مکتوب مجالس

مجلس عزاء ایام فاطمیہ عنوان: اخلاق حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا

وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًااِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا
اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (وہ ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکرگزاری۔
جناب حسنین علیھما السلام کے بیمار ہوئے اور گھر میں سب نے منت مانی بعدمیں جب تنددرست ہوگئے تو سب گھر والوں نے تین دن روزہ رکھتے اور جب وقت افطار ہوتا تو سائل کو کھانا کھلاتے اور خود بھوکے رہ جاتے اس کے اجر کے طور پر خدا وندعالم نے یہ آیات آپ کی شان میں نازل فرمائیں ۔اس واقعہ سے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے درج ذیل اخلاقی پہلوؤں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہ: اپنی ذاتی شدید خواہش کے باوجود یہ اطعام عمل میں آیا۔ اس قسم کا ایثارعام حالت میں وقوع پذیر نہیں ہوتا بلکہ ایک طاقتور محرک درکار ہوتا ہے۔ وہ عشق خدا اور اخلاص در عمل کی طاقت ہے جو اہل بیت اطہارہی کے وجود میں پائی جا سکتی ہے۔
2۔ یہ ایثار مسکین، یتیم اور اسیر کے لیے عمل میں آیا جن کا تعلق معاشرے کے محروم ترین طبقے سے ہے اور ایثار کا محرک عشق الٰہی کے ساتھ سائل کا مسکین، یتیم اور اسیر ہونا ہے۔ یہ ضرورت مند اور محتاج ترین ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے قابل توجہ ہیں جو الٰہی قدروں کے حامل ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
مَنْ اَطْعَمَ مؤْمِناً حَتَّی یُشْبِعَہُ لَمْ یَدْرِ اَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ مَا لَہُ مِنَ الْاَجْرِ فِی الْآخِرَۃِ لَا مَلَکٌ مَقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیُّ مُرْسَلٌ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِینَ۔ (الکافی ج۲،ص ۲۰۱)
جو کسی مومن کو سیر ہونے تک کھانا کھلائے تو جو آخرت میں اس کا ثواب ہے اسے نہ کوئی مقرب فرشتہ سمجھ سکے گا نہ نبی مرسل سوائے اللہ رب العالمین۔
حدیث نبوی ہے:
خَیْرُکُمْ مَنْ اَطْعَمَ الطَّعَامَ وَ اَفْشَی السَّلَامَ وَ صَلَّی وَ النَّاسُ نِیَامٌ
(الکافی ۴ج،ص۵۰)
تم میں بہتر وہ شخص ہے جو کھانا کھلائے، سلام کو عام کرے اور اس وقت نمازیں پڑہے جب لوگ سو رہے ہوں۔
3۔پڑوسیوں کا خیال اور دوسروں کے حقوق کا پاس:
و قال الحسن بن علی: راٴيت امی فاطمة(سلام الله علیها ) قامت فی محرابها ليلة جمعتها،فلم تزل راکعة ساجدة حتی اتضح عمود الصبح، سمعتها تدعو للموٴمنين و الموٴمنات و تسميهم و تکثر الدعاء لهم، و لاتدعو لنفسها بشيٴ، فقلت لها: يا اٴماه، لم لا تدعين لنفسک کما تدعين لغيرک؟ فقالت: يا بنی! الجار ثم الدار
امام حسن علیہ السلام نے ایک بار شب جمعہ میں آپنی مادر گرامی کو محراب عبادت میں کھڑے ھوئے دیکھا آپؑ مسلسل رکوع وسجود کرتی رہیں یہاں تک کہ سپیدیٴ سحر نمودار ہوگئی میں نے سنا کہ آپؑ مومنین و مومنات کےلئے ان کا نام لے لے کر بہت زیادہ دعائیں کر رہی تھیں لیکن آپنے لئے کوئی دعا نہیں فرمائی میں نے عرض کی مادر گرامی: جس طرح آپ دوسروں کےلئے دعا کر رہی تھیں۔ اسی طرح آپ نے آپنے لئے کیوں دعا نہیں کی؟ تو آپ نے فرمایا بیٹا: پہلے پڑوسی پھر گھر والے
4۔ خدا کی عطا پر راضی رہنا:
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم ایک روز جناب فاطمہ زہراء سلام الله علیھا کے بیت الشرف میں تشریف لائے، اپنی لخت جگر کو دیکھا کہ ایک موٹا کپڑا پہنے ہوئے ہیں، اپنے ہاتھوں سے چکی چلا رہی ہیں، اور اسی عالم میں اپنے بیٹے کو دودھ بھی پلا رہی ہیں۔
یہ دیکھ کر پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور جناب فاطمہ زہراء سلام الله علیھا سے فرمایا: اے میری بزرگوار بیٹی! دنیا کی سختیوں کو برداشت کرو تاکہ آخرت کی شیرینی تک پہنچ جاؤ، جناب فاطمہ زہراء سلام الله علیھا نے فرمایا: یا رسول الله! میں خداوندعالم کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کا شکر کرتی ہوں اور اس کی کرامتوں پر بھی، چنانچہ اس موقع پر درج ذیل آیہ شریفہ نازل ہوئی:
وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبُّکَ فَتَرْضَی
”اور عنقریب تمہارا پروردگار تمہیں اس قدر عطا کر دے گا کہ خوش ہو جاوٴ“۔
(مناقب، ج۳ص۳۴۲، بحارا لانوار، ج۴۳، ص۸۵، باب۴، حدیث۸)
5۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیھاکی خندہ روئی اور سائل کے ساتھ سلوک:
ایک عورت جناب فاطمہ زہراء سلام الله علیھا کی خدمت میں مشرف ہوئی اور اس نے کہا: میری ماں بہت زیادہ بوڑھی اور ضعیف ہے جو نماز میں بہت زیادہ غلطی کرتی ہے، مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ سے سوال کروں کہ وہ کس طرح نماز پڑہے؟ جناب فاطمہ زہراء سلام الله علیھا نے فرمایا: جو کچھ بھی سوال کرنا چاہے سوال کرلے۔
چنانچہ اس عورت نے اپنے سوالات بیان کئے یہاں تک کہ نوبت دسویں سوال تک پہنچ گئی اور بی بی ہر سوال کا جواب کُشادہ دلی سے دیتی رہیں، لیکن وہ عورت سوالات کی کثرت کی کوجہ سے شرمندہ ہوگئی اور اس نے کھا: میں آپ کو اس سے زیادہ زحمت میں نہیں ڈالوں گی! جناب فاطمہ زہرا ءسلام الله علیھا نے فرمایا: پھر بھی سوال کر، اور اس عورت کی تسکین خاطر کے لئے فرمایا: اگر کوئی شخص کسی کو کام دے مثال کے طور پر اس سے کہے کہ یہ بہاری وزن کسی اونچی جگہ پر پہنچا دے اور اس کام کے بدلے تمھیں ایک لاکھ دینار انعام ملے گا تو کیا وہ شخص اس انعام کے پیش نظر اس کام میں تھکن کا احساس کرے گا؟ اس عورت نے جواب دیا: نہیں، جناب فاطمہ زھرا ءسلام الله علیھا نے فرمایا: میں ہر سوال کے جواب میں خداوندعالم سے اس سے کہیں زیادہ جزا حاصل کرتی ہوں اور ہرگز ملول نہیں ہوتی اور تھکن کا احساس نہیں کرتی، میں نے رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم سے سنا ہے کہ قیامت کے دن اسلامی علما ء جب خداوندعالم کی بارگاہ میں حاضر ھوں گے تو اپنے علم و دانش اور کوشش جو انہوں نے لوگوں کی تعلیم اور ھدایت کے لئے کی ہے، اس کے برابر اپنے خدا سے جزا حاصل کریں گے۔
(محجة البیضاء، ج۱، ص۳۰)
6۔ انفاق فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اور بابرکت گلوبند:
جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میں عصر کی نماز پڑھائی جب تعقیبات سے فارغ ہوگئے تو محراب میں ہماری طرف رخ کرکے بیٹھ گئے لوگ آپ کو ہر طرف سے آپنے حلقہ میں لئے ہوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا شخص آیا جو بالکل پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا جس سے بڑھا پے اور کمزوری کی وجہ سے سنبھلا نہیں جارہاتھا یہ منظر دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی خیریت پوچھی!تو اس نے کہا:اے نبی اللہ میں بہت بھوکاہوں لہٰذاکچھ کھانے کو دیدیجئے میرے پاس کپڑے نہیں ہیں مجھے کپڑے دیدیجئے اور میں فقیربھی ہوں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:میرے پاس تو فی الحال کوئی چیز نہیں ہے پھر بھی چونکہ خیر کی طرف راہنمائی کرنے والا خیرات کرنے والے کی طرح ہوتا ہے لہٰذا تم اس کے گھر چلے جاوٴ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کارسول اس سے محبت رکھتے ہیں وہ آپنے اوپر اللہ کو ترجیح دیتا ہے،جاوٴ تم فاطمہ سلام اللہ علیھا کے حجرہ کی طرف چلے جاوٴ( بی بی کا گھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حجرے سے ملا ہوا تھا جو ازواج کے حجروں سے الگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مخصوص حجرہ تھا)اور فرمایا:اے بلال ذرا اٹھو اور اسے فاطمہ سلام اللہ علیھا کے گھر تک پہنچادو۔
وہ دیہاتی جناب بلال کے ساتھ چلا گیا،جب وہ جناب فاطمہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازہ پر جا کررکا تو اس نے بلند آواز سے کہا: نبوت کے گھرانے والو! فرشتوں کی رفت و آمد کے مرکزو مقام اور روح الامین جبرائیل کے نزول کی چوکھٹ والو تم پر پروردگار عالم کا سلام ہو! شہزادی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو، تم کون ہو؟ اس نے کہا میں ایک بوڑھا اعراہی ہوں آپ کے پدر بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تھا-
اے دختر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں برہنہ تن اور بھوکا ہوں لہٰذا مجھ پر کچھ کرم فرمائےخدا آپ پر اپنی رحمت نازل کرے۔ اس وقت آپ کے یہاں یہ حال تھا کہ شہزادی کونین نے اور اسی طرح، مولائے کائنات علیہ السلام حتی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دن سے کچھ نہ کھایا تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس بات کا علم تھا جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے گوسفند کی ایک کھال اٹھائی جس پر امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سوتے تھے اور فرمایا کہ اے دقّ الباب کرنے والے اس کو لیجا امید ہے کہ خدا اس کے ذریعہ تم کو بھلائی دے گا۔ اعرابی نے کہا: اے دختر پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں نے آپ سلام اللہ علیھا سے بھوک کا شکوہ کیا ہے لیکن آپ سلام اللہ علیھا مجھ کو یہ کھال دے رہی ہیں؟ میں اس بھوک میں اس کا کیا کروں؟ یہ سن کر آپ نے اپنی گردن سے وہ ہار اتارکر اس اعرابی کی طرف بڑھا دیا جو آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حمزہ کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا نے تحفہ میں دیا تھااور فرمایا: لیجا کر اس کو بیچ دینا امید ہے کہ خدا تم کو اس کے ذریعہ اس سے بہتر چیز عنایت فرمائے گا۔ اعرابی ہارلے کر مسجد میں آیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپنے اصحاب کے درمیان تشریف فرما تھے اور کہا: اےرسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! فاطمہ علیہا السلام نے یہ ہار مجھ کو دے کر کہا ہے اس کو بیچ دینا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر روپڑے اور فرمایا کہ: اس کے ذریعہ اس سے بہتر چیزکیسے عنایت نہ فرمائے گا جبکہ تم کو یہ ہار بنی آدم کی تمام عورتوں کی سردار فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا ہے؟ اس وقت جناب عمار یاسر کھڑئے ہوئے اور فرمایا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا مجھے یہ ہار خرید نے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا عمار! اس کو خرید لو کیونکہ اگر جن وانس بھی مل کر اس کو خرید لیں تو ان میں سے کسی پر بھی خدا عذاب نہ فرمائے گا۔
جناب عمارنے عرض کی اے اعرابی یہ ہار کتنے میں بیچوگے؟ اس نے کہا کہ اس کی قیمت یہ ہے کہ مجھ کو پیٹ بھر روٹی اور گوشت مل جائے، ایک بر د یمانی مل جائے جسے اوڑھ کر میں نماز پڑھ سکوں اور اتنے دینار جن کے ذریعہ میں آپنے گھر وآپس پہنچ جاؤں اسی دوران جناب عمار نے اپنا وہ تمام حصہ جو آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے مال غنیمت میں سے دیا تھا قیمت کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں اس ہار کے بدلے تم کو بیس دینار، دوسو درہم، ایک برد یمانی، اپنی سواری جو تم کو تمہارے گھر تک پہنچادے گی اور اتنی مقدار میں گیہوں کی روٹیاں اور گوشت بھی فراہم کر رہا ہوں جس سے تم بالکل سیر ہوجاؤ۔ اعرابی نے کہا اے بھائی تم کتنے سخی ہو! جناب عمار اس کو اپنے ساتھ لےگئے اور وعدے کے مطابق وہ ساری چیزیں اسے دیدیں اعرابی دوبارہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کہا: کیا تم سیر ہوگئے اور تم کو پوشاک مل گئی اس نے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! جی ہاں میں بے نیاز ہوگیا ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو اب فاطمہ علیہا السلام کو ان کے ایثار کا بدلہ دو! تو اعرابی نے کہا: پروردگارا: تو معبود ہے ہم نے تجھ کو پیدا نہیں کیا ہے اور تیرے سوا ہمارا کوئی معبود نہیں ہے تو ہر حال میں ہمارا رازق ہے خدایا! فاطمہ علیہا السلام کو ایسی نعمت عطا فرما جیسی نعمت نہ کسی نے دیکھی ہوا اور نہ سنی ہو۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آمین کہا اور اصحاب کی طرف رخ کر کے کہا: خدا نے فاطمہ علیہا السلام کو دنیا میں یہ چیزیں دی ہیں:میں اس کا باپ ہوں اور تمام عالمین میں کوئی مجھ جیسا نہیں علی علیہ السلام ان کے شوہر ہیں اگر علی علیہ السلام نہ ہوتے تو فاطمہ علیہا السلام کا کوئی ہمسر نہ ہوتا، ان کو حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام جیسے بیٹے عطا کئے جن کا مثل تمام عالمین میں نہیں یہ تمام فرزندان انبیاءعلیہم السلام اہل بہشت کے سردار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جناب مقداد و عمار یاسرو سلمان فارسی بیٹھے تھے ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مزید بتاؤں؟
انہوں نے کہا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل آئے تھے انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ جب فاطمہ علیہا السلام سے قبر میں دو فرشتے پوچھیں گے: تمہارا پروردگار کون ہے؟ تو وہ جواب دیں گی اللہ میرا پروردگار ہے وہ سوال کریں گے: تمہارا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہے؟ تو وہ یہ جواب دیں گی: میرے پدر بزرگوار وہ سوال کریں گے: تمہارا ولی کون ہے؟ تو وہ یہ جواب دیں گی: یہ شخص جو میری قبر کے کنارے کھڑا ہے کیا میں تم کو ان کی مزید فضیلت بتاؤ ں؟ یاد رکھو خدا نے ان پر فرشتوں کی ایک جماعت کو معین کیا ہے جو آگے پیچھے،دائیں بائیں ہر طرف سے ان کی حفاظت کرتی ہے یہ سب زندگی میں ان کے روبرو حاضر ہیں اور وہ ان کی وفات کے وقت بھی اور قبر میں بھی ان کے ساتھ رہیں گے اوروہ جماعت ان کے والد، شوہر اور ان کی اولاد پر مسلسل درود بھیجتی رہتی ہے چنانچہ میری وفات کے بعد جو بھی میری زیارت کرے اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی ہے اور جس نے فاطمہ علیہا السلام کی زیارت کی اس نے گویا میری زیارت کی ہے جس نے علی علیہ السلام کی زیارت کی اس نے گویا فاطمہ علیہا السلام کی زیارت کی جس نے حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی زیارت کی اس نے گویا علی علیہ السلام کی زیارت کی اور جس نے ان کی ذریت کی زیارت کی اس نے گویا ان دونوں کی زیارت کی ہے۔
اس وقت جناب عمار یاسرنے ہار کو مشک سے معطر کیا اور اسے ایک برد یمانی میں لپیٹ دیا آپ کا ایک غلام تھا جس کو آپ نے خیبر سے ملنے والے آپنے حصے سے خرید ا تھا آپ نے اس سے فرمایا اس ہار کو لو اور سول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیدو اور تم بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت ہو۔
غلام نے ہار لے کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا اور جناب عمار کی بات دہرائی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ علیہا السلام کے پاس جاؤ اور ان کو یہ ہار دیدو اور تم بھی انہیں کی ملکیت میں ہو غلام ہار لے کر جناب فاطمہ علیہاالسلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔
اور آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو سے باخبر کیا جناب فاطمہ علیہا السلام نے وہ ہار لے لیا اور اس غلام کو آزاد کردیا غلام کوہنستا دیکھ کر جناب فاطمہ علیہا السلام نے پوچھا تم کیوں ہنس رہے ہو؟ اس نے کہا مجھ کو اس ہار کی برکت عظمیٰ سے ہنسایا ہے جس کی برکت سے ایک بھوکا شکم سیر ہوا، ایک برہنہ تن نے لباس پایا، ایک نادار مالدار ہوگیا، ایک غلام آزاد ہوگیا اور پھر یہ ہار اپنے مالک کے پاس وآپس آگیا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button