کلام امیرالمومنین میں صفات الہی(صفتِ لامکانی؛ تجزیہ و تحلیل)
غلام رسول ولایتی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
کلام امیرالمومنین میں صفات الہی
( صفتِ لامکانی؛ تجزیہ و تحلیل )
غلام رسول ولایتی
کلیدی الفاظ: ذات الہی، صفات الہی، لا مکانی، مکان دار، وجودِ مستقل، وجودِغیر مستقل۔
مقدمہ
امیرالمؤمنین ؑ کا کلام بالخصوص نہج البلاغہ توحيد سے چھلک رہا ہے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک وہ مرد نہیں آیا کہ جو کلامُ الامام و امامُ الکلام کی تفسیر کا حق ادا کرسکے۔ اس میں دقیق، عمیق، ظریف اور فلسفیانہ براہین(proofs) ہیں جو آج کے انسان سے پوشیدہ ہیں، اگر ان سب کو لکھنے اور وضاحت کرنے کی کوشش کی جائے تو کئی جلدوں کی کتاب بن سکتی ہے۔ میں نے ذاتِ احدیت کی صفات سلبیہ میں سے فقط ایک صفت پہ قلم فرسائی کی کوشش کی ہے۔ اس موضوع پہ علمی خلا (knowledge gape) تھا اس وجہ سے اس موضوع کو چنا اور ساتھ صفت سلبیہ پہ لکھنے کا اہم ترین مقصد یہ بھی ہے کہ موجودہ دور میں ملحدانہ افکار ، خوبصور ت سائنسی اور عقلیات کے گلدستے میں اور علمی پیرائیوں میں سجا کر مسلمان جوانوں تک پہنچائے جارہے ہیں۔ انھوں نے کھل کر اعلان کیا کہ اب ہمیں مذاہب کے خلاف یک دست ہو کر لڑنا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہیں تاکہ دنیا سے ادیان مٹ جائیں اور بشریت دین سے خالی ہو۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ اب ہم نے خدا کو دفن کردیاہے لہذا اب کے بعد جہاں جہاں ہمارے افکار پہنچیں گے وہاں وہاں لوگ خود بخود دین چھوڑتے جائیں گے یا سکیولر یا دین بے زار بن جائیں گے۔دوسری طرف اسلامی دنیا کے اہل علم سکون کی نیند سوئے ہیں کوئی ایک بندہ بھی تیار نہیں ہے کہ وہ اُن ابحاث کو پڑھے اور سمجھے تاکہ ان کے پروپیگنڈوں کا انھیں کی زبان میں جواب دے سکے۔ ایسے میں ہم نے اپنے اوپر لازم سمجھا کہ خداوند عالم کی صفات کو ایک نئے انداز میں اور نئے اسلوب کے ساتھ یونیورسٹیز اور کالجز کے طلبا تک پہنچایا جائے۔ ہم نے اپنے ذهنی اور علمی استعداد کے مطابق ایک حد تک کوشش کی ہے تاکہ کسی بھٹکتے نوجوان کی راہ حق کی طرف ہدایت ہوسکے۔ اگرچہ مقالہ کی محدودیت کی وجہ سے کھل کر نہیں لکھ سکا پھر بھی صفتِ لامکانی پہ خود امیرالمؤمنینؑ کے کلام اور عقلی براہین سے تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
صفات
عربی لغت میں صفت، “وَعَدَ یَعِدُ” کے باب سے ہے، جب کوئی شخص ایسے کپڑے پہنے کہ جس سے جسمانی کیفیت اور ہیئت ظاہر ہوجائے تو وَصَفَ الثوبُ الجسمَ کہتے ہیں، اس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ کسی شے کی خصوصیت، کیفیت یا ہیئت کو واضح اور ظاہر کرنے کو صفت کہتے ہیں۔ جبکہ علمِ الہیات کی اصطلاح میں ذاتِ واجب کی صفات کا ذکر کرنا اور اس کی پاکیزگی بیان کرنا صفت(attribute)کہلاتا ہے۔
کنہ ذات و صفات
کُنہِ ذات (very nature)اور صفات(Devine attributes) یعنی اس ذاتِ احدیت اور اس کی صفات کی حقیقت کو کنہ ذات و صفات کہا جاتاہے، ذات واجب کی کنہ صفات و ذات تک کسی کی رسائی نہیں ہے کیونکہ عقل(intellect) ، وہم(fantasy)،خيال (imagination)،تفکر (cogitation)اور حواس(sensation) ایسی چیزوں کو درک کرسکتے ہیں جس کی کوئی ماہیت(quiddity)، کمیت (quantity)یا کیفیت(quality) ہو لیکن جس کی کوئی ماہیت، کمیت یا کیفیت نہ ہوعقل، وہم،خیال،تفکر اور حواس اسے تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ عقل فقط انھیں چیزوں کا تصور کرسکتی ہے جس سے وہ آشنائی رکھتی ہو۔ اوہام اور افہام میں وہی چیزآسکتی ہے جسے حواس درک کرسکیں اور حواس کی پہنچ میں ہوں اور مشاہدے ميں آسکیں ۔ حواس وہ کھڑکیاں ہیں جن کے ذریعے ابتدائی اور سطحی معلومات ذہن تک پہنچ سکتی ہیں ۔ امیرالمومنینؑ نے نہج البلاغہ میں متعدد مقامات پہ مشاہدہ پرستی کی نفی فرمائی اور مختلف تعبیرات کے ذریعے حواس کی محدودیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جیسے”لا تَقَعُ الْأَوْهَامُ لَهُ عَلَى صِفَةٍ” "لَايُدرِكُ بِالحَوَاسِ” ،” لَا تُدرِکُهُ الشَّوَاهِد” ، "لَا تُدرِکُہُ العُیُونُ” ،”وَ لُا تُحِیطُ بِه الَابصَارُ” ، "وَ لا تُعْقَدُ الْقُلُوبُ مِنْهُ عَلَى كَيْفِيَّةٍ” یعنی اسے حواس (senses) کے ذریعے درک(apperception) نہیں کیا جاسکتا ہے نہ ہی احاطہ کیا جاسکتا ہے۔
عقل کی محدودیت کی حد یہ ہےکہ مخلوقات میں سے کئی ایسی چیزوں کی تصویر ذہن میں نہیں لا سکتی ہےجسے کبھی اس نے دیکھی نہ ہوجیسے کہ کائنات کے خارج میں کیا ہے، مادے کے چوتھے بُعد (fourth dimension) کی تصویر کس طرح کی ہوگی۔ آج تک کسی سائنسدان نے یا کسی انیمیشن بنانے والے نے چار بُعدی (four dimensional) تصویر نہیں بنائی ہے اور نہ ہی بناسکے گا۔ "كَيْفَ يَصِفُ إِلَهَهُ مَنْ يَعْجِزُ عَنْ صِفَةِ مَخْلُوقٍ مِثْلِه” پس وہ انسان جو اپنی جیسی مخلوق کی صفت بیان نہیں کرسکتا ہے اسے خالق لم یزل کا تصور و توصیف کیسے ممکن ہے۔
ہمارے لیے مُیسر اُس کے اوصاف (divine attributes)اس کی حقیت ِ اعلی و کُنْہِ ذات (very nature)کو کشف نہیں کرسکتے ہیں "انحسرت الاوصافُ عن كُنْهِ معرفته” ،کیونکہ صفات فقط اس شے کو کشف کرسکتی ہیں کہ جس کی کوئی ہیئت(form)، کمیت (quantity) ، کیفیت (quality) یا اعضا و جوارح ہوں "وَ إنَّمَا يُدْرَكُ بِالصِّفَاتِ ذَوُو الْهَيْئَاتِ وَ الْأَدَوَاتِ"، نہ ہی عقول اسے درک کرسکتی ہیں کیونکہ اس مقام پر جہاں اس کی کنہِ صفات (core of quality)عقول تک پہنچی ہی نہیں ہے وہاں عقول کے دریچے ذات کے عدم ِادراک کی وجہ سے الجھ کرپلٹ جاتے ہیں، نہ ہی دل کی آواز اس کی کُنہِ صفت تک پہنچ سکتی ہے کیونکہ دلِ حزین کے ہَماہِم اور زمزے(humming) اس کی صفت کے کنہ کے ادراک سےمایوس ہوکر پھرجاتے ہیں "رَدَعَ خَطَرَاتِ هَمَاهِمِ النُّفُوسِ عَنْ عِرْفَانِ كُنْهِ صِفَتِه"۔ کیونکہ اس کی نہ حد ہے، نہ ہیئت ہے، نہ مقام ہے، نہ مکان ہے، نہ زمان کے تغیرات اس پہ جاری ہوسکتے ہیں، اس کی ذاتِ احدیت لا متناہی (infinite)ہے کہ جسے کسی خاص حد مثلا کمیتی، کیفتی یا ماہیتی حدود میں مقید نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی ذات، عظمت اور صفات کی انتہا کو انبیا بھی نہ پہنچ سکے نہ ہی اولیا پہنچے،تبھی تو اس کی ذات کےبارے میں سوچنے سے بھی منع فرمایا کیوں کہ اس کی ذات کے بارے میں سوچیں توسوائے حیرت اور سرگردانی کے اور کوئی نتیجہ نہیں ملے گا مزید فرمایاکہ اس کی ذات کے بارے مت سوچو کہ تم زندیق بنوگے۔وہ عقول پر جلوہ گر ہی نہیں ہواہے کہ عقول اس کی حد بندی کرسکیں "لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِهِ وَ لَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِه” لیکن کچھ واجبی معرفت ناممکن بھی نہیں ہے۔
ممکنہ معرفت
عقول اس کی حدبندی نہیں کرسکتی ہیں لیکن کچھ واجبی سی معرفت انسان کے لیے ممکن ہے کہ اس سے وہ چھپا نہیں ہے۔البتہ ابن سینا ؒ کی نظر میں ہر کس و ناکس کا ذہن اس کا ادراک نہیں کرسکتا ہے وہ خاص بندے ہیں کہ جو ممکنہ معرفت تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں( جیسے ہرسٹوڈینٹ یونیورسٹی جاتا ہے لیکن آئن سٹائن جیسا سائنسدان نہیں بن سکتا ہے یعنی وہ دماغ نہیں ہے کہ قدرتی حقائق سمجھ سکے اور دریافت کرسکے) ، یہ وہ دریا ہے جہاں انسان غرقاب ہوجاتا ہے ، اس سمندر میں اترنے سے پہلے لازمی تیاری بہت اہم ہے اور اس میدان کا ذہن ہونا ضروری ہےوگرنہ خیالات کے سمندر کی طغیانی میں انسان غرقاب ہوجائے۔جناب بوعلی سیناؒ نصیحت کرتے ہیں کہ اس سمندر کے تیراک کو ماہر ، تیز، ہوشیار، نفس کی پاکیزگی، استقامت اور حقیقت کے سامنے تسلیم ہونے والی روح چاہیے ، ان الہیاتی مسائل میں غوطہ زنی کے لیے بہت ہی برجستہ اور یگانۂِ روزگار عقول کی ضرورت ہے، ہر کس و ناکس اس شرط پہ پورا نہیں اترتا ہے، شہید مطہری کے بقول ابن سیناؒ کی یہ نصیحت حدیث نبوی کی طرف اشارہ ہے کہ "ہر کسی را بہر ِ کاری ساختن” یعنی ہر شخص کو ایک خاص کام کے لیے بنایا گیاہے وہ اسی کا ماہر ہوسکتا ہے۔ ابن سیناؒ الہیات کے ماہرین کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس میدان میں اترنے والے شاگرد کو تدریجا اور قدم بہ قدم الہیاتی مسائل سکھائیں، پہلے والے درس کا امتحان لیں ، اگر صحیح سمجھ چکا ہے تو آگے بڑھیں اور جس دن پیچیدہ مسائل سکھانے ہوں اس دن ایسے ہی نہ سکھائیں بلکہ دیکھیں کہ آج شاگرد ذہنی طور پر تیار ہے یا نہیں ہے ، اگر ذہنی طور پر تیار نہیں ہے تو ا س دن نہ سکھائیں۔ شاگرد سے عہد لیں اور قسم کھلائیں اور تاکید کریں کہ یہ دقیق عقلی مسائل عام عوام کو نہ سکھائیں کیوں کہ وہ اس کے اہل نہیں ہیں۔
ممکنہ شناخت میں آراء
یہ بیان ہوا کہ کنہ معرفتِ الہی کی حقیقت کسی کے توان میں نہیں ہے لیکن جو ممکنہ شناخت تک بشر کا ذہن اور قلب پہنچ سکتا ہے اس کے بارے میں مسلمانوں کے ہاں مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ انسانی عقل اللہ کی صفات کو پہچان ہی نہیں سکتی ہے عقل کے لیے کوئی راستا نہیں ہے کہ اللہ کی صفات کو پہچانے۔ ان کا خیال ہے کہ ہم اجمالی طور پر اللہ کی صفات جو قرآن اور حدیث میں آئی ہیں ان پہ ایمان لائیں لیکن ان سے آگاہی جو کہ ناممکن ہے اسے ایسے ہی رہنے دیں۔ اس گروہ کو جو انسانی عقل کے عدمِ ادراک کے قائل ہیں انھیں "مُعَطّلہ” کہا جاتا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ کیوں کہ خدا وند تعالی واجب الوجود (Necessary being)ہے جب کہ ہم مخلوق ہیں، خدا کے اوصاف جو قرآن اور حدیث ميں آئے ہیں یہ حقیقت میں انسانی صفات ہیں انھيں خدا کی طرف نسبت نہيں دیا جاسکتا ہے کیوں کہ خدا کسی بھی مخلوق کی طرح نہیں ہے اس و جہ سے ہم ان انسانی صفات کو اس کی طرف نسبت نہیں دے سکتے ہیں ، ہمارے پاس جو بھی صفات ہیں وہ ممکن الوجود (Contingent being)کی صفات ہیں ان کے علاوہ کوئی صفت ہمارے پاس نہیں ہے۔پس چارہ نہیں ہے کہ ہم اوصافِ الہی کے بارے میں سکوت اختیار کریں اور اجمالی طور پر تصدیق کریں۔ یہ گروہ تنزیہِ خداوندی (transcendence) میں افراط کی طرف گئے اور عقل کو سرے سے ناتوان خیال کرنے لگے کہ ہماری عقل ممکنہ صفات بھی درک نہیں کرسکتی ہے، ان میں سے بعض اس حد تک تنزیہ کی طرف نہیں گئے لیکن کہتے ہیں کہ ہم خدا کے اوصاف کو تو درک نہیں کرسکتے ہیں کیوں کہ اس سے تشبیہ لازم آتی ہے لیکن ہم کوئی ثبوتی صفت ثابت کرنا چاہیں تو لازما وہ انسانی صفت ہوگی اور اس سے تشبیہ لازم آئے گی، پس چارۂ کار یہ ہے کہ ہم ان صفات کو خداوند تعالی کی ذات سے نفی کریں، جیسے جب ہم کہنا چاہیں کہ خد اعلیم، قدیر اور حی ہے تو اس سے یہ سمجھیں کہ وہ جاہل، عاجز اورمیت نہیں ہے۔
ان کے مقابلے میں اکثر مسلمان متکلمین (dialectical theologian) اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ اللہ کی ممکنہ صفات کو عقلِ انسانی درک کرسکتی ہے اور اس کی صفات (attributes) کے ذریعے ممکنہ شناخت حاصل کی جاسکتی ہے۔ البتہ یہ بھی دو گروہوں میں منقسم ہیں ، ان میں سے پہلا گروہ جس کا خیال ہےکہ اللہ کےاوصاف جن کے ذریعے ہم اللہ کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں ان میں اور انسانی اوصاف ميں کوئی فرق نہیں ،یہ اوصاف انسان اور خدا دونوں کے لیے یکساں معنی رکھتے ہیں۔ اس گروہ کو جو اوصاف الہی کو انسانی صفات سے مشابہ مانتے ہیں اورکسی فرق کے قائل نہیں "مُشَبّہہ” (anthropomorphist)کہتے ہیں، ان میں سے بعض تو اللہ کے جسم ، ہاتھ اور پاؤں کے قائل ہیں یہ اپنی تائید کے لیے بعض قرآنی آياتِ متشابہات (multivalent verses)سے دلیل لاتے ہیں، جب کہ ان آیات کی تاویل کا حکم دیا گیا ہے۔
دوسرا گروہ انسانی اور الہی صفا ت میں فرق کے قائل ہے اگرچہ لفظی طور پر مشترک (heteronym)ہیں لیکن معانی بالکل مختلف ہیں ، ہم تنزیہ اور تشبیہ کے درمیان رہ کر ایک الگ معنی لے سکتے ہیں اور ہم ایک معقول و محدود حد تک اسے پہچان سکتے ہیں ہرچند ہم کنہ ذات (very nature) اور کنہ صفات (core of attributes)تک نہیں پہنچ سکتے لیکن امکانی حد تک توصیف ممکن ہے اگرچہ عقول اسے صفات ميں محدود نہیں کرسکتے یہ ائمہ اہلبیت علیہم السلام کے مکتب کے لوگ ہیں کہ انھوں نے خود ائمہ اہلبیتؑ کی رہنمائی میں ہی یہ عقلی نظام ترتیب دیا۔
صفات سلبیہ
ایسی صفت جو ذاتِ واجب اور مستقل کے لیے محال اور ممتنع ہو اس صفت کو صفتِ سلبی(negative attribute) کہا جاتا ہے اس کا یہ معنی نہیں کہ اُس سے کمال اور وجودِ مستقل کی صفات کی نفی کی جائے، البتہ صدر المتالہینؒ نے صفات جلالیہ کہنا زیادہ مناسب سمجھا ہے ۔ صفاتِ سلبیہ تمام بڑے ادیان میں خدا وند کی ذات کےلیے شمار کیا گیاہے، انھیں سب سے پہلے ہندو مذہب میں اللہ (براہما) کی صفات کے طور پرشمار کیے ہیں اور بطورِ صفات بہت تاکید کی گئی ہے، ویدوں(Vedas) میں خدا کو یوں یاد کیا ہے لا صدا، لا محسوس، لا صورت، لا زوال،لا طعم، لا شمَّہ، لا زمان ، لامکان۔ اسی طرح مسیحیت، یہودیت، بدھ مت اور اسلام میں صفاتِ سلبیہ کو اللہ کی صفات کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔ صفات ثبوتی سے بھی بڑھ کر خداوند سبحان کو ممکن الوجود اور حادث کی صفات سے منزہ کر نے کے لیے صفاتِ سلبیہ سے بڑھ کر کوئی اور صفات نہیں ہیں۔ حی، عالم اور قدرت مند ہونا انسانی صفات بھی ہیں، ذاتِ واجب جب تک صفات سلبیہ سے منزہ نہ کیا جائے تب تک ایک ممکن الوجود اور غیر مستقل وجود کے علاوہ کچھ ثابت نہیں ہوتا ہے ، اس وجہ سے کئی لوگ ہیں جو علت اولی کو تو مانتے ہیں لیکن مصداق میں اشتباہ کر تے ہوئے انرجی، ایٹم یا کوانٹم زرات کو ذات واجب اور مستقل سمجھتے ہیں۔
لہذا لازمی ہے کہ وجودِ مستقل(being himself) کی تنزیہی صفات کو بیان کیا جائے تاکہ وجودِ مستقل، وجودِ غیر مستقل(existence by something) سے جدا ہوجائے۔ جب واجب الوجود کی صفت بیان کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ساری مادی کائنات وجودِ مستقل بننے کی صلاحيت نہیں رکھتی۔ مادہ ،ایٹمی ذرات اور نیچرل قوانین خد اکے جائیگزین نہیں بن سکتے ،کیوں کہ وہ آفل اور زائل ہیں، پس کوئی آفل اور زائل جو خود محتاج ہو وہ کیونکر میرا خدا ہوسکتا ہے۔
مکتبِ اہلبیتؑ کے کئی متکلمین کی نظر میں اللہ کی سلبی صفات سات ہیں جب کہ محقق علما کے ہاں تعداد معنی نہیں رکھتی ہے ۔ درست بات یہ ہے کہ ہر وہ صفت جو ممکن الوجودکی صفت ہو وہ ذات واجب کی صفت نہيں بن سکتی ہے، سلبی صفات سے متصف موجود مخلوق تو ہو سکتا ہے واجب الوجود اور علتِ اولی(first cause)نہیں ہوسکتا ہے، وہ ایک محتاج اور فقیر ہستی تو ہوسکتی ہے واجب الووجود نہیں ہوسکتی ہے۔ ہم ذاتِ واجب کی سلبی صفات میں سے فقط ایک صفت "لامکانی” کا جائزہ لیں گے۔
مکان
لغوی معنی:”مکان” (place)لفظ "ک و ن” سے ماخوذ ہے اوراسمِ مکان کے وزن”مفعل” پہ ہونے کی وجہ سے "مکان” بن گیا جس کا معنی ہے جگہ ۔ کلام، فلسفہ، منطق،تصوف، سائنس اور کئی دوسرے علوم نے مکان کےبارے میں بحث اور مختلف تعریفیں بیان کیے ہیں۔ فلسفیانہ نظر سے ارسطو، افلاطون، ڈیکارٹ، ابن سیناؒ، علامہ نصیرالدین طوسیؒ ، ملا صدراؒ، کانٹ ، لیبنز، نیوٹن ، آئن سٹائن ، علامہ اقبالؒ، علامہ طباطبائیؒ اور علامہ مصباح یزدیؒ غرضیکہ ہر فلسفی نے اس بحث کو چھیڑا ہے۔ مکان و زمان فلسفہ یا سائنس کے پیچیدہ ابحاث میں سے ہے اس وجہ سے فلاسفہ کے درمیان معرکة الآرا ءابحاث میں شامل رہا ہے اور مکان کو "خدا” سے لے کر "وہم” تک کہا گیا ہے۔ فلسفہ میں مکان کی مختلف تعریفیں بیان ہوئی ہیں لیکن ان ميں سے جو ہمیں بہتر لگی وہ آيت الله مصباح یزدیؒ کی ہے کہ ؛ جب بھی کائنات کے حجم کی ایک خاص مقدار کو الگ سے لحاظ کیا جائے اور اسے اس میں سمائے ہوئےشے کے ساتھ جانچا جائے تو یہ مقدار مکان کہلائے گا۔
مکان ایک عرَضی (accidental) اور اضافی(relative) مفاہیم میں سے ہے اس سے مراد یہ ہے کہ بعض مفاہیم کو سمجھنے کے لیے اسے دوسری شے کے ساتھ لحاظ کرنا ضروری ہوتاہےجیسے حرکت ہے، آپ حرکت کو تنہا سمجھ نہیں سکتے جب تک متحرِک شے کو ایک دوسری شے (reference) سے لحاظ نہ کریں جیسے چلتی ہوئی گاڑی کو آپ اپنے آپ سے لحاظ کرکے کہتے ہیں کہ گاڑی چل رہی ہے۔ مکان کی چار خصوصیات ملا صدرا نے شمار کی ہیں کہ جسم منتقل یا ساکن ہوسکے، اشارہ کیا جاسکے، مقدار رکھے اور ہم زمان دواجسام نہ سموسکیں۔ فضا اور مکان میں بھی فرق ہے، مکان تب کہلائے گا جب مکان کومکان دار سے لحاظ کیا جائے جبکہ فضا کے لیے دوسری شے مدنظر نہیں ہوتی ہے۔ مکان متغیر بھی ہوسکتا ہے جیسے پانی میں مچھلی ہے پانی بار بار بدل رہا ہے ہر لمحہ نیاپانی آرہا ہےپہلا پانی گزر رہا ہےاسے کہا جائے گا کہ مکان بدل رہا ۔
لامکانی ذات
صفتِ مکانی پہ "لا” کا سابقہ لگایا جائے تو لفظ، لامکانی بن گیا۔ لا مکانی ہونا اس ذات واجب الوجود کی صفت ہے جس کا جائزہ ہم نے امیرالمؤمنینؑ کے کلام کے ذریعے لینا ہے کہ خداوند کی ذات کسی مکان کا محتاج ہے یا نہیں ہے، اگر نہیں تو وجہ کیا ہے اور واجب الوجود کا لامکانی ہونا کیوں ضروری ہے۔ صفتِ لامکانی کے دو معنی بن سکتے ہیں؛ ایک یہ کہ وہ خودکسی شے کے لیے مکان اور محل واقع ہو دوسرا یہ کہ وہ کسی مکان یا محل میں واقع ہو۔ اس بات کے لیے امیرالمؤمنینؑ کے کلام میں خود کلام امیرؑ کے ذریعے تجزیہ کرتے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ وہ ذاتِ واجب (Necessary being)بذاتِ خودقائم (Being itself)ہے اس کے ٹھہرنے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے”قَائِمٌ لاَ بِعَمَدٍ” نہ اسے کسی مکان کی ضرورت ہے نہ ہی وہ کسی مکان میں تھا "وَلَا كَانَ فيِ مَكَانٍ” ، نہ اسے کسی مکان یا محل نے اپنے احاطے میں لیا ہوا ہے "وَلَا يَحْوِيهِ مَكَانٌ” نہ ہی وہ اشیا میں حل شدہ (incarnation) ہے”لَمْ يَحْلُلْ فِي الْأَشْيَاءِ” ،”وَلَيْسَ فِي الْأَشْيَاءِ بِوَالِجٍ” اور نہ اسے کسی مکان یا جگہ میں محدود کیاجاسکتا ہے کیونکہ وہ برتر ہے اس سے کہ کوئی مکان اسے گھیرے”وَجَلّ عَن اَن يَحوِيَه مَكَانٌ” ،”وَلاَ يَحُدُّونَهُ بِالْأَمَاكِنِ"، کیونکہ ذات واجب کو مکان دار فرض کرلینے سےمندرجہ ذیل صفات ِممکن(contingent properties) اور تضادات لازم آتے ہیں۔
احتیاج لازم آنا
احتیاج سے مراد وجودِ مستقل کا کسی دوسرے وجود کی طرف محتاج ہونا ہے ۔ ہر وجود ِ مُمتَد (extensive) محل ، خلا یا فضا کا محتاج ہے۔ وجود عقلی لحاظ سے چار ا قسام کا ہے:۔
١» فی نفسہ لِنفسہ بِنفسہ (existence in itself for itself by itself): فی نفسہ یعنی کسی پہ قائم نہیں ہے، لنفسہ؛ کسی موضوع (substrate)میں نہیں ہے، بنفسہ؛ بذات خود ہے کسی علت کا معلول نہیں ہے۔
٢» فی نفسہ لنفسہ بغیرہ (existence in itself for itself by something): کسی پہ قائم نہیں، کسی موضوع(substrate) ميں نہیں لیکن اپنے علاوہ کسی علت کی وجہ سے موجودہے جیسے جوہر(substance)۔
٣» فی نفسہ لغیرہ (existence in itself for something): یعنی کسی پہ قائم نہیں لیکن کسی موضوع میں ہےجیسا کہ اعراض (accidents) جو کسی محل یاموضوع (substrate)کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے مثلا سفیدی کسی جسم کے بغیر نہیں ہوسکتی ۔
٤» لا فی نفسہ (existence in not itself): جو کسی پہ قائم ہے یعنی کسی دوسرے سے منسوب ہونے کی وجہ سے قائم ہے، جیسے نِسَب و روابط، مثلا زید کھڑا ہے ، اس مثال میں کھڑے ہونے کی” نسبت” زید سے ہے یعنی زید کی وجہ سے یہ نسبت وجود میں آئی ہے۔
ایسا وجود جو "فی نفسہ لنفسہ بنفسہ” ہے وہ واجب الوجود (Necessary being) کی ذات ہے جو کسی موضوع، مکان اور علت کا محتاج نہیں ہے باقی سارا وجود "بغیرِہ” (by something)ہیں۔ علت ِاُولی(first cause) مکان کا محتاج اس لیے نہیں کہ خودِمکان، اسی علت اولی کی وجہ سے وجود میں آیا ہےپس وہ ایک علت ِ واجب(necessary cause) کی معلول ہے اور جو کسی جگہ، محل یا مکان میں ہے وہ محتاج ہے اس کے قیام کے لیے اپنے علاوہ کسی وجود کی ضروت ہے اور یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ کسی پر قائم ہو اور محتاج نہ ہو۔ اگر کوئی وجود بذاتِ خود یا بنفسہ قائم نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے کی وجہ سے قائم ہےیا کسی محل پر ہے تو وہ فقیرِ محض ہے "كُلُّ قَائِمٍ فِي سِوَاهُ مَعْلُولٌ” ۔ پس جو اپنے وجود میں فقیر اور محتاج ہے تو وہ ذاتِ واجب اور علتِ اولی نہ ہوا۔ جسے رہنے کے لیے مکان یا محل کی ضرورت ہو وہ خد انہيں ہے، جو فعل و انفعال کے لیے مکان کا محتاج ہو وہ خدا نہيں ہے۔ عقلی طور پر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جو کسی دوسرے کی طرف محتاج ہو کسی بھی حوالہ سے وہ کامل نہیں ہے پس جو کامل نہیں ہو خلاق عالم نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ ایسی ہستی، غیر مستقل اور (by something) ہستی ہے۔
قِدَم لازم آنا
قدیم اس وجود کو کہتے ہیں کہ جو زمان، مکان، کیف، کمیت، وضع، جوہر اور الغرض تمام وجودِ امکانی کے وجود میں آنے سے پہلے ہو۔ سائنس کی زبان میں بات کریں تو انفجارِ عظیم سے پہلے کوئی حقیقت ہو اور متکلمین اس حقیقت کو "واجب الوجود”کہتے ہیں۔ بفرضِ محال واجب الوجود مکان میں تھا اور مکان کا محتاج ہو تو مکان بھی تھا جب کچھ نہ تھا یعنی مکان و مکین دونوں تھےیوں دو قدیم ہونا لازم آیا ، جب کہ ایسامحال ہے کیونکہ "بِأَوَّلِيَّتِهِ وَجَبَ أَنْ لاَ أَوَّلَ لَهُ” اس کی اولیت کا لازمہ یہ ہے کہ اس سے معلول مقدم نہ ہو یا کوئی اس کےساتھ بھی نہ ہو وگرنہ کوئی اور بھی قدیم لازم آئے گا، یوں دو قدیم ہوئے اور دو واجب الوجود ہوئے "وَلَوْ كَانَ قَدِيماً لَكَانَ إِلَهاً ثَانِياً"، اگر اس کےساتھ کوئی اور بھی ہو یا مکان اس کے ساتھ ہو تو وہ بھی خدا شمار ہوگا جبکہ یہ منتفی ہے "هو الواحد الفَرْد في أزَليّته، لا شريكَ له في إلهيّته” ازلی ہونے میں وہ تنہا ئے واحد ہے ، اس کی الہیت میں کوئی ساتھی یا ضد نہیں ہے ، اشیا کا حادث ہونا اور پوری کائنات میں روز تغیر اور حدوث طاری ہونا بتارہا ہے کہ ہر متغیروجود میں آیا ہے ازلی نہیں ہے”مُسْتَشْهِدٌ بِحُدُوثِ الْأَشْيَاءِ عَلَى أَزَلِيَّتِهِ"۔ سائنس بھی یہی کہتا ہے کہ پوری کائنات پر بگاڑ(entropy) طاری ہے جس کی وجہ سے مجموعی طور پہ کائناتی انرجی بگاڑ اور زوا ل کی طرف بڑھ رہی ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ کائنات کسی وقت بنی تھی اب زوال کی طرف جارہی ہے جبکہ وہ کرسی و عرش کے وجود میں آنے سے بھی پہلے تھا پس وہی ازلی اور قدیم ہے "قَبْلَ أَنْ يَكُونَ كُرْسِيٌّ أَوْ عَرْشٌ"۔
اجزا کا جائز ہونا
اجزا (parts)سے یہاں مراد وجودِ واجب کا اجزا والا ہونا ہے، اس کی دو قسمیں ہوسکتی ہیں، ایک بالقوہ اجزا(potential parts) اور بالفعل اجزا(effectual parts)۔ بالقوہ اجزا کی مثال یہ ہے کہ ایک خط (line) لیجیے اس میں ظاہری طور پر کوئی جز نہیں ہےلیکن آپ عقلی طور پہ اس خط کو مزید چھوٹے چھوٹے اجزا میں تقسیم کرسکتے ہیں جیسے عقلی لحاظ سے ایک سیکنڈ کے اربوں زمانی اجزا میں تقسیم ممکن ہے اسی طرح کسی جسم کے اربوں حصےبھی عقلی لحاظ سےممکن ہیں ۔بالفعل اجزا سے مراد یہ ہے کہ ایک چیز کئی اجزا سے مرکب ہے جیسےپانی کا ایک مالیکیول(O H2) سے بنا ہے اور عملی طور پہ اجزا رکھتا ہے، اب اگر پانی کے مالیکیول میں موجود آکسیجن اور ہائیڈروجن کے ایٹمز میں سے ہائیڈروجن کے دو ایٹم جدا کرلیا جائے تو پانی کاوجود ہی ختم ہوگا یا جیسا کہ انسان اجزا سے مل کر بنا ہےاگر انسان کی ایک ٹانگ کٹ جائے تو وہ ناکارہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جو شے اجزا رکھتی ہے وہ اپنے ہی دوسرے اجزا کا محتاج ہے اور دوسرے جز کے بغیر ناکارہ شمار ہوتا ہے۔
بفرضِ محال اگر دو قدیم مان بھی لیا جائے تو یا دونوں واجب الوجود ہیں اس سے ذاتِ باری کا شریک لازم آئے گا یا مکین و مکان دونوں مل کرواجب الوجودبنتے ہیں اس سے ذاتِ واجب کے اجزا لازم آئیں گے "وَلَا يُوصَفُ بِشَيْءٍ مِنَ الْأَجزاءِ"، جو اجزا رکھتا ہے عقلی لحاظ سے اپنے ہی دوسرے اجزا کا محتاج ہے اور اجزا رکھنے والی شے سے اس کے اجزا کا جدا ہونا جائز اور عقلا ممکن ہے اور جس دن اجزا نہ ہوں گے اس دن وہ بے کار ہوجائے گا ، پس جو محتاج ہو وہ مستقل الوجود اور واجب الوجود نہیں ہوسکتا اور جو بے کار ہو وہ خدا نہیں ہوتا ہے "وَ لَا تَنَالُهُ التَّجْزِئَةُ وَ التَّبْعِيضُ"، اگر جو سمایا ہوا ہے وہ بھی مادہ یا انرجی اور جس میں سمایا ہواہے وہ مادہ یا انرجی ، یوں بھی جز لازم آتا ہے، پس جس کے اجزا ہوں وہ خدا نہیں ہےکیوں کہ وہ چیز جس کے اجزا ہوں وہ اپنی ذات ميں اپنے ہی دوسرے جز کا محتاج ہے۔ اگر یہ جز ہٹایا جائے تو محتاجی اور فقر لازم آئے گا۔ جز ہونے کی وجہ سے وہ محتاجیت کی صفت رکھتا ہے یا احتیاج کا امکان عقلا موجود ہے، پس جس میں محتاجی کی صفت رکھتا ہو وہ کیسے خدا ہوسکتا ہے۔
احاطہ لازم آنا
احاطہ سے مراد یہ ہے کہ اسے کسی شےنے گھیرا ہوا ہے، ایسی شے جو کسی کو اپنے احاطے میں لائے وہ زیاد بڑی اور عظیم ہوگی بنسبت اس کے جو گھیرے میں آیا ہو، مکان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مکین کواپنے اندر سماتا ہے اور احاطے میں لے لیتا ہے۔ یوں یا تو مکان زیادہ بڑا ہے کہ مکین کا وزن اٹھاتا ہے یا برابر ہے۔ تو پہلی صورت میں واجب الوجود سے کوئی اور عظیم ہوا، تو یہ محال ہے ، دوسری صورت میں بھی اشکال ہے وہ یہ کہ دو قدیم ہونا لازم آتا ہےیا اجزا لازم آتے ہیں، تو ان دونوں کا ابطال ثابت کیا جو کہ گزر گیا۔ اگر علتِ اولی کو احاطہ شدہ مان لیا جائے تو وہ واجب الوجود نہیں ہے کیونکہ واجبُ الوجود کی صفت یہ ہے کہ اسے کسی مکان نے اپنے احاطے ميں لیا ہوا نہ ہو”وَلَا يَحْوِيهِ مَكَانٌ ” اور نہ ہی کسی شے ميں حلول کیا ہوا ہو”لَمْ يَحْلُلْ فِي الْأَشْيَاءِ” کیونکہ جسے اشیا اپنے تحویل اور قید میں مقید کریں یا وہ ہلکا ہوکر اٹھےگا یا وزنی ہوکر جھکے گا”فَتُقِلَّهُ أَوْ تُهْوِيهِ” ، جو کسی ظرف میں ہوتو ظرف میں ہونے کالازمہ یہ ہے کہ ظرف نے اسے اپنے ضمن میں لیا ہوا ہے "وَمَنْ قَالَ فِيمَ فَقَدْ ضَمَّنَهُ"، پس جو کسی کے ضمن میں ہو وہ وجودِ واجب نہیں ہے کہ اس ميں دو قدیم لازم آئیں گے یا اجزا لازم آئیں گے۔ اس وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ "کہاں”ہے،یوں وہ ایک نقطہ پہ محدود ہوگیا "وَمَنْ قَالَ أَيْنَ فَقَدْ حَيَّزَهُ” پس اسے کسی قسم کا مکان چاہے وہ بالفعل نظر آئے یا نہ آئے اپنے احاطے میں لے نہیں سکتا ہے” وَ لاَ تَحْوِيهِ الْمَشَاهِدُ”
انتقال کا جائز ہونا
انتقال یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا۔ یہ ممکن الوجود کی صفت ہے، اوروجود کا محدود اور کمزور ہونے کی علامت ہے کہ وہ ایک جگہ پر تھا تو دوسری پر نہ تھا اور اسی جگہ محدود تھا، جب منتقل ہوجائے تو وہ جگہ اس سے خالی ہوئی”وَمَنْ قَالَ عَلاَ مَ فَقَدْ أَخْلَى مِنْهُ"۔ عقلی لحاظ سے مکان دار کے لیے اس مکان سے انتقال ممکن ہے، اگر انتقال جائز قرار دیا جائے تو اس کا متحرک ہونا لازم آتا ہے۔ سکون و حرکت دونوں ملکہ و عدم ملکہ (privation and possession opposite) کے مفاہیم میں سے ہیں، یہ دونوں ایک ایسے شے کی حالات اور صفات ہیں جس کی ذات میں حرکت یا سکون دونوں جاری ہوسکتے ہوں جو کہ مادے کی صفات ہیں لیکن ذاتِ واجب ان دونوں صفات سے منزہ ہے اوریہ دونوں ممکن الوجود میں سے ہیں "لَا يَجْرِي عَلَيْهِ السُّكُونُ وَ الْحَرَكَةُ وَ كَيْفَ يَجْرِي عَلَيْهِ مَا هُوَ أَجْرَاهُ"۔ جو بھی مکانی ہو اس کے لیے انتقال ممکن اور جائز ہے "وَلاَ كَانَ فِي مَكَانٍ فَيَجُوزَ عَلَيْهِ الاِنْتِقَالُ"، جو شے منتقل ہوسکتی ہو اس کے حالاتِ سابقہ قصہ پارینہ میں تبدیل ہوتے ہیں، ایسی شے ممکن الوجود ہے واجب الوجود نہیں ہے۔ جو حرکت کا،کہیں جانے کایا پہلی جگہ ترک کرنے کا محتاج ہو وہ ممکن الوجودہے جبکہ ذاتِ واجب سب پہ احاطہ رکھتا ہے اور ہر جگہ حاضر ہے ، کہیں جانے یا ترک کرنے کا محتاج ہی نہیں ہے۔
التصاق لازم آنا
مشہور فلسفی قطب الدین شیرازی التصاق کی یوں تعریف فرماتے ہیں کہ: دو اشیا ایسے ہوں کہ ان میں سے ایک دوسرے کے ساتھ متصل ہو اس طرح کہ دوسرا منتقل ہوجائے تو پہلا بھی منتقل ہوجانا لازم آئے تو اسے التصاق(adhesion) کہا جاتا ہے۔ التصاق سے یہ لازم آتا ہے کہ ایک شےنے دوسرے پہ تکیہ کیا ہوا ہے جب دوسرا ہلے تو پہلا بھی ہل سکتا ہے، دوسرا منتقل ہوجائے تو پہلا بھی منتقل ہوجاسکتا ہے، بالفعل مکان نہ ہلے تب بھی عقلی لحاظ سے ہلنا اورمنتقل ہوجانا جائز ہے۔ اگرمُلتصِق و مُلتصَق کے لیے حالات فرض کرلیے جائیں تو یوں ہوگا کہ خالق اور مخلوق ایک ساتھ ہوں یا خالق اپنے ہی مخلوق پر ہویا ضمن میں ہو یا طرف میں ہو، ہر صورت میں التصاق لازم آئے گا۔ پس اگر اللہ کسی مکان میں ہو تو خالق و مخلوق کا التصاق لازم آئے گا پھر مکان ہلنے سے خد اکا ہلنا لازم آئے گا اور مکان کے گرنے سے مکان دار کا گرنا لازم آئے گاجو کہ ممکن الوجود کی صفت ہے یا مادی اشیا کی صفت ہے جب کہ جو ماورائے مادہ ہے بلکہ مادہ نے اپنا وجودِ غیر استقلالی کو اس وجودِ مستقل سے لیا ہے تو وہ مادی صفات سے برتر ہے "لَمْ يَقْرُبْ مِنَ الْأَشْيَاءِ بِالْتِصَاقٍ"۔
اگر ہم فزکس کی نظر سے بھی دیکھیں تو آئن سٹائن کے نظریۂ اضافت کی رو سے زمان مکان کا حصہ ہے، پس اس نظریے کی بنا پہ بھی ہم واجب الوجود کے لیے مکان فرض کرلیں تو واجب الوجود اور ممکن الوجود کے درمیان تقارنِ زمانی (contemporaneity)یا تعاقب (successive)لازم آئے گا۔ تقارن تب ہوسکتاہے جب دو موجودات زمانی ہوں ذاتِ واجب غیر زمانی ہے جبکہ مکان زمانی ہے، غیر زمانی اور زمانی میں تقارن محال ہے، مثلا ایک مجرد تام ہو دوسرا زمانی ہو یہ تقارن محال ہےوجود مجرد اور وجود مادہ کے درمیان تقارن نہیں ہوسکتا ہے بلکہ مجرد (immaterial)مکان پہ احاطۂ وجودی رکھتا ہےلیکن التصاق، تقارن، تعاقب اور ملا ہوا نہیں ہے "قَرِيبٌ مِنَ الْأَشْيَاءِ غَيْرُ مُلَامِسٍ"۔ وہ خالق مکان ہے اس کے لیے مکان نہیں ہے "إنّ اللّٰه جلّ وعزّ أيَّن الأَيْنَ فلا أين له” نہ ہی التصاق و تقارن ہے وہ ہر جگہ ہے نہ کہ مماس رکھتاہے نہ کسی سے مجاورت(withness)”وهو في كلّ مكان بغيرمماسّة ولا مُجاوَرة"۔
مکان دار کی رؤیت ممکن ہونا
اگر اسے مکان دار فرض کرلیا جائے تو وہ لازما وجود مُمتَد(extensive) رکھتا ہے اور وجود مُمتَد بالفعل نظر نہ بھی آئے تب بھی نظر آنا عقلی لحاظ سے ممکن ہے۔ انسانی آنکھ نے ایٹم سے بھی نچلے درجے کے زرات کو دیکھا ہے شاید لاکھوں سالوں سے انسان دنیا میں رہ رہا ہےکبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کوانٹم زرات کا مشاہدہ بھی ممکن ہوگا لیکن تب بھی عقلا محال نہ تھا۔ پس نہ وہ ایٹم ہے نہ ہی کوانٹم زرہ ، نہ ہی مکانی ہے کہ نظر آنا عقلا ممکن ہو، آنکھ کی بصارت چاہے جتنی بھی گہری ہو، آنکھ پر جیمز ویب کی عینک بھی رکھی جائے تب بھی اس میں ہمت نہیں ہے کہ اس کے نور تک رسائی حاصل کرے کیونکہ مادی آنکھ کی پرواز مادہ اور اعراض تک ہے بسیطِ محض پہ نہیں ہے۔ "وَلَا تُحِيطُ بِهِ الْأَبْصَارُ وَ الْقُلُوبُ” "لاَ تَسْتَلِمُهُ الْمَشَاعِرُ” حواس اسے درک کرنے سے قاصر ہیں،حواس کی پہنچ مخلوق تک ہے جسے خلق کیا گیا ہے "أَحَقُّ وَ أَبْيَنُ مِمَّا تَرَى الْعُيُونُ” وہ زیادہ ثابت تر اور واضح تر ہے کہ آنکھیں اسے دیکھیں، "لَمْ يَنْتَهِ إِلَيْكَ نَظَرٌ وَ لَمْ يُدْرِكْكَ بَصَرٌ"، نظر اس تک منتہی نہیں ہوتا اور نہ ہی بصر اسے درک کرسکتا ہے "قَصُرَتْ أَبْصَارُنَا عَنْهُ"۔
مصادر و مراجع:
مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن،( تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1368 ش) ، ج ١٣، ص ١٢٢
ایضا ، ج ١٣، ص ١٢٤
علی ابن ابی طالبؑ، مولی الموحدین، نہج البلاغ، شارح؛ فیض الاسلام اصفهانی، علی نقی، (تہران: سازمان چاپ و انتشارات فقیه،١٣٦٨ ش)، ج ١، خ ٨٤، ص ٢٠٢
ایضا ،ج ٣، خ ١٨١، ص ٥٩٢
ایضا ،ج ٤، خ ٢٢٧، ص ٧٣٣
ایضا ،ج ٣، خ ١٧٨، ص ٥٨٢
ایضا ،ج ١، خ ٨٤، ص ٢٠٢
ایضا ،ج ١، خ ٨٤، ص ٢٠٢
ایضا ،ج ٢، خ ١١١، ص ٣٤٨
ایضا ،ج٣، خ ١٥٤، ص ٤٨٤
ایضا ،ج ٣، خ ١٨١، ص ٥٩٢
ایضا ،ج ٢، خ ٩٠، ص ٢٣٤
ایضا ،ج ٤، خ ١٨٦، ص ٦٢٨
ایضا ،ج ١، خ ٤٩، ص ١٣٦
طباطبائی، محمد حسین و مطہری، مرتضی، اصول فلسفہ و روش رئالیسم، (تہران: بنیاد علمی فرہنگی مطہری، بی تا) ج ٥، ص ١٧٢
ایضا ،ج ٥، ص ١٦٥
مہر، محمد سعیدی، آموزش کلام اسلامی، (قم، طہ) ج ١، ص ١٩٧
سبحانی تبریزی، جعفر. محرر؛ حسن مکی عاملی، الإلهیات علی هدی الکتاب و السنة و العقل، (قم: مؤسسة الإمام الصادقؑ، ١٤١٣ ق)، ج ۱، ص ۸۸
لاهیجی، عبد الرزاق بن علی، ويراستار جعفر سعیدی، گوهر مراد، (تهران: نشر سايه ١٣٨٣ش) ص ۲۳۸
سبحانی تبریزی، جعفر، محرر؛ حسن مکی عاملی، الإلهیات علی هدی الکتاب و السنة و العقل، (قم: مؤسسة الإمام الصادقؑ، ١٤١٣ ق)، ج ۱، ص ۸۳
اسٹیس، والتر ٹرینس، زمان و سرمدیت، ترجمہ؛ احمد رضا جلیلی، (ایران: ادیان و مذاہب یونیورسٹی قم) ص ٣٩
Kumaar, santtosh. “God is formless, timeless and spaceless existence”. Speakingtree. January 14, 2024. https://www.speakingtree.in/blog/god-is-formless-timeless-and-spaceless-existence/.
اسٹیس، والتر ٹرینس، زمان و سرمدیت، ترجمہ؛ احمد رضا جلیلی، (ایران: ادیان و مذاہب یونیورسٹی قم) ص، ٣٥
محسنی، آیت اللہ، محمد آصف، صراط الحق، (ایران: ذوی القربی ١٤٢٨، ط اولی)، ج ١، ص ١١٠
جهامی جیرار، الموسوعة الجامعة لمصطلحات الفکر العربي و الاسلامی (تحلیل و نقد) (بیروت: مکتبة لبنان ناشرون، 2006)، ج ٢
صدیقی، ڈاکٹر رضی الدین، اضافیت آئن شٹائن کے نظریہ اضافیت کی عام فہم تشریح، (انڈیا: انجمن ترقی اردو دہلی)، ص ٥٠
امانوئل کانٹ، تنقیدِ عقل محض، ترجمہ: حسین، ڈاکٹرسید عابد، (پاکستان: سیونتھ سکائی بکس لاہور، ٢٠٢٣ء) ص ٧٨
صدیقی، ڈاکٹر رضی الدین، اضافیت آئن شٹائن کے نظریہ اضافیت کی عام فہم تشریح، (انڈیا: انجمن ترقی اردو دہلی)، ص ٥٠
عشرت، وحید و صدیقی، رضي الدین، زمان و مکان، (لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ١٩٩٠ء)، ص ٤٩٥
یزدی، آیت الله مصباح، آموزش فلسفہ، (ایران: سازمان تبلیغات اسلامی، معاونت فرہنگی، ١٣٦٦ش، چ ٢)، ص ١٧٤
ربانی گلپایگانی، علی، ایضاح الحکمة، (ایران: مرکز جهانی علوم اسلامی، 1371ش) ج ٢، ص ٢١١
شیروانی علی، شرح مصطلحات فلسفی بدایة الحکمة و نهایة الحکمة، (قم: مرکز انتشارات، 1377 ش، چ ٢)، ص ٣٢
علی ابن ابی طالبؑ، مولی الموحدین، نہج البلاغ، شارح؛ فیض الاسلام اصفهانی، علی نقی، (تہران: سازمان چاپ و انتشارات فقیه،١٣٦٨ ش)، خ ٢٢٧، ج ٤، ص ٧٣٣
ایضا ،خ ٨٩، ج ٢، ص ٢٣١
ایضا ،خ ١٧٧، ج ٣، ص ٥٧٨
ایضا ،خ ٦٤، ج ١، ص ١٥٥
ایضا ،خ ٢٢٨، ج ٤، ص ٧٤٦
مفيد، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، مصحح؛ مؤسسہ آل البیتؑ، فصل؛ في ذكر مختصر من قضائهؑ۔۔۔، (قم: کنگرہ شیخ مفید، ١٤١٣ق، چ اول)، ج ١، ص ٢٠١
محمد خرسانی، علی، شرح اصول فقہ محمد رضا مظفرؒ، (قم: داراالفکر، ١٣٨٧ش)، ج ١، ص ٣٢
علی ابن ابی طالبؑ، مولی الموحدین، نہج البلاغ، شارح؛ فیض الاسلام اصفهانی، علی نقی، (تہران: سازمان چاپ و انتشارات فقیه،١٣٦٨ ش)، خ ٢٢٦، ج ٤، ص ٧٤٢
ایضا ،خ ٩٩، ج ٢، ص ٢٩٧
ایضا ،خ ٢٢٨، ج ٤، ص ٧٤٦
مفيد، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، مصحح؛ مؤسسہ آل البیتؑ، فصل؛ في مختصر من كلامہؑ في وجوب المعرفة بالله والتوحيد له و نفي التشبيه عنه، (قم: کنگرہ شیخ مفید، ١٤١٣ق، چ اول)، ج ١، ص ٢٢٤
علی ابن ابی طالبؑ، مولی الموحدین، نہج البلاغ، شارح؛ فیض الاسلام اصفهانی، علی نقی، (تہران: سازمان چاپ و انتشارات فقیه،١٣٦٨ ش)، خ ٢٢٨، ج ٤، ص ٧٣٣
ایضا ،خ ١٨١، ج ٣، ص ٥٩٢
ایضا ،خ ٢٢٨، ج ٣، ص ٧٤٦
ایضا ،خ ٨٤، ج ١، ص ٢٠٢
ایضا ،خ ١٧٧، ج ٣، ص٥٧٨
ایضا ،خ ٦٤، ج ١، ص ١٥٥
ایضا ،خ ٢٢٨، ج ٤، ص ٧٤٦
ایضا ،خ ١، ج ١، ص ٢٤
ایضا ،خ ١٥٢، ج ٣، ص ٤٦٨
ایضا ،خ ٢٢٧، ج ٣، ص ٧٣٤
ایضا ،خ ١، ج ١ ، ص ٢٤
ایضا ،خ ٢٢٨، ج ٤، ص ٧٤٣
ایضا ،خ ٨٩، ج ٢، ص ٢٣١
قطب الدین شیرازی، محمود بن مسعود، درة التاج، (تهران: حکمت، 1369ش)، ج ٣، ص ٥٧٥
علی ابن ابی طالبؑ، مولی الموحدین، نہج البلاغ، شارح؛ فیض الاسلام اصفهانی، علی نقی، (تہران: سازمان چاپ و انتشارات فقیه،١٣٦٨ ش)، خ ١٦٢، ج ٣، ص ٥٢١
ایضا ،خ ١٧٨، ج ٣، ص ٥٨٢
مفيد، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، مصحح؛ مؤسسہ آل البیتؑ، فصل؛ في ذكر مختصر من قضائهؑ۔۔۔، (قم: کنگرہ شیخ مفید، ١٤١٣ق، چ اول)، ج ١، ص ٢٠١
علی ابن ابی طالبؑ، مولی الموحدین، نہج البلاغ، شارح؛ فیض الاسلام اصفهانی، علی نقی، (تہران: سازمان چاپ و انتشارات فقیه،١٣٦٨ ش)، ج ١، ص ٢٠١
ایضا ، خ ٨٤، ج ١، ص ٢٠٢
ایضا ،خ ١٥٤، ج ٣، ص ٤٨٥
ایضا ،خ ١٥٩، ج ٣، ص ٥٠٢
ایضا ،خ ١٥٩، ج ٣، ص ٥٠٣