرماتے تو سجدہ کرتے تھے،آپ قرآن کریم کی ہرسجدہ والی آیت کی تلاوت کر نے کے بعد سجدہ کرتے ،جب بھی خداوند عالم آپ سے کسی ایسی برائی کو دور کرتا تھا جس سے آپ خوفزدہ ہوتے تھے توسجدہ کرتے ،آپ ہر واجب نماز سے فارغ ہونے کے بعد سجدہ کرتے اور آپ کے تمام اعضاء سجود پر سجدوں کے نشانات مو جود تھے لہٰذا آپ کو اس لقب سے یاد کیا گیا ” (وسائل الشیعہ، جلد 4، صفحہ 977)
حلم
حلم، انبیاء اور مرسلین کے صفات میں سے ہے ،اوریہ انسان کے بزرگ صفات میں سے ہے کیونکہ انسان بذات خود اپنے نفس پر مسلط ہوتا ہے اور وہ غضب اور انتقام کے وقت خاضع نہیں ہوتا ،جاحظ نے حلم کی یوں تعریف کی ہے :انسان کابہت زیادہ غصہ کی حالت میں انتقام لینے کی طاقت وقدرت رکھنے کے با وجود انتقام نہ لینا۔
امام زین العابدین علیہ السلام لوگوں میں سب سے زیادہ حلیم تھے ،اور ان میں سب سے زیادہ غصہ پی جانے والے تھے ،راویوں اور مو رّخین نے آپ کے حلم سے متعلق متعدد واقعات بیان کئے ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :
1۔امام کی ایک کنیز تھی، جب آپ نے وضو کرنے کا ارادہ کیا تو اس سے پانی لانے کے لئے کہا وہ پانی لیکر آئی تو اس کے ہاتھ سے لوٹا امام کے چہرے پر گرگیا جس سے آپ کو چوٹ لگ گئی فوراً کنیز نے آیت پڑھتے ہوئے کہا: خدا فرماتا ہے :’‘والکا ظمین الغیظ ””اور غصہ پی جانے والے ہیں ”امام نے فوراً جواب میں فرمایا:’‘کظمتُ غیظی ””میں نے اپنا غصہ پی لیا ”۔
کنیز کو امام کے حلم سے تشویق ہو گئی تو اس نے آیت کا اگلا حصہ پڑھا:’‘والعافین عن الناس ””اور لوگوں کو معاف کردینے والے ہیں ”۔امام نے نرمی اور مہربانی کرتے ہوئے فرمایا: ”عفا اللّٰهُ عنک”
فوراً کنیز نےآیت کا اگلا حصہ پڑھا : وَاللّٰه یحب المحسنین’‘اور خدا احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ”
توامام نے مزید اس پر احسان و اکرام کرتے ہوئے فرمایا:
‘اذھب فانت حرّة”۔” تم جائو ، اب تم آزاد ہو ”۔ (نہایة الارب ، جلد 21، صفحہ 326)
2۔ آپ کے حلم کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص نے بلا سبب کے آپ پر سب و شتم کرنا شروع کر دیا تو امام نے اس سے بڑی ہی نرمی کے ساتھ فرمایا:”يَا فَتَى إِنَّ بَيْنَ أَيْدِينَا عَقَبَةً كَئُوداً فَإِنْ جُزْتُ مِنْهَا فَلاَ أُبَالِي بِمَا تَقُولُ وَ إِنْ أَتَحَيَّرْ فِيهَا فَأَنَا شَرٌّ مِمَّا تَقُولُ ”
”اے جوان !ہمارے سامنے دشوار گذار گھاٹی ہے اگر میں اس سے گذر گیاتو تمہارے کہے کی پروا نہیں کروں گا اوراگر رہ گیا تو میں تمہاری کہی ہو ئی با ت سے زیادہ بُرا ہوں ”۔
توہین کا جواب
امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا اور آپ پر چلایا اور آپ کو ناسزا باتیں کہیں! لیکن امام علیہ السلام نے اس کو ایک بات کا بھی جواب نہ دیا یہاں تک کہ وہ شخص اپنے گھر واپس ہوگیا۔
اس کے جانے کے بعد امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: تم لوگوں نے سنا کہ یہ شخص کیا کہہ رہا تھا؟ میں چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ چلو تاکہ میں جو اس کو جواب دوں وہ بھی سن لو، انھوں نے کہا: ٹھیک ہے ، ہم آپ کے ساتھ چلتے ہیں ، چنانچہ امام علیہ السلام نے نعلین پہنے اور اس کے گھر کی طرف روانہ ہوئے، اور یہ آیت تلاوت فرمائی : والکاظمین الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران:134)
”…اوروہ لوگ جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ہیں اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔“
(آپ کے ساتھی کہتے ہیں:) ہمیں معلوم ہوگیا کہ امام علیہ السلام اس سے کچھ نھیں کہیں گے، بہر حال اس کے گھر پر پہنچے ، اور بلند آواز میں کہا: اس سے کہو؟ یہ علی بن حسین (علیھما السلام) آئے ھیں، وہ شخص جو فساد کرنے کے لئے تیار تھا اپنے گھر سے باھر نکلا اور اُسے شک نھیں تھا کہ آپ اس کی توھین آمیز گفتگو کی تلافی کرنے کے لئے آئے ھیں، امام سجاد علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے بھائی! کچھ دیر پہلے تم نے میرے سامنے میرے بارے میں کچھ باتیں کہیں، اگر مجھ میں وہ پاتیں پائی جاتی ھیں تو میں خدا کی بارگاہ میں طلب بخشش چاہتا ہوں، اور اگر وہ باتیں مجھ میں نھیں پائی جاتیں تو خدا تجھے معاف کردے، (یہ سننا تھا کہ) اس شخص نے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور کہا: جو چیزیں میں نے کہیں وہ آپ میں نہیں ہیں بلکہ میں خود ان باتوں کا زیادہ سزاوار ہوں۔
(ارشاد، مفید، ج۲، ص۱۴۵)
امام کے صدقات
امام زین العابدین نے اپنی حیات طیبہ میں سب سے زیادہ فقیروں کو صدقے دئے تاکہ وہ آرام سے زندگی بسر کرسکیں اور ان کا ہم و غم دور ہو جائے اور امام دوسروں کو بھی اس کی ترغیب فرماتے تھے کیونکہ اس پر انسان کو اجر جزیل ملتا ہے ، آپ کا فرمان ہے: ”مَامِنْ رَجُلٍ تَصَدَّقَ علیٰ مِسْکِیْنٍ مُسْتَضْعَفٍ فَدَعَا لَهُ الْمِسْکِیْنُ بِشَی ئٍ فِیْ تِلْکَ السَّاعَةِ اِلَّااسْتُجِیْبَ لَهُ”
”جب کو ئی انسان کسی کمزور مسکین کو صدقہ دیتا ہے تو اس وقت عطا کرنے والے کے حق میں اس مسکین کی دعا ضرور قبول ہو تی ہے ”(وسائل الشیعہ ،جلد 6،صفحہ 296)
۔لباس تصدّق کرنا
امام اچھے لباس پہنتے تھے ،آپ سردی کے مو سم میں خزکا لباس پہنتے جب گرمی کا مو سم آجاتا تھا تو اس کو صدقہ دیدیتے تھے یا اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت صدقہ دیدیتے تھے اور گر می کے مو سم میں دومصری لباس پہنتے تھے جب سردی کا مو سم آجا تا تھا تو ان کو صدقہ میں دے دیتے تھے ، اور آپ فرماتے
تھے :”اِنِّیْ لَاَسْتَحْيیْ مِنْ رَبِّیْ اَنْ آکُلَ ثَمَنَ ثَوْبٍ قَدْ عَبَدْتُ اللّٰه فِيه”( ناسخ التواریخ ،جلد1،صفحہ 67)
”مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے کہ میں نے جس لباس میں اللہ کی عبادت کی ہے اس لباس کی قیمت کھاؤں ”۔
۔اپنی پسندیدہ چیزکا صدقہ میں دینا:امام اپنی پسندیدہ چیز صدقہ میں دیتے تھے ،راویوں کا کہنا ہے :اما م صدقہ میں بادام اور شکر دیتے تھے آپ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرما ئی :
لَنْ تَنَالُوْاالْبِرَّحَتّیٰ تُنْفِقُوامِمَّاتُحِبُّوْنَ ”تم نیکی کی منزل تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو”۔
۔آپ کا مخفی طور پر صدقہ دینا
امام زین العا بدین علیہ السلام کے نزدیک سب سے پسندیدہ چیز مخفیانہ طور پر صدقہ دینا تھاتاکہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکے ،آپ اپنے اور آپ سے مستفیض ہونے والے فقرا ء کے درمیان رابطہ ہوں خدا سے محبت اورفقراء کے ساتھ صلۂ رحم کی صورت میں دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ لوگوں کومخفیانہ طور پر صدقہ دینے کی رغبت دلاتے اور فرماتے تھے :’‘اِنَّهاتُطْفِیُٔ غَضَبَ الرَّبِّ””چھپ کر صدقہ دینا خدا کے غضب کو خا موش کر دیتا ہے ”۔آپ رات کے گُھپ اندھیرے میں نکلتے اور فقیروں کواپنے عطیے دیتے حالانکہ اپنے چہرے کو چھپائے ہوئے ہوتے ،فقیروں کو رات کی تاریکی میں آپ کے عطیے وصول کرنے کی عا دت ہو گئی تھی وہ اپنے اپنے دروازوں پر کھڑے ہوکر آپ کے منتظر رہتے ،جب وہ آپ کو دیکھتے تو آپس میں کہتے کہ : صاحب جراب(تھیلی والے) آگئے ۔
-آپ کے ایک چچا زاد بھا ئی تھے جن کو آپ رات تاریکی میں جا کر کچھ دینار دے آیا کر تے تھے ،انھوں نے ایک دن کہا :علی بن الحسین میری مدد نہیں فرماتے اور انھوں نے امام کو کچھ نا سزا کلمات کہے امام نے وہ سب کلمات سنے اور خود ان سے چشم پوشی کرتے رہے اور ان سے اپنا تعارف نہیں کرایا جب امام کا انتقال ہوگیااور ان تک کوئی چیز نہ پہنچی تو ان کو معلوم ہوا کہ جو ان کے ساتھ صلۂ رحم کرتا تھا وہ امام ہی تھے تو وہ امام کی قبر اطہر پر آئے اور ان سے معافی مانگی۔
رسالۃ الحقوق:
رسالۃ الحُقوق امام سجادؑ کی ایک طولانی حدیث ہے۔ جس میں انسان کے ذمہ 50 حقوق کو بیان کیا گیا ہے۔ ان حقوق میں خدا کا حق، انسان کے بدن کے اعضاء کا حق، رشتہ داروں کے حقوق نیز نماز، روزہ اور صدقہ کے حقوق شامل ہیں۔
کتاب خصال میں شیخ صدوق کے مطابق امام سجادؑ نے اس حدیث کو خطوط کی شکل میں اپنے ایک صحابی کے لئے تحریر فرمایا ہے۔ شیخ صدوق کے مطابق اس حدیث کی ابتداء میں یوں آیا ہے: "یہ خط علی بن حسین کی جانب سے اپنے ایک صحابی کے نام ہے”
آج سے ہم کوشش کریں گے کہ آئندہ ہر خطبہ جمعہ میں امام کے اسی رسالۃ الحقوق میں سے ایک دو حقوق بیان کریں تاکہ ہماری گفتگو میں حقوق پر بھی بات ہوتی رہے اور امام کے ان فرامین کو اپنی زندگی میں نافذ کرتے ہوئے ان حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کرسکیں۔
رسالۃ الحقوق کے آغاز میں فرماتے ہیں: اعْلَمْ رَحِمَكَ اللَّہُ أَنَّ لِلَّہِ عَلَيْكَ حُقُوقاً مُحِيطَةً بِكَ فِي كُلِّ حَرَكَةٍ حركتہا [تَحَرَّكْتَہَا أَوْ سَكَنَةٍ سَكَنْتَہَا أَوْ مَنْزِلَةٍ نَزَلْتَہَا أَوْ جَارِحَةٍ قَلَبْتَہَا أَوْ آلَةٍ تَصَرَّفْتَ بِہَا
جان لو کہ تمہارے اوپر بزرگ و برتر خدا کے کچھ حقوق ہیں خواہ انہیں تم حرکت و جنبش میں انجام دو یا سکون و آرام میں، اس منزل میں جس میں تم اترے ہو، یا اس عضو کے ساتھ جس کو تم نے بدال ہے یا ان اقدار کے ساتھ جس کو بروئے کار الئے ہو
بَعْضُہَا أَكْبَرُ مِنْ بَعْضٍ وَ أَكْبَرُ حُقُوقِ اللَّہِ عَلَيْكَ مَا أَوْجَبَہُ لِنَفْسِہِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مِنْ حَقِّہِ الَّذِي ہُوَ أَصْلُ الْحُقُوقِ وَ مِنْہُ تَفَرَّعَ ثُمَّ مَا أَوْجَبَہُ عَلَيْكَ لِنَفْسِكَ مِنْ قَرْنِكَ إِلَى قَدَمِكَ عَلَى اخْتِلَافِ جَوَارِحِكَ
ان حقوق میں سے بعض، بعض حقوق سے بڑے ہیں۔ تمہارے اوپر خدا کے بڑے حقوق وہ ہیں جو اس نے اپنے لیے تمہارے اوپر واجب کئے ہیں۔ اس کے بعد بدن کے اعضا کو مد نظر رکھتے ہوئے سر سے پیر تک کے لیے کچھ حقوق واجب کیے ہیں
فَجَعَلَ لِبَصَرِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِسَمْعِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِلِسَانِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِيَدِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِرِجْلِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِبَطْنِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِفَرْجِكَ عَلَيْكَ حَقّاً فَہَذِہِ الْجَوَارِحُ السَّبْعُ الَّتِي بِہَا تَكُونُ الْأَفْعَالُ
کچھ حقوق تمہارے اوپر تمہاری آنکھ کے ہیں، اور تمہارے اوپر کچھ حقوق تمہارے کان کے ہیں، تمہارے اوپر کچھ حقوق تمہاری زبان کے ہیں، تمہارے اوپر کچھ حقوق تمہارے ہاتھ کے ہیں، تمہارے اوپر کچھ حقوق تمہارے پیر کے ہیں، تمہارے اوپر کچھ حقوق تمہارے شکم کے ہیں تمہارے اوپر کچھ حقوق تمہاری شرمگاہ کے ہیں یہ سات اعضا ہیں کہ جن سے اعمال انجام پذیر ہوتے ہیں۔

1.خدا کا حق:
فَأَمَّا حَقُّ اللَّہِ الْأَكْبَرُ فَأَنَّكَ تَعْبُدُہُ لَا تُشْرِكُ بِہِ شَيْئاً
خدا کا حق جو کہ تمام حقوق سے بڑا ہے وہ یہ ہے کہ تم اسی کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دو۔
فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ بِإِخْلَاصٍ جَعَلَ لَكَ عَلَى نَفْسِہِ أَنْ يَكْفِيَكَ أَمْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ
جب تم خلوص کے ساتھ اس کی عبادت کرو گے تو خدا نے بھی اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ وہ دنیوی اور اخروی چیزوں میں تمہاری کفایت کرے
وَ يَحْفَظَ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْہَا اور تمہارے لیے تمہاری محبوب و پسندیدہ چیزوں کو محفوظ رکھے۔

ترویج اسلام کے لیے آپ کے اقدامات:
امام سجادٴ نے آزادی کے ساتھ تحریک چلانے کے لئے حالات کو نامناسب دیکھتے ہوئے بالواسطہ مقابلہ کیا اور حقیقی اسلام کی ترویج اور استحکام کے لئے حکیمانہ سیاست اختیار کی جس کے بعض نکات درج ذیل ہیں:
١۔ عاشوراء کی یاد کو زندہ رکھنا:
امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شہادت اموی حکومت کے لئے بہت مہنگی ثابت ہوئی تھی۔ رائے عامہ ان کے خلاف ہو گئی تھی اور اموی حکومت کا جواز خطرے میں پڑ گیا تھا۔ چنانچہ اس اندوہناک واقعے کی یاد کو تازہ رکھنے اور اس کے عظیم اثرات کے حصول کے لئے امامٴ شہدائے کربلا پر گریہ کرتے رہے اور ان کی یاد کو زندہ رکھتے ہوئے، گریہ کی صورت میں منفی مقابلہ جاری رکھا۔ اگرچہ یہ بہتے آنسو جذباتی بنیادوں پر استوار تھے لیکن اس کی اجتماعی برکات اور سیاسی آثار بھی بے نظیر تھے۔ یہاں تک کہ عاشوراء کے نام کی جاودانگی کا راز امام زین العابدین علیہ السلام کی اسی گریہ و زاری اور عزاداری کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
٢۔ وعظ و نصیحت:
اگرچہ امام سجاد علیہ السلام اپنے دور کے گھٹن آلود ماحول کی وجہ سے اپنے افکار و نظریات کو کھل کر بیان نہ کرسکے، لیکن ان ہی باتوں کو وعظ و نصیحت کی زبان سے ادا کر دیا کرتے تھے۔ ان مواعظ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام حکمت کے ساتھ، لوگوں کو موعظہ کرتے ہوئے جو چیز چاہتے ان کو سکھا دیا کرتے تھے۔ اور اس دور میں درست اسلامی نظریات کی تعلیم کا بہترین انداز یہی تھا۔
٣۔ درباری علماء کا سامنا اور ان سے مقابلہ:
درباری علماء عوام الناس کے اذہان اور ان کے افکار کو فاسق و فاجر حکمرانوں کی جانب راغب کرتے تھے تاکہ حکومت کو قبول کرنے کے لئے رائے عامہ کو ہموار کیا جائے اور حکمران اس سے اپنے مفادات حاصل کر سکیں۔ بنابریں، امام سجاد علیہ السلام گمراہی اور بربادی کی جڑوں سے مقابلہ کرتے ہوئے بنیادی سطح پر حقیقی اسلامی ثقافت کی ترویج کے لئے کوششیں کرتے تھے اور لوگوں کو ان جڑوں کے بارے میں خبردار کیا کرتے تھے جن سے ان ظالموں کو روحانی غذا ملتی تھی۔
٤۔ انکشافات کے لئے ہر مناسب موقع سے فائدہ اٹھانا:
امام سجاد علیہ السلام کے دور میں تحریک کے لئے حالات مناسب نہ تھے، لیکن حالات کی سختی آپ کو مناسب مواقع پر حقائق کے انکشاف سے بازنہ رکھ سکے۔ بطورِ مثال اپنی اسیری کے دوران جب دربارِ یزید میں آپٴ کو کچھ دیر گفتگو کا موقع ملا، تو منبر پر جاکر فرمایا:
’’اے لوگو! جو مجھے نہیں پہچانتا میں اس سے اپنا تعارف کرواتا ہوں،میں مکہ و منی کا بیٹا ہوں، میں صفا و مروہ کا فرزند ہوں، میں فرزندِ محمد مصطفی ہوں کہ جن کا مقام سب پر واضح اور جس کی پہنچ آسمانوں تک ہے۔ میں علی مرتضی اور فاطمہ زہراٴ کا بیٹا ہوں۔۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس نے تشنہ لب جان دی اور اس کا بدن خاکِ کربلا پر گرا۔
اے لوگو! خدائے متعال نے ہم اہلبیت کی خوب آزمائش کی ۔ کامیابی، عدالت اور تقوی کو ہماری ذات میں قرار دیا۔ ہمیں چھ خصوصیات سے برتری اور دوسرے لوگوں پر سرداری عطا فرمائی۔ حلم و علم، شجاعت اور سخاوت عنایت کی اور مومنین کے قلوب کو ہماری دوستی اور عظمت کا مقام اور ہمارے گھر کو فرشتوں کی رفت و آمد کا مرکز قرار دیا۔ ‘‘
(مناقب آل ابیطالبٴ، ابن شہر آشوب جلد ٤)
امام زین العابدین علیہ السلام اورصحیفہ سجادیہ
کتاب صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کامجموعہ ہے اس میں بے شمارعلوم وفنون کے جوہرموجودہیں یہ پہلی صدی کی تصنیف ہے (معالم العلماء ص ۱ طبع ایران)۔ اسے علماء اسلام نے زبورآل محمداورانجیل اہلبیت کہاہے (ینابیع المودۃ ص 499 ،فہرست کتب خانہ طہران ص 36) ۔ اوراس کی فصاحت وبلاغت معانی کودیکھ کراسے کتب سماویہ اورصحف لوحیہ وعرشیہ کادرجہ دیاگیاہے (ریاض السالکین ص ۱) اس کی چالیس شرحیں ہیں ان میں ریاض السالکین کو فوقیت حاصل ہے۔صحیفہ کاملہ پر گفتگو کرنے کےلیے ایک الگ نشست درکار ہوگی۔

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button