امامتعقائد

امام ِ معصوم کی ضرورت (حصہ دوئم )

مختار حسین توسلی
حدیث یوم الدار :
تاریخ میں ملتا ہے کہ اعلان بعثت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین سال تک اسلام کی خفیہ تبلیغ کی جس کے بعد اللہ تعالی نے علی الاعلان تبلیغ کرنے کا حکم دیا چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ، اور اپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے۔(سورہ شعراء آیت 214)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ بنی عبد المطلب کو جمع کر دیا جائے، چنانچہ امام عالی مقام نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سب کو جمع کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
” یا بَنِی عَبْدِالْمُطَّلِبِ إِنِّی وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ شَابّاً فِی الْعَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بِأَفْضَلَ مِمَّا جِئْتُکُمْ بِهِ إِنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِخَیرِ الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ وَقَدْ أَمَرَنِی اللَّهُ تَعَالَى أَنْ أَدْعُوَکُمْ اِلَیهِ فَأَیکُمْ یؤَازِرُنِی عَلَى هَذا الْأَمْرِ عَلَى أَنْ یکُونَ أَخِی وَخَلِیفَتِی فِیکُم ۔
اے عبد المطلب کی اولاد ! میں ایسے کسی عرب جوان کو نہیں جانتا جو اپنی قوم کی طرف اس چیز سے بہتر لے کر آیا ہو جو میں تمہارے لیے لے کر آیا ہوں، چنانچہ میں تمہارے پاس دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی لے کر آیا ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اسی بھلائی کی طرف دعوت دوں، لہذا تم میں سے کون ہے جو اس سلسلے میں میرا ہاتھ بٹائے کہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ بن جائے ؟
کسی نے جواب نہیں دیا، امیرالمؤمنین جو سب سے چھوٹے تھے، اٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں آپ کی نصرت کروں گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مولائے متقیان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: "إِنَّ هَذَا أَخِی وَ وَصِیی وَ خَلِیفَتِی فِیکُمْ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِیعُوا۔
یعنی: یہ (علی ) میرے بھائی، میرے وصی اور تمہارے درمیان میرے جانشین اور خلیفہ ہیں، پس ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔
اس پر لوگ ہنستے ہوئے کھڑے ہوئے اور ابوطالب سے کہا: تجھے اپنے بیٹے کی بات سننے اور اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔
(ہندی، علامة علاء الدين علی متقی بن حسام الدين هندی، کنز العمال، مؤسسة الرسالة بيروت، تاریخ نشر : 1409ھ – 1989م ج 13، ص 175، ابن اثیر، ابو الفداء حافظ ابن اثیر دمشقی، البداية والنهاية، مكتبة المعارف بیروت، طبع اول 1412ھ – 1991م ، ج 3، ص 38 تا 40، حسکانی، حافظ عبید اللہ بن احمد معروف بہ حاکم حسکانی حنفی نیشاپوری ، تحقیق: شیخ محمد باقر محمودی، شواہد التنزیل، ناشر : موسسہ طبع و نشر، مجمع احیائے اسلامیہ تہران، طبع اول 1411ھ- 1990م ج 1، ص 543 – 542)
حدیث یوم الدار اور دعوت ذوالعشیرہ کے واقعہ پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دعوت حقیقت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے درمیان دوطرفہ وعدے کا نام ہے، اور یہی چیز اس دعوت کا بنیادی نکتہ ہے، چنانچہ مولائے کائنات نے دین اسلام کی نشر و اشاعت کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدد و نصرت کا وعدہ کیا اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے عوض امام عالی مقام کی خلافت و جانشینی اور امامت و ولایت کا وعدہ کیا، یقینا یہ وعدہ بھی اللہ تعالی کی طرف سے تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسی کے حکم سے دعوت ذوالعشیرہ کا اہتمام کیا تھا۔
جب ہم تاریخ اسلام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا، یعنی اسے پوری طرح نبھایا، چنانچہ آپ نے اپنی جان خطروں میں ڈال کردینِ خدا کی نشر و اشاعت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدد و نصرت کرنے کا حق ادا کر دیا۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا وعدہ نبھایا، لیکن اہلسنت کے عقیدے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐنے وعدہ نہیں نبھایا جو کہ قرآن مجید کے صریح حکم کے خلاف ہے جس میں اہل ایمان کو وعدہ وفا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ اہل تشیع کے عقیدے کے مطابق آپ ؐنے بھی اپنا وعدہ نبھایا، واضح رہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے حکم سے ہوا ہے ۔
پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے وعدے کی تکمیل کے لیے اللہ تعالی کے حکم سے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و امامت کا باقاعدہ رسمی اعلان 18 ذی الحج سنہ 10 ہجری کو حجة الوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر خم کے میدان میں جُعفہ کے مقام پر فرمایا جو تاریخ اسلام کا ناقابل فراموش واقعہ ہے، شیعہ اور سنی دونوں کی متعدد کتب حدیث و تاریخ میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حاجیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا :
” أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوا : بَلَى يَا رَسُولَ اللہ ! قَالَ: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ، وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ ۔
یعنی مومنو ! کیا تمہارے نفسوں پر میں تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا، لوگوں نے جواب دیا یا رسول اللہ ! کیوں نہیں (آپ ہمارے نفسوں پر ہم سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں) آپ نے مولا علی کے ہاتھ کو بلند کرکے فرمایا ! آگاہ ہوجاؤ کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے، اس کے بعد آپ نے دعایہ انداز میں فرمایا : پروردگار ! تو بھی اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھتا ہے، تو بھی اس سے دشمنی رکھ جو اس سے عداوت رکھتا ہے، تو بھی اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرتا ہے اور تو بھی اسے چھوڑ دے جو علی کو چھوڑ دیتا ہے ۔ ”
( کلینی، ثقة الاسلام أبی جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق كلينی، تعليق : علی اكبر غفاری، الکافی، ناشر : دار الكتب الاسلامية تهران، طبع ثالث 1388ھ، ج 1، ص 295،ھیثمی، حافظ نور الدين علی بن أبی بكر هيثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، دار الكتب العلمية بيروت لبنان، نشر 1408ھ / 1988م، ج 9، ص 103 تا 108، باب مناقب علی، باب قول رسول من کنت مولاہ ۔۔۔ حنبل، امام احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، دار صادر بیروت، ج 1، صفحات 84 – 118، 331 )
حدیث غدیر کے سلسلے میں بطور نمونہ چند حوالے پیش کیے ہیں وگرنہ یہ حدیث بہت زیادہ شیعہ اور سنی کتب میں موجود ہے، تفصیل کے لیے علامہ امینی کی شہرہ آفاق کتاب الغدیر کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے ۔
امت مسلمہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے مسواک اور بیت الخلاء سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات و فرامین کو تو یاد رکھا لیکن غدیر جیسے اہم واقعے کو بھلا دیا جو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور اسلامی معاشرے کی نظم و نسق کو درست رکھنے کے لیے الہی نمائندوں کے تقرر سے متعلق تھا۔
رسول اور امام میں فرق:
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی سے پیغام وصول کرکے دین و شریعت کی بنیاد رکھنے والے کو نبی و رسول کہتے ہیں جبکہ نبی و رسول کے بعد اس کے لائے ہوئے دین و شریعت کی حفاظت اور اس کی نشر و اشاعت کرنے والے کو امام کہتے ہیں چنانچہ امام وحی کے علاوہ باقی تمام صفات و کمالات میں رسول کے ساتھ شریک ہوتا ہے، پس دین کے پہنچانے کے نظام کو نبوت و رسالت کہتے ہیں جبکہ اس دین کی حفاظت کے نظام کو امامت و ولایت کہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم امامت کو انسانوں کا منصب نہیں بلکہ انسانوں پر منصب سمجھتے ہیں، بالفاظ دیگر امامت بھی نبوت و رسالت کی طرح الہی منصب ہے ۔
اگرچہ امام پہ وحی نازل نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود یہ ایک اہم منصب ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑی آزمائشوں میں مبتلا کرنے کے بعد امامت کے منصب پہ فائز کیا ہے، واضح رہے کہ آپ کو یہ منصب نبوت و رسالت کے بعد عطا ہوا ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امامت کوئی معمولی عہدہ نہیں ہے ورنہ اللہ تعالی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس پہ فائز کرنے کے لیے سخت آزمائشوں میں مبتلا نہ کرتا، اسی طرح خدا وند متعال نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تمام انسانوں پر امامت و ولایت عطا فرمائی ہے یعنی آپ نبوت، رسالت اور امامت تینوں مناصب پر فائز تھے، قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ختم ِ نبوت و رسالت کا اعلان کیا ہے لیکن ختم ِ امامت کا اعلان نہیں کیا، لہذا جب تک دنیا میں ایک بھی انسان رہے گا امام بھی رہے گا۔
ہمارے عقیدے کے مطابق امام کے لیے معصوم ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ امت کا معلم و مربی ہوتا ہے اور تعلیم و تربیت کے میدان میں امام کو باکردار اور با عمل ہونا چاہیے ورنہ اس کی تعلیم و تربیت کا لوگوں پر چنداں اثر نہیں پڑے گا، نیز امام کے لیے گناہوں سے دور ہونا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ لوگوں کا اس پر اعتماد برقرار رہے، اگر امام بھی دوسروں کی طرح گناہوں کا ارتکاب کرے تو اس پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا جو کہ درست نہیں ہے، پس اللہ تعالی کے بخشے ہوئے عہدے میں ارتقا ممکن ہے تنزلی ممکن نہیں، چنانچہ اگر امام بھی دوسرے لوگوں کی طرح معصیت کا ارتکاب کرے تو وہ ارتقاء کی طرف جانے کی بجائے تنزلی کی طرف جائے گا جس کی وجہ سے اس پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا چنانچہ وہ ان کی ہدایت و رہبری جیسے اہم فریضے کو انجام دینے کا اہل نہیں رہے گا۔
جبکہ مکتبِ صحابہ کے ماننے والوں کے نزدیک امام کے لیے معصوم ہونا شرط نہیں ہے بلکہ وہ پست ترین اخلاقی خصلتوں اور کالے سیاسی کارناموں کے باوجود بھی امت کی قیادت و رہبری کے منصب پر باقی رہ سکتا ہے ان کے نزدیک امام اور خلیفہ فسق و فجور، ظلم و بربریت، لوگوں کے اموال غصب کرنے اور نیک لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود بھی اپنے منصب سے معزول نہیں ہوتا بلکہ یہ امت ہے کہ وہ اس کی برائیوں کو دور کرے ۔
الغرض انسان تعلیم و تربیت اور ہدایت و رہبری سے بے نیاز نہیں ہو سکتا چنانچہ اللہ تعالی نے بھی نبوت و رسالت کے بعد ہدایت کے سلسلے کو موقوف نہیں کیا بلکہ امامت کی صورت میں جاری رکھا، اور ہر دور اور ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی ہادی اور رہنما ضرور بھیجا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :” اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ ۔”
یعنی آپ تو محض تنبیہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کرتا ہے۔” ( سورہ رعد آیت : 7 )
ابن عباس سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر فرمایا:
أنا المنذر و لکل قوم ھاد و أومأ بیدہ إلی منکب علي ابن أبی طالب فقال أنت الھادی یا علي بک یھتدی المھتدون بعدي.
یعنی انذار کرنے والا میں ہوں اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہوتا ہے، اور اپنا دست مبارک علی علیہ السلام کے دوش پر رکھ کر فرمایا: اے علیؑ ! میرے بعد آپ کے ذریعے ہدایت پانے والے ہدایت حاصل کریں گے۔
( الرازی، تفسیر کبیر ذیل آیت، الحاکم مستدرک علی الصحیحین ج: 3 ، ص 129- 130، دار المعرفه بيروت لبنان، شواهد التنزيل ج: 1، ص : 383)
قرآن مجید میں منذر اور نذیر کے نام سے نبیوں اور رسولوں کو ہی پکارا گیا ہے چنانچہ ایک مقام پر ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :
” رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا۔”
یعنی (یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔” (سورہ نساء آیت: 165)
اللہ تعالیٰ حجت پوری کرنے سے پہلے کسی کا مواخذہ نہیں کرتا اور ہدایت و رہنمائی فراہم کرنے سے پہلے عذاب نہیں دیتا، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا ۔”
اور جب تک ہم کسی رسول کو مبعوث نہ کریں عذاب دینے والے نہیں ہیں۔ (سورہ بنی اسرائیل: 15)
اگرا بنی نوع نسان کی ہدایت انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے ذریعے نہ ہوئی ہوتی تو عقلاً انسانوں کو یہ حجت پیش کرنے کا حق پہنچتا تھا: رَبَّنَا لَوۡ لَاۤ اَرۡسَلۡتَ اِلَیۡنَا رَسُوۡلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّذِلَّ وَ نَخۡزٰی ۔”
ہمارے پروردگار ! تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجاکہ ذلت و رسوائی سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی اتباع کر لیتے؟۔(سورہ طہ آیت : 134)
اس آیہ شریفہ کی رو سے ایک عقلی کلیہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ کسی حکم کے بیان کرنے سے پہلے اس کے ترک کرنے پر مؤاخذہ کرنا درست نہیں ہے، اس کلیے سے معلوم ہوا کہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام کا بھیجنا عقلاً ضروری ہے اور ہدایت بشر کے لیے نبوت کی ضرورت اس عقلی کلیے پر مبنی ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :” کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۟ فَبَعَثَ اللہ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۪ وَ اَنۡزَلَ مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ فِیۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ۔
یعنی : لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، ( ان میں اختلاف رونما ہوا ) تو اللہ تعالی نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔”
( سورہ بقرہ آیت: 213 )
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انسان نے زندگی کا آغاز شرک سے کیا، بعد میں تدریجاً ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے وہ توحید تک پہنچ گیا، جبکہ قرآن کریم کے نزدیک انسان نے دین فطرت پر اپنی زندگی کا آغاز کیا اور جس فطرت و جبلت پر لوگ خلق ہوئے ہیں، وہی دین ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللہ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ۔”
یعنی اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے۔”( سورہ روم آیت : 30 )
جس وقت تک انسان نے فطری تقاضوں سے سرکشی نہیں کی، سب لوگ امت واحدہ کے دائرے میں داخل تھے، کیونکہ ابتدائی انسان وسائل زندگی محدود ہونے کی وجہ سے سادہ زندگی گزارتا تھا، وہ اسرار طبیعت سے آگاہ نہ تھا، اس لیے اسے مسخر نہیں کر سکتا تھا، اسے تو صرف جنگل، شکار، غار اور پتھر کے چند اوزاروں سے ہی واسطہ پڑتا تھا، بلا تشبیہ وہ جانوروں کی طرح تھا جو دن بھر قدرتی غذائیں چرتے اور رات کو کسی اصطبل میں ایک ساتھ بغیراختلاف کے رہتے ہیں۔
بعد میں جب انسان نے زراعت کے ذریعے طبیعیت کو مسخر کرنا شروع کیا تو اس کی صلاحیتیں اور قابلیت مختلف ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے اور مفادات کے حصول کے لیے اختلاف کا میدان وجود میں آیا نیز طبیعتا اجتماعی ہونے کی وجہ سے اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا تھا، لہٰذا اسے اپنے ہم نوعوں کی ضرورت پیش آئی اور ساتھ یہ کہ زندگی کے لوازم کفایت کی حد تک فراواں نہیں تھے، جس طرح ہوا کی فراوانی ہے۔ لہٰذا اختلاف رونما ہونا ایک لازمی امر تھا۔ کیونکہ ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جو لوازم اور وسائل فراہم ہیں، انہیں وہ خود ہی حاصل کر لے، چنانچہ ارشاد باری ہے: وَ مَا کَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخۡتَلَفُوۡا ۔” اور سب انسان ایک ہی امت تھے پھر اختلاف رونما ہوا۔(سورہ یونس آیت : 19)
اس فطری اختلاف کی صورت میں اجتماعی عدالت کا قیام ایک ضروری امر ہے اور اجتماعی عدالت صرف قانون کے زیر سایہ ہی میسر آ سکتی ہے، لہٰذا یہاں قانون سازی کا مرحلہ پیش آتا ہے اور یہ بات قابل توجہ ہے کہ سب سے پہلے دین کی طرف سے قانون سازی ہوئی، دینی قوانین کی تقلید کرتے ہوئے دوسروں نے قوانین بنانا شروع کیے، دین کی طرف سے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں پہلی قانون سازی عمل میں آئی: شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا۔”
اس نے تمہارے لیے دین کا وہی دستور معین کیا ہے جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا۔( سورہ شوری آیت : 13 )
چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول حدیث میں آیا: کَانُوْا قَبْلَ نُوْحٍ اُمَّۃً وَاحِدَۃً عَلٰی فِطْرَۃَ اللہ ۔”
یعنی لوگ حضرت نوحؑ سے قبل فطرت الٰہی کے مطابق ایک ہی امت تھے۔ (بحار الانوار ج 11 ، ص: 10)
جب لوگوں کو انبیاء کے ذریعے قانون دیا گیا تو خدائی قانون سے بغاوت کرنے والوں نے اختلاف کی بنیاد ڈالی، انسانی تمدن میں رونما ہونے والا پہلا اختلاف اجتماعی زندگی کا ایک طبیعی امر تھا، لیکن بعد کا اختلاف قانون سے بغاوت تھا، جسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی انسان کو جب قانون دے دیا گیا، اس کے بعد سے کفر و ایمان کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا، بالفاظ دیگر پہلا اختلاف فطری تقاضوں اور دوسرا اختلاف قانون و شریعت سے انحراف کی وجہ سے پیش آیا۔( الکوثر فی تفسیر القران سورہ بقرہ 213 )
اس سلسلے میں معصومین علیہم السلام سے بھی کافی روایات نقل ہوئی ہیں یہاں پر نمونے کے طور ایک مشہور حدیث نقل کی جاتی ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے : كل مولود يولد على الفطرة فأبواه يهودانه و ينصرانه…
یعنی ہر مولود (اسلام) کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین اسے یا تو یہودی بناتے ہیں یا پھر عیسائی (یا پھر کسی دوسرے دین کا پیروکار) بناتے ہیں۔(بحار الانوار ج : 58 ، ص: 187، الکافی ج 2 ص 12)
اس حدیث شریف کے ذیل میں علامہ طباطبائی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: هو حديث لطيف ومعناه: أن الطفل في الأربعة أشهر الأولى لا يعرف أحدا وانما يحس بالحاجة فيطلب بالبكاء رفعها والرافع لها هو الله سبحانه فهو يتضرع إليه ويشهد له بالوحدانية.
یہ ایک عمدہ حدیث ہے اور اس کا معنی یہ ہے: ابتدائی چار مہینوں میں بچہ کسی کو نہیں جانتا ، لیکن جب بھی اسے کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ رونے کے ذریعے اس کو پورا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، اور اللہ تعالی ہی اس کی ضرورت کو (ماں کے دودھ کی صورت میں) پورا کرتا ہے، پس بچہ بھی اسی ذات کے آگے ہی تضرع و زاری کرتا ہے گویا وہ اس کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے۔
(الميزان في تفسير القرآن ج: 16، ص : 188)
فطرت کا معنی :
فطرت کا معنی یہ ہے کہ انسان بعض چیزوں کو بغیر کسی استدلال اور برہان کے حاصل کرلیتا ہے، جب حقائق اس پر واضح و روشن ہوتے ہیں تو وہ ان کو بغیر ہچکچاہٹ کے قبول کرلیتا ہے، مثلاً انسان کسی خوب صورت چیز کو دیکھ کر اس کی خوبصورتی کا اعتراف کرتا ہے اور اس اعتراف کے سلسلہ میں کسی بھی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ بات ظاہر ہے کہ وہ ایک خوبصورت چیز ہے، اس میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔
ہدایت کے سلسلہ میں بھی فطرت کا کردار یہی ہے جس وقت انسان اپنے دل و جان میں جھانکتا ہے تو اُس کو نور ِ حق دکھائی دیتا ہے، اُس کے دل کو ایک آواز سنائی دیتی ہے جو اُس کو اِس دنیا کے خرافات و گناہوں سے پُر زندگی کو چھوڑ کر راہ بندگی کی طرف بلاتی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دین پر عمل کرنا فطرت اور عقل کا تقاضا ہے، عاقل انسان دین سے کبھی جدا نہیں ہوتا، حدیث میں ہے : جو بھی عاقل ہوگا اس کے لیے دین ہوگا اور جو دین رکھتا ہو وہ جنت جائے گا۔( بحار الانوار ، ج1 ، ص9 )
چنانچہ عاقل انسان کا کام یہ ہوگا کہ وہ اپنی فطرت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دین مبین اسلام کے ان احکامات کی پاسداری کرے جو عقل انسانی کے عین مطابق ہیں تاکہ دین و دنیا میں سر بلند ہوسکے، لیکن کبھی اس کی عقل و فطرت پر شیطان حاوی ہوجائے اور اسے دینی احکامات کی انجام دہی سے روکے تو دوسرے مسلمان بھائیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اسے خواب غفلت سے جگائے، قرآن مجید اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّـهِ وَعَمِلَ صَالِحًا،
یعنی اس شخص کی بات سے زیادہ کس کی بات اچھی ہوسکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا ۔
(سورہ فصلت 33)
اب سوال یہ ہوگا کہ دین کی طرف دعوت دینا کیا انسانی اختیار کو سلب کرنے کے مترادف نہیں ہے؟
جوابا عرض ہے کہ دین کی طرف رہنمائی کرنا نہ عقل انسانی کے خلاف ہے اور نہ کوئی قانون اس کی مخالفت کرتا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ دین انسان کو کونسی آزادی سے روکتا ہے؟
جواب یہ ہے کہ :-
1۔ دین اس آزادی سے روکتا ہے جس سے دینی اور دنیوی ہر دو لحاظ سے اس کا اپنا اور دوسروں کا نقصان ہوتا ہو ۔
2۔ ایسی آزادی جو معاشرے اور انسانی زندگی کے لیے خطرے کا سبب بنے ۔
3۔ وہ آزادی جو انسانی بدن اور روح دونوں کے لیے مضر ہو۔
4۔ ایسی آزادی سے روکتا ہے جو بندے کو خدا وند متعال کی بندگی سے روکتی ہو۔
5۔ ایسی آزادی سے دین روکتا ہے جو عقل و خرد کے منافی ہو۔
وگرنہ انسان کو سب سے زیادہ دین آزادی دیتا ہے جیسے :-
1۔ دین انسان کو دنیا کی محبت جیسی مضبوط زنجیروں سے آزادی دلاتا ہے۔
2۔ فرعون و نمرود جیسوں کے طاغوتی نظام سے آزادی دلاکر بندے کو صحیح و سالم روحانی و بدنی امراض سے پاک کرتا ہے۔
3۔ بندوں کے سامنے جھک کر اپنی عزت و وقار کو ٹھیس پہنچانے سے آزادی دے کر خدا کے سامنے جھک کر عزت و وقار بڑھاتا ہے۔
4۔ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے آزادی دیکر اس کریم اللہ کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے جو بِن مانگے دینے والا ہے۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے_
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
پس دین انسان کو چند ایک چیزوں سے روکتا ہے جو فطری تقاضوں اور قانون شریعت سے میل نہیں کھاتی ہوں ۔
لہذا دین کی طرف آنا عقل سے ہم آھنگی اور فطرت سے مطابقت رکھتا ہے، راہ بندگی پر چلتے ہوؤں کی حوصلہ افزائی کی بجائے اس راہ کو اور اس راہ پر چلنے والوں پر تنقید کا نشتر چلانا عین جہالت ہے، کسی بھی مسلمان کا راہ بندگی پر دوبارہ آنے کو جبر سے تعبیر کرنا اور کسی فرقے کو ہدف بنا کر دل آزاری کرنا معقول اور معتدل انسان کی نشانی نہیں بلکہ دین سے نابلد ہونے کی علامت اور دینداروں سے بغض و عناد کا شاخسانہ ہے، خود کو سیکیولر اور روشن خیال ظاہر کرنے کے لیے دوسروں کو شدت پسند، تنگ نظر اور قدامت پسند قرار دینا بھی ایک شیطانی ہنر ہے جس کو علمی اصطلاح میں جاہل مرکب سے یاد کرتے ہیں، لہذا کسی پر جملے کسنے اور تنقید سے پہلے اپنی ذات کا مطالعہ بہت ضرور ہے ورنہ انسان خود اپنی گمراہی سے بھی لا علم ہوجاتا ہے۔(منقول)
ایک تیسرے مقام پر ہمارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ارشاد ہو رہا ہے :
” یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا، اے نبی ! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے، وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا، اور اس (اللہ) کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر۔”(سورہ احزاب آیات : 45 – 46)
ہر رسول اپنی امت کے اعمال کا شاہد اور گواہ ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان تمام گواہوں پر گواہ ہیں : فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا .
پس (اس دن) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ کو ان لوگوں پربطور گواہ پیش کریں گے۔(سورہ نساء آیت : 41)
المختصر قرآن مجید میں اور بھی آیات موجود ہیں جن میں انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے لئے منذر و نذیر جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، لہذا یہ طے شدہ بات ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منذر ہیں، قابل غور بات یہ ہے کہ یہاں آپ کو ” إنما ” کی قید کے ساتھ منذر کہا گیا ہے، یعنی انذار کا سلسلہ سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :
” مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللہ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا۔”
یعنی محمد (ص) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیّین ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔”(سورہ احزاب آیت: 40)
اس آیہ شریفہ میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، یہاں پر لفظ خَاتَم کی دو قرائتیں ہیں: خاتِمْ اور خاتَمْ، اسے اگر خاتِمْ پڑھیں تو اس کے معنی ہوں گے نبیوں کا سلسلہ ختم کرنے والا اور اگر خاتَمْ پڑھے تو اس کے معنی ہوں گے مہر لگانے والا اور بند کرنے والا، دونوں صورتوں میں معنی ایک ہے، جب آپؐ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ہیں تو لازماً خاتَم المرسلین ہیں کیونکہ رسالت کا درجہ نبوت کے بعد آتا ہے، چونکہ نبی وہ ہیں جن پر خواب میں وحی ہوتی ہے اور رسول وہ ہیں جن پر جاگتے حالات میں فرشتہ وحی لے کر نازل ہوتا ہے اور دعوت ِ حق کا حکم دیتا ہے، لہٰذا ہر رسول نبی ہے، یعنی اگر کوئی رسول ہے تو لازما وہ بنی بھی ہے، لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا، جب نبوت کا سلسلہ ہی رک گیا تو لا محالہ رسالت کا سلسلہ بھی رک جائے گا، قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم شریف کے ساتھ رسالت اور نبوت دونوں کا ذکر ہے۔
نیز حدیث منزلت میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی واضح طور پر فرمایا :….. لا نبي بعدي. یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین والمرسلین ہیں، البتہ مذکورہ بالا آیہ شریفہ کا آگے کا حصہ قابل غور ہے جس میں آپ نے فرمایا : ولكل قوم هاد ، یعنی ہر قوم کے لیے ہادی ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگرچہ نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہو گیا لیکن ہدایت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، لہذا یہ طے شدہ بات ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی امت کی ہدایت کا ذمہ دار ہوگا چونکہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین ہوگا اس لیے آپ کی صفات و کمالات کا حامل ہو گا، وہ کوئی نیا دین و شریعت لے کر دنیا میں نہیں آئے گا بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے دین و شریعت کی حفاظت اور نشرواشاعت کرنے والا ہوگا، چنانچہ جب تک یہ دنیا باقی ہے تب تک ہدایت کا سلسلہ بھی باقی رہے گا۔
پس ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم سے امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام اور دیگر آئمہ معصومین علیہم السلام کو امت کی ہدایت و رہبری کے لیے بالترتیب مقرر فرمایا، لہذا ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد کائنات کی سب سے عظیم ترین ہستی ہیں آپ کے فضائل و کمالات ان گنت ہیں آپ کے مناقب کی کوئی انتہا نہیں، لہذا ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ مولا علی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الیہ وسلم کے علاوہ تمام انبیاء و مرسلین سلام اللہ علیہم سے بھی افضل ہیں، اس پر ہمارے پاس بہت سارے دلائل موجود ہیں البتہ آیت مباھلہ اس پر واضح دلیل ہے تمام شیعہ سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم "انفسنا” کی منزل پر صرف حضرت علی کو لیکر میدان مباھلہ میں گئے۔
آیت مجیدہ میں مولا علی کو نفس رسول قرار دیا ہے اس کا مطلب کیا ہے؟ نفس یعنی خود۔۔ بنفس نفیس ۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اول تا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا نفس ہونے کے ناطے وہی کچھ علی کو بھی حاصل تھا سوائے ایک چیز کے جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود الگ کر دیا چنانچہ فرمایا :
” یا علي ! أنت مِنّي بِمَنزِلَتِ ہارونَ مِن مُوسی إلّا لَا نَبِیَ بَعدِي.”
یعنی اے علی ! آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر میرے بعد کوئی بنی نہیں ہو گا ۔ باین معنی علی نبی و رسول نہیں ہیں ۔
( الصدوق، الأمالي للشيخ الصدوق ص 491 ،مجلس 63 ، حدیث: 10، الطوسي، الأمالي للشيخ الطوسي ص : 253 ، مجلس : 9 ، حدیث: 45 ، نشر دار الثقافة قم المقدس، طبع اول 1414ھ )
اہل سنت کی بعض کتابوں میں حدیث منزلت کچھ یوں مذکور ہے :
” قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ : أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا : کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے۔”
( صحیح بخاری حدیث : 3706 ، ، سنن ابن ماجہ ج : 1 ، ص: 42، باب فضل علی ابن ابی طالب، حدیث 115)
نیز صحیح بخاری میں ایک مقام پر یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے : أَنّ رَسُولَ اللّہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا ، فَقَالَ : أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ ، قَالَ : أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ؟ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ (و آلہ) وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو علی (علیہ السلام ) کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا، علی نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ ( وآلہ) وسلم نے فرمایا: کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔”
( صحیح بخاری حدیث : 4416 ، )
صحیح مسلم میں کچھ یوں مذکور ہے :” وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: خَلَّفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ : « أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ۔»
ترجمہ: محمد بن جعفر ( غندر ) نے کہا : ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث بیان کی ، انھوں نے مصعب بن سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ، انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (مدینہ میں اپنا) خلیفہ بنایا ، تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہارون علیہ السلام کا تھا ، لیکن میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے ۔”
( صحیح مسلم حدیث: 6218 ،)
حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب مستدرک علی الصحیحین میں اس حدیث مبارک کو یوں نقل کیا ہے قال : الا ترضى أن تكون منى بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبوة بعدي ، کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے، مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہو گی ۔”
( مستدرک علی الصحیحین ج: 3 ، ص: 109 ، دارالمعرفت بیروت لبنان )
کتاب السنة کے مولف ابن ابی عاصم شیبانی نے بھی ابن عباس سے اسی مضمون کی روایت نقل کی ہے :” عن ابن عباس قال : قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) لعلي: أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنك لست نبيا (إنه لا ينبغي أن أذهب إلا) وأنت خليفتي في كل مؤمن من بعدي.”
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی سے فرمایا : یا علی ! تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر یہ کہ تم نبی نہیں ہو، البتہ تم میرے بعد اہل ایمان میں میرے خلیفہ ہو، مولف لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی سند حسن اور راوی ثقہ ہیں۔”
( الشیبانی ، حافظ ابی بکرعمرو بن ابی عاصم الشیبانی متوفی 287 ھ ، کتاب السنة ص : 551 ، تحقیق : محمد ناصر الدین البانی، تاریخ اشاعت 1413ھ)
علاوہ ازیں حدیث منزلت مسند احمد بن حنبل، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، سنن ترمذی اور دیگر مصادر میں کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ نقل ہوئی ہے، یاد رہے کہ یہ حدیث فریقین کے نزدیک صحیح احادیث میں شمار سے ہے، دوسرے لفظوں میں اس حدیث شریف کو شیعہ سنی دونوں تسلیم کرتے ہیں لیکں ان کے درمیان اس کی فہم میں اختلاف ہے، اہل تشیع کے نزدیک یہ حدیث امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت پر دلالت کرتی ہے جبکہ اہل سنت کے نزدیک یہ حدیث صرف آپ کی فضیلت کے پہلو کو بیان کرتی ہے، البتہ اس حدیث کے مطلب کو سمجھنے کے لیے حضرت موسی اور جناب ہارون علیہما السلام کے درمیان موجود نسبت کو سمجھنا ضروری ہے تب جاکر اس کا معنی واضح ہوگا۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو تمام اہم معلومات میں اپنا نائب اور خلیفہ منتخب کیا ہے تو وہ کیسے اپنے وصال کے بعد ان کی بجائے کسی اور کو اپنا جانشین اور خلیفہ منتخب کریں گے؟ غور فرمائیں ۔
پس ہمارے عقیدے کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد آئمہ اہل بیت علیہم السلام امت کے ہادی و رہنماء اور اسلامی معاشرے کے حاکم و مدبر ہیں لہذا ہم ان کی پیروی کرتے ہیں، جس پر ہمارے پاس قرآن وحدیث سے بےشمار دلیلیں موجود ہیں ۔
تاریخ اسلام میں کچھ چیزیں شیعہ اور سنی دونوں کے ہاں مسلمات میں سے ہیں جن کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ان میں سے ایک مسلمہ حقیقت ” عظمت آل محمد علیہم السلام ” ہے ان کا بدترین دشمن بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا، کیونکہ ان کی فضیلت کا انکار قرآن مجید کی آیات، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات اور تاریخی حقائق کا انکار ہے۔
پس کوئی آل محمد کے الہی منصب اور عہدہ کو قبول کرے یا نہ کرے، ان کی تعلیمات اور احکام کو تسلیم کرے یا نہ کرے اور ان کے فرامین اور ارشادات پر عمل کرے یا نہ کرے لیکن وہ اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ ہستیاں اپنے اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے علم و عمل میں برتر تھیں، کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں تمام لوگوں سے اعلی و ارفع مقام عطا کیا تھا اور انھیں غیر معمولی فضائل و کمالات سے نوازا تھا، چنانچہ ان ہستیوں کا آغاز بھی طیب و طاہر تھا اور انجام بھی پاک و پاکیزہ تھا، اللہ تعالی نے ان ذوات مقدسہ کو امت مسلمہ کے لئے ہادی و رہنماء بنا کر بھیجا تھا لیکن اُمت نے ان کی قدر نہیں جانی۔
یہی وجہ ہے کہ نام نہاد مسلمان حکمرانوں اور بادشاہوں نے اپنے ناجائز مفادات کے حصول کے لیے ان ذوات مقدسہ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں، ان کے حقوق غصب کیے اور انہیں حکومت و اقتدار سے دور رکھا، ستم ظریفی یہ ہے کہ عالم اسلام کے ظالم و جابر حکمرانوں نے آل محمد علیہم السلام کو فقط حکومت و اقتدار سے دور رکھنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہیں طرح طرح کی اذیتیں دے کر شہید بھی کر دیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آل محمد کو شہید کرنے والے بھی ان کے فضائل و کمالات کے معترف تھے، لیکن وہ دنیا کی طمع و لالچ میں سنگ دل ہو گئے تھے ، مال و دولت کی ہوس میں اندھے ہو گئے تھے اور اقتدار و حکومت کے نشے میں مست ہوگئے تھے چنانچہ وہ دنیا کی عظیم ترین ہستیوں کو ایذائیں پہنچا کر شہید کرنے پر کمر بستہ ہوگئے، یہی وجہ ہے کہ امت ان ہستیوں کی حکیمانہ قیادت سے محروم ہو گئی جس کا خمیازہ پورا عالم اسلام آج تک بھگت رہا ہے.
یہ سلسلہ حضرت قائم آل محمد امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور تک کے چلے گا، جس کے بعد دنیا میں عدل و انصاف قائم ہو گا، أللهم عجل لوليك الفرج و اجعلنا من أنصاره وأعوانه والمستشهدين بين يديه ۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button