خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:227)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 17 نومبر 2023ء بمطابق 02 جمادی الاول 1445ھ)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 17 نومبر 2023ء بمطابق 02 جمادی الاول 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: دنیا و آخرت کی حقیقت اور ہماری ذمہ داریاں
سرنامہ کلام:
اَرَضِیۡتُمۡ بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا مِنَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیۡلٌ
۳۸۔ کیا تم آخرت کی جگہ دنیاوی زندگی کو زیادہ پسند کرتے ہو؟ دنیاوی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
(سورۃ التوبہ 38)
اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ
۲۶۔ اللہ جس کی چاہے روزی بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے اور لوگ دنیاوی زندگی پر خوش ہیں جب کہ دنیاوی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک ( عارضی) سامان ہے۔(الرعد 26)
وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ ؕ وَ لَلدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۳۲﴾
۳۲۔ اور دنیا کی زندگی ایک کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں اور اہل تقویٰ کے لیے دار آخرت ہی بہترین ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟(انعام 32)

ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ اسلام نے دنیا کو آخرت کے لئے ایک گزرگاہ قرار دیا ہے یعنی ایسی جگہ جہاں سے اسے زاد و توشہ لیکر گزر جاتا ہے یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے جس کے بارے میں حدیث میں اس طرح وارد ہوا ہے: الدُّنْیا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ; دنیا آخرت کی کھیتی ہے [ بحار الانوار، ج۶۷، ص۲۲۵]، اس دنیا کو آخرت کے لئے ایک کھیتی قرار دیا گیا ہے، یعنی اسی کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو جہنمی یا جنتی بنا سکتا ہے، جنت میں جانے کا واحد راستہ یہی دنیا ہے، جس کے بارے میں خداوند متعال ارشاد فرمارہا ہے:
فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ
پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا۔ [سو رۂ زلزلۃ، آیت: ۷و۸]
اس آیت کے ذریعہ یہ بات واضح ہے کہ انسان اسی دنیا میں اپنے نیک اور بد اعمال کی وجہ سے جنت یا جہنم کو حاصل کرنے والا ہے اب انسان کو اختیار ہے اس کہ جہاں جانا ہےان اعمال کو انجام دے۔
دین کا دنیا اور آخرت سے تعلق
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا ارشاد گرامی ہے: "الدّینُ یَعْصِم”، "دین (انسان کی) حفاظت کرتا ہے۔ [غررالحکم]
انسان ابدی زندگی اور دائمی سعادت کا طالب ہے، اسی لیے مختلف طریقوں سے کوشش کرتا ہے کہ دنیا میں اپنی زندگی کو جاری رکھے اور ہر قسم کے ان خطرات اور نقصانات سے اپنے آپ کو بچائے جو اس کی زندگی کو خاتمہ دے سکتے ہیں۔ مگر ابدی زندگی دنیا میں ممکن نہیں ہے اور صرف آخرت میں ابدیت پائی جاتی ہے۔ لہذا اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے آخرت میں منتقل ہونا ضروری ہے۔
ادھر سے دنیا اور آخرت کے درمیان حقیقی اور تکوینی تعلق ہے، مگر انسان عاجز اور ناتوان ہونے کی وجہ سے دنیا اور آخرت کی زندگی سے متعلق دنیاوی قوانین کو خود نہیں سمجھ سکتا تو ان قوانین پر عمل کیسے کرے تا کہ ہمیشہ کی سعادت اور ابدی زندگی تک پہنچ سکے؟
اسی لیے ضروری ہے کہ کوئی ان قوانین کی انسان کو تعلیم دے۔ انسان کے خالق کے علاوہ تعلیم دینے والا کوئی نہیں ہوسکتا، کیونکہ جس نے اسے خلق کیا ہے وہی جانتا ہے کہ اس دنیا میں رہائش پذیر ہونے اور زندگی کرنے کے قوانین کیا ہیں، کون سے کام اس کے لئے فائدہ مند ہیں اور کون سے کام اس کے لئے نقصان دہ ہیں۔ انسان کا خالق "اللہ تعالیٰ” ہے اور جن قوانین کی اللہ تعالیٰ اسے تعلیم دیتا ہے اسے "دین اسلام” کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کرنے اور اسے دنیاوی پستی سے بچانے کے لئے، معصوم ہستیوں کے ذریعے اس دین کی انسان کو تعلیم دی ہے۔ وہ معصوم ہستیاں انبیاء اور اہل بیت (علیہم السلام) ہیں۔ لہذا دین انسان کی دنیا اور آخرت میں حفاظت کرتا ہے۔
امام علی نقی(علیہ السلام) کی نگاہ میں دنیا اور آخرت
امام علیہ السلام جو دنیا اور آخرت کی کامل طور پر آگاہی رکھتے ہیں، ہمیں اس کے بارے میں بتا رہیں ہیں کہ:
الدُّنْیَا سُوقٌ رَبِحَ فِیهَا قَوْمٌ وَ خَسِرَ آخَرُونَ
دنیاایک بازار کی طرح ہے بعض لوگ اس سے فائدہ (نفع)اٹھاتے ہیں اور بعض لوگ نقصان.( تحف العقول، ص۸۸۰)
اس حدیث کی روشنی میں ہم سب کہ لئے یہ روشن ہو گیا بعض لوگ اپنی عمر اور خداوند عالم کی دی ہوئی نعمتوں کوصحیح طریقہ سے استفادہ کرتے ہیں اور اسکا فائدہ اٹھا تے ہیں اور سعادت دنیوی اور اخری کو حاصل کرتے ہیں، اور بعض لوگ اس عظیم سرمایہ سے استفادہ نہیں کرتے اور یہی لوگ آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں، اور عقل مند لوگ وہ ہیں جو اس دنیا کو آخرت کے لئے ایک پل سمجھے ہیں۔
امام علیہ السلام دوسری حدیث میں دنیا اور آخرت کی حقیقت کو اور واضح اور روشن کرتے ہوئے فرمارہے ہی کہ:
النَّاسُ فِی الدُّنْیَا بِالْأَمْوَالِ وَ فِی الْآخِرَةِ بِالْأَعْمَالِ
لوگ دنیامیں اپنے اموال اور آخرت میں اپنے اعمال کے ساتھ پیش کئے جائینگے۔( حار الانوار، ‌ ج‏۷۵، ص۳۶۸)
یعنی دنیا میں لوگوں کی پہچان ان کی مالی حیثیت ہے لیکن آخرت میں دولت اس کی پہچان نہیں ہوگی بلکہ اعمال اس کی پہچان بنیں گے اور اعمال کی بنیاد پر اس کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔

دنیا کی زندگی ایک امتحان :
حقیقت میں دنیا امتحان کا وسیلہ ہے اب چاہے انسان کے لئے اس دنیا میں مال و دولت فراہم ہو یا وہ اس سے محرورم رہے دونوں میں خدا کی طرف سے اس کے لئے آزمائش ہے نہ دنیا سے بہرہ مند ہونا کرامت وسربلندی کی علامت ہے نہ ہی فقرو تنگدستی ذلت وخواری کی نشانی ہے، چونکہ دنیا خدا کے نزدیک ناچیز ہے اسی لئے کافر کو اس سے محروم نہیں کرتا، اس کے برعکس جنت اور اس کی نعمتیں خدا کے نزدیک قدر و قیمت رکھتی ہیں اسی لئے ان سے کافر کو محروم کرتا ہے:
وَنَادیٰ اٴَصْحَابُ النَّارِ اَصْحَابَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْمِمَّا رَزَقَکُمُ اللهُ قَالُوا اِنَّ اللهَ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ
اور جہنم والے جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ذرا ٹھنڈا پانی یا خدا نے جو رزق تمہیں دیا ہے اس میں سے ہمیں بھی پہنچاؤ تو وہ لوگ جواب دیں گے کہ ان چیزوں کو اللہ نے کافروں پر حرام کر دیا ہے»، جنت اور اس کی نعتوں کی اتنی قدرو منزلت ہے کہ کافر ان کی لیاقت نہیں رکھتے اس کے برعکس دنیا کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ہے، اسی لئے کافر بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں۔[سورۂ اعراف، آیت: ۵۰]
جس کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)، جناب ابوذر سے اس طرح فرمارہے ہیں:
 یَا اَبَاذَّرٍ؛ وَالَّذٖی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوْ اَنَّ الدُّنْیٰا کٰانَتْ تَعْدِلُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ اَوْ ذُبَابٍ مَا سَقَی الْکَافِرَ مِنْھَا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ
اے ابوذر! اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اگر خدا کے نزدیک دنیا کی قدر و قیمت ایک مچھر یا مکھی کے پر کے برابر ہوتی تو کافر کو ایک بار بھی پانی نہ پلاتا.[بحارالانوار، ج ۵۰، ص۱۵۵ و ۱۵۶.]
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ جو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ مسلمان اور کافر یکساں طور پر دنیا کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں وہ اس امر کی علامت ہے کہ دنیا کی ذاتی طور پر کوئی قدرو قیمت نہیں ہے بلکہ یہ ایک آزمائش کا وسیلہ ہے.اس لیے دنیا کی نعمتوں سے کافر بھی فائدہ اٹھاتا ہے اور مومن بھی بلکہ کافر ان سے زیادہ فائدے اٹھا رہاہے جبکہ آخرت کی نعمتوں کی ٰخدا کے نزدیک بہت اہمیت اور قدرو قیمت ہے اسلیے آخرت کی نعمتیں فقط ایمان والوں کو عمل صالح کی بنیاد پہ ملیں گی جبکہ کافر کا ان نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
 لوگوں سے نیکی کرنے کا آخرت سے تعلق
انسان جب نیکی کرتا ہے تو اسے اپنی آخرت یاد ہونی چاہیے تا کہ وہاں کے لئے زاد راہ فراہم کرے، اور اگر نیکی کررہا ہو، لیکن اسے اللہ اور آخرت یاد نہ ہو تو ہوسکتا ہے کہ اس کا یہ اچھا کام دنیاوی اور مادی مقاصد کے لئے ہو۔ وہ کام بظاہر لوگوں کو نیک دکھائی دیتا ہو، لیکن حقیقت میں نیکی شمار نہ ہو، کیونکہ اس نے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اور رضائے الٰہی کے لئے اس کام کو انجام نہیں دیا، بلکہ اپنی اغراض کی بنیاد پر کیا ہے۔ جب انسان آخرت کو یاد رکھتے ہوئے لوگوں سے نیکی کرے گا تو وہ آخرت کا زاد راہ فراہم کررہا ہے۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں:
"طُوبَی لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَی الْعِبَادِ وَ تَزَوَّدَ لِلْمَعَادِ”، "خوشا بحال وہ شخص جو بندوں سے نیکی کرے اور آخرت کے لئے زاد راہ فراہم کرے”۔ [غررالحکم ، ص۴۳۰، ح۱۹]
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں:
"إنَّ لِلّهِ عِبادا فِي الأرضِ يَسعَونَ في حَوائجِ النّاسِ هُمُ الآمِنونَ يَومَ القِيامَةِ”،
"یقیناً زمین میں اللہ کے ایسے بندے ہیں جو لوگوں کی ضرورتوں (کو پورا کرنے) کے لئے کوشش کرتے ہیں، وہی قیامت کے دن امن میں ہوں گے”۔ [الکافی، ج۲، ص۱۹۷]
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"مَنْ أَطْعَمَ مُؤْمِناً مِنْ جُوعٍ أَطْعَمَهُ اَللَّهُ مِنْ ثِمَارِ اَلْجَنَّةِ وَ مَنْ سَقَى مُؤْمِناً مِنْ ظَمَإٍ سَقَاهُ اَللَّهُ مِنَ اَلرَّحِيقِ اَلْمَخْتُومِ”، "جو شخص کسی بھوکے مومن کو کھانا کھلائے تو اللہ اسے جنت کے پھلوں میں سے کھلائے گا، اور جو شخص کسی پیاسے مومن کو (پانی) پلائے تو اللہ اسے رحیق مختوم (خالص جنتی مشروب )میں سے پلائے گا”۔ [الکافی، ج۲، ص۲۰۱]

دنیا اور آخرت میں فرق؛ دنیا و آخرت کی زندگی میں بہت سے اعتبارات سے فرق ہے ان میں سے چند بیان کرتے ہیں:
رہائش گاہ کے لحاظ سے فرق:
دنیا میں باقی رہنا ممکن نہیں ہے؛
امام علی فرماتے ہیں: أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الدُّنْيَا دَارُ مَجَازٍ اے لوگو !یہ دنیا گزرگاہ ہے؛ (نہج البلاغہ، خطبہ 201)
لیکن آخرت ہمیشہ رہنے اور باقی رہنے کی جگہ ہے؛
قرآن میں ارشاد ہے :وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ اور ہمیشہ رہنے کا گھر صرف آخرت کا گھر ہے؛ (غافر/39)

نعمتوں کے لحاظ سے فرق:
دنیاوی نعمتیں ختم ہوجانے والی ہیں؛ مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ؛  جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ سب خرچ ہوجائے گا
(لیکن آخرت کی نعمتیں ہمیشہ رہیں گی) (نحل/ 96)
 أُولَٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ؛ الَّذينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فيها خالِدُونَ
جو فردوس کے وارث بنیں گے اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔(مومنون/ 10 اور 11)
خواہشوں کے اعتبار سے فرق:
دنیا میں جو کچھ چاہیں پانہیں سکتے؛
لَيْسَ بِأَمانِيِّکُمْ وَ لا أَمانِيِّ أَهْلِ الْکِتابِ
کوئی کام نہ تمہاری امیدوں سے بنے گا نہ اہلِ کتاب کی امیدوں سے (نساء / 123)
لیکن آخرت میں جو جنت میں جائیں گے وہ جو چاہیں گے اسے پاسکیں گے؛
لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ فِيهَا وَ لَدَيْنَا مَزِيدٌ
وہاں ان کے لئے جو کچھ بھی چاہیں گے سب حاضر رہے گا اور ہمارے پاس مزید بھی ہے؛ (ق/ 35)

غلطی کا دفاع کرنے کے اعتبار سے فرق:
دنیا میں اپنا خود دفاع کیا جاسکتا ہے؛اور لوگ کرتے بھی ہیں۔ خود پر لگے جھوٹے الزام کا دفاع تو درست ہے لیکن دنیا میں لوگ غلط کام کرکے بھی خود کو بےگناہ اور سچا ثابت کرا لیتے ہیں
لیکن
آخرت میں ایسا نہیں ہوگا
هَٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُونَ
آج کے دن یہ لوگ بات بھی نہ کرسکیں گے۔ (مرسلات / 35)

بوجھ اٹھانے کے اعتبار سے فرق:
دنیا میں تو اپنا بوجھ دوسروں پر ڈالا جاسکتا ہے؛ نوکر اور خادم خرید کر اپنا بوجھ بھی ہلکا کیا جا سکتا ہے
لیکن آخرت میں کوئی شخص اپنا بوجھ دوسرے شخص پر نہیں ڈال سکے گا؛
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اُخْرَی
اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے۔ (اسراء/ 15)

پناہ مانگنے کے لحاظ سے فرق:
دنیاوی مشکلات میں دوسروں کی پناہ مانگ سکتے ہیں؛ لیکن افسوس قیامت کے دن ایسا ممکن نہیں ہوگا؛
لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ إِنَّكُم مِّنَّا لَا تُنصَرُونَ
اب آج واویلا نہ کرو آج ہماری طرف سے کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔ (مومنون/65)

رسالۃ الحقوق:سلسلہ رسالۃ الحقوق کے تحت آج نماز کا حق بیان کرتے ہیں:
نماز کا حق: امام زین العابدین ؑ نماز کا حق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فَأَمَّا حَقُّ الصَّلَاةِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّہَا وِفَادَةٌ إِلَى اللَّہِ
نماز کا حق یہ ہے کہ یہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نماز تمہیں خدا کے حضور میں پہنچاتی ہے
وَ أَنَّكَ قَائِمٌ بِہَا بَيْنَ يَدَيِ اللَّہِ اور نماز میں تم خدا کے سامنے کھڑے ہوتے ہو
فَإِذَا عَلِمْتَ ذَلِكَ كُنْتَ خَلِيقاً أَنْ تَقُومَ فِيہَا مَقَامَ الذَّلِيلِ الرَّاغِبِ الرَّاہِبِ الْخَائِفِ الرَّاجِي الْمِسْكِينِ الْمُتَضَرِّعِ الْمُعَظِّمِ
جب تم اس بات کی طرف متوجہ ہو جاو کہ تم خدا کے سامنے ہو تو تمہیں اس طرح کھڑا ہونا چاہیے جس طرح حقیر، عاجز، مشتاق، حیران و خوف زدہ، امیدوار، محتاج، گریہ و زاری کرنے والا کھڑا ہوتا ہے
مَنْ قَامَ بَيْنَ يَدَيْہِ بِالسُّكُونِ وَ الْإِطْرَاقِ وَ خُشُوعِ الْأَطْرَافِ وَ لِينِ الْجَنَاحِ
اور جس کے سامنے تم کھڑے ہو اس کی عظمت کو سمجھتے ہوئے ساکن، سرجھکائے اعضا کے خشوع و فروتنی کے ساتھ اس کی عظمت کا لحاظ رکھو
وَ حُسْنِ الْمُنَاجَاةِ لَہُ فِي نَفْسِہِ وَ الطَّلَبِ إِلَيْہِ فِي فَكَاكِ رَقَبَتِكَ الَّتِي أَحَاطَتْ بِہَا خَطِيئَتُكَ وَ اسْتَہْلَكَتْہَا ذُنُوبُكَ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ
اور اپنے دل میں اس سے بہترین طریقہ مناجات و دعا کے ذریعہ اپنی گردن کو ان خطاؤں سے آزاد کرنے کی التماس کرو جو اس کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ان گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کرو اور کوئی طاقت و قوت نہیں سوائے خدا کے۔

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button