مکتوب مجالس

مجلس عزاء بعنوان: اسمائے فاطمہ سلام اللہ علیھا کے اسرار و اثرات ( حصہ دوئم)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿التوبہ:۱۱۹﴾
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ۔
واضح رہے کہ حقیقی معنوں میں صادق وہ ہے جس سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہوا ہو جو اس کے ایمان و عقیدے کے خلاف ہو، اسے معصوم کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے فخر الدین رازی نے اس آیت سے یہ سمجھا ہے کہ معصوم کی اتباع واجب ہے اور ہر زمانے میں ایک معصوم کا ہونا لازمی ہے، ورنہ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ کا حکم بے معنی ہو جاتا ہے۔ مگر وہ آگے چل کر اس معصوم کی تلاش میں راہ گم کر جاتے ہیں۔
صدیقہ امت فاطمہ سلام اللہ علیھا:
اس عظمتوں کے پیکر خاتون کا ایک لقب “الصدیقہ یا الصدیقة الكبري ہےصدیقہ صیغہ مونث ہے. جو صدیق کے مقابلے میں اتا ہے. پس صدیقہ صدیق کا کفو ہے. لہذا اس امت میں اگر کویی صدیق اکبر ہے تو وہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں اور اگر کویی صدیقہ کبری ہیں تو وہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں۔
٭ایک اور قول ہے کہ صدیق کا معنی ہے جس میں سچائی کثرت کے ساتھ ہو۔٭ایک اور قول کے مطابق اس کا معنیٰ ہے جو کبھی جھوٹ نہ بولے۔٭بعض نے کہا ہے :اس کا مفہوم اس فرد پر صادق آتا ہے جس میں صداقت کمال کی حد تک ہو ۔اس کی گفتار کی تصدیق اس کے رفتارسے ہو، اور سراپائے نیکی ہو۔
٭صدیق کا معنی یہ بھی ہے کہ صدیق وہ ہوتا ہے جس کی عادت و فطرت میں میں سچ رچ بس گیا ہو۔ اس سے جھوٹ کا تصور تک بھی نہ کیا جائے ۔
٭کسی نے کہا صدیق وہ ہوتا ہے جس کا قول عقیدہ صداقت پر مبنی ہو اور وہ عمل کے ساتھ اپنی اس صداقت کو ثابت کر دکھائے ۔”تاج العروس “صدیق کی تشریح موجود ہے۔
٭ ایک اورقول کے مطابق صدیق اُسے کہا جاتا ہے جو حق و عدالت کو پسند کرے اور پھر اپنی گفتار اور عمل سے اس کی گواہی دے۔
٭ ایک اور قول ہے صدیق کا مصداق وہ فرد ہے جس کے راستی اور راست گوئی سیرت اور عادت بن جائے ۔٭۔بعض علماء نے لکھا ہے کہ صدیق اُسے کہا جاتا ہے جو کچھ اللہ نے فرمایا ہے اسے قبول کرے اور اسے جو کچھ اس کے انبیاء کی طرف سے ملا ہے اس پر ایمان لائے ۔ اس کے دل میں کوئی شک باقی نہ رہے ۔اس قول کی تائید اللہ تعالی کے اس فرمان سے ہوتی ہے :وَالَّذِینَ اٰمَنُوا بِاللہِ وَ رَسُولِہِ اُولَـئِکَ ھُمُ الصِّدِّیقُونَ”
” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے ہیں وہی صدیق ہیں“۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا (س)کو اسی لقب سے پکا را ہے ۔کیونکہ جناب سیدہ (س) کی پوری زندگی صدق وراستی پر مبنی تھی ۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں ”میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جناب سیدہ زہرا (س)سے زیادہ راست باز (سچا)کسی کو نہیں دیکھا۔(کتاب نورنظر خاتم النبین ص116)
لیکن افسوس اسی ہستی کو مسلمانوں کے دربار میں اپنی صداقت کی گواہی دینی پڑی اور کہنا پڑا
"وَلا أقُولُ ما أقُولُ غَلَطاً”
”جو کچھ میں کہہ رہی ہوں وہ اشتباہ نہیں ہے۔ میری منطق و گفتار میں کوئی کذب، دھوکا اور مغالطہ نہیں ہے۔“
قرآن مجید اور صدیقین کا مقام:
مندرجہ بالا تمام تعارف صدیق کے معنی پر مشتمل ہے علاوہ ازیں کثرت کے ساتھ آیات اور روایات موجود ہے ان سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ صدیقین کا مرتبہ انبیاء اور شہداء کے مراتب کی مانند ہے یہ لوگ خصوصی منزلت اور عظمت کے مالک ہیں نمونے کے چند آیات حاضر ہے۔
وَمن يُّطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَاُولٰۤـئِكَ مَعَ الَّذِينَ اَنعَمَ اللهُ عَلَيهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصّٰالِحِينَ وَحَسُنَ اُولٰۤئِكَ رَفِيقَا(سورہ نساء:آیت ۶۹)
”اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے وہ انبیاء، صدیقین، گواہوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا، جن پر اللہ نے انعام کیا ہے اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں“۔ وَاذكُر فِي الكِتَابِ اِبرَاهِيمَ كَانَ الصِدِّيقَا نَبِيَّا اور اس کتاب میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیجئے یقینا وہ بڑے سچے نبی تھے وَاذكُر فِي الكِتَابِ اِدرِيسَ اِنَّهٗ كَانِ صِدِّيقَا نَّبِيَّا” اور اس کتاب میں ادریس علیہ السلام کا ذکر کیجئے یقینا بڑے سچے نبی علیہ السلام تھے “مَا المَسِيحُ ابنُ مَريَمَ اِلَّا رَسُولُٗ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّسُلُ وَاُمُّهُ صِدِّيقَۃُ ٗ (سورہ مائدہ آیت :۷۵)مسیح بن مریم علیہ السلام تو صرف اللہ کے رسولؐ ہیں۔ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی والدہ صدیقہ خاتون تھیں“۔ بعض مفسرین نے وَاُمُّہُ صِدِّیقَۃٌ کی تفسیر میں کہا ہے کہ انہیں صدیقہ اس لئے کہا گیا کیونکہ انہوں نے اپنے پروردگار کی آیات کی اور اپنے بیٹے کے مقام کی تصدیق کی تھی۔ جن امور کی انہیں خبر دی گئی تھی ۔ان امور کی بھی انہوں نے تصدیق کی تھی ۔ خداوند تعالیٰ نے ایک دوسرے آیت اس حقیقت کی نشاندہی فرمائی (سورہ تحریم: آیت 12 )”اس نے اپنے پروردگار کے کلمات کی تصدیق فرمائی “۔
جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا سمیت پنجتن اطہار علیھم السلام کی صداقت کی بہترین عکاسی آیہ مباہلہ میں ہو رہی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ﴿آل عمران:۶۱﴾
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ: ہم قرار دیں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مباہلے کے فریقین اپنا اپنا دعویٰ رکھتے ہیں، جس میں ایک فریق صادق اور دوسرا کاذب ہو گا۔ نَجۡعَلۡ صیغہ جمع سے معلوم ہوا کہ حضور (ص) کے ساتھ دیگر افراد بھی ہیں، جو اس دعویٰ میں شریک اور دعوائے حقانیت میں حصہ دار ہیں۔ یہ ان ہستیوں کے لیے بڑی فضیلت ہے جو اس مباہلے میں رسالت مآب (ص) کے ساتھ شریک تھیں۔
چوتھی صدی کے مقتدر عالم جناب ابوبکر جصاص احکام القرآن ص 15 میں لکھتے ہیں: رواۃ السیر و نقلۃ الاثر لم یختلفوا فی ان النبی صلی اللّہ علیہ (والہ) وسلم اخذ بید الحسن و الحسین و علی و فاطمہ رضی اللّہ عنھم ثم دعی النصاریٰ الذین حاجوہ الی المباھلۃ "سیرت نگاروں اور مورخین میں کسی کو اس بات سے اختلاف نہیں کہ جناب رسولِ خداؐ نے حسنین فاطمہ اور علی علیہم السلام کے ہاتھ پکڑ کر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی "۔ علامہ زمحشری نے اس جگہ ایک اہم نکتہ بیان کیا ہے کہ وَ نِسَآءَنَا اور اَنۡفُسَنَا میں ایک ایک ہستی حضرت فاطمہ (س) اور حضرت علی علیہ السلام پر اکتفا کیا گیا، لیکن اَبۡنَآءَنَا میں ایک ہستی پر اکتفا نہیں کیاگیا۔ چونکہ فاطمہ (س) اور علی علیہ السلام کی کوئی نظیر نہیں تھی، لہٰذا ان کے ساتھ کسی اور کے لیے کوئی گنجائش نہ تھی، لیکن اَبۡنَآءَنَا میں دو ہستیاں ایک دوسرے کی نظیر تھیں، اس لیے یہاں دونوں کو بلایا۔
جناب مریم علیہا السلام کو قران نے صدیقہ کہا ہے (وامہ صدیقہ – مایدہ -75) ” اور عیسیؑ کی ماں صدیقہ تھیں ” انہیں یہ مقام بلندی کردار و گفتار کی بناء پر ملا. پس مریم اگر صدیقہ تھیں تو جناب زہرا فخر مریم ہونے کے ناطے صدیقہ کبری ہیں. لہذا جو بھی صدیق یا صدیقہ ہو اس کے پاس عہدہ الہی میں سے کوئی عہدہ یا منصب ہونا لازمی ہے. جناب مریم جب صدیقہ قرار پائیں تو جبریل نے بصورت بشر، آپ سے کلام کیا لہذا محدثہ ہوئیں. طعام جنت سے آپ کو نوازا گیا. آپ کا ذکر خیر قرآن میں کیاگیا. اسی طرح جناب زہرا علیھا السلام اپنی بلند ترین سیرت و کردار اور پاکیزگی حسب و نسب اور نو اماموں کی ماں اور ان عظیم حجتوں پر حجت خدا ہونیکی بناء پر صدیقہ کبری قرار پائیں. فرشتوں نے آپ سے کلام کیا. آپکا گھر فرشتوں کی اماجگاہ اور وحی و امامت کا منبع و مصدر اور اللہ کے رازوں کا محل قرار پایا. آپ کی پاکیزگی کا اعلان نہ صرف قران نے کیا بلکہ پوری رسالت الہیہ کی اجرت جناب زہرا علیھا السلام کی مودت قرار دی گئی( سورہ شوری ایت نمبر 23) جو صدیقہ کبری کا مفہوم سمجہانے کیلیے کافی ہے۔
المبارکہ:
اسمائے جناب زہرا علیھا السلام میں سے ایک اسم مبارک ” المبارکة” ہے۔ کتب سیرت و تاریخ و روایات میں جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے ایک سو ستر سے زاید کنیت اور اٹھارہ معروف اسماء کا بیان ہوا ہے اور ان میں سے ہر نام و کنیت کی تشریح علماء نے بیان کی ہے آج ہم انہی ناموں میں سے آپکا ایک معروف نام ” المبارکہ” کی مختصر توضیح دیں گے . تاکہ جناب زہرا علیھا السلام کی معرفت کا ایک حصہ سامنے آے. امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ( کہ جس نے جناب زہرا علیھا السلام کی معرفت درک کی اس نے شب قدر کو اس کے حقیقی مفہوم میں درک کرلیا) آپ کی معرفت پر ہدایت ونجات کا دارو مدار ہے اب ہم موضوع پر آتے ہیں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں. ( ومن اسماء امنا فاطمہ المبارکہ- البحار فی سیرہ الزہراء) یعنی ہماری ماں فاطمہ علیھا السلام کے ناموں میں سے ایک نام ” المبارکہ” ہے. عربی ادب و لغت کے لحاظ سے ” مبارکہ” بروزن ” مفاعلہ” ” برک” ثلاثی مجرد سے مشتق ہے. اس لفظ کے کئی معانی ہیں. عربی ادب کے طلباء جانتے ہیں کہ ثلاثی مجرد جب مزید فیہ بنتا ہے تو اکثر مبالغہ و تکثیر کا فایدہ دیتا ہے. پس لفظ برک جو ثلاثی مجرد ہے اسکو جب ہم مبارکہ یعنی ثلاثی مزید میں استعمال کرینگے تو اس کے معانی میں شدت و کثرت و تاکید پیدا ہوگی.1 – ( برک ) کا ایک معنی مسلسل بارش کے ہیں جب کہا جایے ( مثلا برک السماء ) ” یعنی موسلادہار بارش ہویی” پس جناب زہرا سلام اللہ علیہا کا فیض بھی کائنات میں مثل ابر باراں کے جاری وساری ہے کیونکہ وہ اپنے رحمت للعالمین لقب عظیم والد بزرگوار کا جزو لاینفک ہیں.جنکی رحمت کا ذکر قران میں بصراحت مذکور ہے .فاطمہ اسی رحمت عالمین کا اہم ترین حصہ ہیں پس آپ کا فیض آپکے بابا کیساتھ مسلسل بارش کیطرح جاری ہے.
2- (برک ) جس سے مبارکہ مشتق ہے اسکا ایک اور معنی ثابت قدمی کے ہیں . یعنی ڈٹ جانا.مستقل و مضبوطی سے جمے رہنا. پس یہ معنی بھی ذات اقدس حضرت زہراء سلام اللہ علیہا میں بدرجہ اتم موجود ہے. اسکی طرف قرآن نے سورہ ابراہیم میں اشارہ کیا ہے ( الم تر کیف ضرب اللہ مثلا کلمة طيبة اصلها ثابت وفرعها في السما-( ابراهيم ايت 24) . یعنی وہ مظبوط و مستحکم درخت جسکی جڑیں زمین میں گڑی ہوئی اور شاخیں آسمان میں پہنچی ہویی ہیں. اس سے مراد اپ کی ذات ہے. ( بحواله روايت از امام باقر عليه السلام) ۔ یعنی شجرہ طیبہ اہل البیت علیھم السلام ہیں اور شجرہ خبیثہ ان کے دشمن یعنی بنو امیہ اور انکے پیروکار ہیں 3- ( برک ) کا ایک اور معنی کوشش و سعی کے ہیں .یہ معنی بھی جناب زہرا علیھا السلام میں بدرجہ اتم موجود ہے. جسطرح اپنے اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں پابندی اور ذمہ داری کیساتھ کوششیں کیں اللہ عزوجل نے ان کوششوں کو سراہا اور سورہ دہر میں ( وکان سعیکم شکورا – سور دہر 22) کہہ کر آپکی کوششوں کا شکریہ اللہ نے ادا کیا. 4- (برک ) کا ایک اور معنی بابرکت ہونے کے ہیں پس یہ مفہوم بھی ذات جناب سیدہ علیھا السلام میں بنص قران نمایاں نظر اتا ہے جب اللہ عزوجل نے نبی کو بشارت دی کہ ہم نے آپکو کوثر( خیر کثیر) عطا کیا ہے.( سورہ کوثر ) یعنی فاطمہ جیسی بابرکت بیٹی دی ہے جیسی بیٹی کسی نبی کو نہی دی اس سے آپکی نسل پھیلے گی اور آپ کا دشمن بے نام ہوگا. عزیزو! یہ اس مبارک لفظ کے لغوی معانی تھ۔ے اس لفظ کے اب ہم ” مبارکہ” کے اصطلاحی و روائی معانی کیطرف مختصر نظر کرتے ہیں. قران نے ہر اس شے کو مبارک کہا ہے جس سے ہدایت ونجات حاصل ہو. مثلا قران اپنے متعلق کہتا ہے 5-( وہذا ذکر مبارک – الانبیاء 50 ) اور یہ قران ایک مبارک ذکر ہے. کیونکہ اس میں ہدایت شفا اور رحمت ہے.( البتہ ظالم اس سے استفادہ نہی کرسکتا ہے۔ الاسراء 86) بلکل اسی طرح ذات جناب سیدہ سلام اللہ علیہا مبارکہ ہیں آپ بھی شفا و رحمت و ہدایت بشر کا بہترین وسیلہ ہیں. جسکی طرف کثیر روایات دلالت کرتی ہیں. 6- قران نے خانہ کعبہ کو بھی مبارک کہا ہے. (ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مباركا – العمران 96 ) وہ پہلا گھر جو بکہ نامی زمین پر لوگوں کی ہدایت کیلیے بنایا گیا وہ کعبہ ہے جو بابرکت ہے. ” پس ذات جناب سیدہ بھی مثل خانہ کعبہ پردے میں ملبوس ہونے کے باوجود ہدایت بشر کا وسیلہ ہیں اور کعبہ جسطرح پہلا گھر ہے جو اللہ کی خالص عبادت کیلیے بنایا گیا اسی طرح جناب زہرا علیھا السلام اولین مخلوقات میں سے ہیں جنہیں اللہ نے بطور خاص اپنی اطاعت و عبادت کیلیے خلق کیا جن کے نور کو سایوں کی شکل میں جناب آدم نے اسوقت ملاحظہ کیا جب آپ جنت میں تھے۔ اس روایت کو مفسر کبیر آیت اللہ طباطبایی نے تفسیر المیزان میں بیان کیا ہے. 7- اللہ نے انبیاء کو بھی مبارک کہا ہے جیسا کہ حضرت عیسی کیلیے ارشاد باری ہوا( وجعلنی مبارکا -مریم 31 ) اور میرے اللہ نے مجھے بابرکت بنایا ہے جہاں بھی رہوں . پس جناب عیسی کی برکت یہ ہے کہ آج تک زندہ ہیں اسی طرح اللہ نے جناب زہرا علیھا السلام کے اندر ایک مخفی راز رکہا جسے وسر مستودع فیہا کہتے ہیں. اور علماء نے اس سے مراد ذات اقدس حضرت صاحب الزمان کو مراد لیا ہے جو جناب زہرا علیھا السلام میں مخفی کیا گیا . اس عظیم سر کو اللہ نے عیسی علیہ السلام کی قیادت و امامت کیلیے باقی و محفوظ رکھا . پس جناب زہرا مرضیہ حق بجانب بدرجہ اولی مبارکہ ہوئیں. اللہ کا آپ پر سلام ہو.
سیدہ الہی کائنات کا ابلتا ہوا سرچشمہ ہے:
خالق جہاں نے سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے عظیم القدر وجود کو مختلف اقسام کی خیر و برکات کا مرکز بنا رکھا ہے ۔اللہ نے اپنے مرسل اعظم کی نسل کو ان ہی سے جاری فرمایا اور اس کے نسل میں خیر ہی خیر کردی۔ ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وقت ِشہادت جب اس بانوئے فرزانہ کا جسم بستر پر تھا ۔اس قوت صرف آپ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اور دو بیٹیاں موجود تھیں۔ ایک بیٹی جناب زینب سلام اللہ علیہا علیہ اور دوسری جناب ام کلثوم سلام اللہ علیہا تھیں۔ ایک زمانہ آیا کہ مصائب و آلام نے اس کے گھر کا رخ کیا ۔عاشورہ کے دن کربلا کے میدان میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے بیٹے امام حسین علیہ الصلاۃ والسلام اپنے تمام بیٹوں کے ساتھ (سوائے امام زین العابدین علیہ السلام کے) شہید کر دیئے گئے۔ اس طرح آپ سلام اللہ علیہا کے فرزند امام حسن علیہ السلام کی اولاد میں سے سات فرزندوں نے شہادت پائی ۔آپ کی بیٹی حضرت زینب ؑ کے دو فرزند تھے ،وہ دونوں بھی کربلا میں شہید کردئے گئے۔آپ سلام اللہ علیہا کی دوسری بیٹی ام کلثوم ؑکی کوئی اولاد نہ تھی ۔عاشورا کے بعد اس خاندان پر مختلف ادوار میں مصائب کے طوفانوں نے رخ کیا۔ اس خاندان نے مسلسل قربانیاں دیں۔ اس خاندان کا خون پانی کی طرح بہایا گیا واقعہ حرہ سے جناب زید بن علی بن حسین کی دردناک شہادت تک ۔پھر وہاں سے واقعہ فختک چلے آئیے ۔یہ تمام اَدوار آل فاطمہ ؑ کی خونریزیوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔اُموی عہد میں علویوں پر جو مظالم ڈھائے گئے جس کی مثالیں نہیں ملتی،زمین کی وُسعتیں ان پر تنگ کر دی گئی تھیں۔امویوں کے بعد عباسی آئے۔انھوں نے مظالم میں امویوں کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا۔ انھوں نے آلِ محمد علیہ السلام کی نسل کشی کی کوشش کی ۔عباسی دور کی دوصدیاں آل محمد علیہ السلام پر بہت بھاری گزریں ۔ظلم و بربریت اور سفاکیت کی کون سی داستان ہے جو اس دور میں رقم نہ کی گئی ہو؟ ان کی جنایت و ہولناکی کی آخری داستان فرزند رسول اللہ الصلاۃ والسلام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت ہے۔ آپ گیارہویں امام ہیں ۔آپ کو سامرہ میں زہر سے شہید کر دیا گیا۔ عباسیوں کے بعد ایک بدترین سفاک و ظالم وسیاہ کار اٹھا، جس کا نام صلاح الدین ایوبی ہے۔ وہ آل رسولؑ پر مظالم ڈھانے میں عباسیوں سے پیچھے نہ تھا اس نے مغرب غربی میں فوج کے ایسے دستےبنائے تھے، جنھوں نے آل ِفاطمہؑ پر وہ مظالم ڈھائے جنھیں سن کر اجسام لرز جاتے ہیں۔ ان حوادث ومظالم و خونریزی کے باوجود اللہ نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نسل میں وہ برکت رکھی کہ اس کی نسل روز بروز بڑھتی رہی ہے کیونکہ وہ خیر کا سرچشمہ ہے جو ہر وقت جوش میں ہیں اور جاری و ساری ہے۔
الطاہرہ:
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر ارجمند کے اسماء میں سے ایک اسم طاہرہ ہے ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :اِنَّمَا سُمِّیتَ فَاطِمَه بنتِ مُحَمَّد: اَلطَّاهِرَه ،لِطَهَارَ تِهَا مِن كُلِّ رَفَثِ،وَمَا رَاَتَ قَطُّ یَومَا حُمرَۃَ وَلَاَنَفَاسَا۔
”حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کا نام طاہرہ ہ اس لئے ہے کہ آپ ؑہر پلیدی اور زنانہ عوارض و عادات سے پاک تھیں۔“ اس بحث کو ثابت کرنے کے لئے سب سے احسن آیت تطہیر ہے ،جو اسی موضوع پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالی کا قول ہے:
اِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهِيرَا۫
”اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت علیہ الصلاۃ وسلام آپ ؑسے دور رکھے جیسے پاکیزہ رہنے کا حق ہے“۔(سورہ احزاب : آیت 33)
یہ آیت کریمہ جو معنویت اور دلائل سے بھر پور ہے کہ قرآن مجید کی وہ آیات ہےجو اس مضمون پر مشتمل ہیں، کا مقدمہ ہے اور یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ سرچشمہ عظمت خاندان اہلبیت ؑامور عظیمہ پر مشتمل ہے۔ اس آیت کریمہ پر بہت سے صاحبان دانشور بینش نے بحثیں کی ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ یہ بے جا نہ ہوگا کہ اگر ہم کہیں کہ آیت تطہیر افکار کی جولان گاہ ہے اور مختلف افکار کا معرکہ ہے بالخصوص کلمہ اہلبیت علیہ الصلاۃ والسلام کہان کا ہدف رہا ہے ۔اس عنوان کے قلمرو اور اس کے حدود کیا ہیں اور کہاں تک ہیں؟ ابحاث اور افکار کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے ۔یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آیت تطہیر صدیقہ طاہرہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو شامل کی ہے۔ اس پر تمام شیعہ سنی مفسرین اور محدثین کا اجماع ہے۔ سوائے چند ایک کے باقی تمام روایت سے یہ ثابت ہے کہ آپ ؑکے تاجدار حضرت امام علی علیہ الصلاۃ والسلام اور آپ ؑکے دونوں فرزندوں کو شامل ہے۔
اسمِ طاہرہ کی خصوصیات:
اللہ تعالی نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو نسوانی ماہانہ عادت سے پاک رکھا ہے ۔اس طرح آپ ؑناپسند یدہ اُمور اور ناپاکی سے محفوظ ہیں۔ ہر اس برائی سے جس کا نفس سے تقاضا کرتا ہے۔شیطان کی خناسیت و شیطنت سے آپ کو مامون کردیا جس کی وجہ سے انسان عذابِ الہی کا مستحق ہوتاہے اور انسانی فطرت اور اس کےوجدان کے مابین ناہمواری پیدا ہوجاتی ہے جس سے انسانی پامردیاور حریت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اللہ نے آپ سلام اللہ علیہا کو ان رزائل سے محفوظ فرما دیا۔
ابن عربی نے اپنی کتاب ”الفتوحات المکیہ“ باب 29میں ” رجس “ کی تشریح کی ہے ۔اس نے لکھا ہے کہ اس آیت میں کلمہ رجس سے مراد ہر وہ امر ہے جو انسان کی بد نامی کا باعث ہو ۔عصمت کا مفہوم بھی یہی ہے کیونکہ شیعیانِ حیدر کرار کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء ائمہ اور حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سب معصوم ہیں۔ عصمت عظیم الشان درجہ و مرتبہ ہے اللہ نے اپنے خواص کو یہ مقام عطا فرمایا ہے۔
• بتول
حضرت زہرا ؑ علیھا السلام کا ایک مشہور لقب بتول ہے ۔بتول یعنی جدا اور الگ ہونے والی (یاا لگ شدہ ) کیونکہ جناب زہرا علیھا السلام خدا کی جانب دنیا سے جدا اور الگ ہوئیں اور وہ معرفت ، قول و فعل گفتار و کردار اور اخلاق میں عورتوں سے ممتاز تھیں اور بری صفات سے الگ اور دور ہوئیں اسلئے انکو بتول کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ یہ لقب فاطمہؑ کے دنیا سے انقطاع اور سرمدی مبدأ کے ساتھ اتصال کی وجہ سے ہے
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ سے سوال کیا گیا کہ ہم آپ سے سنتے ہیں کہ مریم بتول ہے اور فاطمہ بتول، بتول یعنی کیا؟فرمایا:بتول کسے کہتے ہیں ؟
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:”البتول التی لم ترحمرۃ قط ، ای لم تحص فان الحیض مکروہ فی بنات الانبیائ ‘‘
بتول اس عورت کو کہتے ہیں جو مہینہ میں خون نہ دیکھے اور اسے کبھی حیض نہ آئے کیونکہ پیغمبرؐ کی بیٹیوں کو خون حیض آنا اچھا نہیں ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص۱۵، از علل الشرائع و معانی الاخبار)
دوسری روایت میں پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں:
’’سمیت فاطمۃ بتولاً لانھا تبتلت و تقطعت عما ھو معتاد العورات فی کل شھرٍ، ولا نھا ترجع کل لیلۃ بکراً و سمیت مریم بتولاً لانھا ولدت عیسیٰ بکراً ‘‘
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو بتول کہا گیا کیونکہ آپ ماہانہ عادت سے پاک تھیں اور آپ ہر شب باکرہ رہتی تھیں، حضرت مریمؑ کو (بھی) بتول کہتے ہیں کیونکہ آپ کے یہاں باکرہ ہونے کی حالت میں جناب عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی۔ ( فاطمہ الزہراؑ بہجۃ قلب مصطفیٰ ، ج ۱، ص ۱۵۸، از احقاق الحق، ج۱۰، ص ۲۵، نقل از علامہ کشفی حنفی مناقب مرتضویہ ، ص ۱۱۹)
آپ ﷺ نے عائشہ سے فرمایا: یا حُمَیْرُ اِنَّ فَاطِمَۃَ لَیْسَت کَنِسَآءِ الآدَمِیِّیِینَ لاَ تَعْتَلّ کَمَا تَعْتَلْنَ اے حمیرا بے شک فاطمہ دوسری عورتو ں کی مانند نہیں ہے وہ حائض نہیں ہوتیں جس طرح دوسری عورتیں حیض دیکھتی ہیں ۔
(بحار الانوار ۴۳؍۱۶)
عن ابی هریره عن النبی سمیت فاطمة البتول لانقطاعها عن نساء زمانها فضلاً ودیناً وحسباً۔ (فضائل خمسہ من الصاح الستہ ص156)
ابی ہریرہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا جناب فاطمہ (س)کو بتول اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دین وشرف کی وجہ سے تمام عورتوں تے منفرد ویگانہ تھیں ۔
جب کہ علامہ ابن منظور نے اس جملے کا بھی اضافہ کیاہے ۔
وقیل لانقطاعها عن الدنیا الی الله عزوجل۔ ( لسان العرب ج1ص312٭)
تارک دنیا اور ہر وقت یاد الٰہی میں مصروف رہتی تھیں اس لئے جناب سیدہ (س)کو بتول کہلائیں۔
احادیث سے استدلال:
روایت میں ہے کہ مریم کا نام بتول رکھا گیا کیونکہ وہ مردوں سے الگ اور جدا ہوئیں اور فاطمہ کا نام بتول رکھا گیا کیونکہ وہ مثل اور مانند سے جدا ہوئیں (امالی صدوق ۱۸۲) انس بن مالک نے اپنی والدہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : فاطمہ علیھا السلام نے نہ خونِ حیض دیکھا اورنہ ہی خون نَفَاس۔ حضرت امام محمد باقر ۔ سے معتبر سند سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر ؑ کی بیٹیاں حائضہ نہیں ہوتیں بلا شبہ حیض ایک نقص ہے جو عورتوں کے لئے آئی ہے اور نیک عورتوں میں سے جو سب سے پہلے حائضہ ہوئیں و ہ سارہ تھیں۔
فاطمہ (س)، ام ابیہا :
حضرت فاطمہ زہرا ء س علیھا السلام کے القابات میں سے ایک مشہور لقب ” ام ابیہا ” ہے جو آپ کو پیغمبر گرامی قدر صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عطا فرمایا، اس کا لفظی معنی یہ ہے کہ فاطمہ علیھا السام اپنے باپ کی ماں ہیں، یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ میرے نزدیک فاطمہ علیھا السلام اسی طرح محترم ہیں جس طرح کوئی ماں اپنی اولاد کے لئے محترم ہوا کرتی ہے۔
گویا آپ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کو دنیا والوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کوئی معمولی مقام و مرتبے کی حامل خاتون نہیں ہیں بلکہ ایسی باعظمت خاتون ہیں کہ جن کو خاتم الانبیاء جیسی شخصیت نے ام ابیہا کے لقب سے نوازا ہے، یہ ایسی فضیلت ہیں جو اولین و آخرین میں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے علاوہ کسی اور خاتون کو نصیب نہیں ہوئی یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ کسی اور باپ نے اپنی بیٹی کے بارے میں ایسے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو أم أبیھا کا لقب دینے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ عربی میں ” لفظ ام ” مبداء اور اصل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی ایسی اصل کہ جس کی طرف باقی تمام چیزوں کی بازگشت ہو، یعنی جن ہستیوں اور جن شخصیات نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اسلام کو بچایا اور اس کی تعلیمات کو پورے عالم میں پھیلایا ہے ان کی بنیاد اور اصل جناب سیدہ سلام اللہ علیہا ہیں باین معنی جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے وجود کی برکت سے شجریہ امامت نے رشد پایا ہے جس نے دین خدا کو ختم ہونے اور نبی خدا کو مقطوع النسل اور ابتریت کے طعنے سے بچایا ہے۔
عراق کے مشہور و معروف خطیب ِ منبر حسینی شیخ احمد وائلی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک خطاب میں بیان کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کو أم القریٰ یا أم المُدُن (یعنی تمام شہروں کی اصل) کہا جاتا ہے، اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ پرانے زمانے میں مکہ تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا قرب و جوار کے لوگ تجارت کی غرض سے یہاں آیا کرتے تھے۔
دوسرے یہ کہ مکہ سے اسلام کا آغاز ہوا اور اسلام کی تعلیمات یہیں سے پوری دنیا میں پھیل گئیں چنانچہ مکہ مکرمہ باقی شہروں کے لیے اصل اور بنیاد قرار پایا۔سورہ فاتحہ کو ام الکتاب یا ام القرآن کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں جو شرف ہے وہ پورے قرآن مجید پر محیط ہے۔لہذا خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ام ابیہا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ام عترت ہیں، وہ عترت جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی ذمہ داریوں کو تا قیام قیامت اٹھانے والی ہے۔
و قال النبی (ص) لبنتہ ؑ :”فاطمۃ ام ابیھا“
و قال (ص):”فداک ابوک یا فاطمۃ (س)“،
فاطمۃ ام ابیھا “ فاطمہؑ اپنے باپ کی ماں ہے۔
یہ کس قدر خوبصورت اور پر معنی جملہ ہے ۔اس کی معنوی خوبصورتی اس کے لفظی جمال کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے ۔ یہاں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ اس جملے میں آنحضرتؐ نے جو ترتیب قراردی ہے اس سے الفاظ میں چھپے ہوئے نورانی اور لطیف معانی اپنے اندر پوشیدہ مفاہیم کی حقانیت کوآشکار اکرتے ہیں ۔ اس میں اپنی عظیم بیٹی ، ام المعصومیؑن ،ام الآئمؑہ ،ام السادات سیدہ ء کائنات فاطمہ زہراؑ کی عظمت بیان فرمائی ہے جس میں اپنے روحانی ، نسبی ، اور قربتی تعلق ونسبت کو منفرد انداز میں بیان کیا ہے ۔ اس جملے میں سب سے پہلے سیدہؑ کائنات کا اسم گرامی ( فاطمؑہ ) ذکر کیا ہے اس مقدس اور پاکیزہ نا م کے بارے میں مستند روایات اور احادیث کے ساتھ ساتھ حدیث قدسی بھی گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نام اپنے پاکیزہ اسم مبارک ”فاطر“سے مشتق کر کے اس معنوی قربت کے تناظر میں سیدہؑ کے لئے مختص قرار دیا ہے ۔
اصل اور اصل الاصل:
سیدہ کائنات ؑ کو خاتم الانبیاءؑ نے اپنی ”ماں“ کے الفا ظ کی بجائے ”ام ابیھا“ (اپنے باپ کی ماں کے "الفاظ سے موسوم فرمایا ہے اس لطیف انداز بیان میں جو اہم ترین نکتہ ملحوظ ہے وہ یہ کہ اس میں شخص کی بجائے شخصیت سے نسبت کا اظہار مقصود ہے ۔عمومی و نسبی حوالہ میں عام طور پر اس طرح کے ا ظہار ات بالعکس معانی کے حامل ہوتے ہیں یعنی باپ کو اولاد کی اصل کہا جاتا ہے جو کی ظاہری وجود کے حوالہ سے یقینا درست ہے ۔اگر حضور ؐ اس نسبی قرابت کو بیان کرنا چاہتے تو یوں ارشاد فرماتے کہ ”انا اصلھا“میں اس کی اصل ہوں ۔یا یوں ارشاد فرماتے کہ”میں اصل ہوں اور فاطمہ ؑ درخت ہیں “(انا اصل وفاطمۃ شجرتہ) ۔ کیونکہ درخت سے پھل حاصل ہوتا ہے اوراولاد کا سلسلہ بیٹے یا بیٹی سے چلتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ سیدہؑ کائنات کو اصل اور جڑ اور خود اپنے آپ کو درخت کہہ کر آنحضرت نے دنیا والوں کے ظاہری وجود ی حوالوں اور نسبتوں کے معیار سے بالا تر ہو کر اپنے اور سیدہ کائنات کے وجودی نورانی معیار کی امتیاز ی جہت کو بیان فرمایا ہے جو انہی ہستیوں کا خاصہ ہے۔ اگر ہم اس حوالہ سے فرمان نبوی ؐ کی تفسیر و توضیح میں یہ کہیں کہ آنحضرت کا ارشارہ اس حقیقت کی طرف ہوسکتا ہے چونکہ ماں اولاد کی نسبت وجودی مصدریت اور سرچشمہ کی حیثیت رکھتی ہے اور سیدہ فاطمہؑ ذریت و نسل رسول اللہ کا وجودی مصدرا ورسر چشمہ ہے لہذا آنحضرتؐ نے انہیں اپنے باپ کی ماں کا لقب عطا فرمایا جو کہ اصل اور مصدر کی حقیقت کا حامل جامع و مانع لفظ ہے۔ پس سیدہؑ کا وجود اصل ہے اور حضور ؐ کا اصل الاصل ہے۔
لفظ ام کے استعمالی موارد:
لفظ” ام“ کے استعمال کا تذکرہ بھی ہوجائے تو خالی از فائدہ نہیں ہوگا۔
لفظ ”ام “کے بارے میں جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ لغوی حوالہ سے اس کا معنی اصل ہے، اور قرآنی استعمال اس حقیقت کی کھلی گواہی دیتا ہے، چنانچہ مکہ مکرمہ کو ”ام القریٰ“ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ روئے زمین پر ہر آبادی کی اصل یہ مقدس شہرہے ۔آیت کچھ اس طرح سے ہے کہ اس میں اللہ تعالی نے لفظ ”ام“استعمال فرما کر مکہ مکرمہ کی مرکزی حیثیت کو واضح کردیا ہے :
"وکذالک اوحینا الیک قرآنا عربیا لتنذر ام القریٰ ومن حولھا”
اور اسی طرح ہم نے آپ پر قرآن عربی زبان میں نازل کیا تاکہ کہ آپ ام القریٰ قرآن اور اور اس کے ارد گرد والوں کو انذار کریں ۔(سورہ شعراء آیت ۷)
اس لفظ کے عرفی استعمال کے موارد شمار سے باہر ہیں، مثلا عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب والدین ، قوم و قبیلہ ، علاقہ ، مملکت ، مذہب و ملت کے سربراہ یا بزرگ و معتبر شخصیات اپنی طرف سے محبت و قربت کا اظہار کرتے ہیں تو پیارے بچے، عزیز، اور بزرگوں کے نام سے پکارتے ہیں چنانچہ باپ بیٹے کو اباجان ابو جی، اور اس طرح کے الفاظ جب ماں بیٹے کو اما ں جان ، امی جی اور اس طرح کے الفاظ سے پکارتے ہیں اسی طرح دادا ،دادی ،نانا، نانی اور بزرگ افراد اپنے بچوں کو پیار محبت کے ساتھ خود اپنے مقام و مرتبہ کے الفاظ سے پکارتے ہیں ۔تو اس طرح کے استعمال میں پیار و محبت اور اس کے علاوہ دیگر عوامل کار فرما ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے الفاظ کے استعمال کو فقط درست قرار نہیں دیا جاتا بلکہ قابل تعریف و تمجید اور عزت و تکریم کا عکاس سمجھا جاتا ہے۔ گویا محبت کمالی پہلو کی حامل ہو تو اس طرح کے استعمال کی متقاضی ہوتی ہے۔ اور اس سے جہاں مخاطب اور متکلم کے درمیان عمیق تعلق اظہار ہوتا ہے وہاں دونوں کے درمیان انس و محبت کا رشتہ مزید مضبوط و مستحکم ہو جاتا ہے کہ جس کے پاکیزہ افکار زندگی کے گوناگوں مراحل میں ظاہر ہوتے ہیں،اور ان آثار کی عملداری نوع انسانی کی وجودی معراج بنتی ہے ۔
نسبی تعلق کے اظہار کے ساتھ ساتھ حسبی نسبت کی بنیاد پر بھی اس طرح کے الفاظ سے فضیلتوں کی تصویر کشی ہوتی ہیں۔چنانچہ کی معاشرتی روابط میں بھی اس طرح کے الفاظ کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے جس سے القاب پہلو اجاگر ہوتا ہے اور معنوی و مفہومی حقائق آشکار ہوتے ہیں۔
قولی و عملی حوالوں کا تجزیاتی تذکرہ:
ظاہر ہے کہ حضور ؐ کا ارشاد ( معاذ اللہ ) نہ تو بے معنی ہو سکتا ہے اور نہ ہی جذباتی ! اور نہ ہی ذاتی خواہش ! بلکہ آنحضرت کی مقدس و مطہر زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ ،حقائق کی ترجمانی کرتے ہیں ،اور حضور پاک ؐ کی نسبت سے مخصوص معانی ومفاہیم اور پاکیزہ واعلیٰ معارف ومعالم کے ساتھ عملی حکمتوں کے عکاس ہوتے ہیں۔
یہ بات تو واضح ہے کہ آپ کو ” ام ابیھا” کا لقب عطا کرنے  والی شخصیت ہی اس قدر عظیم ا ور رفیع المقام ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بعد پوری کائنات میں سب سے افضل ہے ۔اگر وہ نہ ہوتے تو خدا کائنات کی کوئی چیز پیدا نہ کرتا ۔ تاریخ اس حقیقت وو اقعیت کی کھلی گوہی دیتی ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء محمد ؐ فریضہ ء نماز ادا کرنے کے بعد گھر تشریف لاتے اور اپنی جلیل القدر و عظیم ،المرتبت بیٹی کے ہاتھوں کو چومتے اور ”ام ابیھا“،اے اپنے باپ کی ماں ! فداک ابوک“ تیرا باپ تجھ پر فدا ہو، کہتے۔
حضور کا یہ عمل بذات خود قوی دلیل ہے اس کے بعد مزید کسی ثبوت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ،البتہ یہ نکتہ ملحوظ خاطر رہے کہ جہاں حضور ؐ کا عمل امت کے لئے سنت کی حیثیت رکھتا ہے وہاں اس عمل کو امت کے لئے سنت قرار نہیں دیا گیا بلکہ یہ صرف حضور ؐ کی ذات سے مخصوص ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ کوئی باپ اس طرح کےالفاظ کا استعمال نہیں کرتا کہ اپنی بیٹی کو ماں جیسی عظمت سے نوازے ۔ یہ تو سیدہ ء کائناؑت کا اختصاص ، انفرادیت اور امتیاز ہے۔
عملی طور پر حضور ؐ نے سیدہء کائنات ؑ کی تکریم وتعظیم میں اسی طرح کے کردار کا مظاہرہ کیا جو ماں کیلئے کیا جاتا ہے ، مثلا ہاتھ چومنا ، پیشانی کا بوسہ لینا ، ان کےلئے کھڑے ہو جانا ،اپنی جگہ پر بٹھانا ۔شریعت اسلامیہ میں بھی ماں کیلئے بھی احترام لازمی قرار دیا گیا ہے البتہ ادب واحترام اور اظہار محبت کے طریقے ہر قوم ومعاشرہ میں مخصوص ہوتے ہیں عرب دنیا میں مذکور ہ بالا چار انداز ایسے ہیں جو عام طور پر اکرام واحترام کا مظہر سمجھے جاتے ہیں۔ جبکہ دیگر اقوام میں ان کے علاوہ مختلف انداز اپنائے جاتے ہیں۔ سیرت النبیؐ کی معتبر و مستند کتب میں آنحضرؐت کے معمولات کے باب میں مذکور ہے کہ آپؐ جب سفر پر جاتے تو سب سے آخرمیں سیدہؑ ء کائنات کے پاس تشریف لاتے اور ان سے رخصت ہوتے اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے سیدہ کائناؑت کے پاس آتے اور انہیں سلام کرتے تھے بلکہ روایات میں یہاں تک موجود ہے کہ سفر توسفر حضور ؐ جب بھی گھر سے باہر نکلتے تو پہلے سیدہؑ کائنات ؑ کے خانہ اقدس پر تشریف لاتے تو محبت والفت پر مبنی احترام کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان کے سامنے اس طرح آکر بیٹھتے اور گفتگو فرماتے جس طرح ماں سے کی جاتی ہے اور اسی قرب و نسبت کے تناظر میں جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس دور کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آنحضرتؐ نے سیدہ کائناؑت کو ”ام ابیھا “کا لقب دیا اس طرح لقب کی عملی پاسداری کا ثبوت دیا ،اسی طرح سیدہء کائنات ؑ نےبھی حضور ؐ کی خیال رکھا اور شدید صورتحال میں اسی طرح دلداری کی جس طرح ماں کرتی ہے کہ حضورؐ کے لیے حقیقی ماں کی یاد تازہ کردیتیں ۔
ایک ناقابل انکار عملی حقیقت:
یہ ایک ناقابل انکار عملی حقیقت ہے کہ:
٭ کوئی ماں ،اولاد کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی
٭۔کوئی ماں اپنے آرام و سکون کو اولاد کے آارام پر قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتی
٭کوئی ماں کھانے پینے میں اپنی اولاد سے پہل نہیں کرتی
٭کوئی ماں ،اولاد کو جاگتا چھوڑ کر خود نیند نہیں کرتی
٭کوئی ماں اولاد سے پہلے خود کھانا نہیں کھاتی
اس طرح کے دیگر اعمال جو انسانی معاشرے میں رائج ہیں تو یہ انسانیت کے کمال درجات کا آئینہ دار ہیں،ان اعمال سے ”ماں“ کی اصل حیثیت کا اظہار ہوتا ہے ۔ سیدہؑ کائنات کے حوالے سے تاریخ ان تمام اعمال کا پتہ دیتی ہے کہ اگر چہ بیٹی تھیں مگر عملی طور پر”ماں “بن کر دکھایا ۔ عرب کے بدؤوں نے جب حضرت پیغمبر اسلام ؐ کو اپنی طرف سے نفرت کے تیروں کا نشانہ بنایا اور اذیت و آزار میں اخلاقی و انسانی حدیں پھلانگ گئے توان حالات میں سیدہ ء کائناؑت نے حقیقی ماں سے زیادہ محبت و خدمت گزاری کا عملی مظاہرہ کیا اور حضور ؐ کو آرام وسکون دینے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔سیدہ کائناتؑ اس وقت تک کھانا نہ کھاتی تھیں جب تک آنحضرت ؐ کو کھانا نہ کھلاتی تھیں ۔گندی صفات کے رسیاعرب جب حضور ؐ پر گندگی پھینکتے تھے تو یہ سیدہ کائنات ؑ ہی تھیں جو گندگی کو صاف کرتی تھیں اور حضوؐر کوماں کی طرح پیار اور عاطفت کا ماحول فراہم کرتی تھیں۔اس مقام پر میں تو کہتا ہوں کہ اگر سیدہ کائنات ؑ کو حضور ؐ نے ”ام ابیھا“(اپنے باپ کی ماں)کالقب دیا تو یہ سیدہ کائنات ؑ کے کردار کا نتیجہ تھا ۔
اللہ اکبر ،ماں کا مقام کس قدر بلند ہے اللہ تعالیٰ نے ماں کو کتنی عظمت عطا فرمائی ہے ،اس کا اندازہ تو اس بات سے ہوسکتا ہے کہ حضور پاکؐ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ اگر خدا کے بعد کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو میں ماں کو سجدہ کرتا۔اس عظیم ترین مقام و مرتبت اورمنزلت کے تناظرمیں ”ام ابیھا “کے لقب کی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ سیدہ ؑ نے کس قدر عملی طور پر سیدہ کائناتؐ کی خیالداری کا حق ادا کیا ہوگا کہ حضور ؐ نے یہ لقب دیا اور اس عظیم اعزاز سے نوازا جو کہ اپنے مقام پر منفرد حیثیت کا حامل ہے۔
اپنی حقیقی ماں کا سایہ اس وقت اٹھ گیا تھا جب حضور ؐ اپنے ظاہری وجود کے زمانہ طفولت میں تھے کہ جب بچے کو ماں کی ممتا مطلوب ہوتی ہے (چھ سال)۔اورپھر وہ وقت بھی آیا جب اسی مطلوبیت کی تکمیل سیدہ کائناتؑ کے وجود کے ذریعے ہوئی ،،اور بیٹی نے محبت کے تمام تر تقاضوں کو پورا کیا۔یہاں یہ اہم ترین نکتہ قابل ذکر ہے کہ حضرت آمنہ ؑ کی رحلت کے فورا بعد جس ہستی کو ماں کے فرائض ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی وہ حضرت فاطمہ بنت اسد ؑ تھیں کہ جنہیں حضور ؐ نے ماں کہا کیونکہ اس معظمہ نے حضورؐ کی تربیت ونگہداشت اور دیکھ بھال میں ماں سے کم کردار ادا نہیں کیا ۔چنانچہ حضور ؐ فرمایا کرتے تھے کہ وہ میری ماں تھیں(ھی امی) لیکن الفاظ کے حوالے سے سیدہ کائنات ؑ کے لئے ”ھی امی “ کی بجائے ”ام ابیھا “ کہا کہ ان دونوں جملوں کی معنوی حیثیت میں بہت فرق ہے ۔ بہر حال حضرت فاطمہ بنت اسد سے اس طرح کا کردار متوقع بھی تھا کیونکہ وہ محسن اسلام حضرت ابو طالب ؑ کی زوجہ اور مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب ؑ کی مادر گرامی قدر تھیں ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں عظمت ورفعت میں کمال درجہ عطا فرمایا تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ جب تک آپؐ شعب ابی طالب ؑ میں محصور رہےحضرت فاطمہ بنت اسدؑہی تھیں جو حضورؐ کے ساتھ ماں بن کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں اور جس طرح خود ابو طلب ؑ نے حضور ؐ کی حفاظت میں اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لا کر آپ ؐ کو کافروں ا ورمشرکوں کے شر سے بچایا تو حضرت فاطمہ بنت اسد ؑبھی ان کے ساتھ برابر کی شریک رہیں ،اور کسی مرحلہ مین حضورؐ کی خیالداری میں کمی نہ آنے دی۔
میری نظر میں ان دونوں ہستیوں کے کمال یقین اور پیر وِدین ہونے کا سب سے بڑا اور واضح ثبوت یہی ہے ۔ حضورؐ نے حضرت فاطمہ بنت اسد ؑ کو ”ماں “کہا ،لیکن جو الفاظ و انداز بیان اپنی بیٹی سیدہؑ ء کائنات کے بارے میں اختیار کیا وہ اپنے مقام و حیثیت کے حوالہ سے منفرد تھا ۔ سیدہ کائنات ؑ کی ذات گرامی قدر کو اللہ تعالیٰ نے مقام و منزلت عطا فرمائی اس کی مثال تاریخ انسانیت میں کہیں نہیں ملتی ۔ان کا سیدہ کائناؑت کی حقیقی صلبی دختر ہونا سب سے پہلا اور بڑا اعزاز ہے۔
”فاطمۃ ام ابیھا“ کے الفاظ سے سیدہ کائنات ؑ کی عظمت کا پتا چلتا ہے ۔لفظ”ام“اصل معنی میں ملحوظ ہو تو حضورؐ کے ارشاد کے کئی پہلووں سے آگاہی حاصل ہوجاتی ہے۔سیدہ کائناؑت کو اصل ہونے کا جو خدائی اعزاز حاصل ہے اس مرکزیت و محوریت سے سیدہ کائنات ؑ کی عظمت ورفعت آشکار ہوتی ہے کیونکہ اصل سے مربوط ہر فرع اپنے وجودی تشخص اور صفاتی شناخت میں آخر کار اپنی اصل سے وابستہ ہوتی ہے ۔ وجود مصطفیٰؐ ،اصل الوجود ہے کیونکہ آنحضرؐت کے فرمان میں مذکور وجود الاصل بھی اسی کی فرع ہے،اسی سے اصل کا فرع سے اور فرع کا اصل سے معنوی و روحانی ربط بھی معلوم ہوجاتا ہے اس بابت سے میں کہتا ہوں کہ سیدہ ؑ اصل اور حضورؐ اصل الاصل ہیں۔
عین ممکن ہے کہ یہ بات ذہن کے دریچے میں خطور کرے کہ وجودی حوالہ سے سیدہ کائنات ؑ کو بیٹی ہونے کے ناطے اصل کی بجائے فرع کی حیثیت حاصل ہے لہذا انہیں اصل قرار دینا کس معنی میں درست نہیں بنتا اور اسے کسی طرح قرین صحت قرار دیا جاسکتا ہے ؟یعنی بیٹی ، باپ کے لئے کس طرح اصل ہو سکتی ہےاس کی معنوی حیثیت سے مربوط حقائق کا ادراک کیونکر ممکن ہے؟
تو اس کا جواب واضح روشن ہے کہ یہاں اصل سے مراد نسبی اصل نہیں کیونکہ نسبی حوالہ سے حضورؐ کی ذات اقدس ہی اصل ہیں اور سیدہ کائنات ؑ کو فرع ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور فرع بھی ایسی کہ جس کی وجودی نسبی نظیر نہیں ملتی ۔نسب ونسبت میں فرع ہونے کا حوالہ بھی سیدہ کائنات ؑ کی مخصوص امتیازی صفت ہے اور اس موضوع سے مربوط مقام پر ثابت ہوچکا ہے کہ نسبی و نسبتی فرع ہونے میں بھی سیدہ کائنات ؑکے شریک نہیں بلکہ وہ اس حوالہ میں بھی منفرد ہیں اور اکیلی و اکلوتی ہونے اعزاز رکھتی ہیں۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button