سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

قدیم اور جدید جاہلیت کے مشترکات اور اسلام کی برکات جناب سیدہ سلام اللہ علیھاکی نگاہ میں

مقالہ نگار:محمد حسنین امام ) متعلم جامعۃ الکوثر 

مقدمہ:
بعثت نبویؐ تاریخ انسانیت کا عظیم ترین واقعہ ہے جو نہ فقط عالم بشریت کے لیے ایک تاریخ ساز حیثیت کا حامل ہے بلکہ اس کی اہمیت بذات خود خلقت انسان سے بھی کہیں زیادہ ہے خصوصا آپؐ کا ظہور صحرا اور عرب کے چٹیل میدانوں اور ریگستانوں میں زندگی گذارنےوالے وحشی اور جاہل عربوں کے ایسے سماج میں ہوا جو سر تا پا جاہلیت میں ڈوبے ہوئے تھے گوناگوں اخلاقی برائیوں میں ملوث تھے معاشرے کی حالت انتہائی دگرگوں تھی، اچھے برے کی تمیز نہ تھی بتوں کی پرستش کا عام رواج تھا ، جان ، مال، عزت و ناموس کی محافظت کسی مہم جوئی سے کم نہ تھی معمولی بات پر میدان حرب و ضرب گرم ہوجاتا معاشرےکی فضا اس قدر مفلوک الحال اور ابتر کردی گئی تھی جسے دیکھ جبین انسانیت شرما جاتی۔جاہلیت کے اس دور کو جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے اپنے خطبے میں اس طرح بیان فرمایا:
"تشربون الطرق و تقتاتون الورق اذلۃ خاسئین تخافون ان یتخطفکم الناس من حولکم”
تم کیچڑ والے بد بودار پانی سے پیاس بجھاتے تھے اور گھاس پھوس سے بھوک مٹاتے تھے۔ تم اس طرح ذلت و خواری میں زندگی بسر کرتے تھے۔ تمہیں ہمیشہ یہ کھٹکا لگا رہتا کہ کہیں آس پاس کے لوگ تمہیں کہیں اچک نہ لیں ۔ (1)
ایسے میں خداوندعالم نے اپنا خصوصی لطف و کرم فرمایا اور لوگوں کو ایک مکمل ضابطہ حیات والا دین عطا فرمایا جس کے ذریعے معاشرے میں جاہلیت کا بادل چھٹنے لگا، محروم و محکوم طبقے کو امید کی کرن نظر آئی لوگوں نے جوق در جوق دین اسلام قبول کرنا شروع کردیا اور ایک بار پھر شرف انسان اپنی حقیقی صورت میں دکھائی دینے لگا۔
یہ مشت خاکی کرہ ارض پر جمود کی زندگی ہرگز پسند نہیں کرتا بلکہ ہر آن اپنے رشد و تکامل کا خواہاں ہے پتھر کے زمانے سے لے کر جدید سائنسی اور ٹیکنالوجی کے دور تک ثقافتی، فرہنگی، تجرباتی اور عملی میدانوں میں روز افزوں ترقی اخلاقی اقدار میں پستی اور تنزلی کا پیش خیمہ ثابت ہورہی ہے۔موجودہ سماج کی بازگشت پھر زمانہ جاہلیت کی رسومات کی طرف ہوچکی ہے معاشرہ اسلامی احکام سے دوری اختیار کرچکا ہے اور اس کو ترقی اور آزادی کا نام دیتا ہے مگر اسلام سے ہٹ کر جو حکم بھی ہو وہ جاہلیت کا ہے جیسے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ امیر المومنینؑ ارشاد فرماتے ہیں
ان الحکم حکمان حکم اللہ و حکم ا لجاھلیۃ فمن اخطا حکم اللہ حکم حکم الجاھلیۃ
حکم صرف دو طرح کے ہیں اللہ کا حکم یا جاہلیت کا حکم ، اور جو خدا کا حکم چھوڑ دے اس نے جاہلیت کے حکم کو اختیار کرلیا۔(2)
ایسےمحسوس ہوتا ہے کہ جاہلیت کا زمانہ پلٹ کر آگیا ہے جدید رسومات کے پس منظر میں وہی قدیم جاہلیت کارفرما ہے انسان کی سوچ کو یکسر بدل دیا ہے۔ لہذا اپنے اس موضوع کے پیش نظر ہم اس مقالے میں قدیم اور جدید جاہلیت کے اشتراکات کی صورتوں اور اسلام کی برکات جو جناب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا نے بیان فرمائیں انہیں سپرد قلم کریں گے۔
جاہلیت کا لغوی معنیٰ:
جاہلیت لفظ جھل سے ماخوذ ہے لغت میں جہل کےمعنی علم کا نہ ہونا ہے یاکسی شخص کا بغیر علم کے کام انجام دینا۔ دوسرا معنی کسی چیز کا اس کی حقیقت کے خلاف یقین رکھنا جیسے عدل کو برا سمجھنا۔(3)
جاہلیت کی اصطلاحی تعریف:
"اسلام سے قبل عرب جس حالت میں تھے اسے جاہلیت کہا جاتا ہے۔ "جیسا کہ ان کا اللہ عزوجل کے بارے میں جاہل ہونا، انبیاء و رسل اور شریعت سے ناواقف ہونا، اسی طرح حسب و نسب پر فخر کرنا، غرور وتکبر، حسد ، بغض اور ان جیسے دیگر امور بھی جاہلیت میں سے ہیں۔(4)
"انسان کے وہ اعمال جو طبعی نظام کے خلاف ہوتے ہیں ان کا مقتضیٰ بھی جہالت ہے” یہ بعض متکلمین کی تعریف ہے۔
” کسی کام کو اس کی حقیقت اور واقعیت کے خلاف بجالانا بھی جہالت کہلاتا ہے”(5)
درج بالا تعریفات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جاہلیت کی اصطلاح دو معانی میں استعمال ہوتی ہے کبھی جاہلیت ،عدم علم کو کہتے ہیں دوسرا یہ کہ عقل وشعور، منطق اور کردار کے مقابل میں بھی جاہلیت کا اطلاق ہوتاہے۔ اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ جزیرۃ العرب کے لوگ زیادہ تر پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے علم و دانش سے بے بہرہ تھے مگر اسلام نے ان کے زمانے کو عصر جاہلیت ان کی غلط فکر، بے بنیاد رسوم و رواج اور بری صفات کی وجہ سے قرار دیا ہے ۔
جاہلیت کا قرآنی تصور:
قرآن مجید میں چار مقامات پر لفظ جاہلیت کے مفہوم کو بیان کیا گیا ہے۔
"اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّـةِ يَبْغُوْنَ ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّـٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوْقِنُـوْنَ”
کیا یہ لوگ جاہلیت کے دستور کے خواہاں ہیں؟ اہل یقین کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے؟ (6)
یہودیوں کے قبائل آپس میں عجیب امتیازات رکھتے تھے مثلا بنو قریظہ کا کوئی فرد بنو نضیر کےبندے کو قتل کرتا تو اس سے قصاص لیا جاتا مگر بنو نضیر کا
کوئی شخص بنو قریظہ کا بندہ ماردیتا تو وہ قصاص کی بجائے دو گنا خون بہا ادا کرتے ۔ اس طرح کے معاملے میں الجھے ہوئے یہودی علماء نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گذارش کی کہ آپؐ ہمارے حق میں ایک فیصلہ دے دیں تو ہم اپنے قبیلے سمیت اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں تو ان یہودیوں کی مذمت میں یہ آیت نازل ہوئی اس آیت میں ناانصافی کو دستور اسلام کے مقابل میں جاہلیت کا منشور قرار دیا ہے۔
"يَظُنُّوْنَ بِاللّـٰهِ غَيْـرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ”
وہ ناحق اللہ پر زمانہ جاہلیت والی بد گمانیاں کررہے تھے۔(7)
جنگ احد کے بعد کمزور ایمان والے لوگوں نے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ،کیا پیغمبر اسلام کے وعدے غلط تو نہیں تھے۔(8)ان کی مذمت میں یہ آیت نازل ہوئی کہ کیا یہ لوگ خدا کے بارے میں زمانہ جاہلیت والا غلط گمان کررہے ہیں۔ پس اس آیہ شریف میں غلط اعتقاد کو بھی جاہلیت کے کاموں سے تعبیر کیا ہے جس کی وجہ سے انسانوں میں بد گمانی، سوء تفہم جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں۔
” اِذْ جَعَلَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا فِىْ قُلُوْبِهِـمُ الْحَـمِيَّـةَ حَـمِيَّـةَ الْجَاهِلِيَّـةِ”
جب کفار نے اپنے دل میں تعصب رکھا اور تعصب بھی جاہلیت کا تھا۔(8)
6 ہجری میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حج و عمرہ کی بجاآوری کے لیے رخت سفر باندھا تو ابھی مکہ نہ پہنچے تھے کہ مشرکین نے حدیبیہ کے مقام پر راستہ روک لیا اور اپنے اباء و اجداد کے ساتھ جنگ کرنے والوں اور انہیں قتل کرنے والوں کو خانہ خدا میں داخل ہونے سے روک دیا در حالانکہ خانہ کعبہ میں عبادات کی بجاآوری کے لیے کسی کے لیے کوئی روک ٹوک نہ تھی اس آیت پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہاں دو قسم کی تہذیبیں سامنے آتی ہیں ایک جاہلیت کی تہذیب جس کی بنیاد ضد، ہٹ دھرمی اور شدید تعصب پر ہے جبکہ دوسری طرف سے اسلامی تمدن کا پتہ چلتا ہے جو وقار، سکون اور اطمینان پر مشتمل ہے۔
"وَقَرْنَ فِىْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَـرَّجْنَ تَبَـرُّجَ الْجَاهِلِيَّـةِ الْاُوْلٰى”
اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں کرتی نہ پھرو۔(9)
اس آیہ مجیدہ میں قدیم جاہلیت سے کیا مراد ہے ؟اس کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف رائے موجود ہے مگر مشہور و معروف قول یہی ہے کہ اسلام سے پہلے والے زمانے کو ہی قدیم جاہلیت کہا جاتا ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ قرآن نے اس وقت عورت کی حیثیت کو کس طرح لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے کہ خود کواس دور کی طرح نمایاں نہ کریں یعنی اس وقت کی ثقافت کا حصہ تھا کہ عورت پردہ نہیں کرسکتی تو دوسری بات خواتین کی سماج میں حیثیت بھی بیان ہورہی ہے کہ وہ مرد کے ہاتھوں ایک کھلونا تھی جو کہ جاہلیت کی رسومات کا ایک اہم ترین حصہ تھا۔

جدید اور قدیم جاہلیت کے مشترکات:
زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے پاس دور حاضر کے وسائل موجود نہیں تھے چناچہ وہ محدود ذرائع کا استعمال کرکےبسر اوقات کرتے تھے اور کیونکہ سہولیات کا فقدان تھا اس لیے لوگوں کو زیادہ تر زندگی گذارنے کا شعور اور سلیقہ نہ تھا اپنے اور دوسروں کے مال کالحاظ نہ کرتے، رہن سہن اور طرز زندگی انتہائی خستہ حال تھا طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا تھے اس پہ مستزاد یہ کہ برائی کو برائی نہ سمجھتے گویا اپنی جہالت کا ادراک نہیں رکھتے تھے جبکہ دوسری طرف اسلام کے بعد والی تہذیب اور لوگوں کی عادات و اطوار کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوتاہے کہ اس وقت کے لوگ بھی انہیں برائیوں کو ایک نئی اور مرغوب صورت میں انجام دیتے جس کے پس منظر میں وہی جہالت والی سوچ کارفرما تھی اس مرحلے پر ہم قارئین کی خدمت میں ان کے چند نمونے بیان کرتے ہیں۔
عورت کی زبوں حالی:
قدیمی ادوار میں عورت ظلم کے حصار میں گھری ہوئی نظر آتی ہے ،اپنی زندگی کے تمام کاموں میں آزادی کے تصور کو محال سمجھتی ہے بنیادی ضروریات زندگی غذا ، پانی ، لباس اور معاملات میں مرد کی اجازت کی منتظررہتی ہےلیکن بڑے قبائل کی عورتیں خود مختار ہوتیں ۔یہ پابجولاں خاتون اپنے اندر مسلسل گھٹن محسوس کرتی رہتی اور کسی طریقے سے صعوبتوں کے اس چنگل سے خود کو چھڑانے کی سر توڑ کوششیں کرتی ہے مگر اسلام اس عورت کو آزادی اور مقام و منزلت عطا کرتا ہے ، یہ عورت اس پر اکتفاء نہیں کرتی بلکہ موجودہ سماج میں ایک سرمایہ دارانہ نظام کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے جو اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اس کی جھولی پیسے اور آسائش سے بھردیتا ہے مگر اپنے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کردیتا ہے آخر کار آزادی کے نام پر نائیٹ کلب اور اس جیسے فحاشی کے اڈوں میں ان کو بند کردیتا ہے ) (10 قدیم دور میں جیسے عورت کو ایک جبری سوچ کے تحت زد وکوب کیا جاتا ،اسے مرد کا تابع سمجھا جاتا تھا لیکن جیسے ہی خاتون اس کے خلاف برسر پیکار ہوتی ہے تو جدید معاشرہ انہیں جاہلیت والے کاموں کو ایک نیا رنگ دیتا ہے جیسے قرآن مجید میں ارشاد پرورد گار ہے۔” وَزَيَّنَ لَـهُـمُ الشَّيْطَانُ اَعْمَالَـهُـمْ فَصَدَّهُـمْ عَنِ السَّبِيْلِ وَكَانُـوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ۔”
شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو آراستہ کیاہے اور انہیں راہ (راست )سے روکے رکھا حالانکہ یہ ہوش مند تھے۔ (11)
دونوں ادوار میں عورت فکری طور پر انحطاط کا شکار ہے پہلے زمانے میں جبر اور زبردستی کی جاتی تھی تو اب آزادی کے نام پر استحصال کیا جاتا ہے۔
تہذیبی زوال:
ایک معاشرے کی ترقی اور استحکام کے لیے تہذیب و تمدن کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ہر لحظہ نئی دھن پہ تھرکنے والا سماج کبھی بھی اپنا تشخص برقرار نہیں رکھ سکتا بلکہ دوسری تہذیبوں کے تسلط میں چلا جاتا ہے پھر ایک محکوم اور مجبور قوم کی صورت میں زندگی بسر کرتا ہے اور اسے اپنا مقدر تسیلم کرتا ہے۔ جیسا کہ جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے خطبہ میں ارشاد فرمایا:
"و اطلع الشیطان راسہ من مغززہ ھاتفا بکمہ فالفاکم لدعوتہ مستجیبین و للغرۃ فیہ ملاحظین ثم استنھضکم فوجدکم خفافا”.
شیطان نے اپنی کمین گاہ سے سر نکالا اور تمہیں پکارنے لگا اس نے تمہیں اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے پایا اور اس نے اپنے مکر وفریب کے لیے تمہیں آمادہ و منتظر پایا پھر شیطان نے تمہیں اپنے مقصد کے لیے اٹھایا اور تمہیں سبک رفتاری سے اٹھتے دیکھا۔ (12)
بی بی کے اس فرمان میں شیطان کی دعوت پر لبیک کہنا ایک استعارہ ہے کہ جاہلیت کی رسومات میں سے کسی رسم کی طرف تمہیں بلایا جائے تو اسے آسانی سے قبول کرلیتے ہو کوئی تدبرو تعقل نہیں کرتے نفع مند اور ضرر رساں کی پہچان کیے بغیر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں کوئی نیا بت تراشتا ہے تو اس کی پوجا پاٹ کرنا محبوب مشغلہ ہوتا ہےغرض ہر برائی آسانی سے قبول کر لیتے ہیں حتی کہ ایک خاتون عریاں ہو کر جب طواف بجا لائی تو سب کو اس قدر پسند آیا کہ سب لوگ اسی طرح خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے ان کے پاس شعور و آگہی نام کی کوئی چیز نہ تھی یعنی ایک برائی کی طرف ان کو دعوت دی جاتی تو اپنی غیرت و حمیت چھوڑ کر اس کی طرف لپک پڑتے۔
جبکہ آج کل کے دور میں بھی یہی تہذیبی زوال نہ فقط غیر مسلم معاشروں میں بلکہ ،مسلم ممالک میں بھی بڑی سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے اسلام جس نے انسان کو عزت اور حیاء کی تہذیب دی تھی اس سے کس طرح رو گردانی کی جارہی ہے ہمارے حلیے میں کس طرح کا بگاڑ پیدا ہورہا ہے کسی دور میں جس چیز کو انتہائی ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا اب وہی چیز ہماری ثقافتی ورثہ کے طور پر پہچانی جاتی ہے خواتین کا نامکمل لباس حقیقت میں اسی مغربی استعمار کی فکر کا نتیجہ ہے جس کو اج کل کے معاشرے کی ضرورت بنا کر پیش کیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں موجودہ سماج اپنی تہذیب میں نت نئے بگاڑ کو باآسانی اختیار کرنے میں کسی طرح دور جاہلیت سے کم نہیں اور مسلسل رو بہ زوال ہوتا جارہا ہے شاید یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر زمانہ جاہلیت کے لوگ ہمارے ساتھ زندگی گذارنے آجائیں تو اس تہذیب کی تنزلی کو دیکھ کر وہ بھی شرما جائیں گے۔
بد امنی:
کسی بھی قوم ، ملک ، یا سلطنت کی ترقی کے لیے امن و آشتی بہت ضروری ہے کیونکہ بے امن معاشرے کی تمام تر توجہات اپنے آرام و سکون کو برقرار رکھنے پر مرکوز ہوتی ہیں اپنی ساری توانائیوں کو اس مقصد کے حصول میں استعمال کرتا ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن رہنے میں باقی اقوام سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے ہر دور میں استعماری طاقتوں کا یہی شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے سے کمزور لوگوں پر لڑائی کو مسلط رکھتے تاکہ ان کو اپنے حقوق کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہ ملے یہ چیز جناب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا اپنے خطبے میں ان الفاظ میں بیان فرماتی ہیں ۔
"مذقۃ الشارب و نھزۃ الطامع وقبسۃ العجلان و موطئ الاقدام”
تم( اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ) پینے والے کے لیے گھونٹ بھر پانی، طمع و لالچ والے(استعمارگروں کے لیے) ایک ترنوالہ، جلدی بجھ جانے والی چنگاری اور قدموں کے نیچے پامال ہونے والے خس و خاشاک تھے( یعنی اس سے زیادہ تمہاری کوئی حیثیت نہ تھی)۔(13)
قدیم دور میں عرب میں جو مضبوط اور بڑے قبیلے والے لوگ تھے وہ چھوٹے قبائل کو ہمیشہ دبا کر رکھتے تھے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے کہ بعض قبائل تو ایسے تھے کہ ان کا کوئی آدمی دوسرے قبیلے کے فرد کو قتل کردیتا تو وہ اس کا قصاص دینے کی بجائے دیت ادا کرتے ۔(14)کیونکہ ان کا قبیلہ زیادہ طاقت ور تھا لہذا ان سے انتقام لینے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اسی طرح معمولی بات پہ سالہا سال لڑائیاں جاری رہتیں اور اور خود پر جنگ کو مسلط رکھتے جس کی مثال مشہور حرب فجار ہے ان جنگوں کی وجہ سے لوگ سفر کرتے ہوئے، تجارت کے قافلے لے جاتے ہوئے بہت پریشان رہتے کہ کہیں دشمن حملہ کرکے ان کا مال و اسباب نہ لوٹ لے اور ان کو ابدی نیند نہ سلا دے اور ایسے کئی واقعات تاریخ میں موجود ہیں
جب کہ دوسری طرف موجودہ دور کی حالت دیکھی جائے تو جہاں یہود و نصاریٰ نے کمزور اقوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے وہاں بعض مسلم ممالک بھی کسی طور پیچھے نہیں رہے اگر امریکہ نے کویت، عراق، شام اور افغانستان میں قتل و غارت کے بازار کو گرم کیا ہے خود ساختہ بہانوں کے ذریعے ان ممالک کے امن کو تاراج کیا ہے تو وہاں ایک مسلم ملک نے یمن پر بھی ایسی ہی چڑھائی کی ہے جہاں سینکڑوں بے گنا ہ لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں کئی افراد بھوک سے مررہے ہیں طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے حتی کہ ان ممالک کے باشندے تو کیا تجارت اور سیاحت کرنے والے بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے گویا کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھاآج کے معاشرے کے لوگوں کو فرما رہی ہوں
"تخافون ان یتخطفکم الناس من حولکم”
تمہیں ہمیشہ یہ کھٹکا لگا رہتا کہ کہیں آس پاس کے لوگ تمہیں اچک نہ لیں ۔(15)
خستہ حال طرز زندگی:
اقوام عالم کے طرز زندگی کے مطالعہ سے ان کے معیار کا اندازہ لگایا جا تا ہے اسلام سے قبل عرب معاشرے کی حالت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے کچھ اس طرح بیان فرمائی ہے
"تشربون الطرق و تقتاتون الورق اذلۃ خاسئین "
تم کیچڑ والے بد بودار پانی سے پیاس بجھاتے تھے اور گھاس پھوس سے بھوک مٹاتے تھے۔ تم اس طرح ذلت و خواری میں زندگی بسر کرتے تھے۔(16)
یہاں الطرق کا لفظی معنی تعفن والا پانی یعنی اونٹ کے پیشاب سے ملا ہوا پانی پیتے تھے۔ (17) اب اس لفظ پہ غور کریں تو بنیادی طور پر دو نکات سامنے آتے ہیں۔
پہلا یہ کہ اس سے مراد عرب کی انتہائی بد حال زندگی گذارنے کے لیے استعارہ ہے کہ وہ حیوانوں کے ساتھ رہتے ،اپنی خوراک کے لیے کتنے گرے ہوئے تھے اپنے آپ کو دیگر اقوام کی نسبت سب سے زیادہ باشرف اور عزت والا سمجھنے کے باوجود ان کی حالت یہ تھی کہ خوراک وہ استعمال کرتے جو ایک جانور کھاتا تھا یعنی وہ لوگ کوئی تہذیب نہیں رکھتے تھے بلکہ حیوانوں کے طرح زندگی بسر کر رہے تھے بلکہ اس سے بھی بد تر یہ کہ ایک حیوان کے فضلہ سے سے ملا ہوا پانی پیا کرتے تھے ۔
دوسرا ان لوگوں کو اپنی عظمت و رفعت کا کوئی اندازہ نہ تھا اس سے زیادہ ایک انسان کے لیے ذلت کیا ہوسکتی ہے کہ وہ جانور جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا پھر اس کے لیے مسخر کیا اور تابع بنا دیا لیکن یہ انسان اس قدر پستی اختیار کرتا ہےکہ خود کو اس حیوان کے برابر بلکہ اس سے بھی کمتر سمجھنے لگ جاتا ہے اور انہیں جیسا طرز زندگی اپنا لیتا ہے
لیکن اب اسی چیز کو ہم جدید دنیا میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ انسان کے طرز زندگی کے یہ مسائل آج بھی اسی طرح موجود ہیں سائنسی دنیا میں انسان کی پیشرفت بھی ان کو ختم کرنے میں ناکام ہے اگر آج کے دور میں ہندووں کے سماج کو دیکھا جائے تو وہ اسی جہالت کا شکار ہے ان کے ہاں پنج گاو کی اصطلاح مشہور ہے جس کے مطابق وہ گائے کی فقط عبادت ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ اس سے منسوب پانچ اشیاء دودھ، گوشت، گھی، گوبر اور پیشاب کو مقدس سمجھتے ہیں بلکہ مختلف رسومات پر ان کو کھانے اور نہانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ (18)اب یہ سائنسی دور اگرچہ خود کو ترقی یافتہ سمجھتا ہے اپنے شعور اور وسائل کا استعمال کرتا ہے لیکن ان سب چیزوں کے باوجود اپنی عظمت کو پہچاننے سے قاصر ہےاور جہالت کی قدیم رسومات میں زمانہ جاہلیت کے ساتھ برابر کا شریک ہے اس کے علاوہ بھی دیگر ممالک میں اگر ہم دیکھیں تو وہاں بھی کیڑے مکوڑے کھانا جانوروں کے ساتھ مل کرکھانا، ان کا بچہ ہوا کھانا ، ان کو اپنے ساتھ سلانا ایک ہی جگہ پر انسان اور حیوان کی رہائش کا ہونا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔
سودی نظام اور استحصال:
اسلام نے زندگی بسر کرنے کا کامل دستور عطا کیا جس میں انسان کی بنیادی ضروریات، انفرادی و اجتماعی معاملات، عبادات اور معاش کا بہترین طریقہ سکھایا گیااگر اس نظام کو آج دنیا میں نافذ کردیا جائے تو لوگوں کے درمیان طبقہ بندی اور تفاوت دیکھنے کو نہیں ملے گا لیکن زمانہ جاہلیت میں سود کو سب سے بہترین نظام سمجھا تھا اور اس کے ذریعے چھوٹے طبقے کے لوگوں کا خوب استحصال کیا جاتا مجبور افراد کو فقط سودی اقساط پر قرضہ دیا جاتا اور اس کو تجارت سمجھا جاتا جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے
” قالوا انما البیع مثل الربوٰا” "وہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے”۔ (19)
آیت کے انداز سے ہی جاہلیت کا واضح پتہ چلتا ہے گویا وہ لوگ تجارت کو سود کی طرح قرار دیتے ہیں کہ جس طرح سود میں نفع ہے اسی طرح تجارت میں بھی نفع ہوتا ہے یعنی اصلا ان کے نزدیک سود کی برائی کا کوئی تصور ہی نہ تھا وگرنہ وہ سود کو درست کرنے کے لیے یہ کہتے کہ سود ، تجارت کی طرح ہے پس اس کو حق سمجھ کر لوگوں سے ان کا ناحق مال وصول کرتے جس کے نتیجے میں معاشرے کا ایک طبقہ معیشت میں ایک بدترین صورت حال سے دو چار ہو جاتا۔ یہی بات جناب سیدؑہ کے خطبہ کے اس جملے سے بھی سمجھی جاسکتی ہے
"و موطئ الاقدام”
تم اپنے دشمنوں کے مقابلے میں قدموں کے نیچے پامال ہونے والے خس و خاشاک تھے۔(20)
اب وہ پامالی ان کے مال کی ہو یا عزت و آبرو اور جان کی ہو۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا جدید دور جس میں انسانیت کے احترام کے لیے باقاعدہ ادارے بن چکے ہیں اور انسانی حقوق کی پاسداری کے بل پاس ہو چکے ہیں کیا یہ نظام عوام کو اس محرومی ، استحصال اور معاشی طبقہ بندی سے نجات دلا سکا ہے کیا سرمایہ دارانہ سوچ کی بیخ کنی کرسکا ہے تو جواب ہوگا کہ ہرگز نہیں بلکہ ہم اب بھی اسی قدیمی جاہلیت کے دستور پر گامزن ہیں فرق صرف اتنا نظر آرہا ہے کہ اب ان جاہلانہ اقدار کو قانونی حیثیت کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے جدید بنکاری نظام میں ڈھال دیا ہے جس سے منسلک ہر فرد پریشاں حال ہے۔
غلامی اور محرومی:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد خلق فرمایا اپنی قدرت سے اسے تمام تر توانائیاں عطا کیں جس سے انسان نے پہاڑ کو کھود کر مضبوط قلعے تعمیر کیے سمندر کا سینہ چیر کر خوب استفادہ کیا لیکن کبھی کسی انسان کو اللہ تعالی نے اپنی عبادت اور اطاعت پر مجبور نہیں کیا جبکہ حضرت انسان جسے ظالم اور جاہل قرار دیا گیا اس کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ ہمیشہ اپنے سے کمزور لوگوں پر تسلط جمائے رکھے ان کو اپنی غلامی میں لے کر دبائے رکھے ۔ قدیم دور میں انسانوں کو باقاعدہ غلام اور محکوم بنا کر رکھا جاتا اس کی جان، مال ہر چیز کا مالک آقا ہوتا حتی کہ اس کی نسلیں بھی غلامی میں گذر جاتیں یہاں تک کہ اگر آقا چاہتے تو غلام مکمل لباس پہن سکتا تھا وگرنہ اسے اپنا جسم سردی، گرمی سے بچانے کے لئے مناسب لباس کی اجازت نہ ہوتی فکر میں اپنے سردار کا غلام ہوتا آقا جو کہتا چاہتے نہ چاہتے ہوئے اسے انجام دینا پڑتا۔ جیسا کہ امام علی علیہ السلام ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں
” وانتمہ معشر العرب علی شر دین و فی شر دار”
اے گروہ عرب۔! اس وقت تم بدترین دین پر اور بد ترین گھروں میں رہتے تھے۔(21)
بد ترین دین اور گھر یہاں شاید استعارہ ہے کہ تم لوگ ایسے حالات میں مگن تھے کہ تمہیں دین اور درست راستے کا کوئی علم نہ تھا تم بدترین گھروں میں یعنی اپنے آقاوں کے گھروں میں غلامی ، محکومی اور محرومی کی زندگی گذارنے پر خوش و خرم رہتے تھے۔
اگرچہ اب انسانوں کی جسمانی تجارت تو ختم ہوگئی لیکن ان کو فکر میں غلام بنائے رکھنا، حق آزادی سلب کر نا اب بھی باقی ہے اسے ایک نئی اور دل کوبھلی لگنے والی صورت میں تبدیل کردیا گیاہے انسان کو اس کی تقدیر کا پابند کردیا ہے ۔ بعینہ قدیم دور کی طرح اسی سوچ کو آج بھی پید ا کیا جاتا ہے اور پوری کی پوری قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے ، آگے بڑھنے اور اپنی تقدیر بدلنے سے روکا جاتا ہے اگر دنیا میں اس وقت دیکھا جائے تو کتنے ہی ایسے ممالک ہیں جو اپنے پاس وسائل کے ہوتے ہوئے بھی ان کو استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ جن قوتوں کو انہوں نے اپنا آقا تسیلم کیا ہوا ہےان کی ناراضگی کا خوف لاحق رہتا ہے خود اعتمادی کا فقدان، خدمت گذاری اور دستگیری کا رجحان ہے جبکہ انہیں وسائل کو خام مال کے طور پر سستے داموں خرید کر اس سے تیار کردہ اشیاء کو بھاری بھرکم قیمتوں کے عوض احسان کے طورپر دوبارہ انہیں بیچا جاتا ہے اور یہ ذلت و رسوائی اور محرومی کی زندگی مزے سے بسر کرتے ہیں۔ پس قدیمی دور میں لوگوں کو جسمانی غلام بنا یا جاتا تو اب سرمایہ داروں نے انہیں فکری غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
اسلام کی برکات جناب سیدہ سلام اللہ علیھا: کی نگاہ میں:
اسلام سے قبل عربوں کی حالت انتہائی قابل رحم تھی وہ جہالت کی تیرگی میں سرگرداں تھے حلال و حرام کی کوئی تمیز نہ تھی، ایک دوسرےکے مال کو مباح جانتے، عزت و آبرو کا کوئی لحاظ نہ تھا اور نہ ہی کسی دین کی پیروی کے پابند تھے اس عالم میں خدا وند عالم نے ان پر احسان کیا ان کے درمیان ایک نبی کو مبعوث فرمایا جس نے لوگوں کو عقل و شعور اور دین کی سمجھ بوجھ عطا کی جیسا کہ جناب زہرا سلام اللہ علیھا نے خطبہ میں ارشاد فرمایا
"ابتعثۃ اللہ اثمام لامرہ وعزیمۃ علی امضاء حکمہ و انفاذا لمقادیر حتمہ "
اللہ نے رسول کو اپنے امور کی تکمیل اور اپنے دستور کے قطعی ارادے اور حتمی مقدرات کو عملی شکل دینے کے لیے مبعوث فرمایا۔ (22)
اس جملے میں جہاں سیدہ کونیؑن اپنے بابا کی بعثت کا ہدف بیان فرما رہی ہیں یعنی بعثت کے نتیجے میں ان کی زندگی میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں آپؐ نے احکام خداوندی کا نفاذ کیا اسلام کا پرچم بلند فرمایا، کفر کے جھنڈے کو سرنگوں کیا حلال و حرام کا شعور دیا کفر و شرک کے اندھیرے میں زندگی گذارنے والے لوگوں کو توحید کی دعوت دی بے جان بتوں کے سامنے جھکنے والے سروں کو خداِ ئےواحد کے سامنے تسلیم خم کرایا ایک دوسرے سے قطع رحمی، قتل و غارت گری اور سالہا سال لڑنے والوں کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا حتی کہ سب ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے اور بے خوف و خطر زندگی گذارنے لگے۔ ہم جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے خطبہ فدک میں اسلام کے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر مرتب ہونے والے جو اثرات بیان کیے ان میں سے چند ایک کا بغور جائزہ لیں گے۔
دین کی معرفت اور ہدایت:
جناب صدیقیہ کبریٰ سلام اللہ علیھا بیان فرماتی ہیں:
"فاناراللّٰہ باٴبی محمد( صلی الله علیہ وآلہ وسلم)ظلمھا، وکشف عن القلوب بُہَمھا وجلی عن الابصار غُمَمھا وقام فی الناس بالھدایة،وفا نقذ ھم من الغوایة وبصّرھم من العمایة۔ وھداھم الی الدّ ین القویم، ودعا ھم الی الطریق المستقیم ۔”
پس اللہ تعالیٰ نے میرے والد گرامی محمدؐ کے ذریعے اندھیروں کو اجالا کردیا اور دلوں سے ابہام کو اور آنکھوں سے تیرگی کو دور کردیا میرے والد نے لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھایا اور انہیں گمراہوں سے نجات دلائی۔ آپ انہیں اندھے پن سے بینائی کی طرف لائے نیز آپ نے استوار دین کی طرف ان کی راہنمائی کی۔(23)
لوگوں کی جاہلیت کی اصل وجہ ان میں کسی محکم دین کا نہ ہونا ہے اس لیے شاید خدا وندعالم نے قرآن مجید میں دین اسلام کو ایک محکم دین کے نام سے بیان کیا ہے ۔قرآن مجید میں ارشاد پروردگار ہے۔
"ذالک الدین القیم” (یہی محکم دین ہے)۔(24)
گویا کہ بی بی انہیں بتانا چاہتی ہیں کہ یہ اسلام کی ہی برکت ہے کہ آج تم ایک جگہ پر جمع ہو تمہارے پاس چلنے کے لیےایک راستہ ہے ایک بہترین طرز حیات موجود ہے ورنہ کہاں کفر و شرک کی ضلالت سے بھر پور وادیاں اور کہاں ایمان کے سر سبز باغات۔ شاید خدا کے بارے میں تم جانتے تھے لیکن اسلام نے اس کی حقیقی معرفت کرائی کثیر تعداد میں مٹی کی مورتیوں کو پوجنے والوں نے ایک خدا کی عبادت کرنا شروع کردی پھر تم حلال و حرام کو سمجھنے لگے ایک دوسرے کی عزت و ناموس کا پاس کرنے لگ گئے یہ اسلام ہی تھا جس نے تمہیں آکر عزت بخشی، بصیرت اور فہم عطا کیا جس کی وجہ سے گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر تم ہدایت کے چراغ تلے آگئے تمہارا نظام حیات یکسر بدل گیا یہاں تک کہ انسانی عقول کی گہرائیاں بھی اس کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں۔
معارف اسلامی کا نفاذ:
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جناب سیدہ نے اپنے خطبے کے ایک حصے میں اس کے فلسفہ کو بیان کرنے سے پہلے اسلامی احکامات کے انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات اور اس کے دو ررس نتائج کو یوں بیان فرمایا۔
"عزائمہ المفسرة، و محارمہ المحذّرة و بیّناتہ الجالیة وبراھینہ الکافیة، و فضائلہ المندوبة ورخصہ الموهوبہ و شرائعہ المکتوبة”
بیان شدہ واجبات، منع کردہ محرمات، روشن دلائل، اطمینان بخش براہین، مستحبات پر مشتمل فضائل ، جائز مباحات کو اور اس واجب دستور کو پایا جاسکتا ہے۔(25)
ان عظیم جملوں میں غور فکر کرنے سے انسان اس نتیجہ تک باآسانی پہنچ سکتا ہے کہ بی بی نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کس طرح قرار دیا انسان جتنے بھی کام بجالاتا ہے وہ درج بالا پانچ حالتوں سے خالی نہیں ہونگے یہ فقط شریعت میں نہیں بلکہ انسان کی دنیوی زندگی کی بھی یہی صورت حال ہوتی ہے کہ بعض افعال اس کے لیے کرنا ضروری ہونگےاور ترک کرنے کی صورت میں اسے ایک ناقابل برداشت خسارے کا یقین ہوتا ہے جبکہ کچھ کاموں کو چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے تو اسلام نے انسان کے لیے تمام تر امور کو بخوبی بیان فرمایا اور ان کا عملی نفاذ کرکے لوگوں کی زندگی کے تحفظ کی ضمانت دی۔
انسان ہمیشہ عقل اور دلیل کی زبان جلدی سمجھتا ہے اسلام نے بھی اس کو روشن دلائل اور براہین کے ذریعے سمجھایا اور احکام کا نفاذ کیا کہ اسلام ہی ان کی تاراجی اور بے چینی سے نکلنے کا واحد حل ہے
نجات کی امید:
دنیا پر جب کفر کا پرچم لہرا چکا تھا جہالت ہر طرف چھا چکی تھی لوگ حیرت وسرگردانی میں مبتلا تھے کوئی راہ نجات نظر نہ آتی اسلام اس پر فتن دور میں امید کی کرن بن کر ابھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے گمراہی اور مایوسی کی تمام تاریکیوں پر چھا گیا ہر طرف نور ایمان کی روشنی پھیل گئی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو نجات کی نوید سنائی ۔ آخر میں جناب سیدہ کے فرمان کو ہی نقل کرتے ہیں اس کو جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے نہایت لطیف انداز میں اس طرح بیان فرمایا؛
فبلّغ الرّسالةصادعاَ بالنَّذارةِ ،مائلاَعن مدرجةالمشرکین ضارباثبجھم، آخذاًباٴ کظامھمْ داعیاًالی سَبیلِ ربّہ بالحکمة والموعظة الحسنة یجفّ الاصنام وینکث الھام حتیٰ انھزم الجمع وولّواالدّبر حتی تفرّی اللیل عن صبحہ واَسفر الحقّ عن محضہ و نطق زعیم الدین وخرست شقاشق الشّیاطین وطاح وشیظ النّفاق وانحلّت عقد الکفر والشّقاق وفھتم بکلمة الاخلاص و فی نفر من البیض الخماص وکنتم علی شفا حفرة من النّار
رسوؐل اللہ نے اللہ کے پیغام کو واشگاف انداز میں تنبیہ کے ذریعے پہنچایا آپ نے مشرکین کی راہ و روش کو پس پشت ڈالتے ہوئے ان کو کمر شکن ضرب لگا کر ان کی گردنیں مروڑ دیں پھر حکمت و موعظہ کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلایا۔ بتوں کو پاش پاش کردیا اورطاغوتوں کو اس طرح سر نگوں کیا کہ وہ شکست کھا کر فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ یہاں تک کہ شب دیجور میں صبح کی روشنی پھیل گئی اور حق اپنی بے آمیزی کے ساتھ نکھر کر سامنے آگیا اور دین کے پیشوا نے زبان کھولی اور شیاطین کی زبانوں کو لگام دی، نفاق کی بے وقعت جماعت بھی ہلاک ہوگئی اور کفر و شقاوت کے بند ٹوٹ گئے چند اور معزز فاقہ کش ہستیوں کی معیت میں تم کلمہ توحید کا اقرار کرنے لگے جبکہ تم آگ کے دہانے پر تھے ۔(26)
حوالہ جات:
(1) خطبہ فدک سے اقتباس
(2)الصافی فی تفسیر القرآن ج2، ص428
(3)لسان العرب ج3، ص228
(4) النھایۃ: ج1،ص323، لسان العرب ج3 ص229
(5) مفردات الفاظ القرآن ص209
(6) المائدہ ،06
(7)آل عمران، 154
(8)تفسیر نمونہ ج4،ص278
(8) الفتح ،26
(9)احزاب،33
Nightclub – Wikipediahttps://en.wikipedia.org › wiki › Nightclub(10)
(11) عنکبوت 38
(12،13)خطبہ فدک
(14) الامثل فی تفسیر کتاب اللہ المنزل ج3،ص450
(15،16) خطبہ فدک
(17) ترجمہ خطبہ فدک ص64
(18) پنج گئو – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیاhttps://ur.wikipedia.org › wiki
(19) البقرہ، 275
(20) خطبہ فدک
(21) نہج البلاغہ خطبہ 26
(22،23) خطبہ فدک سے اقتباس
(24)روم 30
(25،26) خطبہ فدک سے اقتباس
مصادر و منابع:
1۔القرآن الکریم
2۔رضی، علامہ السید محمد، نہج البلاغہ، مترجم مفتی جعفر حسین مرکز افکار اسلامی راولپنڈی
3۔طبرسی، ابو منصور احمد بن علی،ن الاحتجاج علی اھل اللجاج، ناشرمنشورات شریف رضی
4۔ابو فضل،احمد بن ابی طاہر،بلاغات النساء ، مدرسہ والدہ عباس اول قاہرہ
5۔حویزی، شیخ عبد علی،تفسیر نور الثقلین ، موسسہ تاریخ عربی لبنان
6۔فیض کاشانی،محمد بن مرتضی، الصافی فی تفسیر القرآن، دار الکتب الاسلامیۃ تہران
7۔شیرازی، ناصر مکارم، الامثل فی تفسیر کتاب اللہ المنزل،موسسہ الاعلمی للمطبوعات
8۔ Nightclub – Wikipediahttps://en.wikipedia.org › wiki › Nightclub
9۔پنج گئو – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیاhttps://ur.wikipedia.org › wiki
10۔نجفی، علامہ محسن علی، خطبہ فدک، ناشر کلیہ اہل بیت چنیوٹ
11۔شریعتی، ڈاکٹر علی، فاطمہ ، فاطمہ ہے ، ناشر ادارہ احیاء تراث اسلامی کراچی
12۔ابن کثیر، عماد الدین، تفسیر ابن کثیر، مترجم مولانا محمد جوناگڑھی ، ناشر مکتبہ قدوسیہ

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button