اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

جناب جون بن حوی رضوان اللہ تعالی علیہ

جناب جون حبشی النسل سیاہ رنگ کے غلام تھے۔ پہلے فضل بن عباس بن عبد المطلب کے غلام تھے۔ جناب امیر المومنین علیہ السلام نے ڈیڑھ سو اشرفی میں خرید کر جناب ابوذر کو مرحمت فرمایا۔ پھر جون برابر حضرت ابوذر کی خدمت میں رہے۔ جب خلیفہ ثالث نے جناب ابو ذر کو ربذہ کی طرف جلا وطن کیا تو یہ جون ان کے ہمراہ تھے۔ جناب ابوذر کی وفات کے بعد 31 یا 32 ہجری کے بعد واپس مدینہ آگئے۔ اور جناب امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں زندگی بسر کرنا شروع کی۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور ان کی شہادت کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمرکاب رہے ۔ اور امام زین العابدین علیہ السلام کے دولت کدہ میں فرائض انجام دیتے رہے ۔ جناب سید الشہداء علیہ السلام مدینہ سے مکہ، مکہ سے عراق تشریف لے گئے تو جناب جون اس سفر میں ان کے ہمراہ رہے۔ طبری ، کامل اور مقاتل الطالبین میں لکھا ہے کہ جون اسلحہ شناسی اور اس کی اصلاح میں مہارت رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ شب عاشور جون جناب سید الشہداء علیہ السلام کے خاص خیمہ میں بیٹھ کر کچھ وقت اسلحہ جنگ کی اصلاح میں مشغول رہے۔

بہر حال جب روز عاشور قتل و قتال کا بازار گرم ہوا اور اصحاب حسینی یکے بعد دیگرے شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے لگے تو جناب جون نے بھی امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر اذن جہاد طلب کیا ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

یا جون انت فی اذن منی فانما تبعتنا طلبا اللعافیۃ فلا تبتل بطریقتنا

اے جون ! میں اپنی اطاعت سے آپ کو آزاد کرتا ہوں اور تمہیں چلےجانے کی اجازت دیتا ہوں تو ہمارے ساتھ طلب و عافیت کے لیے آیا تھا۔ اس لیے اپنے آپ کو ہماری وجہ سے مصیبت میں گرفتار نہ کرو۔

جون نے (بروایت دیگر امام کے قدموں میں گر کر ) عرض کیا:

یابن رسول اللہ انا فی الرخاء الحس قصاعکم و فی الشدۃ اخذ لکم

فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا یہ ممکن ہے کہ آسائش و آرام کے دنوں میں تو آپ کی خدمت کروں اور آپ کے ساتھ رہوں اور شدت و تنگی کے وقت آپ کو چھوڑ کر چلا جاوں۔

اس احتجاج کے بعد عرض کرتے ہوئے کہا:

واللہ ان حسبی للئیم ولونی لاسود وریحی لمنتن فتنفس علی بالجنۃ فتطیب ریحی و یشرف حسبی ویشرق لونی واللہ لا افارقکم حتی یختلط ھذا الدم الاسودمع دمائکم

بخدا اس لیے کہ میرا حسب و نسب پست، رنگ سیاہ اور جسم بدبودار ہے۔ آپ مجھے اجازت (جنگ دینےاور) جنت میں داخل ہونے کے لیے پس و پیش فرما رہےہیں تاکہ میری بدبوئی خوشبو میں بدل جائے۔ میرا حسب و نسب شریف ہوجائے اور میرا رنگ سفید ہو جائے؟

نہیں بخدا! میں اس وقت تک آپ سے جدا نہیں ہوں گا جب تک میرا یہ کالا کون آپ کے مقدس خون کے ساتھ مخلوط نہ ہوجائے۔

جناب سید الشہداء علیہ السلام نے ان کا یہ جذبہ شوق شہادت دیکھ کر اجازت جہاد دے دی۔ جناب جون یہ رجز پڑھتے ہوئے میدان کارزار میں آئے۔

کَیْفَ یَریَ الْفجَّارُ ضَرْبَ الأَسْوَدِ

بِالْمُشْرِفِی الْقاطِعِ الْمُهَنَّدِ

بِالسَّیْفِ صَلْتاً عَنْ بَنی‌ مُحَمَّدٍ

أَذُبُّ عَنْهُمْ بِاللِّسانِ وَالْیَدِ

أَرْجُو بِذاکَ الْفَوْزَ عِنْدَ الْمَوْرِد

مِنَ الالهِ الْواحِدِ الْمُوَحَّدِ

اذلا شفیع عندہ کا حمد

اس کے بعد تابڑ توڑ حملے کرنا شروع کردیے۔ منتہی الامال میں اور مناقب شہر ابن آشوب کے بیان کے مطابق پچیس سپاہیوں کو قتل کرنے کے بعد خود درجہ شہادت پر فیض ہوئے۔ ان کی شہادت کے بعد سرکار سید الشہداء علیہ السلام ان کے بالین سر تشریف لے گئے اور بارگاہ احدیت میں عرض کیا:

اَللّهُمَّ بَیِّض وَجهَهُ وَ طَیِّب ریحَهُ وَ احشُرهُ مَعَ الأبرارِ وَ عَرِّف بَینَهُ و بَینَ مُحمدٍ و آلِ مُحمدٍ

بار الہا! اس کے چہرہ کو روشن کردے اس کی بدبو کو خوشبو میں بدل دے ۔ ابرار اور اخیار کے ساتھ اسے محشور فرما اور سرکار محمد وآل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے درمیان شناسائی فرما کر دوستی قرار دے۔

سرکار سیدالشہداء علیہ السلام کا یہ اثر تھا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار سے روایت فرماتے ہیں کہ

جب بنی اسد نےشہدائے کربلا کی لاشیں دفن کیں تو اتفاقا جناب جون کی لاش دفن ہونے سے رہ گئی ۔ دس دن کے بعد جب ان کی لاش مبارک ملی تو دیکھا گیا کہ اس سے مشک و عنبر کی خوشبو آرہی تھی۔

زہے نصیب کہ یہی جون عظمت و جلالت کے اس اوج کمال پرپہنچا امام جعفر صادق علیہ السلام زیارت شہداء میں فرماتے ہیں ۔

بابی انت و امی

میرے ماں باپ تم پر نثار ہوں۔

آپ کا نام زیارت ناحیہ میں آیا ہے

اَلسَّلَامُ عَلَى جَوْنٍ مَوْلَى أَبِي‌ ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ

(سعادت الدارین فی مقتل الحسیؑن)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button