سلائیڈرسیرتسیرت امام مھدیؑ

امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از:سید احمد علی شاہ رضوی
الحمد للّٰه کما هو اهله والصلوٰة والسلام علیٰ خاتم النبیین ابی القاسم محمد واٰله الطاهرین۔
امابعد!
وہ سعادت مند افراد جنہوں نے اپنی جبین نیاز اللہ کی آخری حجت کے آستانہ کی چوکھٹ پر خم کر دی ہے، جو آپؑ کے دستر خوان احسان کے خوشہ چین ہیں، جو حضرت ولی العصرعلیہ السلام کے مبارک وجود کو تمام تر نعمات الہیہ اور فیوضات لا متناہیہ کا منبع سمجھتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں آپ علیہ السلام کی ذات با برکت کو وسیلہ قرار دیتے ہیں ان پر آپ علیہ السلام کی ذات گرامی کے حوالے سے کچھ فرائض بجا آوری لازم ہو جاتی ہے۔
اگر ہم اپنے آپ کو ان خوش قسمتوں کے دائرہ میں شامل کروانہ چاہتے ہیں، جنہوں نے اطاعت امام عصرعلیہ السلام کا عھداپنی گردن میں ڈالا ہوا ہے تو ہمیں ان ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا لازم ہے جو آپؑ کی اطاعت و احترام کے حوالے سے ہم پر عائد ہوتی ہیں یہ ذمہ داریاں کتاب نجم الثاقب باب نمبر۰۱ سے اخذ کی گئی ہے جو کہ کل تعداد میں آٹھ ہیں ان کا مقصد بھی دینی و دنیاوی کامیابی اور بارگاہ امام علیہ السلام میں قربت و باریابی اور آپؑ کی رضا و دعا حاصل کرنا ہے ساتھ ہی ساتھ دنیاوی مصائب و آفات سے آپؑ کے دامن میں پناہ حاصل کرنا ہے۔ یہ ذمہ داریاں کچھ تو قلبی ہیں اور کچھ جسمانی، کچھ زبانی ہیں اور کچھ مالی پہلو رکھتی ہیں ان میں سے چند ایک آپ کے سامنے بیان کرنے کی سعادت حاصل کی جاتی ہے۔
پہلی ذمہ داری:
سب سے پہلی ذمہ داری  غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں مغموم و محزون رہنا ہے۔ اور ہم کیوں نہ غمگین ہوں جبکہ ہماری آنکھیں اس آفتاب عدالت اور نور ولایت کو دیکھنے سے قاصر ہیں، کان ان کی شیریں آواز سننے کو ترس رہے ہیں، دل ان کی جدائی و دوری سے بے تاب ہے، اور آنجنابؑ کے دیدار کا کوئی وسیلہ ہاتھ نہ آتا ہو ہمارے دل سوز جدائی سے تپاں ہوں جیسے محب اپنے محبوب کی جدائی میں گریاں ہوتا ہے کیونکہ رسول اکرمؐ کا فرمان ہے جسے شیخ صدوق نے اور شیخ طوسی نے اپنی کتاب امالی میں نقل کیا ہے فرمایا کوئی شخص ایمان نہیں لایا جب تک میں اس کی جان سے زیادہ عزیز نہ ہوں، اور میرے گھر والے اس کے گھر والوں سے زیادہ عزیز نہ ہوں میری عترت اس کی عترت (یعنی اولاد) سے زیادہ محبوب نہ ہو اور میری ذات اس کی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے یہی بات امام حاضرعلیہ السلام پر بھی صادق آتی ہے ہر معرفتِ حق رکھنے والا شخص اس سلسلہ معظمہ علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کو دنیا میں قابل محبت و ستائش نہ جانے گا اور کسی کو جانے تو وہ بھی اتنی معظم ہستیوں کی نسب کے حوالے سے۔
اگر کسی شخص نے حقیقتاً اپنے امام علیہ السلام کی محبت کا جام شیریں نوش کیا ہو اور دل سے رشد محبت کو آپ علیہ السلام کے ساتھ استوار کیا ہو تو اس قدر آپ علیہ السلام کی فرقت میں غمگین ہو گا کہ آنکھوں سے نیند، دل سے قرار، اور خورد نوش سے لذت جاتی رہے گی اس غم کا کیا بیان ہو کہ وہ با جلالت و عظمت ہستی جو منبع ہے تمام تر رافت و لطف و احسان کا مگر حجاب الہیٰ میں اس طرح پوشیدہ ہے کہ نہیں جانتے کہ دستِ طلب ان تک کیسے پہنچے؟ یہ آنکھیں ان کے جمال سے کیسے سیراب ہوں؟ نہ ان کے پایہ تخت ولایت کا کوئی پناہ، نہ ان کے مسکن با شرافت کی کوئی خبر ہر کس و ناکس کو یہ آنکھیں دیکھتی ہیں سوائے اس ہستی کے جس کے سوا کسی کو دیکھنا نہیں چاہتیں ہر لغو و نا پسندیدہ بات کو کان سنتے ہیں سوائے اس کی آواز کے جس کے سوا کچھ سننا نہیں چاہتے۔
غمزدہ ہونے کے لیے یہ کیا کم ہے کہ وہ خلعت خلافت و ولایت و سلطنت جو آپ علیہ السلام کے قامت زیبا کے لیے تیار کی گئی تھی آپ علیہ السلام ہی کو اس سے محروم رکھا گیا ہے اور وہ لوگ اس کو پہنتے ہیں جو ظالم و جابر فاسق و گنہگار حدود سے تجاوز کرنے والے اور ہر طرح کی معصیت میں گرفتار ہیں یہ غم بھی کمر توڑ دینے والا ہے کہ راہ مستقیم کی طرف ہدایت نا ممکن و مشکل ہو چکی ہے آپ علیہ السلام کے حد تک پہنچنے والی تاریک راہوں میں چور کمین گاہوں میں چھپے بیٹھے ہیں اور مسلسل شکوک و شبہات کو لوگوں کے دلوں میں پیدا کر رہے ہیں اور لوگ مسلسل دین خدا کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اور علمائے حق بے بسی دیکھ رہے ہیں اور اپنے علم کے اظہار کرنےسے عاجز ہیں۔
امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت پر امام جعفر صادق علیہ السلام بھی محزون و غمگین ہیں:
کتاب ینابیع المودہ میں ص۴۵۴ پر شیخ سلیمان قندوزی حنفی رقمطراز ہے کہ سدیر الصیرفی کا بیان ہے میں مفضل بن عمر ابوبصیر اور ابان بن تغلب حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوئے، دیکھا حضرت علیہ السلام زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں اور بہت رو رہے ہیں اور فرما رہے ہیں میرے سردار! آپ کی غیبت نے میری نیند اُڑادی ہے اور دل کا چین چھین لیا ہے۔
دوسری ذمہ داری:
غیبت امام علیہ السلام میں ہماری دوسری ذمہ داری قلبی ہے یعنی انتظار فرج آل محمدؐ جو ہر لمحہ، ہر پل پر محیط ہے امام علیہ السلام کے ظہور کا انتظار، ان کے خلافت سلطنت پر متمکن ہونے کا انتظار، زمین میں عدل و انصاف قائم ہونے کا انتظار، دین الہیٰ کے کل ادیان پر غالب ہونے کا انتظار، جس کی خبر خود اللہ سبحانہ نے نبی اکرمؐ کو دی اور یہ وعدہ فرمایا کہ ایک روز آئے گا جب اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے گی اور دین میں سے کوئی چیز پردہ میں نہ رہے گی اور حق کے پروانوں سے رنج و الم و بلا دور کر دی جائے گی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ”جو شخص چاہے کہ حجت آخرعلیہ السلام کے اصحاب میں شامل ہو اسے چاہیے کہ ہر لمحہ انتظار کرے اور تقویٰ اور حسنِ اخلاق کے ساتھ عمل کرتا رہے اسی انتظار کی حالت میں اگر مر جائے اور ہماری حجت قائم علیہ السلام اس کے مرنے کے بعد ظہورکریں تو اس شخص کے لیے ویسا ہی اجر ہے جیسا اس شخص کے لئے اجر ہےجو امام علیہ السلام کے آخر کو پا لے “۔
حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا کہ ”میری امت کے لیے بہتر عمل انتظار فرج ہے“۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ”ہمارے امر کا انتظار اس طرح ہے جو راہ خدا میں خون میں غلطان ہو“۔
شیخ صدوق کمال الدین میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ دین آئمہ علیہم السلام، تقویٰ، عفت و پاکدامنی، نیک عمل اور فرج آل محمد کا انتظار کرنا ہے۔
کتاب السنن ترمذی باب نمبر ۶۱۱ میں جناب عبداللہ بن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت رسول خداؐ نے فرمایا: خدا سے اس کے کرم کا سوال کرو، خدا چاہتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور سب سے برتر عبادت ظہور کا انتظار ہے۔
ابو بصیر کا بیان ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے ابو بصیر! جنت کی بشارت ہے ہمارے قائم علیہ السلام کے چاہنے والوں، غیبت میں ان کے ظہور کا انتظار کرنے والوں اور ظہور کے وقت ان کی اطاعت کرنے والوں کے لیے۔(ینابیع المودة ج۳ ص۶۶)
تیسری ذمہ داری:
غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں ہماری تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم یوسف زہراء علیہا السلام امام زمانہ علیہ السلام کے لیے دعا کریں امام علیہ السلام کی سلامتی کی دعا کریں امام علیہ السلام کی سلامتی کی دعا، ہر شر سے نجات کی دعا، تمام شیاطین جن و انس سے حفاظت کی دعا اور سب سے بڑھ کر جنابؑ کی نصرت و اعداءپر غلبہ کی تعجیل فرج کی دعا ہے دعا تو ہمارا اپنے رب کے ساتھ اہم ترین رابطہ ہے خصوصاً اپنے دینی بھائیوں کے لیے دعا کی بہت تاکید کی گئی ہے اس کی ترغیب اور تشویق دلائی گئی ہے جب اپنے دینی برادران کے لیے دعا کی اتنی فضیلت ہے تو پھر زمین پر اس حجت خدا اور سبب ہدایت و وجہ تخلیق کائنات کے لیے دعا کرنا جس فضیلت کا حامل ہو سکتا ہے اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے امام عالی مقام علیہ السلام کے لیے دعا آپؑ کی بزرگی اور جلالت کے موجب ہم پر آپؑ کا ایک حق ہے جس کی ادائیگی ہماری آپؑ سے محبت و عقیدت کا ثبوت ہے۔
جب ہم دعا کرتے ہیں تو اپنے پیاروں اور عزیزوں کے لیے دعا کرتے ہیں اسی طرح چاہیے کہ آنحضرتؑ کے لیے دعا کو مقدم کریں اور پہلے آنجنابؑ کی سلامتی اور فرج کے لیے دعا کریں اور پھر آپؑ کے وسیلے سے اپنی حاجات پیش کریں ایک طرف تو اس سے بندگی اور محبت کا حق ادا ہو گا ،آپؑ کے جو عظیم احسان ہم پر ہیں ان کا شکر ادا ہو گااور امید ہے کہ قبول دعا کے لیے وہ دروازے جو ہم اپنے گناہوں کے سبب بند کر چکے ہیں اپنے مولا علیہ السلام کے لیے دعا کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان دروازوں کو ہم پر کھول دے اور آپؑ کے وجود پر نور کی برکت سے ہماری دعائیں مستجاب ہو جائیں۔
یہ بات نہیں کہ ہمارے آقا و مولا علیہ السلام ہماری دعاؤں کے حاجتمند ہیں بلکہ یہ ہماری عقیدت اور محبت کا تقاضا ہے اور ہماری دعاوں کی قبولیت کا باعث بھی ہے۔
پس چاہیے کہ آپ علیہ السلام کی ذات بابرکت کو اپنے نفس پر مقدم کریں اور پہلے آنجنابؑ اور پھر اپنی ذات اور حاجات کے لئے دعا کریں آپ علیہ السلام کی ذات اور ظہور با برکت کے لیے بہت سی دعائیں وارد ہوئی ہیں وقتاً فوقتاً انہیں بھی پڑھتے رہنا چاہیے جو بہت زیادہ عظیم معنوی و دنیاوی فیوض و برکات کی حامل ہیں۔
چوتھی ذمہ داری:
ہماری چوتھی ذمہ داری یہ ہے کہ امام علیہ السلام کے لیے صدقہ دیں آپ علیہ السلام کی حفاظت و سلامتی کی خاطر روزانہ جو کچھ میسر ہو اس میں صدقہ نکالنا بھی ہماری محبت و عقیدت کا تقاضا ہے صدقہ کئی ایک مقاصد سے نکالا جاتا ہے اپنے عزیزوں کی سلامتی و حفاظت کے لیے اپنی ذات کی سلامتی کے لیے اس کے علاوہ سفر میں یا مرض میں سلامتی کے لیے غرض جو جتنا بھی عزیز ہو تو وہ ہستی جو ہر چیز سے زیادہ محبوب و عزیز ہے زیادہ حقدار ہے کہ اس کی سلامتی و حفاظت کے لیے صدقہ دیں چاہے کم ہو یا زیادہ۔
اس میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ہمارے مولا علیہ السلام و آقا علیہ السلام ہمارے صدقہ (ان کی ذات کے لیے) دینے کے حاجت مند نہیں ہیں مگر یہ خیال ہمیں اس عمل نیک سے باز نہ رکھے ہم خود حاجتمند ہیں کہ آپؑ کی حفظ و سلامتی کو اپنے اور اپنے عزیزوں کی سلامتی پر مقدم کریں تا کہ اللہ سبحانہ آنجنابؑ کو ہر شر جن و انس اور مصائب ارضی و سماوی سے محفوظ رکھے۔
روایات میں آیا ہے حضرت رسولؐ خداؐ اور آئمہ طاہرین علیہم السلام اپنے وجود مقدس کو آفات ارضی و سماوی سے اور جن و انس بلات سے محفوظ رکھنے کے لیے اور دنیا و اخروی نفع کے لیے صبح و شام، آدھی رات اور سفر سے پہلے اور ان کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر صدقہ دیاکرتے تھے اور اس کا خاص اہتمام کرتے تھے چنانچہ کلمہ طیبہ میں ذکر ہوا ہے کہ تمام آئمہ معصومین علیہم السلام حوادث و واقعات وبلایا کے لیے، ایک دوسرے کے لیے صدقہ دیا کرتے تھے چنانچہ اس میں کوئی فرق نہیں کہ آپ حضرات علیہم السلام خود صدقہ دیں یا آپ علیہ السلام کی امت اور پیروکاروں میں سے کوئی بلاؤں اور آفات کو ان کے وجود اقدس سے دور کرنے کے لیے صدقہ دیں بلکہ یہ ہمارے دلوں میں ان کے لیے موجود محبت و عقیدت اور عزت و احترام کا ثبوت ہے اور ان حضرات کے ہم پر احسان و اکرام اور لطف و عنایت کا شکرا نہ ہے بالکل جیسا کہ دعا کے بارے میں ہے۔
پانچویں ذمہ داری:
پانچویں ذمہ داری بہت اہم ہے ہمیں چاہیے کہ زمانہ غیبت کے اندھیروں میں خدائے تعالیٰ کے حضور تضرع اور زاری اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے دعا کریں جو کفار ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور یہ طویل ترین غیبت بعض مومنوں کے دل میں شک و شبہ کا بیج بو رہی ہے اس صورتحال میں خدا سے ہر وقت ایمان پر برقرار رہنے کی اور دین پر ثابت قدم رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے اس مقصد کے لیے بہت سی دعائیں روایات میں آئمہ معصومین علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں شیخ نعمانی نے غیبت میں اور کلینی نے کافی میں مختلف اسناد سے زرارہ سے روایت کی ہے اس نے کہا کہ میں نے ابوعبداللہ علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا غیبت ہمارے منتظر کی طولانی ہوگی یہاں تک کہ لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے شبہات میں پڑ جائیں گے اور اس کے ذریعے سے خدا ہمارے شیعوں کے قلوب کی آزمائش کرے گا۔
زرارہ کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان ہو جاؤں اگر میں اس زمانے کو پالوں تو کیا عمل کروں آپ علیہ السلام نے فرمایا اے زرارہ اگر تو اس زمانے کو پالے تو اس دعا کو پڑھا کرو۔
اللّٰهم عرفنی نفسک……..ضللت عن دینی۔
شیخ صدوق نے کمال الدین میں عبداللہ بن سنان سے روایت کی ہے کہ ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا جلد ہی تم لوگ شبہہ میں پڑ جاؤ گے بغیر کسی رہنما و پیشواکے اور اس شبہہ سے نجات صرف وہی پا سکے گا جو دعائے غریق کو پڑھتا رہے میں نے عرض کیا کہ یہ دعائے غریق کس طرح ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:
یااللّٰه یارحمن یا رحیم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔
چھٹی ذمہ داری:
چھٹی ذمہ داری یہ ہے کہ امام علیہ السلام کی نیابت میں حج کرنا و حج کروانا ہے چنانچہ پرانے زمانے میں شیعیان اہلبیت علیہ السلام کے درمیان رائج تھا خود بھی امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں حج کرتے تھے اور دوسروں سے حج کرواتے تھے۔
ساتویں ذمہ داری:
ساتویں ذمہ داری یہ ہے کہ آنحضرتؑ کا مخصوص نام مبارک ”قائم علیہ السلام “ مہدی علیہ السلام ، حجت علیہ السلام سنیں تو تعظیم کے لیےکھڑے ہو جائیں روایت میں ہے ایک روز امام جعفر صادق علیہ السلام تشریف فرما تھے کہ آپ علیہ السلام کی مجلس میں یہ نام مبارک ذکر کیا گیا پس آپ علیہ السلام اس کے احترام و تعظیم میں کھڑے ہو گئے۔
اسی ذمہ داری کا ایک فرع یہ ہے کہ امام عالی مقام کا نام نہیں لینا چاہیے جیسا کہ کتاب وسیلة النجاة (مطبوعہ لکھنو) کے ص۶۱۴ پر مولوی محمد حسین نے امام رضا علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے امام رضاعلیہ السلام سے دریافت کیا کہ آپ علیہ السلام کے قائم علیہ السلام کا نام کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے جواب فرمایا: ان کی ولادت سے پہلے نام لینے کی اجازت نہیں۔
نام لینے کی ممانعت غیبت کے ابتدائی دنوں سے متعلق ہے اس کی وجہ وہ خطرات تھے جو حضرتؑ کے چاروں طرف منڈلا رہے تھے اس بناءپر ممانعت کا تعلق اگرچہ بظاہر اس زمانے سے نہیں ہے لیکن پھر بھی نام نہ لینا بہتر ہے اور القاب سے یاد کرنا زیادہ بہتر ہے اور حضرت علیہ السلام کا نام وہی ہے جو حضرت رسول خداؐ کا اسم گرامی ہے۔
آٹھویں ذمہ داری:
امام زمانہ علیہ السلام کے شیعہ و پیروکار ہونے کے حوالے سے یہ بھی ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان سے استمداد و استعانت طلب کریں مصائب و آلام و شدائد، بیماریوں اور شک و شبہات کے فتنہ سے حفاظت کے لیے آپؑ کی بارگاہ میں استفات کریں ضروری ہے کہ ہم اعتقاد رکھیں کہ آپ علیہ السلام ہمارے لیے ہر طرح کی خیر و برکت کا وسیلہ ہیں ہماری حاجات برلانے اور مشکل کشائی کے لیے اللہ کی طرف سے مامور ہیں لہذا آپ علیہ السلام سے حاجت و مشکل کشائی طلب کریں روایات بتاتی ہیں کہ قدیم زمانے سے لوگ آپ علیہ السلام کے وجود اقدس سے طلب استمداد کرتے رہے ہیں اور آپؑ کے وجود پر نور سے رہنمائی پاتے رہے ہیں اور آپ علیہ السلام کے فیوض و برکات کا چشمہ آج تک جاری و ساری ہے اس لیے روایات میں آپ علیہ السلام کے وجود کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے جو بادلوں میں چھپا ہوا ہو مگر اس کے باوجود خلق خدا اس سورج سے فائدہ اُٹھاتی ہے اور اس کے فیوض و برکات جاری رہتے ہیں۔
آخر میں دعاگو ہوں کہ خدایا! ہم سب کو ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔
http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=213

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button