اخلاقیاتدعا و مناجاتسلائیڈرمکتوب

شرح مناجات شعبانیہ” علامہ انور علی نجفی دامت برکاتہ

پہلا درس
بسم الله الرحمن الرحيم
اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاسْمَعْ دُعائِي إذا دَعَوْتُكَ وَاسْمَعْ نِدائِي إِذا نادَيْتُكَ وَاقْبِلْ عَلَيَّ إِذا ناجَيْتُكَ ، فَقَدْ هَرَبْتُ إِلَيْكَ وَوَقَفْتُ بَيْنَ يَدَيْكَ مُسْتَكِيناً لَكَ مُتَضَرِّعاً إِلَيْكَ راجِياً لِما لَدَيْكَ ثَوابي وَتَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَتَخْبُرُ حاجَتِي وَتَعْرِفُ ضَمِيرِي ، وَلايَخْفى عَلَيْكَ أَمْرُ مُنْقَلَبِي وَمَثْوايَ وَما اُرِيدُ أَنْ أُبْدِيَ بِهِ مِنْ مَنْطِقِي وَأَتَفَوَّهُ بِهِ مِنْ طَلِبَتِي وَأَرْجُوهُ لِعاقِبَتِي ، وَقَدْ جَرَتْ مَقادِيرُكَ عَلَيَّ يا سَيِّدِي فِيما يَكُونُ مِنِّي إِلى آخِرِ عُمرِي مِنْ سَرِيرَتِي وَعَلانِيَّتِي وَبِيَدِكَ لا بِيَدِ غَيْرِكَ زِيادَتِي وَنَقْصِي وَنَفْعِي وَضَرِّي.
ترجمہ:خدایا! درود بھیج محمد و آل محمد پر اور جب میں تجھ سے دعا کروں تو میری دعا سن جب میں تجھے پکاروں تو میری پکار کو سن جب میں تجھ سے مناجات کروں تو مجھ پر توجہ فرما کہ تیرے ہاں تیزی سے آیا ہوں میں تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں اپنی بے چارگی تجھ پر ظاہر کر رہا ہوں تیرے سامنے نالہ و فریاد کرتا ہوں اپنے اس ثواب کی امید میں جو تیرے ہاں ہے اور تو جانتا ہے جو کچھ میرے دل میں ہے تو میری حاجت سے آگاہ ہے اور تو میرے باطن سے باخبر ہے دنیا اور آخرت میں میری حالت تجھ پرمخفی نہیں اور جو کچھ میں زبان پر لانا چاہتا ہوں اور جو حاجتیں میں بیان کرنا چاہتا ہوں، اور جس چیز کی میں اپنے انجام و عاقبت کے لئے امید رکھتا ہوں، وہ تجھ پر مخفی نہیں ہے؛ اور یقینا اے میرے سید! مجھ پر تیری تقدیر جاری ہوئی ہے ، ان امور کے بارے میں جو آخرِ عمر تک مجھ سے سرزد ہوگا، میرے رازدارانہ اور اعلانیہ اعمال میں سے؛ اور صرف تیرے ہاتھ میں ہے نہ کہ تیرے بغیر کسی اور کے ہاتھ میں، میری بیشیاں اور کمیاں، اور میرا سود و زیاں۔
تشریح:
جس دعا کی طرف آج میں آپ کو متوجہ کرنا چاہ رہا ہوں وہ مناجات شعبانیہ ہے ۔ یہ مناجات امیر المومنین امام علیؑ سے وارد ہوئی ہے۔ ان مناجات کو ان ایام میں ہمیں پڑھنا چاہیے ۔ہم میں سے ہرایک کو مناجات کی ضرورت ہیں ۔ آج کل ہر ایک کے پاس وسائل موجود ہیں یعنی آپ میں سے اکثر کے پاس لیپ ٹاپ اور موبائل ہیں ، اگر آپ مناجات شعبانیہ تلاش کریں تو آپ کو اس کا ٹیکس میسر آئے گا تاکہ آپ بھی ساتھ ساتھ اس کو دیکھ کر پڑھ سکیں۔
اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ "
مناجات شعبانیہ کی ابتداءمحمد وآل محمد پر درود سےہو رہی ہے ۔
اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاسْمَعْ دُعائِي إذا دَعَوْتُكَ
اے اللہ ! جب میں تجھے پکار تا ہوں تومیری دعا سن لے”
وَاسْمَعْ نِدائِي إِذا نادَيْتُكَ "
اور میں جب تجھے پکارتا ہوں ،ندا دیتا ہوں تو میری ندا کو سن لے ”
وَاقْبِلْ عَلَيَّ إِذا ناجَيْتُكَ "
میر ی طرف نظر کرم فرما جب میں مناجات کر رہا ہوں، میری مناجات اور فریاد کو سن لے، میں مضطر ہوں، پریشان ہوں، میں آج کا انسان کرونا زدہ ہوں( کرونا کے ایام میں یہ دروس ہوئے ہیں)، خوف زدہ ہوں، مضطرب ہوں میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تو اے خدا!اس پریشانی کے عالم میں، میں تجھے پکار رہا ہوں تو ہی میری مناجات کو سن رہا ہے، تو ہی میر ی پریشانیوں میں میری طرف متوجہ ہے پس میری پکار اور دعا پر لبیک کہہ دے۔
” ، فَقَدْ هَرَبْتُ إِلَيْكَ ”
میں تیری طرف بھاگ کر آرہا ہوں
” وَوَقَفْتُ بَيْنَ يَدَيْكَ "
اور تیرے سامنے ،تیرے حضور میں پیش ہوا ہوں ۔
مُسْتَكِيناً لَكَ مُتَضَرِّعاً إِلَيْكَ۔
گریہ و زاری کی حالت میں آہ و فغاں کرتے ہوئے اپنے عجز و ناتوانی کےاقرار کے ساتھ تیری بارگاہ میں حاضرہواہوں۔
” راجِياً لِما لَدَيْكَ ثَوابي ” میرے پالنے والے! مری ساری امیدیں تجھ سے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ تم مجھے نا امید نہیں کر ے گا۔
آج ہم مناجات کےانہی الفاظ کی تشریح کرسکیں گے اس کے بعد کچھ عرصہ مناجات کی تشریح کے ساتھ مہدویت کےبارے میں بھی بیان کریں گے اور بعد ازاں مستقل طور پر مہدویت کی بحث کریں گے ۔
ان ابتدائی کلمات میں پانچ چیزوں کا ذکر ہے سب سے پہلے محمد و آل محمدؐ پر درود بھیجا جا رہا ہے (پس آپ بھی درود بھیجیے)۔دعا سے پہلے درود اس لیےپڑھا گیاہےکیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے اپنی دعا سننےاور اس پر توجہ کرنےکی التجاء کرنی ہے، غیر اللہ سے اللہ کی طرف فرار کرنا ہے۔کیونکہ ابھی تک میں غیر اللہ میں رہ گیا تھا ، اسباب کی دنیا میں گم تھا،پس میں اسباب سے نکل کر مسبب الاسباب کی طرف آنا چاہتا ہوں، جس کی خاطر تضرع و زاری کرتے ہوئے عجز ناتوانی کے اقرار کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں اس کے لطف و کرم کی امید لیےحاضر ہوا ہوں۔ پس اس لئے دعا کا آغاز درود سےہورہا ہے۔جیسا کہ ہم زیارت جامعہ میں بھی پڑھتے ہیں :
” إِنْ ذُکرَ الْخَیرُ کنْتُمْ أَوَّلَهُ "
جب بھی میں خیر کا ذکر کروں تو اول خیر آپ ہی ہیں۔
” وَ أَصْلَهُ وَ فَرْعَهُ وَ مَعْدِنَهُ وَ مَأْوَاهُ وَ مُنْتَهَاهُ "
خیر کی اصل،فرع،اول،معدن اور ماوی ٰبھی محمد و آل محمدؐ ہیں۔ کیونکہ تمام خیر محمد ؐ و آل محمدؐ سے ہم تک پہنچی ہے اب جب ہم خدا سے خیر طلب کر رہے ہیں تو اس سے پہلے صاحبان خیرمحمدؐ و آمحمدؐ پر درود بھیجنا ناگزیر ہو گا شاید اس لئے آیت مجیدہ میں ہے ” و ابتغؤ الیه الوسیلة” اگر اللہ تک پہنچنا چاہتے ہو تو اس کے لئے (آپ کو درود کا) وسیلہ تلاش کرنا ہے ۔ اللہ کے نزدیک کسی کی عظمت ، حیثیت مقام و مرتبت اور محبت ان ذوات مقدسہ سے بڑھ کر نہیں ہے اس لئے ہم پہلے ان ہستیوں کا ذکر کرتے ہیں اس کے بعد بارگاہ الہی میں دعاکرتے ہیں” و جعل صلواتنا علیکم ” عزیزان زرا غور کریں کہ ہم محمد ؐ و آل محمد ؐ پر جو درود پڑھتے ہیں اس میں ہم کیا کہہ رہے ہوتے ہیں”اللھم صل علی محمدؐ و آل محمد” اے اللہ اپنی رحمتوں کو محمدؐ و آ ل محمدؐ پر بھیج۔
آپ یہ تصور کر یں کہ کوئی ایسی ذوات جو آپ سے اوپر ہیں، بالاتر ہیں ان تک اگر کوئی خیر و برکت پہنچتی ہےتو وہ خیر و برکت ان کی ذریعے نیچے والی مخلوقات تک بھی پہنچتی ہے۔جیسےفضا میں رطوبت آتی ہے باران آتی ہے جو کہ آسمانی فضا ہے اور یہ فضا اس رطوبت اور باران کو اپنے تک محدود نہیں رکھتی ہے بلکہ خود بھی مستفید ہوتی ہے وہاں سے آلودگی ختم کر کے سارا پانی نیچے بہادیتی ہے ۔محمدؐ و آل محمدؐ پر ہم جو درود بھیجتے ہیں ان تک پہنچتا ہے جبکہ اس کی تمام تر رحمات اور برکات ہم تک پہنچتی ہیں۔اور ان کو جو رحمت ملی ہے پھروہ رحمت ہم تک پہنچی ہےتو اس کایہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ ان کے پاس باقی کچھ نہیں رہتا بلکہ اس کی مثال علم کی طرح ہے۔جب ایک استاد پڑھاتا ہے تواستاد کا رتبہ جو بالا تر ہے اپنے سے کمتر والے کوئی چیز پڑھانے، سکھانےسے استادکا علم ختم نہیں ہوتا ۔ پس رحمت محمؐد وآل محمدؐ پر نازل ہونے والی رحمت بھی ایسی ہے جسے وہ ہم سب میں بانٹ دیتے ہیں رحمت کی طلب کے لیے محمؐد وآل محمؐد پر درود بھیجتے ہیں۔جیسا کہ ایک روایت میں امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:
"مَن كانَت لَهُ حاجَةٌ إلى اللّه ِ عزّوجلّ فَلْيَبدَأ بِالصَّلاةِ عَلى مُحَمَّدٍ وآلِهِ ، ثُمَّ يَسألْ حاجَتَهُ ، ثُمَّ يَختِمْ بِالصَّلاةِ فإنَّ اللّه َ عزّوجلّ أكرَمُ مِن أن يَقبَلَ الطَّرَفَينِ ويَدَعَ الوَسَطَ إذ كانَتِ الصَّلاةُ عَلى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ لا تُحجَبُ عَنهُ” (مكارم الأخلاق:2/19/2040)
اگر تمہیں خدا سے کوئی حاجت ہو تو پہلے درود بھیجو پھر اپنی حاجت کو طلب کرو،اپنی دعا کے بعددوبارہ درود بھیجو” فإنَّ اللّه َ عزّوجلّ أكرَمُ مِن أن يَقبَلَ الطَّرَفَينِ ويَدَعَ ” اللہ اس سے زیادہ کریم ہے کہ وہ آپ کی دعا کے پہلے اور آخری حصے(یعنی درود) کو قبول کرلے اور درمیان میں جو تونے مانگا ہے اسے رد کردے” إذ كانَتِ الصَّلاةُ عَلى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ لا تُحجَبُ عَنهُ
” اگر دعا و صلواتوں کے درمیان ہو تو اس دعا کے آگے پہنچنے میں کوئی چیز روکاوٹ نہیں بن سکتی” و اسمع دعائی اذا دعوتک واسمع ندائی اذا نادیتک و اقبل علی اذاناجیت” یہاں پر ہم اپنے رب کریم سے یہ چاہتے ہیں کہ اگرہم دعا و پکارکریں تو ہماری اس دعا و پکار کو سن، اگر ہم نجوی کریں تو ہماری طرف توجہ کر۔
خدا ہر آواز اوردعا کو سنتا ہے اور اسے قبول کرتاہے ہرایک کی مناجات پر متوجہ ہے اس کے با وجود خدا سے طلب کر نے کا مطلب اپنی ناتوانی کو بیان کرنا ہے۔مجھےاس کی کس قدر زیادہ ضرورت ہےکہ مجھے معلوم ہے کہ تو سن رہا ہے اس کے باوجود میں کہہ رہا ہوں کہ میں بہت زیادہ مضطر ہوں، پریشان ہوں۔مثلا بچہ جب بھی ماں سے کوئی چیز مانگتا ہے تو اسے مل جاتی لیکن کبھی وہ رو کر مانگتا ہے اس لے کہ وہ بتانا چاہتا ہے کہ جو چیز مانگ رہا ہوں بہت اہم ہے فی الفور ضرورت ہے میں پانی جب عام حالت میں مانگتا ہوں اس وقت اور پیاس ہوتی ہے اب جبکہ رو رو کے پانی مانگ رہا ہوں یا دودھ مانگ رہا ہوں یہ حالت اور ہے یہاں ہم خدا سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ ہمیں سنا جائے در حقیقت یہ نہیں ہے کہ خدا کچھ باتیں سنتا ہے کچھ باتیں نہیں سنتا کچھ دعائیں قبول کر تا ہے کچھ دعائیں قبول نہیں کرتا کچھ منا جات پر خدا توجہ دیتاہے کچھ مناجات پر توجہ نہیں دیتا۔ہرگز ایسا نہیں ہے وہ ہر بات کو سننے والا ہے ہر کلام کو سننے والا ، ہر دعا قبول کرنے والا ہےسب مناجات پر اس کی توجہ ہوتی ہے اور کسی کی مناجات یا کوئی کام کسی مناجات سننےیاکوئی دوسرا کام کرنے میں مانع نہیں بن سکتا پھر کیوں ہم یہ درخواست کر رہے ہیں؟ یہ درخواست اس لئے ہےکہ ہم اس کا اظہار کریں خدایا آج انسان بہت پریشان ہے اور اس پر یشانی میں کچھ لوگ بہت آگے تک نکل گئے ہیں ۔کچھ لوگ اس قدر پریشان ہیں کہ طرح طرح کے سوال اٹھارہے ہیں۔اگر خدا ہے تو اتنا عذاب ،اتنی اموات ، اتنی پریشانیاں بندوں کو کیوں ہیں۔لیکن جہاں خدااورخدا کی رحمتیں ہیں وہاں خدا کا عذاب اور آزمائش بھی ہے تمہارا چیزیں دیکھنے کا انداز اور ہے خدا کے دیکھنے کا اندازمختلف ہے کاش ہم اسے کبھی سمجھ سکیں ۔ہم یہ کہنے کے لئے خدا سے باتیں کر رہے ہیں۔ خدایا تیرے بندوں میں اب یہ طاقت نہیں رہی اب تو ان کی سن لے ان کی توانائی سے یہ باتیں بڑھ گئی ہے یہ مقام مقام شکر تھا لیکن تیرے بندے بہت کمزور ہیں بہت جلدباز، نافرمان ، کفران نعمت کرنے والے ہیں تو نے ابھی بھی انہیں کتنا نواز رکھا تھا کتنی نعمتیں دی ہوئی تھیں اور یہ جو پریشان اور زیادہ تڑپ رہے ہیں یہ وہ ہیں جنہیں کچھ بھی نہیں ہوا ۔انہوں نے صرف خبریں سنی اور کچھ تصویریں دیکھی ہیں انہیں خود کچھ بھی نہیں ہوا یہ صحیح و سالم ہیں اے خدا جس نے اتنے لوگوں کومرض میں مبتلا کیا اور ان کو صحت و سلامتی بھی دی محفوظ رکھا ان تمام چیزاں کے با وجود یہ کفریہ کلام اپنی زبانوں پر لا رہے ہیں کتنا کم عقل ہے یہ انسا ن! خدا کی طرف پلٹنے کی بجائے خدا کی قدرت کا اعتراف کرنے کے بجائے یہ کس طرف جارہا ہے یہ کیا کررہا ہے یہ بہت کم تعداد ہے مگر ان کی آوازیں ہم تک آرہی ہیں اس لئے ہم ان کو بتاتے ہیں اگر پریشان ہو توتمہیں اس پریشانی میں کیا کرنا ہے ” فقدھربت الیک” اس پریشانی میں،میں تیری طرف ہی دوڑ کر آرہا ہوں میں تیر ی طرف ہی بھاگ کر آرہا ہوں کیوں؟ اس لئے کہ یہ پریشانی میری اپنی ایجاد کردہ پریشانی ہے یہ ظلمت یہ تاریکی یہ خوف کہ کب کون سی چیز میرے اندر آجائے اور مجھے اندر سے کھا جائے اور میرے اپنے سیلز میرے دشمن بن جائے ۔وہ سیلز جو میرےوجودکاحصہ ہے وہ سیلز جومیرے اعضاء کے لئے سب کچھ کرتے وہ میرے دشمن بن جائیں یہ انجا ن خوف کیوں ہے ؟ یہ خوف میرے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے ۔ اگر میں ایسا ہوں جس کے اپنے اعمال بد کی وجہ سے یہ ہوا ہے باقی جو نیک بندے ہیں ان پر یہ مصیبت کیوں ہے؟جب اللہ کا عذاب آتا ہے قرآن کی صریح آیت ہے کہ وہ خشک و تر سب کو جلاتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ بروں پر عذاب آئے اور اچھوں پر نہ آئےبلکہ یہ اچھوں کے لئے آزمائش اور بروں کے لئے عذاب ہے یہ لوگ جو دنیا سے جا رہے ہیں اگر آپ تعداد کی بات کریں تو اتنے زیادہ لوگ نہیں مرے اس سے زیادہ لوگ ویسے بھی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ایک جو کمپرینسی تھیوری ہے جسے انسان نے خود بنایا ہے جو جدید دنیا اور جدید جاہلیت کا دور ہے اس نے اس وائرس کو خود بنایا ہے اس لئے کہ بیمہ اور انشورنس کمپنی بہت سے بوڑھے لوگوں کوان کی طبی علاج کے لئے پیسے دے دے کر تھک گئے تھے ان کا کاربار صحیح نہیں چل رہا تھا۔ یہ بھی لوگ کہتےہیں نہیں معلوم لیکن یہ ایک مفروضہ ہے ۔اسے لیب میں بنایا گیا ہےہ یہ با ئیولیوجیکل وار ہے اس کو عام کیا گیا ہے ہمیں نہیں معلوم کہ یہ خدا کی طرف سے غضب ہے اگر ایسا ہے تو بھی خدا کی طرف سے ہے یہ بات سمجھنے والی ہے کہ اگر انسان نے اس کو لیب میں بنایا ہے یہ جو لیب سے نکل کر انسان کو مبتلا کر رہا ہے جس لیب میں بنایا ہے اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان دیا ہوتو یہ بھی اللہ کا غضب ہے ایسا نہیں کہ آپ نے اگر لیب میں بنایا ہے تو آپ نے بنایا ہے ؟بلکہ آپ زراعت کرتے ہیں آپ کاشت کرتے ہیں”ام نحن الزارعون” یہ زراعت کون کرتا ہے تم کہاں دانے کے دل میں سے وہ پودا نکال سکتے ہو پھر جو اچھے ہیں ان کا کیا ہے؟حسنات الابرار سیئات المقربین” یہ جو آپ کے حساب سے ابرار کے لئے حسنات ہیں مقربین کے لئے یہی سیئات ہیں ان سے بھاگ کر یہ خدا کی طرف فرار کر رہے ہیں ” طاعت عامہ گناہ خاصہ گان” یہاں پر مسئلہ کیا ہے ؟ مسئلہ یہ ہے کہ خدا مسبب الاسباب ہے اور جو مسبب الاسباب ہے ان اسباب سے نکل کر ہم نے فرار کرنا ہے ” لقد ھربت الیک” میں اسباب میں گم ہو گیا تھا میں اسباب سے نکل کر تیرے طرف فرار کرنا چاہتا ہوں اگر میں اسباب کو چھوڑ کر مسبب الاسباب کی طرف جا رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں صرف دعا کر رہا ہوں میں نے اسباب کو نہیں دیکھنا نہ میں نے احتیاط کرنی ہے نہ کوئی اور کام کرنا ہے نہ میں نے ریسرچ کرنی ہےاس کا مطلب یہ نہیں ہے ؟کہ”اذا للہ ان یجری الامور الا باسبابھا” خدا تمام امور کو اسباب کے ذریعے ہی چلاتا ہے اس کو کل ہم نے بیان کیا تھا کہ اگر آپ کو کامیابی چاہیے تو یہ صرف اس صورت میں ملے گی کہ آپ محنت کریں۔اگر آپ کو تعلیم چاہیے وہ یہ صرف آپ کو سکول اور کالج جانے پہ ہی ملے گاا گر آپ کو مال چاہیے تو یہ اس صورت میں ملے گاجب آپ ملازمت یاکاروبارکریں گے” اذی اللہ ان یجری الامور الا باسبابھا فقد ھربت الیک” جو مقربین ہیں انہیں ان پر اعتماد نہیں کرنا ہے اعتماد مسبب الاسباب پر کرنا ہے اسباب پر اعتماد نہیں کر نا اسباب کو تلاش کرنا ہے " ایاک و ثقہ بنفسک فانھا من اکبر مثاند الشیطان"خبردار اعتماد با لنفس سے بچو اعتماد با النفس سیلف کونفیڈینس(confidence) جسے آج کل کی دنیا میں سب سے اہم سمجھاجاتا ہے سیلف کونفیڈینس اس کا جو الگ معنی ہے ہم اس کی بات نہیں کر رہے بلکہ خود لفظ سیلف کونفیڈنس خود پر اعتماد کرنا کی بات کررہے ہیں۔نفس پر اعتماد نہ کرو بلکہ اعتماد مسبب الاسباب پر کرو اور خدا پر اعتماد کرتے ہوئے تمام اسبا ب کو بروئے کار لاو اس کو کہتے ہیں”فقد ھربت الیک ووقفت بین یدیک مستکینا لک متضرعا الیک” جن لوگوں نے ابھی جوائن کیا ہے ان کو میں عرض کر دوں کہ ہم مناجات شعبانیہ پڑھ رہے ہیں ( آن لائن درس ہو رہا تھا) اور شعبان میں اس مناجات کو زیادہ سے زیادہ پڑھا جانا چاہیے( خصوصا اس سال یعنی کرونا والے ایام)۔ہمیں یہ بات اب سمجھ میں آجائے گی اس لئے کہ ہمیں پورے وجود سے محسوس ہو ر ہا ہے کہ ہمیں اس چیز کی ضرورت ہے ” ووقفت بین یدیک” اے اللہ میں باقی سب چیزوں سے بھاگ آیا ہوں باقی سب چیزوں میں الجھا ہوا تھا مجھ پتہ ہی نہیں تھا کہاں جا رہا ہوں کیوں جا رہا ہوں اب میں نے ان سب کو ترک کر دیا ہے نہ میں کالج جا رہا ہوں نہ میں آفس جا رہا ہوں نہ میں ریلوے سٹیشن جا رہاہو ں۔۔۔کہیں بھی نہیں جا رہا ہوں بلکہ” ھربت الیک” تیری طرف بھاگ کے آرہا ہوں تیرے طرف بھاگ کے آنے کے لے مسجد جا تا تھا وہ بھی بند ہو گئی ہے توفقط مسجد میں تو نہیں ہےبلکہ انسان کے دل میں ہے تو نے توجہ کرنی ہے ۔خدایا میں نے توجہ کر لی میں تیرے پاس آکر کھڑا ہوگیا تیری توجہ چاہیئے کہ تو میرے سوال کا جواب دے مجھے اس کے لئے کیا کرنا ہے ” مستکینا لک متضرعا الیک” کہ مجھے بے چارگی ااور تضرع کے ساتھ معبود کے سامنے اگر حاضر ہوناہے تواس کا مطلب ہے گریہ و تضرع کے ساتھ کسی معشوق کے دل کو تسخیر کیا جاسکتا ہے وہ انسان جسکے متعلق امیر المومنینؑ فرماتے ہیں” وسلاحہ البکاء” جس کا ہتھیار ہی گریہ ہے ” البکاء من خشیۃ اللہ مفتاح الرحمہ” اللہ کے خوف سے گریہ رحمت کی کنجی ہے ” وعلامۃ القبول ” آپ کی دعا قبول ہوئی ہے یا نہیں ہوئی آپ کی آنکھ اشکبار ہوئی ہے یا نہیں ہوئی مگر”و بان الاجابہ” اجابت کا دروازہ گریہ و زار ی ہے معشوق کیونکہ مقام ناز میں ہوتا ہے عاشق کو ہمیشہ مقام نیاز میں ہونا ہے اس لئے کہ معشوق بے نیاز ہے اسے نیاز پسند ہے میں معشوق کی درگاہ میں کچھ اور لے کر جا ہی نہیں سکتا کہ میں جو کچھ لے جاوں جو بھی کما لے جاوں جو بھی ہدیہ لےجاوں وہ اس کے پاس ہے بلکہ اسی کا دیا ہوا ہے ہرچیز وہاں ہے وہاں کیا نہیں ہے؟وہ بے نیاز ہے اس کے پاس نیازنہیں ہے محتاج نہیں ہے اس بے نیاز کے پاس اپنی نیاز لے کے جاوں گا اپنا درد لے کر جاوں گا اپنی فریاد لے کے جاوں گا” میاں عاشق و معشوق فرق بیسیار است چو یار ناز نمائد شما نیاز کنید” اللہ کی بارگاہ میں ابھی اپنی نیاز کو اپنی آہ کو اپنی فغا ں کو اپنے گریہ کو اپنی خضوع کو لے کے جانا ہے کہ تو بےنیاز ذات ہے تو نے ہمیں سمجھا دیا کہ یہ مملکت یہ سلطنت در حقیقت تیرے ہاتھ میں ہے ہم نے اپنی تدبیر سے اپنے آنے والے پچاس سال بھی پلان کر لیےہیں ہر چیز ہمارے حساب سے تھی ہر چیز ہمارے کنٹرول میں تھی ہر جہاز کا آنا جانا ہمارے کنٹرول میں تھا ہر کشتی کی حرکت ہماری کنٹرول میں تھا ۔ہم نے ماہ و خورشید او رسب کا حساب لگا کر ہر چیز کا حساب کر لیا تھا ہم نے کلینڈر بھی بنا لیا تھا ہم نے پلان کیا تھا ہم نے سب کچھ کیا تھا تو نے ایک چھوٹے سے وائرس کے ذریعے ہمارا سارا نظام روک دیا ہے تو بے نیاز ہے ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہم بے نیاز ہیں ہم نے اپنی تدبیر خود کر لی ہے لیکن ہم اپنی تدبیر خود نہیں کر سکتے ” راجیا لما لدیک” ہم خضوع و خشوع کے ساتھ تیری بارگاہ میں آئے ہیں ” راجیا لما لدیک ثوابی” ہم تجھ سے امید لگا ئے ہوئے آئے ہیں اور یہ امید خدا سے ہے۔
دعائے ابو حمزہ ثمالی میں ہے کہ” و اعلم انک للراجی بموضع الاجابۃ"جان لو کہ جو تجھ سے امید رکھے جو خدا سے امید رکھے جو خدا سے حسن ظن رکھے وہ یقینا جواب پاتا ہے "کیف تخیب آمالی و ھی قد وفدت الیک”ایک حدیث پہ میں آج کی گفتگو تمام کرتا ہوں اور اگر آپ کے سوال ہیں تو وہ لے لیں گے”حدیث یہ ہے کہ "ایک شخص کو جہنم کی طرف لے جایا جاتا ہے اور جہنم کے نمائندوں سے کہا جاتا ہے اسے کھینچ کھینچ کر لے جا ،اور لات مار کر جہنم میں گرادو،ابھی وہ کارندہ اسے دھکیلنے والا ہوگا یہ مڑ کر خدا کی طرف دیکھے گا خدا کا حکم ہو گا ٹھہر جاو میرے بندے نے مڑ کے میر ی طرف دیکھا ہے،کس سے امید؟ اس خدا سے جو اس انسان کو جس کے پاس کوئی نیکی نہیں ہے جس کو سیدھا جہنم میں جا نا ہے جہنم کے دھانے پہ پہنچ کر اپنے فرشتوں کو ندا دے رہا ہے رک جاو میرے عبد نے میر ی طرف دیکھا ہے اور پھر صدا آئی گی اے میرے بندے تو نے میری طرف کیوں دیکھا؟ بندہ کہے گا میں نے یہ نہیں سو چھا تھا میرا تیر ی نسبت حسن ظن یہ تھا کہ میں جتنی بھی معصیت کر لوں جو بھی کر لوں میرا خدا ارحم الراحمین ہے وہ مجھے بخش دے گا وہ مجھے جہنم میں نہیں ڈالے گا۔خدا کی طرف سے ندا آئے گی”اے فرشتو اسے جہنم سے نجات دے دو اگرچہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اگر یہ مجھ پر حسن ظن رکھتا اگر اس کی امید میری ذات سے ہوتی تو یہ جہنم کے دھا نے پر نہ پہنچتا اس نے بھلا جھوٹ کہا ہے کہ اس کی امید مجھے سےہے اس لئے میں اسے بخش دیتا ہوں ان حالا ت میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کیسے خدا کو پکاریں اور وہ ہم تب ہی جان سکتے ہیں جب ہم امیر المومنین ؑ کی مناجات کو پڑھیں۔
نوٹ:( مناجات شعبانیہ کی تشریح و توضیح پر مشتمل یہ دروس علامہ انور علی نجفی نے ان ایام میں آن لائن دئیے تھے جب دنیا کرونا وائرس کی مشکل سے ہر طرف سے دو چار تھی۔ اس وجہ سے درمیان میں بعض اوقات کچھ جملے انہی ایام کی مناسبت سے بیان ہوئے ہیں۔)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button