سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

کربلا ایک سیاسی و سماجی تربیت گاہ

محمد حسنین امام

امام حسین علیہ السلام کی تحریک نے دنیا کو الہیٰ سیاست کا سبق سکھایا آپ کبھی بھی معاشرے سے کٹ کر خانہ نشین نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ میدان سیاست اور سماج کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے رہے حکومت کے نہ ہونے کے باوجود آپ کئی گھرانوں کی کفالت کرتے، حاکم وقت وقت کے ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے حتی کہ آقا باقر شریف قرشی خوشبوئے حیات میں امام عالی مقام کی مکہ میں ایک سیاسی کانفرنس کے بارے میں راقمطراز ہیں۔
مکہ معظمہ میں سیاسی اجلاس:
امام حسین نے مکہ میں ایک سیاسی اور عمو می اجلاس منعقد کیا جس میں حج کے زمانہ میں آئے ہوئے تمام مہا جرین و انصار وغیرہ اور کثیرتعدادنے شرکت کی ،امام حسین نے ان کے درمیان کھڑے ہوکر خطبہ دیا ، سرکش و باغی معاویہ کے زمانہ میں عترت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ڈھا ئے جانے والے مصائب و ظلم و ستم کے سلسلہ میں گفتگو فرمائی آپ کے خطبہ کے چند فقرے یہ ہیں :
”اس سرکش (معاویہ ) نے ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ وہ کام انجام دئے جس کو تم نے دیکھا ،جس سے تم آگاہ ہو اور شاہد ہو ،اب میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کر نا چا ہتا ہوں ، اگر میں نے سچ بات کہی تو میری تصدیق کرنا اور اگر جھوٹ کہا تو میری تکذیب کرنا ،میری بات سنو ، میرا قول لکھو ،پھر جب تم اپنے شہروں اور قبیلوں میں جاو تو لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور اس پر اعتماد کرے تو تم اس کو ہمارے حق کے سلسلہ میں جو کچھ جانتے ہواس سے آگاہ کرو اور اس کی طرف دعوت دومیں اس بات سے خوف کھاتا ہوں کہ اس امر کی تم کو تعلیم دی جائے اور یہ امر مغلوب ہو کر رہ جا ئے اور خدا وند عالم اپنے نور کو کا مل کر نے والا ہے چا ہے یہ بات کفار کو کتنی ہی نا گوار کیوں نہ ہو ”۔
حریت فکر :
امام ؑ اور آپ کے اصحاب نے ہمیشہ عزت و وقار کو پیش نظر رکھا۔ ذلیل انسانوں کے سامنے جھکنا گوارا نہیں کیا۔ امام ؑ سے جب والی مدینہ نے بیعت کا سوال کیا تو آپ نے اس فعل کو ذلت سے تعبیرکیا اورفرمایا کہ:
” لایبائع مثلی مثلہ”
مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرے گا۔”(بحار الانوار ج ٤٤ص ٣٢٥)
آپ نے میدان کربلا میں بیعت کے سوال پرارشاد فرمایا:
”لا اعطیکم بیدی اعطاء الذلیل ولا اقرّ اقرار العبید”
میں ذلیل افراد کی طرح اپنا ہاتھ بیعت کے لئے تمہارے ہاتھ میں نہیں دوں گااور غلاموں کی طرح اقرار بیعت نہیں کروں گا۔
میدان کربلا میں روز عاشور آپ نے سپاہ شام کے سامنے فرمایا کہ :
”الا ان الدعی وابن الدعی قد ترکنی بین السلۃ والذلۃ وھیھات منا الذلۃ ابی اللّٰہ ذالک لنا ورسولہ والمؤمنون وحجور طھرت جدود طابت ان یوثر طاعۃ اللأام علی مصارع الکرام”(احتجاج طبرسی ج٢ ص٢٤)
آگاہ ہو جاؤ دعی ابن دعی نے مجھے موت اور ذلت کے درمیان کھڑا کر دیا ہے اور ذلت ہم سے کوسوں دور ہے ۔خدا اور اس کا رسول ؐ اور وہ پاک دامن جن میں ہم نے تربیت پائی ہے ،ہمیںاس فعل کی اجازت نہیں دیتے کہ ایک پست انسان کی اطاعت کریں ”
امام زین العابدین ؑ بھی اپنے بابا کی شہادت پر فخر کرتے ہوئے کوفہ کے لوگوں سے فرماتے ہیں کہ :
”انا ابن من قتل صبراً وکفانی بھذا فخراً”
(مصارع الشھداء ومقاتل السعداء ص ١٦٤)

میں اس کا بیٹا ہوں جس کو شہید کیا گیااس حالت میں کہ وہ صبر کر تا رہا۔اور میرے لئے فخر کے لئے یہی کافی ہے ۔
آپ کی طرح ثانی زہراؑنے بھی عزت وقار کا مظاہرہ کیااور ظالموں کے ان اہانت آمیز رویوں کے سامنے آپ نے خندہ پیشانی سے انہیں شکست سے دوچار کیا۔ آپ ؑنے ظالموں کو ہر مقام پر خواہ وہ دربار یزید ہو یا دربار ابن زیاد ،بازار کوفہ ہو یا بازار شام دندان شکن جوابات دئیے اور صاحبان اقتدار کو ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔جب دربار ابن زیاد میں اہل حرم پہنچے تو ابن زیاد ،حضرت زینبؑ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
”الحمد للّہ الذی فضحکم وقتلکم واکذب احدوثتکم
تعریف ہے اس خدا کی جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہیں قتل کیا اور تمہاری باتیں جھوٹی ثابت کردیں۔”
(الارشاد ج٢ ص١١٥)
ابن زیاد نے یہ خیال باطل اپنے ذہن میں بٹھا رکھا تھا کہ یہ تو قیدی ہیں ،میں جو کچھ کہوں گا یہ لوگ خاموشی سے سنتے رہیں گے اور میں انہیں ذلیل کروں گا۔لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ علی ؑ کی بیٹی نے دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا:
”الحمد للّٰہ الذی اکرمنا بنبیہ محمد صلی اللّٰۃ علیہ وآلہ وطھرنا من الرجس تطھیراً، وانما یفتضح الفاسق ویکذب الفاجر وھو غیرنا والحمد للّٰہ
” تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے نبی محمد ؐ کے ذریعے کرامت بخشی اور ہمیں ہر رجس سے پاک وپاکیزہ رکھا۔ رسوا فاسق ہوتا ہے اور جھوٹ فاجر بولتا ہے ۔خدا کے فضل سے ہم ان میں سے نہیں ہیں۔
(الارشاد ج٢ ص١١٥)
اور دربار یزید میں بھی اسی قسم کے رویہ کا سامنا کرناپڑااور یزید اقتدار کے نشہ میں مست ہو کر کفر آمیز جملے ادا کرنے لگاکہ:
لعبت بنو ہاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل
لیت اشیاخی ببدر شھدوا جزع الخزرج من وقع الاسل
لاھلوا واستھلوا فرحاً ولقالو یا یزید لا تشل
فجزیناہ ببدر مثلاً اقمنا مثل بدر فاعتدل
لست من خندف ان لم انتقم من بنی احمد ما کان فعل
"بنی ہاشم نے حکومت کے لئے کھیل کھیلا ، نہ کوئی خبر آئی اور نہ کوئی وحی اتری ، کاش میرے وہ بزرگان ہوتے جو بدر میں مارے گئے ہیں تو خزرج کی فریاد سنتے تلوار کے وار کی وجہ سے، وہ خوش ہوتے اور کہتے :اے یزید شاباش ۔ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا اور ہم نے ایک اور بدر قائم کردیا پس برابر ہو گئے۔ اگر میں آل احمد ؐسے ان کے کئے کا بدلہ نہ لوں تو میں خندف کی اولاد نہیں ہوں”
(احتجاج طبرسی ج ٢ ص ٣٠٧،لھوف ص٢٤٤)
اس کے جواب میں حضرت زینب ؑ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
”اظننت یا یزید حین اخذت علینا اقطار الارض وآفاق السماء فاصبحنا نساق کما تساق الامائ۔ ان بنا ھوانا علی اللّٰہ وبک علیہ کرامۃ”
(لہوف ص٢٤٤)
"اے یزید کیا تو نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اگر زمین اور آسمان کو ہم پر تنگ کر وگے اور ہمیں کنیزوں کی طرح اسیر کرو گے تو ہمیں خدا کے نزدیک ذلیل اور خود خدا کے پاس صاحب عزت بن جاؤ گے”۔
"یا یزید کد کیدک واسع سعیک ناصب جھدک فواللّٰہ لا تمحو ذکرنا ولا تمیت وحینا”
اے یزید تم جو حیلہ اختیار کرنا چاہتے ہو اختیار کرلو اور جتنی کوشش کرنا چاہے کرلو ، خدا کی قسم تو ہمارا ذکر نہیں مٹا سکے گا اور وحی کو ختم نہیں کر سکے گا۔
(لہوف ص ٢٥٠)
امر بالمعروف:
امر بالمعروف ونہی عن المنکر اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے ۔ جب شرائط موجود ہوں تو ہر مسلمان پرامر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے۔لیکن بدقسمتی سے امام حسینؑ کوایسے لوگوں کا سامنا تھا جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے بجائے امربالمنکر اور نہی عن المعروف کرتے تھے۔ آپ کے قیام کا ایک بنیادی مقصد امر بالمعروف ونہی عن المنکر تھا۔ جس کی طرف آپ نے مدینہ سے نکلتے وقت توجہ مبذول کرائی:
”ارید ان أمر بالمعروف وانہیٰ عن امنکر”
” میرا ارادہ یہ ہے کہ میں امر بالمعروف اور نہی از منکر کروں”۔
مسلمانوں کا یہ وظیفہ بنتا ہے کہ وہ خود بھی اچھے افعال انجام دیں اور برے کاموں سے پرہیز کریںاور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں، حق پر عمل پیرا ہوں اور باطل سے پرہیز کریں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں۔لیکن امام ؑ کے دور میں حق پر عمل نہیں ہو رہا تھا اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جا رہا تھا۔ یہی اسباب تھے جن کی وجہ سے امام نے قیام کےا۔ ایک مقام پرآپؑ فرماتے ہیں :
” الا ترون ان الحق لا یعمل بہ وان الباطل لا یتناھی عنہ”
"کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے نہی نہیں ہو رہی ہے”۔
(شرح الاخبارج3، ص150، بحار ج75 ص116، کشف الغمۃ ج2، ص32، تحف العقول، ج1، ص265، نزھۃ الناظر،ج1، ص87)
برائیوں کی روک تھام :
جب دین میں بدعت رواج پا جائے اور دین کا چہرہ مسخ کیا جائے تو صاحبان علم کا کیا وظیفہ بنتا ہے ، اس بارے میں روایت موجود ہے
”اذا ظہر البدع فلیظہر العالم علمہ وان لا تفعل فلعنۃ اللّٰہ علیہ”
” جب بدعت ظاہر ہوجائے تو عالم کا وظیفہ یہ بنتا ہے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور بدعت کا خاتمہ کرے اگر ایسا نہ کرے تو اس پرخدا کی لعنت ہو گی”۔
(اصول کافی ج ١ ص ٥٤، وسائل الشیعہ ج ١٦ ص ٢٦٩)
رسول اسلام ؐ کے بعد بدعتوں کا رواج پانا شروع ہوا۔ امام حسین ؑکے زمانے میں اس حد تک بدعتیں رواج پا چکی تھیں کہ دین محمدیؐ کا چہرہ مسخ کردیا گیا تھا۔ اس وقت روئے زمین پر آپ سے زیادہ کوئی عالم شخص موجود نہیں تھا ۔ امام کا یہ وظیفہ بنتا تھا کہ آپ اس بدعت کے خاتمہ کے لئے قیام کریں۔ اور امام ؑ نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دی۔امام ؑ ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں کہ :
” ادعوکم الی کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ فان السنۃ قد امیتت فان تجیبوا دعوتی وتطیعوا امری اھدکم سبیل الرشاد”
میں تمہیں کتاب خدا اور سنت نبی ؐ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔ بتحقیق سنت کو ختم کیا گیا ہے اگر تم میری دعوت کوقبول اورمیری اطاعت کرو تو میں راہ رشد کی طرف تمہاری ہدایت کروں گا۔
(بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٤٠، مثیر الاحزان ج١ ص ٢٧)
امام حسین ؑ نے حر کے لشکر سے مخاطب ہو کر فرمایا:
”ایھاالناس! من رأی سلطاناً جائرا مستحلاًلحرام اللّٰہ ، ناکثاًلعھداللّٰہ ،مستأثراً لفَیء اللّٰہ،معتدیاًلحدوداللّٰہ ،فلم یغیر بقول ولا فعل کان حقاً علی اللّٰہ ان یدخلہ مدخلہ ۔ الا وان ھؤلاء القوم قد احلوا حرام اللّٰہ وحرموا حلالہ واستأثروا فَی ءَ اللّٰہ "
(بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٨٢،حماسہ حسینی ج١ص٢٧١)
امام ؑ نے یہاں پر ایک صغری اور کبری ذکر کیا ہے۔ ابتداء میں کبری بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘ایھاالناس۔۔۔۔” اے لوگو!رسول خدا نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص کسی ظالم وجابر کو دیکھے کہ وہ حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کرتا ہے ، بیت المال کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے، خدا کے قانون میں تبدیلی کرتا ہے ، اور وہ شخص اس حالت میں خاموش بیٹھا رہے تو خدا کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے اس ظالم کا ساتھی قرار دے۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام بیان فرماتے ہیں ”ان ھؤلاء القوم۔۔۔۔’‘ یہ قوم (بنی امیہ )جو آج حکومت کر رہی ہے اسی طرح حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کر رہی ہے۔ بیت المال کو ذاتی مقاصد کے لئے خرچ کر رہی ہے ۔ آخر میں فرماتے ہیں :
”انا احق من غیرلقربتی من رسول اللّٰہ”
میں اپنے نانا کے فرمان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دوسروں سے زیادہ حقدار ہوں ۔
ظالموں کے خلاف مسلسل جہد :
ظالم اورجابر افراد جب تخت حکومت پر بیٹھے ہوں تو وہ نہ کسی پررحم کرتے ہیں اور نہ کسی قانون کی رعایت۔امام حسین ؑکے دور میں بھی یہی کچھ ہو رہا تھا ۔ آپ ؑ کے دور میں ایسے افراد حکومت پر قابض تھے جو نہ مقدسات دینی کے لئے احترام کے قائل تھے نہ اسلام کی عظمت کے ۔بلکہ کھلے عام دین اسلام کا مذاق اڑاتے تھے۔ایسے موقع پر امام ؑنے اپنے اوپر جہاد کو فرض سمجھا اور ظالم اور مفسدوں سے جہاد کرنے نکلے۔ امام ؑ کوفہ کی طرف اسی مقصد کی خاطر نکلے تھے تاکہ وہاں کے لوگوں کو جمع کرکے ظالم حکومت کے خلاف جہاد کریں اور نظام عدل قائم کریں۔
امام حسین ؑ فرزدق سے فرماتے ہیں :
”میں سب سے زیادہ سزاوار ہوں دین خدا کی مدد کے لئے قیام کروں اور اس کی شریعت کو عزت دوں۔ اس کی راہ میں جہاد کروں تاکہ کلام خدا بلند وبالا ہو جائے”۔
احیاء کتاب وسنت :
امام ؑ کے زمانہ میں کتاب خدا اور سنت رسولؐ پر عمل کرنا چھوڑ دیا گیا تھااور صاحبان اقتدار اپنے اجداد کے نقش قدم پر چل رہے تھے ۔ خدا کے احکامات اور رسولؐ کی سنت کو پس پشت ڈال چکے تھے۔ امام حسین ؑ نے احیاء کتاب اور سنت رسولؐ کو احیاء کرنا اپنا ہدف قرار دیا۔ مدینہ سے نکلتے وقت آپ نے فرمایا :
”اسیر بسیرۃ جدی وابی”
” میں اپنے نانا اور بابا کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں”۔
امام ؑ بصرہ کے لوگوں کے نام ایک خط تحریر فرماتے ہیں :
” ادعوکم الی کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ فان السنۃ قد امیتت فان تجیبوا دعوتی وتطیعوا امری اھدکم سبیل الرشاد”
"میں تمہیں کتاب خدا اور سنت نبی ؐ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔ بتحقیق سنت کو ختم کیا گیا ہے اگر تم میری دعوت کوقبول اورمیری اطاعت کرو تو میں تمہیں صحیح راستے کی ہدایت کروں گا”۔
(بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٤٠، مثیر الاحزان ج١ ص ٢٧)
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں کہ :
”اہل کوفہ نے میرے نام خط لکھا ہے اور مجھ سے چاہا ہے کہ میں ان پاس چلا جاؤں کیونکہ مجھے امید ہے کہ حق کی نشانیاں اور تعلیم زندہ اور بدعتیں ختم ہوجائیں”۔(کلمات امام حسیؑن ص٣٤١)
عدالت خواہی :
امام حسینؑ کا زمانہ ایسا زمانہ تھا جہاں مومنین اور محبان اہل بیت ؑ پر فقط اس جرم میں ظلم ہونے لگا تھا کہ وہ محب اہل بیت ہیں۔اقتدار ظالم ، جابراور دشمنان اہل بیتؑ کے ہاتھ میں تھا۔ جس کی وجہ سے وہ جس پر ظلم کرنا چاہیں اور جب تجاوز کرنا چاہیں کر تے تھے۔ اس کے خاتمہ کے لئے ایک ایسے نظام عدل کی ضرورت تھی جس میں معاشرہ کے کمزور افراد بھی سکون کا سانس لے سکیں۔امام ؑکے قیام کے مقاصد میں سے ایک ، عدالت کا قیام تھا۔جیسا کہ آپ کے سفیر حضرت مسلم ابن عقیل ؑ،دربار ابن زیاد میں اسی بات پر زور دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ حضرت مسلم فرماتے ہیں:
” فأتیناہ لنأمر بالعدل وندعو الی حکم الکتاب”
"ہم یہاں اس لئے آئے ہیں تاکہ عدالت کے ساتھ حکم کریں اور قرآن کے حکم کی طرف دعوت دیں”۔
(الارشاد ج٢ص٦٢)
وفاشعاری :
معرکہ کربلا وفاداری سے بھرا ہوا نظر آتاہے ۔ہر مقام پر وفا کی ایک تصویر دکھائی دیتی ہے ۔اسی وفا داری کو دیکھ کر اباعبداللہ ؑ ارشاد فرماتے ہیں :
”فانی لا اعلم اصحاباً اوفی ولا خیراً من اصحابی”
” میں نے اپنے اصحاب سے زیادہ باوفا اور اچھے اصحاب نہیں دیکھے”۔(الارشاد ج٢ص٩١)
خصوصاً حضرت عباس کی وفا مشہور ہے ۔ آپ اس طرح وفا کے حامل تھے کہ اب وفا کا نام سنتے ہی حضرت عباس ذہن میں آتے ہیں ۔ شیخ مفید کتاب ارشاد میں لکھتے ہیں کہ جب شمر ملعون آیا اور کہا کہ :
”انتم یا بنی اختی آمنون "
"اے میری بہن کے فرزندو!تم امان میں ہو”۔
توحضرت عباس اور آپ کے بھائیوں نے جواب میں فرمایا کہ :
”لعنک اللّٰہ ولعن امانک اتؤمننا وابن رسول اللّٰہ لا امان لہ”
"تم اور تمہارے امان نامے پر خدا کی لعنت ہو، کیا تو ہمیں امان دیتا ہے جبکہ رسول خدا ؐ کے فرزند کیلئے امان نہیں ہے”۔
(الارشاد ج٢ ص ٨٩)
کتاب”اعیان الشیعہ ”میں حضرت عباس ؑ کا جواب اس طرح سے موجود ہے
”تبت یداک ولعن ما جئتنا بہ من امانک یا عدواللّٰہ اتأمرنا ان نترک اخانا وسیدنا الحسین بن فاظمہ وندخل فی طاعۃ اللعناء "
” اے دشمن خدا !وای ہو تجھ پر ، لعنت ہو تمہارے امان پر ۔کیا تم یہ کہتے ہو کہ ہم اپنے بھائی وآقا حسین ؑابن فاطمہؑ کو چھوڑ دیں اور لعینوں کی اطاعت کریں”۔
(اعیان الشیعہ ج١١ص٤٧٧)
دریا ئے فرات پر جب آپ کا قبضہ ہوااس وقت آپ تین دن سے پیاسے تھے اور پانی آپ کی دسترس میں تھا لیکن آپ فرماتے ہیں کہ:
”واللّٰہ لا اذق الماء وسیدی الحسین عطشاناً”
"خدا کی قسم میں پانی کو نہیں چکھوں کا کیونکہ میرا آقا حسین پیا ساہے”۔
عباس کی وفا ایسی تھی کہ دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔جب وہ علم جسے حضرت عباس نے اٹھایا ہوا تھا یزید کے دربار میں پیش کیا جاتا ہے تو یزید دیکھتا ہے کہ اس پرچم میں کوئی جگہ سالم نہیں ہے اور پوچھتا ہے کہ اس علم کوکس نے اٹھارکھاتھا ۔ جواب ملا عباس ابن علی ؑ،تو کہنے لگا :
"ھکذا یکون وفا الاخ لاخیہ”
” بھائی کی وفاداری بھائی سے اس طرح ہونی چاہیے”۔
امام ؑ کے عزیزوں کے علاوہ آپ ؑ کے اصحاب بھی وفا کے پیکر تھے ۔ عمرو بن قرظہ روز عاشور دشمنوں کے تیروں کے سامنے امام ؑ کے لئے سپر بنتے ہیں تاکہ امامؑ پر کوئی آنچ نہ آنے پائے اس قدر زخمی ہو گئے کہ زخموں کی تاب نہ لا کر گر پڑے اور حضرت سے پوچھنے لگے : اے فرزند رسول !کیا میں نے وفا کی ہے ۔ حضرت نے جواب دیا :ہاں! تم مجھ سے پہلے بہشت جا رہے ہو ،رسول خداؐ کو میرا سلام کہنا۔
(بحارالانوار ج٤٥ص٢٢)
حضرت مسلم ابن عوسجہ فرماتے ہیں کہ :
"واللّٰہ لو علمت انی اقتل ثم احیا ثم احرق ثم احیا ثم اذری یفعل بی ذالک سبعین مرۃ ما فارقتک”
(الارشاد ج ٢ص٩٢)
” خدا کی قسم ! اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ مجھے قتل کیا جائے گا پھر زندہ کیا جائے گا اور جلاکر راکھ کیا جائے پھر اسے ہوا میں اڑایا جائے گا، اسی طرح ستر بار یہ عمل دہرایا جائے تب بھی میں آپ کوچھوڑوں کر نہیں جاؤں گا”۔
بڑے تو بڑے ہیں کربلا میں ہمیں بچے بھی وفا کے علمبردارنظر آتے ہیں ۔ شام غریبان میں جب حضرت سکینہ کو پانی دیا گیا تو آپ پانی کو لے کر مقتل کی طرف جانے لگتی ہیں تاکہ اپنے چھوٹے بھائی علی اصغر کو پانی پلائے جبکہ حضرت سکینہ تین دن سے پیاسی ہیں۔
حکمرانی کا حق:
کربلا کا واقعہ اسلامی سیاست کے خدّوخال کی نقشہ نگاری کا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ ایک سچے مسلمان کیلئے میدانِ سیاست میں نشانِ عمل ہے۔ کربلا حسینیوں کو انکے سیاسی سفر کی جہت دکھاتی ہے اور کربلا نہ فقط سن 61 ہجری میں وقت کے یزید اور یزیدی سیاست سے ٹکرائی تھی بلکہ کربلا آج بھی اور کل بھی وقت کے یزید اور اسکے دیئے گئے ہر یزیدی سیاسی نظام اور نظریے سے ٹکرائے گی۔ کیوں؟ اس لئے کہ کربلا کی تہ میں خدائے لم یزل و لایزال کے لازوال قانونِ شریعت کے بانی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دیا ہوا وہ سیاسی ایجنڈا کارفرما ہے جسکا اعلان حضرت امام حسین ع نے بیضہ کے مقام پر حر کے لشکر کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ان الفاظ میں فرمایا تھا:
"اے لوگو! رسول خدا ص نے فرمایا: جس نے بھی کسی ستمگر، خداوند تعالی کی حرام قرار دی گئی چیزوں کو حلال قرار دینے والے، عہد الہی کو توڑنے والے، رسول اللّہ ص کی سنّت کے مخالف اور اللّہ کے بندوں کے ساتھ گناہ اور ظلم کا سلوک روا رکھنے والے حاکم کو پایا اور اسے ہٹانے کی کوشش نہ کی اور اپنے قول یا فعل کے ذریعے سے اسکی مخالفت نہ کی تو خداوند عالم یقینا اسے بھی وہی ٹھکانہ دے گا جس میں ایسے حاکم کو ٹھہرایا جائے گا”۔
بنابرایں، کربلا آج بھی سجی ہوئی ہے اور کربلا کے شہیدوں کے قافلے میں شریک ہونے کا موقع آج بھی میّسر ہے، کیونکہ آج بھی وہ حکمران موجود ہیں جو خدا کے حلال کو حرام قرار دینے کے درپے ہیں۔ پس کربلا کا مشن اور ایجنڈا آج بھی جاری ہے۔ اور یہ افسوس دکھانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے کہ
"اے کاش! ہم کربلا کے میدان میں ہوتے تو ہم بھی عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو جاتے”۔
اگرچہ واقعہ ہائلہ کربلا فقط اکسٹھ ہجری میں اختتام پذیر ہوچکا مگر کربلا کا پیام اب بھی باقی ہے اس کے آثار اب بھی موجود ہیں کربلا آج بھی ہر طاغوت کے خلاف نبرد آزما ہے کربلا کا پیغام عالمگیر ہے ہر باطل حکومت کے خلاف قیام کا شعور دیتی ہے۔
نمونہ عمل:
انسان کی زندگی میں نمونہ عمل کا اہم کردار ہوتا ہے ہر انسان اپنی جبلت اور فطرت کے تحت کسی کو اپنا لیے نمونہ عمل قرار دیتا ہے یہ جو مقولہ مشہور ہے کہ بچے والدین اور بڑوں کو دیکھ کر دیکھتے ہیں ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ ونہیں نمونہ عمل سمجھتے ہیں پس امام حسین علیہ السلام نے اپنے وصیت نامے میں جہاں اصلاح امت کی بات کی تو ساتھ اپنی روش بھی بھی فرمائی ۔
"ارید ان امر بالمعروف و انھی عن المنکر و اسیر بسیرۃ جدی و ابی علی ابن ابی طالب”
"میں امر بالمعروف اور نہی عن لمنکر کرنا چاہتا ہوں،اور میں اپنے نانا اور اپنے باپ کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں”۔
یہاں امام عالیمقام اپنے نانا اور بابا کو اپنے لیے مثالی کردار کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں پس ہر انسان کے لیے ایک مثالی کردار ہوتا ہے جس کی سیرت و صورت کو وہ عملی طور پر اپناتا ہے اس کی تہذیب وتمدن، لباس، اطوار و عادات، زبان اور گفتار اپنے کردار کے قالب میں ڈھالتا ہے۔
ایک اور جگہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
"تمہارے نفسوں کی قیمت جنت ہے لہذا اس سے کم قیمت پر نہ بیچو۔”
پس عاقل انسان کبھی خسارے کا سودا نہیں کرتا اب ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے لیے ایک ایسا مثالی کردار بنائیں جس نے خود کسی طور پر جنت سے کم قیمت پر پیش نہ کیا ہو بلکہ جنت سے بڑھ کر اپنی قدر و منزلت پائی ہو جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ ذٰلِکَ ھُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ
اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
کیونکہ خوشنودی خدا ہی ایسی بڑی کامیابی ہے جس کے سامنے جنت کی دائمی نعمات بھی کم تر نظر آتی ہیں پس یہ ہستیاں وہ محمد و اہل بیت محمد ہیں جو انسان اکمل کے درجہ پر فائز ہیں اور اکمل کو چھوڑ کر ناقص کی طرف میلان یقینا دنیا و آخرت میں رسوائی اور ذلت کا سبب ہے۔
لیکن آج ہمیں اپنے سماج میں اس چیز جی شدید کمی محسوس ہورہی ہے اسلامی ثقافت کو گھٹیا اور پست گردانا جاتا ہے اداکاروں اور انسان زدہ تہذیب کا عنصر غالب نظر آتا ہےپیام حسینی سے مکمل انحراف ہے جبکہ زبانی ، کلامی طور پر طورپر تحر یک کربلاء کے علمبردار بنے ہوئے ہیں جبکہ اہل بیت مخالف نظریات کا پرچار، مغربی تمدن کی اتباع، اسلامی تعلیمات سے روگردانی آج کے مسلمانوں کا وتیرہ بن چکا ہے۔
جبکہ قرآن ہمیں انبیاء کا راستہ دکھاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
” آلرٰ کِتٰبُ اَنْزَ لْنٰه اِلَيکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّهمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ”
"ا لر ،یہ(عظیم) کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائیں، ان کے پروردگار کے حکم سے (اس سیدھے) راستے کی طرف جو زبردست اور تعریفوں والے اللہ کا ہے "۔
یہی مقصد امام عالی مقام علیہ السلام کا تھا کہ یہ امت اب اندھیروں میں گھِری ہوئی ہے ، گمراہ ہو چکی ہے، فاسد ہو چکی ہے لہٰذا اس کو نور کی طرف لایا جائے اسی طرح جس طرح رسول اﷲ صلّی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس امت کو گمراہی سے نکالا تھا تاکہ عدل و انصاف اور امن و امان کا قیام ہو۔
اسی طرح امام علی علیہ السلام ارشاد فرناتے ہیں:۔
”والَّذِی بعثه بالحق لتبلبلُنَّ بلبلة ولتغربلنّ غربلة ولتساطنّ سوط القدرحتّٰی يعود اسفلکم اعلاکم و اعلاکم اسفلکم وليسبقنّ السّابقون کانوا قصروا وليقصرنّ سبّاقون کانوا سبقوا”
"اس ذات کی قسم !جس نے رسول صلّی اﷲ علیہ و آلہ وسلّم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تم بری طرح تہ و بالا کیے جاؤگے اور اس طرح چھانٹے جاؤگے جس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح خلط ملط کیے جاؤگے جس طرح چمچے سے ہنڈیا۔ یہاں تک کہ تمہارے ادنیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہو جائیں گے ، جو پیچھے تھے وہ آگے بڑھ جائیں گے اور جو ہمیشہ آگے رہتے تھے وہ پیچھے رہ جائیں گے”۔
(نہج البلاغہ خطبہ ١٦، ج ١، ص ٤٧ مفتی محمد عبدہ)
امام حسین علیہ السلام بھی اپنے والد بزرگوار کی طرح اس امت کی اصلاح کرتے ہوئے حق و عدل کو قائم اور امن و امان کا قیام کرنا چاہتے ہیں۔
امام علیہ السلام کے اس جملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر لوگوں نے حق کا ساتھ دیا تو دین خدا سر بلند ہوگا اور معاشرہ میں امن و امان اور عدل و انصاف قائم ہوں گے ۔ اگر لوگوں نے ساتھ نہ دیا تو خدا ان سے مواخذہ ضرور کرے گا اور انہیں مصیبت میں مبتلا کرے ۔ لیکن لوگ سلاطین کے ظلم و استبداد کے سامنے سر نگوں رہے انہوں ان مقدس ہستیوں کے کردار سے فائدہ نہ اٹھایا اور ظلم کے خلاف خاموش رہے تو بعد میں مصیبتوں میں گرفتار ہوئے اور ظالموں حاکموں کا سامنا کرنا پڑا۔ کاش کہ حق کا ساتھ دیتے تو معاشرہ میں عزت و وقار اور سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتے افسوس کہ ایسا نہیں کیا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button