سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

مصنف:- آیۃ اللہ ابراھیم امینی
امام حسین علیہ السلام نے کیوں قیام فرمایا؟
اِس سوال پر اسلامی تاریخ کے ہردور میں اظہارِ خیال کیاگیا ہے اور اِس تحریک اور قیام کے مختلف مقاصد ومحرکات بیان کئے گئے ہیں۔اظہارِ خیال کرنے والے بعض حضرات نے انتہائی جزئی مطالعے، کوتاہ فکری، کسی خاص فکری رجحان سے وابستگی یا بدنیتی کی بنا پرامام حسین ؑ کے قیام کا مقصد ایسی چیزوں کو قرار دیا ہے جو اسلام کی روح، تاریخی حقائق، امام حسین ؑ کی شخصیت اور آپ ؑ کے مقامِ عصمت وامامت کے یکسرمنافی ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ نواسہ رسول کا اقدام نسلی یا قبائلی چپقلش کا نتیجہ تھا، یا امام ؑ نے امت کے گناہوں کی بخشش کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیاوغیرہ وغیرہ اِسی قسم کے مقاصد میں سے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے مصنفین، شعرااور مقررین بھی، بے سوچے سمجھے ایسے مقاصد کی ترویج اور تشہیر کیا کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ امام حسین ؑ کی تحریک کے مقاصد کو جاننے اور سمجھنے کے لیے بھرپور کام کی ضرورت اب بھی باقی ہے اور اِس سلسلے میں مختلف زاویہ نگاہ سے جائزے اور تحقیق کاکام جاری رہنا چاہیے۔ دو مضامین پر مشتمل زیرِنظر کتابچہ اِسی جذبے اور خواہش کے تحت شائع کیا جارہا ہے۔ پہلا مضمون حوزہ علمیہ قم کے ممتازعالمِ دین آیت اللہ ابراہیم امینی سے ایک انٹرویو ہے، جو امام خمینی علیہ الرحمہ کی چھٹی برسی کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار بعنوان ” امام خمینی و فرہنگِ عاشورا“ کے موقع پر علامہ امینی سے کیا گیاتھا۔ اِس انٹرویو میں جنابِ عالی نے امام حسین ؑ کے کلمات کی روشنی میں آپ ؑ کے قیام کا مقصد واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
امام حسین ؑ نے کیوں قیام فرمایا؟
سوال: امام حسین علیہ السلام اپنی تحریک کے ذریعے کیا ہدف یا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟
شہادت، احیائے اسلام، اصلاحِ امت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، خدا کی طرف سے عائد فریضے کی ادائیگی، یزید کی ظالم حکومت کی سرنگونی اور عادلانہ اسلامی حکومت کا قیام، وہ نمایاں نقطہ ہائے نظر ہیں جو امامؑ کی تحریک کی تفسیر اورآپ ؑ کے مقاصد و محرکات کی تشریح کے سلسلے میں محققین اوراہلِ نظرافراد کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں۔ عاشورا کی تحریک کے فلسفے اور اہداف اور اس بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے اورآپ اپنی رائے کا دوسری آرا، خیالات اور نظریات سے کس طرح موازنہ کرتے ہیں؟
* امام حسین ؑ کے قیام کے ہدف و مقصد کے بارے میں مختلف نظریات اور خیالات پائے جاتے ہیں مصنفین و متکلمین نے امام حسین ؑ کی تحریک کے مختلف مقاصد بیان کیے ہیں کبھی اس تحریک کو ایک ایسی تحریک کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کاپورا دستورِ عمل (program)خداوندِ عالم کی جانب سے مقرر کردیا گیا تھا اور امام حسین ؑ کا کام محض اس کو جامہ عمل پہنانا تھا اور آپ ؑ پر لازم تھا کہ خداوندِ متعال اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے آپ ؑ جن کاموں کے لیے مامور کیے گئے ہیں انہیں بغیر کسی معمولی ردوبدل کے قدم بقدم انجام دیں۔
بعض دوسرے لوگوں کے خیال میں امام حسین ؑ کی تحریک ایک سوچی سمجھی تحریک تھییہ لوگ کبھی اس تحریک کے مقصد کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور کبھی حکومتِ وقت یعنی یزید کی حکومت سے ٹکراؤ اور بسا اوقات حکومتِ اسلامی کے قیام کے لیے جدوجہد قرار دیتے ہیں کچھ دوسرے لوگوں کا تجزیہ ہے کہ امام حسین ؑ پر ایک فریضہ عائد ہوتا تھا اورآپ ؑ نے تعبداً اپنی یہ ذمے داری پوری کی، وغیرہ، وغیرہ۔۔۔ ۔
اِس بارے میں اور دوسری باتیں بھی بیان اور تحریر کی جاتی ہیں باوجود یہ کہ اس بارے میں کافی کتب تحریر کی گئی ہیں اور مختلف نظریات اور افکار کا اظہار کیا گیا ہے لیکن اب تک یہ مسئلہ بخوبی واضح نہیں ہوا کہ اس تحریک میں امام حسین ؑ کی سوچ کیا تھی۔
یہ محض تاریخی بحث نہیں، بلکہ ایک ایسی بحث ہے جو تحریکِ اسلامی، حکومتوں، حکومتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں اور ایسے افراد کے لیے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں بطورِ کلی ایک مشعلِ راہ ہوسکتی ہےامام حسین ؑ جو ایک معصوم فرد اور امام تھے، اُن کا طرز و اسلوب قطعی طور پر مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل کی حیثیت رکھتا ہےافسوس کی بات ہے کہ جس طرح اِس مسئلے کی وضاحت ہونی چاہیے تھی ایسی نہیں ہوئی اور نہ ہی (امام ؑ کی) اس تحریک سے خاطر خواہ استفادہ کیا گیا ہے۔
امام حسین ؑ کے کلمات آپ ؑ کے ہدف اور محرکات کی ترجمانی کرتے ہیں اِس موضوع پر تحقیق اور اِس کی تشریح کے لیے ایک مفصل اور جداگانہ تالیف کی ضرورت ہے جو سرِ دست اِس مختصر موقع اور وہ بھی انٹرویو کی صورت میں ممکن نہیں البتہ مختصر طور پر کہوں گا کہ ہمیں امام حسین ؑ کے مقصد اور ہدف کو خودآنجناب ؑ کے کلمات سے اخذ کرنا چاہیےجن لوگوں نے امام حسین ؑ کی تحریک کے مقاصد پر گفتگو کی ہے، اُن میں سے بھی اکثر نے امام ؑ کے کلمات کا سہارا لیا ہےلیکن کیونکہ امام حسین ؑ کے کلمات بکھرے ہوئے اور}موقع محل کی مناسبت سے{ مختلف ہیں اِس لیے اِن حضرات میں سے ہر ایک نے ان میں سے کسی ایک حصے کو لے کر اس سے استفادہ کیا ہے اور دوسرے مفاہیم سے صرفِ نظر کیا ہے اور صرف کسی ایک پہلو پر اپنی فکر مرکوز رکھی ہے۔
ہم ابتدا میں امام حسین ؑ کے ان کلمات میں سے کچھ کو بیان کریں گے جو آپ ؑ نے اپنے ہدف کے بارے میں فرمائے ہیں اور اس کے بعد ان کی جمع بندی کر کے ان سے نتیجہ اخذ کریں گےاگر ہم ان مختلف کلمات کا باہم اور یکجا کرکے تجزیہ کریں، تو سب ایک ہی راہ کی وضاحت کرتے ہیں، اور یوں ان میں تضادا ور اختلاف نظر نہیں آتا، بلکہ یہ سب ایک ہی ہدف کی نشاندہی کرتے ہیں اور وہ ہدف بھی بخوبی روشن اور واضح ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکراپنی اصلاحی تحریک کے لیے امام ؑ کا وسیلہ
جب مدینہ میں امام حسین ؑ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے آپ ؑ کو مشورہ دیا کہ آپ ؑ اِس سفر پر روانہ نہ ہوئیے، تو امام ؑ نے ان کی بات قبول نہ کی اور}سفر پر روانہ ہوتے ہوئے {ایک وصیت نامہ تحریر کیا، جس کے ایک حصے سے امام حسین ؑ کے مقصد کی وضاحت ہوتی ہےامام ؑ اس وصیت نامے کے ایک حصے میں تحریر فرماتے ہیں:
وَ أَنّی لَمْ أَخْرُجْ أشِراًوَلاٰبَطِراًوَلاٰ مُفْسِداًوَلاٰظٰالِماً وَاِنَّمٰاخَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلاٰحِ فی اُمَّةِ جَدّی اُریدُأَنْ آمُرَبِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهیٰ عَنِ الْمُنْکَرِوَأَسیرَبِسیرَةِ جَدّی وَأَبی عَلیِّ بْنِ أَبی طٰالِبٍ
میں خود خواہی، غرور، فتنہ انگیزی اور ظلم کے لیے نہیں نکل رہا، بلکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکل رہا ہوںمیں چاہتا ہوں کہ معروف کا حکم دوں اور منکر سے روکوں اور اپنے نانااور والد علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت پر عمل کروں۔
( موسوعہ کلماتِ امام الحسین ؑ ص۲۹۱)
یہ اصلاح طلبی دراصل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی ہے، اس سے مختلف کوئی چیز نہیں یعنی امام ؑ چاہتے ہیں کہ امت کی اصلاح کریں اور اصلاح کا یہ عمل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے جامہ عمل پہنے۔
امامؑ کس قسم کی اصلاح چاہتے ہیں؟ وہ آپ ؑ کے اِس جملے سے ظاہرہےفرماتے ہیں:
میں اپنے جد اور والد کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔
اسلام اور سیرتِ پیغمبرؐ سے اسلامی معاشرے اور حکومت کا انحراف
امام حسین ؑ نے محسوس کیا تھا کہ معاویہ اور اُن کے بعد یزید اور کچھ اُن سے قبل کی حکومتوں کے دوران لوگوں کے درمیان ایسے اعمال رواج پاگئے ہیں جو پیغمبر اکرم ؐ اور حضرت علی ؑ کی سیرت کے برخلاف ہیں۔
پیغمبر اسلام ؐاپنی حکومت میں ایک خاص سیرت اور طریقے پر کاربند تھےاقتصاد کے بارے میں آنحضرتؐ کی ایک خاص روش تھی دوسرے معاملات میں بھی آپ کا خاص طریقہ کار تھاحضرت علی ؑ کی بھی وہی سیرت رہی لیکن افسوس کہ پیغمبرؐکی رحلت کے بعد اگرچہ کچھ مدت تک ایک حد تک آپؐ کی سیرت پر عمل جاری رہا لیکن بعد میں بعض انحرافات نے سر ابھارا۔
جب حکومت کی باگ ڈور علی ابن ابی طالب ؑ نے سنبھالی، تو آپ ؑ نے معاملاتِ حکومت کو پیغمبراسلام صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلمی نہج پر واپس لانے کی کوشش کیاسی وجہ سے آپ ؑ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ لوگ دوسرے طریقوں کے عادی ہوچکے تھےلہٰذا امیر المومنین ؑ کو اس سلسلے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی، شاید آپ ؑ کوشہید بھی اسی بنا پرکیاگیا۔
اسلامی معاشرے کا بھی یہی حال تھا، وہاں بھی لوگوں کی عبادات میں، اُن کے اخلاق میں اور اُن کے سماجی امور میں ایسی چیزیں وجود میں آگئی تھیں جو اسلام سے موافق نہ تھیں، اس لحاظ سے اسلام کے لیے ایک خطرہ جنم لے رہا تھا۔
ایک اور بات یہ تھی کہ وہ حکمراں جو خلیفہ رسولؐ کے عنوان سے، پیغمبر ؐ کے جانشین کے طور پر حکومت کر رہے تھے، اُن کا طرزِ عمل پیغمبرؐ کے طرزِ عمل سے مختلف تھا، اسلام کی تعلیمات کے منافی تھا۔
اگر یہی صورتحال جاری رہتی، تواسلام کی ایک غلط تصویر لوگوں کے سامنے آتی، اور وہ اسی کو اسلام سمجھ بیٹھتےعلاوہ ازایں خود لوگوں کے درمیان بھی ایسی باتیں رائج ہوگئی تھیں جو اسلام اور سیرتِ پیغمبر ؐکے موافق نہ تھیں۔
امام ؑ کی اصلاحی تحریک کا عنوان: سیرتِ پیغمبر ؐاور سیرتِ علی ؑ کا احیا
ان وجوہات کی بنا پر امام حسین ؑ سمجھتے تھے کہ اصلاح کاعمل ناگزیرہے، اور یہ اصلاح پیغمبر ؐاور علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت کا احیا تھی یہ دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین ؑ کا ہدف اور مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے پیغمبر اسلامؐ اور امیر المومنین علی ؑ کی سیرت کا احیا تھایعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر احیا کا وسیلہ ہے، خود ہدف اور مقصد نہیں ہدف درحقیقت پیغمبر اسلام ؐ اور حضرت امیرؑ کی سیرت کو زندہ کرناتھا۔
اموی حکومت کی دونمایاں خصوصیات:حدودِ الٰہی کا تعطل اور علانیہ فسق وفجور
امام حسین ؑ نے جب مکہ سے کوفہ کے ارادے سے اپنے سفر کا آغاز کیا، تو اثنائے راہ میں آپ ؑ کی ملاقات فرزدق سے ہوئی امام ؑ نے اس سے عراق کے حالات دریافت کیےاس نے جواب دیا:
لوگوں کے دل آپ ؑ کے ساتھ ہیں لیکن اُن کی تلواریں آپ ؑ کے خلاف ہیں۔
امام ؑ نے اُس سے اپنے سفر کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ هٰؤُلاٰءِ قَوْمٌ لَزِمُوا طٰاعَةَ الشَّیْطٰانِ وَتَرَکُواطٰاعَةَ الرَّحْمانِ وَ أَظْهَروُا الْفَسٰادَ فِی الْأَرْضِ وَاَبْطَلُوا الْحُدُودَ وَشَرِبُوا الْخُمُورَ وَ اسْتَأْثَروُا فی أَمْوٰالِ الْفْقَرٰاءِ وَالْمَسٰاکینَ وَأَنا أَوْلیٰ مَنْ قٰامَ بِنُصْرَةِ دینِ اللّٰهِ وَاعْزٰازِ شَرْعِهِ وَالْجِهٰادِ فی سَبیلِهِ لِتَکُونَ کَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلَیٰا
یعنی
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شیطان کی اطاعت کی ہے، رحمن کی اطاعت کو ترک کردیاہے۔
البتہ یہاں ممکن ہے ” ھٰؤُلاٰءِ“ حکام کی جانب اشارہ ہو (اور زیادہ یہی معنی ظاہر ہوتے ہیں) اور ممکن ہے پورے معاشرے کے لیے ہو۔
ان لوگوں نے فساد کو ظاہر کیا ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی فساد کا مرتکب ہوتا ہے، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی فساد کا اظہار کرتا ہے، علیٰ الاعلان فسق وفجور کا مرتکب ہوتا ہےاِن لوگوں کے بارے میں امام ؑ فرماتے ہیں کہ انہوں نے زمین پر فساد کو ظاہر کیا ہے، یہ لوگ درحقیقت فساد کو رواج دینے والے ہیں یہ ایک اہم اور خطرناک مسئلہ ہے۔
انہوں نے حدودِ الٰہی کو معطل کردیا ہے۔
یعنی شرعی حدود پر عمل نہیں کرتےان کا اندازِ حکومت کچھ اور ہےپیغمبر ؐ نے حکومت کی تھی لیکن اُن کی حکومت دینی اور اسلامی قوانین کی حدود میں تھی لیکن ان لوگوں نے اس اندازِ حکومت کو ترک کردیا ہے، حدودِ الٰہی کو قدموں تلے روند ڈالا ہے۔
یہ لوگ شراب پیتے ہیں۔
حالانکہ شراب نوشی اسلام میں حرام ہے۔
فقرا اور مساکین کے مال کو اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں۔
فقرا کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے، بیت المال کومن مانے طریقے اور اپنی حکومت کے استحکام کے لیے استعمال کرتے ہیں، فقرااور محتاجوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال نہیں کرتےجبکہ پیغمبر اسلام ؐکے دور میں اس کا استعمال عوام الناس اور فقرا کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے کیاجاتا تھادلائل یہ ثابت کرتے ہیں اور خود پیغمبر اکرم ؐ نے بھی اسی طرح عمل کیا اور امیر المومنین ؑ بھی اسی طرح عمل کرنا چاہتے تھےمگر افسوس کہ آپ ؑ کو بکثرت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
جب عنانِ حکومت اُن لوگوں کے ہاتھ میں آئی، تواُن کاطرزِ عمل یہ کہہ رہا تھا کہ یہ اموال ہمارے اختیار میں ہیں، ہم مسلمانوں کے حاکم ہیں، اس مال کواپنی حکومت کی حفاظت کے لیے خرچ کریں گے، اب فقرا کا جو حال ہوہوا کرے!!!
امام ؑ کی تحریک اسلام کی حفاظت کے لیے دفاعی جہاد
مذکورہ کلمات سے پتا چلتا ہے کہ امام حسین ؑ کے مدینہ سے نکلنے اور اس طویل سفر کے آغاز کا سبب ان خرابیوں کا مشاہدہ اور اُن کی اصلاح کا عزم تھا۔ آپ ؑ فرماتے تھے کہ میں دین خدا کی نصرت، اس کی شریعت کی بالادستی اور اس کی راہ میں جہاد کے سلسلے میں سب سے زیادہ ذمے دار ہوں۔
امام حسین ؑ کے قیام کا محرک(motive) اُس وقت کے مسلمانوں کی ابترحالت اور خاص کر اُس زمانے کی حکومتوں کا طرزِ عمل تھا کہ جس کی وجہ سے حدودِ الٰہی معطل تھے، فقرا بُرے حال میں تھے اور بیت المال کے اموال ناجائز مدوں میں خرچ ہو رہے تھےحضرت ؑ اس صورتحال کے خاتمے کے لیے قیام چاہتے تھے اور ا س قیام کے لیے خود کو دوسروں سے زیادہ ذمے دار سمجھتے تھےکیونکہ آپ ؑ نواسہ رسولؐ اور امامِ مسلمین تھے اور ان حالات کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔
پس معلوم ہوا کہ امام ؑ کا یہ اقدام ایک قسم کا جہاد تھا، اسلام کے تحفظ کے لیے دفاعی جہاد تھاایرانی عوام کی اسلامی تحریک بھی اسی طرح تھی، اور رہبر انقلاب امام خمینیؒ کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ تحریک ایک دفاعی جہاد ہے۔
امام حسین ؑ نے بصرہ کے معززین کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
وَقَدْبَعَثْتُ رَسُولی اِلَیْکُمْ بِهٰذَاالْکِتٰابِ، وَأَنَاأَدْعُوکُمْ اِلیٰ کِتٰابِ اللّٰهِ وُسُنَّةِ نَبیِّهِ فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْاُمیتَتْ وَاِنَّ الْبِدْعَةَ قَدْاُحیِیَتْ ۔ (موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۳۶)
میں نے اِس خط کے ہمراہ اپنا سفیر تمہاری جانب روانہ کیا ہے، اور تمہیں کتابِ خدا اور سنتِ رسول کی طرف دعوت دیتا ہوں درحقیقت سنت مردہ ہوچکی ہے(یعنی لوگ اِس پر عمل پیرا نہیں۔ ) اور بدعت زندہ ہوگئی ہے۔“یعنی وہ چیزیں جو دین کا جز نہیں دین کے اندر داخل کردی گئی ہیں۔ اگر تم میری بات سنو اور میرے فرمان کی اطاعت کرو، تو میں راہِ راست کی جانب تمہاری رہنمائی کروں گایہ راہِ راست وہی سیرتِ پیغمبرؐ اور سیرتِ علی ؑ ہے یعنی وہی خالص اور حقیقی اسلام ہے۔
البتہ یہاں امام ؑ نے یہ توفرمایا ہے کہ میں راہِ راست کی جانب تمہاری راہنمائی کروں گا، لیکن یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ راہِ راست حکومت کا قیام ہے یا کوئی دوسری چیزیہاں بھی امام ؑ نے اپنی تحریک کا مقصد سنت کا احیا اور بدعت کا خاتمہ بیان کیا ہے۔جب مروان نے امام حسین ؑ سے کہا کہ وہ یزید کی بیعت کرلیں، تو امام ؑ نے اس کے جواب میں جو کلمات ادا کیے وہ بھی آپ ؑ کے قیام کے مقصد کو واضح کرتے ہیں:
اِنّٰالِلّٰهِ وَاِنّٰاالَیْهِ رٰاجِعُونَ وَعَلیَ الْاِسْلاٰمِ اَلسَّلاٰمُ اذْ قَدْبُلِیَتِ الأُمَّةُ بِرٰاعٍ مِثْلِ یَزیدَ
جب لوگ یزید جیسے شخص کی حکومت میں مبتلا ہوجائیں، تو اسلام کو خداحافظ کہہ دینا چاہیے۔( موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۸۴)
اِن کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین ؑ یزید کی حکومت کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اِسے اسلام و مسلمین کے لیے خطرناک سمجھتے تھے اور اسی بنا پر اس کی بیعت کو ناجائز قرار دیتے تھے۔آپ ؑ نے اسی گفتگو کے ذیل میں فرمایا:وَلَقَدْسَمِعْتُ جَدّی یَقُولُ:أَلْخِلاٰ فَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلیٰ اٰلِ ابی سُفْیٰان۔میں نے اپنے نانا سے سنا ہے، انہوں نے فرمایاتھا کہ خلافت آلِ ابی سفیان پر حرام ہے۔پتا چلا کہ امام حسین ؑ کا مقصد یزید کی خلافت کے خلاف قیام تھا اور یہ تحریک امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک صورت تھیایک دوسرے مقام پر امام ؑ نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
یٰاأَخی وَاللّٰهِ لَوْلَمْ یَکُنْ فی الدُّنْیٰا مَلْجَأً وَلاٰمَأْویً لَمٰابٰایَعْتُ یَزیدَ بْنَ مُعٰاوِیَةَ
اے میرے بھائی! اگر مجھے دنیا میں کوئی بھی جائے پناہ نہ ملے، تب بھی میں یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کروں گا۔
(موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۸۹)
امام حسین ؑ کے یزید ابن معاویہ کی بیعت نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یزید خلیفہ رسولؐ کے عنوان سے مسلمانوں پر حکومت کرتا تھا، اس کی رفتار و گفتار پیغمبر کی رفتار و گفتار سمجھی جاتی تھی، لہٰذا اس کے وہ اعمال و افعال بھی جو اسلام اور سیرتِ پیغمبرؐکے برخلاف تھے، پیغمبر ؐاور اسلام ہی کے حساب میں شمار کیے جاتے اور یہ ایک بہت بڑا خطرہ تھا۔
نہی عن المنکرکا پہلا مرحلہ‘ بیعت سے انکاراور حکومتِ یزید کوناجائز قرار دینا
اِن حالات میں وہ لوگ (بنی امیہ) فرزندِ رسول حسین ابن علی ؑ سے یزید کے لیے بیعت لینا چاہتے تھےیعنی وہ چاہتے تھے کہ امام حسین ؑ بیعت کے ذریعے یزید کی حکومت اور اُس کے اعمال کی صحت پر مہرِ تصدیق ثبت کریں اور انہیں اسلام کے مطابق قرار دیں۔
واضح بات ہے کہ امام حسین ؑ یہ نہیں کرسکتے تھے اور نہی عن المنکرکا پہلا قدم آپ ؑ کا یزید کی بیعت سے انکار اور اُس کی حکومت کو غیر قانونی قرار دیناتھا۔
اپنے نانا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرقدِ مطہر سے وداع کے موقع پر امام حسین ؑ نے جو کلمات ارشاد فرمائے وہ بھی آپ ؑ کی تحریک کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہیں، آپ نے فرمایا:
بِاَبی اَنْتَ وَاُمّی لَقَدْخَرَجْتُ مِنْ جَوارِکَ کُرْهاًوَفُرِّقَ بَیْنی وَ بَیْنَکَ حَیْثُ اَنّی لَمْ اُبٰایِعْ لِیَزیدَ بْنِ مُعٰاوِیَةَ شٰارِبِ الْخُمُورِوَرٰاکِبِ الْفُجُورِوَهٰااَنَاخٰارِجٌ مِنْ جَوٰارِکَ عَلَی الْکَرٰاهَةِ فَعَلَیْکَ مِنّیِ السَّلاٰمُ
اے رسول اللہ! آپؐ پر میرے ماں باپ فدا ہوںمیں بحالتِ مجبوری آپؐ کے جوار سے نکل رہاہوںمیرے اورآپؐ کے درمیان جدائی آپڑی ہےکیونکہ میں یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کرناچاہتا، جو شراب خوراور فاسق ہے۔ میں مجبوری کے عالم میں آپ کے جوار سے نکل رہا ہوں۔ آپ پر میرا سلام ہو(موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ۔ ص۲۸۷)
مذکورہ کلمات اور ان ہی جیسے دوسرے کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین ؑ کی تحریک کا مقصد حکومت کی اصلاح اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی تھا۔ آپ ؑ کا ہدف سیرتِ پیغمبرؐ کا احیا اور بدعتوں کا خاتمہ تھا۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے امامؑ کے مرحلہ بہ مرحلہ اقدامات اور مؤقف
امام حسین ؑ کے بعض بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑ اس فریضے کی انجام دہی کے لیے مرحلہ بہ مرحلہ اور قدم بقدم آگے بڑھے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب آپ ؑ مدینہ میں تھے اور اُن لوگوں (بنی امیہ) نے آپ ؑ سے بیعت لینا چاہی، تو آپ ؑ نے ان کے مطالبہ بیعت کی مخالفت کا فیصلہ کیااور مدینہ چھوڑ دیاکیونکہ اگرآپ ؑ مدینہ میں رہتے، توآپ ؑ کو بیعت پر مجبور کردیاجاتااِس موقع پرآپ ؑ کو مکہ کے سوا کوئی دوسری مناسب جگہ نظر نہیں آئیکیونکہ ایک تو یہ مدینہ سے نزدیک تھا، اور دوسرے ایک مقدس و محترم شہر اور حجاج اور زائرین کے جمع ہونے کی جگہ تھابنابرایں آپ ؑ پر لازم تھا کہ مدینہ چھوڑ کر مکہ تشریف لے جائیں اور اس ذریعے سے امربالمعروف اور نہی عن المنکرکریں البتہ انجامِ کار کیا ہوگا؟ یہ دوسرا موضوع ہے جو فی الحال پیشِ نظر نہیں چنانچہ جب مدینہ سے نکلتے وقت عبداللہ ابن مطیع نے امام ؑ سے اُن کی منزل کے بارے میں سوال کیا، توآپ ؑ نے فرمایا:
أَمّٰا فی وَقْتی هٰذٰاأُریدُ مَکَّةَ فَاِذٰاصِرْتُ اِلَیْهٰااِسْتَخَرْتُ اللّٰهَ تَعٰالیٰ فی أَمْری بَعْدَ ذٰلِکَ
اِس وقت میں مکہ کا قصد رکھتا ہوں، پس مکہ پہنچ کر خدا سے اپنے کام کے بارے میں طلبِ خیر کروں گا ۔( موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۰۲)
یہ پہلا مرحلہ ہےمیں اس جملے سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ حضرت ؑ کا قصد اپنے فریضے کی انجام دہی تھا اور فریضے کی انجام دہی کی صورت ہر مرحلے میں مختلف تھی فریضے کی انجام دہی مدینہ میں یہ تھی کہ بیعت نہ کریں اور وہاں سے نکل جائیں، بعد میں کیاہوگا، اور کیا کرنا پڑے گا، یہ بعد کی بات ہے۔مکہ میں بھی امام ؑ نے حالات اور پیش آنے والے واقعات کے مطابق فیصلہ کیامیرے خیال میں امام خمینیؒ نے بھی اپنی جدوجہد کے دوران اسی طریقہ کار کی پیروی کی، قدم بقدم آگے بڑھے اور صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کیے اور اپنا فریضہ انجام دیااپنی جدوجہد کے آغاز میں فرمایا کہ حکومت کے دین مخالف اقدامات پر خاموش نہیں رہا جاسکتا، ہمارا فرض ہےکہ اِن پر اپنی مخالفت کااظہارکریں اس زمانے میں امام خمینی ؒ محض بیانات جاری کرنے پر اکتفا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جوں جوں قوت میں اضافہ ہوا اُسی تناسب سے بڑے بڑے فیصلے کیےیہاں تک کہ پیرس سے واپسی پر بہشتِ زہرا ؑ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
ہم عوام کی تائید اور حمایت سے حکومت تشکیل دیں گے۔
امام حسین ؑ کی تحریک نے بھی مرحلہ بہ مرحلہ، قدم بقدم شکل اختیار کی پہلا مرحلہ مدینہ سے نکلنا تھامکہ پہنچ کر ایک عرصے تک وہاں اقامت اختیار کرنا دوسر امرحلہ تھامکہ میں بھی مختلف حوادث و واقعات پیش آئےمیں یہاں کچھ اہم حوادث کی جانب اشارہ کروں گا: جب امام حسین ؑ مکہ تشریف لے گئے، تو کیونکہ مکہ مسلمانوں کی آمدورفت کا مرکز تھا، لہٰذایہ خبرپورے عالمِ اسلام میں پھیل گئی کہ فرزندِ رسول حسین ابن علی ؑ نے مدینہ چھوڑ دیا ہےسب لوگ ایک دوسرے سے امام حسین ؑ کے مدینہ چھوڑنے کی وجہ دریافت کرتے تھےامام ؑ کے اس اقدام نے حکومت سے آپ ؑ کی ناراضگی کو لوگوں کے سامنے واضح کردیا اور یہ خود ایک بڑی بات اور اہم واقعہ تھاحکومت کے خلاف یہ کھلااقدام انتہائی مؤثررہا اور اس لحاظ سے امام ؑ کا یہ اقدام کامیاب رہااہلِ کوفہ جو امام حسین ؑ اور امیر المومنین ؑ کے شیعہ تھے، جب اُنہیں پتا چلا کہ امام حسین ؑ حکومت کے خلاف اعتراض کے طورپر مکہ تشریف لے آئے ہیں، تواُن کی طرف سے امام ؑ کے نام خطوط کاتانتا بندھ گیا (اِن خطوط کی تعداد چالیس ہزار اور اس سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے)اِن خطوط میں امام ؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی اور آپ ؑ کی نصرت اور حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا۔
دوسری طرف امام حسین ؑ کی مکہ آمد کی وجہ سے جو صورتحال رونما ہورہی تھی، یزید کی حکومت نے اسے ایک سنجیدہ خطرہ محسوس کیااسی بنا پر ا س نے فیصلہ کیا کہ امام ؑ کو ہرقیمت پر مکہ ہی میں قتل کردیا جائےمکہ جو حرمِ امنِ الٰہی ہے، وہاں امام حسین ؑ کے قتل ہونے کے نتیجے میں پوری سلطنتِ اسلامیہ میں موجود تمام مسلمانوں پر حکومت کارعب اور خوف ووحشت طاری ہوجائے گاجب امام ؑ کو حکومت کے اس ارادے کی خبر موصول ہوئی، توامام حسین ؑ نے محسوس کرلیا کہ بہرصورت مکہ چھوڑ دینا ہی ان کا فریضہ ہےاس کے لیے آپ ؑ کے پاس دو وجوہات تھیں ایک یہ کہ قتل نہ ہوں اور حرمِ الٰہی کا احترام محفوظ رہےدوسرے یہ کہ اہلِ کوفہ کی جانب سے امام حسین ؑ کو بکثرت خطوط موصول ہوئے تھے، جن میں آپ ؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی اور حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا، لہٰذاآپ ؑ کے لیے مناسب بات یہی تھی کہ آپ ؑ اُن کی یہ دعوت قبول کرلیں۔
جس زمانے میں امام ؑ مکہ میں تھے، تو ابن عباس آپ ؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور کہا: اے فرزندِ رسول ؑ ! آپ ؑ مکہ سے کیوں جانا چاہتے ہیں؟ مکہ ہی میں رہیے، یہاں آپ ؑ زیادہ اور بہتر طور پر امن میں ہیںلوگ آپ ؑ کے اردگرد ہیں اورآپ ؑ کی جان محفوظ رہے گیمکہ سے باہر نکلنا آپ ؑ کے لیے خطرناک ہےحضرت ؑ نے اُنہیں جواب دیا:
لَاِنْ اُقْتَلَ وَاللّٰهِ بِمَکٰانٍ کَذٰااَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اُستُحِلَّ بِمَکَّةَ وَهٰذِهِ کُتُبُ اَهْلِ الْکُوفَةِ وَرُسُلُهُمْ وَقَدْوَجَبَ عَلَیَّ اِجٰابَتُهُمُ وَقٰامَ لَهُمْ الْعُذْرُعَلَیّ عِنْدَاللّٰهِ سُبْحٰانَهُ۔ (موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص۳۲)
پہلی بات تو یہ کہ: ” حرمِ امنِ الٰہی مکہ میں میرا خون بہانا مباح ہوجائے }یہ مجھے روا نہیں{ اِس سے زیادہ مجھے کسی اور جگہ قتل ہونا پسند ہے“ ۔
یعنی مجھے قتل کرنے کے بعد حکومت کہے کہ ہمارا سامنا ایک ایسے شخص سے تھا جس کی وجہ سے مکہ کا امن وامان اور احترام خطرے میں تھا، لہٰذا ہم اسے مکہ ہی میں قتل کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور اس طرح مکہ میں میرا خون بہانا جائز قرار دے دیا جائے۔
مکہ میں کسی کا خون بہانا جائز ہوجانا ایک بہت اہم مسئلہ ہےاور یہ خود امام حسین ؑ کے خلاف بدترین پروپیگنڈا شمار ہوتا۔
اس کے بعد فرمایا:
یہ اہلِ کوفہ کے خطوط اور اُن کے نمائندے ہیں، اور مجھ پر واجب ہے کہ اُن کا جواب دوں تاکہ اُن پر خدا کی حجت تمام ہوجائے۔
یہاں ایک مرتبہ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ امام ؑ کہتے ہیں کہ مجھ پر دعوت قبول کرنا واجب ہےیعنی میرا فرض ہے کہ ان کی دعوت قبول کروں اور مکہ سے نکلوںیہ وہی بات ہے، یعنی فریضے کی انجام دہی کے لیے تحریک۔
پھر جب ابن زبیر نے امام ؑ کو یہ تجویز پیش کی کہ :أَقِمْ فی هٰذَاالْمَسْجِدِ أَجْمَعُ لَکَ النّٰاسَ۔ (آپ یہاں حرم ہی میں ٹھہریے میں آپ کے لیے لوگوں کو جمع کرتا ہوں) تو امام ؑ نے فرمایا:
وَاللّٰهِ لِأَنْ اُقْتَلَ خٰارِجاً مِنهٰا بِشِبْرٍأَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ أَنْ اُقْتَلَ دٰاخِلاً مِنْهٰا بِشِبْرٍ
خدا کی قسم حرم سے ایک بالشت باہر قتل ہونا، مجھے حرم کے اندر مارے جانے سے زیادہ پسندہے۔ (موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ۔ ص ۳۲۴)
یہاں ایک مسئلہ تو حرم کی حرمت کے پامال ہوجانے کا ہے اور دوسرا یہ کہ دشمن اِس قتل سے پروپیگنڈے کے میدان میں فائدہ اٹھائے گاپھر جب امام ؑ نے مکہ سے عراق کی سمت سفر کاآغاز کرنا چاہا، تو ابن زبیر سے فرمایا:
وَاللّٰهِ لَقَدْ حَدَّثْتُ نَفْسی بِاِ تْیٰانِ الْکُوفَةِ وَلَقَدْکَتَبَ اِلَیَّ شیعَتی بِهٰا وَأَشْرٰافُ أَهْلِهٰا وَاَسْتَخیرُ اللّٰهَ
میں نے سوچا ہے کہ کوفہ چلا جاؤں۔ کوفہ سے میرے شیعوں اور وہاں کے معززین نے مجھے خطوط لکھے ہیں اور میں اپنے لیے خداسے خیر کا طلبگار ہوں۔ (موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۴)
ایک دوسری عبارت ہے:
أَ تَتْنی بَیْعَةُ أَرْبَعینَ أَلْفاً یَحْلِفُونَ لی بِالطَّلاٰقِ وَالْعِتٰاقِ مِنْ اَهْلِ الْکُوفَةِ
مجھے پتا چلا ہے کہ چالیس ہزار اہلِ کوفہ نے میری بیعت کی ہے۔ (موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۳)
اِس مرحلے میں بھی فریضے کی ادائیگی کا مسئلہ واضح ہےامام حسین ؑ نے اپنی تحریک کے مختلف مراحل میں گاہ بگاہ اپنا اصل مقصد بیان کیا ہے، جو سیرتِ پیغمبر ؐکا احیا اور بدعتوں کا خاتمہ ہےجب درمیانِ راہ میں عبداللہ ابن مطیع نے امام ؑ سے ملاقات کی اور کہاکہ آپ کیوں حرمِ خدا اور اپنے نانا کے حرم سے نکلے ہیں؟ تو امام ؑ نے جواب دیا:
اِنَّ اَهْلَ الْکُوفَةِ کَتَبُوا اِلَیَّ یَسْأَلُونَنی اَنْ اَقْدِمَ عَلَیْهِمْ لِمٰارَجُوا مِنْ اِحْیٰاءِ مَعْالِمِ الْحَقِّ وَاِمٰا تَةِ الْبِدَعِ
اہلِ کوفہ نے مجھے خطوط لکھے ہیں ! اورمجھ سے چاہا ہے کہ میں اُن کی طرف آؤں، کیونکہ اُنہیں امید ہے کہ اس طرح سے حق کا احیا ہوگا اور بدعت نابود ہوگی۔ (موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۴۱)
کیونکہ مسئلہ فریضے کی ادائیگی کا ہے، اس لیے حضرت ؑ اپنے قتل کے امکان کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اپنی ذمے داری کی ادائیگی کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔جب حر کے لشکر سے امام ؑ کا سامنا ہوا، تو نماز کے وقت آپ ؑ نے اپنے اصحاب کے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرمایااس وقت آپ ؑ کوفہ کے قریب تھے، حالات پلٹا کھاچکے تھے اور صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھیہم دیکھتے ہیں کہ اس حال میں بھی اپنے ہدف اور مقصد کا حصول امام ؑ کے پیش نظر ہےآپ ؑ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں:
اِنَّهُ قَدْ نَزَلَ مِنَ الْأَمْرِمٰاقَدْ تَرَوْنَ وَاِنَّ الدُّنْیٰا قَدْ تَغَیَّرَتْ وَ تَنَکَّرَتْ وَأَدْبَرَمَعْرُوفُهٰا وَاسْتَمْرَّتْ جِدّاًوَ لَمْ یَبْقَ مِنْهٰا اِلاّٰ صُبٰابَةٌ کَصُبٰابَةِ الْاِنٰاءِ وَخَسیْسِ عَیْشٍ کَالْمَرْعَی الْوَبیلِ، أَلاٰ تَرَوْنَ أَنَّ الْحَقَّ لاٰ یُعْمَلُ بِهِ وَانَّ الْبٰاطِلَ لاٰ یُتَنٰاهیٰ عَنْهُلِیَرْغَبَ الْمؤْمِنُ فی لِقٰاءِ اللّٰهِ مُحِقّاً، فَاِنّی لاٰأَرَی الْمَوْتَ اِلاّٰ سَعادَةً وَالْحَیٰاةَ مَعَ الظّّٰالِمینَ اِلاّٰ بَرَماً۔
ہمارے معاملے نے کیا صورت اختیار کرلی ہے اُسے آپ دیکھ رہے ہیںدرحقیقت حالاتِ زمانہ دگرگوں ہوگئے ہیں، برائیاں ظاہر ہوگئی ہیں اور نیکیوں اور فضیلتوں نے اپنا رُخ موڑ لیا ہےاچھا ئیوں میں سے صرف اتنا رہ گیا ہے جتنا برتن کی تہہ میں رہ جانے والا پانی اب زندگی ایسی ہی ذلت آمیز اور پست ہوگئی ہے جیسے کوئی سنگلاخ اور بنجرمیدان۔ کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جارہا؟ ایسے حالات میں مومن کے لیے بہترہے کہ وہ اپنے پروردگارسے ملاقات کی تمنا کرےسچ ہے کہ میں ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو سوائے رنج و ذلت کے کچھ اور نہیں سمجھتا اور ایسے حالات میں موت ہی کو سعادت سمجھتا ہوں۔ (موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۵۵)
یہاں بھی فریضے کی ادائیگی ہی پیش نظر ہے، لیکن ذرابلندی پرنظرآتی ہےاس سے پہلے تک شہادت اور مارے جانے کی بات نہ تھی لیکن اب ان حالات میں اِس بات کا امکان بہت زیادہ ہےایسا نہیں ہے کہ اِس مرحلے میں امام ؑ بس حصولِ شہادت کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں نہیں، حضرت ؑ حق کے دفاع اور باطل کی نابودی کے لیے کوشاں ہیں، خواہ اِس راہ میں قتل ہی کیوں نہ ہوجائیں یہاں عبارت بدلتی ہے، کہتے ہیں:
میں ظالمو ں کے ساتھ زندہ رہنے کو رنج وذلت کے سوا کچھ اور نہیں سمجھتا اور ایسے حالات میں موت ہی کو سعادت سمجھتا ہوں۔
یہاں پھرمقصد اور ہدف واضح و روشن ہےوہی اوّلین مقصد اب بھی سامنے ہےلیکن اب اِس نے زیادہ قوت اور شدّت حاصل کرلی ہےکیونکہ اب مقصد کی راہ میں جانثاری کا تذکرہ بھی ہے۔
اِن تمام کلمات کو سامنے رکھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ فریضے کی انجام دہی، یعنی حکومت کے خلاف جدوجہد کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں میں سنتِ پیغمبرؐ کا احیا اور بدعتوں کا خاتمہ امام حسین ؑ کا مقصد تھا امام ؑ قدم بقدم اپنے فریضے کی انجام دہی کی جانب بڑھے اور ہر موقع پر اِس کی مناسبت سے ردِعمل کا اظہار کیا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ کااقدام حصولِ حکومت کے لیے تھا ان کی یہ بات ہمارے بیان کردہ اس مقصد اورہدف سے ٹکراؤ نہیں رکھتی اور یہی بات ہے فریضے کی انجام دہی کے لیے حکومت کے خلاف جہاد لازم تھاامربالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا ضروری تھایہی فریضے اور ذمے داری کی انجام دہی ہے، اس کے سوا کوئی اور چیز نہیں جسے ایک دوسرے سے متصادم کہا جاسکے۔
شہادت کے لیے امام ؑ کی آمادگی اور اِس کا احساس
مدینہ سے مکہ اور پھر وہاں سے کربلا کی جانب سفر کے دوران امام حسین ؑ کے کلمات میں ایسی عبارتیں بھی ملتی ہیں جن میں امام حسین ؑ اپنی شہادت کی خبر دیتے نظرآتے ہیں مثلاً جب حضرت ؑ نے مدینہ سے عزمِ سفر کیا تو امِ سلمہؓ نے آپ ؑ سے کہا: ” عراق کے لیے نہ نکلئے کیونکہ میں نے رسول اللہ ؐسے سنا ہے کہ آپ ؐنے فرمایا تھا: میرا فرزند حسین عراق میں قتل کیا جائے گا۔“ حضرت ؑ نے فرمایا:
وَ اللّٰهِ اِنّی مَقْتُولٌ کَذٰلِکَوَاِنْ لَمْ أَخْرُجْ اِلیَ الْعِرٰاقِ یَقْتُلُونی أَیْضاً
آپ صحیح فرماتی ہیں، میں اسی طرح قتل ہوؤں گا جس طرح آپ فرماتی ہیں اگر میں عراق نہ جاؤں تب بھی مجھے قتل کر دیں گے۔ (موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۹۳)
یہ وہ خبر ہے جو حضرت امِ سلمہ کی حدیث کی تائید کرتی ہےحضرت ؑ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
اَ تٰانی رَسُولُ اللّٰهِ بَعْدَ مٰا فٰارَقْتُکَ فقال:یٰاحُسَیْنُ اُخْرُجْ فَاِنَّ اللّٰه قَدْشٰاءَ اَنْ یَرٰاکَ قَتیلاً
آپ سے جدا ہونے کے بعد پیغمبرؐ میرے خواب میں آئے اور فرمایا: اے حسین ؑ نکل کھڑے ہو! خدا کی مرضی یہی ہے کہ تمہیں مقتول دیکھے۔ (موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۹)
پھر مکہ میں ابن عباس اور ابن زبیر سے فرمایا:
اِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ قَدْ أَمَرَنی بِأَمْرٍ وَأَنَامٰاضٍ فیهِ
پیغمبر ؐنے مجھے ایک حکم دیاہے اور میں اس حکم کی تعمیل میں مشغول ہوں۔ (موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۵)
بظاہر یہ حکم وہی بات ہے جسے آپ ؑ نے خواب میں دیکھاتھابعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ کا اقدام ایک پہلے سے طے شدہ دستورِ عمل (program)تھا، جس کی انجام دہی پر امام ؑ مامور تھے، بعید نہیں کہ اِن لوگوں نے امام ؑ کے انہی کلمات سے یہ نظریہ اخذ کیا ہو۔
میری نظر میں یہ بات درست نہیں ہے کہ پیغمبر ؐنے امام حسین ؑ کی تحریک اور شہادت کا منصوبہ پہلے سے معین اور منظم کر رکھا تھا اوراُنہیں حکم دیا ہوا تھا کہ اسے تعبداً انجام دیںاصولی طور پربات یہ ہے کہ امام حسین ؑ اِس سفر کے دوران مختلف مواقع پر اپنی شہادت اور موت کو محسوس کررہے تھے۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ آپ ؑ کو اپنی شہادت کایقین ہو، البتہ آپ ؑ کو اِس کا احساس اور گمان تھا۔ بعض لوگ (امام خمینیؒ کے فرزند )حاج آقا احمد خمینی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے تھے کہ یہ میری زندگی کاآخری برس ہے۔ کیا وہ (احمد خمینی)علمِ غیب رکھتے تھے؟
خود میں نے بہت سے بزرگ افراد سے سنا ہے کہ وہ بعض حادثات کو قبل از وقت محسوس کرلیتے تھے۔ مومن انسان اپنی موت کاوقت نزدیک آنے پر اُسے محسوس کرلیتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ امام حسین ؑ نے جو خواب دیکھا اور جن کلمات میں حضرت ؑ نے اپنی موت اور شہادت کا ذکر کیا، اُن سے مجموعی طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ آپ ؑ موت اور شہادت قبول کرنے پر تیار تھے اِس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ حضرت ؑ نے طے کرلیا تھا کہ وہ شہید ہوں گے اورآپ ؑ ؑ گئے ہی حصولِ شہادت کے لیے تھے، لہٰذا امام حسین ؑ کا ہدف ہی شہادت تھاامام حسین ؑ شہادت کے لیے نہیں گئے تھے، بلکہ سنتِ پیغمبرؐ کے احیا اور بدعتوں کے خاتمے کے لیے آپ ؑ نے قیام فرمایاتھا، اب چاہے اِس اقدام کے نتیجے میں آپ ؑ کو شہادت قبول کرنا پڑے اس صورت میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ ؑ کا مقصد ہی حصولِ شہادت تھابلکہ مقصدایک ایسا امر تھا جسے انجام دینا لازم تھا، خواہ اِس کی قیمت شہادت کی صورت میں ادا کرنی پڑے۔
امام ؑ کی تحریک کے اصلاحی پہلو
سوال: جنابِ عالی! آپ کی نظر میں امام حسین ؑ کی تحریک اسلام کی حقیقی سیرت کے احیا کے لیے ایک اصلاحی قیام تھاکیا اس اصلاحی تحریک کے متعلق یہ تصور درست ہے کہ امام ؑ کی اصلاحی تحریک کے دو پہلو تھے ایک اُس زمانے کے اسلامی سماج میں پائی جانے والی دینی فکر اور دینداری کی اصلاح اور دوسرا اُس دور کے سماجی اور حکومتی نظام کی اصلاح۔
جو کچھ ہم اسلام کے بارے میں جانتے ہیں، اجمالی طور پر وہ یہ ہے کہ اسلام میں دو گانگی نہیں ہےاسلام ایک ایسی حقیقت ہے جو سیاسی امور میں بھی دخل رکھتا ہے، ثقافتی، سماجی، اخلاقی، اقتصادی اور رفاہی امور میں بھیدرحقیقت اسلام ایک مجموعہ ہے کہ اگر اس کے تمام اجزا پر عمل ہو، تو یہ دنیا اورآخرت دونوں میں انسانوں کی سعادت کا ضامن ہے۔
اِس امر (اسلامی نظام کے مکمل نفاذ) کو جامہ عمل پہنانے کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہےحکومت کا اس کے سوا کوئی کام نہیں۔ حکومت ہی کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کے اقتصادی امور کی بھی اصلاح کرے، معاشرے کی سیاست کو بھی صحیح خطوط پر چلائے، لوگوں کے عبادی امور کی انجام دہی کے لیے بھی راہ ہموار کرے، اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں سے بھی جنگ کرے، اچھے اخلاق کی ترویج بھی کرے، وغیرہ وغیرہحکومتِ اسلامی مجموعاً اِن تمام باتوں کی ذمے دارہے۔
وہ چیز جو امام حسین ؑ کی نظر میں باعثِ تشویش تھی اور جس کی خاطرآپ ؑ نے قیام کیا، تحریک چلائی، وہ یہ تھی کہ آپ دیکھ رہے تھے کہ سیرتِ پیغمبر ختم ہوچکی ہے اور اس کی جگہ دوسرے طریقے اختیار کرلیے گئے ہیں، ایسے طریقے جو اسلامی نہیں اگر پہلے حکومت دینی حدود میں ہوتی تھی، تو اب حکومت دین اور احکامِ شریعت کی پابندیوں سے آزاد ہوگئی ہے، ایک شہنشاہیت میں بدل گئی ہے۔ پہلے پیغمبر اسلامؐ معاشرتی امور اسلامی قوانین کی اساس پر چلاتے تھے، اب حاکم اپنی دلی خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے۔ پہلے پیغمبرؐبیت المال کو فقرا اور مساکین کے امور کی اصلاح کے لیے صرف کرتے تھے، اب اُسے حکومت بچانے کے لیے لٹایا جارہا ہےپہلے پیغمبراسلام ؐ نے بعض کاموں کی ممانعت کی تھی، اب حکمراں خودانہی کاموں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
اِس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ جب کوئی عمل معاشرے کا حکمراں انجام دینے لگتا ہے، تو عام لوگوں میں بھی وہ عمل رائج ہوجاتا ہےعبادت میں بھی اسلام پر عمل نہیں ہورہا تھاامام حسین ؑ دیکھ رہے تھے کہ حق کی پروا نہیں کی جاتی اور اِس پر عمل نہیں ہوتاآپ ؑ کو بخوبی علم تھا کہ نہی عن المنکر کرنے کے لیے اِس حکومت کے خلاف مختلف پہلوؤں میں جدوجہد کرنا ہوگی اور اِسی مقصد کے لیے آپ ؑ نے اپنی تحریک کاآغاز کیا، حکومت کو نابود کرنے اور اگر ممکن ہو تو حکومتِ حق کے قیام کے لیے اقدام کیا۔
امامؑ کی تحریک میں فریضے کی انجام دہی اور مقصد و غایت کو کیسے یکجا کیا جائے؟
سوال: بعض محققین کہتے ہیں کہ فریضے کی ادائیگی میں ہدف و غایت کو نہیں دیکھا جاتایعنی انسان پر لاز م ہے کہ ہر صورت میں اپنا فرض ادا کرے، خواہ مقصد حاصل ہو یا نہ ہولیکن آپ نے اِن دونوں باتوں کو یکجا قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ آپ اِن دونوں کو یکجا کرنے کی وضاحت کس طرح کریں گے؟
اِن دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں، درحقیقت یہ ایک ہی چیز ہےامام حسین ؑ کا مقصد تمام شعبوں میں حق کا احیا اور باطل کی نابودی تھااس ہدف کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ امام ؑ ایک راستہ اپنائیںامام ؑ نے وہ راستہ تلاش کیا اور اس کاآغاز حکومت کے خلاف ردِعمل اور اس سے ناراضگی کے اظہار سے کیا۔
اوّلین مرحلے ہی میں جب امام ؑ نے یزید کی بیعت قبول نہ کی، تواُن کے مقصد کا ایک حصہ مکمل ہوااس مرحلے میں مقصد کے حصول کا راستہ حکومت کے خلاف ردِعمل اور اس کی مخالفت تھا۔
میں پیغمبرؐ کا نواسہ اِس حکومت سے راضی نہیں، اِس کے افعال کو پسند نہیں کرتابس یہ حکومت ایک اسلامی حکومت نہیں ہے۔
اِس عمل سے امام ؑ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ بھی ادا کیا اور اپنے مقصد کو بھی حاصل کیااگر بالفرض اِس کے بعد امام حسین ؑ کوئی قدم نہ اٹھاپاتے، تب بھی اپنے مقصد تک پہنچ چکے تھےآپ ؑ کے مکہ جانے سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوااگر اِس کے بعدکے مراحل بھی واقع نہ ہوتے، تب بھی امام ؑ نے اپنا فریضہ انجام دے دیا تھا اور کامیابی حاصل کرلی تھیاِس کے بعد بھی اگرامام ؑ جاتے اور حکومت کی تشکیل میں کامیاب ہوجاتے، تو اپنا مقصد پالیتے اور اگرحکومت حاصل نہ کرپاتے اور اِس راہ میں جامِ شہادت نوش کرلیتے، تب بھی اپنے مقصدکو حاصل کرلیتے کیونکہ آپ ؑ کامقصد امربالمعروف اور سیرتِ پیغمبر ؐ کا احیا تھا۔
دوسری تحریکوں کے درمیان ہدف اور مقصد کا فرق نمایاں ہےجولوگ اس تحریک کو دوسری بشری تحریکوں ہی میں سے ایک تحریک سمجھتے ہیں، اُنہوں نے دراصل اس کے اہداف و مقاصد کو نہیں سمجھاعالی مرتبہ مسلم محققین نے بھی اس کے اسرار کے کسی خاص گوشے ہی سے پردہ اٹھایا ہے، لیکن اس کی بہت سی حکمتیں تا ہنور پوشیدہ ہیں کیا اِس تحریک کی وجہ(امام حسین ؑ کی جانب سے) یزید کی مخالفت اور اُس کی بیعت سے روگردانی تھی؟ کیا تحریک کا محرک کوفیوں کی دعوت تھا؟ یا اس کاسبب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قیام تھا؟ یا ان مذکورہ عوامل کے علاوہ کوئی اور عامل انقلابِ کربلا کا موجب تھا؟
تحریف کرنے والے سادہ لوح افراد کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ نے اپنے نانا کی گناہگار امت کی شفاعت کے لیے یہ قیام کیایہ طرزِ فکر عیسائیوں کے اس عقیدے کی مانند ہے جو وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں رکھتے ہیں۔
بعض دوسرے لوگ یزیدی حکومت کی نابودی، قبائلی رنجش اور بنی امیہ سے انتقام لینے کوامام حسین ؑ کی تحریک کا بنیادی مقصد قراردیتے ہیں کچھ مقدس اور محدث حضرات بھی امام ؑ کے قیام کو ایک خاص غیبی دستورِ عمل(program) کی پیروی قرار دیتے ہیں جبکہ اگر ایسا ہو تو یہ قیام دوسروں کے لیے درسِ عمل اور قابلِ پیروی نہیں رہتا۔
ایک اہلِ سنت عالم ” عبداﷲ علائلی“ لکھتے ہیں:
” مجھے اِن تاریخ نگاروں پر تعجب ہے جو بے انصافی کرتے ہوئے امام حسین ؑ پر بغاوت کی تہمت لگاتے ہیں اور تلخ لہجے میں ان کا ذکر کرتے ہیں میں ان جوانمردوں کو داد دیتا ہوں جوبد عنوان حکومتوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں، تاکہ ان حالات کو بدل کر مناسب اور مطلوب حالات وجود میں لائے جاسکیں اور ان لوگوں کے اخلاص، شرافت اور عزمِ صمیم سے معمور قلوب کو آفرین کہتا ہوں ان جوانمردوں کے سالار حسین ابن علی ؑ ہیں، حسین ؑ جو حق کے مدافع اور نگہبان تھے، آپ ؑ نے اس مقصد کے لیے اپنے آپ کو آگ میں جھونک دیا وہ بخوبی جانتے تھے کہ دشمن نے یہ آگ آپ ؑ کی دعوت اور تحریک کو ختم کرنے کے لیے بھڑکائی ہے لیکن امام ؑ کی آوازِ حق نے اس آگ کو اور شعلہ ور کر دیا، وہ مزید بھڑک اٹھی اور اس کے شعلوں نے ان لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر نابود کر دیا جنہوں نے ناحق اس آگ کو بھڑکایا تھا۔“
مشہور مصری مصنف ” عباس محمود عقاد“ لکھتا ہے:
” حسین ؑ الٰہی اور روحانی شخصیت کے مالک تھےان کا بپاکردہ انقلاب ان کی بلند مرتبہ، باصفا اور گہری الٰہی روح کا عکاس ہےاس کے برعکس یزید صرف اِس دنیا کی مستی، عیش وعشرت اور لذتوں پر یقین رکھتا تھا اور اس کے تمام اعمال پستی میں لے جانے والے تھے۔“ (حیات الحسین ؑ ج ۱ص ۵۶)
امام حسین ؑ کا قیام اسلام کی مانند وسیع اور جامع پہلوؤں کا حامل تھاایک طرف تو یہ تمام انبیا ؑ کے مقاصد کی تکمیل اور بقائے دین کا موجب تھا، تو دوسری طرف انسانی اقدار اور فضیلتوں کے احیااوربیدار ضمیروں اور سالم فطرتوں کو ابھارنے کاباعث بنااسی بنا پر یہ دینی تحریکوں کے رہنماؤں کے لیے آئیڈیل اورآزادی کی تمام تحریکوں کے لیے نمونہ عمل بن گیاغیر مسلم رہنما بھی اپنی قوموں کی نجات اور آزادی کے لیے، امام حسین ؑ کے انقلاب سے رہنمائی لیتے تھے۔
عاشورا کی تحریک میں چند مسائل کوبنیادی کردار حاصل ہے اوراِنہیں انقلابِ کربلا کے اصولوں میں شمار کرناچاہیےجبکہ دوسرے مسائل کو اِن کی فرع سمجھنا چاہیےیہ بنیادی مسائل درجِ ذیل ہیں:
(۱) حکومت اور خلافتِ اسلامیہ کا تحفظ
حکومت کا موضوع ہمارے مکتب میں بنیادی ترین مسائل میں شمار ہوتا ہےامام محمد باقر ؑ کا ارشاد ہے:
بُنِی الْاِسْلامُ عَلیٰ خَمْسٍ:عَلَی الصَّلوٰ ةِ وَ الزَّکوٰ ةِ وَالصَّوْمِ وَ الْحَجِّ وَالْوِ لا یَةِ وَلَمْ یُنادَ بِشَیْ ءٍ کَمانودِیَ بَالْوِلایَهِ
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:نمازپر، زکات پر، روزے پر، حج پر اور ولایت پر، لیکن جتنی (اہمیت کے ساتھ)ولایت کی طرف دعوت دی گئی ہے اتنی کسی اور چیز کی جانب دعوت نہیں دی گئی۔ (وسائل الشیعہ۔ ج۱۔ ص۴)
گویا نماز، روزہ، حج اور زکات صامت احکام میں سے ہیں اور لوگوں کو عام انداز میں اُن کی طرف دعوت دی گئی ہے لیکن خداوندِ عالم نے ولایت پر خاص توجہ دی ہےکیونکہ حکومت دین کی حیات و روح اور احکام کے اجرا ونفاذکا ذریعہ ہےجس طرح باطل حکومت تمام فضیلتوں کے خاتمے اور ہر قسم کی برائیوں کی نشو و نما کا سبب ہوتی ہے، اسی طرح حکومتِ حق برائیوں کی نابودی اور معنوی اقدار اور فضائل کے رواج کا باعث ہوتی ہے۔
اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِوَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَوْلِیٰؤُهُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ
اﷲ صاحبانِ ایمان کاولی ہے اور وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے، اورکفار کے ولی طاغوت ہیں جوانہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں(سورہ بقرہ ۲آیت ۲۵۷)حکومتِ اسلامی میں حکمراں کی صلاحیت علم، تقویٰ، عدالت اور زہد و پارسائی پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد حکومت کے اپنے اصل راستے سے ہٹ جانے اور اہلِ بیت علیہم السلام کو ایک طرف کر دینے کے نتیجے میں طاقت اور مکروفریب کی حکمرانی کے لیے میدان ہموار ہو گیایہاں تک کہ حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں تمام حساس عہدوں پر بنی امیہ کے افراد بیٹھ گئےحضرت علی ؑ کے بقول:
وَقَامَ مَعَهُ بَنُوأَبِیهِ یَخْضَمُونَ مَالَ اﷲِ خِضْمَةَ الْاِ بِل نِبْتَةَ الرَّبِیعِ
اور ان کے ساتھ ان کے خاندان والے بھی کھڑے ہو گئے جو مالِ خدا کواس طرح ہضم کر رہے تھے جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کوچر لیتا ہے۔ (:- نہج البلاغہ خطبہ ۳)
اِس طرح بنی امیہ کی قوت میں اضافہ ہوا اور بیت المال میں اُن کاخوردبرد اوراُن کا عیش وعشرت روز بروز بڑھنے لگااِس صورتحال پر علمی شخصیات، بزرگ اصحابِ رسول، عام افراد اورحد یہ ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ کی تنبیہ بھی کارگر نہ ہوئی بلکہ لوگوں کے حقوق پر تجاوز، قانون شکنی، امت کی خواہشات اور مطالبات سے بے اعتنائی، اپنے اعزہ و اقربا کو معاملات میں شامل کرنے اور اصحابِ پیغمبر کوعلیحدہ کرنے جیسے امور بڑھنے ہی لگےممتاز افراد نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی اور مثبت و منفی، علانیہ اورخفیہ حکومت کے خلاف تحریک زور پکڑنے لگی ۔نیک سیرت افراد، علما اور گرامی قدر محدثین کلیدی ذمے داریوں اورحکومتی مناصب سے کنارہ کش ہوگئےلہٰذا حکام نے اِس خلا کو پُرکرنے کے لیے کعب الاحبار اور ابوہریرہ جیسے لوگوں کا سہارا لیااِن لوگوں نے اس حکومت کے جواز اور استحکام کے لیے احادیثِ نبوی وضع کیں حضرت عثمان کے بعد بے انصافیوں سے تنگ آئے ہوئے عوام کے پُرزور مطالبے پر حضرت علی ؑ بارِ خلافت اٹھانے پر تیار ہو ئےاپنے دورِ اقتدار میں آپ ؑ کو مسلسل جنگوں کا سامنا رہا، جس کے نتیجے میں معاویہ کی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔
امام حسن ؑ کو بحالتِ مجبوری معاویہ سے جنگ ترک کرنا پڑیامام حسین ؑ ظلم وستم، بدعتوں کے رواج اور قتل و غارت گری کا بازار گرم دیکھ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافریضہ انجام دیتے رہے اور لوگوں کوبیدار کرتے رہے معاویہ کا سب سے بڑا مکروہ عمل یزیدکو بطورِ ولی عہد مسلط کرنا اور خلافت کو اُس کے اصل راستے سے ہٹانا ہے۔
معاویہ کی موت کے بعداپنی نفسانی خواہشات کا غلام، کتوں سے کھیلنے والا یزید مسلمانوں کا حاکم بناوہ مکالمے اور نصیحت سے ناآشنا تھااسلام کو نابود کر دینے کے سوا اس کا کوئی اورمقصدنہ تھا یہ وقت ایک ایسی تحریک کا تقاضا کر رہا تھا جو اسلام کو نابودی سے محفوظ رکھ سکےیزید خود کو امیر المو منین اورخلیفہ رسول کہتا تھااس کے اس دعوے کے فریب میں صرف جاہل عوام اور لاعلم شامی ہی آ سکتے تھےالبتہ یزید کے علانیہ کفر آمیز اشعار، شراب نوشی، اور اس کے سابقہ قبیح کردار نیز بعض اصحابِ رسول کی جانب سے اس کی مخالفت نے بنی امیہ کی ” یزید کو خلیفہ مسلمین کہنے کی“ خواہش پوری نہ ہونے دیلیکن یزید کی حکومت کو جائز قرار دلوانے کے لیے انہوں نے ” شریح قاضی“ جیسے لوگوں کو تلاش کرہی لیا۔
دوسری طرف امام حسین ؑ اعلیٰ اسلامی اقدار کے احیا کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھےجب آپ ؑ نے کربلا کی سمت سفر کا آغاز کیا، تو آپ ؑ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے آپ ؑ سے کہا: اگر آپ ؑ سفر پر روانہ ہو ہی رہے ہیں، تو کم از کم ان عورتوں اور بچوں کو اپنے ہمراہ نہ لے جایئےامام ؑ نے اُنہیں جواب دیا:
وَقَدْ شٰاءَ اﷲ اَنْ یَراهُنَّ سَبٰایٰا
اﷲ کی مرضی ہے کہ یہ بھی قید کیے جائیں۔ (لہوف ص ۲۷)
امام ؑ کے اس قول سے پتا چلتا ہے کہ عاشورا کی تحریک کو ان پہلوؤں اور اس کے بعد کے حوادث کے اعتبار سے دوسری تمام تحریکوں سے ممتاز ہونا چاہیے، تاکہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ عمل اور آئیڈیل قرار پائےایک ایسی تحریک ہو جس میں شیر خواربچے سے لے کر اسّی سالہ بوڑھا تک جانثاری اور فداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق کا پرچم بلند رکھے، اپنا خون نچھاور کرے اور اِس کارواں کی خواتین کے اسیر ہوجانے کے ذریعے بنی امیہ کی استبدادی حکومت کے زوال کے لیے زمین ہموار ہو۔
(۲) اسلام کی حفاظت اور دین کا احیا
اسلام کی حفاظت امام حسین ؑ کی تحریک کا دوسرا محرک (motive)تھاجیسا کہ کہا گیا ہے بنی امیہ کے ہاتھوں اسلام کی تباہی کی راہ ہموار ہو رہی تھی، اِن کاخفیہ ایجنڈا اسلام کی نابودی اور پیغمبر اسلام ؐکے نام کو مٹانا تھایہاں ہم عاشورا کے قیام کا اصل سبب واضح کرنے کے لیے امام حسین ؑ کے کلمات اور تاریخی شواہد سے کام لیں گے۔
الف: ابوسفیان نے اپنے اقربا اور بیٹوں سے کہا تھا:
” خلافت ایک دوسرے کو منتقل کرتے رہنا، تاکہ یہ تمہاری اولادوں میں وراثت کے طور پر پہنچتی رہے۔“
ب: مسعودی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:
” مطرف بن مغیرہ نے کہا کہ معاویہ کے دربار میں میرے والد کی کافی آمد ورفت تھی اوروہ اکثر معاویہ کی تعریف و تمجید کیاکرتے تھےایک روز وہ دربار سے واپس آئے تو بہت غصے میں تھے اور مضطرب دکھائی دیتے تھےمیں نے دریافت کیا: کیا بات ہے آپ کیوں دل گرفتہ اور ملول نظر آ رہے ہیں؟ اُنہوں نے کہا:مجھے معلوم نہ تھا کہ معاویہ ایسا شخص ہے۔ اب مجھے پتا چلا ہے کہ وہ تو ہمارے زمانے کا سب سے زیادہ خراب آدمی ہےمیں نے پوچھا: بتایئے تو ہوا کیا ہے؟ کہا: میں نے اُس سے کہا کہ اب جبکہ تم نے اپنا مقصود حاصل کر لیا ہے، تو اپنی عمر کے ا س آخری حصے میں لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، اور بنی ہاشم کو ستاناچھوڑدو، تاکہ تمہارے بعد تمہارانام احترام اور نیکی کے ساتھ لیا جائےاِس پرمعاویہ نے کہا: افسوس، افسوس ابوبکر نے عدل و انصاف سے کام لیا لیکن دنیا سے گزر جانے کے بعد اُن کانام بھی باقی نہ بچاعمر اور عثمان بھی اسی طرح بے نام گزر گئے لیکن برادرِ ہاشم! تمام اسلامی شہروں میں ہر روز پانچ مرتبہ اذان میں اُس کی گواہی دی جاتی ہےاب نیک نامی کے لیے کونسا عمل باقی رہا ہے۔“ (مروج الذھبج ۲ص ۲۶۶)
اِس حقیقت کی عکاسی امام حسین ؑ کے کلمات اور خطبات سے بھی ہوتی ہےامام ؑ اسلام اور قرآن کے لیے پائے جانے والے ایک بڑے خطرے سے پردہ ہٹاتے ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، اہلِ کوفہ کی دعوت اور یزید کابیعت طلب کرنا فرعی مسائل ہیں، اصل چیز بقائے اسلام اورحکومت کا قیام ہےاِس بارے میں امام ؑ کے کلمات اور خطبات ملاحظہ ہوں:
(۱) معاویہ کی موت سے دوسال قبل امام حسین ؑ نے مکہ میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا:
اَمَّا بَعْدُ فَاِنَ هٰذَه الطّٰاغِیَةَ قَدْ فَعَلَ بِنٰا وَ بِشیعَتِنٰا مٰاقَدْ رَأَیْتُمْ وَعَلِمْتُمْ وَشَهِدْتُمْ وَاِنّی اُریدُ أَنْ أَسأَلَکُمْ عَنْ شَیْءٍ فَاِنْ صَدَقْتُ فَصَدِّ قُونی، وَاِنْ کَذِبْتُ فَکَذِّبُونی، اِسْمَعُوا مَقٰالَتی وَاکْتُبُوا قَوْلی ثُمَّ ارْجِعُوااِلیٰ اَمْصٰارِکُمْ وَقَبٰاءِلِکُمْ فَمَنْ آمَنْتُمْ مِنَ النَّاسِ وَوَثِقْتُمْ بِهِ فَادْعُوهُمْ اِلٰی مٰا تَعْلَمُونَ مِنْ حَقِّنٰا فَاِنّی أَ تَخَوَّفُ اَنْ یَدْرُسَ هَذَا الْاَمْرُ وَیَذْهَبَ الْحَقُّ وَیُغلَبَ، وَاﷲُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْکَرِهَ الْکٰافِرُونَ
اِس شخص نے ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ جو ظلم وستم روا رکھا ہواہے، وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ آپ کے علم میں ہے اور آپ اس کے گواہ ہیں۔ آج میں آپ سے کچھ امورکے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں اگر میں حقائق پیش کروں، تو میری تصدیق کیجیے گا بصورتِ دیگر بلا جھجک میری بات جھٹلا دیجیے گامیری باتوں کو سنیے اور انہیں لکھ لیجیے، پھر جب اپنے شہروں کوپلٹیے اور اپنے قبیلوں میں واپس جایئے، تو اپنے قابلِ اعتماد ہم وطنوں کو ہمارے اور ہمارے حق کے بارے میں جو کچھ جانتے ہوں اُس کی دعوت دیجیے کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں یہ دین حق فرسودہ ہو کر سرے سے ختم ہی نہ ہو جائےاور خداوندِ قدوس اپنے نور کو مکمل کر دیتا ہے چاہے انکار کرنے والوں کے لیے یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ (مقتلِ مقرم ص ۱۲۷، مقتلِ امین ص ۲۲)
(۲) مدینہ میں یزید کے گورنر ولید بن عتبہ بن ابی سفیان نے جب امام ؑ سے یزید کی بیعت کا تقاضا کیا، تو آپ ؑ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا:
أَیُّهَا الْأَمیرُ! انّٰا أَهْلُ بَیْتِ النُّبُوَّة وَمَعْدِنُ الرِّسٰالَةِ وَمُخْتَلَفُ الْمَلاٰءِکَةِ وَبِنٰافَتَحَ اﷲُ وَبِنٰاخَتَمَ، وَیَزیدُ رَجُلٌ فٰاسِقٌ شٰارِبُ خَمْرٍ قٰاتِلُ النَّفْسِ الْمُحَرَّمَةِ مُعْلِنٌ بِالْفِسْقِ، وَمِثْلی لاٰیُبٰایِعُ لِمِثْلِهِ، وَلٰکِنْ نُصْبِحُ وَ تُصْبِحُونَ وَنَنْتَظِرُوَتَنْتَظِروُنَ أَ یُّنٰاأَحَقُّ بِالْخِلاٰفَةِ وَالْبَیْعَةِ۔
اے امیر! ہم اہلِ بیتِ نبوت اور معدنِ رسالت ہیں، ہمارے ہی یہاں فرشتوں کی آمد و رفت رہی ہے، ہم ہی سے خدا نے آغاز کیا اور ہم ہی پر اختتام کرے گایزید ایک فاسق شخص ہے جو شراب پیتا ہے، نیک لوگوں کو قتل کرتا ہے اور فسق و فجور کا کھلم کھلا ارتکاب کرتا ہےمجھ جیسا انسان اُس جیسے شخص کی بیعت نہیں کر سکتالیکن ہم بھی صبح تک دیکھتے ہیں تم بھی دیکھو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں، تم بھی انتظار کرو کہ ہم میں سے کون خلافت اور بیعت کا زیادہ حق دار ہے۔ (امالئ صدوق ص ۱۳۰)
(۳) مروان بن حکم سے آپ ؑ کی ملاقات ہوئی، تو اُس نے کہا کہ آپ ؑ یزید کی بیعت کر لیجیے، دنیا اور آخرت میں آپ ؑ کی بھلائی اِسی میں ہےیہ سن کر امام ؑ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا:
اِنّٰالِلّٰهِ وَاِنّٰاالَیْهِ رٰاجِعُونَ وَعَلیَ الْاِسْلاٰمِ اَلسَّلاٰمُ اذْ قَدْبُلِیَتِ الأُمَّةُ بِرٰاعٍ مِثْلِ یَزیدَ، وَلَقَدْسَمِعْتُ جَدّی یَقُولُ:أَلْخِلاٰ فَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلیٰ اٰلِ ابی سُفْیٰان
انا ﷲ واناالیہ راجعون (یعنی اب ہمیں اسلام پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے اور اسلام کو الوداع کہہ دینا چاہیے) اب امت یزید جیسے حاکم کے شکنجے میں آ گئی ہے میں نے اپنے نانا رسول اﷲ ؐسے سنا ہے کہ آپ ؐ فرماتے تھے: خلافت اولادِ ابو سفیان کے لیے حرام ہے۔(مقتلِ مقرم ص ۱۳۰، لہوف ص ۱۳، مثیرالاحزان ص ۱۰)
(۴) معروف مؤرخ طبری کہتا ہے کہ امام حسین ؑ نے ” ذی حسم“ کے مقام پر درجِ ذیل مضمون کا ایک خطبہ ارشاد فرمایا:
اِنَّهُ قَدْ نَزَلَ مِنَ الْأَمْرِمٰاقَدْ تَرَوْنَ وَاِنَّ الدُّنْیٰا قَدْ تَغَیَّرَتْ وَ تَنَکَّرَتْ وَأَدْبَرَمَعْرُوفُهٰا وَاسْتَمْرَّتْ جِدّاًوَ لَمْ یَبْقَ مِنْهٰا اِلاّٰ صُبٰابَةٌ کَصُبٰابَةِ الْاِنٰاءِ وَخَسیْسِ عَیْشٍ کَالْمَرْعَی الْوَبیلِ۔
تم دیکھ رہے ہو کہ حالات کہاں پہنچ گئے ہیں دنیا بدل گئی ہے، اس کی اچھائیاں ختم ہو گئی ہیں اور برائیاں چھا گئی ہیں اب اس میں سے اتنا بچا ہے جتنا برتن کی تہہ میں بچ رہنے والے چند قطرے اور ایسی ذلت آمیز زندگی جیسے سخت اور بنجر زمین۔ (مقتلِ مقرم ص ۱۳۰، لہوف ص ۱۳)
اِس کے بعد فرماتے ہیں:
أَلاٰ تَرَوْنَ أَنَّ الْحَقَّ لاٰ یُعْمَلُ بِهِ وَانَّ الْبٰاطِلَ لاٰ یُتَنٰاهیٰ عَنْهُلِیَرْغَبَ الْمؤْمِنُ فی لِقٰاءِ اللّٰهِ مُحِقّاً
کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل کی روک تھام کی کوشش نہیں کی جاتیایسے حالات میں مومن کو خدا سے ملاقات کی آرزو کرنی چاہیے۔ (:- تحف العقول ص ۱۷۴، تاریخِ طبریج ۷ص ۳۰۰، لہوفص۶۹، تاریخِ ابن عساکرص ۲۱۴، مثیرالاحزانص ۲۳۰، مقتلِ خوارزمیج ۲ص ۵)
فَاِنّی لاٰأَرَی الْمَوْتَ اِلاّٰ سَعادَةً وَالْحَیٰاةَ مَعَ الظّٰالِمینَ اِلاّٰ بَرَماً۔
میں تو ایسی موت کو سعادت سمجھتا ہوں اور ظالمین کے ساتھ زندہ رہنے کو ذلت۔ (بلاغۃ الحسین ؑ ص ۸۶)
سَاَمْضِی وَمٰابِالْمَوْتِ عٰارٌعَلَی الْفَتیٰ
اِذٰا مٰانَویٰ حَقّاً وَجٰاهَدَ مُسْلِماً
وَوٰاسیَ الرِّجٰالَ الصّٰالِحینَ بِنَفْسِهِ
وَفٰارَقَ مَثْبُوراًوَخٰالَفَ مُجْرِماً
فَاِنْ عِشْتُ لَمْ اَنْدَمْ وَاِنْ مِتُّ لَمْ أُلَمْ
کَفیٰ بِکَ ذُلاًّ أََنْ تَعیشً وَتَرْغَمٰا
میں یہی راہ اپناؤں گاجواں مرد کے لیے موت عیب نہیں اگر وہ حق کی راہ میں اور اسلام کی خاطر مصروفِ جہاد ہو، پھر جبکہ وہ صالح انسانوں کی مدد کرتے ہوئے اپنی جان فدا کر دے، ظالموں سے دورہو اور مجرموں کا مخالفاگر زندہ رہا تو مجھے کوئی پشیمانی نہ ہوگی اور نہ ہی مارے جانے کی صورت میں کوئی رنج۔ جبکہ تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ تم یہ ذلت بھری زندگی بسر کرو۔ (اصابہج ۳ص ۴۸۰، تاریخِ طبریج۳ص ۲۸۰، مثیر الالحزان ص ۲۸۰)
(۵) امام حسین ؑ نے مکہ تشریف لانے کے بعد بصرہ کے عمائدین اور سرداروں میں سے مالک بن مسمع، احنف بن قیس، منذر بن جارود، مسعود بن عمرو، قیس بن الہیثم اور عمرو بن عبید کے نام ایک خط لکھا، جس میں فرمایا:
أَمّٰابَعْدُ:فَاِنَّ اﷲَ اصْطَفیٰ مُحَمَّداً ( ص) مِنْ خَلْقِهِ، وَأَکْرَمَهُ بِنُبُوَّتِهِ، وَاخْتٰارَهُ لِرِسٰالَتِهِ، ثُمَّ قَبَضَهُ اِلَیْهِ وَقَدْ نَصَحَ لِعِبٰادِهِ وَبَلَّغَ مٰااُرْسِلَ بِهِ(ص) وَکُنّٰاأَهْلَهُ وَأَوْلِیٰاءَ هُ وَأَوصِیٰاءَ هُ وَوَرَثَتَهُ وَأَحَقَّ النَّاسِ بِمَقٰامِهِ فِی النّٰاسِ، فَاسْتَأْ ثَرَعَلَیْنٰا قَوْمُنٰابِذٰلِکَ، فَرَضینٰاوَکَرِهْنَا الْفُرْقَةَ وَأَحْبَبْنَاالْعٰافِیَةَ، وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنّٰاأَحَقُّ بِذٰلِکَ الْحَقِّ الْمُسْتَحَقِّ عَلَیْنٰا مِمَّنْ تَوَلاّٰهُ وَقَدْ بَعَثْتُ رَسُولِی اِلَیْکُمْ بِهٰذَا الْکِتٰابِ، وَأَنَاأَدْعُوکُمْ اِلیٰ کِتٰابِ اﷲِ وَ سُنَّةِ نَبیِّهِ(ص)، فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْاُمیتَتْ، وَالْبِدْعَةَ قَدْ اُحیِیَتْ، فَاِن تَسْمَعُوا قَوْلِی اَهْدِکُمْ اِلیٰ سَبِیلِ الرَّشٰادِ، وَالسَّلاٰمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرکٰاتُهُ
اما بعد! خدا نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی مخلوقات میں سے منتخب کیا، نبوت سے اُنہیں بزرگی بخشی اور رسالت کے لیے اُن کا انتخاب کیا اور جب اُنہوں نے رسالت کے فریضے کو بحسن و خوبی انجام دے لیا اور بندگانِ خدا کی ہدایت اور رہنمائی فرما چکے، تو حق تعالیٰ نے اُنہیں اپنے پاس بلا لیاہم لوگ اُن کے اہل، وصی، وارث اور تمام امت میں اُن کے مقام کے سب سے زیادہ حقدار تھےلیکن ایک گروہ نے ہمارا یہ حق ہم سے چھین لیااور ہم نے یہ جاننے کے باوجود کہ ہم ان لوگوں سے زیادہ لائق اور حقدار ہیں امت کو اختلاف اور انتشار سے بچانے اور دشمنوں کے تسلط سے محفوظ رکھنے کے لیے اِس صورتحال پر رضا و رغبت کا اظہار کیا اور مسلمانوں کے امن و سکون کو اپنے حق پر ترجیح دی البتہ اب میں نے اپنا پیغام رساں تمہاری طرف بھیجا ہے اور تمہیں کتابِ خدا اور سنتِ پیغمبرؐ کی طرف دعوت دے رہا ہوںکیونکہ اب ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ سنتِ رسول ؐمٹا دی گئی ہے اور اس کی جگہ بدعت نے لے لی ہےاگر تم نے میری بات سنی تو میں سعادت اور خوش بختی کے راستے کی جانب تمہاری ہدایت کروں گاوالسلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ۔ (تاریخِ طبری ج ۳ص ۳۰۶، ، احقاق الحق۔ ج۱۱۔ ص ۶۰۹، مقتلِ خوارزمی۔ ج۱۔ ص ۲۲۴)
امام حسین ؑ اپنی شہادت، عاشورا کی تحریک کے ثمرات اوراپنے اہلِ بیت ؑ کی اسیری سے پوری طرح واقف تھے نیز آپ ؑ جانتے تھے کہ دین کی بقا اور اُس کے احیا کے لیے جہاد و شہادت کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔
لَوْکُنْتُ فی جُحْرِهٰامَّةٍ مِنْ هٰذِهِ الْهَوٰامِّ لاَسْتَخْرَجُونِی حَتّٰی یَقْضُوا فیَّ حَاجَتَهُمْ
اگر میں حشرات کے بلوں میں بھی جا چھپوں، تب بھی یہ لوگ مجھے وہاں سے نکال لیں گے تاکہ اس طرح اپنا مقصد پورا کر لیں۔
امام ؑ کے پاس صرف دو راستے تھے یا تو جہاد و شہادت کی راہ اپنائیں یا کفروگمراہی کا راستہ منتخب کریں، تیسری کوئی راہ نہ تھی ظاہر ہے امام حسین ؑ نے پہلا ہی راستہ اختیار کیاکیونکہ یزیدی حکومت اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر کمر بستہ تھی اور عامتہ الناس کا جہل اور لاعلمی ان کے اس مقصد کی تکمیل میں ان کی مدد کر رہے تھے زیارتِ اربعین کے ایک حصے میں اس بات کی جانب اِن الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:
وَبَذَلَ مُهْجَتَهُ فیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبٰادَکَ مِنَ الْجَهٰالَةِ وَحَیْرَةِ الضَّلاٰلَةِ
اور تیری راہ میں اپناخون نچھاورکیا، تا کہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی کی سرگردانی سے نجات دلائیں۔ (مفاتیح الجنان ص ۸۵۶)
عاشورا کا قیام صرف اس لیے نہ تھا کہ امام ؑ یزید کی بیعت نہیں کرنا چاہتے تھے، کیونکہ اگر صرف بیعت نہ کرنا مقصود ہوتا، تو امام ؑ اِس علاقے سے چلے جاتے اور جزیرہ عرب سے باہر نکل جاتے جس طرح اور بہت سے لوگ فتنے کے مقام سے دور چلے گئے اور بیعت نہ کی اور نہ ہی آپ ؑ کے قیام کا محرک کوفیوں کی دعوت پر لبیک کہنا تھا کیونکہ ایک تو امام ؑ انہیں خوب اچھی طرح جانتے تھے (اور اِس بات کی جانب محمد بن حنفیہ نے بھی آپ ؑ کو متوجہ کیا تھا کہ اہلِ کوفہ بے وفا ہیں، انہوں نے آپ ؑ کے والد اور بھائی کے ساتھ بھی بے وفائی کی تھی) دوسرے یہ کہ امام ؑ کے لیے حضرت مسلم بن عقیل ؑ کی شہادت بھی کوفہ کی جانب سفر ترک کر دینے کے لیے کافی تھی۔
در اصل اِس مقدّس تحریک میں امام ؑ کے پیش نظر دو بنیادی مقاصد تھے۔
*ایک دین کو نابودی سے بچانا اور اسلام و قرآن کی بقا۔
* اور دوسرا بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ، خلافتِ اسلامیہ کا تحفظ اور اِس کے موروثی ہونے کی بدعت کے خلاف جہاد۔
امام ؑ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، بیعت سے پرہیز اور کوفیوں کی دعوت قبول کرنے کی بابت جو کچھ فرمایا، وہ دراصل لوگوں کو آگاہ کرنے، حالاتِ حاضرہ پر اُن کی توجہ مبذول کرانے، اُن پر اتمامِ حجت کرنے اور اپنے آپ کو نام نہاد خلیفۃ المسلمین کے خلاف خروج کی تہمت سے بچانے کے لیے تھا۔
کتاب ” العواصم والقواصم“ میں ابن عربی نے لکھا ہے : ” حسین ؑ اپنے جد کی تلوار سے قتل ہوئے۔ کیونکہ جب لوگوں نے یزید کی بیعت کرلی اور اربابِ حل و عقد کے اجماع کے ذریعے اُس کی خلافت پر اتفاق ہوگیا، تو حسین ؑ نے بلا کسی جواز کے اپنے زمانے کے امام (یزید ) کے خلاف خروج کیا، جو اُن کے قتل کا سبب بنا۔“
یہی وجہ تھی کہ امام ؑ نے ہرہر قدم پر یزید کے فاسق و فاجر اور ظالم ہونے کا اعلان کیااور خلافت کے لیے اپنی لیاقت اور اولویت کا بار ہا ذکرکیانیز واضح کیا کہ خرابی کی جڑ حکومتِ یزید ہے اور بس۔
(۶) امام حسین ؑ نے معاویہ کی زندگی کے آخری ایام میں اصحابِ رسول اور تابعین کو خطوط تحریر کر کے اُنہیں منیٰ آنے کی دعوت دی، اور وہاں اُن کے سامنے ایک تقریر کی۔
اِس تقریر میں حکومت کے بارے میں اُن (اصحاب و تابعین ) کی سنگین ذمے داری کی جانب اُنہیں متوجہ کرنے اور یہ ثابت کرنے کے بعد کہ معاشرتی امور کی باگ ڈور علمائے ربانی کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے فرمایا :
فَأَنْتُمْ الْمَسْلُوبُونَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ، وَمٰاسُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَاخْتِلاٰفِکُمْ فِی الْسُنَّةِ بَعْدَالْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ، وَلَوْصَبَرْتُمْ عَلَی الْأذیٰ وَتَحَمَّلْتُمُ الْمَؤُونَةَ فٰی ذٰاتِ اﷲِ کٰانَتْ اُمُورُاﷲِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ، وَعَنْکُمْ تَصْدُرُ، وَاِلَیْکُمْ تَرْجِعُ
تم جو مقام و منزلت رکھتے تھے وہ تم سے چھین لی گئی اس کی وجہ یہ ہے کہ تم حق کے بارے میں تفرقے کا شکار ہوئے اور سنتِ پیغمبر کی اتباع کے واضح اور روشن راستے میں باہم اختلاف کیا اگر تم سختیوں پر صبر کرتے اور راہِ خدا میں مشکلات برداشت کرتے، تو امورِ الٰہی تمہارے سپرد ہوجاتے، حکومتی معاملات کی باگ ڈور تمہارے ہاتھوں میں ہوتی، تم فیصلے صادر کرتے اور لوگ اپنی حاجات کے سلسلے میں تم سے رجوع کرتے۔
وَلٰکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ، وَأَسْتَسلَمْتُمْ اُمُورَاﷲِ فِی أَیْدیهِمْ یَعْمَلُونَ بِالشُّبُهٰاتِ وَ یَسیرُونَ فِی الشَّهَوٰاتِ
لیکن تم نے رضا آمیز خاموشی کے ذریعے قوت و قدرت ظالموں کے لیے چھوڑ دی، امورِ الٰہی اُن کے سپرد کر دیے، تو اب وہ شبہات پر عمل کرتے ہیں اور شہوات و خواہشات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ (تحت العقول ص ۲۳۷)
(۷) مکہ یا بیضہ کے مقام پر آپ ؑ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں اللہ رب العزت کی حمدو ثناکے بعد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث سے آغاز کیا اور فرمایا :

أَیُّهَاالنَّاسُ !اِنَّ رَسُولَ اﷲِ (ص) قٰالَ:مَنْ رَأیٰ سلْطٰاناً جٰائراً مُسْتَحِلّاًلِحَرامِ اﷲِ، نٰا کِثاً لِعَهْدِاﷲِ، مُخَالِفاً لِسُنَّنهِ رَسُولِ اﷲِ، یَعْمَلُ فِی عِبٰادِاﷲِ بِالْاِ ثْمِ وَالْعَدْوٰانِ، فَلَمْ یُغَیِّرْعَلَیْهِ بِفِعْلٍ وَلاٰ قَوْلٍ، کٰانَ حَقَّاً عَلَی اﷲِ أَنْ یُدْخِلَهُ مُدْخَلَهُ
اے لوگو ! رسول اﷲ ؐ نے فرمایا ہے: جو کوئی بھی ایسے ظالم حکمراں کو دیکھے جو خدا کے حرام کیے ہوئے کو حلال قرار دے، اﷲ رب العزت سے کیے ہوئے عہد و پیمان کی خلاف ورزی کرے، سنتِ رسول کی مخالفت کرے اور لوگوں سے ظالمانہ سلوک کرے، تو اُس (شخص) پر واجب ہے کہ اپنے قول یا عمل سے اس حکمراں کی مخالفت کا اظہار کرے اگر وہ ایسا نہ کرے، تو خداوندِ عالم کو حق ہے کہ اسے بھی اِس ظالم حکمراں کے ٹھکانے میں جگہ دے۔
اِس کے بعد فرمایا:
اِنَّ هٰؤُلاٰءِ قَوْمٌ لَزِمُوا طٰاعَةَ الشَّیْطٰانِ وَتَرَکُواطٰاعَةَ الرَّحْمانِ وَ أَظْهَروُا الْفَسٰادَ، وَعَطَّلُوا الْحُدُودَ، وَاسْتَأْثَرُوابِالْفَیْءِ، وَأَحَلّوُا حَرٰامَ اﷲِ، وَحَرَّمُواحَلاٰلَهُ، وَأَنٰا أَحَقُّ مَنَ غَیَّرَ“
دیکھو اِن لوگوں نے خود کو شیطان کی پیروی کا پابند کر لیاہے، خدا کی اطاعت ترک کردی ہے، بُرائیوں کو علانیہ کر دیا ہے، حدودِ الٰہی کو معطل کیے ہوئے ہیں، اور (میں حسین ابن علی ؑ ) اِس صورتحال پر ردِعمل کے اظہار اور معاشرے میں انقلاب اور تبدیلی کے لیے اقدام کا دوسروں سے زیادہ ذمے دار ہوں۔ (۱)
(۸) امام حسین ؑ نے متعدد مواقع پر خلافت کے لیے اپنی لیاقت کی جانب اشارہ کیا اور اسی پر اپنی جدوجہد کی بنیاد استوار کی حضرت ؑ نے نمازِ ظہر کے موقع پر ” حرا بن یزید ریاحی“ کے سامنے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
أَمّٰابَعْدُ، أَ یُّهَاالنَّاسُ! فَاِنَّکُمْ اِنْ تَتَّقُواﷲ وَتَعْرِفُوا الْحَقَّ لِاَهْلِهِ یَکُنْ اَرْضیٰ لِلّٰهِ، وَنَحْنُ اَهْلُ بیْتِ مُحَمَّدٍ اَوْلیٰ بِوِلاٰیَةِ هٰذَاالْأَمْرِ مِنْ هٰؤُلاٰءِ الْمُدَّعینَ مٰا لَیْسَ لَهُمْ وَالسّٰائرینَ بِالْجَوْرِوَالْعُدوٰانِ
————–
۱:- کامل ابن اثیرج۲۔ ص۵۵۲، لہوف ص۳۴، اعیان الشیعہج۱ص۵۹۶، وقعہ الطف ص۱۷، بحارالانوار ج۴۴۔ ص۳۷۷

لوگو ! اگر تم خوفِ خدا کرو اور اِس بات کو مانو کہ حق حقداروں کے پاس ہوناچاہیے، تویہ خوشنودئ خدا کا باعث ہو گا۔ اور ہم اہلِ بیتِ پیغمبر لوگوں کی ولایت و رہبری کے لیے اِن (بنی امیہ) سے زیادہ اہل اور لائق ہیں، جو ناحق اِس مقام کے دعویدار بن بیٹھے ہیں اور جنہوں نے ہمیشہ ظلم و ستم اور خدا سے دشمنی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ (1)
امام حسین ؑ کی تحریک ایک ایسی حکومتِ حق کے قیام کے لیے تھی جو بقائے اسلام کی ضامن ہو۔ آپ ؑ کا اپنے وصیت نامے میں شہادتین کے اظہار اور قبر و قیامت کی حقانیت کے اعتراف کے بعد یہ فرمانا کہ
: ” وَ أَنّی لَمْ أَخْرُجْ أشِراًوَلاٰبَطِراًوَلاٰ مُفْسِداًوَلاٰظٰالِماً
( میں سرکشی کے ارادے سے نہیں نکل رہا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد فساد پھیلانا یا کسی پر ظلم کرنا ہے ) اس لیے تھا کہ اپنی تحریک کو دشمنوں کی تہمت اور ناروا الزامات سے محفو ظ رکھیںمبادا وہ آپ ؑ کو خارجی اور مرتد کہیں(نعوذباﷲ)۔ اُسی طرح جیسے انہی لوگوں نے حضرت علی ؑ کو(نعوذباﷲ) کافر اور تارک الصلوٰۃ کہا تھا۔
امام ؑ نے اپنے کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا :
وَاِنَّمٰاخَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلاٰحِ فی اُمَّةِ جَدّی
میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکل رہا ہوں۔
آپ ؑ اپنی تحریک کوامت کی اصلاح کا ذریعہ سمجھتے تھےوہ امت جس پر ظلم و ستم، جرم و جنایت کی حکومت تھی اور جس کا حاکم بغیر کسی خوف اورڈر کے اسلام کو مٹانے کے راستے تلاش کر رہا تھا، بے جھجک کفر آمیز اشعار پڑھتا تھا آپ ؑ نے دورانِ تحریک جب کبھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر کیا، تو آپ ؑ کے پیش نظر حکومت ہوا کرتی تھی عوام نہیں۔ جس طرح منیٰ میں اپنے خطاب کے دوران سورہ توبہ کی آیت نمبر۷۱ کی تلاوت کے بعد فرمایا :
————–
۱:- مقتلِ خوارزمی ج۱ص۲۳۲، الفتوحج۵ص۸۷، تاریخِ طبریج۳۔ ص ۳۰۶

فَبَدَأَﷲُ بِالْأَمْرِبِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْکَرِفَریضَةً مِنْهُ لِعِلْمِهِ بِأَنَّهٰا اِذٰااُدِّیَتْ وَاُقیمَتْ اِسْتَقٰامَتِ الْفَرٰاءِضُ کُلُّهٰا هَیِّنُهٰاوَصَعْبُهٰا، وَذٰلِکَ أَنَّ الْأَمْرَبِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیَ عَنِ الْمُنْکَرِدُعٰاءٌ اِلَی الْاِسْلاٰمِ مَعَ رَدِّ الْمَظٰالِمِ وَمُخٰالَفَةِ الظّٰالِمِ، وَقِسْمَةِ الْفَیْیءِ وَالْغَنٰاءِمِ وَأَخْذِالصَّدَقٰاتِ مِنْ مَوٰاضِعِهٰا وَوَضْعِهٰا فِی حَقِّهٰا
(مذکورہ آیہ کریمہ میں ) خداوندِ عالم نے پہلا فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قرار دیا ہے، سب سے پہلے اسی کو واجب کیا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر یہ فریضہ انجام دیا جاتا رہے اور لوگ اس حکم کی پابندی کریں، توسارے سخت اور سہل فرائض خودبخودادا ہو جائیں گےامر بالمعروف اور نہی عن المنکر درحقیقت لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا، مظلوموں کے حقوق کی بازیابی، ظالموں کی مخالفت، لوگوں کے مال اور جنگی غنائم کی عادلانہ تقسیم، صدقات کی صحیح صحیح جگہوں سے وصولی اور اُن کی درست تقسیم ہے۔
یہ ہماری مختصر گزارشات تھیں امام حسین ؑ کی تحریک کے اسباب اور مقاصد کے بارے میں، امید ہے امام ؑ کی راہ پر چلنے والوں کے لیے مفید اور قابلِ تقلید ثابت ہوں گی۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button