امامت

منصب خلافت و امامت فرمان امام علی علیہ السلام کے پرتو میں

مولف :محمد صادق نجمی
مترجم: محمد منیر خان
”ذَرَعُوا الْفُجورَ،وسَقَوه الغُرورَ،وحَصَدُوْا الثُّبُورَ،لایُقاسُ بِآلِ محمد صلى‌اللهعلیہ وآلہ‌وسلم من هذه اُلامَّةِ اَحَد،ٌ وَ لَایُسوَّی بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعَمَتُهم علیه اَبَداً،هُم اَساسُ الدِّین، وَعِمادُ الیقین، اِلیهم یَفِئیُ الغَالِی،وبهم یُلْحَقُ التاَّلِی ،ولَهُم خَصائِصُ حّقِّ الوِلَایَة،ِ وَ فِیهم الوَصِیَّةُ وَالْوِراثَةُ،اَلْآنَ اِذْرَجَعَ الْحَقُّ اِلیٰ اَهله، ونُقِل اِلیٰ مُنْتَقَلِه “
)شرح نہج البلاغہ ابن الی الحدید ج۱،ص ۱۳۸،خطبہ ۲(
انہوں نے فسق و فجور کی کاشت کی ،غفلت و فریب کے پانی سے اسے سینچا اور اس سے ہلاکت کی جنس حاصل کی، اس امت میں کسی کو آل محمدعلیہم السلام پر قیاس نہیں کیا جاسکتا،جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں ،وہ ان کے برابر نہیں ہوسکتے، وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں ، آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کو ان سے آکر ملنا ہے، حق ولایت کی خصوصیات انہیں کے لئے ہیں،انہیں کے بارے میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت اور انہیں کے لئے نبی کی وراثت ہے، اب یہ وقت وہ ہے کہ حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہوگیا ۔
روش بحث،مقصداورتین سوال
قارئین کرام !جیسا کہ عنوانِ بحث سے ظاہر ہے کہ آئندہ ہم صحیحین کی ان احادیث کو پیش کریں گے جو خلافت سے متعلق ہیں ، لہٰذا ہمارا مقصد یہا ں پر صرف اِن احادیث کا نقل کرنا ہے نہ کہ مسئلہ خلافت کی تحقیق،کیونکہ ہماری کتاب علم کلام کی کتاب نہیں ہے کہ جس میں مسئلہ خلافت کی تحقیق وتحلیل کریں اور فریقین میں سے ایک گروہ کے عقیدہ کو ثابت کرنے کے لئے محکم اور ٹھوس دلائل پیش کریں،یا پھر دوسرے گروہ کے عقیدہ کو ہدف تنقید قرار دے کر حق کو بیان کریں ،بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اہل سنت کی اہم ترین اساسی کتابیں ”صحیحین“کے مختلف ابواب میں نقل کردہ وہ حدیثیں جو براہ راست خلافت سے متعلق ہیں،ان کو محترم قارئین کے سامنے پیش کریں،لہٰذا ہمارے اوپریہ لازم نہیں کہ ہم اِن روایات کے تمام تاریخی جزئیات کوجو ان روایتوں کے بارے میں پائے جاتے ہیں نقل کریں،یا ان کی عمیق ودقیق تحقیق و تنقید کریں ،کیونکہ:
ا ولاً: یہ بحث ہمارے موضوع سے خارج ہے۔
ثانیاً :اس بحث کیلئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے اور حسن اتفاق سے اس موضوع سے متعلق ہمارے یہاں بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں ، چنانچہ اگر ہم نے کھیں پرخلافت سے متعلق بعض مطالب کو بیان کیا ہے تووہ صرف اپنے مطلوب اورمحل بحث احادیث کے مفہوم کی وضاحت کے خاطرہے نہ کہ موضوعِ خلافت چھیڑناہے، بہر کیف تمہیدکے طورپر ہم پہلے تین سوال پیش کرتے ہیں اور ان سوالوں کے جوا بات ہر اس شخص سے پوچھنا چاہتے ہیں جو خلافت پر اعتقاد رکھتا ہے۔
مسئلہ خلافت سے متعلق تین سوال
مسئلہ خلافت رسول اسلام کا وہ اساسی ترین مسئلہ ہے جو مسلمانوں کے درمیان ایک،دو،پانچ، دس صدی سے محل ِ اختلاف قرار نہیں پایا بلکہ یہ مسئلہ آفتاب ِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم کے غروب ہونے کے بعد ہی اختلاف کی نظرہوگیا تھا،جیسا کہ عالم اہل سنت جناب شہرستانی اپنی کتاب”الملل والنحل“ میں کھتے ہیں :
امت اسلام سب سے زیادہ مسئلہ امامت میں اختلاف کرتی ہے، یعنی مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ امامت اور خلافت کا ہے جو سبب ِ اختلاف قرار پایا ہے، کیونکہ اسی مسئلہ امامت کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی جانیں گئی ہیں ، امامت کے علاوہ اور کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس میں اس قدر اختلاف اور خونریزی ہوئی ہو:
”اعظم خلاف بین الامة خلاف الامامةاذماسل سیف فی الاسلام علی قاعدة دینیة مثل ما سل علی الامامة فی کل زمان”
)الملل ونحل جلد۱،المقد مۃ الرابعہ:در بیان شبہ اول ، الخلاف الخامس، ص ۲۴(
ہمیں اس ا ختلاف کے وجود میں آنے کی کیفیت اور تاریخ سے کوئی سرو کار نہیں لیکن آئندہ آنے والی احادیث کے لئے تمہید کے طورپر تین مطالب کو بعنوان سوال ذکر کرتے ہیں :
۱ ۔ جب مسئلہ خلافت و امامت اتنا اہم مسئلہ ہے تووہ خدا کہ جس نے اسلام کے ماننے والوں کے لئے رسول صلى‌الله علیہ وآلہ‌وسلم کے ذریعہ چھوٹے سے چھوٹے حکم کو بیان کیا ہے ،جیسے سونا ، جاگنا، کھانا، پینا، حمام،غسل کنگھی کرنا ، نامحرم عورتوں پر نگاہ ڈالنا ایک لمحہ بھر ہی کیوں نہ ہو، دوسرے کی غیبت کرنا اگرچہ ایک کلمہ کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو،چنانچہ ان احکام کی تعداد واجبات ،محرمات ، مستحبات اور مکروہات میں بےشمار ہے ،یعنی انسان کی زندگی کا کوئی ایسا پہلو ترک نہیں کیا گیا ہے جس میں شریعت کی طرف سے کوئی حکم نہ ہو ،تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ امامت جیسے اہم مسئلہ کے بارے میں کچھ نہیں کہاگیا ہو؟ !اور امت کو بغیر کسی رہبر اورہادی کے چھوڑ کر خدا نے اپنے حبیب کو اپنے پاس بلالیا؟!
اگر کہاجائے کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم نے اس مسئلہ کو خود مسلمانوں کے حوالہ کردیا تھا،تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے جزئیات اور فروعات کو خدا ورسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم نے خود مسلمانوں کے حوالے کیوں نہ کیا؟! اوران کو خود کیوں بیان فرمایا ؟! اور جب جزئی اور فرعی احکام جیسے سر منڈوانا، ناخن کٹوانا، حج و زیارات، پیشاب، پاخانہ کے آداب، ہمبستر ہونے کے آداب وغیرہ میں بھی سکوت اور چشم پوشی کرنا قاعدہ لطف کی بنا پر جائز نہیں،تو پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ خدا وند متعال مسلمانوں کے اہم ترین مسئلہ امامت پر سکوت اختیار کرلے گا؟ !کیا قاعدہ لطف یہاں پر تقاضا نہیں کرتا ؟! اور اگر اس نے سکوت اختیار نہیں کیا تو ہمیں اس خلیفہ کانام اور وہ کن شرائط کا حا مل ہے اس کاپتہ بتلائیں ؟!!اوراگر کوئی خلیفہ تعین نہیں ہو اتو خدا کی ذات ہدف ِ تنقید قرار پاتی ہے!! ”نعوذ بالله من ذالک“ یہ وہ باتیں ہیں جو اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم نے بحکم خدا ضرور کوئی خلیفہ منتخب کیا تھا اور اگر مان لیا جائے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم ے مقرر نہیں فرمایا تو کم سے کم جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم کے بعد اس منصب الہٰی کا بوجھ اٹھائے اس کے لئے کچھ شرائط تو ضرور بیان فرمائے ہوں گے؟!!
۲ ۔ آیات، احادیث اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ فرزندان ِ توحید ہمیشہ قرآن و احادیث کی شرح و تفسیر ، دینی اخلاقی و دنیوی مسائل میں رسول صلی اللہه علیہ وآلہ‌وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے، یہی نہیں بلکہ حوادثات ، امور دنیوی اور اپنی زندگی کے جزئی معاملات میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم کو اپنا ملجا وماوا سمجھتے اور آپ سے معلومات حا صل کرتے تھے ،یہاں تک کہ اپنی پریشانیوں کے حل اور مریضوں کے معالجہ کے لئے بھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم سے ہی استشفاء کرتے تھے،جیسا کہ صحیح بخاری ،سنن ترمذی ا ور صحیح مسلم میں آیا ہے :
”ایک شخص نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم سے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم ! میرا بھائی پیچش میں مبتلا ہے، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم ے فرمایا :
اس سے کہوشہدکا استعما ل کرے ، چند دنوں کے بعد وہ شخص پھر آیا اور کہنے لگا :اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم !شہد سے میرے بھائی کی ابھی پیچش ٹھیک نہیں ہوئی ہے، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم نے اس سے کہا:
"شہدکا استعمال جاری رکھے، تیسری مرتبہ پھر اس نے پیچش کی شکایت کی ،رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم پھرشہدکہانے کی تاکید فرماتے ہیں ،یہاں تک کہ اس کی پیچش ٹھیک ہو جاتی ہے”۔
(صحیح بخاری ج ۷، کتاب الطب۔ سنن ترمذی کتاب الطب۔ صحیح مسلم کتاب الطب ، حدیث۲۲۱۷)
پس یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم کی ۲۳ سالہ زندگی میں کسی شخص کے ذہن میں یہ سوال نہ آیا اور کوئی بھی صحا بی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہو ا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم ے بعد مسئلہ جانشینی کا کیا ہوگا؟!اور نہ ہی کسی مسلمان نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم سے اس بات کو پوچھا: ”اے رسول! صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم آپ نے اسلام کو خون ِ دل دے کر پروان تو چڑھا یا ہے مگر اس کی حفاظت آپ کے بعد کون کرے گا؟ ! ہم لوگ آپ کی وفات کے بعد اپنے مسائل کے بارے میں کس طرف رجوع کریں گے؟ !!“ آخر تما م مسلمانوں پر غفلت کا پردہ کیوں پڑا رہا ؟! جبکہ سب لوگ یہ جانتے تھے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم بھی بشر ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم کو بھی موت سے ہمکنار ہونا ہے ،چنانچہ ان آیتوں کو اس وقت کے سبھی مسلمان سنتے اور پڑھتے ہوں گے:
"اِنَّکَ مَیِّتٌ وَ اِنَّهُمْ مَیِّتُوْن”(زمر۳۰َ)
"اے میرے حبیب آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ لوگ تو مریں گے ہیں”۔
"اٴَفَاٴِنْ مَّاْ َ اَوْقُتِلَ اِنْقَلَبْتُمْ عَلیٰ اَعْقَاْبِکُم”(آل عمران آیت ۱۴۴)
” پھر کیا اگر محمدصلى‌الله علیہ وآلہ‌وسلم اپنی موت سے مرجائیں ،یا مار ڈالے جائیں،تو تم الٹے پاوں (اپنے کفر کی طرف )پلٹ جاو گے”۔
اور دوسری جانب سب لوگ یہ بھی جانتے تھے کہ مسئلہ خلافت انسان کی دنیاوی اوراخروی زندگی سے جڑا ہوا ہے یعنی یہ وہ مسئلہ ہے جو نبوت کی طرح ا نسان کی زندگی میں عمیق اثر رکھتا ہے،اس کے بغیر نہ انسان کی دنیاوی زندگی کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ ہی اخروی، اس کے بغیر نہ روحا نی کمال تک پہنچا جاسکتا ہے اور نہ مادی اورسب سے زیادہ تعجب تو یہ ہے کہ خود رسول صلى‌الله علیہ وآلہ‌وسلم کو بھی فکر نہ ہوئی کہ میں نے اتنی محنتوں سے اسلام کو پھیلایا ہے لیکن اس کا محا فظ میرے بعد کون ہوگا؟!اس کا اتاپتہ نہیں ! پس نہ رسول کو فکر ہوئی اور نہ ہی اس بارے میں کسی نے ۲۳ سال کے اندر آپ سے سوا ل کیا !!
۳ ۔ خداوند متعال وصیت کے سلسلے میں ارشاد فرماتا ہے:
"کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَ اْ حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِن تَرَکَ خَیراً نِ الوَصِیَّةُ لِلوَالِدَیْنِ والاَقرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقّاً عَلَی المُتَّقِینَ”(بقرہ ،آیت ۱۸۰)
"مسلمانو!تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت واقع ہو نے والی ہو بشرطیکہ مرنے والا کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کے لئے اچھی وصیت کرے ،جو خد ا سے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے”۔
اسی طرح خودرسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم اسلام اس وظیفہ وصیت کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں :
”قال صلى‌الله علیہ وآلہ‌وسلم ماحق امری مسلم لہ شیء یوصی فیہ یبیت لیلتین،الاووصیتہ مکتوبة عندہ“
"ایک مسلمان مرد کا اہم ترین وظیفہ یہ ہے کہ وہ دو راتیں نہ گزارے مگر اپنے لئے وصیت نامہ تیار کر کے رکھ لے”۔
(صحیح بخاری ج۴ ،کتاب الوصایا ،باب( ۱) ح ۲۵۸۷۔ صحیح مسلم ج ۵، کتاب الوصیۃ۔ سنن ابی داود ج ۱، باب”ما جاء فی یومر بہ من الوصیۃ “ ، ح ۲۸۶۲، ص ۶۵۴۔ سنن نسائی کتاب الوصایا ،باب الکراھیۃ فی تاخیر الوصیۃ، ص ۲۳۹۔ سنن ابن ماجہ ج ۲، کتاب الوصایا ، باب”الحث علی الوصیۃ “ ۔ سنن دارمی کتاب الوصایا باب من استحب الوصیۃ ص ۴۰۲۔ سنن ترمذی ،کتاب الوصیۃ ابواب الجنائز باب ما جاء فی الحث علی الوصیۃ ،ص ۲۲۴۔ مسند ج۲ ،مسند عبد اللہ ابن عمر، ص ۲ ، ۴ ،۵۷،۸۰)
عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں :
میں نے اس مطلب کو جب سے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم سے سنا ہے تب سے کوئی بھی رات ایسی نہیں گزری مگر میرا وصیت نامہ میرے ساتھ تھا۔
) صحیح مسلم جلد ۵، کتاب الوصیہ)
محترم قارئین!جب قرآن او راحادیث سے ثابت ہے کہ وصیت کرنا ایک ضروری امر ہے توپھرعقل اس بات کو کیسے تسلیم کرسکتی ہے کہ جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم دوسروں کے حق میں وصیت کے لئے اس قدر تاکید کرے وہ خود وصیت کئے بغیر چلا جائے گا؟! کیایہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم ے کسی کے لئے وصیت نہیں کی تھی ؟!جب کہ آپ کے لئے وصیت کرنا اشد ضروری تھا ؟!کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم ایک اہم ثروت و ترکہ( دین اور قوانین الٰہیہ )کو چھوڑ کر جارہے تھے، اس سے زیادہ قیمتی اور کوئی ترکہ ہوہی نہیں سکتا تھا ، لہٰذا ان کی حفاظت تو بہت ہی ضروری تھی، ان کے لئے ایک ولی اور سرپرست ہو نا بےحد لازمی تھا ،ان شرائط کے باوجود اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم اپنے بعد ملت ِمسلمہ اوردین اسلام کا کوئی محا فظ نہ چنیں تو گویا کہ آپ نے سارے جہان کو لاوارث چھوڑدیا!کیا ہمارا وجدان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم جیسے دور اندیش اور زیرک ترین شخص کے لئے یہ سوچ سکتا ہے کہ آپ کی عقل ِ کامل اس اہم ترین گوشہ کی طرف کبھی متوجہ ہی نہیں ہوئی ! جس کی وجہ سے آپ نے اپنے بیش قیمت ترکہ( قوانین الٰہیہ) اورملت ِمسلمہ بلکہ سارے جہان کو بغیر ولی اور سرپرست کے یونہی چھوڑ دیااورکسی طرح کا انتظام نہیں کیا ؟!! قطع ِ نظر حکم ِعقل و وجدان کے یہ بات بھی تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم کسی جنگ میں کوئی لشکر بھیجتے تھے تو اس کا ایک رہبر اور سپہ سالا ر معین فرماتے تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی تاکید کر دیتے تھے کہ اگر فلاں شخص شہید ہو جائے تو فلاں کو اپن ا سپہ سالار چن لینا اور اگر وہ بھی شہید ہو جائے تو فلاں کو سردار منتخب کر لینا، وغیر ہ وغیرہ ، اسی طرح یہ بات تاریخ میں مسلم الثبوت ہے کہ آنحضرت نے اپنی تدفین ،غسل اور ادائیگی قرض کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کردی تھی،لہٰذا ان تاکیدات کے باوجودیہ کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم کے خلافت کے لئے کسی کے حق میں وصیت نہیں کی تھی؟!پس جو رسول صلى‌الله علیہ وآلہ‌وسلم قرض،دفن اور کفن جیسے جزئی مسئلہ کو نہ بھولے وہ خلافت جیسے اہم مسئلہ کو کیسے بھول جائے گا؟!!
العجب ثم العجب
محترم قارئین ! ان سوالوں کا جواب اہل سنت نہیں دے سکتے ہیں ، ان کا جواب صرف مذہب اہل تشیع کے نزدیک واضح ا ور روشن ہے، کیو نکہ یہ وہ مذہب ہے جو عقیده رکھتا ہے کہ نہ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم نے اور نہ ہی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم کی زندگی میں مسلمانوں نے اس مسئلہ خلافت کے بارے میں سکوت اختیار کیا اور نہ ہی اسکے اظہارسے امتناع کیااورنہ تساہلی سے کام لیابلکہ جس روز سے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم مبعوث برسالت ہوئے اسی دن سے آپ کو مامور کیاگیا تھا کہ آپ نبوت کے ساتھ ساتھ منصب خلافت کے حقدار کا بھی لوگوں کے درمیا ن اعلان کردیں، چنانچہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم نے بھی اس بارے میں کسی طرح کا ابہام نہیں چھوڑا، بلکہ آپ نے ہر جگہ اپنے متعددخطبات و بیانات میں اپنی جانشینی کے مسئلہ کو پیش کیااور جو لوگ آپ کے بعدمنصب ِ خلافت کے حقدارتھے، ان کی پہچان کروائی چنانچہ اوائل ِ بعثت میں جب آیہ وَاَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الاَقْرَبِینَ نازل ہوئی تو رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم ے اپنے خاندان والوں کو دعوت پر بلایا اور کہا نے کے بعد آپ نے تقریر کرنا چاہی،لیکن ابو لہب نے یہ کہہ کر مجمع کو بہکا دیا کہ آپ ساحر ا ور جادو گر ہیں ، کوئی ان کی باتیں نہ سنے ،مجمع متفرق ہوگیا ،لہٰذا رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم نے دوسرے دن پھر بلایا اور کہانے کے بعد تقریر کرنا شروع کردی اور اپنی تقریر میں پیغام وحی سنایا اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کیلئے اپنی طرف سے جانشین ا ور خلیفہ ہونے کا اعلان کیا اور بعض لوگوں کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کا مسئلہ مضحکہ خیز بھی قرار پایاکہ ابھی ان کی نبوت کو کوئی مانتا نہیں اور انہیں دیکھو!جانشینی کا اعلان ابھی سے کررہے ہیں ؟!
”فاخذ رقبتی علی عليه‌السلام ثم قال ان هٰذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوا له و اطیعوا قال: فقام القوم یضحکون
(الکامل جلد۱،”ذکر امر الله تعالی بنبیه باظهار دعوته “ص۵۸۶ ، مولفہ ابن اثیر، تاریخ طبری حوادث ۳ ھ)
کیونکہ و ہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ ابھی کسی نے ان کی نبوت قبول نہیں کی تو جانشین کو کیسے قبول کریں گے، لیکن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم پہلے ہی مرحلے میں ظاہر کر دینا چاہتے تھے کہ جانشینی کا حق علی علیہ‌السلام و اولاد علی علیہ‌السلام کا ہے، لہٰذا جو بھی میرا دین قبول کرے وہ اس لالچ میں قبول نہ کرے کہ آئندہ آپ اسے رہبری کا عہدہ سپرد کردیں گے! کیونکہ منصب ِ خلافت و ولایت ہر کس و ناکس کو نہیں ملتا بلکہ اس کا وہی حقدار ہے جس کا خدا نے انتخاب کیا ہو۔
اسی طرح آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم نے غدیر کے بے آب وگیاہ چٹیل میدان اوررچلچلاتی دھوپ میں آگے جانے والے اور پیچھے رہ جانے والے حجاج کو بلا کر اپنے آخری حج کے بعد بحکم خدا ” من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ“ کہہ کر حضرت علی علیہ السلا م کی خلافت کا اعلان فرمایا۔
اور جب آپ کی عمر کے آخری لمحے گزر رہے تھے ، جب آپ کی پیشانی پر موت کا پسینہ آچکا تھا، اس حساس موقع پر بھی آپ نے اس اہم مسئلہ کو فراموش نہیں کیا، چونکہ آپ کی نظروں میں اللہ کا دین وآئین گردش کررہا تھا ، لہٰذا آپ کے سامنے اس امت کی سرنوشت مجسم تھی کہ جس کی ہدایت میں آپ نے شدید سے شدید مشقتیں اٹھائیں تھیں ، لہٰذا آپ نے حکم دیا کہ مجھے قلم و دوات دیدو تاکہ میں ایک ایسی چیز ( مسئلہ جانشینی) لکھتا جاؤں، جو میرے بعد تم کوگمراہ ہونے سے بچا لے۔
اورکبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ‌وسلم منبر پر تشریف لے جاتے اور فرماتے تھے:
”اِنیّ مخلف فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی ماان تمسکتم بهما لن تضلوا ابداً “
اورکبھی اپنے حقیقی خلفاء کے اسم لیتے اور لوگوں کے سامنے ان کا تعارف کراتے، کبھی ان کی تعداد بیان فرماتے:
الخلفاء بعدی اثنی عشر اورکبھی ان آیات کو پڑھتے تھے جو آپ کے خلفاء کی شان میں نازل ہوئیں ،کبھی آپ ارشاد فرماتے تھے :
”یا علی انت منی بمنزلةهارون من موسیٰ الا انه لا نبی بعدی“
کبھی اپنے بعد آئندہ اسلام میں ہونے وا لی بدعتوں کا تذکرہ کرکے اپنے گہرے افسوس کا اظہار کرتے تھے جونا حق خلافت کی وجہ سے وجود میں آئیں گی ۔
چنانچہ چودہ صدیوں سے ظالم اور جابر حکومتیں مسئلہ خلافت کو دھندلااور حقائق کو پوشیدہ کرنے کی سعی لاحا صل کئے جارہی ہیں ، حقائق کو چھپانے میں اپنی تما تر قوّتیں صر ف کردیں ، اپنے تمام وسائل اس مسئلہ میں استعمال کرلئے کہ خلافت کو اس کے حقیقی اور واقعی محور و مرکز سے ہٹا کر دوسری جگہ لیجائیں اور اس کو اصلی لباس سے برہنہ کرکے اس لباس میں پیش کریں جو باطل کا خود بافتہ و ساختہ ہے، لیکن جسے خدا رکھے اسے کون چکھے، آج بھی سنیوں کی اصلی اورمدر ک کی کتاب صحیح بخاری ، صحیح مسلم کے مختلف ابواب اسی طرح مسلمانوں کی دیگرمعتبر کتابوں میں ایسی ایسی روایات موجود ہیں جن سے صحیح واقعات و حقائق اور حضرت علی علیہ السلام اور بقیہ آئمہ علیہم السلام کی خلافت ِ بلا فصل کا اثبات ہوتاہے جو شیعوں کا عقید ہ ہے ،البتہ صحیحین کے مولفین نے کافی کوشش کی ہے کہ ایسی کوئی حدیث نقل نہ کریں جس سے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی خلافت کا اثبات ہوسکے،مگر:
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کر ے
(اقتباس از: خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں)
Source: http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button