سیرت جناب رسول خداؐ

معراجِ انسانیت، سیرتِ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی روشنی میں

علامہ سید علی نقی نقوی (نقن)
آپ چالیس برس کی عمر میں معبوث برسالت ہوئے۔ ۱۳ سال ہجرت کے قبل مکہ کی زندگی ہے اور دس سال بعد ہجرت مدینہ کی زندگی۔
یہ تینوں دور بالکل الگ الگ کیفیت رکھتے ہیں جن میں سے ہر دور بالکل یک رنگ ہے۔ کسی تلون اور غیرمستقل مزاجی کا مظہر نہیں ہے مگر وہ سب دور آپس میں بہت مختلف ہیں۔
پہلے چالیس برس کی مدت میں زبان بالکل خاموش اور صرف کردار کے جوہر نمایاں یہی آپ کی سچائی کا ایک نفسیاتی ثبوت ہے۔ کیونکہ جو غلط دعویدار ہوتے ہیں ان کے بیانات و اظہارات کی رفتار کو دیکھاجائے تو محسوس ہو گا کہ وہاں پہلے ان کے دل و دماغ میں تصور آتا ہے کہ ہمیں کوئی دعویٰ کرنا چاہئے مگر انہیں ہمت نہیں ہوتی اس لئے وہ کچھ مشتبہ الفاظ کہتے ہیں جن سے کبھی سننے والوں کو وحشت ہوتی ہے اور کبھی اطمینان پھر وہ رفتہ رفتہ قدم آگے بڑھاتے ہیں پہلے کوئی ایسا دعویٰ کرتے ہیں جس کو تاویلات کا لباس پہنا کر رائے عامہ کے مطابق بنایا جا سکے یا جس کی حقیقت کو صرف خاص خاص لوگ سمجھ سکیں۔ اور عام افراد محسوس نہ کریں۔ جب جھجک نکل جاتی ہے تو پھر جی کڑا کرکے کھل کر دعویٰ کر دیتے ہیں۔ اس کی قریبی مثالیں علی محمد باب اور غلام احمد قادیانی میں بہت آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔
حضرت پیغمبر اسلام کی زبان سے چالیس برس تک کوئی لفظ ایسی نہیں نکلی جس سے لوگ ادعائے رسالت کا توہم بھی کر سکتے یا کوئی بے چینی اس حلقہ میں پیدا ہوتی۔ غلط سے غلط روایت بھی ایسی نہیں جو بتائے کہ کفار نے کسی آپ کی لفظ سے ایسے دعویٰ کا احساس کیا ہو جس پر ان میں کوئی برہمی پیدا ہوئی ہو اور پھر آپ کو اس کے متعلق صفائی پیش کرنے کی ضرورت ہوئی ہو۔ بلکہ اس دو میں آپ کا کام صرف اپنی سیرتِ بلند کی عملی تصویر دکھانا تھی جس نے ایک مقناطیسی جذب کے ساتھ دلوں کو تسیخر کر لیا تھا اور آپ کی ہردلعزیزی ہمہ گیر حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے بعد چالیس برس کی عمر میں جب دعوائے رسالت کیا تو وہ بالکل وہی تھا جو آخر تک آپ کا دعویٰ رہا۔ یہ نہیں ہوا کہ پہلے اس دعویٰ میں خفت ہو، پھر شدت پیدا ہو۔ یا پہلے دعویٰ کچھ ہو اور پھر رفتہ رفتہ اس میں ترقی ہوئی ہو۔
اب اس دعویٰ رسالت کے بعد آپ کو کتنے مصائب و تکالیف برداشت کرنا پڑے وہ سب کو معلوم ہیں۔ یہ پرآشوب دور وہ تھا کہ جب سر مبارک پر خس و خاشاک پھینکا جاتا تھا، جسم اقدس پر پتھروں کی بارش ہوتی تھی۔ تیرہ برس اس طرح گزرتے ہیں مگر ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ان کا ہاتھ تلوار کی طرف چلا جائے اور ارادہ جہاد کا کیا جائے۔
اگر کوئی رسول کی زندگی کے صرف اس دور ہی کو دیکھے تو یقین کرے گا کہ جیسے آپ مطلق عدم تشدد کے حامی ہیں یہ مسلک اتنا مستقل ہے کہ کوئی ایذارسائی، کوئی دل آزاری اور کوئی طعن و تشنیع آپ کو اس راستے سے نہیں ہٹا سکتی۔ پہلے چالیس برس ہی کی طرح اب یہ رنگ اتنا گہرا اور یہ مسلک اتنا راسخ ہے کہ اس کے درمیان کوئی ایک واقعہ بھی اس کے خلاف نمودار نہیں ہوتا۔ کوئی بے بس اور بے کس بھی ہو تو کسی وقت تو اسے جوش آہی جاتا ہے اور وہ جان دینے اور جان لینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے پھر چاہے اسے اور زیادہ ہی مصائب کیوں نہ برداشت کرنا پڑیں مگر ایک دو برس نہیں تیرہ سال مسلسل اس غیرمتزلزل صبر و سکون کے ساتھ وہی گزار سکتا ہے جس کے سینہ میں وہ دل اور دل میں وہ جذبات ہی نہ ہوں جو جنگ پر آمادہ کر سکتے ہیں۔
اسی درمیان میں وہ وقت آتا ہے کہ مشرکین آپ کے چراغ زندگی کے خاموش کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور ایک رات طے ہو جاتی ہے کہ اس رات سب مل کر آپ کو شہید کر ڈالیں۔ اس وقت بھی رسول تلوار نیام سے باہر نہیں لاتے۔ کسی مقاومت کے لئے کھڑے نہیں ہوتے بلکہ بحکمِ خدا شہر چھوڑ دیتے ہیں۔ جو معرفت محمد نہ رکھتا ہو وہ اس ہٹنے کو کیا سمجھے گا؟ یہی تو کہ جان کے خوف سے شہر چھوڑ دیا۔ اور پھر حقیقت بھی یہ ہے کہ جان کے تحفظ کے لئے یہ انتظام تھا مگر فقط جان نہیں بلکہ جان کے ساتھ ان مقاصد کا تحفظ جو جان کے ساتھ وابستہ تھے بہرحال اس اقدام یعنی ترک وطن کو کوئی کسی لفظ سے تعبیر کرے مگر اسے دنیا مظہر شجاعت تو نہیں سمجھے گی اور صرف اس عمل کو دیکھ کر اگر اس ذات کے بارے میں کوئی رائے قائم کرے گا تو وہ حقیقت کے مطابق نہیں ہو سکتی بلکہ گمراہی کا ثبوت ہو گی۔
اب ترپن برس کی عمر ہے اور آگے بڑھاپے کے بڑھتے ہوئے قدم ہیں بچپنا اور جوانی کا اکثر حصہ خاموشی میں گزرا ہے پھر جوانی سے لے کر ادھیڑ عمر کی منزلیں پتھر کھاتے اور برداشت کرتے گزر رہی ہیں اور آخر میں اب جان کے تحفظ کے لئے شہر چھوڑ دیا ہے بھلا کسے تصور ہو سکتا ہے کہ جو ایک وقت میں عافیت پسندی سے کام لیتے ہوئے شہر چھوڑ دے وہ عنقریب فوجوں کی قیادت کرتا ہوا نظرآئے گا حالانکہ مکہ ہی نہیں بلکہ مدینہ میں آنے کے بعد بھی آپ نے جنگ کی کوئی تیاری نہیں کی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک سال کی مدت کے بعد جب دشمنوں کے مقابلہ کی نوبت آئی تو آپ کی جماعت میں جو کل جمع ۳۱۳ آدمیوں پر مشتمل تھی صرف ۱۳ عد تلواریں تھیں اور دو گھوڑے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک سال کی تیاری کا نتیجہ یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ جبکہ اس ایک سال میں تعمیری خدمات بہت سے انجام پا گئے۔ مدینہ میں کئی مسجدیں بن گئیں مہاجرین کے قیام کے لئے مکانات تیار ہو گئے۔ بہت سے دیوانی و فوجداری کے قوانین نافذ ہوگئے اور اس طرح جماعت کی مملکتی تنظیم ہو گئی مگر جنگ کا کوئی سامان فراہم نہیں ہوا۔ اس سے بھی پتہ چل رہا ہے کہ آپ کی طرف سے جنگ کا کوئی سوال نہیں ہے مگر جب مشرکین کی طرف سے جارحانہ اقدام ہو گیا تو اس کے بعد بدر ہے، احد ہے، خندق ہے، خیبر ہے اور حنین ہے۔ پھر یہ نہیں کہ اپنے گھر میں بیٹھ کر فوجیں بھیجی جائیں اور فتوحات کا سہرا اپنے سر باندھا جائے بلکہ رسول خدا کا کردار یہ ہے کہ چھوٹے اور غیراہم معرکوں میں تو کسی کو سردار بنا کر بھیج دیا ہے مگر ہر اہم اور خطرناک موقع پر فوج کے سردار خود ہوتے ہیں اور یہ نہیں کہ اصحاب کو سپر بنائے ہوئے ان کے حصار میں ہوں۔ بلکہ اسلام کے سب سے بڑے سپاہی حضرت علی بن ابی طالب کی گواہی ہے کہ جب جنگ کا ہنگامہ انتہائی شدت پر ہوتا تھا تو ہمیشہ رسول اللہ ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب ہوتے تھے پھر یہ بھی نہیں کہ یہ قیام فوج کے سہارے پر ہو بلکہ احد میں یہ موقع بھی آ گیا کہ سوا دو ایک کے باقی سب مسلمانوں سے میدان جنگ خالی ہو گیا۔ مگر اس وقت وہ جو کچھ پہلے ظاہر جان کے تحفظ کے لئے شہر چھوڑ چکا تھا وہ اس وقت خطرہ کی اتنی شدت کے ہنگا م میں جب آس پاس کوئی بھی سہارا دینے والا نظر نہیں آتا اپنے موقف سے ایک گام بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ زخی ہو جاتے ہیں، چہرہ خون سے تر ہو جاتا ہے خود کی کڑیاں ٹوٹ کر سر کے اندر پیوست ہو جاتی ہیں۔ دندان مبارک مجروح ہو جاتے ہیں۔ مگر اپنی جگہ سے قدم نہیں ہٹاتے۔
اب کیا عقل و انصاف کی رو سے مکہ سے ہجرت کو خوف جان سے اس معنی میں سمجھا جا سکتا ہے جس سے شجاعت پر دھبا آئے؟ ہرگز نہیں۔ یہی ہم نے پہلے کہا تھا کہ صرف اس عمل کو دیکھ کر جو رائے قائم کی جائے گی وہ گمراہی کا ثبوت ہو گی اس گمراہی کا پردہ اب اس وقت تو یقیناً چاک ہو جانا چاہئے۔
شجاعت رسول کی حقیقی معرفت شیرِ خدا حضرت علی مرتضی کو تھی۔ جنگِ احد میں قتل محمد کی آواز تھی جس نے کل فوجِ اسلام کے قدم اکھاڑ دیئے۔ اور اس تصور نے علی پر کیا اثر کیا۔ اسے خود آپ نے بعد میں بیان کیا ہے کہ میں نے نظر ڈالی تو رسول اللہ نظر نہ آئے۔ میں نے دل میں کہا کہ دو ہی صورتیں ہیں۔ یا وہ شہید ہو گئے اور یااللہ نے عیسیٰ کی طرح انہیں آسمان پر اٹھا لیا۔ دونوں صورتوں میں میں اب زندہ رہ کر کیا کروں گا۔ بس یہ سوچنا تھا کہ نیام توڑکر پھینک دیا اور تلوار لے کر فوج میں ڈوب گئے۔ جب فوج ہٹی تو رسول نظر آئے۔ دیکھنے کی یہ چیز ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب کو صرف یہی دو تصور ہوئے۔ رسول شہید ہو گئے یا خدا نے آسمان پر اٹھا لیا۔ یہ توہم بھی نہیں ہوا کہ شاید رسول بھی میدان سے کسی گوشہ عافیت کی طرف چلے گئے ہوں۔ یہ علی کا ایمان ہے رسول کی شجاعت پر۔
عیسائیوں نے رسول کی تصویر صرف اسی دور جنگ آزمائی کی یوں کھینچی کہ ایک ہاتھ میں قرآن ہے اور ایک ہاتھ میں تلوار۔ مگر جس طرح رسول کی صرف اس زندگی کو سامنے رکھ کر وہ رائے قائم کرنا غلط تھا کہ آپ مطلق عدم تشدد کے حامی ہیں یا سینہ میں وہ دل ہی نہیں رکھتے جو معرکہ آرائی کر سکے اسی طرح صرف اس دوسرے دور کو سامنے رکھ کر یہ تصویر کھینچنا بھی ظلم ہے کہ بس قرآن ہے اور تلوار۔
آخر یہ کس کی تصویر ہے؟ محمد مصطفی کی نا؟ تو محمد نام تو اس پوری سیرت کی مالک ذات کا ہے جس میں وہ چالیس برس بھی ہیں وہ تیرہ برس بھی ہیں اور اب یہ دس برس بھی ہیں۔ پھر اس ذا ت کی صحیح تصویر تو وہ ہو گی جو زندگی کے ان تمام پہلوؤں کو دکھا سکے۔ یہ صرف ایک پہلو کو نمایاں کرنے والی تصویر تو حضرت محمد مصطفی(ص) کی نہیں سمجھی جا سکتی۔
پھر اس دس برس میں بھی بدر واحد، خندق و خیبر سے آگے بڑھ کر ذرا حدیبیہ تک بھی تو آئیے۔ یہاں پیغمبر کسی جنگ کے ارادہ سے نہیں بلکہ حج کی نیت سے مکہ معظمہ کی جانب آ رہے ہیں۔ ساتھ میں وہی بلند حوصلہ فتوحات حاصل کئے ہوئے سپاہی ہیں جو ہر میدان سر کرتے رہے ہیں اور سامنے مکہ میں وہی شکست خوردہ جماعت ہے جو ہر میدان میں ہارتی رہی ہے اور اس وقت وہ بالکل غیرمنظم اور غیرمرتب بھی ہے پھر بھی ان کی حرکت مذبوجی ہے کہ وہ سدراہ ہوتے ہیں کہ ہم حج کرنے نہ دیں گے۔ عرب کے بین القبائلی قانون کی رو سے حج کا حق کعبہ میں ہر ایک کو تھا۔ ان کا رسول کے سدراہ ہونا اصولی طور پر بنائے جنگ بننے کے لئے بالکل کافی تھا مگر پیغمبر نے اس موقع پر اپنے دامن کو چڑھائی کرکے جنگ کرنے کے الزام سے بری رکھتے ہوئے صلح کرکے واپسی اختیا رکی اور صلح بھی کیسے شرائط پر؟ ایسے شرائط پر جنہیں بہت سے ساتھ والے اپنی جماعت کے لئے باعث ذلت سمجھ رہے تھے اور جماعت اسلام میں عام طور سے بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی شرطیں تھیں جیسی ایک فاتح کسی مفتوح سے منواتا ہے اس وقت واپس جائیے اس سال حج نہ کیجئے آئندہ سال آئیے گا صرف تین دن تک مکہ میں رہئے گا۔ چوتھے دن آپ میں سے کوئی نظر نہ آئے گا دوران سال میں ہم میں سے کوئی بھاگ کر آپ کے پاس جائے تو آپ کو واپس کرنا پڑے گا اور آپ میں سے کوئی بھاگ کر ہمارے پاس آئے تو ہم واپس نہیں کریں گے۔ انہیں یہ شرائط پیش کرنے کی ہمت کیوں ہوئی؟ یقیناً صرف اس لئے کہ وہ مزاج نبوت سے یہ سمجھ لئے تھے کہ آپ اس وقت جنگ نہیں کریں گے۔ بس کم ظرف جب یہ سمجھ لیتا ہے کہ مقابل تلوار نہیں اٹھائے گا تو وہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ آپ نے سب شرائط منظور کر لئے اور واپس تشریف لے گئے۔
اس کے بعد جب مشرکین کی طرف سے عہدشکنی ہوئی اور حضرت فاتحانہ حیثیت سے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو اس وقت گزشتہ واقعات کی بنا پر ایک انسان کے کیا جذبات ہو سکتے ہیں؟ جنہوں نے تیرہ برس جسم مبارک پر پتھرے مارے جنہوں نے توہین و ایذارسانی میں کوئی وقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ ان کے ہاتھوں وطن چھوڑنا پڑا۔ اور اس کے بعد بھی انہوں نے چین لینے نہ دیا۔ بلکہ جب تک دم میں دم رہا بار بار خونریز حملے کرتے رہے جس میں کتنے ہی عزیز اور دوست خاک و خون میں تڑپتے نظر آئے۔ خصوصیت کے ساتھ اپنے ہمدرد چچا جناب حمزہ کا بعدِ قتل سینہ چاک ہوتے دیکھنا۔ آج وہی جماعت سامنے تھی اور بالکل بے بس، اپنے قبضے میں یہ وقت تھا کہ ان کے گزشتہ تمام بہیمانہ حرکات کی آج سزا دی جاتی، مگر اس مجسم رحمت الٰہی نے جب انہیں بے بس پایا تو عام اعلان معافی کر دیا۔ اور ایک قطرہ خون زمین پر گرنے نہ دیا۔
اب دنیا بتائے کہ پیغمبر جنگ پسند تھے یا امن پسند؟ حقیقتہً ان کی جنگ یا صلح کوئی بھی جذبات کی بناء پر نہ تھی بلکہ فرائض کے ماتحت کام ہوتات ھا جس وقت فرض کا تقاضا خاموشی تھی خاموش رہے اور جب حالات کے بدلنے سے ضرورت جنگ کی پڑ گئی جنگ کرنے لگے۔ پھر جب امکانِ صلح پیدا ہو گیا اور بلندی اخلاق کا تقاضا صلح کرنا ہوا تو صلح کر لی۔ اور جب دشمن بالکل بے بس ہو گیا تو عفو و کرم سے کام لے کر اسے معاف کر دیا۔
یہ سب باختلافِ حالات فرائض کی تبدیلیاں ہیں جو آپ کے کردار میں نمایاں ہوتی رہی ہیں۔ فرائض کی یہی پابندی طبیعت کے دباؤ سے جتنی آزاد ہو، وہی معراج انسانیت ہے۔
کتاب ” معراج انسانیت” سے اقتباس
Source:alhassanain.org

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button