مقالات حدیث و رجال

نہج البلاغہ پر ایک تحقیقی نظر ( حصہ اول)

علامہ سید علی نقی نقوی نقن رح
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَ نْبِیَآءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ وَ اٰلِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاھِرِیْنَ
نہج البلاغہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کلام کا وہ مشہور ترین مجموعہ ہے جسے جناب سید رضیؒ برادر شریف مرتضیٰ علم الہدیٰ نے چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں مرتب فرمایا تھا۔ اس کے بعد پانچویں صدی کے پہلے عشرہ میں آپ کا انتقال ہو گیا ہے اور نہج البلاغہ کے انداز تحریر سے پتہ یہ چلتا ہے کہ انہوں نے طویل جستجو کے ساتھ درمیان میں خالی اوراق چھوڑ کر امیر المومنین علیہ السلام کے کلام کو متفرق مقامات سے یکجا کیا تھا، جس میں ایک طویل مدت انہیں صرف ہوئی ہو گی اور اس میں اضافہ کا سلسلہ ان کے آخر عمر تک قائم رہا ہوگا۔ یہاں تک کہ بعض کلام جو کتاب کے یکجا ہونے کے بعد ملا ہے، اس کو تعجیل میں انہوں نے اس مقام کی تلاش کئے بغیر جہاں اسے درج ہونا چاہیے تھا، کسی اور مقام پر شامل کردیا ہے اور وہاں پریہ لکھ دیا ہے کہ یہ کلام کسی اور روایت کے مطابق اس سے پہلے کہیں پر درج ہوا ہے۔ یہ اندازِ جمع و تالیف خود ایک غیر جانبدار شخص کیلئے یہ پتہ دینے کے واسطے کافی ہے کہ اس میں خود سید رضیؒ کے ملکہ انشاء اور قوت تحریر کا کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ انہوں نے صرف مختلف مقامات سے جمع آوری کرکے امیر المومنین علیہ السلام کے کلام کو یکجا کردینے پر اکتفا کی ہے۔ یہ پاشانی اور پریشانی جسے بحیثیت تالیف کے کتاب کا ایک نقص سمجھنا چاہیے، مقام اعتبار میں اس پر اعتماد پیدا کرنے والا ایک جوہر ہو گیا ہے۔ انہوں نے مختلف نسخوں اور مختلف راویوں کی یادداشت کے مطابق نقل الفاظ میں اتنی احتیاط کی ہے کہ بعض وقت دیکھنے والے کے ذوق پر بار ہو جاتا ہے کہ اس عبارت کے نقل کرنے سے فائدہ ہی کیا ہوا جبکہ ابھی ابھی ہم ایسی ہی عبارت پڑھ چکے ہیں۔ جیسے ’’ ذم اہل بصرہ‘‘ میں اس شہر کی غرقابی کے تذکرے میں اس کی مسجد کا نقشہ کھینچنے میں مختلف عبارات کبھی : ’’نَعَامَۃٍ جَاثِمَۃٍ‘‘ اور کبھی ’’ كَجُؤْجُؤِ طَیْرٍ فِیْ لُجَّۃِ بَحْرٍ‘‘ ( (نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۳)اور اس سے ملتے جلتے ہوئے اور الفاظ، یہ اسی طرح کا اہتمام صحت نقل میں ہے۔
جیسے موجودہ زمانہ میں اکثر کتابوں کی عکسی تصویر شائع کی جاتی ہے جس میں اغلاط کتابت تک کی اصلاح نہیں کی جاتی اور صرف حاشیہ پر لکھ دیا جاتا ہے کہ بظاہر یہ لفظ غلط ہے، صحیح اس طرح ہونا چاہیے۔ دیکھنے والے کا دل تو ایسے مقام پر یہ چاہتا ہے کہ اصل عبارت ہی میں غلط کو کاٹ کر صحیح لفظ لکھ دی گئی ہوتی، مگر صحت نقل کے اظہار کیلئے یہ صورت اختیار کی جایا کرتی ہے، جیسے قرآن مجید میں بعض جگہ تالیف عثمانی کے کاتب نے جو کتابت کی غلطیاں کردی تھیں جیسے ’’ لَا اَ ذبْحَنَّہٗ‘‘ میں ’’ لا‘‘ کے بعد ایک الف جو یقیناً غلط ہے، اس لئے کہ یہ ’’لائے نافیہ‘‘ نہیں،جس کے بعد ’’اَذْبَحَنَّہٗ‘‘ فعل آئے ، بلکہ ’’لام تاکید‘‘ ہے جس سے ’’اَذْبَحَنَّہٗ‘‘ فعل متصل ہے، مگر اس قسم کے اغلاط کو بھی دور کرنا بعد کے مسلمانوں نے صحت نقل کے خلاف سمجھا۔ اسی طرح اِملائے قرآن گویا ایک تعبدی شکل سے معین ہو گیا۔ بعض جگہ ’’رحمۃ‘‘ کی ’’ت‘‘ لمبی لکھی جاتی ہے، بعض جگہ ’’جنت‘‘ بغیر الف کے لکھا جاتا ہے۔ بعض جگہ ’’یدعو‘‘ ایسے فعل واحد میں بھی وہ ’’الف‘‘ لکھا ہوا ہے کہ جو جمع کے بعد غیر ملفوظی ہونے کے باوجود لکھا جایا کرتا ہے۔ ان سب خصوصیات کی پابندی ضروری سمجھی جاتی ہے، جس سے مقصود و ثاقتِ نقل میں قوت پیدا کرنا ہے۔ اسی طرح علامہ سیّد رضیؒ نے جس شکل میں جو فقرہ دیکھا اس کو درج کرنا ضروری سمجھا تاکہ کسی قسم کا تصرف کلام میں ہونے نہ پائے۔ یہ ایک درایتی پہلو ہے جو اس تصور کو بالکل ختم کر دیتا ہے کہ یہ کتاب سیّد رضیؒ رحمہ اللہ کی تصنیف کی حیثیت رکھتی ہو۔
دوسرا پہلو خطبوں کے درمیان کے ’’وَمِنْہَا، وَمِنْہُ‘‘ ہیں، جس میں عموماً بعد کا حصہ قبل سے بالکل غیر مرتبط ہوتا ہے، بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ قبل کا حصہ قبل بعثت سے متعلق ہے یا اوائل بعثت سے اور بعد کا حصہ بعد وفات رسولؐ سے متعلق ہے۔ یہ بھی دیکھنے والے کے ذوق پر بار ہو جایا کرتا ہے، مگر اس سے بھی اس مقصد کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اگر سیّد رضیؒ کا کلام ہوتا تو فطری طورپر اس میں تسلسل ہوتا یا ا گر انہیں دو موضوعوں پر لکھنا ہوتا تو اسے وہ دو خطبوں میں مستقل طورپر تحریر کرتے، لیکن وہ کیا کرتے جبکہ انہیں کلام امیر المومنینؑ ہی کا انتخاب پیش کرنا تھا۔ اس لئے جہاں خطبہ کا پہلا جز اور آخر کا جز دو مختلف موضوعوں سے متعلق ہے اور درمیان کا حصہ کسی وجہ سے وہ درج نہیں کر رہے ہیں تو نہ وہ اس کو کلام واحد بنا سکتے ہیں نہ مستقل دو خطبے بلکہ انہیں ایک ہی کلام میں ’’وَ مِنْہَا‘‘ کے فاصلے قائم کرنا پڑتے ہیں۔
میرا خیال یہ ہے کہ یہ شکل بعض جگہ تو انتخاب کی وجہ سے ہوئی ہے اور بعض جگہ یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ سابق میں قلمی کتابوں کے سوا کوئی دوسری شکل مواد کے فراہم ہونے کی نہ ہوتی تھی اور قلمی کتابوں کے اکثر نسخے منحصر بفرد ہوتے تھے۔ اب اگر ان میں درمیان کا حصہ کرم خوردہ ہو گیا ہے یا اوراق ضائع ہو گئے ہیں یا رطوبت سے روشنائی پھیل جانے کی وجہ سے وہ ناقابل قرائت ہے تو علامہ سیّد رضیؒ اس موقع پر درمیان کا حصہ نقل کرنے سے قاصر رہے ہیں اور حرص جمع و حفاظت میں انہوں نے اس کے قبل یا بعد یا وسط کے وہ سطور تلاش کئے ہیں جو کسی مستقل مفاد کے حامل ہیں اور اس طرح درمیان کے حصوں میں انہوں نے ’’ وَ مِنْہَا‘‘ کہہ کر اس کے درج کرنے سے عاجزی ظاہر کی ہے۔ یہ بھی ہے کہ اس وقت علم کا ایک بڑاذخیرہ حفاظ و ادباء و محدثین کے سینوں میں ہوتا تھا۔ فرض کیجئے کسی اپنے استاد اور شیخ حدیث سے علامہ سیّد رضیؒ نے کسی موقع کی مناسبت سے خطبہ کا ابتدائی حصہ سن لیا اور انہوں نے اسے فوراً قلم بند کر لیا، پھر دوسرے موقعہ پر انہوں نے ان کی زبان سے اسی خطبہ کے کچھ دوسرے فقرات سنے اور انہیں محفوظ کر لیا اور اتنا موقعہ نہ مل سکا کہ درمیانی اجزا اِن سے دریافت کرکے لکھتے۔ اس طرح انہوں نے اس کی خانہ پری ’’ وَ مِنْہَا‘‘ کے ذریعہ سے کی۔ یہ بھی اس کی دلیل قوی ہے کہ انہوں نے اصل کلام امیر المومنینؑ کے ضبط و حفظ ہی کی کوشش کی ہے، قطعاً کوئی تصرف خود نہیں کرنا چاہا۔
تیسرا شاہد اس کا خود جناب رضیؒ کے وہ مختصر تبصرے ہیں جو کہیں کہیں کچھ خطبوں کے بعد انہوں نے اس کلام کے متعلق اپنے احساسات و تاثرات کے اظہار پر مشتمل درج کر دیئے ہیں یا بعض جگہ کچھ الفاظ کی تشریح ضروری سمجھی ہے۔ ان تبصروں کی عبارت نے ان خطبوں سے متصل ہو کر ہر صاحب ذوق عربی دان کیلئے یہ اندازہ قطعی طور پر آسان کردیا ہے کہ ان تبصروں کا انشاء پرداز وہ ہرگز نہیں ہو سکتا، جو ان خطبوں کا انشاء پرداز ہے۔ جس طرح خود علامہ رضیؒ نے اپنی مایہ ٴ ناز تفسیر حقائق التنزیل میں اعجازِ قرآن کے ثبوت میں پیش کیا ہے کہ باوجودیکہ امیر المومنینؑ کا کلام جو فصاحت و بلاغت میں ما فوق البشر ہے مگر جب خود حضرتؑ کے کلام میں کوئی قرآن کی آیت آ جاتی ہے تو وہ اس طرح چمکتی ہے جس طرح سنگریزوں میں گوہر شاہوار، بالکل اسی شکل سے اگرچہ علامہ سیّد رضیؒ اپنے دور کے افصح زمانہ تھے اور ادب عربی میں معراج کمال پر فائز تھے، مگر نہج البلاغہ میں امیر المومنین ؑکے کلام کے بعد جب ان کی عبارت آ جاتی ہے تو ہر دیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ اس کی نگاہ بلندیوں سے گر کر نشیب میں پہنچ چکی ہے۔ حالانکہ ان عبارتوں میں علامہ سیّد رضیؒ نے ادبیت صرف کی ہے اور اپنی حد بھر اپنی قابلیت دکھائی ہے، مگر سابق کلام کی بلندی کو ہر مطالعہ کرنے والے کیلئے ایک امرِ محسوس کی حیثیت سے ظاہر کردیا۔ یہ بھی ایک بہت بڑا داخلی شاہد ہے، اس تصور کے غلط ہونے کا کہ وہ علامہ سیّد رضیؒ کا کلام ہو۔
چوتھا امر یہ ہے کہ جناب سیّد رضیؒ اپنے دور کے کوئی گمنام شخص نہ تھے۔ وہ دینی و دنیوی دونوں قسم کے ذمہ دار منصبوں پر فائز تھے۔ یہ دور بھی وہ تھا جو مذہب و ملت کے علماء و فضلاء سے بھرا ہوا تھا۔ بغداد سلطنت عباسیہ کا دار السلطنت ہونے کی وجہ سے مرکز علم و ادب بھی تھا۔ خود سیّد رضیؒ کے استاد شیخ مفیدؒ بھی نہج البلاغہ کے جمع و تالیف کے دور میں موجود تھے۔ اس لئے کہ جناب شیخ مفیدؒ علامہ سیّد رضیؒ کی وفات کے بعد تک موجود رہے ہیں اور شاگرد کا انتقال استاد کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا اور معاصرین کو تو ایک شخص کے متعلق الزامات کی تلاش رہتی ہے۔ پھر شریف رضیؓ سے تو خود حکومت وقت کو بھی مخاصمت پیدا ہو چکی تھی، اس محضر پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے جو فاطمیین مصر کے خلاف حکومت نے مرتب کیا تھا اور جس پر علامہ رضیؒ کے بڑے بھائی اور ان کے والد بزرگوار تک نے حکومت کے تشدد کی بنا پر دستخط کر دیئے تھے مگر علامہ سیّد رضیؒ نے عواقب و نتائج سے بے نیاز ہو کر اس پر دستخط سے انکار کردیا تھا۔ علاوہ اس کے کہ اس کردار کا شخص جو صداقت کو ایسے قوی ترین محرکات کے خلاف محفوظ رکھے اس طرح کی چھچھوری بات کر ہی نہیں سکتا کہ وہ ایک پوری کتاب خود لکھ کر امیر المومنین علیہ السلام کی جانب منسوب کر دے جس کا غلط ہونا علمائے عصر سے مخفی نہیں رہ سکتا تھا اور اگر بالفرض وہ ایسا کرتے بھی تو ان کے دور میں ان کے خلاف علمائے وقت اور ارکان حکومت کی طرف سے اس الزام کو شدت سے اچھالا جاتا اور سخت سے سخت نکتہ چینی کی جاتی۔ حالانکہ ہمارے سامنے خود ان کے عصر کے علماء کی کتابیں اور ان کے بعد کے کئی صدی تک کے مصنفین کی تحریرات موجود ہیں، ان میں سے کسی میں کمزور سے کمزور طریقہ پر بھی ان کے حالات زندگی میں اس قسم کے الزام کا عائد کیا جانا یا اس بارے میں ان پر کسی قسم کی نکتہ چینی کا ہونا موجود نہیں ہے۔
اس سے ظاہر ہے کہ یہ صرف بر بنائے جذبات نہج البلاغہ کے بعض مندرجات کوا پنے معتقدات کے خلاف پاکر کچھ متعصب افراد کی بعد کی کارستانی ہے جو انہوں نے نہج البلاغہ کو کلامِ سیّد رضی قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ خود جناب سیّد رضی اعلیٰ اللہ مقامہ کے دور میں اس کے مندرجات کا کلام امیرالمومنینؑ ہونا بلا تفریق فرقہ و مذہب ایک مسلّم چیز تھی اور اسی لئے ان پر اس بارے میں کوئی الزام عائد نہیں کیا جا سکا۔
پانچواں امر یہ ہے کہ سیّد رضی اعلی اللہ مقامہ کے قبل ایسا نہیں ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے خطبوں کا کوئی نام و نشان عالم اسلامی میں نہ پایا جاتا ہو، بلکہ کتب تاریخ و ادب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مسلم الثبوت ذخیرہ بحیثیت خطب امیر المومنین ؑکے سیّد رضیؒ کے قبل سے موجود تھا۔ چنانچہ مؤرّخ مسعودی نے جو علامہ سیّد رضیؒ سے مقدم طبقہ میں ہیں، بلکہ ان کی ولادت کے قبل وفات پا چکے تھے (اس لئے کہ علامہ سیّد رضیؒ کا دور شباب ہی میں ۴۰۶ھ میں ا نتقال ہوا ہے اور مسعودی کی وفات ۳۴۰ھ میں ہو چکی تھی، جس وقت سیّد رضیؒ کے استاد شیخ مفیدؒ ہی نہیں، بلکہ ان کے بھی استاد شیخ صدوق محمد بن علی ابن بابویہ قمیؒ بھی زندہ تھے)، مسعودی نے اپنی تاریخ مروج الذہب میں لکھا ہے کہ:
وَ الَّذِیْ حَفِظَ النَّاسُ عَنْہُ مِنْ خُطُبِہٖ فِیْ سَآئِرِ مَقَامَاتِہٖ اَرْبَعَمِائَۃِ خُطْبَۃٍ وَّ نَیِّفٍ وَّ ثَمَانُوْنَ خُطْبَۃً یُّوْرِدُھَا عَلَی الْبَدِیْھَۃِ تَدَاوَلَ النَّاسَ ذٰلِکَ عَنْہُ قَوْلًا وَّ عَمَلًا.
لوگوں نے آپ ؑ(حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ) کے جو خطبے مختلف موقعوں کے محفوظ کر لئے ہیں، وہ چار سو اسی (۴۸۰)سے کچھ زیادہ تعداد میں ہیں جنہیں آپؑ نے فی البدیہ ارشاد فرمایا تھا، جنہیں لوگوں نے نقل قول کے طور بھی بتواتر نقل کیا ہے اور اپنے خطب و مضامین میں ان کے اقتباسات وغیرہ سے بکثرت کام بھی لیتے رہے ہیں۔
( مروج الذہب، ج ۲، ص ۳۳، طبع مصر)
ظاہر ہے کہ یہ چار سو اسّی (۴۸۰)سے کچھ اوپر خطبے ا گر تمام و کمال یکجا کئے جائیں تو بلا شبہ نہج البلاغہ سے بڑی کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ جب یہ ا تنا بڑا ذخیرہ سیّد رضیؒ کی ولادت سے پہلے سے موجود تھا تو پھر علامہ سیّد رضیؒ کو اس کی ضرورت ہی کیا تھی کہ اس ذخیرہ سے کام نہ لیں اور اپنی طرف سے نہج البلاغہ ایسی کتاب کو تحریر کر دیں۔ ایسا اس شخص کیلئے کیا جاتا ہے جو گمنام ہو اور جس کا کارنامہ کوئی موجود نہ ہو اور اس کے اخلاف یا منتسبین خواہ مخواہ اس کو نمایاں بنانے کیلئے اس کی جانب سے کوئی کارنامہ تصنیف کر دیں۔
صرف علامہ مسعودی کا یہ قول ہی اس ذخیرہ کے ثبوت کیلئے کافی تھا، جبکہ اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ ذخیرہ آثار قدیمہ کے طورپر کسی دور دراز عجائب خانہ یا کسی ایک عالم کے متروکات میں شامل نہیں تھا جس تک رسائی کسی زحمت کی طلبگار ہوتی ہو، بلکہ ’’حَفِظَ النَّاسُ‘‘ اور ’’ تَدَاوَلَ النَّاسَ‘‘ کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ وہ عموماً اہل علم کے ہاتھوں میں موجود اور متد اول تھا۔ اس کے علاوہ دور عباسیہ کے یگانۂ روزگار کاتب عبد الحمید بن یحیی متوفی ۱۳۲ھ کا یہ مقولہ علامہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں درج کیا ہے کہ:
حَفِظْتُ سَبْعِيْنَ خُطْبَةً مِّن خُطَبِ الْاَصْلَعِ فَفَاضَتْ ثُمَّ فَاضَتْ.
میں نے ستر خطبے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ازبر کئے ہیں، جن کے فیوض و برکات میرے یہاں نمایاں ہیں۔( شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۲۴)
اس کے بعد ابن المقفع متوفی ۱۴۲ ھ کا اعتراف ہے جسے علامہ حسن الندوبی نے اپنے ان حواشی میں، جو کتاب ’’البیان والتبیین للجاحظ‘‘ پر لکھے ہیں۔ وہ ابن مقفع کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَالظَّاهِرُ اَنَّهٗ تَخَرَّجَ فِی الْبَلَاغَةِ عَلٰى خُطَبِ الْاِمَامِ عَلِیٍّ ؑ وَلِذٰلِکَ كَانَ يَقُوْلُ: شَرِبْتُ مِنَ الْخُطَبِ رَيًّا وَّلَمْ اَضْبَطْ لَهَا رَوِيًّا فَفَاضَتْ ثُمَّ فَاضَتْ.
غالباً ابن مقفع نے بلاغت میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خطبوں سے استفادہ کیا تھا اور اسی بنا پر وہ کہتے تھے کہ: میں نے خطبوں کے چشمہ سے سیراب ہوکر پیا ہے اور اسے کسی ایک طریقہ میں محدود نہیں رکھا ہے تو اس چشمہ کے برکات بڑھے اور ہمیشہ بڑھتے رہے۔
اس کے بعد ابن نباتہ متوفی ۳۷۴ھ۔ یہ بھی سیّد رضیؒ سے مقدم ہیں اور ان کا یہ قول ہے:
حَفِظْتُ مِنَ الْخِطَابَةِ كَنْزًا لَّا يَزِيْدُهُ الْاِنْفَاقُ اِلَّا سَعَةً وَّ كَثْرَةً، حَفِظْتُ مِائَةَ فَصْلٍ مِنْ مَوَاعِظِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ۔
میں نے خطابت کا ایک خزانہ محفوظ کیا ہے، جس سے جتنا زیادہ کام لیا جائے، پھر بھی اس میں برکت زیادہ ہی ہوتی رہے گی۔ میں نے سو فصلیں علیؑ ابن ابی طالبؑ کے مواعظ میں سے یاد کی ہیں۔( البیان و التبیین، ج ۱، حاشیہ بر حالات عبد اللہ بن المقفع)
ابن نباتہ کے اس قول کا بھی ابن ابی الحدید نے تذکرہ کیا ہے۔
رجال کشی میں ابو الصباح کنانی کے حالات میں لکھا ہے کہ: زید بن علیؑ ابن الحسینؑ کہ جو ’’زید شہید‘‘ کے نام سے مشہور ہیں اور جن کی شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانۂ امامت میں ہوئی، وہ برابر امیرالمومنین علیہ السلام کے خطبوں کو سنا کرتے تھے۔ابو الصباح کہتے ہیں:
کَانَ يَسْمَعُ مِنِّیْ خُطَبَ اَمِيرِْ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ. رجال کشی، ص ۲۲۴
زید شہید مجھ سے امیر المومنین علی علیہ السلام کے خطبات سنا کرتے تھے.
یہ دوسری صدی ہجری کا ذکر ہے اور اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ ایک ذخیرہ خطبوں کا اس وقت بھی موجود تھا جو مسلم طور پر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف نسبت رکھتا تھا۔
ان تمام مقامات پر بطور ارسال مسلمات، ’’خطب علیؑ‘‘ کہنا بتاتا ہے کہ اس زمانے میں اس بارے میں کوئی شک و شبہ بھی محسوس نہیں کیا جاتا تھا۔ ورنہ جیسا کئی صدی بعد جب کچھ اغراض کی بنا پر مصنفین نے اس حقیقت کو مشکوک بنانا ضروری سمجھا تو ’’اَلْمَنْسُوْبَۃُ اِلٰی عَلِیٍّ‘‘ کہنے لگے۔ دورِ اوّل میں اس قسم کے شک و شبہ کے اظہار کرنے والی کوئی لفظ پائی نہیں جاتی۔
رجال کبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ زید ابن وہب جہنی متوفی حدود ۹۰ھ نے جو خود حضرت امیر المومنینؑ کے رواۃِ احادیث میں سے ہیں، آپؑ کے خطبوں کو جمع کیا تھا اور اس کے بعد اور متعدد افراد ہیں، جنہوں نے سیّد رضیؒ سے پہلے حضرتؑ کے خطب و اقوال کو جمع کیا جیسے:
۱۔ ہشام ابن محمد ابن سائب کلبی متوفی ۱۴۶ھ۔ ان کے جمع و تالیف کا ذکر فہرست ابن ندیم ج،۷، ص ۲۵۱ میں موجود ہے۔
۲۔ ا براہیم ابن ظہیر فرازی۔ ان کا ذکر فہرست طوسیؒ میں یوں ہے:
صَنَّفَ كُتُبًا مِّنْهَا كِتَابُ الْمَلَاحِمِ، وَ كِتَابُ خُطَبِ عَلِىٍّ ؑ
متعدد کتابیں تصنیف کیں، منجملہ ان کے کتاب ’’الملاحم ‘‘ اور کتاب ’’خطب علیؑ‘‘ ہے۔) الفہرست، ص ۳۵۔(
اور رجال نجاشیؒ میں بھی ان کا تذکرہ ہے۔
۳۔ ابو محمد مسعدہ بن صدقہ عبدی۔ ان کے متعلّق رجال نجاشی میں ہے:
لَہٗ کُتُبٌ مِّنْھَا کِتَابُ خُطَبِ اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ
ان کے متعدد تصنیفات ہیں جن میں سے ایک ’’کتاب خطب علیؑ ‘‘ہے۔ رجال نجاشی، ص ۱۵
۴۔ ابو القاسم عبد العظیم ابن عبد اللہ حسنی جن کا مزار تہران سے تھوڑے فاصلہ پر ’’شاہ عبد العظیم‘‘ کے نام سے مشہور ہے، یہ امام علی نقی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے۔ ان کے جمع کردہ خطبوں کاذکر رجال نجاشی میں اس طرح آیا ہے:
لَهُ كِتَابُ خُطَبِ اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ۔
ان کی ایک کتاب ’’ خطب امیر المومنینؑ‘‘ ہے۔رجال نجاشی، ص ۲۴۷
۔ ابو الخیر صالح ابن ابی حماد رازی۔ یہ بھی امام علی نقی علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں۔ نجاشی میں ہے:
لَهٗ كُتُبٌ مِّنْهَا كِتَابُ خُطَبِ اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ‏ ؑ۔
منجملہ آپ کی تالیفات کے کتاب ’’خطب امیر المومنینؑ‘‘ ہے۔ )رجال نجاشی، ص ۱۹۸
۶۔ علی ابن محمد ابن عبد اللہ مدائنی متوفی ۳۳۵ھ۔ انہوں نے حضرتؑ کے خطبوں کو اور ان مکاتیب کو جمع کیا جو حضرتؑ نے اپنے عمال کو تحریر فرمائے تھے۔ اس کا ذکر معجم الادباء، یاقوت حموی جزو ۵، ص ۳۱۳ میں ہے۔
۷۔ ابو محمد عبد العزیز جلودی بصری متوفی ۳۳۰ھ کے تصانیف میں کتاب خطب علیؑ،کتاب رسائل، کتاب مواعظِ علیؑ، کتاب خطب علیؑ فی الملاحم، کتاب دُعاء علیؑ موجود ہیں جن کا تذکرہ شیخ طوسیؒ نے فہرست میں اور نجاشیؒ نے ان کے طویل تصنیفات کے ذیل میں اپنے رجال میں کیا ہے۔
۸۔ ابو محمد حسن بن علی ابن شعبہ حلبی متوفی ۳۲۰ ھء نے اپنی مشہور کتاب ’’تحف العقول‘‘ میں امیر المومنین علیہ السلام کے کچھ کلمات، امثال اور خطب کو درج کرنے کے بعد لکھا ہے:
اِنَّنَا لَوِ اسْتَغْرَقْنَا جَمِيْعَ مَا وَصَلَ اِلَيْنَا مِنْ خُطُبِهٖ وَ كَلَامِهٖ فِی التَّوْحِيْدِ خَاصَّةً دَوْنَ مَا سِوَاهُ مِنَ الْمَعَانِیْ لَكَانَ مِثْلَ جَمِيْعِ هٰذَا الْكِتَابِ‏.
اگر ہم وہ سب لکھنا چاہیں جو ہم تک حضرت علی علیہ السلام کے خطبے اور آپؑ کا کلام صرف توحید کے بارے میں پہنچا ہے، علاوہ دوسرے موضوعات کے تو وہ پوری اس کتاب (تحف العقول)کے برابر ہو گا۔( تحف العقول، ص ۱۳، طبع ایران۔)
اب مذکورہ بالا تفصیل پر نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ:
پہلی صدی میں ’’زید بن وہب جہنی‘‘ نے حضرتؑ کے خطبوں کا ایک مجموعہ تیار کیا تھا۔
دوسری صدی میں ’’عبد الحمید ابن یحیی کاتب‘‘ اور ’’ابن مقفع‘‘ کے دور میں وہ ذخیرہ مسلّم طورپر موجود تھا اور اس صدی کے وسطی دور دورکےمیں وہ خطبے پڑھے اور سنے جاتے تھے، جیسا کہ زید شہیدؒ کے واقعہ سے ظاہر ہوا اور ادباء اس کو زبانی حفظ کرتے تھے، جیسا کہ عبد الحمید اور ابن مقفّع کے تصریحات سے ظاہر ہوا۔
اور تیسری صدی میں متعدد مصنفین نے جو جو خطبے ان تک پہنچے تھے، ان کو مدوّن کیا۔ ایسی صورت میں جناب سیّد رضیؒ کو اس کی ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ ان تمام ذخیروں کو نظر انداز کر کے یہ دماغی کاوش و کاہش گوارا کریں کہ وہ از خود کلام امیر المومنینؑ کے نام سے کوئی چیز تصنیف کریں۔
چھٹا امر یہ ہے کہ ان تمام ذخیروں کے سابق سے موجود ہونے کے بعد ظاہر ہے کہ علامہ سیّد رضیؒ کیلئے یہ تو قطعی ممکن نہیں تھا کہ وہ ان تمام ذخائر کو تلف کرا دیتے اور پھر اسی کی ترویج کرتے جو انہوں نے کلامِ امیر المومنینؑ قرار دیا تھا۔ یہ قطعی ناممکن تھا۔ اگر وہ ذخیرہ کسی ایک مصنف کے پاس، کسی ایک دور دراز جگہ ہوتا، تو یہ امکان بھی تھا، جیسا کہ مشہور ہے کہ شیخ ابو علی سینا نے فارابی کی تمام مصنفات کو کسی شخص سے حاصل کرکے انہیں تلف کر دیا اور ان چیزوں کو اپنی طرف منسوب کر لیا۔ یہاں یہ صورت قطعاً ناممکن تھی، جبکہ وہ کلام ادباء کے سینوں میں محفوظ تھا، اطراف و اقطار عالم اسلامی میں منتشر تھا اور بہت سے مصنّفین اس کی تدوین کر چکے تھے۔ پھر جبکہ سیّد رضیؒ کی تصنیف کے ساتھ ان ذخائر کا موجود ہونا لازمی تھا تو اگر سیّد رضیؒ کا جمع کردہ کلام اس ذخیرہ سے مختلف ہوتا یا اسلوب بیان میں اس سے جدا ہوتا تو وہ تمام ادبائے زمانہ، خطبائے روزگار، علمائے وقت جو اس کلام کود یکھے ہوئے، پڑھے ہوئے یا یاد کئے ہوئے تھے، صدائے احتجاج بلند کر دیتے، ان میں تلاطم ہو جاتا اور سیّد رضیؒ تمام دنیا میں اس کی وجہ سے بدنام ہو جاتے۔ کم از کم کوئی ان کے ہم عصر ادباء میں سے اس کی تنقید ہی کرتا ہوا ایک کتاب ہی اس موضوع پر لکھ دیتا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کا جو کلام اب تک محفوظ رہا یہ سیّد رضیؒ کے جمع کئے ہوئے ذخیرہ سے مختلف ہے۔ خصوصاً جب وہ وجہ جو بعد میں ایک طبقہ کو اس باب میں انکار یا تشکیک کی موجب ہوئی، جس کی تفصیل کسی حد تک آئندہ درج ہو گی۔ وہ ایک مذہبی بنیاد تھی، یعنی یہ کہ نہج البلاغہ میں ان افراد کے بارے میں جنہیں سواد اعظم قابل احترام سمجھتا ہے کچھ تعریضات یا انتقادی کلمات ہیں۔
ظاہر ہے کہ نہج البلاغہ سلطنت عباسیہ کے دار السلطنت میں لکھی گئی جو اہل سنت کا علمی مرکز تھا۔ اس وقت بڑے بڑے علما، حفاظ، ادباء، خطباء، اہل سیر اور محدثین اہل سنت میں موجود تھے اور ان کا جم غفیر خاص بغداد میں موجود تھا۔ اگر امیر المومنین علیہ السلام کے وہ خطبات جو ابن مقفع، ابن نباتہ، عبدالحمید ابن یحیی، جاحظ اور دیگر مسلّم الثبوت ادباء کے دور میں موجود تھے، ان تعریضات سے خالی تھے اور اس قسم کے مضامین ان میں نہ تھے، بلکہ فطری طورپر اس صورت میں اس کے خلاف چیزوں پر انہیں مشتمل ہونا چاہیے تھا، تو اس وقت کے اہل سنت کے علماء اس پر قیامت برپا کر دیتے اور اس کو اپنے مذہب کے خلاف ایک عظیم حملہ تصور کر کے پورے طور سے اس کا مقابلہ کرتے اور اس کی دھجیاں اُڑا دیتے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، کوئی دھیمی سی آواز بھی اس کے خلاف بلند نہیں ہوئی۔ یہ اس کا قطعی ثبوت ہے کہ سیّد رضیؒ کے جمع کردہ مجموعہ میں کوئی نئی چیز نہ تھی، بلکہ وہ وہی تھا جو اس کے پہلے مضبوط و مدون، متداول و محفوظ رہا تھا، علماء قطعاً اس سے اجنبیت نہ رکھتے تھے، بلکہ اس سے مانوس اور اس کے سننے کے اور یاد کرنے کے عادی تھے۔ وہ اس ادبی ذخیرہ کو اس کی ادبی افادیت کے اعتبار سے سر آنکھوں پر رکھتے تھے اور اس تنگ نظری میں مبتلا نہ تھے کہ چونکہ اس میں کچھ چیزیں ہمارے مذہب کے خلاف ہیں، اس لئے اس کا انکار کیا جائے یا اس سے اجنبیت برتی جائے۔
ساتواں امر یہ ہے کہ بہت سی کتابیں علامہ سیّد رضیؒ کے قبل کی اس وقت بھی ایسی موجود ہیں،جن میں امیر المومنین علیہ السلام کے اکثر مواقع کے کلام یا خطبات کو کسی مناسبت سے ذکر کیا ہے جیسے:
جاحظ متوفی ۲۵۵ ھ کی ’’البیان والتبیین‘‘،ابن قتیبہ دینوری متوفی ۲۷۶ ھ کی ’’عیون الاخبار و غریب الحدیث‘‘،ابن واضح یعقوبی متوفی ۲۷۸ ھ کی مشہور ’’تاریخ ‘‘،ابوحنیفہ دینوری متوفی ۲۸۰ ھ کی ’’الاخبار الطوال‘‘،ابوالعباس المبرد متوفی ۲۸۶ ھ کی ’’کتاب المبرد‘‘،مشہور مؤرخ ابن جریر طبری متوفی ۳۱۰ھ کی ’’تاریخ کبیر‘‘،ابن درید متوفی ۳۲۱ھء کی کتاب’’ المجتنی‘‘، ابن عبد ربہ متوفی ۳۲۸ ھ کی ’’عقد الفرید‘‘، ثقۃ الاسلام کلینی متوفی ۳۲۹ ھ کی مشہور کتاب ’’الکافی ‘‘،مسعودی متوفی ۳۴۶ ھ کی تاریخ ’’مروج الذہب‘‘،ابو الفرج اصفہانی متوفی ۳۵۶ ھ کی کتاب ’’اغانی ‘‘،ابو علی قالی متوفی ۳۵۶ ھ کی کتاب ’’النوادر ‘‘،شیخ صدوق متوفی ۳۸۱ ھ کی کتاب ’’التوحید ‘‘ اور ان کے دوسرے جوامع حدیث۔،شیخ مفید رحمہ اللہ، متوفی ۴۱۶ ھ (اگرچہ تاریخ وفات کے اعتبار سے جناب رضیؒ سے مؤخر ہیں مگر ان کے استاد ہونے کی وجہ سے طبقۃً مقدم ہیں( ان کی کتب ’’الارشاد ‘‘ اور ’’کتاب الجمل‘‘ و ……ہیں)۔
ان تمام کتابوں میں جو حضرت کے خطبے درج ہیں، ان کا جب مقابلہ علامہ سیّد رضیؒ کے مندرجہ خطب اور اجزاء کلام سے کیا جاتا ہے تو اکثر تو وہ بالکل متحد ہوتے ہیں اور نہج البلاغہ میں ایسا درج شدہ کلام اگر کوئی ہے جو ان کتابوں میں درج نہیں ہے یا ان کتابوں میں کوئی کلام ایسا ہے جو نہج البلاغہ میں مذکور نہیں ہے تو اسلوب بیان اور انداز کلام، تسلسل و بلند آہنگی، جوش و حقائق نگاری کے لحاظ سے یقیناًمتحد ہوتا ہے، جس میں کسی واقف عربیت کو شک نہیں ہو سکتا۔ امیر المومنین علیہ السلام کے اس کلام کا جو نہج البلاغہ میں درج ہے اس تمام کلام سے جو حضرتؑ کی طرف نسبت دے کر اور دوسری کتابوں میں درج ہے متحد الاسلوب ہونا، پھر اس پہلو کے ضمیمہ کے ساتھ جس کا پہلے تذکرہ ہو چکا ہے کہ وہ خود سیّد رضیؒ کے اس کلام سے جو نہج البلاغہ میں بطور مقدمہ یا تبصرہ موجود ہے، بالکل مختلف ہونا، ایک غیر جانبدار شخص کیلئے اس کا کافی ثبوت ہے کہ یہ واقعی امیر المومنین علیہ السلام ہی کاکلام ہے جسے علامہ سیّد رضیؒ نے صرف جمع کیا ہے۔
آٹھواں امر یہ ہے کہ خود علامہ سیّد رضیؒ کے معاصرین یا ان سے قریب العہد متعدد لوگوں نے بطور خود بھی کلام امیر المومنینؑ کے جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور بعض نے اپنی کتابوں کے ضمن میں درج کیا ہے جیسے:ابن مسکویہ متوفی ۴۲۱ ھء نے ’’تجارب الامم‘‘ میں، حافظ ابو نعیم اصفہانی متوفی ۴۳۰ ھ نے ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ میں، شیخ الطائفہ ابوجعفر طوسی متوفی ۴۶۰ ھ نے (جو شیخ مفید رحمہ اللہ سے تلمذ کی حیثیت سے علامہ رضیؓ کے ہم طبقہ اور علم الہدیٰ سیّد مرتضیٰ ؒکے شاگرد ہونے کی حیثیت سے اور نیز سال وفات کے ا عتبار سے ان سے ذرا مؤخر ہیں(اپنی کتاب، ’’تہذیب‘‘ اور کتاب ’’الامالی‘‘ میں، نیز عبد الواحد ابن محمد ابن عبد الواحد آمدی جواسی عصر کے تھے اپنی مستقل کتاب ’’غرر الحکم و درر الکلم‘‘ جو امیر المومنین علیہ السلام کے مختصر کلمات پر مشتمل ہے اور مصر وصیدا اور ہندوستان میں طبع ہو چکی ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
نیز ابو سعید منصور ابن حسین آبی وزیر متوفی ۴۲۲ھ اپنی کتاب ’’نزہۃ الادب و نثر الدرر‘‘ میں جس کا ذکر ’’کشف الظنون‘‘ باب النون میں ہے اور قاضی ابو عبد اللہ محمد بن سلامہ قطاعی شافعی متوفی ۴۵۳ھ جن کی عظیم الشان کتاب اس موضوع پر ’’دستور معالم الحکم‘‘ کے نام سے ہے اور وہ مصر میں طبع ہو چکی ہے، یہ سب تقریباً سیّد رضیؒ کے معاصرین ہی ہیں، ان سب کی کاوشیں ہمارے سامنے موجود ہیں، سوائے ابو سعید منصور کی کتاب کے جس کا کشف الظنون میں تذکرہ ہے، باقی یہ سب کتابیں مطبوع و متداول ہیں، ان میں جو کلام مندرج ہے وہ بھی علامہ سیّد رضیؒ کے درج کردہ کلام سے عیناً متحد یا اسلوب میں متفق ہی ہے۔
پھر اگر سیّد رضیؒ کی نسبت یہ تصور کیا جائے کہ انہوں نے خود اس کلام کو تصنیف کردیا ہے تو ان تمام جامعین اور اپنی کتابوں کے ضمن میں درج کرنے والے دوسرے افراد کو کیا کہا جائے گا۔ پھر ان کی نسبت بھی یہی تصور کرنا چاہیے، جبکہ ان میں سے سب یا زیادہ افراد یقینا ًجلالت شان اور ورع و تقویٰ وغیرہ میں علامہ سیّد رضیؒ سے بالا تر نہیں معلوم ہوتے۔
اب اگر ان سب کی نسبت یہی خیال کیا جائے، تو خیر علامہ سیّد رضیؒ تو اشعر الطالبین تھے اور کتب سیرانہیں خود ادبیت اور فصاحت و بلاغت میں معراج کمال پر ظاہر کرتے ہیں ، مگر ان میں سے ہر شخص کی نسبت تو یہ تصور قطعی غلط ہے کہ وہ سب علامہ سیّد رضیؒ ہی کے ادبی حیثیت سے ہم پایہ تھے، پھر ایسے مختلف المرتبہ اشخاص کی ذہنی کاوشوں اور قلمی ثمرات میں اتنا ہی فرق کیوں نہیں ہے، جو خود ان اشخاص کے مبلغ علمی میں یقینی طورپر پایا جاتا ہے۔ اشخاص کہ جو کلام کے جمع کرنے والے ہیں، ان میں آپس میں زمین و آسمان کا فرق اور کلام جو انہوں نے جمع کیا ہے وہ سب ایک ہی مرتبہ ، ایک ہی شان کا، اسے دیکھتے ہوئے سوائے ایسے شخص کے جو جان بوجھ کر حقیقت کے انکار کرنے پر تلا ہوا ہو اور کسی کو اس میں شک و شبہ بھی باقی نہیں رہ سکتا کہ ان اشخاص کا کارنامہ صرف جمع و تالیف ہی ہے، جس میں ان کے سلیقہ اور ذوق کا اختلاف فقط شان ترتیب اور عنوان تالیف میں نمودار ہوتا ہے، لیکن اصل کلام میں ان کی ذاتی قابلیت، ذہانت اور مبلغ علمی اور معیار ادبی کو ذرّہ برابر بھی دخل نہیں ہے۔
نواں امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا افراد اگرچہ اپنے زمانۂ حیات کے کچھ حصوں میں علامہ سیّد رضیؒ سے متحد ہیں، مگر ان میں سے متعدد افراد کے سال وفات کو دیکھتے ہوئے یہ یقین ہے کہ ان کا زمانہ جمع وتالیف نہج البلاغہ سے مؤخر ہے اور اس کے بعد ایک ایسا طبقہ ہے جو بالکل علامہ سیّد رضیؒ سے مؤخر ہی ہے۔ جیسے ابن ابی الحدید متوفی ۶۵۵ھ، سبط ابن جوزی متوفی ۶۰۶ھ اوراس کے بعد بہت سے مصنفین۔ ظاہر ہے کہ علامہ رضیؒ کی کتاب نہج البلاغہ گوشۂ گمنامی میں اور ان لوگوں سے مخفی نہ تھی۔ ان لوگوں کا محرک اس جمع و تالیف پر صرف یہ تھا کہ علامہ سیّد رضیؒ نے انتخاب سے کام لیتے ہوئے یا ماخذوں کی کمی سے یا ان نسخوں کے کرم خوردہ یا ناقص ہونے کی وجہ سے جو ان کے پاس تھے، بہت سے اجزائے کلام امیر المومنینؑ کے نقل نہیں بھی کئے تھے۔ اس لئے مصنفین کو مستدرک اور مستدرک در مستدرک کی ضرورت پڑتی رہی، جس کا سلسلہ ماضی قریب میں علامہ شیخ ہادی آل کاشف الغطاءؒ تک جاری رہا جنہوں نے ’’مستدرک نہج البلاغہ‘‘ تحریر فرمایا جو نجف اشرف میں طبع ہو چکا ہے۔
اگر علامہ سیّد رضیؒ کے قریب العہد یا ان کے بعد کے اہل قلم میں کسی کو بھی نہج البلاغہ کے مندرجہ کلمات و خطب میں یہ خیال ہوتا کہ یہ جناب سیّد رضیؒ نے تصنیف کر کے اس میں شامل کر دیئے ہیں تو وہ سب بالخصوص معاصرین جو کسی رعایت کیلئے کبھی تیار نہیں ہوتے، اپنی کتابوں کی وجہ تالیف میں اس کا تذکرہ ضروری سمجھتے کہ چونکہ اس کے قبل جو کتاب امیر المومنینؑ کے خطبوں پر مشتمل کہہ کر لکھی گئی ہے اس میں آپؑ کا اصل کلام موجود نہیں ہے، بلکہ وہ ساختہ و پرداختہ اور وضعی ہے، اس لئے ہمیں ضرورت محسوس ہوئی کہ ہم آپؑ کا اصلی کلام منظر عام پر لائیں، جبکہ ایسا نہیں ہوا اور یہ بالکل مشاہدہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ان سب کے نزدیک علامہ سیّد رضیؒ نے جو کلام جمع کیا وہ بلاشبہ کلام امیر المومنینؒ کی حیثیت سے اس کے پہلے سے مدوّن و متداول تھا اور ان کو سیّد رضیؒ سے شکایت صرف بعض خطبوں کو چھوڑ دینے یا احاطہ و استقصاء نہ کرنے یا شان ترتیب و عنوان تالیف میں کسی مناسب تر صورت کو اختیار نہ کرنے ہی کی تھی جس کیلئے انہوں نے بھی اس بارے میں کوشش ضروری سمجھی، جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور ممکن ہے کہ بعض مصنفین اب بھی کسی خاص ترتیب سے نہج البلاغہ کے مندرجہ خطب کو دیکھنے کے متمنی ہوں۔ یہ دوسری چیز ہے اورا صل کلام کے بارے میں کسی شک و شبہ کا رکھنا دوسری چیز ہے۔
دسواں امر یہ ہے کہ تلاش کی جائے تو نہج البلاغہ کے مندرجہ خطب و اقوال کا پتہ اب بھی بعیون الفاظہا نہج البلاغہ کے قبل تالیف شدہ کتابوں میں مل جاتا ہے اور جبکہ اکثر حصہ اس کا قبل کی کتابوں میں مندرج موجود ہے تو تھوڑا سا حصہ اگر دستیاب نہ بھی ہو تو ایک معتدل ذہن میں اس سے کوئی شک و شبہ پیدا نہیں ہو سکتا، جبکہ یہ معلوم ہے کہ دنیا میں مختلف حوادث کے ذیل میں کتابوں کے اتنے ذخیرے تلف ہوئے ہیں جو اگر موجود ہوتے تو یقیناً موجودہ ذخائر سے بدرجہا زیادہ ہوتے۔ خود تاریخ نے کلام امیر المومنینؑ کے جن جمع شدہ ذخیروں کا پتا علامہ سیّد رضیؒ کے قبل ہم تک پہنچا دیا ہے وہی سب اس وقت کہاں موجود ہیں؟ اس لئے اگر بعض مندرجات رائج الوقت کتابوں میں نہیں بھی ملتے تو ذہن یہی فیصلہ کرتا ہے کہ ان کتابوں میں موجود ہوں گے، جن تک ہماری اس وقت دسترس نہیں ہے۔ نہج البلاغہ کے مندرجات کے ان حوالوں کو پہلے علامہ شیخ ہادی کاشف الغطاءؒ نے مستدرک نہج البلاغہ کے اثناء تالیف ہی میں مدارک نہج البلاغہ کے نام سے مرتب کیا تھا، جو غالباً مکمل شائع نہیں ہوا ہے اور ایک قابل قدر کوشش رامپور کے ایک سنی فاضل عرشی صاحب نے کی ہے جو ’’فاران ‘‘ کراچی میں مقالہ کی صورت میں شائع ہوئی ہے اور مزید تلاش کی جائے تو اس سلسلہ میں مزید کامیابی کا بھی امکان ہے۔
گیارہواں امریہ ہے کہ محققین علمائے شیعہ کا رویہ دیکھا جائے تو وہ ہر اس کتاب یا مجموعہ کو جو معصومین علیہ السلام میں سے کسی کی طرف منسوب ہو بلا چون و چرا صرف اس لئے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوجاتے کہ وہ معصومین علیہ السلام کی جانب منسوب ہے، بلکہ وہ پوری فراخ حوصلگی کے ساتھ محققانہ فریضہ کو انجام دیتے ہوئے۔ اگر وہ قابل انکار ہوتا ہے تو کھل کر اس کا انکار کر دیتے ہیں اور اگر مشکوک ہوتا ہے تو شک و شبہ کا اظہار کردیا کرتے ہیں اور اس طرح بہت سے وہ ذخیرے جو کلام معصومینؑ کے نام سے موجود ہیں، مقام اعتبار میں مختلف درجے اختیار کر چکے ہیں۔
مثلاً ’’دیوان امیر المومنینؑ‘‘ بھی تو بطور کلام علیؑ ہی رائج ہے مگر علمائے شیعہ بلا رو رعایت اسے غلط سمجھتے ہیں۔ اس سے بالاتر ذرا درجہ ’’تفسیر امام حسن عسکریؑ‘‘ کا ہے، حالانکہ وہ شہرت میں تقریباً نہج البلاغہ سے کم نہیں ہے اور شیخ صدوقؒ ایسے بلند مرتبہ قدیم محدث نے اس پر اعتماد کیا ہے مگر اکثر علمائے شیعہ اسے تسلیم نہیں کرتے، اثبات میں لکھ دیا ہے۔ ’’فقہ الرضاؑ‘‘، امام رضا علیہ السلام کی طرف منسوب ہے مگر اس کے اعتبار اور عدم اعتبار کی بحث ایک مہتم بالشان علمی مسئلہ بن گئی ہے جس پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اسی طرح ’’جعفریات‘‘ اور امام رضا علیہ السلام کا ’’رسالہ ذہبیہ‘‘ وغیرہ کوئی نقد و بحث سے نہیں بچا ہے۔
اس رویہ کے باوجود سیّد رضیؒ کے بعد سے اس وقت تک کسی دور میں بھی کسی شیعہ عالم کا نہج البلاغہ کے خلاف آواز بلند نہ کرنا اور اس میں ذرہ بھر بھی شک و شبہ کا اظہار نہ کرنا اس کا ثبوت قطعی ہے کہ ان سب کی نظر میں اس کی حیثیت ان تمام مجموعوں سے ممتاز اور جدا گانہ ہے۔ نہج البلاغہ کے ہم پلہ اس حیثیت سے اگر کوئی کتاب ہے تو صرف صحیفہ کاملہ جو اسی طرح مسلم طور پر امام زین العابدین علیہ السلام کے کلام کا مجموعہ ہے اور کوئی کتاب اس ذیل میں ان دونوں کے ہم مرتبہ نہیں ہے۔
مذکورہ بالاوجوہ کا نتیجہ یہ ہے کہ علامہ سیّد رضیؒ کے بعد تقریباً دو ڈھائی سو برس تک نہج البلاغہ کے خلاف کوئی آواز اٹھتے ہوئے معلوم نہیں ہوتی، بلکہ متعدد علمائے اہل سنت نے اس کی شرحیں لکھیں جیسے ابو الحسن علی ابن ابی القاسم بیہقی، متوفی ۵۶۵ھ، امام فخر الدین، متوفی ۶۰۶ھ، ابن ابی الحدید، متوفی ۶۵۵ ھ، علامہ سعد الدین تفتازانی وغیرہ۔
غالباً انہی علمائے اہل سنت کے شروح وغیرہ لکھنے کا یہ نتیجہ تھا کہ عوام میں نہج البلاغہ کا چرچا پھیلا اور اس کے ان مضامین کے بارے میں جو خلفائے ثلاثہ کے بارے میں ہیں اہلسنت میں بے چینی پیدا ہوئی اور اب آپس میں بحثیں شروع ہو گئیں اور اس کی وجہ سے علماء کو اپنے اصولِ عقائد سنبھالنے کیلئے اور عوام کو تسلی دینے کیلئے نہج البلاغہ کے بارے میں شکوک و شبہات اور رفتہ رفتہ انکار کی ضرورت پڑی۔ چنانچہ سب سے پہلے ابن خلکان متوفی ۶۸۱ ھ نے اس کو مشکوک بنانے کی کوشش کی اور علامہ سیّد مرتضیٰؒ کے حالات میں یہ لکھا کہ:
قَدِ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْ كِتَابِ نَهْجِ الْبَلَاغَةِ الْمَجْمُوْعِ مِنْ كَلَامِ الْاِمَامِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ رَضِىَ اللّٰهُ عَنْهُ ، هَلْ هُوَ جَمَعَهٗ ، اَمْ جَمَعَهٗ اَخُوْہُ الرَّضِیُّ ؟ وَقَدْ قِيْلَ : اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ كَلَامِ عَلِیٍّ، وَ اِنَّمَا الَّذِیْ جَمَعَهٗ وَ نَسَبَهٗ اِلَيْهِ هُوَ الَّذِیْ وَضَعَهٗ، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ.
لوگوں میں کتاب نہج البلاغہ کے بارے میں جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کلام کا مجموعہ ہے، اختلاف ہے کہ وہ انہی (سیّد مرتضیٰؒ(کا جمع کردہ ہے یا ان کے بھائی سیّد رضیؒ کا اور بعض کہتے ہیں کہ: یہ جناب امیرالمومنین علیہ السلام کا کلام ہی نہیں ہے، بلکہ جسے جامع سمجھا جاتا ہے اسی کی یہ تصنیف ہے۔ واللہ اعلم۔( وفیات الاعیان، ابن خلکان، ج ۳، ص ۳۱۳، مطبوعہ دار الثقافۃ، بیروت، ۱۹۷۲ ء)
یہ امر بہت قابل لحاظ ہے کہ نہج البلاغہ کے بارے میں اختلافی آواز ڈھائی صدی کے بعد بھی نہج البلاغہ کے تالیف کے مرکز یعنی بغداد یا ملک عراق کے کسی شہر سے بلند نہیں ہوئی، بلکہ مغربی مملکت جہاں بنی امیہ کی سلطنت تھی اور قیروان و قرطبہ میں جس سلطنت کے زیر اثر علماء کی پرورش ہو رہی تھی وہاں ابن خلکان مغربی کی زبان سے یہ آواز بلند ہورہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگ جنہیں ’’اِخْتَلَفَ النَّاسُ‘‘ کہا جا رہا ہے، یہ مسلمان دار الخلافہ کے کوئی ذمہ دار افراد نہیں ہیں ورنہ ’’اِخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ‘‘ ،’’اِخْتَلَفَ الْمُحَقِّقُوْنَ‘‘ ،’’اِخْتَلَفَ الْاُدَبَاءُ‘‘ ایسے کوئی وقیع الفاظ درج کئے جاتے ،بلکہ یہ ’’النَّاس‘‘ اموی سلطنت کے پرودرہ مملکت مغربیہ کے سنی عوام ہیں جنہیں یہ خبر تک نہیں ہے کہ یہ کتاب سید رضیؒ کی جمع کردہ ہے یا سید مرتضیٰ کی اور یہ جناب ابن خلکان کا تقیہ ہے کہ وہ خود اپنی اطلاعات کو جو اس کتاب اور اس کے جامع کے بارے میں یقیناً ان کو تھے، پیش نہیں کرتے، بلکہ عوام کے جذبات کی تسلی کیلئے خود انہی عوام کے اختلافات کی ترجمانی کر دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ: ’’بعض لوگ اسے سید مرتضیٰ کا جمع کردہ کہتے ہیں اور بعض سید رضیؒ کا‘‘ اور خود ان کے ضمیر کا فیصلہ پہلے آ جاتا ہے کہ جمع کرنے والا کوئی بھی ہو، لیکن ہے وہ کلام امیر المومنینؑ ہی کا۔ اور پھر عوامی جذبات کو دھچکا پہنچنے کے اندیشے سے وہ بعض ان متعصب، مجہول الاسم و الرسم اشخاص کے اس عذر کو جو اس کے مضامین کے تسلیم کرنے سے گریز کیلئے وہ مقام مناظرہ میں پیش کرتے تھے کہ ہم اسے کلام علیؑ ہی تسلیم نہیں کرتے، وہ ’’قِيْلَ ‘‘ کہہ کے ذکر کر دیتے ہیں کہ: ’’بعض ایسا کہتے ہیں کہ یہ امیر المومنین علیہ السلام کا کلام ہے ہی نہیں، بلکہ جس نے جمع کیا ہے اسی نے اس کو تصنیف کردیا ہے‘‘۔ یہ خود ’’قِيْلَ‘‘ اس قول کے ضعف کیلئے کافی تھا لیکن خود ان کا ضمیر اس ’’قِيْلَ‘‘ سے چونکہ مطمئن نہیں ہے، لہٰذا آخر میں ’’وَ اللہُ اَعْلَمُ‘‘ کہہ کے وہ اس میں مزید شک و شبہے کا اظہار کر دینا چاہتے ہیں۔ اس سے صرف یہ پتا چلتا ہے کہ ابن خلکان اس بارے میں اپنے فیصلے کو ماحول کے دباؤ سے ظاہر کرنا نہیں چاہتے اور وہ صرف عوام کی باہمی چہ مگوئیوں کا تذکرہ کرکے اپنا دامن بچالے جانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی تشکیک کا علمی دنیا میں کوئی وزن ہی نہیں مانا جا سکتا۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بہت ہوتا ہے۔ اگرچہ علامہ ابن خلکان نے اپنے ضمیر کی تحریک سے بہت حد تک اپنے کو نہج البلاغہ کے انکار کی ذمہ داری سے بچایا تھا، مگر اُن کے اِن الفاظ نے بعد والے میدان مناظرہ کے پہلوانوں کو آسانی سے یہ داوٴ بتا دیا کہ وہ نہج البلاغہ کے کلام امیر المومنینؑ ہونے کا انکار کر دیں۔ چنانچہ اس کے ایک صدی کے بعد ذہبی نے جو اپنے دور کے انتہائی متعصب شخص تھے، یہ جراٴت کی کہ وہ اس شک کو یقین کا درجہ دے دیں اور انہوں نے سید مرتضیٰ ؒکے حالات میں لکھ دیا کہ:
مَنْ طَالَعَ كِتَابَهٗ نَهْجَ الْبَلَاغَةِ جَزَمَ بِاَنَّهٗ مَكْذُوْبٌ عَلٰى اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِیٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَفِيْهِ السّبُّ الصَّرِیْحُ وَ الْحَطُّ عَلٰى السَّیِّدَیْنِ اَبِیْ بَكْرٍ وَّ عُمَرَ.
جو شخص ان کی کتاب نہج البلاغہ کو دیکھے وہ یقین کر سکتا ہے کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت بالکل جھوٹ ہے۔ اس لئے کہ اس میں کھلا ہوا سب و شتم اور ہمارے دونوں سرداروں ابوبکر و عمر کی تنقیص ہے۔( میزان الاعتدال، ذہبی، دار المعرفۃ للطباعۃ و النشر، بیروت، الطبعۃ الاولیٰ، ۱۳۸۲ ھ، ج ۳، ص ۱۲۴)
اب آپ ذرا اس عجیب رفتار کو دیکھئے کہ تالیف نہج البلاغہ سے دو ڈھائی سو برس بعد یعنی ابن خلکان کے عہد تک تو اختلاف یا شک و شبہ کا بھی نہج البلاغہ کے بارے میں پتہ نہیں چلتا۔ اس کے بعد ابن خلکان ملک مغرب میں بیٹھ کر عوام الناس کے اختلاف کا اس بارے میں اظہار کرتے ہیں کہ: یہ سیّد مرتضیٰؒ کی جمع کردہ کتاب ہے یا سیّد رضیؒ کی اور ایک ضعیف قول اس کا بیان کرتے ہیں کہ اس کی نسبت امیر المومنین علیہ السلام کی جانب غلط ہے اور پھر ’’واللہ اعلم‘‘ کہہ کر اس تغلیط کو مشکوک کرتے ہیں۔
یہ اس وقت جبکہ قرب عہد کی وجہ سے پھر بھی ذرائع اطلاع زیادہ ہو سکتے تھے اور اس کے ایک صدی کے بعد ذہبی پہلے تو بیک گردش قلم اس اختلاف کو جو جامع کے بارے میں تھا، ختم کر کے اسے سیّد مرتضیٰ ؒکا کارنامہ قرار دے دیتے ہیں اور پھر اس شک کو یقین کا درجہ دے کر یہ کہتے ہیں کہ جو بھی نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے وہ ایسا ہی یقین کرے گا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے وقت تک تین سو برس میں گویا کسی نے اس کتاب کا مطالعہ ہی نہ کیا تھا یا انہیں کوئی ایسی عینک ملی ہے جو اس سے پہلے کسی کے پاس نہ تھی اور اب وہ اسی عینک سے اپنے دور کے بعد ہر شخص کو نہج البلاغہ کے مطالعہ کی دعوت دے رہے ہیں۔ وہ عینک کیا ہے؟ اسے خود اپنے آخر کلام میں درج کر دیتے ہیں۔
علمی حیثیت سے، اصول روایت کے لحاظ سے، تنقیدی قوانین کے پیش نظر انہیں چاہیے تھا کہ اس کی نسبت غلط ہونے کے ثبوت میں امیر المومنینؑ کا وہ مسلّم کلام پیش کرتے جو سیّد رضیؒ کے علاوہ دوسرے مستند ماخذوں سے ان کے نزدیک مسلم ہوتا اور وہ سیّد رضیؒ کے مندرجہ مضامین سے مختلف ہوتا۔ خود سیّد رضیؒ کے زمانہ والے مصنفین کے انتقادات کا حوالہ دیتے کہ انہوں نے بھی اسے غلط قرار دیا ہے۔ اس تین سوبرس کی مدت میں دوسرے علماء و ناقدین نے جو کچھ اس کی ردّ و قدح کی ہوتی اسے پیش کرتے مگر ان کے جیب و دامن تحقیق میں کوئی ایسی سند موجود نہیں ہے۔
ان کی دلیل اس نسبت کے یقینی طورپر جھوٹ ہونے کی صرف یہ ہے کہ اس میں ان کے دو سرداروں کی تنقیص ہے۔ کیا علمی دنیا میں اس دلیل کی کوئی قیمت ہو سکتی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے قرآن نازل ہونے کے چند صدی بعد کوئی طبقہ مشرکین کا، قرآن کے کلام الٰہی ہونے سے صرف اس لئے انکار کرے کہ اس میں ان کے اٰلِہَہ کے خلاف تنقیص و مذمت کی آیتیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حقیقت کو اپنے جذبات کا تابع بناکر اگر جانچا جائے، تو کوئی حقیقت باقی ہی نہیں رہ سکتی ﴿وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَـقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ﴾ (سورۂ مومنون، آیت ۷۱)
اس دروازہ کے کھل جانے کے بعد تمام اصول روایت و درایت معطل و بیکار ہوجاتے ہیں۔ اس لئے کہ ہر عقیدہ اور خیال کا انسان پھر ہر قوی سے قوی نص کو صرف اس بناپر ردّ کر دے گا کہ وہ اس کے عقیدہ اور خیال کے خلاف ہے۔ جہاں تک خلفائے ثلاثہ کے مقابل میں شیعوں کے استدلال کا تعلق ہے، وہ احادیث رسولؐ یہاں تک کہ صحاح ستہ میں درج شدہ اخبار و احادیث سے بھی اس میں تمسک کرتے ہیں اور نہج البلاغہ کے مندرجات سے کچھ کم وہ احادیث پیغمبرؐ سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ محتاط اور علمی اصول کے کسی حد تک پابند علمائے اہل سنت کا یہ طریقہ رہا کہ وہ ان احادیث کے مضامین و مطالب کے تاویلوں سے ہمیشہ کام لیتے رہے اور بالکل ان احادیث کے انکار کی جراٴت نہیں کی۔
مناظرانہ ضرورتوں سے انکارِ نصوص کا یہ رجحان جس کا مظاہرہ ذہبی نے کیا ہے، یہ بڑھتے بڑھتے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے زمانہ میں یہاں تک آیا کہ شروع شروع عیسائی مبلّغین سے مناظرہ میں انہیں وفات مسیح کے خیال کو پیش کرنے کی ضرورت ہوئی۔ صرف اس جذبہ کے ما تحت کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کی یہ ایک طرح کی فضیلت عیسائی پیش کرتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں، لہٰذا اس کو ختم کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس مناظرانہ ترکیب کو اصل قرار دیا اور پھر جو اسلامی نصوص اور متفق علیہ احادیث اس بارے میں تھیں ان سب کا انکار کردیا اور آخر میں خود ان کے دعوائے مسیحیت کیلئے ایک راستہ بن گیا۔
یہی جذبہ ترقی کرکے اب اہل قرآن کے ہاتھوں، جن کی نمائندگی ’’طلوع اسلام‘‘ وغیرہ کررہے ہیں، یہاں تک پہنچاہے کہ وہ یہ دیکھتے ہوئے کہ طبری اور دوسرے مفسرین اور مؤرخین سب کے یہاں کچھ نہ کچھ شیعوں کے موافق باتیں موجود ہیں، اس لئے کلیۃً احادیث، تفاسیر اور تواریخ کے اعتبار پر انہوں نے ضرب لگا دی ہے اور ان سب کے انکار کی یہی بنیاد ہے کہ ان لوگوں نے شیعوں کے موافق چیزیں درج کی ہیں، لہٰذا یہ سب جھوٹ ہے۔ جو عمارت ایک غلط اساس پر قائم کی جاتی ہے، اس کا آخری انجام یہی ہوتا ہے۔ کاش! یہ لوگ حقیقت کو صرف حقیقت کے اعتبار سے دیکھتے اور پھر اپنے جذبات کو اس کے ماتحت لانے کی کوشش کرتے جو ایک عام مسلمان کا فریضہ ایمانی ہے، چہ جائیکہ وہ افراد جو اپنے کو علمائے اسلام قرار دیتے ہوں یا دنیا میں اس حیثیت سے متعارف ہوں۔
اس کے بعد کی صدیوں میں یہ دروازہ پاٹوں پاٹ کھل ہی گیا تھا۔ چنانچہ اب تو مناظرہ کے میدان کا یہ بہت ہی عام ہتھیار بن گیا کہ جب نہج البلاغہ کا کوئی کلام پیش ہو تو اسے غلط کہہ دیا جائے۔ اس کے بعد پھر موجودہ دور میں تو اور بھی بہت سے جذبات کارفرما ہوگئے ہیں: مثلاً تجدد پسند طبقے کا یہ رجحان کہ ’’عورت ہر بات میں مرد کے برابر ہے‘‘، جب نہج البلاغہ کے مندرجات سے مجروح ہوتا ہے تو اس جذبہ کے تحفظ کیلئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ حضرت علی علیہ السلام کا کلام نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں عورتوں کی تنقیص ہے۔ اور موجودہ سائنس سے اس کے نظریات کو ٹکراتے ہوئے دیکھا جاتا ہے تو سائنس کو اصل قرار دے کر اس کا انکار کردیا جاتا ہے کہ یہ حضرت علی علیہ السلام کا کلام ہو۔ کبھی اس جذبہ کے ماتحت کہ اس میں ان علوم و فنون کی حقیقتوں کا اظہار ہے جسے بعد والے اپنے وقت کا کارنامہ سمجھتے ہیں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کلام بعد کی پیداوار ہے۔ اس لئے کہ اس وقت عرب میں یہ علوم و فنون تھے ہی نہیں، یہاں تک کہ کسی ایک لفظ مثلاً ’’سلطان‘‘ بمعنی بادشاہ کو حادث قرار دے کر اس لفظ کے استعمال کو نہج البلاغہ میں اس کی دلیل بنایا جاتا ہے کہ یہ جناب امیر علیہ السلام کی زبان سے نہیں نکل سکتا، حالانکہ یہ سب باتیں صرف اپنی خواہشوں کی تکمیل کا ایک بہانہ ہیں اور اپنے مزعومات کو اصل قرار دے کر حقیقتوں کو ان کا تابع بنا لینے کا کرشمہ ہے۔
قرآن مجید میں درج شدہ حقائق کب ایسے ہیں جو اس وقت کے عربوں کو معلوم ہوں اور احادیث رسولؐ کے بہت سے معارف کب اس وقت کی دنیا کو معلوم تھے جو باب مدینۃ العلم کے اقوال میں کچھ ایسے علوم و فنون کے ا نکشاف پر تعجب کیا جائے، جن کو اس وقت کی دنیا کی خبر نہ تھی۔ ہر لفظ جس کیلئے کسی قدیم عربی شعر کو سند میں پیش کیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اس شعر سے پہلے اس کے ماخذ کا ہمیں علم نہیں ہوتا، ورنہ اس شعر کو ہم سند ہی قرار دینے کی کیوں زحمت محسوس کرتے۔ تو کیا اس تصور کو حقیقت قرار دے کر کہ اس کے پہلے یہ لفظ کہیں نہیں ہے، ہم اس شعر کا انکار کر دیں گے یا صحیح طریقہ یہ ہو گا اور یہی اصول معمول بہ ہے کہ اس شعر میں اس لفظ کے وجود سے خود ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس لفظ کا زبانِ عرب میں رواج تھا۔ اسی طرح ہم آخر لفظ ’’سلطان‘‘ میں یہ اصول کیوں اختیار کرتے ہیں کہ ہم اپنے اس مزعومہ کو وحی منزل قرار دیں کہ یہ لفظ حادث ہے اور کلام عرب میں موجود نہ تھا۔ خود جناب امیر علیہ السلام کے کلام میں اس کا وارد ہونا اس کا ثبوت کیوں نہ ہو کہ یہ لفظ چاہے عام اکثریت کی زبان پر جاری نہ ہو، لیکن وہ کلیۃً مفقود نہیں تھا اور اس کا شاہد یہی کلام امیر المومنینؑ کیوں قرار نہ پائے؟۔ پھر ’’السلطان‘‘ کو لفظی طور پر بمعنی ’’مَلِک‘‘(بادشاہ) قرار دینے کی ضرورت ہی کیا ہے، جبکہ وہ بمعنی مصدری یعنی حکومت و اقتدار اور غلبہ یقینی موجود تھا اور قرآن مجید میں بھی اس کے نظائر موجود ہیں۔ ذریعۂ غلبہ ہونے ہی کی بناپر ’’دلیل‘‘ کو ’’سلطان‘‘ کہا گیا ہے جس طرح اسی اعتبار سے اس کو ’’حجت‘‘ کہا جاتا ہے اور یہی معنی مصدری بعد میں اسمی شکل اختیار کر کے بمعنی ’’مَلِک‘‘ (بادشاہ( ہو گئے ہیں تو اس میں کیا دشواری ہے کہ ’’اِذَا تَغَیَّرَ السُّلْطَانُ تَغَیَّرَ الزَّمَانُ‘‘(نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۳۱۔) میں ہم ’’السُّلْطَانُ‘‘ کو حاکم کے معنی میں نہیں، بلکہ حکومت و اقتدار کے معنی میں لیں جو ہماری زبان میں بھی بمعنی حاکم برابر رائج ہے۔ لفظی طورپر یہ معنی نہ کہیں کہ ’’جب بادشاہ بدلتا ہے تو زمانہ بدل جاتا ہے‘‘، بلکہ یہ معنی کہیں کہ ’’جب اقتدار بدلتا ہے تو زمانے میں بھی تغیر ہو جاتا ہے‘‘، نتیجہ وہی ایک ہے، مگر وہ ہمارا مزعومہ بھی اگر ہمیں بہت عزیز ہو تو اس صورت میں محفوظ رہتا ہے۔ غرض یہ سب بے بنیاد باتیں ہیں جو کسی اصول روایت و درایت پر منطبق نہیں ہوتیں۔

(نہج البلاغہ۔ اردو ترجمہ مفتی جعفر حسینؒ۔ کے مقدمہ سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button