خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:156)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک یکم جولائی 2022ء بمطابق یکم ذی الحج1443 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
دین خداوندی میں عبادات کی حقیقت یہ ہے کہ اْن کے ذریعے سے بندہ اپنے پروردگار کے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتا ہے۔ خدا کی بندگی و اطاعت کرکے یہ بتاتا ہے کہ وہ میرا رب اور میرا مالک ہے اور میں اس کا بندہ اور اسی کا اطاعت گزار ہوں۔ ہر عبادت کا اصل اور بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص اپنی عبادت میں خوشنودی خدا کو مدنظر نہیں رکھتا تو وہ اللہ کی بندگی کے دائرے سے نکل جاتا ہے۔ عبادت کی مختلف شکلیں ہیں۔ انہی میں سے ایک اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرنا ہے۔ قربانی کی یہ عبادت بندے اور اْس کے رب کے درمیان تعلق کا وہ مظہر ہے جسے سرعنوان بناکر وہ اپنے مالک کی خدمت میں اپنا یہ پیام بندگی بھیجتا ہے۔یہ حضرت ابرہیم خلیل اللہ کی جانب سے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتی ہے، قربانی ہمیں اخوت و بھائی چارے کا درس دیتی ہے ہمارے درمیان کی بنائی ہوئی امیری غریبی کی لکیر کو ختم کرتی ہے ہمیں اس دنیا کی حیثیت بتلاتی ہے۔ ہمیں ان دس دنوں کے قیمتی لمحات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی قربانی کو بھی مزید قیمتی بنانا چاہیے اور اللہ کے ہاں یہ قیمتی تب ہوتی ہے جب ہم اس کے فلسفہ کو سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اس خوشی میں شامل کریں اور ریاکاری کے زہریلے ڈنگ سے بچتے ہوئے خالص اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے مال کو خرچ کریں۔
قربانی حضرت ابراہیم کی سنت اور حج کے باب میں ایک واجب عمل ہے جسے حضرت پیغمبر اکرم ﷺ کی امت کے لیے باقی رکھاگیا ہے۔ قرآن کریم میں نبی کریم ﷺکوبھی اللہ تعالی کی طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیتے ہوئےسورۃ الکوثر میں ارشاد ربانی ہے
:فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ: لہٰذا آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔ قربانی کرنا حج پر جانے والے ہر مسلمان پر واجب ہے جس کے اپنے مخصوص احکام اور شرائط ہیں۔ حاجیوں کے علاوہ باقی مسلمان بھی اپنے اپنے ملکوں میں 10 ذی الحجہ کو عید قربان کے دن اس سنت پر عمل کرتے ہیں جو ایک مستحب عمل ہے جس پر احادیث میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
لغوی اعتبار سے "قربانی” لفظ "قربان” سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہر اس چیز کے ہیں جس کے ذریعے خداوند متعال کی قربت حاصل کی جاتی ہے چاہے یہ کسی جانور کو ذبح کرنے کے ذریعے ہو یا صدقات اور خیرات دینے کے ذریعے۔
اصطلاح میں عید قربان کے دن جانور ذبح کرنے کو قربانی کہا جاتا ہے چاہے یہ عمل حجاج کرام میدان منیٰ میں انجام دیں یا دوسرے مسلمان دنیا کے کسی بھی کونے پر انجام دیں۔
قربانی حج کے اعمال میں سے ایک واجب عمل ہے اور غیر حاجیوں کے لیے سنت عمل ہے کہ جس کی حقیقت اور اس کا فلسفہ بطور کامل مشخص نہیں ہے لیکن احادیث اور روایات میں اس بارے میں جو چیز آئی ہے اس کے مطابق اس کے فلسفے کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے:
1. قربانی نفسانی خواہشات سے مبارزہ کرنے کی علامت ہے:
حجاج کا عید قربان کے دن قربانی کرنا، حقیقت میں اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی اور نفس امارہ کو ذبح کرنے کی علامت ہے- جس طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام کے لیے خداوند متعال کی طرف سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم اس لئے تھا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اس عمل کی روشنی میں اپنے نفسانی تعلقات کے انتہائی اہم ترین عامل ، یعنی بیٹے کی محبت کے ساتھ مبارزہ کر کے خدا کی اطاعت کریں اورنفسانی خواہشات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں- اس بنا پر جس طرح اس حکم کی اطاعت نے، حضرت ابراھیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کے نفس امارہ کے زندان سے رہا ئی پانے میں ایک اہم تربیتی رول ادا کیا اور ان کے مقام و منزلت کو خدا کے پاس عظمت و بلندی بخشی، اسی بنا پر حجاج کے لئے قربانی بھی حقیقت میں ، دنیوی تعلقات اور مادی وابستگی سے آزاد کرانے میں ایک قسم کا جہاد نفس ہے-
2. نیازمندوں کی مدد
قرآن مجید کی آیات سے بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ قربانی کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے گوشت سے صحیح استفادہ کیا جائے، قربانی کرنے والا بھی اس سےفائدہ اٹھانے اور فقیروں و محتاجوں تک بھی پہنچا یا جائے-
اس قابل قدر مقصد کی بنا پر، مسلمانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ قربانی کے گوشت کو منی میں زمین پر چھوڑ دیں اور یہ گوشت سڑ جائے یا اسے زمین میں دفن کیا جائے، بلکہ منی کی مقدس سر زمین پر قربانی کے گوشت کو پہلے درجہ میں اسی سر زمین کے حاجتمندوں تک پہنچانا چاہئیے اور اگر اس دن اس سر زمین پرکوئی حاجتمند اور فقیر نہ ملے تو اسے دوسرے علاقوں میں بھیج کر محتاجوں اور فقیروں تک پہنچانا چاہئیے، حتی کہ اس فلسفہ کی بنا پر اگر یہ گوشت بر وقت حاجتمندوں تک نہ پہنچنے کی وجہ سے سڑ بھی جائے، تو کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ پس قربانی کی ہی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کو کوشش کرنی چاہئیے کہ جدید علمی طریقوں کو بروئے کار لا کراور اس عظیم سرمایہ کو ضائع ھونے سے بچا کر جلد از جلد حاجتمندوں تک پہنچا دیں، بہ الفاظ دیگر یہ نہیں کہنا چاہئیےکہ، چونکہ قربانی کا گوشت حاجتمندوں تک نہیں پہنچ سکتا ہے، اس لئے قربانی نہیں کرنی چاہئیے، بلکہ کہنا یہ چاہئیے کہ قربانی کرنا واجب ہے اور اس کی حکمتوں میں سے صرف ایک حکمت اس کا گوشت حاجتمندوں تک پہنچا نا ہے اس لئے اس کے لئے ضروری وسائل فراہم کرنے چاہئیں –
اسی طرح حج کے علاوہ جو لوگ پوری دنیا میں قربانی کرتے ہیں انہیں بھی یہ قربانی فقط اللہ کی خاطر خلوص سے انجام دینی چاہیے اور اپنے ارد گرد غریبوں کا خاص خیال کرنا چاہیے۔
پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: "خداوند عالم نے قربانی کو واجب قرار دیا تاکہ مساکین اس کے گوشت سے استفادہ کیا جا سکے(بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸)
اسی بنا پر تاکید کی گئی ہے کہ قربانی کا حیوان موٹا اور تازہ ہو اور اس کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کیلئے دوسرا حصہ فقراء اور نیاز مندوں کیلئے اور تیسرا حصہ صدقہ دیا جائے۔قرآن کریم میں بھی اس حوالے سے ارشاد ہے
وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ ٭ۖ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ:
اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے، پس اسے کھڑا کر کے اس پر اللہ کا نام لو پھر جب یہ پہلو پر گر پڑے تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے فقیر کو کھلاؤ، یوں ہم نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔(الحج 36)
اس آیت سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
۱۔ وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ: قربانی کے اونٹ شعائر اللّٰہ میں سے ہیں کیونکہ اللہ نے انہیں شعائر میں سے قرار دیا ہے۔ جَعَلۡنٰہَا: لہٰذا کسی چیز کے شعائر اللہ میں سے ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعین ضروری ہے۔
۲۔ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ: اسی شعائر اللّٰہ میں قرار دیا ہے کہ تم اس چیز کو راہ خدا میں قربان کرو جس میں تمہارے لیے بھلائی اور خیر ہے جس کی وجہ سے اونٹ کی قربانی میں زیادہ ایثار کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اسی ایثار کی بنیاد پر شاید اسے شعائر اللّٰہ میں سے قرار دیا گیا ہے تاکہ انسان میں ایثار کا جذبہ موجزن رہے۔
۳۔ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ: انہیں ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لو جو اس ذبح کے عبادت ہونے کی بنیادی شرط ہے۔
۴۔ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا: واضح رہے اونٹ کو باندھ کر کھڑا کیا جاتا ہے پھر اس کے حلقوم میں نیزہ مارا جاتا ہے۔ جب زمین پر گر جاتا ہے، اس کی روح نکل جاتی ہے تو خود بھی کھاؤ اور محتاج کو بھی دو۔
۵۔ وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ: اس کا گوشت قانع اور معتر کو کھلاؤ۔ قانع: وہ شخص ہے جو، جو کچھ آپ نے اسے دیا ہے اس پر راضی ہوتا ہے اظہار ناراضی نہیں کرتا۔ الۡمُعۡتَرَّ: وہ شخص ہے جو دست سوال دراز کرتا ہے۔ (الکافی ۳: ۵۶۵)
۶۔ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ: ان اونٹوں کو اللہ نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ ان سے اپنی دنیوی زندگی کے لیے استفادہ کرو اور قربانی کر کے قرب الٰہی بھی حاصل کرو۔
3۔ گناہوں کی بخشش کا وسیلہ:ابوبصیر نےامام صادق علیہ السلام سے قربانی کی علت اور حکمت کے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: "جب قربانی کے حیوانی کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر ٹپکتا ہے تو خدا قربانی کرنے والی کی تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور قربانی کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ کون پرہیزگار اور متقی ہے۔ (بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸،) قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے: لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ
ترجمہ: نہ اس کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اسی طرح اللہ نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ اللہ کی عطا کردہ ہدایت پر تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اور (اے رسول) آپ نیکی کرنے والوں کو بشارت دیں ۔(الحج 37)
بہ الفاظ دیگر، قربانی کو واجب کرنے کا خداوند متعال کا مقصد یہ ہے کہ آپ تقوی کے مختلف منازل طے کر کے ایک انسان کامل کی راہ میں گامزن ھو جائیں اور روز بروز خداوند متعال کے قریب تر ھو جائیں، تمام عبادتیں، تربیت کے کلاس ہیں- قربانی انسان کو جاں نثاری ، فدا کاری ، عفو و بخشش اور راہ خدا میں شہادت پیش کرنے کے جذبے کا درس دیتی ہے اور اس کے علاوہ حاجتمندوں اور محتاجوں کی مدد کرنے کا سبق سکھاتی ہے-
اگرہم حج کی قربانی کی صرف مذکورہ حکمتوں کو مد نظر رکھیں، اور قربانی کے گوشت سے کوئی استفادہ بھی نہ کیا جائے، پھر بھی یہ حکمتیں حاصل ھو سکتی ہیں-
4. موجب خیر و برکت: قربانی خدا کی نشانیوں اور شعائر الہی میں سے ہے اور صاحب قربانی کیلئے خیر و برکت کا سبب ہے۔: وَ الْبُدْن َ جَعَلْنَـَهَا لَکُم مِّن شَعَائرِ اللَّه ِ لَکُم ْ فِیهَا خَیْرٌ (ترجمہ: اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے۔
5. تقرب خدا کا وسیلہ: قربانی خدا کی تقرب کا وسیلہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کیا کیا فوائد ہیں تو ہر سال قربانی کرتے اگرچہ قرض لینا ہی کیوں نہ پڑہے۔( بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸،)
فقہی احکام
آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی دام ظلہ کے مقلدین توجہ فرمائیں کیونکہ آغا سیستانی دام ظلہ کے فتاویٰ مشہور علماء کے فتاویٰ سےمختلف ہیں :
٭مستحب قربانی میں واجب قربانی (جو کہ حج کے دوران کی جاتی ہے)کی شرائط و اوصاف کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
پس لنگڑا ،بھینگا،جس کا کان کٹا ہو ،جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو یا بہت کمزور جانور ان سب کی قربانی ہوسکتی ہے اگرچہ افضل و احوط یہ ہے کہ جانورموٹا اور نقائص سے سلامت ہونا چاہئے ۔
٭جانور کے اندر عمر کے لحاظ سے درج ذیل عمروں کا ہونا احتیاط کی بنا پر ضروری ہے :
👈🏾الف: اونٹ اگر پانچ سال سے کم ہو تو اس کی قربانی نہیں ہوسکتی ۔(پانچ سال کو پورا کرنا ضروری ہے )
👈🏾ب: گائے اور بکرا یا بکری اگر دو سال سے کم ہوں تو ان کی قربانی نہیں ہو سکتی ۔ (دو سال کا پورا کرنا ضروری ہے )
👈🏾ج: بھیڑ یا دنبہ اگر سات ماہ سے کم کی ہوتو اس کی قربانی بھی نہیں ہوسکتی۔(سات ماہ کاپورا کرنا ضروری ہے)
٭جس حیوان کو انسان خود پالے اس کی قربانی کرنا مکروہ ہے ۔
٭جانور کی قربانی میں شراکت جائز ہے خصوصا اس صورت میں کہ جب جانور کا ملنا مشکل ہو یا اس کی قیمتیں بہت زیادہ ہوں لیکن دنبہ میں شراکت کرنا جائز نہیں ہے ۔
(نوٹ: عام طور پر بہت سے علاقوں میں قربانی کے بیل کے 7 حصے کیے جاتے ہیں جبکہ اس کی شریعت میں کوئی پابندی نہیں ہے۔یہ فقط ایک رسمی چیز بن چکی ہے۔ موجودہ مہنگائی میں بہت سے لوگ قربانی میں شراکت کی حیثیت نہیں رکھتے لہٰذا بہتر ہے ایک بیل میں زیادہ حصے شراکت کے شامل کیے جائیں۔ جتنے زیادہ حصے ہوں گےاتنے زیادہ لوگوں کو اس ثواب میں شرکت کا موقع ملے گا اور سب کا خرچ بھی کم ہوگا۔ نیز قربانی کا مقصد ثواب ہے ناکہ زیادہ گوشت کا حصول)
٭کھال کوبطور صدقہ دینا مستحب ہے اور قصائی کو بطور اجرت دینا مکروہ ہے ۔
اور یہ جائز ہے کہ کھال کو انسان اپنے لئے جائے نماز بنائے یا اس سے گھر کا سازو سامان خریدے۔
٭قربانی کا افضل ترین وقت 10 ذی الحج طلوع شمس کے بعد سے قربانی کی نماز کی مقدار کے برابر ہے اور تین دن تک کر سکتے ہیں اگرچہ پہلے دن کرنا زیادہ افضل ہے ۔
٭احوط اور افضل یہ ہے کہ تیسرا حصہ مسلمان فقراء کو دیا جائے باقی ایک حصہ اپنے لئے اور دوسرا حصہ کسی بھی مسلمان کو دینا جائز ہے ۔
٭ذبح جانور کے دو گردے اور شریانین کھانا مکروہ ہے ۔
٭ قربانی میں عقیقہ کی نیت کرنے سے عقیقہ بھی ادا ہوجاتا ہے لیکن ضروری ہے کہ جس کی طرف سے قربانی ہو اسی کی طرف سے عقیقہ کی نیت ہو اور اس میں اشتراک بھی نہ ہو۔
(بمطابق فتاویٰ آیۃ اللہ سید سیستانی دام ظلہ العالی)
تمت بالخیر[clear] ٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button