خطبات جمعہ

خطبہ جمعۃ المبارک

موضوع: دعا از قرآن و حدیث (شمارہ:173)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک28اکتوبر 2022ء بمطابق 30 ربیع الاوّل1444

ھ)

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی
آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں
موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق
معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز
پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف
میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ

کیجیے۔

مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

2

قرآنِ کریم کی متعدد آیات سے دعا کی غیر معمولی اہمیت کا اظہار ہوتا ہےیہاں
تک کہ ان آیات میں دعا کو اہم ترین عبادت شمار کیاگیا ہے اور اس سے بے
توجہی کو استکبار (گھمنڈ) اور عذابِ جہنم کا موجب قرار دیا گیا ہے۔
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ
دٰخِرِيْنَ
اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا
اور یقیناً جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں، وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم
میں داخل ہوں گے۔(سورئہ غافر۴۰آیت۶۰)
نیز خداوند عالم کا ارشاد ہے:
قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں، تو پروردگار تمہاری پرواہ بھی
نہ کرتا۔(سورہ فرقان۲۵آیت۷۷)
قرآنِ کریم میں مختلف شکلوں میں ۲۵ مرتبہ دعا کی اصطلاح استعمال ہوئی
ہے اور سو سے زیادہ مرتبہ انبیا وغیرہ کی دعاؤں کا تذکرہ کیا ہے جو رب
اور ربنا جیسے کلمات سے شروع ہوتی ہیں اور یہ چیز قرآنِ کریم کی نظر میں
دعا کی امتیازی اہمیت کی علامت ہے۔
انبیا اور معصومین کے کلمات میں بھی بہت کم چیزوں پر اتنی توجہ دی گئی
ہے جتنی توجہ دعا کے موضوع پر دی گئی ہےیہ ہستیاں ہمیشہ، مختلف اوقات
میں دعاؤں، مناجات اور خدا سے راز ونیاز میں مشغول رہا کرتی تھیں اس
حوالے سے چند مثالوں کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
الدُّعاء سِلاحُ المؤمِن وعَمُو دُالدّینِ ونُورُ السّماواتِ اوالارض

3

دعا مومن کا اسلحہ، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔(اصولِ
کافی ج۲ص۴۶۸)
آنحضرتؐ ہی کا ارشاد ہے:
الدُّعاءُ مُخُّ العبادَةِ ولا یَهْلِکُ مَعَ الدُّعاء احَدٌ
دعا عبادت کا مغز ہےکوئی دعا کرنے والا ہلاکت کا شکار نہیں ہوتا۔(بحار
الانوارج۹۳ص۳۰۰)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے نقل کیا ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام
نے فرمایا:
احبُّ الاعمالِ اِلی ﷲ عزّو جلّ فی الارضِ الدُّعاءُ
اﷲ رب العزت کی نگاہ میں زمین پر سب سے پسندیدہ عمل دعا ہے۔
اس کے بعد آپؑ نے فرمایا:
وَکانَ امیرُ المؤمنینَ رجلاً دَعّاءٌ
اور امیر المومنین بہت زیادہ دعا کرنے والے شخص تھے۔(اصولِ کافی
ج۲ص۴۶۷، ۴۶۸)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے:
الدُّعاءُ مفاتیحُ النّجاحِ ومقالیدُ الفَلاحِ
دعا کامیابی کی کنجیاں اور فلاح کے خزانے ہیں۔
الدُّعاءُ تُرْسُ المؤمِنِ
دعا مومن کی سپر ہے۔(اصولِ کافی ج۲ص۴۶۸)
اَعْجَزُ الناسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعا

4

جو شخص دعا کرنے سے عاجز ہو، وہ عاجز ترین انسان ہے۔(بحار
الانوارج۷۸ص۹)
دعا کی روشنی میں تین اہم سبق
دعا ومناجات مثبت وتعمیری اثرات (بالخصوص قلب کی پاکیزگی اور تہذیب
نفس) کی حامل ہوتی ہے اور اس سے بکثرت سبق حاصل کیے جاسکتے ہیں ان
اسباق میں دعا کے تین اہم درس، بالفاظ دیگر دعا کے تین پہلو بھی شامل
ہیں۔دعا کے فیوضات حاصل کرنے کے لیے، ان اسباق اور ان پہلوؤں کی جانب
متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔
۱:- دعا، بلاؤں کے دور ہونے اور حاجتوں کے پورا ہونے کے سلسلے میں
موثر کردار کی حامل ہےاسی بنیاد پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام
نے فرمایا ہے:
ادفَعوا امواجَ البَلاء عَنْکُم بالدّعاء قَبْلَ ورودِالبَلاء
بلاؤں کی امواج کو ان کے آنے سے پہلے دعا کے ذریعے اپنے سے دور
کرو۔(بحار الانوارج۹۳ص۲۸۹)
۲:- دعا کرتے ہوئے بندہ خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑاتا، سر جھکاتا اور اس کے
ساتھ راز ونیاز کرتا ہے اور یہ کیفیات انسان کے غرور کو توڑتی ہیں اور دل
کو معنوی امور کی قبولیت کے لیے آمادہ کرتی ہیں اس کے نتیجے میں انسان
اطمینانِ نفس، قوتِ قلب اور بلند جذبات واحساسات کا حامل ہوجاتا ہےاس بارے
میں قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ:
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً
تم اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خاموشی کے ساتھ پکارو۔(سورئہ
اعراف۷آیت۵۵)
۳:- دعا کے مشمولات ومضمون اور دعا میں موجود بلند پایہ معارف پر
توجہ:مثال کے طور پر صحیفہ سجادیہ کی پہلی دعا اور نہج البلاغہ کا پہلا

5

خطبہ بلند پایہ معارف اور علمی نکات کے اعتبار سے یکساں ہیں ،ان معارف
پر توجہ، انسان کی معلومات کی سطح اور معرفت میں اضافے کے ساتھ ساتھ
اسلام کی عالی تعلیمات ومفاہیم سے بہتر آشنائی کا ذریعہ ہیں ۔ان اعلیٰ مفاہیم
اور تعلیمات میں سرِ فہرست توحیدوخدا شناسی ہے، جو استجابت دعا کے
سلسلے میں اہم کردار کی حامل ہےجیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ ایک گروہ
نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا: ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں
ہوتی، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ امام نے انہیں جواب دیا:
لانّکم تدعُونَ مَنْ لا تَعرِفُونَه
اس لیے کہ تم اسے پکارتے ہو، جسے پہچانتے نہیں۔(بحار
الانوارج۹۳ص۳۶۸)
(یعنی بغیر معرفت الٰہی کے دعا کرتے ہو)
مجموعی طور پر دعا ایک ایسی عبادت ہے جسے روح کی پاکیزگی اور اسکی
تعمیر میں زیادہ سے زیادہ کردار کا حامل ہونا چاہئےاس کرادر کے حصول
کے لیے واجب، مستحب اور کمالِ دعا کی شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری
ہے۔
دعا کی قبولیت بعض شرائط سے وابستہ ہے اور ان شرائط کے حصول کا
تہذیبنفس اور تکاملِ انسان سے قریبی تعلق ہے، اور کہا جاسکتا ہے کہ جس
قدر انسان میں دعا کا مثبت اثر ظاہر ہوگا اسی قدر دعا درجہ قبولیت پائے
گی۔اس نکتے کی وضاحت کے لیے آپ کی توجہ درجِ ذیل فرامینِ معصومین
کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں:
پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ایسا شخص، جو چاہتا ہے کہ اسکی دعا قبول ہو، اسے چاہیے کہ اپنی خوراک
اور ذریعہ آمدنی کو پاک کرے۔
نیز آپؐ ہی نے فرمایا ہے:

6

تمہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیے، وگرنہ خداوند عالم
تمہارے نیک لوگوں پر برے لوگوں کو مسلط کردے گا اور تم کتنی ہی دعا
مانگو لیکن وہ قبول نہیں ہوگی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۸، ۴۴۹)
دعائے کمیل میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
اللهمَّ اغْفِرْلِیَ الذَنوبَ الَتی تَحْبِسُ الدّعاء
بار الٰہا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتے
ہیں۔
ایک شخص نے امیر المومنینسے سوال کیا: ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں
ہوتیں؟ امامنے اسے جواب دیا: تم نے خدا کو پہچانا ہے، لیکن اس کا حق ادا
نہیں کیا،رسول پر ایمان لائے ہو، لیکن اُن کے فرامین واحکام کی پیروی نہیں
کی،آیاتالٰہی کی تلاوت کی ہے، لیکن ان کی تعلیمات پر عمل نہیں کیا،زبان
سے کہا ہے کہ آتشِ جہنم سے ڈرتے ہو، لیکن تمہارا کردار آتشِ جہنم میں
داخلے کا موجب ہوتا ہے،زبان سے کہتے ہو کہ تمہیں جنت پسند ہے، لیکن
اپنے عمل سے جنت سے دور ہو گئے ہو،خدا کی نعمتوں سے استفادہ کیا ہے،
لیکن ان کا شکر ادا نہیں کیا،خدا فرماتا ہے کہ شیطان سے دشمنی رکھو، تم نے
اپنی زبان سے تو اس سے دشمنی کا اظہار کیا ہے، لیکن عمل سے اس سے
دوستی کی ہے،تم نے دوسرے لوگوں کے عیب تو دیکھے ہیں، لیکن اپنے
عیبوں کو نظر انداز کیا ہےاگر تمہاری نیت خالص ہو اور تم امر بالمعروف
ونہی عن المنکر کرو، تو تمہاری دعائیں قبول ہوں گی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۹)
ایسی بکثرت روایات موجود ہیں، جن میں دعا کی قبولیت کے لیے اس کی
شرائط فراہم کرنے کی جانب اشارہ کیا گیا ہےلہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں
بے سوچے سمجھے اور صرف بظاہر دعا کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیےبلکہ
دعا کے مضمون ومشمولات اور شرائط پر بھی توجہ دینی چاہیے، تاکہ اس
عمل سے بھرپور اور مکمل استفادہ کیا جاسکے۔
دعا کے مضمون پر توجہ اور بے موقع یا کم فائدہ دعاؤں سے اجتناب

7

آیت مجیدہ وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا
لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا
اور وہ لوگ برابر دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدایا ہمیں، ہماری ازواج اور اولاد
کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں صاحبانِ تقویٰ کا پیشوا بنا
دے۔(سورئہ فرقان۲۵۔ آیت۷۴)
میں واضح کیا گیا ہے کہ خدا کے ممتاز اور خاص بندے وہ لوگ ہیں جو دعا
کرتے ہیں اور دعا کے ذریعے خدا کے سامنے اپنی ان تین خواہشات کا اظہار
کرتے ہیں:
۱۔اچھی بیوی ۲: صالح اولاد ۳: لوگوں کے پیشوا، رہنما اور ان کے
لیے نمونہ عمل کامقام۔
یعنی یہ لوگ اس بات سے باخبر ہیں کہ انہیں دعا کے ذریعے اپنے رب سے
کیا مانگنا چاہیے، لہٰذا خدا سے اہم چیزیں طلب کرتے ہیں اور ان کے حصول
کے لیے کوشش کرتے ہیں۔
خدائے رحمان کے خاص بندوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی دعا میں
خداوندعالم سے عرض کرتے ہیں کہ: بارِ الٰہا! ہمارے بیوی بچوں کو ہماری
آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے اور ہمیں متقین کا پیشوا قرار دے۔
یہ خصوصیت اس بات کا اظہار ہے کہ خدا کے یہ ممتاز بندے دعا ومناجات
سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی خاص توجہ
دیتے ہیں کہ دعا کے ذریعے کیا طلب کرنا چاہیےخدا سے ایسی چیزوں کا
سوال کرتے ہیں جو انتہائی اہم اور موثر ہوتی ہیں جیسے نیک بیوی کی
خواہش، نیک اولاد کی خواہش اور اس سے بھی بڑھ کر خدا سے دعا کرتے
ہیں کہ انہیں ایسے مقام پر پہنچا دے کہ معاشرے کے پیشوا اور اسکے لیے
ماڈل بن جائیں۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ بارِ الٰہا! ہماری بیوی اور بچوں کو ہماری آنکھوں کی
ٹھنڈک بنادےآنکھوں کی ٹھنڈک یا نورِ چشم کی اصطلاح کمال وسعادت کا رمز

8

ہےکیونکہ اچھی بیوی اور صالح اولاد انسان کے اطمینان اور اسکی سعادت کا
موجب ہوتے ہیں اور انسان کی روح کو فرحت بخشتے ہیں اور اس کے نتیجے
میں اسے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کا نور حاصل ہوتا ہےواضح الفاظ میں
عرض ہے کہ صالح اولاد اور اچھی بیوی، انسان کی زندگی کو نورانیت اور
پاکیزگی دیتے ہیں اور دنیا وآخرت میں اس کی عزت وآبرو، سرخروئی اور
سربلندی کا باعث بنتے ہیں اس قسم کی دعائیں سودمند اور مفید آثار کی حامل
ہیں، برخلاف اُن بیہودہ اور کم فائدہ دعاؤں کے جن کی کوئی قدروقیمت نہیں
ہوتی۔
انسان کو تمام ہی امور میں، حتیٰ اپنی دعاؤں میں بھی بلند عزائم اور بلند تمناؤں
کا مالک ہونا چاہیے اور دعا کی نورانیت کے سائے میں بلند مقامات تک رسائی
حاصل کرنا چاہیےیہاں تک کہ اس کی دعا ہو کہ وہ لوگوں کا پیشوا، رہبر اور
ان کے لئے نمونہ عمل بنے۔
دعاؤں کو صرف مادّی امور تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، نہ ہی بارگاہِ الٰہی
میں حقیر چیزوں کی درخواست کرنی چاہیےاسی بنا پر امام جعفر صادق علیہ
السلام فرماتے ہیں: چار قسم کے لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں
(1) ایسے شخص کی دعا جو اپنے گھر میں بیٹھا یہ دعا مانگتا ہے کہ بارِ الٰہا!
مجھے روزی عنایت فرمااس سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے کوشش
اور جدوجہد کا حکم نہیں دیا تھا؟
(۲) ایسے شخص کی دعا جس کی (بری اور مسلسل تکلیف پہنچانے والی)
بیوی ہو، اور وہ اس سے نجات کی دعا کرتا ہواس سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں
نے تجھے طلاق کا حق نہیں دیا تھا؟
(۳) ایسا شخص جس کے پاس کوئی مال ہو اور اسے اس نے بغیر کسی کو
گواہ بنائے کسی دوسرے کو قرض دے دیا ہو (اور قرض لینے والا مکر گیا ہو
اور قرض دینے والا یہ دعا کرتا ہو کہ خدایا اسکے دل میں نیکی ڈال تاکہ وہ

9

میرا قرض ادا کردے) ایسے شخص سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے
حکم نہیں دیا تھا کہ قرض دیتے وقت گواہ رکھنا؟(اصولِ کافی ج۲ص۵۱۱)
جب ہم انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی کی دعاؤں کا جائزہ لیتے ہیں، تو دیکھتے
ہیں کہ دعا کے دوران اکثر ان کی خواہشات کا محور بلند پایہ معنوی، اجتماعی
اور سیاسی امور ہوتے ہیں مثلاً حضرت ابراہیم کی دعا یہ تھی کہ:
رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ
پروردگار! مجھے اور میری ذریت میں نماز قائم کرنے والے قرار دے اور
پروردگار میری دعا کو قبول کرلے۔(سورئہ ابراہیم۱۴آیت۴۰)
ائمہ معصومینؑ جوراسخون فی العلم ہیں، یوں دعا کیا کرتے تھے:
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ
پروردگار! جب تو نے ہمیں ہدایت دے دی ہے، تو اب ہمارے دلوں میں کجی
(گمراہی) پیدا نہ ہونے پائے، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما کہ تو
بہترین عطا کرنے والا ہے(سورئہ آلِ عمران۳آیت۸)
اصحاب کہف کی دعا یہ تھی کہ:
رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا
پروردگار! ہم کو اپنی طرف سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لیے ہدایت اور
نجات کی راہ فراہم فرما۔(سورئہ کہف۱۸آیت۱۰)
صحیفہسجادیہ اور مفاتیح الجنان میں نقل ہونے والی ائمہ کی دعاؤں پر توجہ
ہمیں دعا کرنے کے انداز سے آشنا کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ ہم کس طرح
اپنے رب سے دعا مانگیں۔
مثلاً امام حسین علیہ السلام اپنی دعائے عرفہ کے ایک حصے میں خدا سے
یوں عرض کرتے ہیں کہ:

10

اللهمّ اجعَلنی اَخشاکَ کانّی اراک، واَسْعِدْنی بِتَقواک، ولاٰ تُشْقِنی مِنْ مَعْصِیَتِکَ
بارِ الٰہا! مجھے اپنی درگاہ میں ایسے خوف وخشیت کے ساتھ کھڑا کردے، گویا
میں تجھے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور تقویٰ کے سائے میں مجھے
سعادت مند فرما، اور گناہ کی بنا پر سیاہ بخت نہ بنا دینا۔(مفاتیح الجناندعائے
عرفہ)
عبرت آمیز واقعہ:
اس نکتے اور مفہوم کی وضاحت کے لیے ایک دلچسپ داستان نقل کرتے ہیں:
بیان کیا گیا ہے خداوندعالم نے بنی اسرائیل کے انبیا میں سے ایک نبی پر
وحی کی کہ فلاں عابد سے کہیں کہ اس کی تین دعائیں ہماری بارگاہ میں قبول
کی جائیں گی، نبی نے خدا کی یہ وحی اس عابد تک پہنچا دی۔اس عابد نے
معاملہ اپنی بیوی کے سامنے رکھااس کی بیوی نے اس پر زور دیا کہ ان تین
میں سے ایک دعا میرے لیے طلب کرے۔عابد نے اس کی یہ تجویز مان لی،اس
کی بیوی نے اس سے کہا کہ میرے لیے دعا مانگو کہ خدا مجھے اپنے زمانے
کی حسین ترین عورتوں میں سے بنادےعابد نے یہ دعا مانگی اور اس کی
بیوی دنیا کی خوبصورت ترین عورتوں میں سے ہوگئی۔اس کی خوبصورتی کا
چرچا ہوا تو بادشاہ وقت اور خواہشاتنفسانی کے غلام امیر زادے اس کی زلف
کے اسیر ہوگئے اور اسے پیغام بھیجنے لگے کہ اپنے مفلوک الحال، بوڑھے
اور زاہد شوہر کو چھوڑ کر ہمارے پاس آجاؤ تاکہ دنیا کی ہر لذت سے لطف
اندوز ہوسکو۔وہ عورت ان کے فریب میں آگئی اور اپنے شوہر سے بدسلوکی
کرنے لگی۔اس طرح ان میاں بیوی کے باہمی تعلقات خراب ہو گئےآخر کار اس
عابد شخص نے اپنی بیوی سے ناراض ہوکر اپنی دوسری دعا مانگی اور وہ یہ
تھی کہ: بارِالٰہا! میری بیوی کو کتا بنا دے۔عابد کی دعا پوری ہوئی اور وہ
عورت کتا بن گئی۔
اس عورت کے بھائی اور دوسرے رشتے دار عابد کے پاس آئے اور کہنے
لگے کہ لوگوں میں ہماری رسوائی ہورہی ہے، ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ

11

آپ اپنی تیسری دعا طلب کیجئے تاکہ آپ کی بیوی اپنی پہلی والی صورت میں
واپس آجائےان لوگوں کے شدید اصرار پر عابد نے اپنی تیسری دعا بھی طلب
کی اور عرض کیا کہ: بارِ الٰہا! میری بیوی کو اس کی پہلی حالت پر واپس پلٹا
دےعابد کی دعا قبول ہوئی اور اس کی بیوی اپنی پہلی صورت پر واپس آگئی۔
اس طرح عابد کی تینوں مقبول دعائیں رائیگاں گئیں۔(بحارالانوارج۱۴ص ۴۸۵)
اگر وہ عابد سمجھ بوجھ رکھنے والا ہوتا تو اس موقع سے زیادہ سے زیادہ
فائدہ اٹھا سکتا تھا اور اپنی دنیا اور آخرت کی کامیابی وسعادت حاصل کرسکتا
تھا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button