خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:167)

بتاریخ: جمعۃ المبارک16ستمبر 2022ء بمطابق 19 صفر المظفر1444 ھ)

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔

مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

حسینی تحریک میں اربعین یعنی چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ وہ دن ہے جس میں حضرت امام حسین علیہ السلام سے محبت کا پہلا چشمہ جاری ہوا۔ اس طاقتور حسینی مقناطیس نے سب سے پہلے چہلم کے دن دلوں کو اپنی طرف کھینچا۔ مشہور صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ انصاری اورجناب عطیہ کا چہلم کے دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کیلئے جانا اس بابرکت رسم کا آغاز تھا جو صدیوں سے چلتی ہوئی آج ہر زمانے سے زیادہ عظیم، پررونق، پرشکوہ اور مقبول ہو چکی ہے۔ اس عظیم رسم نے دنیا میں روز بروز عاشورا کی یاد مزید زندہ کر دی ہے۔

تاریخ انسانیت خصوصا عالم اسلام اور شیعوں کے درمیان سرکار سیدالشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیسویں دن کو اربعین کہا جاتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی اربعین کا اعتبار شیعوں اور امام حسین کے وفاداروں کی تاریخ میں قدیم الایام سے معروف ہے۔ اس دن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے غم میں سوگ اور عزاداری کی جاتی ہے۔ دعا اور عبادت، اعمال اور وظائف انجام دیتے جاتے۔

اربعین حسینی سے مراد سنہ 61 ہجری کو واقعہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کی شہادت کا چالیسواں دن ہے جو ہر سال 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔

چہلم اپنی ذات میں عاشورا کی جانب دوبارہ پلٹنے کا نام ہے۔ چہلم منانے کے لیے سب کچھ اہتمام شاید اس نکتے کی یاددہانی ہو کہ مومن کو چاہئے کہ وہ کربلا کو اپنی زندگی کا راستہ قرار دے اور اپنی زندگی کی تمام سرگرمیاں اسی مرکز کے گرد منظم کرے۔ اسی طرح ایمانی معاشرہ بھی کربلا کے خورشید کی جانب متوجہ ہو اور چہلم درحقیقت اسی خورشید تک پہنچنے کا راستہ ہے۔

مشہور تاریخی اسناد کے مطابق اسیران کربلا بھی شام سے رہا ہو کر مدینہ واپس جاتے ہوئے اسی دن یعنی 20 صفر سنہ 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے کربلا پہنچے تھے۔اسی طرح جابر بن عبداللہ انصاری بھی اسی دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آئے تھے۔اس دن کے خاص اعمال میں سے ایک زیارت اربعین ہے جسے امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی حدیث میں مؤمن کی نشانی قرار دیا گیا ہے:

عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَزِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَالتَّخَتُّمُ بِالْيَمِينِ وَتَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَالْجَهْرُ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ‏ ..

شیعہ مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں:

1. شب و روز کے دوران 51 رکعتیں نماز پڑھنا

2. زیارت اربعین پڑھنا

3. انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہننا

4. سجدے میں پیشانی مٹی پر رکھنا اور

5. نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہر کے ساتھ (بآواز بلند) پڑھنا۔

(طوسی، تہذیب الاحکام، ج6 ص52)

چہلم کے دن آپ کے تمام چاہنے والے اور شیعیان حیدر کرار آپ کے غم میں آنسو بہاتے، سر و سینہ پیٹتے، جلوس عزا نکالتے، نوحہ و ماتم کرتے اور اپنی عقیدت و محبت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اربعین ہی کے دن اہل حرم کا لٹا ہوا قافلہ شام سے کربلا آیا ہے۔

اربعین حسینی کی اہمیت اس لئے ہےکہ اربعین میں امام حسین ؑ کی شہادت کی یاد زندہ ہو گئی اور یہ بہت اہم بات ہے۔

اگر بنی امیہ، امام حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب با وفا کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کامیاب ہوجاتے اور ان کی یاد اس زمانے کے انسانوں اور آیندہ نسلوں کے ذہن سے مٹا دیتے، کیا ایسی صورت میں یہ شہادت عالم اسلام کےلئے مفید ہوتی؟

اگر اس زمانے کےلئے موثر بھی ہوتی تو کیا یہ واقعہ تاریخ میں آیندہ نسلوں کےلئے، مشکلات میں، تاریکیوں میں، ظلمتوں میں اور تاریخ میں ظاہر ہونے والے یزیدیوں کا گریبان چاک کرتا اور واضح طور پر اثر انداز ہوتا؟

اگر امام حسین علیہ السلام شہید ہوجاتے، لیکن اس زمانے اور آیندہ نسلوں کو اس کا علم نہيں ہوتا کہ حسین شہید ہو گئے تو یہ واقعہ قوموں، معاشروں اور تاریخ کے ارتقاء، تعمیر اور ہدایت میں کتنا موثر ہوتا؟

ہاں امام حسین علیہ السلام شہید ہوجاتے اور وہ خود خدا کی خوشنودی اور رضا کے بلند درجات پر فائز ہوجاتے، وہ شہید کہ جو پردیس میں اور تنہائی میں خاموشی سے شہید ہو گئے، آخرت میں انہیں ان کا اجر ملےگا، وہ کتنا نمونہ عمل قرار پائے، وہ شہید مشعل راہ بنتا ہےکہ جس کی شہادت اور مظلومیت کو اس کی ہم عصر نسلیں اور آیندہ نسلیں یاد رکھتی ہیں، وہ شہید نمونہ عمل بنتا ہےکہ جس کا خون اچھل کر تاریخ پر محیط ہوجاتا ہے، ایک قوم کی مظلومیت اس وقت ظلم و بربریت کے کوڑوں سے لہولہان قوموں کے جسموں پر مرحم رکھ سکتی ہےکہ یہ مظلومیت ندا بن جائے، یہ مظلومیت دوسرے انسانوں کے کانوں تک پہنچے، یہی وجہ ہےکہ آج عالمی طاقتیں ایک دوسرے کی آواز سے آواز ملا کر چلا رہی ہیں تاکہ ہماری آواز نہ سنی جا سکے، یہی وجہ ہےکہ خزانوں کے منھ کھولنے کےلئے آمادہ ہیں تاکہ دنیا یہ نہ سمجھ سکےکہ ایران پر مسلط کی گئی جنگ کیوں شروع ہوئی، کس کے ہاتھوں اور کس کے اکسانے پر؟

اس وقت بھی استعماری طاقتیں آمادہ تھیں کہ جو کچھ ہے وہ لٹا دیں تاکہ امام حسین علیہ السلام اور خون حسین کا نام و نشان اور عاشور اس زمانے اور آیندہ آنے والی قوموں کےلئے ایک سبق کی صورت میں باقی نہ رہ سکے اور اس کی شناخت مٹ جائے؛ تاہم آغاز میں لوگوں کو نہیں معلوم تھا کہ یہ واقعہ کتنا عظیم ہے، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگ اس کی عظمت سے واقف ہوتے گئے۔

امام حسین علیہ السلام کے اربعین اور چہلم کی مناسبت سےہم اربعین جیسے مقدس لفظ کے اسلامی ثقافت میں مختلف مقامات میں استعمال ہونے کو بیان کرنا چاہتے ہیں جو کبھی اپنے ساتھ دستور الہی کو بیان کرتا ہے تو کبھی اخلاقی ذمہ داری کو،لہذا اس کی طرف توجہ دینے سے پتہ چلتا ہے کہ دینی ثقافت میں چالیس کے عدد کی کتنی اہمیت ہے :

۱۔ چالیس مومنین کی شہادت اور گواہی

امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: إِذَا مَاتَ اَلْمُؤْمِنُ فَحَضَرَ جَنَازَتَهُ أَرْبَعُونَ رَجُلاً مِنَ اَلْمُؤْمِنِينَ فَقَالُوا اَللَّهُمَّ إِنَّا لاَ نَعْلَمُ مِنْهُ إِلاَّ خَيْراً وَ أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنَّا قَالَ اَللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى إِنِّي قَدْ أَخَذْتُ شَهَادَتَكُمْ وَ غَفَرْتُ لَهُ مَا عَلِمْتُ مِمَّا لاَ تَعْلَمُونَ (مستدرک سفينة البحار، ج 4، ص 64 )

"جب بھی کسی مومن کا انتقال ہوتا ہےاور اس کے جنازے میں چالیس مومنین حاضر ہوتے ہیں اور گواہی دیتے ہیں : پروردگارا! ہم اس مومن کے بارے میں نیکی اور خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تو اس کے بارے میں ہم سے بہتر جانتا ہے۔ تو اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: میں تم لوگوں کی گواہی کو قبول کرتا ہوں اور جن گناہوں کے بارے میں تم نہیں جانتے اور میں جانتا ہوں وہ سارے کے سارے معاف کرتا ہوں۔”

اسی طرح امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا جو ہمیشہ عبادت اور اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول رہتا تھا ۔ اللہ تعالی نے حضرت داوود پر وحی نازل فرمائی: یہ عابد ریاکار ہے اور کوئی خلوص نہیں رکھتا۔ حضرت داوود اس کی تشییع جنازہ کے لئے حاضر نہ ہوئے لیکن بنی اسرائیل کے چالیس مومنین وہاں حاضر ہوئے اوراللہ تعالی کی بارگاہ میں اس میت کیلئے نیکی اور خوبی کی گواہی دی اور اللہ تعالی سے اس میت کی مغفرت طلب کی۔ غسل میت کے دوران دوسرے چالیس مومنین نے بھی مغفرت طلب کی۔ اسی طرح دفن کے دوران بھی چالیس مومنین نےاس میت کی نیکی اور خوبی کی گواہی دی اور اس کیلئے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کی۔ اس وقت اللہ تعالی نے حضرت داوود پر الہام فرمایا: میں نے اتنی تعداد میں مومنین کی گواہی کی وجہ سے اس میت کے گناہوں اور ریاکاری سے درگذر فر مایا ۔(مستدرک الوسائل، ج 2، ص 471)

چالیس مومنین کیلئے دعا کرنا:

چھٹے امام جعفر صادق علیہ السلام دعا کی قبولیت کے اہم ترین عوامل میں سے ایک، اپنے لئے دعا سے پہلے دوسرے مومنین کے مقدم کرنے کو شمار کرتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں: مَنْ قَدَّمَ أَرْبَعِينَ مِنَ اَلْمُؤْمِنِينَ ثُمَّ دَعَا اُسْتُجِيبَ لَهُ. (الکافى، ج 2، ص 509، ح 5)

جو بھی اپنے لئے دعا کرنے سے پہلے چالیس مومنین کو مقدم کرے اور پھر اپنے لئے حاجت طلب کرے تو اس کی دعا قبول ہوگی۔

آپ تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اگر اس طرح نماز شب یا اس کے بعد دعا مانگی جائے تو اس دعا کا اثر اور بڑھ جاتا ہے۔

اسی طرح چالیس مومنین کیلئے تاریک راتوں کی نماز وتر کے قنوت میں دعا مانگنے سے دعا قبولیت سے زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔(کشف الغطاء، ج 1، ص 246)

چالیس لوگوں کا دعا کرنا

دعا کرنا ہمیشہ ایک اچھا کام ہے، دعا مومن کا ہتھیار ہے، دعا اللہ تعالی سے راز و نیاز کرنے کا ذریعہ ہے۔جب انسان خود کو عاجز اور لاچار پاتا ہے تو دل اور جان سے فریاد کرتا ہے:

پروردگارا! میرا سینہ درد سے چھلنی ہے میری مدد فرما۔ میرا دل تنہائی کی وجہ سے پریشان ہے میری پریشانی دور فرما۔

ان حساس لمحات میں دعا امید کی ایک کرن بن کر اس انسان کے دل کو روشن کردیتی ہے۔ دعا کرنے والا اپنے اندر سکون محسوس کرنے کے علاوہ اعتماد نفس، روحانی لذت، عشق اور معرفت کو بھی پا لیتا ہے۔

امام صادق علیہ السلام اپنے ایک حکیمانہ کلام میں ہمیں اجتماعی دعا کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:اگر چالیس مومنین مل کر اللہ تعالی سے دعا مانگیں یقین اور اطمنان ہے کہ وہ دعا ضرور قبول ہوگی۔ اور اگر چالیس لوگ نہ ہوں اور چار لوگ دس بار اللہ تعالی سے دعا مانگیں تو وہ دعا بھی اتنا ہی اثر رکھتی ہے۔ اور اگر ایک بندہ دس بار اللہ تعالی سے دعا مانگے تو خداوند عزیز اور جبار اس کی دعا کو قبول کرتا ہے۔( الکافى، ج 2، ص 487)

چالیس گناہوں کی معافی

امام محمد باقر علیہ السلام مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق میں سے ایک، ان کے جنازے میں شرکت کرنے کو شمار کرتے ہیں۔ مسلمان کے جنازہ میں شرکت کرنے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی معنوی تاثیر کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مَنْ حَمَلَ جَنَازَةً مِنْ أَرْبَعِ جَوَانِبِهَا غَفَرَ اَللَّهُ لَهُ أَرْبَعِينَ كَبِيرَةً ؛ )الکافی ج 3، ص 174، ح 1)

جو بھی جنازہ کو چاروں طرف سے کاندھا دے گا اللہ تعالی اس کے چالیس گنا ہوں کو معاف فرمائے گا۔

چالیس سالوں میں عقل کا کامل ہونا

جن چیزوں کا انسانی زندگی اور اس کی شخصیت اور کمال میں بہت بڑا اثر ہے ان میں سے ایک انسان کا کامل اور پختہ ہونا ہے۔ اللہ تعالی اس سلسلے میں چالیس سالوں کو انسانی زندگی کی معراج مانتا ہے اور فرماتا ہے: حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَ اَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚؕ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (احقاف آیۃ 15)

چالیس دن کے خلوص کے اثرات

امام رضا علیہ السلام ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے ارشاد فرمایا: مَا أَخْلَصَ عَبْدٌ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً إِلاَّ جَرَتْ يَنَابِيعُ اَلْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلَى لِسَانِهِ ؛ (عيون اخبار الرضا عليه السلام، ج 1، ص 74، ح 321 )

جو بھی چالیس دنوں تک اللہ تعالی کیلئے خلوص سے عمل کرتا رہے گا اللہ تعالی اس کے دل سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جارے فرمائے گا۔

امام زمانہ کے ساتھی

جب امام زمانہ ظہور فرمائیں گے تو ان کے ہر مددگار اور شیعہ ساتھی کی قوت اور طاقت، جسمانی اور روحانی لحاظ سے مضبوط چالیس مردوں جتنی ہوگی۔

امام زین العابدین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: إِذَا قَامَ قَائِمُنَا أَذْهَبَ اَللَّهُ عَنْ شِيعَتِنَا اَلْعَاهَةَ وَ جَعَلَ قُلُوبَهُمْ كَزُبَرِ اَلْحَدِيدِ ؛ (الخصال، ج 2، ص 541، ح 14)

جب ہمارے قائم عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا ظہور ہوگا تو اللہ تعالی ہمارے شیعوں سے آفت اور بلاءوں کو دور کرے گا اور ان میں سے ہر ایک کو چالیس مردوں کی طاقت عنایت فرمائے گا۔

۸۔ چالیس سالوں کی عمر میں انبیا کی بعثت

ایک روایت میں آیا ہے کہ اکثر انبیا کی بعثت چالیس سالوں کی عمر میں ہوئی۔

اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و ٓلہ و سلم بھی چالیس سالوں کی عمر میں مبعوث ہوئے۔

امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ۶۳ سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور آخری سال ہجرت کا دسواں سال تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب اپنی پیدائش سے چالیس سال مکمل کئے تو اللہ تعالی نے انہیں مبعوث فرمایا۔ اس کے بعد ۱۳ سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ میں گذارے اور ۵۳ سال کی عمر میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور دس سال بعد مدینہ میں ہی داعی اجل کو لبیک کہا۔

۹۔ چالیس حدیثوں کو یاد کرنا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اسلامی معارف اور اسلامی ثقافت کی حفاظت کیلئے مقدمہ سازی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: مَنْ حَفِظَ مِنْ أُمَّتِي أَرْبَعِينَ حَدِيثاً يَنْتَفِعُونَ بِهَا بَعَثَهُ اَللَّهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ فَقِيهاً عَالِماً (الخصال، ج 2، ص 541، ح 15)

میری امت میں سے جو بھی ایسی چالیس حدیثیں یا د کرے جن کی معاشرہ کو عموما ضرورت پڑتی ہے تو اللہ تعالی اسے قیامت کے دن فقیہ اور دانشمند بنا کر محشور کرے گا۔

اس حدیث کی بنیاد پر بہت سارے شیعہ بزرگ علماء نے چالیس حدیثوں کے عنوان سے کتابیں تالیف کی ہیں اور اپنی یادگار چھوڑی ہیں اس امید پر کہ اللہ تعالی انہیں بھی رسول اکرم ﷺکے اس نورانی فرمان کا مصداق بنائے جیسے اربعين شيخ بهائى، اربعين شهيد اول، اربعين مجلسى دوم، اربعين جامى و چهل حديث امام خمينى رحمه الله .

۱۰ ۔ چالیس دنوں تک گناہ کا اثر

انسان جس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اس گناہ کا اثر چالیس دنوں تک انسان کی روح اور نفس پر باقی رہتا ہے۔

امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: لاَ تُقْبَلُ صَلاَةُ شَارِبِ اَلْخَمْرِ أَرْبَعِينَ يَوْماً إِلاَّ أَنْ يَتُوبَ (مستدرک الوسائل، ج 17، ص 57)

شراب پینے والےکی نماز چالیس دنوں تک قبول نہیں ہوتی یہاں تک وہ توبہ کرلے۔

۱۱ ۔ چالیس سالوں تک اصلاح

بنیادی طور پر سعادتمند افراد وہ ہوتے ہیں جو خوشبختی اور کمال کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور چالیس سال کی عمر تک ان کے رفتار اور کردار میں اصلاح پیدا ہو جائے۔ اور اگر چالیس سال تک کسی کے کردار اور رفتار میں تبدیلی نہ آئے اور وہ اپنے آپ کو بری چیزوں سے روک نہ پائے تو اس کے بعد اس کی اصلاح مشکل ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام مسلمانوں کو اس معاملہ میں خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: إِذَا بَلَغَ اَلرَّجُلُ أَرْبَعِينَ سَنَةً وَ لَمْ يَغْلِبْ خَيْرُهُ شَرَّهُ قَبَّلَ اَلشَّيْطَانُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ – وَ قَالَ هَذَا وَجْهٌ لاَ يُفْلِحُ (مشکاة الانوار، ص 295)

جب انسان چالیس سال کا ہو جائے اور اس کے اچھے عملوں کی تعداد اس کے برے عملوں سے زیادہ نہ ہو تو شیطان اس کی پیشانی پر بوسا دیتا ہے اور کہتا ہے اس چہرہ والا کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔

ایک اور حدیث میں، جو افراد چالیس سال تک اپنی اصلاح کیلئے کوشش نہیں کرتے ان کو جہنمی شمارکرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: وہ چالیس سالہ انسان جس کو نیکی کی فکر نہیں وہ اپنے آپ کو جہنم کیلئے تیار کرے اور اس کی نجات مشکل ہے۔(مشکاة الانوار، ص 295)

۱۲ ۔ ہمسایہ کے حقوق

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معاشرہ کی سلامتی کیلئے اور لوگوں کے درمیاں اعتماد اور اطمئنان کی فضا کو برقرار رکھنے کیلئے اور اسی طرح اتحاد کی تقویت کیلئے، اسلامی ماحول میں ہمسایہ کے حقوق بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: كُلُّ أَرْبَعِينَ دَاراً جِيرَانٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ وَ عَنْ يَمِينِهِ وَ عَنْ شِمَالِهِ (وسائل الشيعة، ج 12، ص 132)

ایک مسلمان کے گھر کے چاروں طرف ، آگے ، پیچھے، دائیں اوربائیں سے چالیس گھر، ایک مسلمان کے ہمسایگی میں شامل ہیں ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکمت بھرے پیغام کے حوالے سے امام علی علیہ السلام کو سلمان، ابوذر اور مقداد کے ساتھ حکم دیا کہ لوگوں کے درمیاں ندا کرو اور ان کو ہمسائے کے حقوق اور حدود کے بارےبتاوکہ

جس شخص کے ہمسائے اس کے شر اور آزار سے امان میں نہ ہوں اس کے پاس کوئی ایمان نہیں۔( مستدرک الوسائل، ج 8، ص 431 )

۱۳ ۔ چالیس دنوں کی مہلت

کچھ مسلمان دینی مسائل اور اپنی عزت کے حوالے سے سستی اور کاہلی کا شکار ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اللہ کے مورد عتاب قرار پاتے ہیں تو اللہ تعالی ان کو چالیس دنوں کی مہلت دیتاہے تاکہ اپنی اور اپنے خاندان کے اصلاح کرسکے اگر وہ پھر بھی دینی مسائل میں سستی اور کاہلی کرتا ہے اور چشم پوشی کرتا ہے تو وہ حقیقت کی پہچان سے عاجز ہو جاتا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں: جو بھی اپنی اہل و عیال میں کسی برائی کو مشاہدہ کرے اور دینی غیرت کا مظاہرہ نہ کرے اور اپنے خاندان کو گناہ سے باز نہیں رکھے اور ان کی اصلاح کی کوشش نہ کرے تو اللہ تعالی ایک سفید پرندہ کو اس پر مامور کرتا ہے جو چالیس دنوں تک اس کے گھر کے دروازہ پر پروں کو پھیلائے رکھتا ہے اور اس کے آتے جاتے اس سے کہتا ہے: اپنی اصلاح کرو! اپنی اصلاح کرو! غیرت کرو! غیرت کرو! اگر اس نے اپنے اہل اور عیال کی اصلاح کی تو ٹھیک ورنہ وہ اپنے پروں کو اس شخص کی آنکھوں پر ملتا ہےاور اس کے بعد وہ شخص کچھ نہیں دیکھ پاتا یعنی نیکی کو اچھا اور برائی کو برا نہیں سمجھتا۔( الجعفريات، شيخ صدوق، ص 89)

۱۴ ۔ زیارت اربعین، ایمان اور تشیع کی علامت

امام حسن عسکری علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَزِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَالتَّخَتُّمُ بِالْيَمِينِ وَتَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَالْجَهْرُ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ‏ ..

شیعہ مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں:

1. شب و روز کے دوران 51 رکعتیں نماز پڑھنا

2. زیارت اربعین پڑھنا

3. انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہننا

4. سجدے میں پیشانی مٹی پر رکھنا اور

5. نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہر کے ساتھ (بآواز بلند) پڑھنا۔

(طوسی، تہذیب الاحکام، ج6 ص52)

۱۵ ۔ امام حسین علیہ السلام پر چالیس روز گریہ

امام صادق علیہ السلام ایک روایت میں تمام موجودات کے سالار شہداءپر گریہ کرنے کو بیان کرتے ہوئے زرارہ سے فرماتے ہیں: يَا زُرَارَةُ إِنَّ اَلسَّمَاءَ بَكَتْ عَلَى اَلْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً

اے زرارہ! آسمان نے چالیس دنوں تک امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیا۔( مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل , جلد 1 , صفحه 391)

پس بنیادی طور سے اربعین کی اہمیت اس لئے ہےکہ اس دن، اہل بیت پیغمبر ﷺ کی خداداد حکمت عملی سے امام حسین علیہ السلام کے قیام کی یاد ہمیشہ کےلئے زندہ ہو گئی اور اس کی بنیاد رکھی گئی۔ اگر شہدا کے ورثاء اور اقربا نے مختلف واقعات میں، جیسے کہ واقعہ کربلا کی یاد باقی رکھنے کےلئے کمر نہیں کسیں تو آئندہ نسلیں شہادت سے زیادہ فیضیاب نہیں ہو سکیں گی۔یہ صحیح ہےکہ خداوند عالم شہداء کو اس دنیا میں بھی زندہ رکھتا ہے اور شہید تاریخ و لوگوں کے اذہان میں بھی زندہ ہے، لیکن تمام کاموں کی طرح خداوند عالم نے اس کام کےلئے بھی طبیعی آلات و وسائل مقرر کئے ہیں، یہ وہی چیز ہےکہ جو ہمارے اختیار اور ارادے میں ہے۔ ہم ہی ہیں کہ جو صحیح اور بروقت فیصلوں سے شہدا کی قربانیوں کی یاد اور شہادت کے فلسفہ کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔

پس اربعین کا لفظ دینی نکتہ نظر سے اور احادیث میں بہت بڑی فضیلت کا حامل ہے۔ چالیس حدیثوں کو یاد کرنے کی تاثیر ، چالیس دن خلوص سے عمل کرنا، چالیس دن صبح کو دعائے عہد کی تلاوت کرنا، چالیس سال کی عمر میں عقل انسانی کا کامل ہونا، میت کیلئے چالیس مومنیں کی گواہی، امام زمانہ کی زیارت اور دیدار کیلئے چالیس بدھ کی راتوں میں توسل اور عبادت کو انجام دینا،اکثر انبیاء کا چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہونا، یہ موارد اس علمی، اسلامی اور عرفانی اصطلاح کی منزلت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اربعین ان رائج اصطلاحات میں سے ہے جو اسلامی عبارتوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔

تمت بالخیر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button