سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

امام حسین علیہ السلام کے اہل بیت علیہم السلام کا واقعہ کربلاء کے بعد پہلے چہلم پر کربلاآنا

ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے کلام میں زیارت اربعین:

شیعہ مذہب میں امام حسین علیہ السلام کے 10 محرم کو شہید ہونے کے بعد چالیسویں دن کو جوکہ 20 صفر کا دن ہے، امام حسین علیہ السلام کے چہلم کا دن کہتے ہیں۔

کتب احادیث اور روایات میں غور اور دقت کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے بارے میں اہل بیت علیہ السلام نے بہت تاکید کی ہے اور حتی اس زیارت کو مؤمن کی علامات میں سے قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ:

و يستحب زيارته عليه السلام فيه و هي زيارة الأربعين، فرُوِيَ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْعَسْكَرِيِّ عليه السلام أَنَّهُ قَالَ عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَ التَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَ تَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَ الْجَهْرُ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ

امام حسین علیہ السلام کی زیارت، اہل بیت کے کربلاء میں واپس آنے والے دن یعنی چہلم کے دن، مستحب ہے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

مؤمن کی پانچ علامات ہیں:

1- 51 رکعت نماز پڑھنا، 2- زیارت اربعین پڑھنا، 3- دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، 4- خاک شفاء پر سجدہ کرنا، 5- نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اونچی آواز سے پڑھنا۔

( مصباح المتهجد، ص788 ،تہذيب الأحكام، ج6، ص52 ، تحقيق:سيد حسن موسوي ، كتاب المزار مناسك المزار ، ص53 ، تحقيق آية الله السيد محمد باقر الأبطحي، المزار، ص353 ، تحقيق: جواد قيومی)

اور امام صادق علیہ السلام نے بھی ایک روایت میں فرمایا ہے کہ:

عن مفضّل بن عمر : كان الإمام جعفر بن محمّد الصادق عليه السلام جالساً … فقام إليه أبو نصير و صفوان الجمّال، فقالا : جعلنا الله فداك، دلّنا على شيعتكم . فقال عليه السلام : يعرف شيعتنا بخصال شتّى فقلت : جعلت فداك، بماذا يُعرفون ؟ قال :بالسخاء و زيارة الأربعين

مفضل بن عمر نے کہا ہے کہ: امام صادق علیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو نصير و صفوان جمال امام کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ پر قربان ہوں آپ ہمیں شیعوں کی علامات کے بارے میں بتائیں، امام صادق علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہمارے شیعوں کی مختلف علامات ہیں۔ میں نے کہا: شیعہ کس علامت کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں ؟ امام نے چند علامات کو ذکر کیا اور ان میں سے شیعہ کا سخی ہونا اور زیارت اربعین ہے۔

( العقد النضيد والدر الفريد في فضائل أمير المؤمنين وأهل بيت النبی ( عليهم السلام)، ص46، التحقيق : علي أوسط ناطقی)

امام حسین علیہ السلام کی زیارت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ اس زیارت کے لیے ایک مخصوص زیارت نامہ آئمہ معصومین علیہ السلام کی طرف سے نقل ہوا ہے۔ صفوان بن مہران نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ:

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ: قَالَ لِي مَوْلَايَ الصَّادِقُ سلام الله عليه فِي زِيَارَةِ الْأَرْبَعِينَ تَزُورُ عِنْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ وَ تَقُولُ: السَّلَامُ عَلَى وَلِيِّ اللَّهِ وَ حَبِيبِهِ السَّلَامُ عَلَى خَلِيلِ اللَّهِ وَ نَجِيبِهِ. السَّلَامُ عَلَى صَفِيِّ اللَّهِ وَ ابْنِ صَفِيِّه‏

میرے مولا امام صادق علیہ السلام نے زیارت اربعین کے بارے میں فرمایا ہے کہ جب دن کا تھوڑا حصہ گزر جائے اور سورج نکل آئے تو کہو: آپ پر سلام ہو اے خداوند کے ولی اور حبیب، سلام ہو آپ پر اے خداوند کے دوست اور اس کے انتخاب کردہ، سلام ہو آپ پر اے خداوند کے برگزیدہ اور برگزیدہ کے فرزند ۔۔۔۔( مصباح المتہجد، ص788 )

بیس صفر کو اہل بیت علیہم السلام کا لٹا ہو کاروان کربلا پہنچا

سيد بن طاووس(رح) کی نقل کے مطابق اہل بیت کے کربلاء میں پہلے چہلم کے موقع پر پہنچنے کو ذکر کرنے کے ساتھ ہی اس واقعہ کی تفصیل کو اس طرح بیان کیا ہے:

فَوَصَلُوا إِلَى مَوْضِعِ الْمَصْرَعِ فَوَجَدُوا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ رَحِمَهُ اللَّهُ وَ جَمَاعَةً مِنْ بَنِي هَاشِمٍ وَ رِجَالًا مِنْ آلِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه و آله قَدْ وَرَدُوا لِزِيَارَةِ قَبْرِ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَوَافَوْا فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ وَ تَلَاقَوْا بِالْبُكَاءِ وَ الْحُزْنِ وَ اللَّطْمِ وَ أَقَامُوا الْمَآتِمَ الْمُقْرِحَةَ لِلْأَكْبَادِ

اہل بیت جب کربلاء کی سر زمین پر قتلگاہ میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پر جابر ابن عبد اللہ انصاری ،بنی ہاشم اور کچھ دوسرے لوگ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے پہلے سے موجود ہیں۔ سب نے مل کر عزاداری اور نوحہ خوانی کی اور بہت ہی غم و حزن کی حالت میں امام حسین علیہ السلام کا غم مناتے رہے۔ اہل بیت کے ساتھ کربلاء کے اطراف میں میں رہنے والی آبادی کی عورتوں نے بھی مل کر عزاداری کی اور اہل بیت چند روز کربلاء میں ہی موجود رہے۔

( مقتل الحسين عليه السلام المسمى باللهوف في قتلى الطفوف، ص114 )

ابو ريحان البيرونی نے بھی اہل بیت کی شام سے واپسی کے بارے میں اس طرح سے لکھا ہے کہ:

و في العشرين ردّ رأس الحسين عليه السلام إلى جثته حتّى دفن مع جثّته، و فيه زيارة الأربعين و هم حرمه، بعد انصرافهم من الشام

بیس صفر کو امام حسین علیہ السلام کا نورانی اور مبارک سر بدن کے پاس واپس پلٹایا گیا اور بدن کے ساتھ دفن کیا گیا اور اس دن زیارت اربعین پڑھی جاتی ہے اور اس دن امام حسین علیہ السلام کے اہل بیت شام سے کربلاء ان کی زیارت کرنے کے لیے آئے تھے۔

( الاثار الباقيه عن القرون الخاليه، ص 422 ، التحقيق والتعليق: پرويز اذكائي)

شيخ بہائی نے 20 صفر کو جابر اور اہل بیت کے کربلاء کی سر زمین میں آنے کو اس طرح لکھا ہے کہ:

و فى هذا اليوم و هو يوم الأربعين من شهادته عليه السلام كان قدوم جابر بن عبد الله الأنصاري رضي الله عنه لزيارته عليه السلام و اتفق في ذلك اليوم ورود حرمه عليه السلام من الشام إلى كربلاء قاصدين المدينة على ساكنها السلام و التحية

اس دن یعنی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیس دن بعد جابر ابن عبد اللہ انصاری امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے کربلاء آیا اور اتفاق سے اسی دن امام حسین علیہ السلام کے اہل بیت بھی شام سے مدینہ جاتے ہوئے راستے میں کربلاء امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے آئے تھے۔( توضيح المقاصد، ص7 )

مرحوم علامہ مجلسی نے امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے واقعے کو عطیہ عوفی سے اس طرح نقل کیا ہے کہ:

عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ زَائِرَيْنِ قَبْرَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِب ٍعليهم السلام فَلَمَّا وَرَدْنَا كَرْبَلَاءَ دَنَا جَابِرٌ مِنْ شَاطِئِ الْفُرَاتِ فَاغْتَسَلَ

عطیہ عوفی کہتا ہے کہ ہم جابر بن عبدالله انصاری کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنے کے ارادے سے چلے اور جب کربلاء پہنچے تو جابر نے نہر فرات میں غسل کیا۔( بحار الأنوار ، ج65، ص130 )

اہل بیت علیہ السلام کے کربلاء سے کربلاء تک کے سفر کی تفصیل:

مخالفین کی مہم ترین دلیل کہ ایسا سفر واقع نہیں ہوا، یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کوفہ سے شام اور شام سے کربلاء کا فاصلہ بہت دور ہے لیکن اس سفر کی تفصیل بیان کرنے سے اور اہل بیت کے کوفہ اور شام میں رہنے کے ایام کی مدت پر غور کرنے سے اس طرح کے سفر کا ممکن ہونا بلکہ یقینی ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔

عمر بن سعد نے عصر عاشوراء امام حسین علیہ السلام کے مقدس سر کو خولی کے ذریعے کوفہ روانہ کیا ۔ خولی رات کو کوفہ پہنچا دیکھا کہ کوفہ کے دار الامارہ کے دروازے بند ہیں۔ اسی لیے اس نے وہ رات اپنے گھر میں گزاری اور دوسرے دن صبح وہ امام حسین علیہ السلام کے سر کو ابن زیاد کے پاس لے کر گیا۔

و بعث عمر برأس الحسين من يومه مع خولي بن يزيد الأصبحي من حمير، وحميد بن مسلم الأزدي إلى ابن زياد فأقبلا به ليلاً فوجدا باب القصر مغلقاً، فأتى خولي به منزله

عمر بن سعد نے امام حسين علیہ السلام کے سر کو روز عاشورا خولی بن يزيد اصبحی کہ جس کا تعلق قبيلہ‌ حمير سے تھا اور حميد بن مسلم ازدی کے ذریعے سے ابن زیاد کے لیے کوفہ روانہ کیا۔ یہ لوگ رات کو کوفہ پہنچے تو اس وقت کوفہ کے محل کے دروازے بند تھے، اس لیے خولی امام حسین علیہ السلام کے سر کو رات کو اپنے گھر لے گیا۔(أنساب الأشراف، ج1، ص424 )

اور شیخ مفید کے مطابق 13 محرم کو اسیروں کا قافلہ کوفہ پہنچا:

و أقام بقية يومه و اليوم الثاني إلى زوال الشمس، ثم نادى في الناس بالرحيل و توجه إلى الكوفة و لما وصل رأس الحسين عليه السلام و وصل ابن سعد – لعنه الله – من غد يوم وصوله

عمر سعد روز عاشوراء اور گیارہ محرم دوپہر تک کربلاء میں رہا، پھر اس وقت اپنے لشکر والوں کو کوفہ کی طرف حرکت کرنے کا حکم دیا۔ اور جب امام حسین علیہ السلام کا سر کوفہ پہنچا تو اس کے دوسرے دن ابن سعد بھی امام حسین کے اہل بیت کو اپنے ساتھ لے کر کوفہ پہنچ گیا۔

( الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج2، ص114 )

دو دن کوفہ میں رہنے کے بعد یعنی 15 محرم کو ابن زیاد کے حکم کے مطابق اہل بیت کے قافلے کو شام روانہ کر دیا گیا، جیسا کہ سبط ابن جوزی نے لکھا ہے:

ثم إن إبن زياد حط الرؤس في يوم الثاني و جهزها و السبايا الى الشام الى يزيد بن معاوية

بے شک ابن زیاد نے سروں کو دوسرے دن نیچے لایا اور ان کو اسیروں کے قافلے کے ساتھ شام کی طرف یزید ابن معاویہ کے لیے روانہ کر دیا۔( تذكرة الخواص، ص260 )

اس خطرے کے پیش نظر کہ ہر وقت اسیروں کے قافلے پر کوئی حملہ کر کے اہل بیت کو عمر سعد کے ہاتھوں نجات دلا سکتا تھا، اس کے علاوہ عمر سعد اور اس کے لشکر والوں کو بھی اپنی جان کا خطرہ تھا، اس لیے وہ یقینی طور پر اسیروں کو تیز رفتار سواریوں پر جلدی جلدی سے لے کر گئے ہوں گے۔ اسی لیے اسیروں کا قافلہ ماہ صفر کی پہلی تاریخ کو دمشق پہنچ گیا تھا۔

و فى أوله ادخل رأس الحسين سلام الله عليه دمشق و هو عيد عند بنى أمية

روز اول ماہ صفر امام حسین علیہ السلام کا مبارک سر شام میں داخل ہوا اور وہ دن بنی امیہ کی عید کا دن تھا۔

( جنة الأمان الواقية وجنة الايمان الباقية المشتهر بالمصباح، ص 510 )

اسیروں کے قافلے کے شام میں داخل ہونے کے بعد شامیوں نے جشن منایا اور سرکاری طور پر بہت ہی زیادہ خوشی منائی گئی، لیکن یہ ساری خوشی اور جشن امام سجاد علیہ السلام کے فقط ایک خطبے سے یزید کے لیے عذاب اور مصیبت میں تبدیل ہو گئے۔

اسی طرح ذہبی عالم اہل سنت نے وضاحت کی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا مبارک سر تین دن تک شام میں لٹکایا گیا تھا:

أنه رأى رأس الحسين مصلوباً بدمشق ثلاثة أيام

امام حسین علیہ السلام کا سر تین دن تک دمشق میں لٹکتا ہوا دیکھا گیا تھا۔

( تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج5، ص107 )

يزيد بن معاويہ نے اپنے جرم اور گناہ کو کم اور ابن زیاد کو قصور وار ٹھرانے کے لیے ظاہری طور پر پشمانی کا اظہار کیا اور شام میں اہل بیت کی طرف سے تین دن تک عزاداری کے بعد، اسیروں کے قافلے کو واپس شام بھیجنے کا حکم دیا، جس طرح کہ ذھبی نے لکھا ہے کہ:فأقمن المأتم على الحسين ثلاثة أيام

خواتین نے امام حسین علیہ السلام پر تین دن تک عزاداری کو پرپا کیا۔

( سير أعلام النبلاء، ج3، ص304 )

اور آخر کار 8 صفر کو قافلہ شام سے چل پڑا، جیسا کہ مرحوم علامہ مجلسی نے لکھا ہے کہ:

فلما كان اليوم الثامن دعاهن يزيد، و أعرض عليهن المقام فأبين و أرادوا الرجوع إلى المدينة

جب 8 صفر کا دن آیا تو یزید نے اسیروں کے قافلے کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا کہ آپ ادھر ہمارے پاس شام میں میں ہی رہ جائیں لیکن اہل بیت علیہم السلام نے اس بات کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ ہم واپس اپنے جدّ کے شہر مدینہ جانا چاہتے ہیں۔

( بحار الأنوار ، ج45، ص197 )

8 صفر سے لے کر 20 صفر تک امام حسین علیہ السلام کے اہل بیت کے پاس کربلاء جانے کا 12 دن کا وقت اور فرصت تھی۔ اس کے علاوہ کربلاء پہنچنے تک 15 دن لگے کیونکہ شام سے کربلاء کا راستہ کم تھا لہذا آسانی سے اہل بیت علیہم السلام کربلاء پہنچے ہوں گے۔ اس کے علاوہ روایات کی روشنی میں زیارت اربعین کے مستحب مؤکد ہونے کی وجہ سے اہل بیت علیہم السلام نے خود کو زیادہ جلدی اور شوق سے کربلاء پہنچایا ہو گا تا کہ اس عظیم دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی توفیق اور ثواب سے محروم نہ رہیں۔

شيخ صدوق(رح) نے اپنی کتاب امالی میں لکھا ہے کہ جب تک اہل بیت علیہم السلام کی خواتین کربلاء واپس نہیں آگئیں اور تمام شہداء کے سر ان کے بدنوں کے ساتھ مل نہیں گئے، اس وقت تک جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھاتے تھے تو اس کے نیچے سے تازہ خون بہنے لگتا تھا:

حَدَّثَنِي بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ مَاجِيلَوَيْهِ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْكُوفِيِّ عَنْ نَصْرِ بْنِ مُزَاحِمٍ عَنْ لُوطِ بْنِ يَحْيَى عَنِ الْحَارِثِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ عَلِيٍّ ص ثُمَّ إِنَّ يَزِيدَ لَعَنَهُ اللَّهُ أَمَرَ بِنِسَاءِ الْحُسَيْنِ ع فَحُبِسْنَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع فِي مَحْبِسٍ لَا يُكِنُّهُمْ مِنْ حَرٍّ وَ لَا قَرٍّ حَتَّى تَقَشَّرَتْ وُجُوهُهُمْ وَ لَمْ يُرْفَعْ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ حَجَرٌ عَنْ وَجْهِ الْأَرْضِ إِلَّا وُجِدَ تَحْتَهُ دَمٌ عَبِيطٌ وَ أَبْصَرَ النَّاسُ الشَّمْسَ عَلَى الْحِيطَانِ حَمْرَاءَ كَأَنَّهُ الْمَلَاحِفُ الْمُعَصْفَرَةُ إِلَى أَنْ خَرَجَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ع بِالنِّسْوَةِ وَ رَدَّ رَأْسَ الْحُسَيْنِ إِلَى كَرْبَلَاءَ

امام حسین علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا نے کہا کہ یزید نے حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کی خواتین کو امام سجاد علیہ السلام کہ جو بیمار تھے، ان کے ساتھ ایک ایسے زندان میں ڈالا کہ جس کی چھت نہیں تھی اور گرمی سردی سے بچانے والا بھی نہیں تھا، اس وجہ سے ان کے چہروں کی جلد خراب اور اس کا رنگ بدل گیا تھا۔ بیت المقدس میں جس پتھر کو بھی اٹھایا جاتا تو اس کے نیچے سے تازہ خون جاری ہو جاتا۔ اور لوگوں نے سورج کی کرنوں کو گھروں کی دیواروں پر سرخ رنگ کا دیکھا تھا کہ جیسے دیواروں پر سرخ رنگ کی چادریں ڈالی گئیں ہوں یہاں تک کہ امام سجاد علیہ السلام خواتین کے ساتھ زندان سے باہر نکلے اور امام حسین علیہ السلام کے سر کو کربلاء واپس نہ پہنچایا۔( الأمالي، ص 168 )

اس کے علاوہ کتب شیعہ اور اہل سنت میں بہت سی روایات ہیں کہ یہ اتفاقات چالیس دن تک جاری رہے، جیسا کہ ابن قولويہ قمی(رح) نے لکھا ہے کہ:

وَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ‏ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَمَّادٍ الْبَصْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَصَمِّ عَنْ أَبِي يَعْقُوبَ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع يَا زُرَارَةُ إِنَّ السَّمَاءَ بَكَتْ عَلَى الْحُسَيْنِ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً بِالدَّمِ وَ إِنَّ الْأَرْضَ بَكَتْ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً بِالسَّوَادِ وَ إِنَّ الشَّمْسَ بَكَتْ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً بِالْكُسُوفِ وَ الْحُمْرَةِ وَ إِنَّ الْجِبَالَ تَقَطَّعَتْ وَ انْتَثَرَتْ وَ إِنَّ الْبِحَارَ تَفَجَّرَتْ وَ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ بَكَتْ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً عَلَى الْحُسَيْنِ علیہ السلام

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: اے زرارہ آسمان نے امام حسین علیہ السلام پر چالیس دن تک خون گریہ کیا اور زمین بھی چالیس دن تک تاریک تھی اور سورج کو چالیس دن تک گرہن لگا رہا اور اس کی روشنی سرخ رنگ کی تھی اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے اور دریاؤں کی روانی تیز ہو گئی تھی اور فرشتوں نے بھی چالیس دن تک امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیا تھا۔

( كامل الزيارات، ص 81)

ان دو طرح کی روایات کو آپس میں موازنہ اور مقائسہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ 20 صفر کو امام حسین علیہ السلام کے چہلم والے دن امام حسین علیہ السلام کے اہل بیت کربلاء واپس پہنچے اور امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو بدن کے ساتھ ملحق کیا۔

اربعین کے سفر کی طرح کم ترین وقت میں طولانی ترین سفر:

کتب تاریخی میں ذکر ہوا ہے کہ اسی دور میں بہت سے افراد نے کوفہ سے شام یا شام سے کوفہ بہت ہی کم وقت میں ایسے ہی سفر کیے ہیں، چند موارد کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:

1۔ طبری کی نقل کے مطابق کوفہ کے لوگوں نے جب سعید ابن العاص کے خلاف بغاوت کی تو مالک اشتر نے خود کو حمص (شام) سے کوفہ تک سات دنوں میں اور باقی لوگوں نے خود کو دس دنوں میں کوفہ پہنچایا۔

طبری نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

فسار الأشتر سبعا و القوم عشرا

مالک نے اس راستے کو سات دنوں اور دوسرے لوگوں نے اس راستے کو دس دنوں میں طے کیا۔

(تاریخ طبری، ج2، ص642 )

2۔یعقوبی نے لکھا ہے کہ خالد بن ولید نے اپنے لشکر کے ساتھ عراق سے روم تک کے راستے کو آٹھ دنوں میں طے کیا۔

إن خالدا سار في البرية و المفازة ثمانية أيام

خالد نے صحرا اور بیابان میں آٹھ دنوں میں راستے کو طے کیا۔

(تاريخ اليعقوبي، ج2، ص134)

3۔طبری کے مطابق إبراہیم بن أحمد ماذرائی کا سفر بغداد سے دمشق تک سات دنوں میں مکمل ہوا تھا۔

إن إبراهبم وافى بغداد من دمشق في سبعة أيام

ابراهيم نے بغداد سے دمشق تک سات دنوں میں راستے کو طے کیا۔

(تاریخ طبري، ج5، ص612)

4۔ ياقوت حموی نے لکھا ہے کہ ایک شخص حماد الراویہ نے خود کو اونٹ کے ذریعے بارہ دنوں میں ہشام ابن عبد الملک کے محل کوفہ سے دمشق تک پہنچایا۔

و سرت اثنتي عشرة ليلة حتى وافيت باب هشام

میں بارہ راتوں کو سفر کر کے ہشام کے محل کے دروازے پر پہنچا۔

( معجم الأدباء أو إرشاد الأريب إلى معرفة الأديب، ج3، ص247 )

5۔رجال کشی میں بھی آیا ہے کہ معاویہ کے مرنے کی خبر لانے والا ایک ہفتے میں شام سے کوفہ تک پہنچا۔

أَخْبَرَنِي أَبُو خَالِدٍ التَّمَّارُ، قَالَ كُنْتُ مَعَ مِيثَمٍ التَّمَّارِ بِالْفُرَاتِ يَوْمَ الْجُمُعَةِقَالَ: مَاتَ مُعَاوِيَةُ السَّاعَةَ، قَالَ فَلَمَّا كَانَتِ الْجُمُعَةُ الْمُقْبِلَةُ قَدِمَ بُرَيْدٌ مِنَ الشَّامِ قَالَ:تُوُفِّيَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ بَايَعَ النَّاسُ يَزِيدَ، قَالَ: قُلْتُ: أَيُّ يَوْمٍ تُوُفِّيَ قَالَ: يَوْمَ الْجُمُعَةِ

ابو خالد تمار کہتا ہے کہ میں جمعہ کے دن میثم تمار کے ساتھ نہر فرات کے کنارے پر تھے کہ اس نے کہا کہ معاویہ ابھی مر گیا ہے، اور اس نے کہا کہ پچھلے جمعے ایک بندہ شام سے آیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ معاویہ مر گیا ہے اور لوگوں نے یزید کی بیعت کر لی ہے، اس نے کہا کہ وہ کس دن مرا تھا ؟ کہا کہ وہ جمعہ کے دن مرا تھا۔

(اختيار معرفة الرجال المعروف برجال الكشی، ص80 )

6۔کافی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خیران اسباطی سامراء سے مدینہ تک دس دنوں میں امام ہادی علیہ السلام کے پاس آیا تھا:

عَنْ خَيْرَانَ الأَسْبَاطِيِّ قَالَ قَدِمْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ عليه السلام الْمَدِينَةَ فَقَالَ لِي: مَا خَبَرُ الْوَاثِقِ عِنْدَكَ ؟ قُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاكَ خَلَّفْتُه فِي عَافِيَةٍ أَنَا مِنْ أَقْرَبِ النَّاسِ عَهْداً بِه عَهْدِي بِه مُنْذُ عَشَرَةِ أَيَّامٍ يَا خَيْرَانُ مَاتَ الْوَاثِقُ فَقُلْتُك مَتَى جُعِلْتُ فِدَاكَ؟ قَالَك بَعْدَ خُرُوجِكَ بِسِتَّةِ أَيَّامٍ

خيران اسباطى کہتا ہے کہ میں مدینہ میں امام ہادی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو انھوں نے مجھے فرمایا کہ کیا واثق کے بارے میں تمہیں کوئی خبر ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے کہا اے مولا جب میں نے اسے آخری بار دیکھا تھا تو وہ بالکل ٹھیک تھا اور مجھے اس سے دور ہوئے بھی زیادہ وقت نہیں گزرا کیونکہ میں نے اسے دس دن پہلے دیکھا تھا پھر امام ہادی علیہ السلام نے فرمایا کہ اے خیران واثق دنیا سے چلا گیا ہے ، میں نے کہا وہ کب مرا ہے ؟ امام نے فرمایا تمہارے سامرا سے چلنے کے چھے دن بعد ۔

( الأصول من الكافي، ، ج1، ص498 )

حالانکہ سامرا سے مدینے تک کا فاصلہ قطعی طور پر کوفہ سے شام تک کے فاصلے سے زیادہ ہے

نتيجہ:

امام حسین علیہ السلام کے اہل بیت کے شام سے کربلاء کے سفر کی تفصیل کی روشنی میں اور اس کے مشابہ دوسرے طولانی سفر کا کم ترین وقت میں طے ہونے کی تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ اہل بیت 20 صفر کو اربعین کے دن کربلاء پہنچے تھے اور اس عظیم دن میں امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کا شرف حاصل کیا تھا۔

البتہ ہم نے یہاں پر بہت ہی مختصر طور پر اس بارے میں بیان کیا ہے، جو عزیزان اس بارے زیادہ تفصیل سے مطالعہ اور تحقیق کرنا چاہتے ہیں، وہ علامہ محقق سید محمد علی قاضی طباطبائی کی کتاب "تحقیق در باره اولين اربعين حضرت سيد الشہدا علیہ السلام "کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

https://www.valiasr-aj.com/urdu

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button